“ایک بات بتایئے…”
“جی….” وہ ذرا پریشان سی ہو گئی…
“ماما کو آپ کے کام میں ڈھونڈنے سے بھی خامی نظر نہیں آتی… کہتی ہیں بہت خبطی ہے پرفیکشن کے لیے افق…”
“جی…..” اس جی سے اس کا مطلب تھا… “تو اب کیا ہو گا؟”
“لیکن یہاں کیا ہوا؟” اس نے رجسٹر اس کے سامنے رکھا…
رجسٹر سرخ گول گول دائروں سے بھرا ہوا تھا… اس نے “لیٹر ٹو ایڈیٹر” لکھ کر دکھایا تھا… مسلسل تین دن سے یہ لیٹر گول گول دائرے لے رہا تھا…
“میں نے اتنی اچھی طرح سے یاد کیا تھا…” سر جھکا ہوا تھا… نظریں رجسٹر پر تھیں…
“بی اے میں آپ انگلش کو یاد کریں گی؟”
“یہ مجھے نہیں آتی……. تو پھر یاد ہی کر لیتی ہوں…”
اس کے انداز پر ایک جانندار قہقہہ اس کے اندر ہی دم توڑ گیا…
“یہ آپ کو کب آئے گی؟”
“بھابھی کہتی ہیں سب کچھ یاد کر لو… بس انگلش میں پاس ہونے تک نمبر لے لو….. پھر ان لیٹرز اور مضمونوں کو کون پوچھے گا…”
“بھابھی نے تو کمال کا مشورہ دیا ہے… لیکن آپ کیا صرف پاس ہونا چاہتی ہیں؟” افق کے نادر خیالات اسے اب معلوم ہو رہے تھے…
“جی….” سر بھی ہلا دیا…
“صرف پاس…..؟”
“جی صرف پاس…” کہتے وہ تھوڑا الجھ بھی گئی…
“تو آپ بی اے میں کامیاب ہونا نہیں چاہتیں؟”
“پاس ہونا تو چاہتی ہوں… اور کامیابی کسی کہتے ہیں…” صرف سوچا’ پوچھا نہیں…
“پاس ہونے میں اور کامیاب ہونے میں بہت فرق ہے… پاس ہونا کسی بھی طرح چند نمبرز لینا اور بس نکل جانا ہے….. کامیاب ہونا اس پر مکمل گرفت رکھنا ہے… یہ گرفت کبھی دوبارہ فیل ہونے نہیں دیتی… چند نمبرز لے کر پاس ہونا تو بہت شرمندگی والی بات ہے… اگر مجھے میری کتاب ٹھیک طرح سے نہ آتی ہو اقر میں فرسٹ آ جاؤں تو میں اپنی ڈگری کو پھاڑ کر پھینک دوں… خود کو پاس کروانا اہم نہیں… خود کو سب کچھ سکھانا اہم ہے… ماسٹر جی کوئی کپڑا غلط سی دیتے ہیں تو آپ اور ماما اسے بار بار ان سے سلائی کرواتی ہیں… جب تک آپ کو اس میں مطلوبہ پرفیکشن نظر نہیں آ جاتی…مطلوبہ پرفیکشن ہر انسان کو اپنے اندر رکھنی چاہیے… ہر کام میں آپ کی اتنی پرفیکشن اور علم میں اتنی لاپروائی….”
“جی….” وہ بات کو سمجھ گئی اور اب شرمندہ ہو رہی تھی…
دراصل اب وہ صرف بی اے پاس کرنا چاہتی تھی… اسے ایک ڈگری چاہیے تھی… پہلے کبھی وہ کتابوں کو چاٹ لیا کرتی تھی… اب اس کی ساری دلچسپی صرف اور صرف اپنے کام کے ساتھ تھی… وہ کام سے نہیں تھکتی تھی… پندرہ منٹ بیٹھ کر پڑھنے سے تھک جاتی تھی… اس کے ہاتھوں پیروں کو’ دل و دماغ کو کام سے عشق ہو گیا تھا… کیونکہ یہ ہی وہ واحد کام تھا’ جس میں وہ کامیاب ہو رہی تھی… وہ ایک انچ کی غلطی بھی نہیں کرتی تھی… کر لیتی تو اسے ٹھیک کرنے میں جُت جاتی تھی اقر یہ قدرتی بات ہے کہ جو کام پھل دے’ تعریف دے’ اطمینان دے’ اسے ہی کرتے رہنے کو جی چاہتا ہے… اب اس کا کام صرف کام نہیں رہا تھا… لیکن پڑھنا اس کے لیے کام جیسا بن گیا تھا… ایک بوجھ’ وہ ڈگری لینا چاہتی تھی… تاکہ برے وقت میں کام آ سکے… اس نے اتنے برے وقت دیکھے تھے کہ وہ اب بہت سے کام اکٹھے کر لینا چاہتی تھی… جو اس کے برے وقت میں کام آ جائیں… رات کو وہ تین گھنٹے آرام سے پڑھ سکتی تھی… لیکن وہ کپڑوں اور مٹیریل کے بارے میں سوچتی رہتی… ذہن میں نت نئے خاکے بناتی رہتی… اماں کی طبیعت اور صحت کافی بہتر رہتی تھی… وہ گھر کو دیکھ لیتی تھیں… جو قرضہ تھا’ وہ بھی انہوں نے ادا کر دیا تھا… گھر کے حالات کچھ بہتر ہو گئے تھے… وہ شام کو گھر آ کر کتابیں لے کر ضرور بیٹھ جاتی تھی… لیکن پڑھ نہیں پاتی تھی…
مسز گوہر نے فرزام سے کہا کہ وہ افق کی مدد کر دیا کرے… اس نے اسے کچھ اچھی گرامر کی کتابیں لا دیں… وہ ایک باب اسے پڑھا دیتا… بتا دیتا کہ اس میں اسے کیا’ کیا’ کیسے’ کیسے کرنا ہے… ٹاپک دے دیتا جس پر اسے مضمون لکھنا ہوتا اور وہ یاد کر کے مضمون اسے لکھ کر دکھا دیتی… وہ ریفرنس تک یاد کرتی تھی…
“ہم کورس کی کتابوں کو چھوڑ کر صرف گرامر کر لیں ابھی…..؟ پاس ہونے کے لیے نہیں…… انگلش پر گرفت کے لیے؟”
اس نے اثبات میں سر ہلا دیا اور وہ کیا کرتی… نہیں کرنا بھی چاہتی تھی تو بھی ہاں کہنا پڑا… اس کی گرامر شروع ہو گئی… ہر لائن پر کراس لگنے لگے…
“آپ نے پریکٹس نہیں کی نا؟”
“کی تھی…… دو گھنٹے کی تھی…”
اس نے پریکٹس ضرور کی تھی… لیکن دو گھنٹے نہیں… اس کے پوچھنے پر وہ ڈر گئی تھی… اس کے سامنے شرمندہ ہونا نہیں چاہتی تھی…
“مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے… آپ “یو” کے ساتھ “از” کا استعمال کر لیں… “آئی” کے ساتھ “آر” کا… “وائی” کے ساتھ “ایم” کا… لیکن پیپر چیک کرنے والے پر بہت برا اثر پڑے گا اور اگر یہ استعمال آپ نے پبلک میں کیے تو سب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جائیں گے…”
شرمندگی سے وہ اس کی طرف دیکھ بھی نہیں سکی… ایف اے میں بھی اس نے انگلش کے ساتھ یہی کیا تھا… یاد کر’ کر کے لکھتی رہی تھی… تھوڑی بہت گرامر کرنے کی کوشش کی تھی…. پھر بھابھی نے کہا… “کیوں اتنا ہلکان ہوتی ہو’ یاد کرتی جاؤ سب…” جو یاد کیا تھا… اس میں یہ نہیں معلوم تھا کہ “آئی” کے ساتھ کس کا استعمال کرتے ہیں… ماضی کیا ہے’ ماضی بعید کسے کہتے ہیں… فعل حال اک استعمال کہاں کرنا ہے…
فرزام نے اسے “یو” اور “آئی” کا سمجھا کر دو سو فقرے لکھنے کے لیے دے دیے… گرامر کی کتاب اس کے ہاتھ میں دی اور اگلے دن کام کر کے لانے کے لیے کہا… افق چھٹی کے وقت سے پندرہ منٹ پہلے آفس میں ہی اس سے پڑھ لیا کرتی تھی… باقاعدگی سے نہیں’ کبھی کبھار… رات گئے تک وہ دو سو فقرے لکھتی رہی… اگلے دن ان میں سے صرف چالیس ہی ٹھیک نکلے… لیکن اس سے یہ ہوا کہ وہ “آئی’ ایم اور یو آر” کے استعمال کو اچھی طرح سے سیکھ گئی…
سیکھنے اور محنت کرنے سے سب کچھ آ جاتا ہے… اسے گرامر کرنے میں مزہ آنے لگا… روز رات کو وہ دو ڈھائی سو فقرات لکھ کر ہی سوتی… غلطیاں ہوتی رہیں… ان کی درستی بھی ہوتی رہی… وہ ایک آدھ لائن اپنے الفاظ میں لکھنے لگی…نیند اسے ویسے ہی نہیں آتی تھی… دن بھر کے کام سے تھک جاتی تھی… لیکن آرام نہیں کرنا چاہتی تھی… وہ اپنی تعمیر کو مکمل اور مضبوط کرنا چاہتی تھی… تا کہ دوبارہ اسے سڑکوں پر بھاگنا اور کسی کونے میں بیٹھ کر رونا نہ پڑے…
……… ……………… ………
“ماما! سچ بولیں گی؟”
مسز گوہر نے فریش جوس کا گھونٹ لے کر اسے دیکھا… “چاہو تو جھوٹ بھی بول سکتی ہوں…”
دونوں آمنے سامنے ڈنر ٹیبل پر ایک اچھے ہوٹل میں بیٹھے تھے… فرزام انہیں اپنی بائیک پر بٹھا کر لایا تھا… وہ کبھی بائیک نام کی چیز پر نہیں بیٹھی تھیں… آگے پیچھے سے دو لوگ بھی انہیں پکڑ کر بیٹھے رہتے تو بھی انہیں یہی خوف رہتا کہ وہ گر جائیں گی… فزام انہیں زبردستی بٹھ لایا… سائیکل چلانے والے بھی ان سے آگے نکل گئے اور مسز گوہر کا خیال تھا کہ وہ بہت تیز چلا رہا ہے… صرف فرزام کی خوشی کے لیے وہ بیٹھ گئی تھیں…
“اگر میں کہیں جانا چاہوں تو آپ کیا کہیں گی؟”
مسز گوہر ذرا سی دیر کے لیے خاموش ہو گئیں…
“تمہیں آزادی ہے جانے کی… جہاں چاہے جاؤ اور اپنا کیریر بناؤ…”
“میں نے آپ سے پہلے ہی سچ کا پوچھا تھا… آپ کو اس سوال کا جواب ہر حال میں سچ ہی دینا ہو گا… آپ میرے جذبات کو ایک طرف رکھ دیں… میں اور آپ دو لوگ بن جاتے ہیں… ماں’ بیٹا نہیں’ اب یہ دو لوگ صرف سچ بولیں گے….. صرف سچ…”
انہوں نے ایک لمبی سانس لی… “میں اکیلے نہیں رہنا چاہتی فرزام! پہلے تمہارے بابا گئے… پھر احمر چلا گیا… پھر احمر کو ہمیں چھوڑنا پڑا… میں اپنی زندگی کو کتنا بھی فعال کر لوں… لیکن ان دو لوگوں کے نہ ہونے سے اندر بہت سے حصے جامد ہیں… اگر تم اسٹڈی کے لیے کہیں جانا چاہتے ہو تو ہم پلاننگ کر سکتے ہیں…”
“کیسی پلاننگ؟”
“کوئی بھی…” یہ کہتے ان کی آواز دھیمی پڑ گئی…
“میرے ساتھ چلی جائیں گی’ پھر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر؟”
“تم سے زیادہ کچھ بھی قیمتی نہیں… میں اکیلے نہیں رہنا چاہتی…”
“میں آپ کو اکیلا چھوڑنا نہیں چاہتا…”
“تم کہاں جانا چاہ رہے تھے؟”
“امریکا اپلائی کر دیا ہے… آن لائن کچھ ٹیسٹ بھی دیے ہیں… امید ہے ہاف اسکالر شپ مل جائے گا…”
“بہت برائٹ چانس ہے… تمہیں مس نہیں کرنا چاہیے…”
“آپ ایستھما کی مریض ہیں…”
“میں خود کو سنبھال سکتی ہوں…”
“ہر بار میں آپ کو ان ہیلر ڈھونڈ کر دیتا ہوں…”
“اب میں یاد رکھنا شروع کر دوں گی…”
اس بات کے بعد دونوں کافی دیر تک خاموشی سے کھانا کھاتے رہے…
“میں افق سے شادی کر لوں؟”
مسز گوہر نے اچنبھے سے اس کی طرف دیکھا…
“آپ کو ٹھیک نہیں لگی میری بات؟” ان کے ایسے دیکھنے پر وہ گھبرا گیا… “ارے نہیں ماما! میرا کوئی چکر وکر نہیں ہے اس کے ساتھ…”
“محبت کرتے ہو اس سے یا تمہیں بھی بہت خوب صورت لگتی ہے؟”
“محبت کیسے کروں؟ محبت سے تو بہت نفرت ہے مجھے… وہ آپ کے ساتھ رہے گی… آپ کا خیال رکھے گی… آپ کا بہت احترام کرتی ہے وہ… اچھی لڑکی ہے… کم از کم بھابھی کی طرح کسی تکلیف کا باعث نہیں بنے گی…”
“استعمال کر رہے ہو اسے؟” مسز گوہر کو بیٹے کی یہ بات بری لگی…
“آپ تو مجھے غلط ہی سمجھے جا رہی ہیں… آپ ہی نے تو کہا تھا کہ چیزوں کے ساتھ ساتھ انسانوں میں بھی خوبیاں دیکھو… پھر انہیں اپنے قریب آنے دو اور یہ کہ خود کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ جڑے لوگوں کا ٹھیک ہونا بھی ضروری ہے… ماما! میں ایک ہی لڑکی کو جانتا ہوں…. افق کو… وہ ڈھائی سال سے ہمارے پاس کام کر رہی ہے… سارا دن یہیں رہتی ہے… جن لڑکیوں کا میں اکیڈمی میں استاد ہوں… وہ تک مجھے چٹکی بھرنے سے باز نہیں آتیں… آتے جاتے کہنی مار دیتی ہیں… کالج کی جو لڑکیاں میری دوست ہیں… وہ صرف دوست رہنا نہیں چاہتیں… رات رات بھر مجھ سے بات کرنا چاہتی ہیں… ان سب حالات کو دیکھ کر مجھے تو لگتا تھا کہ میں تو آل ٹائم ہٹ بوائے ہوں…بہت خاص’ بہت اہم ہوں… لیکن افق کے لیے میں میڈم کا بیٹا ہوں اور جب اسے پڑھاتا ہوں تو صرف استاد ہوں…… تو یہ خوبی’ شرافت بہت بڑی چیز ہے… کیا خیال ہے آپ کا؟”
سر ہلا کر صرف اسے دیکھا… یعنی اس کی بات سے اتفاق ہے…
“میرا خیال ہے زیادہ خوبیوں اور کم نقائص والے لوگ اچھے سے دوست بن کر اچھی زندگی گزار سکتے ہیں… میرے کمرے کے ایک کونے میں رومی کی دی چیزیں ترتیب سے رکھی تو آپ نے دیکھی ہی ہوں گی… یہ چیزیں مجھے ہر روز بتاتی ہیں کہ کوئی محبت کرنے والا نہ ملے… لیکن قدر کرنے والا ضرور ڈھونڈ لینا چاہیے… محبت کرے’ نہ کرے ساتھ ضرور دے… ماما! میں زندگی میں بڑی تباہی سے بہت ڈرتا ہوں… اب میں فٹ پاتھ پر آ جانے سے نہیں ڈرتا… اپنی زندگی میں موجود کسی شخص کے غلط نکل آنے سے ڈرتا ہوں… اگر ایسا ہوا تو یہی میرے لیے بڑی تباہی ہو گی… رومی کو میں چار باتیں ضرور سنا آیا تھا… لیکن بہت عرصے تک اسی کے لیے چھپ چھپ کر روتا رہا ہوں… اس نے محبت نہیں کی… لیکن میں نے کی تھی… اگر وہ ایک بار مجھے فون کر لے تو میں بھاگا جاؤں اس کے پاس… میں اسے معاف کر دوں گا… اگر محبت میں بھی معاف نہ کیا جائے تو کس جذبے میں کیا جائے؟ لیکن میں جانتا ہوں… اگر میں نے ہاتھ جوڑ کر اس کی منت بھی کی تو بھی وہ نہیں مانے گی… اسے اس نقشے سے بہت مجبت ہے’ جو اس نے خود اپنی زندگی کے لیے بنایا ہے… وہ اس نقشے میں تبدیلی نہیں کرے گی… ایک بار میں اس تباہی کا شکار ہو گیا… دوبارہ نہیں ہونا چاہتا… مجھے اپنی زندگی میں غلط لوگ نہیں چاہئیں… اگر یہ لالچ ہے تو ہاں! مجھے اچھے لوگ چاہیے ہیں’ صرف اچھے…”
مسز گوہر اپنے بیٹے کی باتیں بہت غور سے سن رہی تھیں اور یہ جان کر انہیں بہت دکھ ہوا کہ ان کے بیٹے کے اندر ایک اور ہی سفر جاری ہے… وہ بہت گہرا ہو گیا ہے…
“افق…” وہ اتنا کہہ کر چپ ہو گئیں کہ بات کہاں سے شروع کریں… پھر توقف سے بولیں… “بہت مختلف لڑکی ہے فرزام! میں اس میں نقص نہیں نکال رہی… لیکن وہ مجھے بہت زیادہ مشین اور تھوڑی سی انسان لگتی ہے… کبھی تم نے اسے ہنستے دیکھا؟ میں نے بھی کبھی نہیں دیکھا… اس میں لڑکیوں والی کوئی بات ہی نہیں ہے… اس کی مدر جو اس کے کپڑے لاتی ہیں’ وہ انہیں استعمال ہی نہیں کرتی… میں نے پوچھا تو اس نے کہا… اسے نئی چیزیں اچھی ہی نہیں لگتیں… اس کی مدر نے مجھ سے شکایت کی کہ وہ صرف ایک وقت کا کھانا کھاتی ہے… رات میں بمشکل دو گھنٹے سوتی ہے… میرے پوچھنے پر اس نے بتا دیا کہ نہ اسے بھوک لگتی ہے’ نہ ہی نیند آتی ہے… میں نے وجہ پوچھی’ لیکن وہ خاموش رہی… کبھی کبھی منہ چھپا کر اپنی آنکھیں صاف کرتی ہے… اس کی آنکھوں کی اداسی تو اسے پہلی بار ملنے والا ہی جانچ لیتا ہے… وہ ہنستی نہیں’ بولتی نہیں… کسی خواہش’ کسی خواب کا ذکر نہیں کرتی… بس تم اس کے آگے کام کا ڈھیر لگا دو… وہ سر جھکائے کرتی رہے گی… جیسے کاموں میں خود کو چھپا رہی ہو’ دفنا رہی ہو… مجھے وہ بہت پیاری ہے… لیکن فرزام! تم ایسی روبوٹ سی لڑکی سے شادی کر لو گے؟ ٹھیک ہے… تم محبت کا ذکر نہیں کر رہے… تباہی کا کر رہے ہو… ایسی خاموشیاں بھی تباہی بن جایا کرتی ہیں… جب میں اس کی عمر میں تھی تو میرے اس سے زیادہ مسائل تھے… میرا گھر اس کے گھر سے زیادہ چھوٹا تھا… میں اس سے زیادہ غریب تھی… لیکن زندگی سے میرا ناتا ٹوٹا نہیں تھا… زندگی سے ناتے اسی وقت ٹوٹتے ہیں’ جب اندر کوئی تباہی برپا ہو… کوئی بھرم’ کوئی خواب ٹوٹ چکا ہو… یہ سب اس کی مدر کی بیماری کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے… حالات کے بدترین ہو جانے کی وجہ سے بھی… شاید ہی وہ اپنے آپ سے باہر نکل سکے… اگر وہ تمہاری اچھی دوست بن کر زندگی گزار سکتی ہے تو مجھے اس کی ساس بننے پر کوئی اعتراض نہیں ہے…”
یہ سب باتیں جو فرزام کی ماں اسے کہہ رہی تھیں… ان باتوں پر اس نے غور نہیں کیا تھا اور یہ کوئی ایسی بری باتیں بھی نہیں تھیں… حساسیت تھی ان میں اور یہ حساسیت افق میں پائی جاتی تھی… انن سب پر سوچا جا سکتا تھا… بات کی جا سکتی تھی… لیکن اس بنا پر اسے مسترد نہیں کیا جا سکتا تھا…
وہ ایک بار تو افق سے بات کرنا چاہتا تھا… لیکن بات کیسے کرتا’ جہاں وہ کام کرتی تھی’ وہاں اتنے لوگ تھے… باہر اس کے ساتھ وہ جائے گی نہیں… بلکہ اس میں اتنی ہمت ہی نہیں ہو گی کہ اس سے باہر جانے کا کہہ سکے… بہانے سے وہ اسے لے کر جانا نہیں چاہتا تھا… ماں اسے یہ کہتی اچھی نہیں لگتی تھیں کہ “افق! جاؤ’ ذرا فرزام کے ساتھ چائے پی آؤ” یا “وہ تم سے کچھ کہنا چاہتا ہے…”
اسی عالم میں چند دن گزر گئے… اتفاق سے اتوار کو شام کے وقت ایک فٹ پاتھ پر اسے وہ کھڑی نظر آ گئی… وہ جھک کر کچھ میگزینز دیکھ رہی تھی… اتوار کو اکثر فرزام پرانی انارکلی جا کر پرانی کتابوں کی چھانٹی بہت دل لگا کر کرتا تھا اور بہت اعلا درجے کی کتابیں چھانٹ کر لے آتا تھا… وہ کافی دیر سے ایک ایک اسٹال پر کتابوں کی ورق گردانی کر رہا تھا… ذرا دور اسے وہ بھی نظر آ گئی… وہ جلدی جلدی سب ہی میگزینز دیکھ رہی تھی… جیسے اسے خاص چیز کی تلاش ہو… وہ اس کے قریب گیا اور سلام کیا…
“کچھ خاص ڈھونڈ رہی ہیں؟” اس کے ہاتھ میں فیشن میگزینز تھے… افق نے اثبات میں سر ہلا دیا…
“میں مدد کروں؟”
“مجھے مل گیا ہے میگزین…” وہ جو میگزین دیکھ رہی تھی… اسی کی طرف اشارہ کیا اور کتب فروش کی طرف بڑھا دیا… اس نے شاپر میں ڈال دیا…
فرزام نے پیسے دے دیے…
“آپ نے کیوں دیے؟” وہ اس سے زیادہ الفاظ میں احتجاج کرنا چاہتی تھی… اس کی شکل بتا رہی تھی’ لیکن اتنا ہی کہا…
“آپ ماما کے ہی کام کے لیے لے رہی ہیں نا….. تو ماما کے بیٹے نے ادائی کر دی…”
وہ خاموش رہی… احتجاج ابھی تک آنکھوں میں رقم تھا… خدا حافظ کہہ کر وہ آگے بڑھنے لگی…
“ذرا میری بات سنیے پلیز…” جتنی تیزی سے وہ آگے نکلی… اتنی ہی تیزی سے وہ پیچھے آیا… وہ رک کر دیکھنے لگی’ پوچھا نہیں کہ کیا بات ہے…
“یہ اس طرف……” اس نے ہاتھ سے اس طرف اشارہ کیا… “ریگل کے پاس ایک بہت اچھا ٹی کارنر ہے… آپ چلیں گی میرے ساتھ وہاں؟” اتنا کہہ کر وہ ڈر بھی رہا تھا کہ وہ میڈم کے بیٹے کے یہ پوچھنے پر اسے لفنگا سمجھ کر تھپڑ ہی نہ مارے دے…
وہ ہکا بکا اسے دیکھ کر رہ گئی… غصہ بھی جھلکنے لگا آنکھوں سے…
“نہیں؟” خود ہی کہہ دیا… “چلیے! وہاں نہیں تو یہ چند قدم پر پر سڑک پار کر کے بہت سے لوگوں کی پسندیدہ جگہ عجائب گھر ہے… میں ابھی آتے آتے دیکھ رہا تھا کہ اس کا باغ بہت اچھا ہے… صاف ستھرا’ ہرا بھرا…”
اس کے ردعمل کا سوچ کر وہ گھبرا رہا تھا… چادر کا کونہ دائیں کان سے دانتوں میں لیے’ میگزین کا اسٹڈی فائل کی طرح ہاتھ میں پکڑے وہ اس کی طرف دیکھ رہی تھی… اس کی آنکھوں سے جیسے شرارے نکل رہے تھے… ان شراروں میں اسے دکھ بھی نظر آیا… جیسے اسے اس سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ بھی دوسروں کی طرح اس کے ساتھ یہی کرے گا… لمحوں میں ہی ماحول بدل گیا تھا… وہ اسے بہت نفرت سے گھور رہی تھی اور ایسے کھڑی تھی… جیسے اور انتظار میں ہو کہ دکھاؤ اپنی اوقات… کہاں تک جاتے ہو تم؟ نکلے نہ تم بھی وہی؟
“میرا یہ مطلب نہیں ہے’ جو آپ سمجھ رہی ہیں…” اس کے تاثرات پڑھ کر اس نے بےچارگی سے کہا… “میں آپ کا استاد بھی ہوں… آپ کو پڑھایا ہے میں نے…” اس کا یہ کہنے سے مقصد احسان جتانا نہیں تھا… اس سے اس کا مطلب اپنی شرافت بتانا تھا…
“تو اب آپ معاوضہ لینے آئے ہیں؟” اس کے انداز نے بتا دیا کہ وہ کتنے غصے میں ہے… لمحوں میں ہی سالوں کا تاثر بدل چکا تھا… اس کی شرافت پر شک کیا جا رہا تھا… بات بگڑ چکی تھی… ہو سکتا ہے’ وہ غصے میں کل آئے ہی نا…… اور یہ بھی کہ وہ اس کی کوئی وضاحت نہ سنے… انکار ہی سہی’ وہ کر دے… لیکن وہ اسے بدمعاش’ لفنگا نہ سمجھے… فرزام کے مسام بھیگ گئے… چند ہی لمحوں میں وہ کیا سے کیا بن گیا اس کے لیے…
اسے گھور کر وہ پلٹی اور دو قدم اپنے راستے کی سمت اور اس سے مخالف سمت میں بڑھی… اس نے صرف تھپڑ ہی نہیں مارا تھا میڈم کے بیٹے کو باقی نظروں سے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی…
دو سے چار اور چار سے آٹھ قدم چلتے اس کا وجود گواہی دے رہا تھا کہ بیچ راہ میں اس کی بےعزتی کی گئی ہے… پھر سے اسے صرف لڑکی سمجھا گیا ہے… پھر سے اس کی خوب صورتی پر نظریں ٹکی ہیں اور مردوں کا کام ہی کیا ہے… موقع ملتے ہی موقعے کا فائدہ اٹھانا…
فرزام کی نظریں’ جو دور جاتی افق پر ٹکی تھیں… وہ صاف صاف دیکھ رہی تھیں کہ وہ دوبارہ اس کی شکل نہیں دیکھیں گی… اس نے اس کے ساتھ کچھ ٹھیک نہیں کیا… جو افق کو سمجھنا تھا وہ سمجھ لیا… لیکن اس نے اسے پورا سنا نہیں… بھیڑ میں تیزی سے جگہ بناتی وہ جا رہی تھی… فرزام کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ سب ایسے ہو جائے گا… لیکن اگر اب یہ ایسے ہی تھا تو وہ ایسے ہی نہیں چھوڑے گا… وہ بھی اس کے پیچھے لپکا… آواز دے کر اسے روک نہیں سکتا تھا… جگہ بناتا تیزی سے اس کے پیچھے جانے لگا اور تقریباً بھاگتے ہوئے’ ایک سائیکل والے کی ٹکر سے بچتے ہوئے وہ اس کے پیچھے سے اس کے سامنے جا کھڑا ہو گیا…
“میں تو تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں افق!” اس نے فوراً کہہ دیا… بےحد سنجیدگی سے کہا… اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا… مطلب تم غلط سمجھ رہی ہو مجھے… میں فلرٹ نہیں کر رہا… تمہارا استعمال نہیں کر رہا… وقت گزاری نہیں چاہیے… ان مردوں میں سے نہیں ہوں… اس نظر والا بھی نہیں ہوں… مجھے ویسا تو نہ سمجھو…
قریب سے ایک موٹر سائیکل پوں پوں کرتی گزری… پرانی انارکلی کی اتوار بازار کی بھیڑ بھاڑ میں……. اسٹالوں پر “باجی’ آپا’ خالہ” کی آوازوں میں…… ٹریفک کے شور
میں…… ہجوم کی بھنبھناہٹ میں افق کو یہ آواز بہت بری لگی… “شادی کرنا چاہتا ہوں…”
افق نے اس کی طرف ایسے دیکھا… جیسے دراصل وہ اسے بتا رہا ہو کہ “تمہارے پیروں کے نیچے کی زمین پھٹ رہی ہے… دیکھو’ دیکھو! تم نیچے دھنستی جا رہی ہو… یہ زمین تمہیں نگل لے گی…”
“ماما نے کہا کہ میں پہلے تم سے بات کر لوں…”
اس نے لفظ “ماما” کا سہارا لیا… تاکہ وہ یقین کر لے کہ اس سب کا ماں کو بھی معلوم ہے اور وہ اسے الو نہیں بنا رہا…
“میں تو صرف بات کرنے کے لیے کہہ رہا ہوں… میرا مقصد غلط نہیں تھا…”
وہ جلدی جلدی بتانے لگا کہ مبادا وہ پھر بھاگ ہی نہ جائے… ایک آدمی فرزام سے ٹکرایا اور فرزام ذرا سا لڑھک کر سیدھا ہو کر کھڑا ہوا… لیکن افق نامی بت ویسے ہی کھڑا رہا… جیسے کچھ سن نہیں رہی اور اس کے سامنے کوئی اپنے بولنے کا شوق پورا کر رہا ہے… جیسے وہ دکان کے باہر زنانہ ریڈی میڈ کپڑے پہنے پلاسٹک کی عورت کھڑی ہے… جس کا تعلق بازار سے تو ہے’ لیکن زندگی سے نہیں…
“افق……!” فرزام کو اسے آواز دینی پڑی… وہ دونوں آمنے سامنے رش میں اور کتنی دیر کھڑے رہ سکتے تھے…
وہ چونکی…… اور فرزام کی طرف دیکھے بغیر جلدی سے ڈیلی سڑک کی طرف مڑ گئی… نیلے گنبد کی طرف جانے والی سڑک پر واقعی اس کے پیروں تلے کی زمین پھٹ رہی تھی اور وہ دھنستی ہی جا رہی تھی… آخر وہ دھنس کیوں رہی ہے؟ پاتال میں کیوں جا رہی ہے؟ اسے کون نیچے ہی نیچے کھینچ رہا ہے؟ امان سے تو وہ نفرت کرتی تھی…. ہے نا؟ پھر فرزام جیسے لڑکے کے منہ سے شادی کا سن کر وہ پاتال کی طرف کیوں جا رہی ہے؟
چال میں تیزی آ گئی… نیلے گنبد کی طرف تھوڑا اور فاصلہ طے ہوا… ذرا اور آگے… ایک اور سڑک تک…
امان نامی دلدل نے ایک بار نگل تو لیا تھا اسے…… اس کے ہاتھوں اپنی عزت تار تار کروا تو چکی تھی… اب وہ کیوں اسی شخص کے نام پر اندر دھنستی جا رہی ہے؟ شادی کے نام پر اسے کیا یاد آ گیا ہے؟ اب وہ کیا کچھ اور برباد کرے گا…… وہ پسینے میں بھیگ گئی اسے لگا… امان کا باپ اس کے پیچھے آ رہا ہے…. آگے بھی وہی ہے… دائیں بائیں بھی وہی ہے… اس نے اپنے اندر کی چیخ کو بمشکل روکا…
اپنے گھر کی طرف جانے والی سڑک پر چلتے ہوئے اس نے امان نام کی دھڑکن کو اپنے دل کے اندر نئے سرے سے دھڑکتے سنا اور وہ ڈر گئی… اگر پھر اس دل نے اسی کے نام پر دھڑکنا شروع کر دیا تو….. تو امان پھر سے جیت جائے
گا….. وہ اسے دھوکا دینے اس کے اندر پھر سے آ گیا تھا… اس بار وہ یہ دھوکا نہیں کھائے گی…… اپنے گھر کی گلی کے سرے پر وہ رک گئی…
واپس پلٹی تو دس قدم کے فاصلے پر فرزام کھڑا تھا… دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا… وہ گڑبڑا گیا….. جس حالت میں وہ تیزی سے اس کے پاس سے نکلی تھی اس کا سوچ کر فرزام اس کے پیچھے گھر تک آ رہا تھا…
وہ چلتی اس کے قریب آئی اور آگے ہو کر چلنے لگی… وہ پیچھے آنے لگا… سڑک پار کر کے وہ عجائب گھر کے ہرے بھرے باغ میں آ کر کھڑی ہو گئی… دوبارہ اس نے فرزام کی طرف نہیں دیکھا… دراصل وہ کسی اور طرف دیکھ ہی نہیں سکتی تھی… جو سُر تال اس کے اندر سالوں پہلے شادی کے نام پر بجے تھے… اب وہی سُر تال ماتم کر رہے تھے….. افق اس ماتم کو خوب سمجھتی تھی… وہ اس شخص کے لیے یہ ماتم اور کرنے کے لیے تیار نہیں تھی… اگروہ یہ ماتم کرے گی تو وہ نئے سرے سے اس پر جان دینے لگے گی…
……… ……………… ………
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...