پھر ایک اور خوفناک بات ہوئی۔
موٹر بائیک کا رخ اچانک سڑک سے ہٹ کر کچی زمین پر ہو گیا۔ اسپیڈ کا ٹھیک اندازہ کچے میں گاڑی چلانے سے ہوتا ہے۔ سڑک تو ہموار ہوتی ہے، لیکن کچی کی زمین تو ناہموار اونچی نیچی اور چھوٹے بڑے تھروں اور کھڈوں سے پر ہوتی ہے۔ کامران کو ایسا لگا کہ زلزلہ آ گیا ہے۔ بائیک برق رفتاری سے کچے میں دوڑنے لگی کتنے ہی کھڈوں میں گھسی اور نکلی۔ کئی پتھروں پر چڑھ کر اچھلی اور زبردست جھٹکے سے دوبارہ زمین پر آئی۔ کامران کے جسم کے اندرونی حصے شدید متاثر ہوئے۔ اس اچھل کود اور جان لیوا جھٹکوں نے کئی پسلیاں توڑ ڈالی تھیں۔ گردن میں ایسا جھٹکا آیا تھا کہ سیدھی ہی نہیں ہو رہی تھی۔ ریڑھ کی ہڈی کے مہرے بھی شاید کھسک گئے تھے۔ اس کی آواز قدرتی طور پر بند ہو گئی تھی۔ اگر سائے کی طاقت نے اسے قابو نہ کیا ہوتا تو وہ کب کا بائیک سے گر چکا ہوتا۔ اسے اپنی ہولناک موت کا بھر پور اور مکمل یقین ہو گیا تھا۔ کامران کے منہ سے خون نکل آیا۔ اس پر غشی سی طاری ہو گئی تھی۔ بائیک دوبارہ سڑک پر آ گئی۔ دفعتاً ڈوبتے ابھرتے ذہن میں آصف کی آواز گونجی۔ کامران بمشکل سرگوشی کا مفہوم سمجھ پایا۔
آصف کی آواز نے کہا تھا۔ ’’میں تم کو زیادہ اذیت نہیں دینا چاہتا، کیوں کہ تم میرے سب سے اچھے دوست تھے۔‘‘
کامران نے ڈبڈباتی نظروں سے سامنے دیکھا۔ سامنے ایک بڑا فیول ٹینکر نظر آ رہا تھا، جو اپنی دھیمی رفتار سے سفر کر رہا تھا۔ بائیک اس کی سیدھ میں لپکی جا رہی تھی۔ ٹینکر پٹرول سے لبا لب بھرا ہوا تھا۔ پھر بائیک پوری طاقت کے ساتھ ٹینکر کے عقبی حصے میں جا کر گویا پیوست ہو گئی، جیسے تیر درخت پر گھس جاتا ہے۔ اس بھیانک تصادم کا کیا نتیجہ نکلنا تھا۔ یہ منظر لفظوں میں ممکن نہیں۔ سماعت شکن دھماکے ہوئے۔ آگ کے شعلے آسمان کو چھونے لگے تھے۔ انسانی اجسام جو ٹینکر اور بائیک پر تھے، سفوف بن کر اڑ گئے۔ پیٹرول کی وجہ سے سڑک پر آگ رقص کر رہی تھی۔ پے در پے ہونے والے دھماکے دور دور تک سنے گئے۔
یہ معمہ کسی کی سمجھ میں نہ آ سکا۔ لوگوں نے اسے خود کشی ہی قرار دیا تھا۔ شاید کامران پر کوئی ہیجانی کیفیت طاری ہو گئی ہو گی، اس لیے رات کو وہ اپنی بائیک لے کر ہائی وے پر نکل کھڑا تھا۔ عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ بائیک پر بیٹھا نوجوان چیخ چلا رہا تھا ٹھیک سے اندازہ نہیں ہو پایا کہ وہ خوف زدگی کے عالم میں چیخ رہا تھا یا خوشی سے، کیوں کہ بائیک کی رفتار بے حد تیز تھی۔ کامران کے گھر والے تو صدمے سے نڈھال تھے۔ اگر موت لکھی ہی تھی تو مر گیا تھا، لیکن لاش تو ملتی، تاکہ قبر بنائی جاتی، مگر لاش کے نام پر ایک ہڈی بوٹی بھی نہ ملی تھی۔ بھلا کیا دفن کرتے؟ صبر کر لیا۔ آئل ٹینکر میں تین افراد سوار تھے۔ وہ تینوں بھی موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے۔ جاوید اور راشد بھی تعزیت کے لیے کامران کے گھر آئے تھے۔
اس واقعے کے دس روز بعد کا ذکر ہے کہ راشد اور اس کے گھر والے ایک شادی کی تقریب میں گئے۔ راشد کی طبیعت وہاں اچانک ہی بوجھل سی ہونے لگی۔ گھر والے تو دیر سے ہی فارغ ہوتے۔ اس نے اپنے بڑے بھائی سے کہہ دیا۔
’’بھائی جان… میری طبیعت خراب سی ہو رہی ہے دل گھبرا رہا ہے میں گھر جا رہا ہوں …‘‘
’’خیر تو ہے … اچانک کیسے خراب ہو گئی؟‘‘ اس کا بڑا بھائی پریشان نظر آنے لگا۔
راشد ہنس کر بولا۔ ’’ارے بس ایسے ہی دل گھبرا رہا ہے … فکر کی کوئی بات نہیں ہے … آپ امی جان کو کہہ دیجیے گا کہ میں گھر چلا گیا ہوں۔‘‘
’’لیکن تم نے کھانا تو کھایا ہی نہیں؟‘‘
’’گھر جا کر کچھ کھا لوں گا… چابیاں میرے پاس ہیں … آپ امی جان کو بول دیجیے گا۔‘‘ اتنا کہنے کے بعد راشد اپنی موٹر سائیکل پر گھر چلا آیا۔
وہ پورے گھر میں اکیلا ہی تھا۔ بوریت ہونے لگی تو ایک کتاب پڑھنا شروع کر دی، لیکن کتاب میں بھی دل نہیں لگا۔ اپنی اس عجیب کیفیت پہ وہ خود بھی حیران ہو رہا تھا۔ دل کسی طرح سکون نہیں پا رہا تھا۔ ایک بے چینی، بے کلی سی ہو رہی تھی۔ آخر وجہ کیا ہے؟ اس نے کتاب بند کر کے رکھ دی۔ پھر فریج میں سے سیب نکال لایا۔ پھل کاٹنے والے چاقو سے وہ سیب کاٹنے لگا اور اپنی طبیعت پر غور کرتا جا رہا تھا۔
دفعتاً اس کے دماغ میں آصف کا خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپک آیا… آہ… کس بے بسی سے وہ مرا تھا۔ صرف ان لوگوں کے مذاق کی وجہ سے … کاش ہم لوگ وہ مذاق نہ کرتے تو آج آصف زندہ ہوتا۔ ہم تینوں ہی قصور وار ہیں … لیکن تینوں کیوں …؟ اب تو میں اور جاوید ہی بچے ہیں۔ کامران تو مر گیا ہے۔
پھر اُلجھی ہوئی سوچوں اور خیالات کا دھارا کامران کی پراسرار موت کی طرف بہہ نکلا۔ معلوم نہیں وہ کیسے مرا تھا… شاید پاگل ہو گیا تھا… یا پھر اس نے خود کشی کی تھی، مگر کیوں؟ … خود کشی کی کوئی وجہ تو ہو گی۔ بھلا کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ بے خیالی میں سیب کاٹتے کاٹتے چاقو انگوٹھے پر لگ گیا۔ راشد کے منہ سے بے اختیار سسکی نکل گئی۔ خون کی بوندیں انگوٹھے پر اُبھر آئی تھیں۔ اس نے جلدی سے سیب اور چاقو رکھ دیا۔ اور اپنی الماری کی طرف بڑھا، جہاں فرسٹ ایڈ کا سامان رکھا تھا۔ راشد نے ٹیوب اور پٹی نکالی۔ پھر واپس پلٹا اور رک کر انگوٹھے کو دیکھنے لگا۔ نظریں کسی ایک مقام پر مرکوز ہوں تو ارد گرد کا ماحول بھی کسی حد تک نظر آتا ہے۔ گرد و پیش میں اگر کوئی حرکت ہو رہی ہے تو بے اختیار نظریں اس حرکت پر جا پڑتی ہیں۔ راشد انگوٹھے کو دیکھ رہا تھا تو اسے یوں لگا کہ فرش پر کوئی شے متحرک ہے اور وہ آگے بڑھ رہی ہے۔ راشد نے دیکھا۔ اس کا سایہ جو آگے فرش پر پڑ رہا تھا، اب اس سے جدا ہو کر سامنے میز کرسی کی طرف بڑھ رہا تھا۔
یہ حیرت انگیز منظر دیکھ کر راشد چکرا گیا۔
ایسا بھلا کس طرح ممکن تھا؟ وہ خود تو ایک جگہ کھڑا تھا۔ پھر یہ سایہ کس طرح آگے بڑھ گیا۔ پھر اس نے ہنسی کی مدھم سی آواز سنی۔ راشد کے ہاتھ سے ٹیوب اور پٹی چھوٹ گئی۔
وہ بری طرح گھگھیایا۔ ’’کک… کو… کون… کون… ہے؟ سامنے آؤ… کہاں چھپے ہو…؟‘‘ راشد اسے تلاش کر رہا تھا۔
’’تم اتنی جلدی میری آواز بھول گئے راشد…؟‘‘ شکایت آمیز آواز آئی۔
اور راشد کھڑے کھڑے اپنی جگہ سے اچھل پڑا۔
دنیا جہاں کا خوف سمٹ کر اس کی آنکھوں میں جمع ہو گیا تھا۔ پورے جسم میں زبردست کپکپی شروع ہو گئی تھی۔ چہرے پر دہشت اور خوف زدگی کی گہری لکیریں بن گئی تھیں۔ ہونٹوں کے گوشے لرز رہے تھے۔ ایک نام اس کے ذہن میں پوری شدت سے اُبھر آیا تھا۔ ’’آصف…‘‘ مگر یہ نام زبان سے ادا نہیں ہو پا رہا تھا۔
وہ پہچان گیا تھا، اب وہ آواز کو پہچان گیا تھا۔ بلا شبہ اس نے آصف کی ہی آواز سنی تھی۔ سو فیصد آصف کی آواز… لیکن آصف تو مر چکا تھا۔ اس نے خود آصف کی لاش دیکھی تھی، جسے تہہ خانے کے چوہوں نے کتر ڈالا تھا۔ پھر یہ آواز؟؟
’’ہاں … تم ٹھیک سوچ رہے ہو… بالکل ٹھیک سوچ رہے ہو…‘‘ ہنستی ہوئی آواز نے کہا۔ ’’میں تمہارا وہی دوست آصف ہی ہوں، جسے تم لوگ تہہ خانے میں چھوڑ آئے تھے۔‘‘
راشد لڑکھڑا گیا، لکنت آمیز لہجے میں بولا۔ ’’تو… تت… تم زندہ تھے …؟ مرے نہیں تھے …؟‘‘
سایہ دیوار پر مکمل واضح نظر آ رہا تھا۔ راشد نے پہچان لیا کہ وہ آصف کا ہی سایہ تھا… دہشت انگیز بات یہ تھی کہ خود راشد کا سایہ نظر نہیں آ رہا تھا۔
’’تم نے خود ہی دیکھا تھا کہ میں مر گیا تھا…‘‘ آصف کی آواز بڑی سرد اور بھیانک تھی۔ ’’میں تو مر چکا تھا راشد…‘‘
راشد چیخا۔ ’’یہ مجھے کیا ہو گیا ہے … میرا جسم حرکت نہیں کر رہا ہے … تم … تم بد روح بن گئے ہو… تم نے جادو کر دیا ہے مجھے صحیح کرو… میرا… میرا سایہ بھی غائب ہو گیا ہے …‘‘
’’میں تمہارا سایہ ہوں …‘‘ سرگوشی اُبھری۔ ’’آؤ آگے بڑھو…‘‘ تحکمانہ لہجے میں کہا گیا تھا۔
’’آہ… یہ یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ…؟ میرے قدم کیوں خود بخود اٹھ رہے ہیں …؟ تم … تم کیا جانتے ہو…؟‘‘ راشد بے بسی آمیز لہجے میں بول رہا تھا۔
وہ چاہتا تھا کہ کمرے سے باہر بھاگ لے، لیکن جسم اس کے قابو سے باہر ہو گیا تھا کہ کسی پر اسرار طاقت نے اس پر طلسم کر دیا ہے۔ زبان تو اس کا ساتھ دے رہی تھی۔ اس نے چاہا کہ چیخ کر مدد کے لیے کسی کو پکارے اس نے منہ کھولا، مگر آواز برآمد نہیں ہو سکی۔
’’بے کار ہے سب بے کار ہے … ہر کوشش فضول ہے … اب کچھ نہیں ہو سکتا ہے کوئی تمہاری مدد کے لیے نہیں آئے گا۔ یاد ہے …تم ظالموں نے بھی میری کوئی فریاد نہیں سنی تھی۔ میں بھی چیختا پکارتا رہ گیا تھا… اور تم لوگ… تم لوگ ہنستے ہوئے چلے گئے تھے … اب میں ہنسوں گا اور تم مرو گے … ہا ہا ہا… مرو… مرو…‘‘
راشد میز کے پاس کھڑا تھا۔ میز پر سیب اور پھل کاٹنے والا تیز دھار چاقو پڑا تھا۔ اچانک راشد کا ہاتھ سانپ کی طرح چاقو پر جھپٹا اور چاقو اٹھا لیا۔ راشد نے چیخ مارنی چاہی، مگر آواز برآمد نہ ہوئی۔ وہ انکار یہ انداز میں سر کو دائیں بائیں جنبش دے رہا تھا۔ اس کا ہاتھ ہی اس کا دشمن ہو گیا تھا۔ اس نے دوسرے ہاتھ سے چاقو والا ہاتھ پکڑنا چاہا، لیکن ادھر سے بھی مایوسی ہوئی۔ دوسرے ہاتھ نے بھی چاقو تھام لیا۔ دیوار پر دکھائی دینے والا سایہ خوشی سے قہقہے لگا رہا تھا۔ اب چاقو راشد کی آنکھوں کے عین سامنے تھا۔
معاً چاقو راشد کی آنکھ میں پیوست ہو گیا۔
آنکھ پانی سے بھرے ہوئے غبارے کی طرح بھچاک سے پھٹ گئی۔ رقیق مادہ بہہ نکلا۔ ستم یہ کہ وہ چیخ بھی نہیں سکتا تھا۔ بے آواز چیخ رہا تھا۔ انتہائی شدید تکلیف اور درد سے اچھل رہا تھا۔ اب معلوم ہوا تھا کہ درد کیسا ہوتا ہے، تکلیف کس چیز کا نام ہے۔ درد دینے سے نہیں، بلکہ سہنے سے معلوم ہوتا ہے۔ اس سے درد سہا نہیں جا رہا تھا۔ چاقو پھر حرکت میں آیا اور راشد کی ناک کٹ کر گر گئی۔ اس کی شکل ایک دم بھیانک ہوئی تھی۔ جیسے کوئی بھوت پریت بن گیا ہو۔ ناک کی جگہ اب دو خون آلود گڑھے نظر آ رہے تھے۔ پھر اس کا چاقو والا ہاتھ مسلسل گردش کرتا رہا۔ چاقو اب دوسرے آزاد ہاتھ کو کاٹ رہا تھا۔ پھر سینے پر گہری گہری لکیریں بننے لگیں۔ شہ رگ کی باری آ گئی۔ راشد نے اپنے آپ کو ذبح کر لیا۔
مرغی کی گردن کاٹی جائے تو وہ فوراً ہی نہیں مر جاتی۔ کچھ دیر پھڑکتی رہتی ہے۔ راشد اسی حالت میں خرخراتا اور مچلتا ہوا بڑے آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ وہ اپنے آپ کو دیکھنے لگا، لیکن اپنی جگہ اس نے ایک بھیانک عفریت دیکھا۔ خود اس نے اپنے آپ کو خوفناک بنا ڈالا تھا۔ شہ رگ سے خون کا فوارہ اُبل رہا تھا۔ اس کے دل سے آخری دعا یہ ہی نکلی کہ کاش وہ جلد از جلد ہی مر جائے۔ وہ اس حال میں زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ہے۔
اسی لمحے اس کا بدن روح کے بوجھ سے عاری ہو گیا۔ خون کی چھینٹیں آئینے پر بھی پڑی تھیں اور خون لکیریں بناتا ہوا نیچے آ رہا تھا۔