وہ کیبن میں داخل ہوئی تو قلم کاغذ سے لیکر دیواروں پر ٹانگی پینٹنگز تک ہر چیز بہت ترتیب اور نفاست سے سجائی گئی تھی۔
رانا صاحب رائل بلیو کلر کے سوٹ میں ملبوس تھے۔ خاکی پڑتے بالوں اور شیو کو ترتیب سے تراشا ہوا تھا۔ کوٹ کو کرسی کے پشت پر آویزاں کیا ہوا تھا اور شرٹ کے آستین کہنیوں تک موڑے ہوئے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے بالکونی کے پاس کھڑے باہر سڑک کو دیکھ رہے تھے۔
نگار بیگم کی ہیل کی آواز سن کر وہ بنا مڑے گویا ہوئے۔
“ویلکم نگار بیگم۔۔۔۔ آنے میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی” انہوں نے سنجیدہ انداز میں پوچھا نظریں اب بھی چلتی ٹریفک پر جمی تھی۔
نگار بیگم دروازے پر ہی کھڑی ہوگئی۔ اور بزنس وومن کا انداز اپناتے ہوئے پھیکی مسکراہٹ بنائی۔
” جی not at all رانا صاحب۔۔۔۔ ویسے شادی جیسے رشتے کی باتیں تو گھر پر کی جاتی ہے۔۔۔۔۔ پر۔۔۔۔۔ کوئی بات نہیں دفتر میں ہی سہی۔۔۔۔۔ رانا صاحب آپ بلکل فکر مت کیجیئے۔۔۔۔ آپ کا جو بھی مطالبہ ہے میں پورا کرنے کے لیے تیار ہوں۔۔۔۔ آپ کو جتنا جہیز چاہیے ہو۔۔۔۔۔” نگار بیگم نے اپنی خوشامد کا سلسلہ شروع کیا لیکن بیچ میں رانا صاحب کو اپنی طرف مڑتے دیکھ کر ان کے الفاظ حلق میں ہی رہ گئے۔
رانا صاحب ہاتھ پیچے باندھتے قدم قدم چلتے ہوئے آئے اور اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔
“آپ کو جتنا جہیز چاہیے۔۔۔ میں دے دوں گی آخر اکلوتی بیٹی ہے میری۔” نگار بیگم نے خود کو کپوز کرتے ہوئے اپنا فکرہ مکمل کیا۔
رانا صاحب چیئر کو جھلاتے ہوئے فخریہ انداز میں مسکرائے اور آبرو اٹھا کر سامنے لمبے میز کے پار پڑی کرسی کے جانب اشارہ کیا۔
“آئے ۔۔۔ بیٹھے ۔۔۔۔ تشریف رکھے ۔۔۔۔ کھڑی کیوں ہے۔” انہوں نے سیدھے ہوتے ہوئے کہنیاں میز پر ٹکائی۔
نگار بیگم تیزی سے چل کر آئی اور نشست سنبھال لی پھر سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے رانا صاحب کے جواب کی منتظر ہوئی۔
“مجھے آپ سے جہیز نہیں چاہئیے نگار بیگم ۔۔۔۔ مگر اس شادی کے لئے میری ایک اور شرط ہے۔”
رانا صاحب نے بنا کوئی تہمید باندھے اپنے مطالبے کا آغاز کیا۔ ان کو نگار بیگم کے چہرے پر ایک رنگ چھڑتا اور دوسرا اترتا صاف پتہ چل رہا تھا۔
نگار بیگم اپنے اضطراب کو قابو رکھنے کے لیے گود میں رکھے ہاتھوں کو مڑوڑ رہی تھی اور چہرہ بے تاثر رانا صاحب کے سامنے کیا ہوا غور سے ان کے کلمات سن رہی تھی۔
“نگار بیگم۔۔۔۔۔۔ ہمیں جہیز کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔۔۔۔ میرا سب کچھ روحان کا ہی تو ہے وہ چاہے تو نور کے لیے پورا شاپنگ مال خرید لیں۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔” رانا صاحب کو اچانک یاد آیا انہوں نے نگار بیگم کی خاطر داری کی ہی نہیں انہوں نے اپنے مزاج دوستانہ بناتے ہوئے پوچھا
“بائی دہ وے۔۔۔۔ کیا لینگی آپ۔۔۔۔ چائے کافی ٹھنڈا۔۔” رانا صاحب انٹرکام دبانے لگے تھے کہ نگار بیگم نے انہیں کوئی بھی تکلف کرنے سے منع کر دیا اور پھیکی مسکراہٹ بناتے ہوئے آگے ہو کر بیٹھی۔
رانا صاحب نے ان کی مرضی کا احترام کرتے ہوئے انٹرکام سے ہاتھ ہٹایا اور اپنے سامنے پڑے پانی کے گلاس سے ڈھکن ہٹا کر گلاس نگار بیگم کے آگے رکھ دیا اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پھر سے اپنی گفتگو جاری رکھی۔
“نگار بیگم۔۔۔۔ میں اس شادی کے لئے تب ہی راضی ہونگا جب۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔۔ کرن کی شادی۔۔۔۔۔ مجھ سے کروا دیں گی۔ ” رانا صاحب نے آخری جملے کے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا اور آنکھیں نگار بیگم پر ہی جمائے رکھ کر ٹیک لگائی اور پھر سے کرسی جھلانے لگے۔
ایک پل کے نگار بیگم کو سچ میں اپنا گلا سوکھتا ہوا محسوس ہوا ان کے ہاتھوں میں لرزش ہونے لگی۔ انہوں نے پانی کا گلاس اٹھایا اور دو گھونٹ پیئے۔ AC کے ٹھندے کمرے بھی ان کو پسینہ آنے لگا تھا۔
“لیکن رانا صاحب۔۔۔۔۔۔ کرن میری سگی بیٹی نہ صحیح مگر میری بیٹی جیسی ہی ہے۔۔۔۔ نور سے ایک سال ہی بڑی ہوگی۔۔۔۔ اور آپ سے شادی۔۔۔۔” نگار بیگم نے وضاحت پیش کرنا چاہی جس پر رانا صاحب کے آبرو تن گئے اور جبڑے سخت کر لیئے، تو نگار بیگم چپ ہوگئی اور جعلی مسکراتے ہوئے پلکیں جھپکائی۔
رانا صاحب ان کے وضاحت سے محظوظ ہوئے اور اپنی جگہ سے اٹھ گئے۔ کھڑکی کے پار اپنے ساری قدرت کے ساتھ چمکتے ہوئے سورج کو دیکھا۔
“آپ کو کرن سے اتنی ہمدردی کب سے ہونے لگی۔۔۔۔۔ کل تک تو آپ اس سے جان چھڑانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔۔۔۔۔ اور آج اس کے حق میں بول رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی آپ کے مرحوم شوہر نے اپنے وصیعت میں اس کی پڑھائی اور شادی ہونے تک کی ہی رقم لکھی ہے نا۔۔۔۔۔ تو اس شادی سے آپ کے پیسے بچ جائے گے۔۔۔۔ آپ کو اس پر اور خرچہ نہیں کرنا پڑے گا جو آج تک آپ مجبوری کے تحت کرتی آرہی ہے۔” رانا صاحب قدم قدم چلتے اپنی بات جاری رکھے ہوئے نگار بیگم کی طرف آئے اور استحزیہ مسکرا کر نگار بیگم کو دیکھا۔
نگار بیگم اپنے بارے رانا صاحب کے منہ سے اتنے سچ سن کر پریشان ہوگئی تھی۔
“میں تو ان سے آج سے پہلے صرف ایک دفعہ ملی ہوں۔۔۔۔ پھر یہ اتنا سب کیسے جانتے ہے۔۔۔۔ ” انہوں نے حیرت سے دل ہی دل میں سوچا۔
رانا صاحب ان کی کرسی پر جھکے اور سرد مہری سے سنجیدہ ہوگئے۔
“میں آپ کے سوچ سے بہت پرے چیز ہوں نگار بیگم۔۔۔۔۔ مجھے آپ کے اور آپ کے خاندان کے بارے میں آپ سے زیادہ معلومات ہے۔۔۔۔ اس لیے دوبارہ کبھی مجھ سے۔۔۔۔۔ جھوٹ بولنے کی۔۔۔۔ جرآت مت کرنا۔” انہوں نے سنجیدگی سے تنے ہوئے اعصاب سے کہا اور واپس سیدھے ہوگئے۔
ان کے سیدھے ہوتے ہی نگار بیگم نے پیشانی سے پسینہ صاف کیا۔ اور خود کو نارمل دکھانے کے لیے استحزیہ ہنسی اور ہاتھ کو اٹھا کر ہوا میں لہرایا
“وہ تو پہلے کی تھی بات تھی رانا صاحب۔۔۔۔۔ اب تو میں نے اسے تسلیم کر لیا ہے۔۔۔۔۔ مجھے اس کی عادت ہوگئی ہے۔۔۔۔۔ میری ساری خدمت گزاری وہی تو کرتی ہے۔” نگار بیگم نے لڑکھڑاتی زبان سے وضاحت دی۔
رانا صاحب واپس آکر اپنے سیٹ پر بیٹھے اور سمجھنے والے انداز میں سر کو جنبش دیا اور ھمممم کرتے دراز سے ایک چیک بک نکالی۔ دستخط شدہ ایک خالی چیک پھاڑ کر نگار بیگم کے آگے اچھالا۔ نگار بیگم کبھی چیک کو دیکھتی کبھی رانا صاحب کے بے تاثر سراپے کو۔ رانا صاحب نے سگریٹ نکالی اور ہونٹوں میں دبا کر جلائی۔
“خالی چیک ہے۔۔۔۔ اپنی مرضی کی رقم لکھ لیں۔۔۔۔۔ کرن کی قیمت۔” انہوں نے ہاتھ میز پر جمائے ہوئے سیگریٹ پکڑے ہوئے انگلیوں سے چیک کی طرف اشارہ کیا اور پھر کش بھرنے لگے۔
نگار بیگم اب بھی ساکت بیٹھی تھی تو رانا صاحب نے آدھے سے زیادہ ختم کی ہوئی باقی ماندہ سگریٹ بجائی اور ہاتھ جھاڑتے ہوئے پھر سے گویا ہوئے۔
“سوچ لیں نگار بیگم۔۔۔۔۔ میرے ایک اشارے پر روحان کبھی نور کے جانب مڑ کر بھی نہیں دیکھے گا۔۔۔۔۔ جس کی مثال تو آپ اتنے دنوں سے دیکھ رہی ہے۔۔۔۔ میں نے ہی اسے نور سے رابطہ کرنے کے لیے منع کیا ہوا ہے۔” رانا صاحب نے فخریہ انداز میں آبرو اچکائے۔
“فیصلہ آپ پر ہے۔۔۔۔۔ روحان کے لئے تو مجھے نور جیسی 10 لڑکیاں مل جائے گی۔۔۔۔۔ لیکن آپ کو اپنے نور کے لئے روحان جیسا پھر کبھی نہیں ملے گا۔”انہوں نے بات کرتے کرتے قلم دان سے قلم نکالا اور نگار بیگم کو پیش کیا۔
نگار بیگم شش و پنج میں مبتلا ہوگئی تھی وہ نور کی خوشیاں تو چاہتی تھی لیکن اتنی بھی ظالم نہیں تھی کہ کرن کو اندھے کنویں میں پھینک دیں۔ رانا صاحب نے ان کے لیے کوئی اور آپشن دسترس میں نہیں چھوڑا تھا اس لئے وہ آگے کو ہوئی اور جھجکتے ہوئے رانا صاحب کے ہاتھ سے قلم اٹھا لیا۔ لرزتے ہاتھوں سے جھک کر چیک پر رقم درج کرنا شروع کیا۔ رانا صاحب تیکھی نظروں سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ جیسے ہی انہوں نے آخری ہندسہ لکھا رانا صاحب نے چیک ان کے سامنے سے کھینچ لیا۔
“اوو thank you so much نگار بیگم۔۔۔۔۔ یہ چیک میں تبھی آپ کو دوں گا جب آپ کرن کو راضی کر لیں گی۔۔۔۔ اب اسے کیسے قائل کرنا ہے یہ آپ کا کام ہے۔” انہوں نے چیک واپس اپنے دراز میں رکھ کر لاک لگایا۔
رانا صاحب کھڑے ہوگئے تو نگار بیگم بھی ساتھ کھڑی ہوگئی۔ اس سے پہلے نگار بیگم کچھ کہتی رانا صاحب نے انٹرکام پر سیکرٹری کو مخاطب کیا۔
“سیم ڈرائیور سے کہو۔۔۔۔۔ نگار بیگم کو ان کے گھر واپس چھوڑ آئے” وائر لیس کان سے لگائے انہوں نے پر امید انداز میں مسکرا کر نگار بیگم کو دیکھا۔
سیکرٹری اوکے سر کہتی ان کا حکم بجا لائی اور رانا صاحب میز کے اوٹ سے گھوم کر نگار بیگم کے سامنے آئے اور مصاحفہ کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا۔ نگار بیگم پھیکا مسکرائی اور ان کا ہاتھ تھام کر جنبش دی۔
“آپ واقعی ایک قابل بزنس وومن ہے۔۔۔۔ آپ کے ساتھ ڈیل کر کے اچھا لگا۔” رانا صاحب نے ہاتھ چھڑاتے ہوئے ان کی تعریف کر دی۔
نگار بیگم پھر سے اپنا بزنس وومن کا انداز اپناتے ہوئے ان کے تعریف سے مسرور ہوئی۔
” جی thank you رانا صاحب۔۔۔۔۔ میں جلد آپ کو خوش خبری سنا دوں گی۔” وہ دونوں چلتے ہوئے کیبن کے سرے تک آئے۔
نگار بیگم کے اس بات پر رانا صاحب دل کھول کر لطف اندوز ہوئے اور آگے بڑھ کر دوازہ کھول دیا۔
“مجھے آپ کی کال کا انتظار رہے گا۔” انہوں نے سر کو خم دیتے ہوئے کہا۔
نگار بیگم بھی سر کو جنبش دیتی کیبن سے باہر آگئی اور سیکرٹری کے ہمراہ کوریڈور میں چلنے لگی۔ رانا صاحب نے ان کو الوداع کرتے ہوئے واپس کیبن کا دروازہ بند کیا اور کرن کے بارے میں سوچتے ہوئے واپس اپنے چیئر پر بیٹھے۔ سر کرسی کے پشت پر ٹکا کر چھت کو تکتے ہوئے چیئر جھلانے لگے۔
**********&&&&**********
نگار بیگم جس وقت گھر پہنچی تو گھر خالی پڑا تھا نور اور کرن یونیورسٹی گئی ہوئیں تھیں۔ وہ کرن کو منانے کا لائحہ عمل سوچتے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
نور اور کرن گھر لوٹی تو نور بھجے بھجے چہرے کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی گئی اور کرن جلدی سے کپڑے تبدیل کر کے کچن میں کھانا بنانے آگئی۔ ڈیڑھ گھنٹہ بعد اس نے کھانا لگوایا تو نہ نور نیچے آئی اور نہ چچی کمرے سے باہر آئی۔ نور کو تو اس نے کمرے میں ہی کھانا دے دیا اور چچی کو خود دیکھنے آگئی۔
اس نے آہستہ سے بنا آواز کئے چچی کے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر جھانک کر دیکھا جب چچی کو اٹھا ہوا پایا تو تہذیب سے چلتے ہوئے اندر داخل ہوئی۔
“چچی کھانا کھانے باہر نہیں آئی آپ۔۔۔۔۔ طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تو ڈاکٹر کو بلا دوں۔۔۔۔ یا آپ کہے تو سوپ بنا دوں”اس نے نرم لہجے میں کہا اور چچی کے پہلو میں بیٹھ گئی۔
نگار بیگم نے افسردہ تاثرات بنائے اور نقلی آنسو چھپاتے بھرائی آواز میں جواب دیا۔
“نہیں بیٹا۔۔۔۔ آج میری طبیعت کسی دوا یا سوپ سے ٹھیک نہیں ہوگی” نگار بیگم نے دل گرفتہ ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے نرمی سے کہا۔
کرن ان کا یہ رویہ دیکھ کر حیران اور پھر پریشان ہوگئی۔ آج سے پہلے اس نے چچی کا اپنی طرف ایسا رویہ نہیں دیکھا تھا۔
“کیا ہوا ہے آپ کو چچی۔۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے نا” اسے سچ میں فکر ہونے لگی۔
نگار بیگم نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتے ہوئے گیلی سانس اندر کھینچی اور آہ بھرتے ہوئے نظریں نیچی کر لی۔
“ایک بہت بڑی آزمائش آگئی ہے مجھ پر۔۔۔۔ سمجھ نہیں آرہا کیا کروں۔۔۔۔ کس سے کہو۔” انہوں نے کرن کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
ان کے ڈرامے سے انجان کرن کو نگار بیگم پر ترس آنے لگا۔ اچانک سے وہ اسے بہت بے بس نظر آئی۔
“کیا بات ہے چچی مجھ سے کہئے۔۔۔۔ میں آپ کی کوئی مدد کر سکتی ہوں کیا۔” کرن نے ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر دلاسہ دینے والے انداز میں کہا۔
نگار بیگم کو شکار پھنستا ہوا محسوس ہوا۔ اپنی مسکراہٹ دبائے ہوئے انہوں نے مگر مچھ کے آنسو سے بھری آنکھیں اٹھائی اور کرن کے رخسار پر ہاتھ رکھا۔
“اب تو صرف تم ہی مدد کر سکتی ہو میری بیٹی۔۔۔ تم تو جانتی ہو روحان نور سے بات نہیں کر رہا۔” وہ گھما پھیرا کر بات کر رہی تھی اور کرن کو چچی کے اچانک بدلے ہوئے انداز سے کھٹک ہورہی تھی۔
“آپ اس لئے اتنی پریشان ہے۔۔۔۔ فکر مت کیجیئے چچی۔۔۔۔ میں نور کو سمجھاتی ہوں اور مجھے یقین ہے روحان جلد واپس آجائے گا۔” اس نے چچی کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
نگار بیگم نے اس کی معصومیت پر سر ہلا دیا۔
“نہیں بیٹا۔۔۔۔ روحان کی ڈور رانا صاحب کے ہاتھ میں ہے جب تک وہ نہ چاہے روحان کبھی واپس نہیں آئے گا۔” انہوں نے میک اپ سے ڈھکے چہرے پر سے لھڑکتے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔
کرن اب بھی ان کا منتق سمجھنے سے قاصر سنجیدگی سے چچی کو دیکھ رہی تھی۔
اسے حیران دیکھ کر نگار بیگم سیدھے رانا صاحب کے دفتر میں ملنے کی بات پر آئی۔
“تمہیں پتہ ہے۔۔۔ آج میں رانا صاحب کے دفتر ملنے گئی تھی۔۔۔۔ انہوں نے ہی روحان کو ہم سے رابطہ کرنے سے روکا ہوا ہے” نگار بیگم نے افسوس سے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
کرن اس بات پر شاکڈ ہوگئی۔
“کیا۔۔۔۔۔ پر کیوں۔۔۔۔” اس کے آگے وہ کچھ کہہ نہ سکی۔ وہ پوچھنا چاہتی تھی کہ کہی انہوں نے رشتہ سے منع تو نہیں کر دیا لیکن پوچھنے کی ہمت نہ کر سکی۔
“اس رشتہ کے لئے انہوں نے ایک شرط رکھی ہے۔۔۔” نگار بیگم نے پلکیں اٹھا کر کرن کے تاثرات بغور مشاہدہ کئے۔ وہ بلکل ساکت بیٹھی سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
“ان کی شرط ہے کہ۔۔۔۔۔ اااہ مجھ سے تو کہا بھی نہیں جا رہا۔” نگار بیگم نے جھوٹی بے بسی سے سر پکڑ لیا۔
کرن ان کے حرکات سے بے چین ہورہی تھی وہ آگے کو ہوئی اور چچی کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
“کیسی شرط چچی۔۔۔۔۔ بتائیں نا۔” اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔ آنکھیں بنا جھپکائے چچی پر مرکوز کی تھی۔
“بیٹا۔۔۔۔ رانا صاحب کی شرط یہ ہے کہ وہ۔۔۔۔۔۔ روحان اور نور کی شادی تبھی کروائے گے۔۔۔۔ جب۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔۔ ان سے شادی کرو گی۔” نگار بیگم نے سنجیدگی سے کہا۔
نگار بیگم اب کی بار جو گویا ہوئی تو کرن کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ سر پر آسمان ٹوٹ پڑا تھا وہ ان کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ کھینچ کر ان کے پہلو سے اٹھ کھڑی ہوگئی۔ اسے اپنے کانوں سنے چچی کے الفاظ پر یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ قدم قدم چلتی نفی میں سر ہلاتے پیچے ہوگئی۔
نگار بیگم نے اسے پیچے جاتے دیکھا تو جھٹ سے کھڑی ہوگئی اور کرن کو بازو سے پکر لیا۔
“یہی۔۔۔۔ بلکل ایسا ہی ردعمل تھا میرا بھی۔۔۔۔ میں نے انہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن۔۔۔۔۔ وہ اپنے فیصلے کے بہت سخت ہے۔۔۔ انہوں نے میری ایک نہیں سنی۔” چچی نے کرن کو پکڑ کر اپنے بیڈ پر بیٹھایا اور خود بھی ساتھ بیٹھ کر مظبوطی سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
کرن کا دل بھر آنے لگا اس کا وہاں سے بھاگ جانے کا دل کیا۔ وہ اس کے آگے کچھ سننا کچھ جاننا نہیں چاہتی تھی۔ اسے نگار بیگم کی ساری ترتیب کردہ پلاننگ سمجھ آگئی تھی کہ وہ رانا صاحب کے ساتھ پہلے ہی سے سب طے کر کے آئی تھی اور اب بس کرن کو پھسلا رہی تھی۔
“میں جانتی ہوں۔۔۔۔ میں نے کبھی تمہارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔۔۔۔۔ میں نے کبھی تمہیں اپنا نہیں سمجھا لیکن نور۔۔۔۔ اس نے تو ہمیشہ سے تمہیں سگی بہن مانا ہے۔۔۔۔ کتنا پیار کرتی ہے وہ تم سے۔” نگار بیگم نے اپنی چیک والی بات گول کر دی تھی اور اب وہ اسے نور کے نام سے بلیک میل کر رہی تھی۔
کرن چپ چاپ مھٹیاں مینچے بنا آواز سیسک رہی تھی۔ اپنے آنسو کو بہنے سے روکنے کی کوشش کرتی وہ اضطراب میں لب کاٹ رہی تھی۔
“میں سمجھ سکتی ہوں بیٹا۔۔۔۔۔ یہ بہت بڑی قربانی ہے۔۔۔۔ پر میں اپنے لئے تھوڑی کچھ مانگ رہی ہوں۔۔۔۔۔ میں مجبور ہوں۔۔۔۔ نور کا سوچ کر دیکھو صرف 4 دن روحان سے دور رہنے پر اس کی ایسی حالت ہوگئی ہے تو زندگی بھر کیسے رہ پائے گی۔” نگار بیگم نے اس کے سر کو سہلاتے ہوئے نرمی سے کہا۔
کرن اب بھی اپنی بربادی پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی تھی۔
“میں تم پر کوئی زبردستی نہیں کر رہی۔۔۔۔ تم اچھے سے سوچ کر فیصلہ کرو۔۔۔۔۔۔ یاد کرو تیرے مرحوم چچا کے تجھ پر کتنے احسانات ہیں اور پھر نور نے ہمیشہ خود سے پہلے تمہارا سوچا ہے۔۔۔۔۔” چچی نے بلیک میلنگ کی آخری حد تک پار کر دی۔
“پلیز میرے کیئے کی سزا تم میری بیٹی کو مت دو” نگار بیگم نے یہ کہتے ہوئے ہاتھ جوڑے تو کرن نے فوراً سے ان کے ہاتھ پکڑ لیئے اور دو آنسو ٹوٹ کر اس کے رخسار پر گر گئے۔
” پلیز چچی مجھے اتنا مجبور مت کیجیئے۔” اس نے بہتے آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ کہا اور وہاں سے اٹھ گئی۔
“نور کی خوشیاں اب تمہارے فیصلے پر انحصار کرتی ہیں۔”
کرن نے اپنے پیچے چچی کو بھرائی آواز میں اس سے مخاطب ہوتے سنا۔ وہ بنا مڑے ان کی بات سن کر دروازے کے پار بھاگ گئی۔
اس کے کمرے سے نکلنے کے بعد نگار بیگم نے جان چھوٹنے والے انداز میں آبرو اچکاتے ہوئے ایک لمبی سانس لی۔ آنکھیں پونچھ کر نکلی آنسو صاف کئے اور پیر اوپر کر کے نیم دراز ہو کر بیٹھ گئی۔ وہ اپنا کام کر چکی تھی انہوں نے کرن کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا اس لیے تسلی سے موبائل اٹھا کر دیکھنے لگی۔ انہیں سو فیصد نہ سہی 80 فیصد یقین تھا کہ کرن راضی ہوجائے گی۔
**************&&&&**************
وہ ڈگمگاتے قدموں سے اپنے کمرے میں آئی اور دروازہ لاک کر کے وہی دروازے پر ہی نیچے بیٹھ گئی۔ گھٹنوں کے گرد بازو مائل کر کے اس نے سر جھکا دیا۔ آنسو تھے جو تھمنے کا نام نہیں لیں رہے تھے۔
ماں باپ تو اسے یاد ہی نہیں تھے اس وقت اسے سب سے زیادہ انس چاچو کی یاد آرہی تھی۔ اسے یقین تھا اگر انس چاچو ہوتے تو وہ کبھی ایسے حالات پیدا ہونے ہی نہیں دیتے ایک وہی اس کے سچے ہمدرد تھے اس نے مایوسی سے سوچا۔
**************&&&&***************
اگلے دو دن تک وہ بے بسی سے سر پکڑے سوچتی رہی جب کوئی حل نہیں نکال سکی تو ایک آخری امید لیئے وہ اس بارے میں نور سے بات کرنے کے لیے اٹھی اور نور کے کمرے میں آگئی۔
اس سے پہلے کہ وہ نور سے کچھ کہتی نور خود اس سے لپٹ کر رونے لگی۔ ایک ہفتہ سے اس کا روحان سے رابطہ نہ ہوسکا تھا اب اس کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔
“کرن۔۔۔۔ رانا بھائی کو میں کیوں پسند نہیں آئی۔۔۔۔ میں انہیں امپریس کرنے میں ناکام رہی۔۔۔۔ انہوں نے مجھے ریجیکٹ کر دیا۔۔۔۔۔ میں بہت بری ہوں۔۔۔۔۔ روحان نے مجھے کہا تھا اگر رانا بھائی نے مجھے ریجیکٹ کر دیا تو وہ کبھی مجھ سے رابطہ نہیں کرے گا۔۔۔۔۔۔ اور اب وہی ہو رہا ہے۔” اس نے آنسو صاف کرتے ہوئے کرن سے الگ ہو کر افسردگی سے کہا۔
کرن یہاں نور سے اپنا درد بیان کرنے آئی تھی لیکن نور کے آنسوؤں کے آگے اس سے کچھ کہا نہیں گیا۔ وہ اپنے تکلیف کو صرف نظر کرتی نور کو چپ کروانے لگی۔
“نہیں نور۔۔۔ تم بہت اچھی ہو۔۔۔۔۔ تم سب سے بیسٹ ہو اور رانا صاحب مان جائے گے۔۔۔۔۔ تمہاری روحان سے شادی ضرور ہوگی۔۔۔۔ بھروسہ رکھو مجھ پر ۔” اس نے نور کے بال سہلاتے ہوئے اسے پھر سے گلے لگایا۔
“ایک تمہارہ ہی تو آسرہ ہے کرن۔۔۔۔ تم نہ ہوتی تو مجھے کون سنبھالتا۔” نور نے زکام زدہ آواز میں کہا اور کرن کے کندھے پر سر رکھ دیا۔
“سب ٹھیک ہوجائے گا” اسے اپنی آواز کھائی میں سے آتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔
کرن نے کرب سے آنکھیں بند کر کے اپنی پریشانی دل میں ہی دفنا دی۔ دل ہی دل میں اس نے فیصلہ کر لیا تھا اب اس فیصلے کو عملی شکل دینے کی باری تھی۔
****************&&&&******************
نور کو سلا کر وہ واپس اپنے کمرے میں آئی اور خالی ذہن کے ساتھ اپنے بیڈ پر لیٹ گئی۔ ویران خشک آنکھوں سے وہ چھت کو گھور رہی تھی نیند کا کوسوں دور تک کوئی نام و نشان نہ تھا۔ اس نے اپنے پچپن سے لے کر اب تک کی ساری عمر کو یاد کیا 25 سال کے ایک ایک لمحے کو اپنے ذہن میں گردانی کی اور سوچا آج تک اس کو سکون اور خوشیوں کے کتنے پل ملے ہے اور جواب ندارد رہا۔
اسے اپنے آپ پر افسوس آیا وہ مایوسی سے خود پر ہنسی۔
بیڈ پر سے اٹھ کر وہ کھڑکی کی جانب آئی اور تاریک آسمان کو دیکھا۔ آج چاند نہیں تھا اور ہلکے بادلوں کی وجہ سے ستارے بھی دھندلے نظر آرہے تھے بلکل اس کی اپنی زندگی کی طرح۔
اسی طرح سر اوپر اٹھائے وہ اللہ سے شکایت کرنے لگی کہ اس نے اسے ایسی زندگی کیوں دی۔ وہ اس حادثے میں اپنے والدین کے ہمراہ مر کیوں نہیں گئی۔ چلو اسے زندہ رکھا تو پھر اس کے خیرخواہ اس کے انس چاچو کو کیوں حیات نہیں رکھا یا پھر چچی کے دل میں اس کے لئے کبھی ہمدردی کیوں نہیں ڈالی۔ اس کی آنکھیں بھر آگئی دھندلا آسمان پانی میں ڈوبتا نظر آنے لگا۔
رانا صاحب کو یاد کر کے اس کا دل ڈوبنے لگا۔ اسے اس دن کی ان سے ملاقات اور ٹکرانا یاد آیا اور اب ان کی یہ شرط، اسے ایک دم سے رانا صاحب سے نفرت ہونے لگی۔ لیکن اب اس کے پاس چچی کی بات ماننے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا اس نے اپنی زندگی قربان کر کے نور کی خوشیوں کا انتخاب کیا۔ اس کے دل میں پھر سے گلے شکوے ابھرنے لگے پر اس نے سر جھٹک کر ایک آہ بھری اور آنکھیں بند کر کے لمبی لمبی سانسیں لی۔ خود کو نارمل کرنے کے بعد اس نے واپس آسمان کو دیکھا اور اللہ کی بارگاہ سے ناامید ہونے پر معذرت کی اور آکر لیٹ گئی۔
******************&&&&***************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...