رات کے کهانے پہ سب لوگ جمع تهے سماهر اور ایمان نے مل کر پرتکلف اور بے حد لذیذ کهانا بنایا تها سب نے کهانے کی خوب تعریف کی تهی
خاص طور پر شاہ زیب هر نوالے کیساتھ واہ واہ بول رہا تها اسکی اس حرکت پہ سب بڑے هنس رهے تهے جبکہ ایمان آنکهوں هی آنکهوں میں اسے کئی بار باز رهنے کا اشارہ کر چکی تهی مگر وهاں پروا کسے تهی
۔
جبکہ دوسری طرف سماهر کهانا کهاتے هوۓ مسلسل بی جان کی باتوں کے بارے میں سوچ رهی تهی ساتھ ہی ساتھ خود کو کوسے جا رهی تهی کہ اقرار کرنے سے پہلے کم سے کم ایک بار اس بندے کا نام هی پوچھ لیتی جسکے ساتھ اب اسے اپنی پوری زندگی بنا چوں چراں کے گزارنی تهی مگر اب وہ چاہ کر بهی ایسا نہ کرسکتی تهی
۔
کهانے کے بعد ایشال منال کے اصرار پہ شاہ زیب سب کو باهر آئس کریم کهلانے لے جا چکا تها گهر پہ صرف نجمہ بیگم فیضان صاحب بی جان سارہ بیگم اور شاہ زر تها
فیضان صاحب سے کچھ بزنس کی باتوں کے بعد بی جان نے شاہ زر کو اپنے روم میں آنے کا کہا
“بی جان خیریت هے آپ نے اسطرح مجهے بلایا”
انکے برابر بیٹهتا هوا بولا اور وہ مسکرا دیں
“تو کیا مجهے اپنے بچے کو بلانے کےاسکی اجازت کی ضرورت هے”
پیار سے اسے دیکهکر بولیں
“نہیں بی جان کیسی باتیں کر رهی هیں آپ۔ ۔ ۔ میرا وہ مطلب نہیں تها۔ ۔ ۔ ۔اور آپکا پورا حق هے مجھ پہ آپ ایسا مت سوچیں”
انکا ہاتھ چوم کر بولا
“چلو پهر میں نے تمهارے لئے کچھ اور سوچ لیا هے”
“کیا بی جان”
سوالیہ نظروں سے دیکها
“تمهاری شادی”
“او۔۔ ۔ ۔ اچها تو یہ پلاننگ هورهی هے۔ ۔ ۔”
“جی هاں اور تیرے لئے لڑکی بهی ڈهونڈ لی هے میں نے”
اسکی معلومات میں اضافہ کیا
“اچها جی!!! مطلب پورا حلوہ تیار کر لیا هے آپ نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ویسے کون هے وہ جسکے نصیب پهوٹنے والے هیں”
شرارت بهرے لہجے میں بولا
“نصیب کیوں پهوٹیں گے۔ ۔ ۔ بلکہ نصیب کهلیں گے میری سماهر کے تیری دلہن بن کر”
اور سماهر کا نام سن کر شاہ زر کے سر پہ امریکی اسرئیلی اور انڈین بم ایک ساتھ گرے تهے
“بی جان آپ سماهر ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اپنی سماهر کی بات کر رهی هیں”
شاکڈ لہجے میں بولا
“تو اور کس سماهر کی بات کروگی ۔ ۔ ۔ اسی کیساتهه میں نے تیری نسبت طے کی هے اور اگلے هفتے تم دونوں کی منگنی هے”
“مگر بی جان۔ ۔ ۔ ۔”
“بس شاہ زر کہہ دیا نا ۔ ۔ ۔ اس بارے میں مجهے نہ کوئی بحث چاهیے نا کوئی نخرہ”
یہ کہہ کر انہوں نے گویا بات هیختم کر دی تهی
“بی جان سماهر میری بہن هے اور میں اس سے کیسے شادی کرسکتا هوں”
همت کرکے بولا
“شاہ زر وہ تیری بہن نہیں هے سمجها تو۔۔ ۔ ۔ صرف خون کے رشتے هی اصل هوتے هیں اور تیری بہن ایشال اور منال هیں بس”
سخت لہجے میں بولیں
“بی جان۔۔ ۔ ۔”
“شاہ زر میں نے فیصلہ کر لیا هے بس اب جاؤ جاکر تیاری کرو”
یہ بول کر وہ آنکهیں بند کرکے تسبح کے دانے گرانے لگیں اور شاہ زر شکت خورد انداز میں اٹھ کر سیدها گیراج کی جانب بڑها اور بجلی کی سرعت سے گاڑی بهگا لے گیا
۔
“بی جان یہ اتنے غصے میں گیا هے”
سارہ بیگم نے فکرمند لہجے میں کہا
“تم فکر مت کرو بس اب تیاریاں کرو”
بی جان نے اطمینان سے کہا اور سارہ کیساتھ نجمہ نے بهی سر هلا دیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شاہ زیب سے اپنی خوشی سنبهالے نہ سنبهل رهی تهی جس لڑکی کو اس نے اپنے دل کی گہرائیوں سے چاها تها بالاخر وہ بہت اسکی هونے والی تهی۔!!
ایمان بهی خوش تهی شاہ زیب هر طرح اسکا خیال رکهتا تها هونے والا همسفر اگر عزت اور خیال کرنے والا هو تو لڑکی کے لئے دنیا هی جنت بن جاتی هے کیونکہ عزت پیار محبت سے کہیں زیادہ ضروری هوتی هے۔۔ کہیں نا کہیں اسکے دل میں بهی شاہ زیب کے لئے پسندیدگی کےکے جذبات تهے!!!
۔
دوسری طرف شاہ زر اور سماهر تهے دونوں ایکدوسرے کو بہن بهائی سمجهتے تهے اور اب جب بی جان نے دونوں کو ایک اٹوٹ بندهن میں باندهنے کا فیصلہ کیا تو وہ دونوں هی اس فیصلے کو قبول نہیں کر پا رهے دوسری طرف شاہ زر اور سماهر تهے دونوں ایکدوسرے کو بہن بهائی سمجهتے تهے اور اب جب بی جان نے دونوں کو ایک اٹوٹ بندهن میں باندهنے کا فیصلہ کیا تو وہ دونوں هی اس فیصلے کو قبول نہیں کر پا رهے تهے
سب سے زیادہ خراب حالت سماهر کی تهی بچپن سے لے کر اب تک شاہ زر بهائی کہتے زبان نہ تهکتی تهی اسکی اور اب اچانک سے ۔ ۔ ۔۔ ۔
سوچ سوچ کے اسکا دماغ پهٹنے لگتا!!
بی جان نے گهر میں کسی بهی قسم کے اعتراض پہ سخت کرفیو نافذ کیا هوا تها وہ کسی سے کچھ کہہ بهی نہیں سکتی تهی
۔
دوسری طرف شاہ زر تها وہ سماهر کے بارے میں اسطرح سے سوچ بهی نہیں سکتا تها اس وقت بهی وہ اپنے آفس میں بیٹها بیچ و تاب کها رها تها جب اسکا بہترین دوست اور بزنس پارٹنر رضا اندر داخل هوا
“اتنا مت سوچ یارا پاکستان بن چکا هے”
کرسی کهنچ کر بیٹهتے هوۓ بولا
تبهی شاہ زر نے ایک غصیلی نگاہ اس پہ ڈالی مگر بولا کچھ نہیں
“مجهے کیوں گهور رها ہے تو جیسے تیری منگنی مجھ سے ہورہی هے”
اسکے مسلسل دیکهنے پہ اسے اسکے مسلسل دیکهنے پہ اسے بولا
“بکواس مت کر یار پہلے هی میں ٹنشن میں هوں”
جهنجهلا کر بولا
“تو تیری اسی ٹنشن کا حل لایا هوں میں جگر”
“کیا؟؟”
شاہ زر نے سوالیہ انداز میں پوچها
“دیکھ کل تیری منگنی هے تو چپ چاپ منگنی کر لے”
رضا اطمینان سے بولا اور شاہ زر کو گویا آگ هی لگ گئی
“تو اٹھ اور نکل ادهر سے ورنہ آج تیرا مرڈر هو جاۓ گا میرے ہاتهوں”
“پوری بات تو سن لے یار پہلے”
اسکے انداز میں نجانے ایسا کیا تها کہ شاہ زر چپ چاپ اسے سننے لگا
“تیری بی جان نے صرف منگنی کا آڈر جاری کیا هے نکاح کرنا کا تو نہیں کہا نا!!! اور منگنی کا کیا هے کل کرلے اور پرسوں توڑ دینا اب کوئی تیرے سر پہ بندوق رکھ کر تو نکاح نہیں کروا دے گا نا تیرا ۔ ۔ ۔ ۔ ”
رضا چپ هوا
“اور منگنی توڑنے کا کیا جواز پیش کرونگا میں؟ کہ مجهے رضا صاحب نے ایڈواس دی تهی هاں”
اب تک اسکا دماغ گرم تها
“اتنا پڑهه لکھ کر عقل نام کی چیز نہیں هے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہہ دینا تجهے کوئی اور پسند هے اور اگر تیرے گهر والوں نے اس لڑکی سے ملنے پہ اصرار کیا تو مجهے بس اک میسج کر دینا کسی کو بهی پیسے پکڑا کر ریڈی کرلو گا سمپل”
رضا نے جهٹ پٹاسے پلان سمجهایا
“اور اگر اس ڈرامے کا ڈراپ سین هوگیا تو؟”
شاہ زر ممکنہ خطرے کے تحت بولا
یہ الگ بات تهی کہ اسے رضا کی بات میں وزن محسوس هوا تها
“اگر تو نے ایسے نیگیٹو سوچنا هے تو جا پهر کر لے جا کر اپنی بہن جیسی کزن سے منگنی اور شادی”
“اتنا بهڑک مت۔ ۔ ۔ ۔ ویسے هی ایک سوچ آئی تهی مائینڈ میں تو کہہ دیا”
“میرے بهائی تو بس اچها اچها سوچ سب اچها ہی هوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور چل اب ایک کپ اچهی سی کافی پلا دماغ کا دهی بنا دیا تیرے مسلے نے”
کرسی سے ٹیک لگا کر بولا
جبکہ شاہ زر نے کافی آڈر کرنے کے لئے فون اٹهایا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...