سائٹوسین بیس اور 5-ایزاسائٹیڈین ساخت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں۔ ڈی این اے میتھائل ٹرانسفریز اینزائمز (DNMT1, DNMT3A اور DNMT3B) سائٹوسین کی میتھائی لیشن کرکے 5-میتھائل سائٹوسین بناتے ہیں۔ اسکے اندر ایک بنیادی کاربن ایٹم جس پر عام طور پر میتھائی لیشن ہوتی ہے کو نائٹروجن سے تبدیل کردیا جاتا ہے۔ ڈی این اے میتھائیل ٹرانسفریز اینزائم اس نائٹروجن ایٹم پر میتھائل گروپ نہیں جوڑ سکتا۔
اب ذرا دوبارہ ڈی این اے ریپلیکشن کا تصور ذہن میں لائیں۔ ڈی این اے کی جب کاپیاں بنائی جاتی ہیں تو دونوں دھاگے الگ ہوجاتے ہیں اور دونوں کی نقلیں تیار کی جاتی ہیں لیکن جو اینزائم یہ کام کرتا ہے وہ اس ڈی این اے پر موجود میتھائلیشن کو کاپی نہیں کرسکتا۔ اسکے نتیجے میں نئے بننے والے ڈی این اے کے ایک سٹرینڈ پر میتھائیلیشن موجود ہوتی ہے جبکہ دوسری پر موجود نہیں ہوتی۔ DNMT1 اس ڈی این اے کی نشاندھی کرلیتا ہے اور دوسرے سٹرینڈ پر بھی میتھائلیشن کو منتقل کردیتا ہے۔ اسطرح سے ڈی این اے میتھائی لیشن کا پیٹرن بحال کردیا جاتا ہے۔
جب تقسیم ہوتے خلیات کو 5-ایزاسائٹیڈین کیساتھ ٹریٹ کیا جاتا ہے تو یہ ابنارمل بیس نئے بننے والے ڈی این اے میں شامل ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اس ابنارمل بیس کے اندر کاربن کی جگہ نائٹروجن موجود ہوتی ہے لہٰذا DNMT1 گمشدہ میتھائیلیشن کو دوبارہ نہیں جوڑ پاتا۔ اسطرح جب خلیات آہستہ آہستہ تقسیم ہوتے رہتے ہیں تو ڈی این اے میتھائی لیشن زائل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
جب DNMT1 انزائم ایسے ڈی این اے پر پہنچتا ہے جہاں نارمل سائٹیڈین کی بجائے 5-ایزاسائٹیڈین موجود ہوتی ہے تو یہ وہاں پر اٹک جاتا ہے۔ اسکے بعد اس انزائم کو خلیے کے مختلف حصوں میں لے جاکر توڑدیا جاتا ہے۔ اسکے ساتھ ہی خلیے میں DNMT1 کی سطح کم ہونا شروع جاتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں اس بات کی طرف اشارہ دیتی ہیں کہ ڈی این اے میتھائلیشن زائل ہورہی ہے۔ لیکن یہ آخر کینسر کے خلاف کیونکر مؤثر ہے؟ ہم اسکی طرف بعد میں آتے ہیں۔ 5-ایزاسائٹیڈین اس بات کی مثال کے ہے کہ ایک اینٹی کینسر ایجنٹ غیر متوقع طور پر ایپی جینٹک طور پر کام کررہا ہے۔
1971 میں شارلیٹ فرینڈ نے تجربات کے دوران یہ دیکھا کہ ڈائی میتھائل سلفاکسائیڈ DMSO نامی ایک کیمیکل چوہوں کے لیوکیمیا سیلز ماڈل پر عجیب اثرات چھوڑتا ہے۔ جب لیوکیمیا کے خلیات کو اس کیمیکل کیساتھ رکھا گیا تو وہ سرخ رنگ اختیار کر گئے جسکا مطلب ہے ان میں ہیموگلوبن جین آن ہوگیا تھا۔ وہی ہیموگلوبن جوکہ خون کو سرخ رنگ دیتا ہے۔ صحت مند خلیات میں یہ جینز کبھی آن نہیں ہوتے اور DMSO یہ کیسے کررہا تھا اسکا میکانزم کسی کو معلوم نہیں تھا۔
سائنسدانوں نے ایک کیمیکل ساہا SAHA کے نام سے تیار کیا جوکہ کینسر خلیات کو مارنے اور انکی بڑھوتری روکنے میں بہت کآرامد تھا۔ لیکن یہ سمجھنے میں کہ ساہا دراصل خلیات کے اندر کر کیا رہا تھا انکو مزید دو سال لگے۔ یہ کامیابی شارلٹ فرینڈ کی تحقیق کے ٹھیک پچیس سال بعد حاصل ہوئی، جب پال مارکس کی ٹیم میں سے وکٹوریا رچن نے ٹوکیو یونیورسٹی کے ایک گروپ کا 1990 میں شائع ہونے والا پیپر پڑھا۔
جاپانی گروپ نے ٹرائکو سینتھیٹن( TSA ) نامی کیمیکل پر کام کیا جو کہ خلیات کو تقسیم ہونے سے روکتا ہے۔ انھوں نے دیکھا کہ یہ کیمیکل کینسر خلیات میں ہسٹون پروٹین پر ایسیٹائل گروپس کی سجاوٹ کی شرح کو متاثر کرتا ہے۔ ہسٹون ایسیٹائلیشن ایک ایپی جینیٹک ترمیم ہے جسکا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں۔ جب خلیات کو اس کیمیکل سے ٹریٹ کیا گیا تو ہسٹون ایسیٹائلیشن میں اصافہ ہوگیا۔ یہ اس لئیے نہیں تھا کہ TSA ان ینزائمز کو فعال کررہا تھا جو ایسیٹائلیشن کرواتے ہیں بلکہ یہ ان اینزائمز کو روک رہا تھا جو ہسٹون سے ایسیٹائلیشن کو اتارتے ہیں۔ اس اینزائمز کا نام ہسٹون ڈی ایسیٹائلیز ہے۔
وکٹوریا رچن نے SAHA اور TSA کی ساخت کا موازنہ کیا اور یہ دیکھنے کیلئے کسی کیمسٹری کی ڈگری کو ضرورت نہیں کہ انکی ساخت ایک دوسرے سے بیحد ملتی جلتی ہے۔ وکٹوریا نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ TSA کی طرح SAHA بھی ایچ ڈی اے سی یعنی ہسٹون ڈی ایسیٹائلیز کو روکتا ہے۔
اتفاق سے آگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لہذا ، 5-ایزسیٹیڈائن اور ساہا دونوں ہی کینسر کے خلیوں کے پھیلاؤ کو کم کرتے ہیں ، اور دونوں ہی ایپی جینیٹک خامروں( اینزائمز) کی سرگرمی کو روکتے ہیں۔ اگرچہ ہم اس نظریہ کے لئے پرامید ہیں کہ کینسر میں ایپی جینیٹک پروٹین اہم ہیں۔ یہ محض ایک اتفاق ہوسکتا ہے کہ دونوں ادویات ایپی جینیٹک پروٹین کو متاثر کرتی ہیں۔ بہرحال ، دونوں مرکبات کے ذریعہ نشانہ بنائے جانے والے انزائمز بہت مختلف ہیں۔
5-ایزسائٹیڈین ڈی این ایم ٹی انزائموں کو روکتا ہے ، جو ڈی این اے میں میتھائل گروپس کو شامل کرتے ہیں۔ دوسری طرف ، ساہا ، انزائیمز کے ایچ ڈی اے سی خاندان کو روکتا ہے ، جو ہسٹون پروٹینز سے ایسٹائل گروپس کو ہٹاتا ہے۔ سطحی طور پر ، یہ بالکل مختلف عمل کی طرح معلوم ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ محض اتفاق ہو کہ 5-ایزاسائیٹیڈین اور ساہا دونوں ہی ایپی جینیٹک خامروں کو روکتے ہیں؟
ایپی جینیٹک ماہرین کا ماننا یہ ہے کہ یہ محض ایک اتفاق نہیں ہے۔ ڈی این اے میتھائلیشن ایک ریپریسو ترمیم ہے یعنی جہاں پر میتھائی لیشن زیادہ ہوگی وہ جینز آف ہوجائیگا۔ “ڈی این ایم ٹی” ڈی این اے میتھائی لیشن کو بڑھاتا ہے اور جینز کے ایکسپریشن کو کم کرتا ہے۔ لہٰذا 5-ایزاسائٹیڈین کی مدد سے ان اینزائمز کو روکنے سے ہم جینز کے ایکسپریشن کو دوبارہ بڑھاسکتے ہیں۔
اسکے برعکس کسی جینز کے اوپر کے حصے میں اگر ہسٹون ایسیٹائلیشن زیادہ ہوگی تو اسکا مطلب ہے وہ جینز زیادہ ایکسپریس ہوگا اور اگر ایسٹائلیشن کم ہوگی تو اسکے امکانات زیادہ ہوجائیں گے کہ جینز آف ہوچکا ہے۔ ہسٹون ایسیٹائلیشن کو اتارنا ایک ریپریسو ترمیم ہے۔ جب ہسٹون ڈی ایسیٹائلیز انزائم ہسٹون سے ایسیٹائلیشن کو اتارتا ہے تو جینز کے ایکسپریشن کو کم کردیتا ہے۔ لہذا ساہا کے ذریعے ان اینزائمز کو روک کر ہم جینز کے ایکسپریشن کو دوبارہ بڑھا سکتے ہیں۔
تو یہ واضح ہے کہ ہمارے دو مرکبات جو کینسر کی بڑھوتری کو کنٹرول کرتے ہیں اور جنکو اب ادویات کے طور پر انسانوں میں استعمال کرنے کیلئے اجازت دی جاچکی ہے دونوں ایپی جینیٹک اینزائمز کو روکتے ہیں۔ یہ دونوں ہی جینز کے ایکسپریشن کو بڑھاتے ہیں جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کینسر کے علاج میں مددگار کیوں ہیں؟ اسکا جواب جاننے کیلئے ہمیں تھوڑی سے کینسر کی بائیولوجی پڑھنی پڑیگی۔
کینسر بائیولوجی 101
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر خلیوں کے غیر معمولی اور بے قابو پھیلاؤ کا نتیجہ ہے۔ عام طور پر ، ہمارے جسم کے خلیات بالکل صحیح شرح پر تقسیم اور پھیلتے ہیں۔ اس کو ہمارے خلیوں میں جین کے نیٹ ورک کے مابین ایک پیچیدہ متوازن عمل کے ذریعہ کنٹرول کیا جاتا ہے۔ کچھ جینز خلیے کے پھیلاؤ کو فروغ دیتے ہیں۔ ان کو بعض اوقات پروٹو آنکوجینز بھی کہا جاتا ہے۔ بہت سے پھیلاؤ کو روکتے ہیں۔ ان جینز کو ٹیومر سپریسر کہا جاتا ہے۔
پروٹو آنکوجینز اور ٹیومر کو دبانے والے اندرونی طور پر اچھے یا برے نہیں ہوتے ہیں۔ صحتمند خلیوں میں ، جین کے ان دو طبقوں کی سرگرمیاں ایک دوسرے کو متوازن رکھتی ہیں۔ لیکن جب ان نیٹ ورکس کی ریگولیشن غلط ہوجاتی ہے تو ، خلیات کا پھیلاؤ غلط ضابطے میں ہوسکتا ہے۔ اگر ایک پروٹو آنکوجین زیادہ سرگرم ہوجاتا ہے تو ، یہ خلیے کو کینسر کی حالت کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ اس کے برعکس ، اگر ٹیومر دبانے والا غیر فعال ہوجاتا ہے ، تو یہ خلیاتی تقسیم میں بریک کی حیثیت سے مزید کام نہیں کرے گا۔ دونوں صورتوں میں نتیجہ یکساں ہے- خلیہ بہت تیزی سے تقسیم ہونا شروع ہوسکتا ہے۔
لیکن کینسر صرف تیزی سے ہوتی خلیاتی تقسیم کا نام نہیں ہے۔ اگر خلیات تیزی سے تقسیم ہورہے ہوں لیکن ویسے صحت مند ہوں تو انکو بینائن ٹیومر کہا جاتا ہے۔ یہ دیکھنے میں بدصورت اور غیر آرام دہ ہوسکتے ہیں لیکن یہ جان لیوا نہیں ہوتے۔ تل ایک بینائن ٹیومر ہے ایسے ہی آنتوں کے اندرونی طرف موجود ابھار جنکو پولپ کہا جاتا ہے۔ اسکے برعکس مکمل تباہ کن کینسر میں ناصرف خلیات تیزی سے تقسیم ہوتے ہیں بلکہ وہ غیرمعمولی بھی ہوتے ہیں اور پڑوسی خلیات ہر بھی حملہ کرکے ان میں کینسر پھیلاتے ہیں۔ جسم پر تل اور پولپ خطرناک نہیں ہیں لیکن انکی تعداد جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی اس بات کا امکان بڑھ جائیگا کہ کسی وقت یہ اگلے مرحلے میں داخل ہوکر کسی عضو پر اپنا اثر ڈال دیں اور تباہ کن ثابت ہوں۔
اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کینسر صرف آن آف عمل نہیں ہے بلکہ یہ ایک کثیر لاقدام عمل ہے جس میں ہر نیا قدم خلیے کو کینسر کی طرف لیکر جاتا ہے۔ یہ ان مریضوں کے حوالے سے بھی صحیح ہے جن میں جینیاتی طور پر کینسر کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اسکی ایک مثال “قبل از مینو پاز چھاتی کا کینسر” ہے جو مختلف خاندانوں میں وراثت میں منتقل ہوتا ہے۔ ایسی خواتین جن میں BRAC1 نامی جین میں میوٹیشن موجود ہو ان میں شدید ابتدائی چھاتی کے کینسر کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں جسکو پراثر طریقے سے ٹھیک کرنا مشکل ہے۔ لیکن یہ خواتین فعال کینسر کیساتھ پیدا نہیں ہوتی ہیں۔ کینسر کے بننے میں کئی سال لگتے ہیں کیونکہ اسکے ساتھ دوسری خرابیوں کو اکٹھا ہونے میں وقت لگتا ہے۔
لہٰذا خلیات جیسے جیسے کینسر زدہ ہوتے جاتے ہیں ان میں خرابیاں اکٹھی ہوتی رہتی ہیں۔ یہ خرابیاں ایک خلیے سے اسکی اگلی نسلوں میں منتقل ہونی چاہئے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو یہ خرابیاں اسی وقت زائل ہوجا ئیں جب خلیہ تقسیم ہوتا ہے۔ اور جیسے کینسر بنتا ہے یہ اثرات وارثت میں منتقل ہوسکتے ہوں۔ کافی عرصہ تک سائنٹفک کمیونٹی کی توجہ جینز میوٹیشن پر رہی جو کینسر کا باعث بنتی ہیں۔ وہ بنیادی بلیوپرنٹ میں خرابیوں کو تلاش کررہے تھے۔ خاص طور سائنسدانوں کی دلچسپی ٹیومر سپریسر جینز کے اندر تھی۔ یہ وہ جینز تھے جو کینسر کی وراثتی منتقلی میں کردار ادا کررہے تھے۔
انسانوں میں ہر ٹیومر سپریسر جینز کی دو کاپیاں موجو د ہوتی ہیں اور یہ آٹوسومز یعنی جسمانی کروموسومز میں موجود ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے ایک خلیہ کینسر زدہ ہوتا جاتا ہے اسکے یہ جینز آف ہوجاتے ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ کیسنر زدہ خلیہ میں ان جینز میں میوٹیشن ہوجاتی ہے۔ اس کو سومیٹک میوٹیشن کہا جاتا ہے اور یہ جینیٹک میوٹیشن سے الگ ہے جوکہ والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہیں۔ وہ میوٹیشن جو ٹیومر سپریسر کی دو کاپیاں غیر فعال کردیتی ہیں، کافی متغیر ہوسکتی ہیں۔ کچھ معاملات میں امائنو ایسڈ کی ترتیب میں تبدیلیاں ہوسکتی ہیں، تاکہ جین مزید کام کا پروٹین پیدا نہیں کرسکے۔ دوسرے معاملات میں، بڑھتے ہوئے کینسر خلیوں میں کروموسوم کے متعلقہ حصے کا نقصان ہوسکتا ہے۔ ایک مریض میں، کسی مخصوص ٹیومر کو دبانے والے جین کی ایک کاپی میں تغیر پیدا ہوتا ہے جو امینو ایسڈ کی ترتیب کو بدلتا ہے اور دوسرے کو مائکرو ڈیلیشن کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
یہ بات پوری طرح سے واضح ہے کہ یہ واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں ، اور کثرت سے ہوتے ہیں ، لیکن اکثر یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ٹیومر سپریسر میں کسطرح میوٹیشن ہوئی ہے۔ پچھلے پندرہ سالوں میں ، ہم نے یہ سمجھنا شروع کیا ہے کہ ٹیومر کو دبانے والا ( ٹیومر سپریسر) جین غیر فعال ہوسکتا ہے۔ جین کو ایپی جینیٹک طور پر خاموش کیا جاسکتا ہے۔ اگر پروموٹر میں ڈی این اے ضرورت سے زیادہ میتھائی لیٹیڈ ہوجاتا ہے یا ہسٹون ریپریسو ترامیم میں ڈھک جاتا ہے تو ، ٹیومر سپریسر بند ہوجائے گا۔ اسکا مطلب ہے جین کو بنیادی بلیو پرنٹ تبدیل کیے بغیر غیر فعال کردیا گیا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...