وہ سب بے دلی اور خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے۔ ہر ایک کے چہرے سے بے چینی صاف ظاہر تھی۔ راجر کمرے میں داخل ہوا۔
’’مداخلت کے لیے معافی چاہتا ہوں جناب! لیکن کیا کسی کو معلوم ہے کہ جو پردہ باتھ روم میں لٹکا ہوا تھا وہ کہاں ہے؟‘‘ سب نے چونک کر اسے دیکھا ۔
’’باتھ روم کا پردہ؟ کیا مطلب راجر؟‘‘
’’سر نیچے والے باتھ روم کی کھڑکی پر لٹکا ہوا پردہ غائب ہوگیا ہے۔‘‘
’’کیا آج صبح تک موجود تھا۔‘‘ لمبورڈ نے پوچھا۔
’’جی سر!‘‘
’’کس قسم کا پردہ تھا؟‘‘
‘‘گہرے سرخ رنگ کا سلک سے بنا ہوا۔‘‘ وہ سب ایک دوسرے کو سوالیہ انداز میں دیکھنے لگے۔
’’نہیں راجر۔ ہمیں نہیں معلوم۔ لیکن تم زیادہ پریشان نہ ہو۔ سلک کے سرخ پردے سے کسی کو قتل تو نہیں کیا جاسکتا نا۔‘‘ بلور نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’جی سر۔ شکریہ!‘‘ یہ کہہ کر راجر باہر نکل گیا لیکن کمر ے میں بے اعتباری کی فضا مزید گہری ہوگئی۔
*۔۔۔*
جب راجر مطمئن ہوگیا کہ سب اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لیے جاچکے ہیں اور کوئی بھی باہر موجود نہیں ہے تو وہ اطمینان سے سر ہلاتا نیچے کھانے کے کمرے کی طرف بڑھا۔ اس نے صبح ناشتے کے لیے برتن ابھی سے میز پر لگادیے تھے۔ باقی کمرہ بھی صاف ستھرا کردیا تھا۔ اب وہ میز کی طرف بڑھا اور اس کے وسط میں رکھی گلاس ڈولز کو ایک بار پھر گنا۔ وہ پوری سات تھیں۔ اس نے کئی بار پھر گنا آخر جب یقین ہوگیا کہ وہ سات ہیں تو آگے بڑھ کر کمرے میں موجود ہر کھڑکی اور دروازے کو سختی سے کنڈی لگا کر بند کردیا۔
’’آج کی رات کوئی چالاکی نہیں دکھا سکے گا۔ میں نے اب پکا انتظام کیا ہے۔‘‘ وہ اب کھانے کے کمرے کے مرکزی دروازے سے باہر آگیا۔ چابی نکال کر اسے باہر سے اچھی طرح تالا لگایا اور کمرے کو آخری بار دیکھتا ہوا سونے کے لیے چلاگیا۔
*۔۔۔*
کیپٹن لمبورڈ صبح جلدی اٹھنے کا عادی تھا۔ آج وہ کافی دیر سے جاگا۔ اپنے بستر پر بیٹھا ناشتے کے گھنٹے کی آواز سننے کا منتظر تھا۔ رات کے طوفان کا زور ٹوٹ گیا تھا۔ بارش بند ہوچکی تھی لیکن ہوا بہت زور زور سے چل رہی تھی۔ آخر کار جب بہت دیر ہوگئی تو اس نے اپنے کمرے سے نکل کر بلور کے دروازے پر دستک دی۔ کچھ منٹ بعد بلور نے احتیاط سے دروازہ کھولا اور باہر جھانکا۔
’’تم ابھی تک سورہے ہو؟‘‘ کیپٹن نے اس کی نیند بھری آنکھوں اور بکھرے بالوں کو دیکھا۔
’’کیا ہوگیا؟‘‘ بلور نے جواباً پوچھا۔
’’وقت دیکھا ہے کیا ہورہا ہے؟‘‘
بلور نے مڑ کر بستر کے برابر میں موجود میز پر رکھی گھڑی کو دیکھا: ’’ارے !! دس بج کر پچیس منٹ۔۔۔ میں اتنی دیر تک کیسے سوگیا؟ راجر کہاں ہے؟ اس نے مجھے اٹھایا کیوں نہیں۔‘‘
’’یہی میں بھی پوچھ رہا ہوں کہ اب تک راجر کہاں ہے؟‘‘ لمبورڈ نے فکر مندی سے پوچھا۔
’’مطلب؟‘‘ بلور نے الجھ کر پوچھا۔
’’ساڑھے دس بجنے والے ہیں ناشتہ عموماً راجر آٹھ بجے لگادیتا ہے لیکن اب تک نہ ناشتہ کا گھنٹا بجا نہ وہ ہمیں اٹھانے آیا۔ آخر وہ ہے کہاں؟‘‘
’’اُف خدایا!‘‘ بلور چکرا گیا۔ ’’اچھا میں کپڑے تبدیل کر کے آتا ہوں تم باقی سب سے پوچھو۔‘‘
لمبورڈ نے سر ہلایا اور آگے بڑھ کر ڈاکٹر کا دروازہ بجایا جس پر وہ فوراً باہر نکل آیا۔ لمبورڈ کو دیکھتے ہی اس نے راجر کا دریافت کیا۔ جواباًلمبورڈ نے پوری بات دوہرا دی لیکن ڈاکٹر کو راجر کا کچھ معلوم نہ تھا۔ ویرا بھی راجر کے بارے میں کچھ بتا نہیں پائی۔ جج وار گریو کو سوتے سے اٹھا نا پڑا۔ البتہ مس برنٹ کا کمرہ خالی پڑا تھا۔ راجر کو ڈھونڈنے کے لیے وہ سب ایک ساتھ نیچے آگئے۔ راجر کے کمرے میں اس کے کپڑے پھیلے ہوئے تھے، جب کہ الماری میں وردی موجود نہیں تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ صبح سویرے جاگ گیا تھا۔
’’راجر کے ساتھ ساتھ مس برنٹ کہاں غائب ہوگئیں۔‘‘ بلور پریشانی سے بولا۔ اسی لمحے بنگلے کے مرکزی دروازے سے مس برنٹ اندر داخل ہوئیں۔
’’سمندر بہت چڑھا ہوا ہے۔ میرا نہیں خیال آج کوئی کشتی اس طرف آ پائے گی۔‘‘
’’مس برنٹ! آپ ان حالات میں جزیرے پر اکیلی گھوم رہی ہیں۔ یہ کتنا خطرناک ہوسکتا ہے آپ کو پتا ہے؟‘‘ بلور تقریباً چلا اٹھا۔
’’فکر نہ کرو بلور! میں اپنی حفاظت کرنا جانتی ہوں۔‘‘ مس برنٹ نے تیکھے لہجے میں جواب دیا۔
’’مس برنٹ۔ آپ نے کہیں راجر کو دیکھا ہے؟‘‘ لمبورڈ نے گویا بیچ بچاؤ کرایا۔
’’راجر نہیں تو۔۔۔ کیوں؟‘‘
اس دوران جج کھانے کے کمرے کی طرف بڑھا اور دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔
’’ناشتے کے برتن بھی لگے ہوئے ہیں۔‘‘
’’وہ یہ کام رات میں ہی کردیتا ہے۔‘‘ ویرا یہ بتاتے ہوئے کھانے کے کمرے میں داخل ہوئی لیکن اچانک ہی اس نے ہلکی سی چیخ ماری۔
’’وہ گڑیاں۔۔۔ وہ گڑیاں!!‘‘ اسے جملہ مکمل کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ سبھی کو نظر آرہا تھا کہ میز پر رکھی ننّی ننّی مورتیوں میں سے ایک کم ہے۔
راجر کو ڈھونڈنے کے لیے انہیں زیادہ محنت کی ضرورت نہیں پڑی۔ باہر کی طرف لکڑیاں رکھنے کے لیے ایک شیڈ بنا ہوا تھا۔ راجر وہیں لکڑیاں کاٹنے گیا تھا۔ شاید۔۔۔ چھوٹا سا کلہاڑا اب بھی اس کے ہاتھ میں تھا۔ جب کہ ایک بڑا اور بھاری کلہاڑا اس سے تھوڑی دور زمین پر پڑا تھا جس کے پھل پر ایک بڑا لال رنگ کا دھبہ پڑا تھا جو کہ شاید راجر کے سر سے نکلنے والاخون تھا تیز ہوا نے اسے خشک کردیا تھا۔ بلور، لمبورڈ، ڈاکٹر اور جج لاش اور کلہاڑے کے گرد دائرہ بنائے کھڑے تھے۔
’’معاملہ زیادہ پیچیدہ نہیں ہے۔ سیدھی سی بات ہے، راجر یہاں جھکا لکڑیا ں کاٹ رہا ہوگا۔ قاتل نے پیچھے سے آکر کلہاڑے کا ایک زور دار وار کر کے اس کی کھوپڑی دو ٹکڑے کردی۔‘‘ ڈاکٹر راجر کے سر کے پچھلے حصہ کا معائنہ کررہا تھا۔
’’کیا اس کے لیے بہت طاقت صرف کرنی پڑی ہوگی۔‘‘ ڈاکٹر نے ادھر ادھر دیکھ کر اطمینان کیا۔ ویرا اور مس برنٹ باورچی خانے میں ناشتہ بنانے جاچکی تھیں۔ ’’اگر کوئی خاتون یہ کام کرنا چاہے تو آرام سے کر سکتی ہے۔‘‘ بلور جو کلہاڑے کے دستے پر انگلیوں کے نشانات ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا، گہری سانس لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔
’’کوئی فنگر پرنٹ موجود نہیں ہے۔ دستے کو کسی کپڑے سے صاف کر دیا گیا ہے۔‘‘ اسی لمحے ان سب کو کسی کے زور زور سے قہقہے لگانے کی آواز آئی۔ وہ لوگ جھٹکے سے مڑے۔ ویرا کلیتھرون مرکزی دروازے کی سیڑھیوں پر کھڑی زور زور سے ہنس رہی تھی۔
’’کیا اس جزیرے پر شہد کی مکھیاں ہیں؟ ہم شہد کہاں سے لیں گے۔‘‘ وہ بمشکل ہنسی روک کر چلّائی۔ اس کی آنکھیں وحشت زدہ ہورہی تھیں۔ وہ چاروں حیرت کے مارے کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ کیا ویرا اس طرح کھڑے کھڑے پاگل ہوسکتی ہے۔
’’ایسے کیا گھور رہے ہو تم لوگ۔‘‘ ویرا کی آواز بالکل پھٹ گئی تھی۔ ’’تمہیں لگ رہا ہے میں پاگل ہوگئیں ہوں! ہیں؟ مجھے شہدکے چھتے کا پتا بتاؤ۔۔۔ شہد کی مکھیاں! افوہ، کیا ہوگیا ہے۔۔۔ ایسے کیوں کھڑے ہو؟ میری بات کیوں نہیں سمجھ رہے۔‘‘ وہ پوری طاقت سے چلارہی تھی۔’’ وہ بچوں کی نظم۔۔۔ جو سب کمروں میں لگی ہوئی ہے۔ کیا تم لوگوں نے وہ احمقانہ نظم نہیں پڑھی؟ نہیں پڑھی۔۔۔میں سنا دیتی ہوں۔
چھوٹے نیگرو بچے کھیل رہے تھے ساتھ
ایک کو شہد کی مکھی نے کاٹا باقی رہ گئے پانچ
تو اب جو بھی مرے گا اسے شہد کی مکھی کاٹے گی۔۔۔ بتاؤ بتاؤ شہد کا چھتا کہاں ہے۔ بتاؤ مجھے۔‘‘ وہ جار حانہ انداز میں ان کی طرف بڑھی۔ اس کی آنکھوں سے تیزی سے آنسو بہہ رہے تھے۔ ڈاکٹر بغیر وقت ضائع کیے حرکت میں آیا اور ایک زور دار تھپڑ ویرا کے منہ پر دے مارا۔ ویرا بالکل ساکت ہوگئی۔ پھر زور زور سے ہچکیاں لے کر رونے لگی۔ ’’شکریہ ڈاکٹر ۔۔۔ ٹینشن۔۔۔ پریشانی۔۔۔ خیر جو بھی ہے اب میں بہتر محسوس کر رہی ہوں۔‘‘ وہ اندر جانے کے لیے مڑگئی۔
’’شکر! یہاں ایک ڈاکٹر موجود ہے۔‘‘ بلور ابھی بھی بے یقینی سے اس جگہ کو گھور رہا تھا جہاں ویرا کھڑی تھی۔
’’فکر مت کرو! مس ویرا کا ذہن ان ایک کے بعد ایک قتل کو دیکھ کر متاثر ہوگیا تھا اور راجر کی اچانک مو ت سے اس کا اعصابی نظام مزید کمزور ہوگیا۔ تھپڑمارنا ضروری تھا تاکہ اسے واپس مضبوط کیا جائے۔‘‘ ڈاکٹر نے اطمینا ن سے جواب دیا۔
*۔۔۔*
’’تمہیں پتا ہے میں کیا سوچ رہا ہوں؟‘‘ بلور نے سر گوشی میں لمبورڈ کو مخاطب کیا۔
’’خود ہی بتادو۔‘‘
’’یہاں دو خواتین موجود ہیں۔ مس ویرا اور مس برنٹ جن حالات کا ہم سامنا کر رہے ہیں، وہ صنف نازک کے لیے کافی مشکل ہیں۔ ہے نا۔۔۔ جیسے مس ویرا، ان کی حالت دیکھی تھی ابھی۔۔۔ کس بری طرح اسے شاک لگا تھا۔۔۔ ظاہر ہے کوئی بھی لڑکی اتنے قتل دیکھنے کے بعد صحیح الد ماغ نہیں رہ سکتی۔۔۔ لیکن دوسری طرف مس برنٹ ہیں۔ چار لوگوں کے مرنے کے بعد بھی ان کے اطمینان وسکو ن میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ تمہیں یاد ہے کہ آج صبح وہ جزیرے پر اکیلی گھوم رہیں تھیں۔ کیا وہ راجر کو۔۔۔؟‘‘
لمبورڈ نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’لمبورڈ کو لکڑیا ں کاٹتے ہوئے مارا گیا ہے۔ لکڑیاں کاٹنے کا کام راجر صبح صبح ۶، ۷ بجے کرتا ہے۔ مس برنٹ ساڑھے دس بجے گھر میں داخل ہوئیں۔ اگر انہوں نے راجر کا قتل کیا بھی ہے تو چار گھنٹے جزیرے پر گھومنے کی کیا تک تھی؟ میرے خیال میں راجر کے قاتل نے اس بات کاخاص خیال رکھا ہوگا کہ وہ مارنے کے بعد آرام سے جا کر اپنے کمرے میں سوتا بن جائے۔‘‘
’’دیکھو تم اصل نکتہ مس کر رہے ہو۔ اگر وہ معصوم ہوتیں تو وہ اکیلے گھر سے باہر نکلنے کے خیال سے ہی ڈرتی کہ کہیں قاتل سے آمنا سامنا نہ ہوجائے لیکن فرض کرو کہ اسے معلوم ہوکہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ تب وہ بے خوف وخطر جزیرے پر مٹر گشت کر سکتی ہے کیونکہ قاتل تو وہ خود ہے۔‘‘
’’ہوں ں ں۔۔۔‘‘ لمبورڈ سوچ میں پڑ گیا: ’’ایک طرح سے تمہاری بات صحیح بھی ہوسکتی ہے۔‘‘ پھر وہ ہلکا سا مسکرایا۔ ’’مجھے خوشی ہے کہ تم اب تک مجھ پر شک نہیں کررہے۔‘‘
’’خیر!‘‘ بلور کے لہجے میں ہلکی سی شرمندگی تھی۔
پہلے میرا شبہ تم ہی پر تھا کیوں کہ تم نے فرضی کہانی سنائی تھی تمہارے پاس پسٹل بھی تھی لیکن یہ سب ایسی باتیں ہیں جو قاتل ہر صورت میں چھپانے کی کوشش کرے گا۔ جب کہ تم نے اپنے اوپر لگا الزام بھی تسلیم کرلیا۔ پسٹل بھی دکھا دی اپنے جھوٹ کا بھی اعتراف کرلیا۔۔۔ اور مسٹر اوین جو کہ ہمارا مطلوبہ قاتل ہے کبھی اپنے آپ کو اتنا واضح نہیں کرے گا۔‘‘
لمبورڈ ہنس پڑا۔ ’’میرا بھی یہی خیال ہے بلور کہ تم مسٹر اوین نہیں ہوسکتے۔۔۔ ہوسکتا ہے میں غلط ہوں پر مجھے نہیں لگتا کہ تمہاری تصور اتی قوت اتنی مضبوط ہوگی کہ تم یہ سارا ڈرامہ تخلیق کرو لیکن اگر تم مسٹر اوین ہو تو تم شان دارادا کار بھی ہو۔‘‘ بلور مسکرایا۔
’’ویسے ایک بات پوچھوں؟‘‘ لمبورڈ سنجیدہ ہوگیا۔
’’جون لنڈر والے کیس میں کیا تم نے پوری ایمانداری سے کام لیا۔‘‘ بلور کی مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ اس نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ آخر کار بولا: ’’مجھے اب تک حیرت ہے کہ اس مسٹر اوین نے یہ واقعہ کیسے ڈھونڈ نکالا اور اس کو اصل بات کیسے پتہ چلی۔ نہیں! میں نے واقعی ہیرا پھیری کی تھی۔ جون لنڈر ایک بد قسمت انسان تھا۔ وہ پتہ نہیں کس طرح ڈاکو کے اس گروہ میں شامل ہوگیا تھا۔ اس گروہ نے بینک میں ڈاکہ ڈالا اور چوکیدار کو بری طرح زخمی کردیا لیکن اس میں جون لنڈ ر کا کوئی ہاتھ نہ تھا۔ وہ بس اپنے گروہ کے ساتھ جائے وقوع پر موجود تھا۔ پولیس نے حملہ کیا تو باقی سارے بھاگ گئے اور وہ پکڑا گیا۔‘‘ بلور تھوڑی دیر رکا پھر بولا:’ ’پھر اس گروہ نے مجھ سے ڈیل کی کہ میں سارا الزام جون لنڈر پر ڈال دوں اس کے بعد وہ اپنے اختیارات استعمال کر کے مجھے ترقی دلوادیں گے تو میں نے جون لنڈر کے خلاف مقدمہ کرایا اور اسے جیل میں ڈلوادیا۔ وہاں جانے کے تھوڑے عرصے بعد وہ طبعی موت مر گیا یعنی بد قسمتی نے اس کا ساتھ وہاں بھی نہ چھوڑا۔‘‘
’’اس کے بعد بدقسمتی نے تمہارا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔‘‘ لمبورڈ نے ایک دم بڑ بڑا کر کہا۔
’’میرا؟‘‘ بلور نے حیرانی سے پوچھا۔
’’ہاں کیونکہ اب موت کے شکنجے میں تم پھنسے ہو۔‘‘
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...