سیل فون کی مسلسل بجنے والی بیل سے فائزہ کی آنکھ کھل گئی -اس نے کال رسیو کی – ہیلو کون صبح صبح نیند خراب کر دی -فائزہ کبھی وقت پر اٹھ جایا کرو کتنا سوتی ہو -میں ہوں ایمان -ایمان یار کیا ہے میری نیند خراب کر دی -صبح کے آٹھ بج گئے ہیں میں نے کوئی صبح سویرے نہیں جگا دیا -اتنی نیند کی پرواہ ہے تو رات کو جلدی سو جایا کرو ساری رات جو سیل فون پر لگی رہتی ہو -ایمان یار اب تم مما کی طرح نصیحتیں شروع نہ کر دینا یہ بتاؤ کال کیوں کی ہے -میں آج یونیورسٹی نہیں آ رہی ہوں زوہیب بھائی کی منگنی کی رسم ہے کل یونیورسٹی میں مجھے یاد نہیں رہا تمہیں بتانا اور تم بھی آ جانا شام کو چار بجے -ایمان یار منگنی کی رسم شام چار بجے ہے تم نے مجھے اب جگا دیا -کیا یونیورسٹی نہیں جانا تھا -ایمان یار وہ تو میں نے نو بجے جانا تھا ناں – تو اطلاع کے لیے عرض ہے اب آٹھ کب کے بج چکے ہیں تم تو تیار ہونے بھی اتنا ٹائم لگاتی ہو -میں اب کال نہ کرتی تو تم نے ہی کل کو ناراض ہونا تھا مجھے کیوں نہیں بتایا میں یونیورسٹی میں اکیلی بور ہوتی رہی -اچھا ایمان میڈم اطلاع کرنے کا شکریہ اب یونیورسٹی تو میں بھی نہیں جارہی چلو تمہارے گھر آ جاؤں گئی اب تو سونے دو یار -ٹھیک ہے فائزہ خداحافظ سو جاؤ تم-ہوں یہ لڑکی بھی ناں کتنا سوتی ہے –
کیا میں بھی تم لوگوں کے ساتھ منگنی کے لیے ان کے گھر جاؤں گا نہیں بھائی آپ نے تو گھر ہی پر رہنا ہے بس ہم سب گھر والے اور فائزہ کو میں نے بلایا ہے وہ بھی ہمارے ساتھ جائے گی -اچھا ایمان ایک ہمارے گھر والوں کی رسم ہے یہ بھئی جس لڑکے کی منگنی ہے اس کو چھوڑ کر سب جا سکتے ہیں۔ عجیب ہے یہ بھی ناں ایمان -اس وقت وہ دونوں لاؤنچ میں بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے -اف بھائی اس میں عجیب کون سی بات ہے بہت سے لوگوں منگنی ایسے کرتے ہیں -ویسے آپ کی باتوں سے لگتا ہے آپ کا ساتھ جانے کو دل کر رہا ہے -نہیں ایمان میں تو ویسے بات کر رہا تھا -نہیں بھائی مجھے تو دال میں کچھ کالا لگتا ہےہس لو ایمان یہ وقت تم پر بھی آنا ہے پھر دیکھنا میں کیسے تمہیں تنگ کرتا ہوں کیا ابھی تو میں نے بات کی اور تم شرما رہی ہو -اف زوہیب بھائی کتنے بدتمیز ہیں مجھے تنگ کرتے ہوئے شرما نہیں آتی آپ کو -ایمان تم تو سریس ہو گئی میں تو اپنی پیاری بہن سے مذاق کر رہا تھا -اچھا یہ ناراضگی چھوڑو چلو چائے لے کر آؤ مل کر پیتے ہیں – ایمان یار ویسے فوزیہ بھابی کتنی پیاری ہیں زوہیب بھائی اور فوزیہ کی جوڑی بہت پیاری لگے گئی -ہاں فائزہ یہ تو ہے اچھا شادی کب تک کرنے کا ارادہ ہے اگلے مہینے شاید کیوں کہ ان کے گھر والوں کو ویسے بھی جلدی ہے -وہ دونوں اس وقت یونیورسٹی کی کینٹین میں بیٹھ کر باتیں کر رہی تھی -ایمان ایک اور بات تو بتاؤ -ہاں فائزہ بولو -مجھے لگتا ہے سکندر تم سے سچ میں محبت کرتا ہے -فائزہ یہی فضول بات کرنی ہے تو پھر خاموش بیٹھی رہو -ایمان بات تو سنو میں اس لیے بول رہی تھی کہ اس نے پھر تم سے بات نہیں کی کیوں کہ وہ تم سے شادی کرنا چاہتا ہے -بس کرؤ فائزہ یہ فضول باتیں کرنی ہیں ناں تو یہاں سے جاسکتی ہو-اف ایمان ایک تو تم غصہ بہت جلدی کرتی ہو -جب کہ تم جانتی ہو کہ مجھے یہ فضول باتیں پسند نہیں نہ کبھی میں نے لڑکوں سے باتیں کی ہیں اور سکندر سے تو میں بہت نفرت کرتی ہوں پھر بھی تم جب ایسے باتیں کرؤ گئی غصہ تو آنا ہے پھر -ایمان غصے سے بولی”اوکے سوری ایمان “آج کے بعد میرے سامنے اس شخص کا نام نہ لینا –
رضا ان لڑکیوں کو دیکھ رہے ہو یہ وہی ہیں ناں جو اس دن اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے سامنے بنچ پر بیٹھی جھگڑا کر رہی تھیں -ہاں جانی یار لگتی تو وہی ہیں ایک حجاب والی اور دوسری بھی وہی ہے -کیوں جانی تو کیوں پوچھ رہا ہے -یار ویسے کچھ سوچ رہا تھا اس حجاب والی سے اپنا تعارف کرواتا ہوں -ہاہاہاہا یار جانی کسی کو تو چھوڑ دو کیوں حجاب والی میں اب تمہیں کیا نظر آرہا ہے -بیچاری کو کیوں تنگ کرتے ہو -یار رضا زیادہ مولوی بنے کی تجھے ضرورت نہیں ہے -جانی سگریٹ جلاتے ہوئے بولا وہ اس وقت شکل سے بھی کوئی غنڈہ لگ رہا تھا وائٹ شرٹ اور نیلی جینز میں ملبوس شرٹ کے دو بٹن کھولے ہوئے جس سے چوڑا سینہ نظر آرہا تھا وہ ایک امیر باپ کا اکلوتا بیٹا ہے اور سکندر کا کلاس فیلو ہے – جنید نام ہے لیکن سب جانی کہتے ہیں -وہ اس وقت کینٹین میں بیٹھ کر باتوں میں مصروف تھا
چچی جان پھر بھائی کی شادی کی ڈیٹ کب فکس ہو رہی ہے ایمان اس وقت لان میں بیٹھی اپنی ماں اور چچی کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی -ایمان بیٹی پتہ نہیں پہلے تو اگلے مہینے کا سوچ رہے تھے -کیوں اب کیا ہوا -فوزیہ وغیرہ کے گھر سے کال آئی تھی کہ فوزیہ کا جو بھائی فرنس رہتا ہے اسے کوئی کام پڑ گیا ہے اب وہ ابھی نہیں آرہا ہے اس لیے جب وہ آجائے گا پھر ہی شادی کی ڈیٹ فکس ہو گئی -چلیں چچی کوئی بات نہیں ہمیں بھی تیاری کا کچھ زیادہ وقت مل جائے گا -ہاں ایمان ٹھیک ہی کہہ رہی ہو -ایمان بیٹی چلو کچن میں جاکر سکینہ کے ساتھ مل کر رات کا کھانا تیار کرؤ شام کے چھ بج رہے ہیں -امی جان کچھ دیر تو لان میں بیٹھنے دیں اتنے مزے کی ٹھنڈی ہوا چلی رہی ہے – وہ منہ بناتے ہوئے بولی بھابی جی کچھ نہیں ہوتا کچھ دیر بیٹھنے دیں سکینہ سب دیکھ لے گئی – ملازموں پر سب کچھ چھوڑ دینا بھی ٹھیک نہیں ہوتا ساجدہ بھابی -جی پروین بھابی یہ بات بھی ٹھیک ہے آپ کی -ٹھیک ہے امی جان میں جارہی ہوں-
***************
وہ کچن کو سمیٹ کر ہلکی سی دستک دے کر روم میں داخل ہوئی تو اسے کانوں میں گانے کی آواز سنائی دی
“میں پیار کر رہا ہوں وہ انکار کر رہے ہیں”
اس کی نظر سامنے پڑی سکندر صوفے پر لیٹا آنکھیں بند کیے ہوئے لیب ٹاپ پر گانا سننے میں مگن تھا -اسے سکندر کو دیکھ کر غصہ آ گیا ” سکندر وہ اس کے قریب پہنچتے ہوئے غصے سے چلائی ”
“جی میری جان تم نے مجھے ڈرا ہی دیا اتنی زور سے کیوں چلا رہی ہو ”
جو سونگ لگا رکھا ہے اونچی آواز میں اسے بند کرؤ مجھے سونا ہے وہ غصے سے گھورتی ہوئی بولی ” ایمان اس طرح گھور کر تو نہ دیکھا کریں مجھے نظر لگانی ہے اسے کے لبوں پر اس وقت مسکراہٹ تھی ”
“اتنے تم خوبصورت نہیں زیادہ خوش فہمی میں مطلع ہونے کی ضرورت نہیں ہے ” وہ اسے غصے سے کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی –
اب وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہاتھوں پر لوشن لگانے میں مصروف تھی-کب تک یہ ناراضگی چلی گئی وہ اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا اسے کے شانوں پر ہاتھ جماتے ہوئے بولا -اسے کے غیر متوقع انداز پر وہ لمحے بھر گڑبڑ ا گئی تھی -اس نے آئنیے میں دیکھا وہ اپنےاونچے لمبے قد کے ساتھ پیچھے کھڑا گھورنے میں مصروف تھا – لوشن کو رکھتے ہوئے ایمان نے اس کے ہاتھوں کو ناگواری سے جھٹک دیا اور مجھے تم چھونے کی کوشش مت کیا کرو وہ پیچھے ہٹتے ہوئی بولی اور اس کی بات کو نظرانداز کر گئی – مجھے شدید نفرت ہے تم سے سمجھے تمہاری وجہ سے میری زندگی برباد ہوئی ہے- میرے پر الزام نہ دو ہر بات کا میں نے تمہیں مجبور نہیں کیا تھا کہ مجھ سے یہ شادی کرؤ یہ شادی تم نے اپنے والدین کی رضا مندی سی کی ہے – اپنی زندگی کیوں خراب کر رہی ہو اس رشتے کو قبول کیوں نہیں کر لیتی مجھ میں آخر کیا خرابی ہے وہ اس کو نرم لہجے میں سمجھتے ہوئے بولا – لیکن وہ اسے اور باتوں کو نظر انداز کرتی ہوئی بیڈ پر جاکر کمبل منہ تک تان کر لیٹ گئی -سکندر کو غصہ تو بہت آیا یوں نظر انداز ہونے پر لیکن وہ غصہ ضبط کرتے ہوئے ڈریسنگ روم میں ڈریس چینج کرنے چلا گیا
***************
اچھا ایمان پھر اس کا مطلب جب تک فوزیہ کا بھائی نہیں آتا یہ شادی نہیں ہو رہی ہے “ہاں فائزہ اب اس کا بھائی جو آخر کو ہے اس کا انتظار تو کریں گے ”
کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں ان کے انکار واقرار سے قبل وہ چئیر پر بیٹھ گیا -ایمان اچانک ایک اجنبی شخص کو سامنے دیکھ کر ہی گبھرا گئی – مسٹر آپ ہیں کون اور آپ کی ہمت کیسے ہوئی ہے یہاں ہماری اجازت کے بغیر بیٹھنے کی فائزہ بولی – کیوں کہ مجھے پتہ تھا آپ نے تو اجازت دینی نہیں ہے اس لیے میں نے سوچا خود ہی بیٹھ جاؤں اور جہاں تک سوال ہے میں ہوں کون تو بتاتا دیتا ہوں یہ بھی میرا نام جنید ہے سب مجھے جانی کہتے ہیں ایم بی اے کر رہا ہوں -ہوں ایک سکندر کم تھا آج ایک اور لوفر آگیا ایمان نے غصے سے اس کو دیکھا آپ جو بھی ہیں یہاں سے جاسکتے ہیں ہم یہ جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ ہیں کون -آپ تو ہر وقت جھگڑا کرتی رہتی ہیں اور میں نے تو آپ کو جب بھی دیکھا ہے غصے میں ہی دیکھا ہے کبھی کینٹین میں تو کبھی اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے سامنے آپ اپنی دوست سے جھگڑا کر رہی ہوتی ہیں میرے خیال میں یہ تو آپ کی دوست کی ہمت ہے جو برداشت کرتی ہیں -ایمان کتنی بار میں تمہیں کہتی تھی سب لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں لیکن تمہیں تو کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی فائزہ ایمان کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولی -اف فائزہ تم تو خاموش ہو جاؤ-آپ جو بھی ہیں ہمیں جھگڑا کریں جو کریں آپ ہوتے کون ہیں بولنے والے اور اب یہاں سے جاسکتے ہیں وہ اسے غصے سے گھورتے ہوئے بولی
سوری جی آپ تو غصہ کر گئی ہیں میں تو ویسے ایک بات کر رہا تھا ویسے آپ دونوں کا نام پوچھ سکتا ہوں -نہیں اب آپ یہاں سے چلیں جائیں آپ کی مہربانی ہو گئی – اوکے میڈم آپ غصہ نہ کریں میں جارہا ہوں اب تو ہمارا تعارف ہو گیا پھر بات چیت ہوتی رہے گئی -وہ وہاں سے جاتے ہوئے بولا –
شکر ہے جو چلا گیا پتہ نہیں یہ لوفر کہاں سے آجاتے ہیں -اور تم ویسے تو بہت بولتی ہو اور اس کے سامنے خاموش ہو کر بیٹھ گئی یہ نہیں ہوا تم سے اس کو میں بھی دو چار باتیں سنا دوں-تمہارے سامنے وہ میری برائی کر رہا تھا –
ایمان ایک بات تو ہے کہہ تو وہ ٹھیک رہا تھا دیکھو اب بھی تم مجھ پر غصہ کررہی ہو -ہوں فائزہ ایک تو تم باتیں اور حرکتیں ایسی کرتی ہو مجھے غصہ آجاتا ہے دوسری بات غصے میں مجھ سے یہ کنڑول نہیں ہوتا جو دل میں آتا ہے کہہ دیتی ہوں –
“ایمان کنٹرول کرنا سیکھو زیادہ غصہ بھی اچھا نہیں ہوتا ”
اچھا اچھا کوشش کرؤں گئی -ویسے ایمان یہ لڑکا بھی کافی ہینڈسم تھا -سکندر سے کم تو یہ بھی نہیں لگ رہا تھا -بس بس فائزہ اب تم میرے سامنے سکندر اور جنید نامہ نہ کھولو تو اچھا ہے اور پھر تم کہتی ہو میں غصہ کرتی ہوں – اس کی بات سننی تھی تم نے کہہ رہا تھا اب تعارف تو ہو گیا ہے بات چیت ہوتی رہی گئی -اف فائزہ ہم کون سا بات کر رہے ہیں زیادہ تنگ کیا تو پھر دیکھ لیں گے –
اب چلو لیکچر شروع ہونے والا ہے اور آج تو ٹیسٹ بھی ہے – ایمان یار مجھے آج کا ٹیسٹ نہیں آتا نہ ہی میں بورنگ لیکچر میں جارہی ہوں تم نے جانا ہے تو جاؤ -تم تو بس اس سیل فون پر اور فیس بک پر لگی رہنا -یار ایمان آخری بار لیکچر چھوڑ رہی ہوں بس آج اب تم جاؤ لیٹ ہو رہی ہو میں کینٹین میں ہی بیٹھی ہوں تم لیکچر لے کر یہاں آ جانا -چلو ٹھیک ہے –
****************
جانی آ گیا پھر ان لڑکیوں سے مل کر جنید اس وقت یونیورسٹی کے لان میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا کہ رضا پاس بیٹھتے ہوئے بولا ” ہاں رضا ”
پھر کیا باتیں ہوئی ہیں ؟
کچھ خاص نہیں یار یہ حجاب والی تو سچ میں غصے کی بڑی تیز ہے دوسری تو بول ہی نہیں رہی تھی وہ تو کہہ رہی تھی ہمیں آپ کے تعارف کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ یہاں سے جاسکتے ہیں میں نے کہا تعارف تو ہو گیا بات چیت ہوتی رہے گئی بس میں چلا آیا سوچا کل پھر بات کرؤں گا وہ مسکراتے ہوئے بولا –
تو چاہتا کیا ہے اس لڑکی سے مجھے تو تیری سمجھ نہیں آتی ہے -دوستی کرنا چاہتا ہوں اور کیا یار -مطلب ٹائم پاس کے لیے ” ہاں یار ”
یار چھوڑ اس لڑکی کو وہ تجھے ایسی لڑکی لگتی ہے کیا ؟کیوں تنگ کرتے ہو – رضا یار بس بس یہ ہمدردیاں اپنے پاس سنبھال کر رکھو –
*************
سکندر بیٹا تمہارے ایگزامز کب ہو رہے ہیں -پاپا اگلے مہینے سے شروع ہو رہے ہیں -وہ اس وقت ڈائننگ ٹیبل پر سب کے ساتھ مل کر ناشتہ کرنے میں مصروف تھا -سکندر بیٹا میں سوچ رہا تھا ایگزامز کے بعد تم اپنا آفس سنبھال لینا مجھے بھی ریسٹ مل جائے گا میں کبھی کبھی چکر لگاتا رہوں گا -اوکے پاپا جیسے آپ کی مرضی –
توبہ ناشتہ تو آپ لوگ آرام سے کر لیں یہ آفس کی باتیں آفس میں ہی کیا کریں -ٹھیک ہے بیگم جی جو حکم آپ کا وہ مسکراتے ہوئے بولے -بھائی آج ڈرائیور نہیں آیا ہے آپ یونیورسٹی جاتے ہوئے مجھے بھی کالج چھوڑ دیں گے -ٹھیک ہے فاطمہ چھوڑ دؤں گا –
****************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...