یونی سے واپس آ کر بھی وہ اداس رہی لیکن ماما بابا کی وجہ سے کنٹرول کر گئی ۔۔۔۔ رات کو اپنے کمرے میں آ کر ضبط ٹوٹ گیا ۔۔۔۔ اسے لگ رہا تھا جیسے ولید اسے بہت دور جا رہا ہے ۔۔۔ اس نے نماز پڑھ کے دیر تک اپنے “ولی ” کے لئے دعا کی ۔۔۔اور پر سکون ہو گئی ۔۔۔
“تجھے محتاط کرتا ہوں تیری میں جان لے لوں گا
کبھی ان جھیل آنکھوں کو جو پر نم کیا تو نے ”
انہیں کیسے پتا کہ میں رو رہی ہوں ۔۔۔۔ وہ ولید کا میسج پڑھ کر حیران ہوئی ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ پوچھتی ولید کی کال آ گئی ۔۔۔
“ہیلو۔۔۔ولید ” وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی
“جی جان ولید ” آج ولید حسن ہر جذبہ اس کے سامنے رکھ دینا چاہتا تھا ۔۔۔۔ حالانکہ وہ ایسا نہیں تھا ۔۔۔۔ نہ کبھی ایسا کرتا تھا ۔۔۔ پھر پتا نہیں کیوں آج ایسا بن گیا تھا ۔۔۔
“جلدی واپس آئیں گے نا ” زجاجہ نے آنسو کنٹرول کرتے ہوئے پوچھا
“بہت جلد ۔۔۔۔ اب کی بار تو خود کو بھی جلدی ہو گی نا آنے کی ” ولید نے اسے اس کی اہمیت جتائی ۔۔۔۔۔ ” اب سو جاؤ ۔۔۔ اینڈ ریلیکس ۔۔۔ گڈ گرل گڈ نائٹ ”
“گڈ نائٹ ” زجاجہ نے فون بند کر دیا اور لیٹ گئی ۔۔۔ لیکن نیند کوسوں دور بھی نظر نہیں آ رہی تھی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولید چلا گیا تھا ۔۔۔۔ مسز یزدانی کے پاس نقاش اور اس کی امی آ گئے تھے ۔۔۔ سکول میں بھی سب ویسا ہی چل رہا تھا ۔۔۔۔ یونی میں بھی ویسی ہی روٹین تھی لیکن زجاجہ کا دل کہیں نہیں لگتا تھا ۔۔۔۔بیا اس کو بہت سمجھاتی ۔۔۔۔ مگر اس کے لئے ایک ایک پل قیامت تھا ۔۔۔ وہ یونی کے گراونڈ میں بیٹھی گھاس سے کھیل رہی تھی کہ حیدر آ گیا ۔۔۔۔
“ادھر اکیلی کیوں بیٹھی ہو زجی ” اس نے پاس آ کر پوچھا
“ویسے ہی ۔۔۔۔ بیا اور ثنا کیفے تک گئیں ہیں ” وہ حیدر کی طرف دیکھ کر بولی
حیدر کو وہ بہت اداس لگی ۔۔۔۔ اسے اپنی معصوم سی دوست پہ بہت پیار آیا ۔۔۔
“چلو اٹھو ۔۔۔۔ ہم بھی چلتے ہیں ” وہ اس کی کتابیں اٹھاتے ہوئے بولا ۔۔۔ “اور کوئی بہانہ نہیں سنوں گا میں ”
زجاجہ کو اٹھتے ہی بنی ۔۔۔۔ حیدر ایسا ہی تھا ۔۔۔سب کا خیال رکھنے والا ۔۔۔۔ بہت خوبصورت دل رکھنے والا خوبصورت انسان ۔۔۔۔
کیفے میں سب کے ساتھ اس کا دل کافی حد تک بہل گیا۔۔۔۔ وقاص اور حیدر کی شرارتیں ، ثنا کی وقاص کے ساتھ بحث ، بیا کی وقاص کے حق میں ووٹ ۔۔۔۔ سب کچھ ویسا ہی تھا ۔۔۔۔ اگر کچھ نہیں تھا تو انگلش ڈیپارٹمنٹ کی کار پارکنگ میں بلیک کلر کی کرولا نہیں تھی اور اسی ڈیپارٹمنٹ کا لیکچرر ولید حسن نہیں تھا ۔۔۔۔
“مس یو سو مچ ولی ” زجاجہ نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے ہواؤں کو سندیسہ دیا ۔۔۔۔ اور مڑ کر ایک نظر انگلش ڈیپارٹمنٹ کی طرف دیکھا ۔۔۔
“جلدی آؤ زجاجہ ۔۔۔ ” بیا نے آواز لگائی تو وہ سر جھکا کر چل پڑی ۔۔۔۔ حیدر اپنی بائیک سٹارٹ کر رہا تھا ۔۔۔۔ ثنا اور وقاص جا چکے تھے ۔۔۔۔۔ وہ حیدر کو اللہ حافظ بول کر چلی ہی تھی کہ حیدر نے آواز دی ۔۔۔۔ بیا آگے جا چکی تھی ۔۔۔
“ہاں جی ” وہ پیچھے مڑی
“بی بریو ۔۔۔۔ سر ولید جلدی آ جائیں گے”۔۔۔۔ وہ کہتا ہوا بائیک اڑا لے گیا ۔۔۔۔ اور زجاجہ سکندر حیران کھڑی رہ گئی ۔۔۔۔ “اس کو کس نے بتایا ” ۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد اس نے مسکراتے ہوئے میسج ٹائپ کیا ۔۔۔
“تھینکس فار بیئنگ مائی فرینڈ ” اس نے حیدر کے نمبر پر میسج سینڈ کیا اور تیز تیز قدموں سے چل پڑی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسم ابر آلود تھا ۔۔۔۔ ماما بابا تایا ابو کی طرف گئے ہوئے تھے ۔۔۔۔ زجاجہ نے اپنے لئے چائے بنائی اور کپ اٹھا کر لان میں آ گئی ۔۔۔۔ ولید کو گئے دوسرا دن تھا لیکن زجاجہ کو لگ رہا تھا کہ صدیاں ہو گئیں اس نے ولید کو نہیں دیکھا ۔۔۔۔ اس نے اپنا موبائل اٹھایا اور وٹس ایپ میسنجر کھول کر ولید کی تصویر دیکھنے لگی ۔۔۔۔ وہ شاید کسی تقریب کی تصویر تھی ۔۔۔۔ ولید نے وائٹ شرٹ کے ساتھ انک بلو پینٹ کوٹ پہن رکھا تھا ۔۔۔۔ اور اگلی نشستوں میں سے ایک پر بیٹھا تھا ۔۔۔۔ ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے وہ سامنے دیکھتے ہوۓ بولنے والے کو بہت غور سے سن رہا تھا ۔۔۔۔ چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی ۔۔۔۔ وہ ہر طرح سے ایک بزنس آئیکون لگ رہا تھا ۔۔۔۔ “مائی ہینڈسم آفیسر ” زجاجہ نے زیرلب کہا اور میسج ٹائپ کرنا شروع کر دیا ۔۔۔
“ولید صاحب ” ۔۔۔۔ وہ پہلا میسج ہمیشہ یہی کرتی تھی ۔۔۔۔ ولید اکثر کہتا “پتا ہے زجی تمہارا یہ میسج ملتا ہے تو میں
جواب نہ دینا چاہوں تو بھی دینے کا دل کرتا ہے ” ۔۔۔۔
“حاضر میم ” کچھ لمحوں بعد جواب آیا ۔۔۔
“کیا کر رہے ہیں ” اس نے فورا دوسرا میسج بھیجا ۔۔۔
“مچ بزی یار ۔۔۔۔ ایک میٹنگ اٹینڈ کی ابھی ۔۔۔۔ دو ہوٹلز کا وزٹ کیا ۔۔۔۔ اب ایک اور میٹنگ فوڈ سپلائی چین کے ساتھ ۔۔۔”
“ہممم” زجاجہ نے صرف اتنا ہی لکھا ۔۔۔
“اوکے زجی ۔۔۔۔ ول ٹاک ٹو یو لیٹر ۔۔۔۔فاران بھائی آئے ہیں ۔۔۔۔ ان کو ٹائم دے لوں ذرا ۔۔۔اپنا خیال رکھنا ” وہ جتنا بھی مصروف ہو یہ جملہ لکھنا کبھی نہیں بھولتا تھا اور زجاجہ سکندر پر اپنا خیال رکھنا فرض ہو جاتا ۔۔۔۔
زجاجہ نے اوکے کا میسج کیا اور اٹھ گئی ۔۔۔۔ بوندا باندی شروع ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔ موسم کے آثار بتا رہے تھے کہ بادل خوب ٹوٹ کے برسے گا ۔۔۔۔
“بوا میرے پیرٹ اندر لے آئیں پلیز ۔۔۔۔” بارش ایک دم سے تیز ہو گئی تھی ۔۔۔۔ زجاجہ بھاگتی ہوئی اندر آئی ۔۔۔۔ بوا نے اس کے رنگین طوطے لاؤنج میں رکھے تو وہ اٹھ کر ان کے پاس آ گئی ۔۔۔۔ ان کی اٹکھیلیاں دیکھتے ہوئے وہ ادھر لاؤنج میں ہی سو گئی ۔۔۔۔ ماما نے آ کر اسے جگایا تو اسے احساس ہوا کہ وہ 2 گھنٹے سے صوفے پر سو رہی تھی ۔۔۔۔
“ولی ٹھیک مجھے جھلی کہتے ہیں ” اس نے بیڈ پر لیٹتے ہوئے سوچا ۔۔۔۔ اور ولید کے خیالوں میں نجانے کب اس کی آنکھ لگ گئی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن وہ فری پیریڈ میں سٹاف روم میں بیٹھی تھی کہ ولید کا میسج آ گیا ۔۔۔۔
“میں جو نہیں آتا نظر تم کو
تو کیسے آ جاتا ہے صبر تم کو ”
اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے ۔۔۔۔ وہ تو شکر ہے کوئی سٹاف روم میں تھا نہیں ورنہ ابھی سب وجہ پوچھنے کے لئے اکٹھی ہو جاتیں ۔۔۔۔ اس نے اس آنکھیں صاف کیں اور میسج کا جواب دیا ۔۔۔
“ولی میری آنکھیں ترس گئی ہیں ”
جواب تو نہ آیا لیکن زجاجہ سے میلوں دور ایک ہوٹل کی کھڑکی کے پاس بیٹھے ایک شخص کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں ۔۔۔۔۔
قسط 12۔
آج یونی میں اردو ڈیپارٹمنٹ کا فنکشن تھا ۔۔۔۔۔ ثنا اپنے روز والے حلیے میں ہی تھی ۔۔۔۔ وائٹ کرتے کے ساتھ بلو جینز پہنے ، پاؤں میں وائٹ سپورٹس شوز ڈالے وہ کسی بھی طرح اردو ادب کی سٹوڈنٹ نہیں لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔ اور یہ بات اس کے سب کلاس فیلوز کہتے تھے کہ ثنا ڈریسنگ سے ادب کی سٹوڈنٹ نہیں لگتی ۔۔۔۔۔ اور وہ بہت آرام سے جواب دیتی ” میں تو جیسی ہوں ویسی ہی رہوں گی یار۔۔۔۔کیونکہ میں اس میں بہت خوش ہوں ” ۔۔۔۔۔ اس کے برعکس بیا لمبی قمیص کے ساتھ پاجامہ پہنتی یا پھر عام شرٹ ٹراوزر ۔۔۔۔ آج بھی وہ بلیک کلر کی لانگ شرٹ جس پر شاکنگ پنک کلر کی کڑھائی تھی ، کے ساتھ چوڑی دار پاجامہ پہن کے آئی تھی ۔۔۔۔ پاؤں میں بلیک سینڈل پہنے بیا بہت پر کشش لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔
“پتا نہیں زجی کیوں نہیں آئی ابھی تک ” بیا نے یہ جملہ کوئی ساتویں بار دہرایا اور اتنی ہی بار وہ اس کا نمبر بھی ڈائل کر چکی تھی ۔۔۔ ہر بات “جواب موصول نہیں ہو رہا ” کا پیغام سن کر وہ مایوسی سے کال کاٹ دیتی ۔۔۔۔
“آ جائے گی نا ۔۔۔۔ سکول سے آتی ہے ۔۔۔۔ دیر ہو بھی جاتی ہے کبھی ” وقاص نے بیا کی پریشانی کم کرنی چاہی ۔۔۔۔
“ہیلو فرینڈز ۔۔۔ کیسے ہو سب ۔۔۔ زجاجہ کدھر ہے ” یہ ثمر تھا جو یونی پہنچتے ہی بہت بےچینی سے زجاجہ کو تلاش کر رہا تھا ۔۔۔۔
“نہیں آئی وہ ۔۔۔ تم سناؤ ۔۔۔کیسا رہا ناردرن ایریا کا ٹرپ ” حیدر نے اس کی توجہ ہٹانے کی غرض سے موضوع بدلنے کی سعی کی ۔۔۔۔ کیونکہ وہ زجاجہ کی ثمر کے لئے ناپسندیدگی سے واقف تھا ۔۔۔
“دیٹ واز آسم یار ” وہ پرجوش ہوا ” میری توقع سے بڑھ کر مزہ آیا”
“گڈ ۔۔۔۔ ہم سب بھی سوچ رہے ہیں جانے کو ” وقاص نے جواب دیا ۔۔۔
“ضرور جانا چاہئے ۔۔۔ وہ دنیا ہی اور ہے ۔۔۔۔ جنت ہے وہ سچ میں ” ثمر ابھی بھی اس وقت کو انجوائے کر رہا تھا۔۔۔ “زجاجہ کب تک آئے گی ”
“نو آئیڈیا ” ثنا نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا تو ثمر چلا گیا ۔۔۔۔ اتنے میں زجاجہ اسے سامنے سے آتی دکھائی دی
“لو جی ۔۔۔ آ گئیں محترمہ ” اس نے سب کی توجہ ادھر کروائی ۔۔۔ زجاجہ نے مہرون کلر کا لانگ فراک پہنا ہوا تھا ۔۔۔۔ جس کے گلے اور بازو پر آف وائٹ دھاگے کی ہلکی سی کڑھائ تھی ۔۔۔ ساتھ میں ہم رنگ پاجامہ اور آف وائٹ سینڈل پہنے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔
“سوری ۔۔۔ میں لیٹ ہو گئی” وہ آتے ہی کان پکڑ کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔ تاکہ جان بخشی ہو جائے ۔۔۔
“یہاں کون سا لنگر کھل گیا ہے جو تم لیٹ ہو گئی ہو اور باقی سب کھا چکے ہیں ” رضا نے اس کی بات کا ہمیشہ کی طرح الٹا جواب دیا ۔۔۔
“تم کیا کر رہے ہو ادھر ” زجاجہ نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ رضا آج معمول سے ہٹ کر وائٹ کاٹن کے کرتا شلوار میں تھا ۔۔۔ زجاجہ نے اسے پہلی بار شلوار قمیض میں دیکھا تھا ۔۔۔۔ ذہین آنکھوں والا ہلکی ہلکی بڑھی ہوئی شیو میں رہنے والا ہنستا مسکراتا بہت محنتی سا یہ شخص اسے اپنا اپنا لگتا تھا ۔۔۔ ” آج تو جناب کی چھب ہی نرالی ہے ” زجاجہ نے تعریف کی۔۔۔
“تم نظر لگاؤ موٹی آنکھوں والی ” وہ ہمیشہ اسے موٹی آنکھوں والی کہہ کر تنگ کرتا تھا ۔۔۔
“اوہ ہاں یاد آیا ” ثنا نے ہر لفظ کو لمبا کھینچتے ہوئے کہا ۔۔۔” ثمر تمہیں ڈھونڈ رہا ہے زجی”
“کیوں۔۔۔مجھے کیوں ڈھونڈ رہا ہے ” زجاجہ کے ماتھے پر بل پڑ گئے ” اور وہ واپس کب آیا ”
“رات کو واپس آیا ہے اور کیوں کا جواب مجھے پتا ہوتے ہوئے بھی نہیں پتا ” حیدر نے ایک آنکھ بند کرتے ہوئے اسے مزید تنگ کیا ۔۔۔
“تم ضائع ہو جاؤ گے میرے ہاتھوں حیدر ملک ” زجاجہ نے اسے کتاب ماری” اچھا چھوڑو ۔۔۔تم گٹار لائے ہو نا ۔۔ ۔ گانا سناؤ کوئی ”
حیدر بہت اچھا گٹار بجاتا تھا ۔۔۔ ۔ اور اب تو وہ باقاعدہ سیکھ بھی رہا تھا ۔۔۔ اس نے گٹار سنبھال لیا اور سب اس کی طرف متوجہ ہو گئے ۔۔۔۔
رات کو وہ ولید کو پورے دن کی رپورٹ دے رہی تھی جب اس نے اچانک کہا ۔۔۔
“ڈونٹ یو تھنک اٹس گڈ ٹو ویئر عبایہ زجی ؟؟”
زجاجہ فورا تو کوئی جواب نہ دے سکی ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد بولی ” ہمم ۔۔۔ اچھی بات ہے ”
“تو یہ اچھی بات میری اچھی سی زجاجہ سکندر میں کیوں نہیں ہے ” وہ ولید حسن تھا جو بات کو پراثر بنانا جانتا تھا ۔۔
“بس کبھی پہنا نہیں ” زجاجہ نے کندھے اچکائے “حالانکہ میرے پاس ہیں بھی ۔۔ ۔ بابا لائے تھے”
“تو اب سے سٹارٹ کر لو ”
“یہ ان کو اچانک سے کیا ہو گیا ” اس نے سوچتے ہوئے “اوکے ” بول دیا ۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن زجاجہ عبایہ میں تھی ۔۔۔۔۔ سب نے اس تبدیلی کی وجہ پوچھی تو اس نے گول سا جواب دے دیا ۔۔۔ یونی جا کے بھی اس نے عبایہ نہ اتارا ۔۔۔
“یہ کیوں پہن لیا ہے ۔۔۔۔ کوئی خاص وجہ ” وقاص نے پوچھا
“تم لوگوں کو پتا تو ہے مجھے سکن پرابلم ہے ۔۔۔دھوپ میں بیٹھنے سے زیادہ ہو جاتا ہے ۔۔۔ اس لئے ڈاکٹر نے بولا کہ عبایہ پہن کے رکھا کروں ” اس نے سب کو مطمئن کر دیا ۔۔۔۔ صرف بیا جانتی تھی کہ اصل وجہ کیا ہے ۔۔۔
“یار میں خود بھی بہت ایزی فیل کر رہی ہوں اس میں ۔۔۔صبح تھوڑا پرابلم ہوا تھا لیکن اب ٹھیک ہے ” وہ بیا کو عبایہ کے بارے میں بتاتے ہوئے لائبریری کی طرف جا رہی تھی کہ ثمر آ گیا ۔۔۔
“ارے واہ ۔۔۔ آج تو لوگ بڑے چینج لگ رہے ہیں ” وہ شوخ ہوا ۔۔۔ زجاجہ کا حلق تک کڑوا ہو گیا ۔۔۔ لیکن وہ خود کو کنٹرول کرتے ہوئے بولی
“چینج آنا چاہئے نا وقت کے ساتھ ” اس نے بات ٹالی ” آپ بتائیں کب ہوئی واپسی ”
” دو دن پہلے ۔۔۔۔ بہت مس کیا تمہیں” وہ اس کی طرف بہت جذب سے دیکھ رہا تھا اور یہی بات زجاجہ کو بری لگتی تھی ۔۔۔ اب بھی وہ چڑ گئی
“کیوں مجھے کیوں مس کیا آپ نے ” نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا لہجہ سخت ہو گیا ” آپ مجھے نہ ہی مس کیا کریں تو اچھا ہے مسٹر ثمر ۔۔۔ چلو بیا ” اس نے بیا کا ہاتھ پکڑا اور وہاں سے چل دی ۔۔۔ ثمر وہیں کھڑا ان کو جاتا دیکھتا رہا۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
“ولی آج اپ کو گئے ہوئے 4 دن ہو گئے ہیں۔۔۔ اور لگتا ہے پتا نہیں کتنا عرصہ بیت گیا ” شام کو وہ ولید سے بات کر رہی تھی ۔۔۔
“صحیح کہہ رہی ہو ۔۔۔ مجھے بھی یہی لگ رہا ہے ۔۔۔ بس کام ختم ہو تو سیدھا اپنی جھلی کے پاس اسے مزید دیوانہ کرنے کے لئے ” وہ ہنسا ۔۔۔۔ زجاجہ کو لگا ہر طرف سکون اتر آیا ہو
“کیسے لگ رہے ہیں ” یہ سوال وہ لازمی کرتی تھی
“ہمم ۔۔۔ ہمیشہ کے جیسا ۔۔۔ اب یہ تمہیں پتا ہو گا کہ ہمیشہ کیسا لگتا ہوں ” وہ کمال چالاکی سے بال اس کے کوٹ میں پھینک دیتا ۔۔۔۔
“مجھے تو مرشد لگتے ہیں ۔۔۔۔ ” وہ بہت عقیدت سے بولی تو ولید لاجواب ہو گیا ۔۔۔
“کتنی محبت کرتی ہو مجھ سے زجاجہ ۔۔۔ اور کتنی ریسپیکٹ کرتی ہو ۔۔۔ الگ الگ بتاؤ ” پتا نہیں آج ولید کس موڈ میں تھا ۔۔
“کیسے بتاؤں ۔۔۔ کوئی پیمانہ ہی نہیں ہے ” زجاجہ نے نرمی سے جواب دیا
“پھر بھی ۔۔۔ کسی بھی طرح بتاؤ نا ” وہ بضد تھا
“محبت اتنی کہ میں دعوی سے کہہ سکتی ہوں کہ جب سے آپ میری زندگی میں آئے ہیں نا تب سے اس لمحے تک میں نے ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزارا جب آپ کو چاہ نہ ہو ۔۔۔۔ اور عقیدت اتنی کہ آج تک میں نے آپ کا نام کبھی سمال لیٹر میں نہیں لکھا۔”۔۔ وہ ولید حسن کو حیران کر گئی ۔۔۔ پہلی بار اس کو زجاجہ کی محبت سے ڈر لگا
“اب آپ بتائیں ” وہ چہکی
“میں بتاؤں ۔۔۔۔ ” وہ سوچتے ہوئے بولا ” میں تم سے پیچھے ہوں زجاجہ ۔۔۔ تم بہت آگے ہو میرے سے ۔۔۔ ہاں یہ ہے کہ تم۔نے کہا نا پیمائش کا کوئی پیمانہ نہیں ہے ۔۔۔ میں کہتا ہوں اگر پیمانہ ہوتا تو ٹوٹ جاتا میری محبت ماپتے ہوئے ” ولید نے کھلا اقرار کیا ۔۔۔۔ زجاجہ کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔۔۔
“پلیز جلدی آئیں ۔۔۔ میرا ضبط جواب دے گیا ہے ” وہ بےبسی سے بولی تو ولید نے خود کو ٹوٹتا محسوس کیا ۔۔۔
“نہیں ۔۔۔۔ ضبط کو کہو اگر زجی پریشان ہوئی تو ولید حسن کا ضبط ٹوٹ جائے گا اور جب ولید حسن کا ضبط ٹوٹتا ہے نا تو پھر نہ وہ رحم کرتا ہے نہ رحم مانگتا ہے ” وہ ٹھوس لہجے میں بولا ۔
“ریلیکس ۔۔۔۔ آئی ایم فائن ۔۔۔ آپ کام پہ فوکس کریں ” وہ اس کی تسلی کے لئے مسکرائی تو ولید نے بھی مطمئن ہو کر اللہ حافظ بولا اور کال بند کر دی ۔۔۔۔
“یا اللہ میرے ولید کو سلامت رکھنا ” زجاجہ کا روم روم محو دعا تھا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...