“کیا میں اندر آ سکتا ہوں سر۔!” نجیب نے انگلی سے دروازہ بجایا اور سر نکال کر اندر آنے کی اجازت چاہی۔
“ہاں ہاں آؤ نجیب!” انھوں نے لیپ ٹاپ سے نگاہ اٹھا کر مصروف سے انداز میں اسے اجازت دی۔
“ہاں بھئی! کدھر ہے تمھارا دوست، کیا نام تھا اس کا۔۔۔” انھوں نے کچھ دیر کے لیے کام روک دیا
“جی سبکتگین! میں اسی سلسلے میں بات کرنے آیا تھا۔”
“بیٹھو۔!” اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے وہ دوبارہ کام کی طرف متوجہ ہوئے۔
“سر وہ آفس کے دوران نہیں آ سکتا، پھر آپ بتا دیں کہ کس وقت وہ آپ سے ملنے آئے۔ دراصل چھٹی ملنا بھی مشکل ہے۔” انھوں نے پرسوچ انداز میں سر ہلایا اور کچھ توقف کے بعد بولے:
“بات تو عبیرہ کی موجودگی ہی میں ہونی ہے۔ تم نے بتایا تھا کہ اسے بیکنگ کا شوق ہے، تو اسی حوالے سے عبیرہ کے پاس ایک پیشکش تھی۔ ہو سکتا ہے تمھارے دوست کو بھی پسند آ جائے۔” نجیب سوچ رہا تھا کہ نجانے ایسی کیا پیشکش تھی جو ایک کیک کا ٹکڑا کھاتے ہی عبیرہ بیگم کے دماغ میں سما گئی تھی۔
“تو سر میں آج چھٹی کے بعد اسے بلا لیتا ہوں یہیں۔ عبیرہ میڈم بھی۔۔۔”
“نہیں نہیں، آفس میں، چھٹی کے بعد نہیں۔” انھوں نے درمیان ہی میں اس کی بات کاٹی تھی۔
“ایسا کرو، پرسوں اتوار کو شام کی چائے میرے ساتھ، میرے گھر پہ پیو۔ وہیں سب باتیں کرتے ہیں۔”
“آپ کے گھر پہ۔۔!!؟ ” عبیرہ کی پیشکش کیا تھی وہ تو بعد میں دیکھا جاتا، فی الحال تو اسے ان کی گھر بلانے کی دعوت عجیب لگی تھی۔
“ہاں گھر پہ، کیوں؟ کوئی مسئلہ ہے کیا؟” وہ بھی اس کی حیرت بھانپ چکے تھے۔
“نن۔۔ نہیں سر! لیکن۔۔”
“بےفکر رہو، گھر پہ میری بیوی، بیٹی اور ملازم سب ہوتے ہیں، تم بلا جھجھک آنا۔ اتوار کو شام چار بجے۔” اسے اپنا ذاتی کارڈ دیا جس پہ ان کا نمبر اور گھر کا پتا درج تھا۔
“اوکے سر!” حیرت کو چھپاتا، کارڈ والٹ میں رکھتا، وہ ان کے کمرے سے نکل گیا تھا۔ اس کے جانے کے بعد انھوں نے فون کرکے عبیرہ لو اطلاع دی تھی جو پچھلے دو دن سے ان کا دماغ کھا رہی تھی کہ کب نجیب کے دوست سے ملاقات طے کریں گے۔ فون بند کرکے وہ دوبارہ کام کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
اوپر کے ہال کمرے میں کام شروع ہو چکا تھا۔ سبکتگین نے اس مستری کو سارا کام سمجھایا تھا کہ اسے شیلف کے نیچے کس قسم کے دراز بنوانے ہیں جہاں وہ اپنا بیکنگ کا سامان محفوظ کر سکے، ان درازوں کے سامنے والی دیوار میں اس نے جگہ چھوڑ دی تھی تاکہ بعد میں وہاں فرانسیسی طرز کا ریفریجریٹر رکھوا سکے۔ ریفریجریٹر کے ساتھ ایک الماری بننی تھی جہاں اس نے مستقبل میں کانچ کے بڑے بڑے ہوا بند ڈبوں میں چاکلیٹ، کینڈیز، خشک میوہ جات وغیرہ سجانے تھے، اور اس کے ساتھ بڑا بیکری والا مخصوص اوون دیوار میں نصب کروانا تھا، اور اس کے ساتھ ایلومینیم کا بنا چار سے پانچ خانوں پہ مشتمل ریک، جس میں وہ اوون سے بیک شدہ چیزیں نکال کر رکھ سکتا تھا۔ اسی ریک کے سامنے کی شیلف پہ اس نے جدید طرز کا چولہا سیٹ کروانا تھا۔ آگ کی آنچ کو کم، زیادہ یا درمیانے درجے پہ سیٹ کرنے والا۔ ریک اور چولہے کے درمیان کی جو دیوار بچ جاتی تھی وہاں اس نے سیاہ چاک بورڈ رنگ کروانا تھا۔ جدید چاک مارکرز سے ان پہ اپنی ترکیب کے اجزاء اور ضروری یادداشتوں کو لکھنے کے لیے۔
اس نے اپنے لیپ ٹاپ میں یہ سارا ڈیزائن بنایا ہوا تھا اور ابھی اس کے کلر پرنٹ نکلوا کر، اس راج مستری کے سامنے رکھے بیٹھا تھا۔
“کدھر ایم بی اے کرکے دفتروں کے چکروں میں پڑ گئے سبکتگین بیٹا! تم تو بنے بنائے انجینئر ہو۔” وہ راج مستری اپنے کام کا ماہر اور نہایت تجربہ کار شخص تھا۔ اور اس کے ابا کے جاننے والے تھے۔
“بس کریں سلیم چچا۔! ابا پہلے ہی میرے کھانے پکانے سے عاجز ہیں، اس پر آپ نے یہ نئی صلاح دے دی تو آپ سمیت میرا بھی داخلہ بند ہو جائے گا گھر میں۔” چائے کا خالی کپ میز پر رکھتے، انھوں نے دم دار سا قہقہہ لگایا تھا اور پھر سنجیدگی سے ڈیزائن کی طرف متوجہ ہوئے۔
“بھئی، کمال کا ڈیزائن سوچا ہے تم نے، شاباش! ذہن تو خوب دیا ہے اللہ نے۔” انھوں نے اس کی پیٹھ ٹھونکی، وہ اگر مضبوطی سے جم کر نہ بیٹھا ہوتا تو یقیناً گر ہی جاتا۔۔
“لیکن ٹھیک کہتے ہیں تمھارے ابا۔! کہ میرے لڑکے کی ذہانت کو چاکلیٹ اور مکھن کی خوشبو لے ڈوبی۔” وہ ہنس رہے تھے جبکہ وہ برے برے منھ بنا رہا تھا کہ ابا نے تو ہر دوسرے بندے کے سامنے اسے ذلیل کرنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ بہرحال اگلے آدھے گھنٹے میں انھوں نے اپنے تجربے کی بنیاد پر اسے سارا سامان اور اس پہ اٹھنے والا خرچ بتا دیا تھا۔
“جو کام میرے کرنے کا ہے، وہ مجھے ہی کرنا ہے۔ باقی یہ ایلومینیم کا ریک، اور اس طرح کی دوسری چیزیں، میں اپنے ساتھی اشرف سے کہوں گا۔” اس کا بنایا ڈیزائن تہ لگا کر اپنے چھوٹے سے دستی بیگ میں رکھا تھا۔
“آپ کو جو، جیسے بہتر لگے چچا! کس سے کیا کروانا ہے، سامان کہاں سے اور کیسا لانا ہے، سب آپ کی ذمہ داری ہے۔” ان کا گھر بھی سلیم چچا نے ہی ٹھیکے پہ بنایا تھا۔ اس لیے ان پہ مکمل بھروسہ تھا۔
“میں پھر کل ہی سے سارا سامان وغیرہ خرید کر کام شروع کرتا ہوں۔ تم چلو گے میرے ساتھ بازار؟” اٹھتے ہوئے انھوں نے اس سے پوچھا۔
“مجھے آفس سے چھٹی نہیں ملے گی چچا! کام کا بوجھ کچھ زیادہ ہے۔ سب کچھ آپ ہی نے کرنا ہے۔” اس کی بات نے انھیں جی بھر کر خوش کیا تھا۔ کسی کا آپ پہ، آپ کے کام پہ کیا جانے والا بھروسہ ہی آپ کی زندگی کی سب سے بڑی کمائی ہوتا ہے۔ اور راج مستری سلیم کا کام، ان کے کام کی نفاست منھ بولتا ثبوت تھی کہ انھوں نے کبھی کسی کو اپنے کام سے مایوس نہیں کیا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
اریبہ زور و شور سے بیالوجی کا کوئی سبق یاد کرنے میں مگن تھی۔ جب اقدس نے کتابوں کا ڈھیر لا کر اس کے سامنے پٹخا اور دھم سے اس کے برابر گرنے کے سے انداز میں بیٹھی تھی۔
“کیا آفت آ گئی اقدس؟!” اریبہ کو پڑھائی کے دوران تنگ کیا جانا سخت ناپسند تھا۔ لیکن یہ اقدس بھی، اس کا تو کھانا ہی ہضم نہیں ہوتا تھا جب تک اسے چھیڑ نہ لیتی۔۔
“مجھ سے نہیں ہوتی پڑھائی وڑھائی۔۔” بی ایس انگریزی کا پانچواں سمسٹر چل رہا تھا۔ پڑھائی عروج پہ تھی۔
“نت نئے شاعر، نت نئی انگریزی۔۔ تنگ آ گئی ہوں۔ ایک لفظ کا تلفظ سیدھا ہوتا ہے تو ساتھ نیا لفظ لائن میں بڑھا چلا آ رہا ہوتا ہے۔ اف خدایا۔!” اس نے ایک کتاب کھول کر چند لفظ اریبہ کو پڑھانے چاہے۔
“مجھے تم میرا سبق ہی پڑھنے دو، اس وقت معاف ہی رکھو۔” اریبہ نے ہاتھ سے اس کی کتاب پرے کی اور پھر سبق یاد کرنے لگی۔
“پتا نہیں یہ انگریز کیسے اتنے مشکل الفاظ ادا کر لیتے ہیں۔” وہ پڑھائی میں اچھی تھی، انگریزی کا مضمون بھی اس نے خود ہی چنا تھا۔ لیکن کبھی کبھی تنگ بھی پڑ جاتی تھی۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی فرد اپنی روز مرہ کی زندگی سے اکتا جاتا ہے، ہر روز کی پسندیدہ چیزیں بھی بری لگنے لگتی ہیں۔
“یہی بات انگریز بھی سوچتے ہوں گے کہ ہم پاکستانی کیسے اتنی مشکل اردو بول لیتے ہیں؟” اریبہ نے لقمہ دیا۔
“ویسے وہ کون سے لوگ ہیں جو اردو بول لیتے ہیں؟؟” اقدس نے بہن سے طنزاً پوچھا۔
“ہیں کچھ لوگ جو اردو بول سکتے ہیں۔ جیسا کہ ہماری اردو کی میڈم، میم منزہ!”
“خیر۔۔۔!” اقدس نے اس کی بات ہوا میں اڑائی اور کہنے لگی:
“میں تو غزنوی بھائی سے کہوں گی، مجھے کینیڈا بلوا لیں۔ کم از کم بی ایس انگریزی کرنے کا تو فائدہ ہو۔” وہ کتابوں کا تکیہ بنا کر لیٹتے ہوئے بولی:
“واہ واہ۔۔ بہت خوب! اقدس بی بی کو لگتا ہے کہ ایک چھوٹا سا بی ایس انگریزی کرکے وہ کینیڈا کے انگریزوں کو انگریزی پڑھائیں گی۔”اریبہ کا دل جلا قہقہہ اسے تپا گیا۔ وہ منھ پہ ہاتھ رکھے ہنستی چلی گئی تھی۔
“کیا ہے اریبہ! پاگل ہو گئی ہو کیا۔!؟” کون کہتا کہ دونوں بڑی ہو گئی تھیں۔ اب بھی لڑائی ہوتی تو بچوں کی طرح جھگڑا شروع کر دیتی تھیں۔
“تم دونوں سکون سے، بغیر لڑائی کیے، کچھ دیر اکٹھے نہیں بیٹھ سکتیں؟” شازیہ نے بروقت ان کے کمرے میں حاضری دی تھی۔
“امی یہ اریبہ مجھے تنگ کرتی ہے۔” اریبہ کے بال جو، اقدس کی مٹھی میں دبے تھے۔ انھیں چھوڑتے اقدس پیچھے ہوئی اور اپنے بال درست کرنے لگیں۔ جنھیں اریبہ نے اس ذرا دیر میں گنجلک دھاگوں کا گچھا سمجھ کر خوب کھینچا تھا۔
“کب جائے گا تم دونوں کا یہ بچپنا۔۔ خدا کی پناہ! جوان ہو گئیں لیکن ہاتھا پائی کی عادت اب تک نہیں گئی۔” ان دونوں کا حلیہ دیکھ کر شازیہ کا دل کیا کہ پاؤں میں پہنی چپل اتار کر دونوں ہی کی چھترول کر دیں۔ لیکن صرف زبانی کلامی دو چار سنا کر ہی بھڑاس نکالی تھی، دونوں ہی ماں کے سامنے ہنسی دباتی، چپکی ہو رہیں۔
“میں تمھاری خالہ کے گھر جا رہی ہوں۔ اریبہ تم آٹا گوندھ کر، برتن دھو لینا اور اقدس تم روٹی بنا کر دال کو تڑکا لگا دینا۔” وہ انھیں ہدایت دے کر واپسی کو مڑیں اور دروازے کے قریب پہنچ کر دوبارہ پلٹ کر انھیں دیکھا۔
“اور خبردار جو دوبارہ کتے بلی کی طرح لڑائی کی، مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔” ان کی بات میں چھپا پیغام وہ بخوبی سمجھ گئی تھیں۔ جب شازیہ ایسی دھمکی دیتی تھیں تو وہ سمجھ جاتیں کہ تین دن کے لیے ان کا ٹی وی دیکھنا بند، ٹی وی بند مطلب اپنے پسندیدہ ڈرامہ سیریلز کی چھٹی۔۔۔ جو کہ ان دونوں کو ہی منظور نہیں تھا۔
“خالہ نے بلایا ہے آپ کو امی؟” اریبہ نے پوچھا تھا۔
“سبکتگین نے اوپر کچن کا کام شروع کروایا ہے، فوزیہ نے بلایا تھا کہ چکر لگا لوں۔ آدھے گھنٹے تک آ جاؤں گی۔ سارے کام ہو جانے چاہییں۔ورنہ ٹی وی والے کمرے میں داخلہ بند سمجھنا” انھیں دھمکاتے وہ چلی گئیں تو اقدس بولی:
“پتا نہیں اب سبکتگین کیا کرے گا اوپر کچن بنوا کر۔۔”
“بوتیک بنائیں گے وہاں سبکتگین بھائی۔!” اریبہ کی زبان میں کب کھجلی نہیں ہوتی تھی بھلا۔
“کچن بنوا رہے ہیں تو یقیناً بیکنگ ہی کیا کریں گے۔ اب کچن میں بندہ اور کیا کرتا ہے؟” وہ اس کی عقل پہ گویا ماتم کر رہی تھی۔
“اس کے تو سارے شوق ہی الٹے ہیں اور تم سب لوگ جو اس کے حمایتی ہو، وہ سب بھی الٹے پلٹے۔۔” وہ ساری تایا ابا پہ تھی، انھیں کی لاڈلی انھیں کی زبان بول رہی تھی۔
“ہاں بس اس گھر میں ایک تم اور دوسرے تایا ابا ہی سیدھے سادھے ہیں۔ سبکتگین بھائی کا بیکنگ کرنا اتنا ہی برا لگتا ہے تو کھاتی ہی کیوں ہو، ان کی بنی کوئی چیز؟”
“واہ کیوں! کفران نعمت کرنا تو میں نے سیکھا ہی نہیں۔” ڈھٹائی سے کہتے وہ اٹھی، امی کے آنے سے پہلے اپنے حصے کے کام ختم کرنے تھے۔
“اب جب انھوں نے کوئی چیز بنائی تو کہوں گی کہ کوئی ضرورت نہیں تمھیں دینے کی۔”
“سبکتگین ایسا کر ہی نہیں سکتا۔ اسے میرا ہمیشہ سے خیال رہتا ہے۔” وہ اپنی ہی لے میں بول گئی تھی، اریبہ رکی اور پلٹ کر بولی:
“وہ تمھارا خیال رکھتے ہیں تو تم بھی ان کا خیال رکھ لیا کرو۔ ان کے شوق پہ ناک بھوں نہ چڑھایا کرو۔” اریبہ کی بات سن کر اس نے ہمیشہ کی طرح سر جھٹک دیا تھا۔ اریبہ دل ہی دل میں اسے خوب سناتے، کچن کی طرف چلی گئی تھی۔ اس نے آٹا گوندھنے میں دیر کرنی تھی تو اقدس نے جان بوجھ کر چیخ کر امی سے ڈانٹ پڑوا دینی تھی۔ ایسے ہی تھا ان دونوں بہنوں میں، جتنا آپس میں لڑتی تھیں، اتنا ہی پیار بھی تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ اظہار کم کم کرتی تھیں۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
غزنوی سات بجے، ردابہ کے گھر جانے کے لیے اپنے اپارٹمنٹ سے نکلا تھا۔ روزمرہ کی ٹریفک اور اپنی ڈرائیونگ کی مناسب رفتار رکھتے ہوئے اسے پورے چالیس منٹ لگتے تھے اس کے گھر پہنچنے میں۔ وہ احتیاطاً جلدی نکلا تاکہ وقت پہ پہنچ جائے، لیکن عین وقت پہ گاڑی نے داغ مفارقت دی تھی، شام تک تو بالکل ٹھیک ٹھاک تھی، اب سٹارٹ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی وہ کافی دیر کوشش کرتا رہا لیکن گاڑی بس ایک ہلکا سا جھٹکا لے کر رہ جاتی تھی۔
“اسے بھی ابھی خراب ہونا تھا۔” اس نے بیزاری سے سٹیئرنگ پہ ہاتھ مارا تھا۔ وہ ٹیکسی کے ذریعے جانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اس کے فون پہ سفیر کی کال آئی۔
“ہاں بھئی غزنوی! کتنی دیر میں پہنچ رہے ہو؟ نکل چکے یا ابھی گھر پہ ہی ہو؟”
“گاڑی ہی سٹارٹ نہیں ہو رہی، پہنچنا کہاں ہے۔؟” اس نے ایک آخری کوشش کی اور ناکام ہو کر گاڑی سے باہر نکلا۔۔۔
“اف سردی۔!” اس کے منھ سے بےساختہ نکلا سفیر بھی سن کر ہنس دیا تھا۔
“دو سال ہو گئے تمھیں یہاں رہتے، اب تک تم سردی کے عادی نہیں ہوئے۔”
“عادی تو میں پاکستان کی گرمی کا بھی کبھی نہیں ہوا تھا۔”
“اچھا تم گاڑی میں دبکے رہو، میں اسی طرف ہوں، تمھیں لیتے ہوئے ہی چلتا ہوں۔ بس دس منٹ میں پہنچ رہا ہوں۔” وہ کلمہ شکر پڑھتے دوبارہ گاڑی میں بیٹھ گیا تھا۔ ان دس منٹوں میں ردابہ کی تین مسڈ کالز اور دس میسج آ گئے۔
“کہاں ہو؟”
” گھر سے نکلے یا نہیں؟”
“دیر مت کرنا۔”
“جلدی پہنچو۔” اسی قسم کے میسج پڑھتے وہ تنگ آ گیا۔ مانو جیسے وہ چھوٹا بچہ ہو، جسے خود سے علم نہیں کہ کب کہاں کیا کرنا ہے۔؟
“آ رہا ہوں۔” اس نے محض ایک میسج کیا اور تبھی سفیر کی گاڑی کا ہارن سنائی دیا تھا۔
سفیر کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتے، اس نے قصداً فون آف کر دیا تھا۔ گاڑی میں بیٹھتے وقت ساتھ لایا بکے اٹھانا نہیں بھولا تھا۔
“تم اندر چلو غزنوی! میں گاڑی کھڑی کرکے آتا ہوں۔” وہ گاڑی سے اترا اور تین سیڑھیاں چڑھ کر داخلی دروازے کے سامنے کھڑا ہوا اور بیل بجائی۔
“یہ وقت ہے تمھارے آنے کا؟ آٹھ بجے کا کہا تھا اور اب سوا آٹھ بج رہے ہیں۔” دروازہ بجلی کی سرعت سے کھلا تھا اور بغیر سلام دعا کے ردابہ نے اس پہ چڑھائی کر دی۔
“اور جناب نے تنگ آ کر فون بھی بند کر دیا تھا، جیسے مجھے تو کوئی اور کام ہی نہیں، سوائے تمھیں فون کرنے کے اور۔۔۔”
“ردابہ! تم جانتی ہو سردی سے اس کی جان جاتی ہے۔ یہ سب سوال گھر کے اندر چل کر بھی ہو سکتے ہیں۔” سفیر گاڑی کھڑی کرکے آ چکا تھا۔
“اور اس کی گاڑی خراب ہو گئی تھی، جو دیر ہوئی، میری وجہ سے ہوئی۔” ردابہ سے کہتے، اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھے اندر کی جانب بڑھا۔
“یہ کم از کم مجھے بتا ہی دیتا۔” وہ شرمندہ ہوئی۔ اسے ابھی پتا چلا تھا کہ وہ سفیر کے ساتھ آیا ہے۔
“ان چند منٹوں میں تم نے کچھ بولنے کا موقع دیا؟” حقیقت بھی یہی تھی کہ اسے بولنے کا موقع ہی اب ملا تھا۔
“ان خواتین کے سامنے بولنے کا موقع ملتا ہی کسے ہے؟” سفیر اور وہ ہنستے ہوئے اندر داخل ہوئے تھے۔ کھانا نہایت خوشگوار ماحول میں کھایا گیا تھا۔ اور کھانے کے بعد ڈائننگ ہال سے نکل کر وہ سٹنگ روم میں چلے آئے تھے۔ سبز قہوے کا دور چلا تبھی کاشف صاحب نے بات کا آغاز کیا۔
“ہاں تو غزنوی بیٹا! ردابہ نے مجھے بتایا کہ تم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو۔”
“جی انکل۔۔!” اسے ان سے اس قدر صاف گوئی کی توقع نہیں تھی کہ وہ بلا تمہید ہی بات شروع کر دیں گے۔
“ثمینہ کی وفات کے بعد میں نے دونوں بچوں کو باپ اور ماں بن کر پالا ہے۔ ہر خواہش پوری کی ہے۔ دونوں نے جو چاہا ہے وہ دیا ہے۔” قہوے کا گھونٹ گھونٹ پیتے وہ بات جاری رکھے ہوئے تھے۔ تینوں ہی خاموشی سے سن رہے تھے۔
“تم اچھے، نیک عادات کے مالک ہو، شریف النفس خاندان سے تعلق رکھتے ہو۔ مجھے خوشی اور اطمینان ہے کہ ردابہ نے تم جیسے اچھے لڑکے کا انتخاب کیا ہے۔ لیکن۔۔” انھوں نے توقف کیا اور قہوے کا آخری گھونٹ بھر کر خالی پیالی میز پہ رکھی۔ ان کی یہ چند لمحے کی خاموشی غزنوی کے لیے بہت بھاری تھی۔
“لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ سفیر اور ردابہ کی شادی ایک ہی گھرانے میں کروں۔”
“جی۔!؟” ان کی یہ بات جتنی غزنوی کے لیے حیران کن تھی، اتنی ہی سفیر اور ردابہ کے لیے بھی۔
“جی ہاں۔! جس طرح یہ دونوں بہن بھائی، ایسے ہی ان سے شادی کرنے والے بھی بہن بھائی ہوں۔”
“لیکن ڈیڈی آپ نے پہلے کسی ایسی شرط کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔” پہلا اعتراض ردابہ کی طرف سے آیا تھا۔
“یہ کوئی شرط نہیں ہے بیٹا۔! بس تمھارا باپ ہونے کی حیثیت سے اپنی اولاد کے مستقبل کو محفوظ کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔” وہ ان تینوں کے تاثرات کو بغور جانچ رہے تھے۔
“سفیر تم کسی کو پسند کرتے ہو تو بتا دو!”
“لیکن ڈیڈی۔!” ردابہ کو اب بھی اعتراض تھا۔ انھوں نے ہاتھ اٹھا کر اسے چپ رہنے کا کہا تھا۔ اور سفیر کا نفی میں ہلتا سر دیکھ کر دوبارہ غزنوی کی طرف متوجہ ہوئے اور بولے:
“تم نے ایک بار ذکر کیا تھا کہ تمھاری ایک چھوٹی بہن بھی ہے غزنوی۔!” وہ اب جیسے ان کی بات سمجھنے لگا تھا۔
“میری ایک نہیں، دو چھوٹی بہنیں ہیں انکل۔!” باتوں کے دوران ہی قہوہ ہاتھ میں پکڑے پکڑے ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ اس نے پیالی واپس رکھی تھی۔
“تو پھر اپنے والدین سے اپنی بڑی بہن کے لیے بات کریں۔ سفیر کے لیے۔” سفیر نے حیرت سے باپ کو دیکھا جبکہ ردابہ احتجاجاً وہاں سے چلی گئی تھی۔ سفیر نے غزنوی کی موجودگی کے پیش نظر خاموشی ہی مناسب سمجھی۔ ڈیڈی نے جو فیصلہ کیا تھا کچھ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہو گا۔
“اوکے انکل۔! میں بہت جلد گھر والوں سے بات کرکے آپ کو اطلاع دوں گا۔” غزنوی وہاں سے اٹھ آیا۔ اور ردابہ کو ڈیڈی کی بات پہ اتنا غصہ تھا کہ اس نے، غزنوی کو رخصت تک نہ کیا تھا۔
“سفیر اور اقدس۔۔۔ وہ اور ردابہ، یعنی وٹہ سٹہ۔۔” اس نے واپسی کے لیے ٹیکسی منگوا لی تھی۔ گھر تک پہنچتے پہنچتے اس کے دماغ میں یہی سب چل رہا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
سبکتگین چار بجے نجیب کے ہمراہ اس کے باس حسین صاحب کے گھر پہنچا تھا۔ چائے کی میز پہ ڈھیروں لوازمات موجود تھے۔
“سبکتگین صاحب! ہو سکتا ہے ان میں سے بیکری کی بہت سی چیزیں آپ کو کچھ زیادہ پسند نہ آئیں کیونکہ مقامی بیکری سے ہی لائی گئی ہیں۔” ملازم نے چائے پیش کی تو عبیرہ کی بات پر، سبکتگین نے میز پہ رکھی سب چیزوں پہ سرسری نگاہ ڈالی تھی۔
“میزبان کا خلوص اور مہمان نوازی ہی سب سے بڑھ کر ہوتا ہے مس حسین! پھر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بیکری مقامی ہے یا بین الاقوامی۔!” اس نے ایک چکن رول پلیٹ میں نکالا تھا۔ حسین صاحب نے اس کی بات پہ پسندیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے بیگم کو دیکھا تھا۔ دونوں کی نگاہوں میں ایک سے تاثرات تھے، یہ سب نجیب بخوبی دیکھ رہا تھا۔ اسے کچھ اٹ پٹا لگ رہا تھا۔
“باقی کچھ کھانے کا اصرار نہیں کروں گی، لیکن یہ ضرور کہوں گی کہ آپ کھائیے۔” عبیرہ نے کانچ کی ایک نازک سی پلیٹ اس کی جانب بڑھائی۔
“جی ضرور!” ایک اچھے مہمان کی طرح شکریہ کہتے سبکتگین نے کیک کا ٹکڑا اپنی پلیٹ میں نکالا، عبیرہ نے نجیب کو بھی پیش کیا تھا۔ سبکتگین نے کانٹے سے کیک کا ٹکڑا منھ میں رکھا تھا۔ عبیرہ غور سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
“ریڈ ویلوٹ کریم چیز کیک ہے۔!” اس نے بتایا۔
“کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس میں کیا کمی ہے؟” اس کی بات سن کر سبکتگین سوچ میں پڑ گیا۔ کہ کیا کہے۔
“دیکھیے مس حسین۔!”
“نہیں سبکتگین صاحب! مروت میں، دل رکھنے کو اچھا مت کہیے گا۔ تصحیح کے لیے مثبت تنقید کیجیے۔” عبیرہ نے فراخدلی سے اسے بولنے کا کہا تھا۔
“بات یہ ہے کہ میں اب اتنا بڑا یا تجربہ کار شیف تو ہوں نہیں کہ میں کو ٹھیک سے بتا سکوں کہ کیا کمی ہے؟ اور یہ جو کیک ہے یہاں ہمارے شہر میں تو اس کا نام بھی اکثریت کے لیے نیا ہی ہو گا۔ جب نام نیا ہے تو اس کا ذائقہ بھی نیا ہی ہے۔ لہٰذا میرے لیے بھی نیا ہی ہوا۔” اس نے کیک کھا کر خالی پلیٹ رکھی اور چائے کی پیالی اٹھائی:
“میں یہ تو نہیں بتا سکتا کہ کیا کمی ہے، لیکن یہ ضرور بتا سکتا ہوں کہ کیک ذائقے میں اور اس کی کریم چیز فراسٹنگ بہت زبردست تھے۔”
“ہم نے آج آپ کو اسی لیے یہاں مدعو کیا تھا کہ آپ کو ایک بڑا اور تجربہ کار شیف بننے کی پیشکش کی جائے۔” بالآخر حسین صاحب اصل موضوع کی طرف آئے۔
“میری تو دلی خواہش ہے سر! کہ میں ایک بہترین شیف بنوں اور اپنی بیکری بناؤں۔” اس کے لہجے کا جوش بتا رہا تھا کہ اس سلسلے میں وہ کتنا پر عزم تھا۔
“میں اور عبیرہ آپ کو شیف بننے سے لے کر بیکری بنانے تک آپ کی مدد کر سکتے ہیں، لیکن بہتر سے بہترین تک کا سفر آپ کو خود ہی کرنا ہو گا۔” حسین صاحب نے کہا جبکہ عبیرہ اور اس کی والدہ صرف ایک خاموش سامع کا کردار نبھا رہی تھیں۔
“جی۔!!؟” وہ حیران ہوا، نجیب بھی سوچ رہا تھا کہ انھیں کیا پڑی تھی جو سبکتگین کی مدد کرنا چاہ رہے تھے۔ آخر کیا مفاد ہو سکتا تھا؟ یہی کچھ سبکتگین بھی سوچ رہا تھا۔
“میری مدد! مگر کیوں؟”
“جی ہاں! ہم آپ کو اپنی طرف سے ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہیں کہ ہم آپ کی مدد کریں گے، اور اس کے بدلے میں آپ کو میری بیٹی کے ساتھ آسٹریلیا جانا ہو گا۔” ان کی آخری یہ کی گئی پیشکش۔۔۔ گویا بم دھماکہ ثابت ہوئی تھی۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**