مُراد کو پاکیزہ سے کال پہ بات کرنا بہت پسند تھا اسی لئیے وہ زیادہ تر اس سے کال پہ ہی بات کیا کرتا تھا۔ ایک دن بات کرتے کرتے کہنے لگا “پاکیزہ!”
“جی”
“پاکیزہ!”
“ہاں جی”
“پاکیزہ!”
“جی مُراد” پاکیزہ کے تجسس میں اضافہ ہوئے جا رہا تھا۔
“پاکیزہ!”
“اب بولیں بھی مُراد۔ ایسے سسپینس کرییٹ نہ کیا کریں۔ چلیں جلدی سے بولیں کہ کیا کہنا ہے؟:
“مجھے کہنا یہ ہے کہ۔۔۔”
“جی جی میں سُن رہی ہوں۔ آپ بولیں”
“کہنا یہ ہے کہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔ آئی لو یو سو مچھ”
“ارے تو یہ کہنا تھا آپکو جسے کہنے میں اتنی دیر لگائی”
“ہاں مجھے بس یہی کہنا تھا اور میں یہ بار بار کہنا چاہتا ہوں۔ میں تمہیں بار بار بتانا چاہتا ہوں کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں”
“مجھے پتہ ہے لیکن جب آپ یہ بولتے ہیں نہ تو مجھے اپنا آپ مکمل سا محسوس ہونے لگتا۔ دل کرتا ہے کہ ایک ہی انسان سے ایک ہی اظہار بار بار کرواؤں اور ہر دفع میری خوشی الگ سی ہوتی ہے” پاکیزہ کے چہرے پر ایک عجیب سی چمک تھی۔ شاید یہ چمک نہیں عشق کا نشہ تھا جو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
“آئی لو یو پاکیزہ”
“اینڈ آئی لو یو مور مُراد۔ مجھ جتنا پیار تو آپ بھی نہیں کر سکتے”
“میں بہت خوش قسمت ہوں پاکیزہ کہ تم میری بیوی بنو گی۔ تم میری محرم بنو گی اور تم سے زیادہ اچھی بیوی مجھے کبھی نہیں مل سکتی اور مجھے اتنا بھی پتہ ہے کہ تم مجھے کبھی بھی اکیلا چھوڑ کر نہیں جاؤ گی”
“کبھی نہیں۔ آپ سے الگ ہو گئی تو میں کہاں جاؤں گی۔ پاکیزہ کی محبت تو مُراد پہ ہی ختم ہو گئی ہے اور آپ سے زیادہ خوش قسمت میں ہوں جو آپ ملے مجھے”
دونوں اسی طرح ساری رات گفتگو میں مصروف رہے اور اسی طرح رات بھی گزر گئی۔
اس کے کچھ دن بعد پاکیزہ کالج میں تھی اور اپنی سہیلیوں اقراء اور حالے سے بات کر رہی تھی کی اچانک اس کا موبائل وائبریٹ ہوا۔ اس نے موبائل پکڑ کر دیکھا تو مُرادکا میسج تھا۔ اس نے خوشی سے میسج پڑھنے کے لئیے موبائل کا لاک کھولا اور میسج پڑھنے لگی۔ میسج پڑھنے کے بعد اس کے چہرے کا تاثرات ہی بدل گئے اور اس کا چہرہ زرد سا ہو گیا۔
“کیا ہوا پاکیزہ؟ تم ٹھیک تو ہو نا؟” اقراء نے پاکیزہ کو پریشان دیکھ کر پوچھا۔
“ہاں۔۔۔ کچھ نہیں۔ میں ٹھیک ہوں” پاکیزہ ہڑبڑاہٹ میں بولی۔
“بتاؤ تو کیا ہوا؟ کوئی پروبلم ہے کیا؟” اقراء نے تفتیشی انداز میں پوچھا۔
“یار مُراد!” پاکیزہ پریشانی میں بولی۔
“کیا مُراد؟” اقراء نے مزید پوچھتے ہوئے کہا۔
“مُراد کا میسج آیا ہے کہ وہ ہوسپِٹل میں ہیں اور اگر ریپلائی نہ کریں تو میں پریشان نہ ہوں”
“ہاں تو اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟ شاید نارمل چیک اپ کے لئیے گیا ہو گا”
“نہیں لیکن وہ تو کچھ دیر کے لئیے ہی جائیں گے نا”
“ہاں تو کال کر کے پوچھ لو۔ تمہیں تسلی ہو جائے گی”
“کیسے پوچھوں؟ کال ریسیو نہیں کر رہے اور واٹس ایپ پہ اب آن لائن نہیں ہیں”
“یار تم ٹینشن مت لو۔ ریلیکس رہو۔ گھر جا کر پوچھ لینا”
پاکیزہ نے کالج کا سارا وقت پریشانی میں گزارا اور گھر جاتے ہی اس کے نمبر پہ کال کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ کئی گھنٹوں کی کوشش کے بعد آخر مُراد نے کال ریسیو کی۔
“ہیلو” مُراد بہت دھیمی آواز میں بولا۔
“کیسے ہیں آپ؟ ہوسپِٹل کیوں گئے تھے؟ واپس آ گئے ہیں یا۔۔۔۔” پاکیزہ پریشانی میں بولے جا رہی تھی اور مُراد پاکیزہ کی بات کاٹ کر بولنے لگا “بس بس کتنا بولتی ہو۔ اتنے سارے سوال ایک ساتھ پوچھ لئیے۔ اب مجھے بھی بولنے دو
“تو بولیں نا اور اتنی باتیں مت کریں۔ پہلے یہ بتائیں کہ ہوسپِٹل کیوں گئے تھے؟”
“طبیعت خراب ہو گئی تھی کافی تو دوست یہاں لے آیا۔ آج آفِس بھی نہیں گیا۔ اب تو کافی بہتر ہوں اور ڈاکٹروں نے ڈسچارج بھی کر دیا ہے”
“آپ اپنا بالکل خیال نہیں رکھتے مُراد۔ کتنی دفع کہتی ہوں کہ میڈیسنز ٹائم پہ کھایا کریں۔ روز رات کو دودھ پی کر سویا کریں لیکن آپ کہاں سُنتے ہیں۔ آپ کو تو چھوٹے بچوں کی طرح ٹریٹ کرنا پڑتا ہے اور کہتے مجھے رہتے ہیں کہ تم چھوٹی ہو ابھی”
“ہاں ہاں بولتی رہو سُن رہا ہوں۔ رُک کیوں گئی؟”
“ہاں بس سُنئیے گا ہی۔ کیجئیے گا مت”
“کتنی اچھی لگتی ہو تم ایسے بولتے ہوئے۔ میری طبیعت تو تمہاری آواز سُن کر ہی ٹھیک ہو جاتی ہے اور آواز سُننے کے چکر میں باتیں بھول ہی جاتا ہوں”
“ہاں بس باتیں جتنی مرضی کروا لو آپ سے”
“نہیں یہ بس باتیں نہیں ہیں۔ سچ کہتا ہوں میں۔ مجھے پاکیزہ سے تو محبت ہے ہی لیکن پاکیزہ سے زیادہ اس کی آواز سے محبت ہے۔ مِس پاکیزہ دانش ‘ مُراد احمد آپ سے زیادہ آپکی آواز پہ مرتا ہے۔”
پاکیزہ نے ایک قہقہہ بلند کیا اور کہنے لگی “اب اتنی باتیں مت کریں اور میڈیسن کھا کر ریسٹ کریں۔ ہم بعد میں بات کریں گے”
“ہاں تو میں ریسٹ ہی کر رہا ہوں۔ سکون سے لیٹ کر تمہیں سُن رہا ہوں”
“باتیں تو بہت بناتے ہیں۔ رات کافی ہو گئی ہے اسی لئیے سو جائیے۔ آرام نہیں کریں گے تو ایویں طبیعت خراب ہو جائے گی”
“اچھا محترمہ ٹھیک ہے۔ سو جاتا ہوں”
“ہاں اب ٹھیک ہے۔ ہم کل بات کر لیں گے” پاکیزہ نے یہ کہہ کر موبائل رکھا اور سکون کا سانس لیا۔
آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا اور پاکیزہ اور مُراد کے رشتے کی مضبوتی بھی لیکن مُرا کو پاکیزہ کا اپنے گھر والوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا پسند نہیں تھا۔ اس بات پہ اکثر دونوں کی لڑائی بھی ہوتی تھی اور پاکیزہ ہمیشہ یہ کہہ کر بات ختم کر دیتی تھی کہ “وہ میرے گھر والے ہیں۔ فیملی کے ساتھ ٹائم سپینڈ نہیں کروں گی تو اور کس کے ساتھ کروں گی”
مُراد پاکیزہ کے لئیے بہت سنجیدہ تھا اور اس کو پاکیزہ کا کسی سے بات کرنا پسند نہیں تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ پاکیزہ صرف اسی سے بات کرے اور اپنا سارا وقت اس کے ساتھ گزارے۔ اسی لئیے اس کو پاکیزہ کا اس کے کزنز سے بات کرنا بھی پسند نہیں تھا۔
پاکیزہ نے سب کی طرح اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ زیادہ ہی سوچ رکھا تھا۔ وہ مُراد کا خیال اس طرح رکھتی تھی جیسے ایک ماں اپنے نو مولود بچے کا خیال رکھتی ہو اور کبھی بھی اسے اسکی بیماری کا احساس نہیں ہونے دیا تھا۔ وہ مُراد کی ہر بات ماننے کی کوشش کرتی تھی اور خود کو مُراد کے رنگ میں ہی ڈھال لیا تھا۔ اُس نے کئی طرح کے کھانے بنانے سیکھے اور اسکی پسند کے رنگ پہنتی تھی۔ وہ بھی مُراد کی طرح ہی انجینئیر بننا چاہتی تھی۔ اسکی زنگی کا مرکز مُراد ہی بن گیا تھا اور اس کی پوری زندگی مُراد کے گرد گھومتی تھی۔ وہ مُراد سے دور ہونے کا یا اس کے دور جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کیونکہ مُراد ایک واحد انسان تھا جس نے پاکیزہ کا دل جیت لیا تھا۔ پاکیزہ اسکی بہت عزت کرتی تھی اور اسکی ہر ایک عادت پاکیزہ کو بہت پسند تھی۔
_________
پاکیزہ اور مُراد کی پہلی لڑائی اس بات پہ ہوئی کہ پاکیزہ نے عید پہ مُراد سے بات نہیں کی تھی اور سارا وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارا تھا۔ مُراد غصّے کا بہت تیز تھا۔ وہ پاکیزہ سے سخت ناراض تھا۔ پاکیزہ اسے منانے کی کوشش کرتی رہی لیکن مُراد اپنی ناراضگی پہ ڈٹا رہا۔ آخر پاکیزہ نے مُراد کو کال کی اور مُراد نے ریسیو کر لی۔
“ہیلو” پاکیزہ آہستہ آواز میں بولی۔
دوسری طرف گہری خاموشی تھی۔
“اچھا سوری نا۔ مان بھی جائیں اب۔ آئیندہ ایسا نہیں کروں گی” پاکیزہ نے بات بڑھاتے ہوئے کہا لیکن دوسری طرف سے پھر کوئی آواز نہیں آئی۔ پاکیزہ منانے کی کوشش کرتی رہی لیکن مُراد ایک لفظ بھی نہ بولا۔ آخر پاکیزہ رونے لگی اور بولی “پلیز سُن لیں بات۔ اس بار معاف کر دیں۔ آئندہ ایسی غلطی نہیں کروں گی”
لیکن پھر بھی مُراد نے جواب نہیں دیا اور آخر روتے روتے پاکیزہ نے کال کاٹ دی۔ پاکیزہ ساری رات روتی رہی کیونکہ وہ مُراد کی ناراضگی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ مُراد وہ انسان تھا تھاجو کہتا تھا
“پاکیزہ تم رویا مت کرو۔ تمہارے رونے سے مجھے بھی رونا آتا ہے اور خود کو بہت کم ظرف اور مجبور سمجھنے لگتا ہوں کی میرے ہوتے ہوئے تم رو رہی ہو اور میں کچھ نہیں کر پاتا۔ تمہارے یہ موتی بہت قیمتی ہیں۔ بلکہ قیمتی نہیں انمول ہیں اور ان کو بہنے مت دیا کرو” اور یہ وہی انسان تھا جس پر پاکیزہ کے آنسوؤں کا بھی کچھ اثر نہیں ہو رہا تھا۔
مُراد کی عادت کچھ ایسی ہی تھی کہ غصّے میں وہ کیا کر رہا ہے اسے کچھ پتہ نہیں چلتا تھا اور بعد میں معافی مانگ کر بات اس طرح ختم کر دیتا تھا جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو لیکن اس کے کہے گئے الفاظ سننے والے کے دل میں گہرا گھاؤ چھوڑ جاتے تھے۔
اگلے ہی دن مُراد نے پاکیزہ سے معافی مانگ لی۔
“سوری اس وقت میں غصّے میں تھا”
“تو رہیں اب آپ غصّے میں ہی” پاکیزہ ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے بولی۔
“اچھا سوری نا۔ اب مان بھی جاؤ۔ اب آئندہ ایسا نہیں کروں گا”
“اٹس اوکے!”
پاکیزہ مُراد سے زیادہ دیر ناراض رہ ہی نہیں سکتی تھی۔
اُن دونوں کی لڑائی بہت کم ہوتی تھی لیکن جب ہوتی تھی تو بہت ہی زیادہ ہوتی تھی۔
کچھ دن بعد پاکیزہ کی سالگرہ تھی اور پاکیزہ بہت خوش تھی کیونکہ پورے سال میں اس کی سالگرہ کا دن اسکے پسندیدہ دنوں میں سے ایک تھا۔ پاکیزہ رات کے بارہ بجنے کا بے صبری سے انتظار کر رہی تھی کیونکہ اس کی ساری سہیلیاں اور سب گھر والے اسے رات کو بارہ بجے ہی وِش کرتے تھے اور اس بار تو اسکی زندگی میں ایک نیا انسان بھی تھا جو اس کی زندگی میں ہمیشہ رہنے والا تھا۔ رات کے بارہ بجتے ہی پاکیزہ کو سب کے میسج آنے لگے لیکن اسکو تو ایک خاص شخص کے میسج کا انتظار تھا۔ وہ انتظار کرتی رہی تھی اور تھوڑی سی مایوس بھی ہو گئی تھی۔ آخر ایک بجے مُراد کی کال آئی اور پاکیزہ کے چہرے کی چمک دیکھنے والی تھی۔
“ہیلو” مُراد نے دھیمی آواز میں کہا۔
“السلام عليكم! کیسے ہیں آپ؟” پاکیزہ نے دبی سی مسکراہٹ چہرے پہ اوڑھے ہوئے بولا۔
“میں ٹھیک ہوں۔ تم کیسی ہو؟”
“میں بھی ٹھیک ہوں”
پاکیزہ اس انتظار میں تھی کہ مُراد اسے کب وِش کرے گا لیکن وہ دونوں بات کرتے رہے اور مُراد نے پاکیزہ کو وِش نہیں کیا کیونکہ اسے پاکیزہ کی سالگرہ یاد ہی نہیں تھی۔ پاکیزہ نے ساری رات مایوسی میں سوچتے ہوئے گزاری۔ اگلے دن بھی مُراد کے وِش کرنے کا انتظار کرتی رہی کہ شاید اسے یاد آجائے لیکن شاید پاکیزہ اس کے لئے اب اتنی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔اس دن رات کو گیارہ بجے مُراد کو یاد آیا اور مُراد نے پاکیزہ کو وِش کیا لیکن تب تک پاکیزہ کا پورا دن برباد ہو چکا تھا اور اب اس سب کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
مُراد نے پھر کئی دفع معافی مانگی اور پاکیزہ نے معاف بھی کر دیا لیکن یہ بات پاکیزہ کے دل میں کہیں گھر کر گئی تھی۔
“ویسے میں سوچتی ہوں کہ جیسے آپ میری سالگرہ بھول گئے ویسے ہی کسی دن آپ مجھے بھی بھول جائیں گے” پاکیزہ نے سوچوں میں ڈوبے وئے کہا۔
“کیسی باتیں کر رہی ہو۔ میں تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں پاکیزہ؟”
“ویسے ہی جیسے میری سالگرہ بھول گئے”
“غلطی ہو گئی نا مجھ سے۔ بھول بھی جاؤ اب سب”
“نہیں ایسے نہیں کہیں۔ بس اتنا یاد رکھئے گا کہ اتنی بھی غلطیاں مت کیجئے گا جو میں معاف کرتے کرتے تھک جاؤں کسی دن”
“نہیں ایسا نہیں ہو گا۔ اب میں کوئی غلطی نہیں کروں گا اب”
“اُمید تو یہی کرتی ہوں میں”
“ہاں اُمید رکھو کہ اب دوبارہ ایسا کچھ نہیں ہو گا”
پاکیزہ کوئی جھگڑا نہیں چاہتی تھی اور ان چھوٹے چھوٹے جھگڑوں سے تنگ آ گئی تھی۔
حالے بھی پاکیزہ سے دور رہنے لگی تھی کیونکہ اس نےکبھی پاکیزہ کو اپنی بہن کی طرح چاہا ہی نہیں تھا۔ وہ تو اسکی ہر بات سے جلنے لگی تھی۔ پاکیزہ کے لئے سب کچھ بہت مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ وہ ہر چھوٹی سے چھوٹی چھوٹی بات محسوس کرنے لگی تھی۔
ایسے ہی وقت گزرتا رہا اور پاکیزہ نے اپنے اور مُراد کے کےرشتے کی ڈور مظبوطی سے تھامے رکھی۔
پاکیزہ دعاؤں پہ زیادہ یقین نہیں رکھتی تھی اور نہ ہی کبھی نماز یا عبادت میں دلچسپی لی تھی۔ اس کے برعکس مُرا ایک عبادت گزار انسان تھا اور پانچ وقت کی نماز پڑھا کرتا تھا۔ اس نے کبھی پاکیزہ کو اس سب کی تلقین نہیں کی تھی۔ پاکیزہ ایک ماڈرن قسم کی لڑکی تھی۔ مُراد اسے پردہ اور نقاب کرنے کا کہا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ تقریبات اور شادی بیاہ میں بھی نقاب کر کے جانے کو کہا کرتا تھا۔ پاکیزہ نے مُراد کی ہر بات ماننے کی کوشش کی لیکن اس بات سے انکار کر دیا کرتی تھی۔ کہتی تھی کہ میں کوشش کرتی ہوں لیکن نقاب میں مجھے گھُٹن محسوس ہوتی ہے۔
مُراد اور پاکیزہ کو بات کرتے ہوئے سال گزر گیا تھا۔پاکیزہ اب بارہویں جماعت میں تھی۔ ایک دن مُراد نے پاکیزہ کو بہت غصّے میں میسج کیا۔ اُن دنوں پاکیزہ کے بارہویں جماعت کے سالانہ امتحانات ہو رہے تھے۔
“کیا ہوا مُراد؟ اتنے غصّے میں کیوں ہیں آپ؟” پاکیزہ نے پریشان ہو کر پوچھا۔
“میری مرضی۔ میں جیسے مرضی بات کروں۔ تم کون ہوتی ہو کچھ پوچھنے والی؟”
“کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ؟ بتائیں تو سہی کہ کیا ہوا ہے؟ میری کوئی بات بُری لگی ہے کیا؟”
“کچھ نہیں ہوا مجھے۔ مجھے تنگ مت کرو اب میسج کر کر کے”
“لیکن آپ بات تو سنیں۔ میری غلطی کیا ہے”
“کہا نا کہ میسج مت کرو مجھے”
پاکیزہ بہت ڈر سی گئی اور رونے لگی۔ بار بار مُراد کو کال کر کے بات کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ آخر اسکی کوشش کامیاب ہوئی اور مُراد نے کال ریسیو کر لی۔
“کیا ہے؟ کیوں کال کر رہی ہو؟ تمہیں ایک بار کہی بات سمجھ نہیں آتی کیا؟ اب دوبارہ تنگ مت کرنا” مُراد گرج دار آواز میں چیخ کے بولا تھا اور یہ کہہ کر اسنے کال کاٹ دی تھی۔ پاکیزہ یہ سب سن کے سہم سی گئی کیونکہ آج تک اس سے کبھ کسی نے اس طرح بات نہیں کی تھی۔ پاکیزہ کا پورا چہرہ سُرخ ہو گیا اور وہ رونے لگی۔ اگلے دن اس کا امتحان تھا لیکن اسے امتحان کی ہوش ہی نہ رہی۔ وہ ساری رات روتی رہی۔ چاہتی تھی کہ زور زور سے روئے لیکن رو ننہیں سکتی تھی اسی لیئے منہ پہ ہاتھ رکھ کے رونے لگی تا کہ کوئی اسکی آواز نہ سن لے۔
اگلے روز مُراد نے پاکیزہ کو میسج کیا اور معافی مانگنے لگا۔
“آئی ایم سوری پاکییزہ۔ کل میں غصّے میں تھا اسی لئے اتنا کچھ بول گیا”
“اٹس اوکے! مجھے کوئی شکایت نہیں آپ سے” پاکیزہ نے روتے ہوئے کہا۔
گزشتہ رات جو سب ہوا وہ اس کے لئے کسی صدمے سے کم نہیں تھا۔ وہ سکتے کی سی حالت میں تھی۔ مُراد پھر سے حسبِ معمول پاکیزہ سے بات کرنے لگا۔ لیکن کچھ دن گزرنے کے بعد مُراد پھر سے کسی وجہ کے بغیر لڑنے لگا اور یہ لڑائی دن بدن بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ پاکیزہ اب ڈپریشن میں رہنے لگی تھی۔ ہمیشہ کوشش کرتی کہ لڑائی کو ختم کر سکے اور اگلی بار مُراد پچھلی بار کے بھی سارے ریکارڈ توڑ دیتا۔ پاکیزہ کے امتحانات ختم ہو گئے اور نتیجہ بھی آگیا لیکن اس بار نتیجہ ہر بار کی طرح قابلِ داد نہیں تھا۔ اس بار اس کے نمبر بہت کم آئے تھے اور سب گھر والے حیران تھے لیکن کسی نے اسے کچھ کہا نہیں تھا کیونکہ وہ آخر سب کی لاڈلی تھی لیکن اسے خود معلوم تھا کہ اسکے ساتھ سب بہت بُرا ہو رہا ہے جسکی وجہ وہ بخوبی جانتی تھی لیکن جان کر بھی انجان بنی ہوئی تھی۔ وہ کسی کو بھی اپنی حالت کا قصور وار نہیں ٹھہرانہ چاہتی تھی۔ سب کچھ ریت کی طرح اسکے ہاتھوں سے پِھسلے جا رہا تھا اور وہ تماشا دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پا رہی تھی۔
آخر جس بات کا ڈر تھا وہی سب ہوا۔ پاکیزہ اور مُراد کا بہت جھگڑا ہوا۔
“مجھے تم لڑکیوں جیسی ٹینشنز بالکل نہیں پسند” مُراد نے غصّے میں کہا۔
پاکیزہ یہ سب سن کے اپنی جگہ پہ منجمد سی ہو گئی۔ اس کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہنے لگے اور وہ کچھ بھی نہیں کہہ پا رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اسکے منہ میں زبان ہی نہ ہو۔
“کیا۔۔۔ کیا مطلب؟ کیا کہا آپ نے؟”
پاکیزہ اٹکتے اٹکتےہوئے لرزتی زبان سے بول رہی تھی۔
“جو تم نے سُنا وہ کہا میں نے۔ مجھے بار بار بولنے کی عادت نہیں”
مُراد اپنی سب حدیں پار کر چکا تھا۔ اس کی عادت تھی کہ وہ اپنے غصے پر قابو پانا نہیں جانتا تھا اور دن بھر کا سارا غصہ اور چڑچڑا پن پاکیزہ پہ اتار دیا کرتا تھا اور یہ اس کا معمول بن گیا تھا۔ پاکیزہ کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر کہے کہ کہاں گئی آپکی محبت۔ وہ چاہ رہی تھی کہ چیخ کر بتائے کہ وہ اس سے کتنا پیار کرتی ہے لیکن کچھ نہیں کہہ پا رہی تھی۔
اس نے فیصلہ کِیا کہ اب وہ مُراد سے بات نہیں کرے گی کیونکہ وہ روز تھوڑا تھوڑا کر کے ٹوٹ رہی تھی اور یہ سب سن کے تو وہ پوری طرح سے ٹوٹ چکی تھی۔ اسے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ پوری رات اپنے کمرے میں گُم سُم سی بیٹھی رہی۔ اگلے دن بھی کچھ کھائے پئے بغیر وہیں منجمد بیٹھی رہی۔ سب گھر والے اسکی حالت دیکھ کر بہت پریشان تھے لیکن وہ کچھ بول ہی نہیں رہی تھی۔ رات کو پاکیزہ کا چھوٹا بھائی عبداللہ اس کے پاس آیا اور پوچھنے لگا “آپی کیا ہو گیا ہے آپکو؟”
پاکیزہ اپنے بیڈ پہ گھٹنوں پہ اپنا سر ٹکائے بیٹھی تھی۔
“دل ٹوٹ گیا ہے شاید” پاکیزہ کسی بھی تاثر کے بغیر بوجھل آواز میں بولی۔
“دل کیسے ٹوٹتا ہے آپی”
“جب ہم کسی شیشے کے گلاس کو دسویں منزل سے پھینکتے ہیں نا تو وہ چور چور ہو جاتا ہے اور اسکے ٹکڑے اکٹھا کرنا بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگوں کے کڑوے الفاظ بھی کچھ ایسا ہی کام کرتے ہیں اور دل اتنا چور ہو گیا ہے کہ اسکی ایک ایک کِرچی میرے اندر ایسے چُبھ رہی ہے جیسے اس نے ایسا زخم پیدا کر دیا ہو جو ناسور سے بھی زیادہ بُرا ہو۔ کچھ لوگوں کے الفاظ میں اتنا خطر ناک زہر ہوتا ہے کہ وہ نہ تو انسان کو جینے دیتا ہے اور نہ ہی مرنے دیتا ہے”
یہ سب اسے ایک عزیت ناک خواب کی طرح لگ رہا تھا۔ ایک ڈراؤنی رات کی طرح تھا سب جو کبھی نہ ختم ہونے والی بھیانک رات تھی۔ پاکیزہ اب پہلے کی طرح مُسکراتی ہوئی بابا کی لاڈلی نہیں رہی تھی۔ یہ وہ پاکیزہ نہیں تھی جو ہر بات کو مذاق میں اُڑا دیتی تھی۔ یہ بے دَھڑک اور بے خوف پاکیزہ نہیں تھی۔ اُسے مُراد کی ہر ایک چھوٹی سے چھوٹی بات یاد تھی اور ہر بات پہ اُسے مُراد یاد آ جاتا تھا لیکن مُراد کو شاید پاکیزہ یاد نہیں تھی اب۔ وہ جسے پَری کہا کرتا تھا اُسے ہی ھول چکا تھا۔
اب پاکیزہ اپنے ہی خیالوں کی قید میں گِرفتار ہو کر رہ گئی تھی جہاں سے رہائی بالکل ممکن نہیں تھی۔ وہ محض اپنے خوابوں کی قیدی بن کر رہ گئی تھی۔
کچھ دن بعد حالے پاکییزہ کے گھر اُس سے ملنے کے لئے آئی کیونکہ پاکیزہ کی امی نے حالے کو کال کر کے بلایا تھا تا کہ پاکیزہ اس کے ساتھ تھوڑی باتیں کر کے اچھا محسوس کرے۔
حالے جب پاکیزہ کے کمرے میں گئی تو وہ اُلٹی لیٹ کر رو رہی تھی۔
“بھول کیوں نہیں جاتی تم اُسے؟” حالے نے پاکیزہ کو خود کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔
“بھول جاؤں؟ تم کہتی ہوں بھول جاؤں اُسے؟ اُس انسان کو بھول جاؤں جس سے محبت نہیں عشق کیا تھا میں نے؟ اُس انسان کو بھول جاؤں جس کے لئے خدا سے رو رو کر گِڑگِڑا کر دعائیں مانگی تھیں؟ اُس انسان کو بھول جاؤں جسے میں اپنا محرم تصور کرتی تھی؟ مجھے اُن کے قدموں کی چھاپ آج بھی سُنائی دیتی ہے۔ مجھے اُنکا پیار سے جانا کہہ کر بُلانا آج بھی یاد ہے۔ مجھے ہر ایک بات یاد ہے اور تم کہتی ہو بھل جاؤں میں انہیں۔ میں اُس انسان کو نہیں بھول سکتی حالے جس کی وجہ سے آج میں اس حالت میں ہوں” پاکیزہ چیخ چیخ کر بول رہی تھی اور اسکی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔
“تو ٹھیک ہے۔ رہو تم اسی کی یاد میں لیکن یہ بھی یاد رکھنا کہ کسی کو یاد کر کے کچھ نہیں ملتا۔ کچھ بھی نہیں”
“جذبات تو جذبات ہوتے ہیں نا۔ پھر چاہے وہ سہی ہوں یا غلط اور پھر میرے جزبات تو بہت خالص ہیں حالے”
حالے یہ سب سن کر غصّے میں کمرے سے چلی گئی۔
چاروں طرف اتنی خاموشی ہو گئی کہ گھڑی کی ٹِک ٹِک صاف سُنائی دے رہی تھی۔ آہستہ آہستہ اُسے سانس لینے میں مشکل ہونے لگی کیوں کہ جب بھی وہ کسی بات سے بے چین ہوتی تھی تو یوں لگتا تھا جیسے اس کی سانس کسی درد بھرے لمحے میں اٹک کر رہ گئی ہے اور وہ ان بے مطلب سانسوں کو اس ویرانے سے آزاد ہی نہیں کروانا چاہ رہی۔ وہ مُراد کے ساتھ گزرے کچھ حسین لمحے سوچ رہی تھی۔ ان لمحوں کو سوچتے سوچتے اس کے ذہن میں اس سب کا انجام بھی آ گیا۔ ہاں اسے وہ سب یاد آ گیا جس کی وجہ سے وہ اس اذیت میں تھی۔ اس کی آنکھوں سے جھلملاتے آنسو بہنے لگے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے دکھوں کی صندوق کھول دی ہے اور اس میں سے درد بہنے لگا ہے جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ وہ دیوار کے ساتھ سر ٹکائے بیٹھی تھی اور اس نے اپنے ہاتھ بھینچ لئیے کیوں کہ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ان زہریلے دکھوں کی اذیت زیادہ ہے جو وہ کڑوے گھونٹوں کی طرح پی رہی تھی یا سر کے درد کی شدت! وہ ایک اذیت ناک قید میں تھی جہاں اندھیرے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ ایسا اندھیرا جو آنکھوں کی روشنی اور خوابوں کو کھا جائے۔
پاکیزہ اب ڈائری لکھنے لگی تھی اور ڈائری لکھتے ہوئے پہلی چیز جو اُس نے لکھی تھی وہ کچھ اشعار تھے جو کچھ یوں تھے:
ہواؤں نے صداؤں نے
تمہی کو تو پکارا تھا
اُن راتوں کی تاریکیوں میں
جو تھا سب کچھ ہمارا تھا
قسم تم نے تو دی تھی نا
کہ تم ساتھ نبھاؤ گے
مگر تم دور بہت ہو اب
میرا بس اِک سہارا تھا
خدائی سب نے دکھائی تھی
خدا بھی یاد دلایا تھا
باتیں تو تھیں بہت کم پر
جھگڑا تم نے بڑھایا تھا
اب تو لوٹ آؤ نا
کہ ہم بہت اکیلے ہیں
نہ چھوڑو گے کبھی ہم کو
یہ بس اِک وہم ہمارا تھا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...