حاشر کی شوٹنگ کو دو مہینے ہو گئے تھے ابھی بھی وہ اپنا سین اوکے کروا کر بیٹھا تھا لنچ بریک تھی
اسکی طبیعت صبح سے بوجھل ہو رہی تھی سر درد سے پھٹ رہا تھا اور زویا بہت یاد آرہی تھی زویا کو سوچتے ہوئے اسنے نمبر ملایا
پہلی ہی بیل پر زویا نے فون اٹھاکر جس بےتابی سے حاشر کا نام لیا اتنی دور بیٹھے حاشر کا دل چاہا سب کچھ چھوڑ کر اسکے پاس چلا جائے
“حاشر کچھ بولو تو ” ہیلو ہیلو ،،،،،زویا کو لگا لائن کٹ گئ ہے
جب دوسری طرف سے آواز آئی
کیا فون ہاتھ میں لے کر کوئی چلہ کاٹ رہی تھیں،،جاناں،،، بیل بھی نہیں ہوئی اور فون اٹھا لیا حاشر نے نم آنکھوں اور بھاری آواز سے پوچھا
بکو مت کہاں ہو جانتے ہو آج پورے ایک مہینے کے بعد فون کیا ہے تم نے،،،،وہ روہانسی ہوئی
“28 دن بعد،”،، حاشر نے اسے یاد دلایا
تو کیا اٹھائیس دن کم ہوتے ہیں مہینہ نہیں ہوتا پر تمھیں کیا پتہ تم تو وہاں مزے میں ہو عیش کر رہے ہو اور اب کچھ بولو گے اگر فون کرنے کا احسان کر ہی لیا ہے تو: ،،،زویا نے روتے ہوئے کہا
نہیں میں نے صرف سننے کے لئے فون کیا ہے ،،،،
حاشر نے اپنا ماتھا مسلتے ہوئے کہا اسکا درد بڑھ رہا تھا
“بس اب ایسی باتیں کرنا کب واپس آرہے ہو”
جس طرح ندیم صاحب کام کروا رہے ہیں لگتا ہے چھ مہینے کے بجائے چار مہینے میں ہی واپس آجائیں گے
ارے میں تو تمھیں بتانا ہی بھول گیا انڈیا کے مشہور ڈایریکٹر سنیل کپور کے سیکرٹری کی کال آئی تھی مجھے کل رات،،،
کیا مطلب کیوں آئی تھی حاشر تمھارا دماغ ٹھیک ہے ،،،،
تم نے منع کر دیا نا انھیں ،،،زویا غصے سے چیخی،،،،
حاشر کو ایک دم شرارت سوجھی اور کہا
“نہیں یار میں نے کہا سوچ کر بتاؤں گا میں کیا پاگل ہوں جو اتنا اچھا موقع مس کر،”،،،،،،،،،،،،، ہیلو ہیلو زویا ”
زویا نے فون رکھ دیا اور اب اپنا پسندیدہ کام رونا شروع کر چکی تھی
حاشر نے دوبارہ نمبر ملایا پر اسنے نہیں اٹھایا
اتنے میں جمشید اور زارا آگئے اور اسنے موبائل جیب میں رکھ لیا
یار تمھارے مزے ہیں فلم میں بھی رومانس اور حقیقی زندگی میں بھی ایک ہم ہے کوئی گھاس ہی نہیں ڈالتا،،، جمشید نے زارا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
بس فلرٹ ہی کرنا ساری زندگی اور حاشر کیا سوچا ہے تم نے سنیل کپور سے میٹنگ کر رہے ہو پھر ،،،،،
یار میں تمھیں بتا چکا ہوں یہ میرا آخری پروجیکٹ ہے اسکے بعد بائے بائے شوبز،،،میں یہ بات مذاق میں بھی نہیں کر سکتا اتنا خوفناک ری ایکشن آتا ہے،،،،
یہ کیا باتیں ہو رہی ہیں کیسی میٹنگ اور وہ بھی سنیل کپور کے ساتھ،،،،، جمشید نے حیران ہو کر دونوں کو دیکھا
ان موصوف کو کال آئی ہے پر یہ ایٹیٹوڈ دیکھا رہے ہیں انکار کر رہے ہیں تم سمجھاؤ اسے یہ موقعے بار بار نہیں آتے ،،،زارا بے زار ہوئی اتنا بے وقوف لگا تھا اسے حاشر،،،
تم ہوش میں ہو حاشر ایسی آفر ریجیکٹ کر رہے وہ بھی صرف ایک لڑکی کے لئے ,,,,،،، جمشید حیران ہوا،،،
وہ صرف ایک لڑکی نہیں ہے میرے لیے اور ختم کرو اب یہ بات اور زارا تم ندیم صاحب سے بات کرو مجھے دو گھنٹے کا بریک دیں میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے
اچھا وہ تو میں کہہ دیتی ہوں ہر تم ڈاکٹر کو دیکھاؤ ٹمپریچر بھی ہے تمھیں:,,,,,, زارا ایک دم پریشان ہوئی،،،
ہا کیا قسمت ہے حاشر صاحب کی واہ خیر ابھی تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے پر اس آفر پر سوچنا ضرور اور کون سا کل شوٹنگ اسٹارٹ ہو جائے گی پاکستان جاؤ شادی کرو اور پھر فلم سائن ایک بار شادی ہو گئی تو،،،کیا کر لیں گی تمھاری منگیتر صاحبہ،،،،،جمشید نے آنکھ مارتے ہوئے حاشر کو ایک نئی رہا دیکھائی زارا کی آنکھوں میں بھی چمک اگئی،،،،،
حاشر کچھ سوچ رہا تھا اس کے دماغ میں کچھ چل رہا تھا
#########
وہ کسی بہت اونچے پہاڑ پر کھڑی تھی اور بہت زور زور سے حاشر کو آواز دے رہی تھی جو بہت تیزی سے پہاڑ سے نیچے اتر رہا تھا زویا زور سے اسکے پیچھے بھاگتی ہے اور ایک پھتر کی ٹھوکر سے گر جاتی ہے ،،،،
ایک چیخ سے اسکی آنکھ کھل گئی حاشر،،،
:میرے اللّٰہ شکر یہ خواب تھا آف کیا ہو گیا ہے مجھے اللّٰہ حاشر کو جلدی واپس بھیج دیں پلیز اللّٰہ جی ،،،،
وہ نماز کے لئے اٹھ گئی، ،،،
#########
تم یہاں بیٹھے ہو اور میں نے تمھیں کہاں کہاں ڈھونڈا،،جمشید نے پیچھے سے اسکی کمر پر ہاتھ ماراحاشر نے تیزی سے اپنا ہاتھ جیب میں ڈالا اور دوسرا ہاتھ آنکھوں پر رکھ کر خود کو نارمل کیا,,,,
کیا ہوا حاشر تم ٹھیک ہو ،،، جمشید کو وہ بہت خاموش اور اداس لگا
کیا ہے یار تم کیوں ڈھونڈ رہے ہو مجھے،،،،،،حاشر بے زار ہوا وہ اس وقت اکیلا بیٹھنا چاہتا تھا بہت ہمت چاہیئے تھی اسے کچھ فیصلوں کے لئے،،،،
جمشید کو یاد آیا وہ یہاں کیوں آیا تھا سر پر ہاتھ مار کر کہا
او بھائی ہم یہاں پکنک منانے نہیں آئے ہیں اور صرف میں ہی نہیں پوراسٹاف آپ کو ڈھونڈنے پر لگا ہوا ہے فون بھی تمھارا بند تھا اور ندیم صاحب کو جتنی گالیاں آتی تھیں سب تمھیں دے چکے ہیں اسلئے اب چلو،
ایک بار میں انڈیا ہو کر آجاؤں پھر اس ندیم سے تو نمٹتا ہوں کافی حساب نکلتے ہیں،،،،،
کیا انڈیا کیوں کیا واقعی جمشید کی سمجھ نہیں آیا وہ کیا کہہ رہا ہے،،،
تم نے ہی تو کہا تھا ایک بار شادی ہوگئی تو پھر کیسی اجازت اور کوئی بیوقوف ہی ایسی آفر ٹھکرا سکتا ہے اور میں بیوقوف نہیں ہوں حاشر نے ہنستے ہوئے اس سے کہا
اور اپنے بابا اور اپنی منگیتر کو کیا کہو گے،،،،جمشید نے ہنس کر کہا
ابھی کچھ سوچا نہیں پہلے میں سنیل کپور سے بات کرتا ہوں یہ نہیں ہو بعد میں رول بھی پسند نہیں آئے اور گھر سے بھی نکلا جاؤں ،،،دیکھتے ہیں ابھی تو چلو ندیم کو بھی دیکھیں
اوہ ابھی تو فلم سائن نہیں کی اور ندیم صاحب کے بجائے ندیم
دونوں نے تالی ماری اور چل دیے حاشر کے راستے میں ایک چھوٹا سا پتھر آیا اور عادت کے مطابق اس کو ٹھوکر ماری اور چل دیا بالکل ایسے ہی جیسے وہ زویا کو ٹھوکر مار چکا تھا
سب گھر والے رات کا کھانا کھا کر ایک ساتھ بیٹھے تھے جب نادیہ سب کے لئے چائے بنا کر لائی
احسان صاحب: بیٹا زویا کہاں ہے
ن وہ سورہی ہے تایا ابو طبعیت ٹھیک نہیں ہے ،،نادیہ نے چائے دیتے ہوئے کہا
احسان صاحب نے اپنی بیگم کو دیکھا،،،،،
آپ نے بتایا نہیں،،،
مریم بی بی نے گھبرا کر جلدی سے کہا
مجھے تو خود ان بچیوں سے پتہ چلا دوا دی ہے میں نے کھانے کو منع کر رہی تھی تو دودھ دے دیا تھا،،،،
بھائی صاحب آپ کوئی بات کرنا چاہ رہے تھے زویا کے ماموں کے بارے میں ،،،رمیض صاحب نے احسان صاحب کو یاد دلایا،،،،
سب گھر والوں کے کان کھڑے ہو گے خاص طور پر ینگ پارٹی کے سب سے پہلے احمد بولا
” کیا بات ہے اس بار کینو اور سیب نہیں ائے کافی ٹائم سے ”
احسان صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ،،،،،اسلئے کے اس بار اکبر خان اور انکی بیگم خود آنا چاہ رہے ہیں اور،،،،،،،،
کیوں وہ کیوں آنا چاہ رہے ہیں پہلے تو کبھی خیال نہیں آیا بس نوکروں کے ہاتھ سامان بھیج کربھا نجی کافرض پورا ہو گیا،،،مریم بی بی تیزی سے بولیں
میں ان سے اس طرح کی باتیں نہیں کر سکتا تھا،،،،احسان صاحب نے گھور کر کہا
پھر بھی بھائی صاحب آپ پوچھتے تو کہیں وہ زویا کے لئے ،،،تو آنا مطلب ایک بار پہلے بھی تو کہا تھا آپنے بیٹے کے لئے،،،،، شازیہ چچی نے مسکرا کر کہا
، احسان صاحب نے گھور کر شازیہ بیگم کو دیکھا ،،،،،
وہ آئیں گے تو پتا چل جائے گا اور پھر بولے میں نے ان سے کہا ہے وہ جب انا چاہے آجائیں انکا اپنا گھر ہے اور اتوار کو وہ لوگ آرہے ہیں ،،،،
آپ نے انھیں زویا اور حاشر کی شادی کا بتایا،، مریم بی بی نے پوچھا
نہیں مجھے فون پر مناسب نہیں لگا بتانا اب آئیں گے تو پتا چل ہی جائے گا انھیں،،،،احسان صاحب نے لہجے کو سر سری بنا کر کہا
اور مریم بی بی کھوجتی ہوئی نظروں سے اپنے شوہر کو دیکھنے لگی جنھوں نے ٹی وی کی آواز تیز کرکے خبریں لگالی تھیں
##
زویا اپنے کمرے میں بند بار بار نمبر ملا رہی تھی جو کل رات سے یا تو بند ہوتا یا بیل جارہی ہوتی اور وہ اٹھا بھی نہیں رہا تھا اور نا وہ زویا کے کسی میسج کا جواب دے رہا تھا زویا ساری رات فون ہاتھ میں۔ لے کر بیٹھی رہی مگر فون نا آنا تھا اور نا آیا اسکے بد ترین خدشات سچ ہونے جا رہے تھےکون سی منت نہیں تھی جو وہ حاشر کو فون اٹھانے کے لئے نہیں کر رہی تھی
اپنی محبت کے واسطے دے رہی تھی اب تو اسے یقین ہونے لگا تھا کہ حاشر سچ بول رہا ہے
## #####
اور صبح تصدیق بھی ہو گئی سوشل میڈیا پر یہ خبر وائرل ہوگئی کہ مشہور ایکٹر حاشر خان بہت جلد انڈیا کی فلم میں نظر آئیں گے
گھر میں ایک طوفان آگیا تھا اس خبر سے سب سے پہلے زویا کی پیشی ہوئی تایا جان کے سامنے
تمھیں کب پتہ چلا اور دیکھو زویا یہ مت کہنا تمھیں کچھ پتہ نہیں ہے ،،،احسان صاحب کو اس کی روتی شکل دیکھ کر پہلے ہی ہر بات کی تصدیق ہو گئی تھی،،،
تین دن پہلے بتایا تھا اسنے،،،،،
زویا نے کسی مجرم کی طرح اعتراف جرم کیا،،، ساری غلطی اسکی ہی ہو
سن لیا تم نے یہ میڈیا والے تو جھوٹ بولتے ہیں اپنے پاس سے خبریں بناتے ہیں،،،،احسان صاحب غصے سے بیوی پر دھاڑے تھے،،،
تم نے بتایا کیوں نہیں زویا،،،،مریم بی بی کا دل ڈوبا
تائی جان مجھے لگا وہ مذاق کر رہا ہے اور پھر وہ اب میرا فون بھی نہیں اٹھا رہا ،،،،وہ شرمندہ ہوئی
سب گھر والے سن لیں اس دسمبر کی 27 تاریخ کو زویا کی بارات ہے تم اپنے بیٹے سے آج کے آج ہی بات کرو ورنہ میں نواز کو یہ تاریخ دے رہا ہوں کل،،،،،،
احسان صاحب یہ کہتے ہوے گھر سے نکل گئے
زویا مریم بی بی کے پیروں میں بیٹھ گئی،،،،،
تائی جان تایا جان کو سمجھائیں یہ ظلم نہ کریں ہم پر ہم مر جائیں گے میں اس سے بات کروں گی وہ سمجھ جائے گا ،،،،وہ اب ہچکیوں سے رو رہی تھی،،،
بیٹا وہ اگر سمجھنے والا ہوتا تو تمھارا فون اٹھا لیتا وہ،،،،،،
تو بھی مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے اسکے فلموں میں کام کرنے پر ،،،اسے کرنے دیں کام مگر یہ رشتہ نہیں ختم کریں،، میں مر جاؤں گی،،،، وہ رو رو کر بحال ہو رہی تھی
#########
تائی جان سے حاشر کی بات ہو گئی اور اسنے بتا دیا کے وہ فلم لائن نہیں چھوڑ سکتا ،،اور پانچ سال تک شادی جیسی جھنجٹ میں بھی نہیں پڑ سکتا
رات کو تایا جان زویا کے کمرے میں آئے
پھر کیا سوچا ہے بیٹا آپ نے میں اگلے ہفتے نواز کی فیملی کو بلا لوں
تایا جان یہ اسکی آخری فلم ہوگی ،،زویا نے نظر جھکا کر کہا
زویا تمھیں یاد ہے جب اسنے پہلا کمرشل کیا تھا جب بھی تم نے یہ ہی کہا تھا مجھ سے تایا جان بس ایک کمرشل کرنے دیں،،،،
زویا،،،،،:وہ اب کچھ نیا سائن نہیں کرے گا تایا جان
ہاں ایسا اسنے جب کہا تھا جب اسے پہلے ڈرامے کی آفر ہوئی تھی ہیں نا زویا یاد ہے تمھیں،،،،
زویا:،،،،،،وہ شوبز کی دنیا چھوڑ دے گا وہ مجھے نہیں چھوڑ سکتا،،، نظر نیچے رکھ کر کہا
تایا جان ہنسے،،،،” ارے ہاں ایسا تو اسنے لندن جاتے ہوئے کہا تھا بیٹا یاد ہے مجھے ٫،،،،
تایا جان اگر وہ فلم لائن نا بھی چھوڑے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے،،،،اب زویا نے انکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
پر اسے ہے اعتراض تم سے شادی پر احسان صاحب نے ایک دم چیخ کر کہا،،،،،
زویا نے ڈر کر بے یقین نظروں سے انکی طرف دیکھا
وہ اپنی جیب سے کچھ نکال رہے تھے
” میں نہیں چاہتا تھا کہ تمھیں یہ دوں مگر “,,,
کیا ہے یہ تایا جان ،،،وہ اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھا سکی،،،
یہ میری تربیت ہے بیٹا جو میرے بیٹے نے میرے منہ پر ماری ہے یہ کل میرے آفس نمبر پر مجھے بھیجا ہے اس نے تم اسے پڑھ لو
اور اپنا فیصلہ مجھے بتادو ویسے تمھارے ماموں بھی اپنے بیٹے کے رشتے کے لیے آنا چاہ رہے ہیں لیکن آخری فیصلہ تمھارا ہی ہو گا
اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ کمرے سے نکل گئے
انکے جانے کے بعد زویا نے وہ کاغذ کھولا
بابا میں نے بہت سوچا اور اس فیصلے پر پہنچا ہوں کہ میں فلم لائن نہیں چھوڑ سکتا اور اپنے کیریر کی پیک پر میں شادی جیسا احمقانہ فیصلہ نہیں کر سکتا آپ زویا کو سمجھائیں وہ مجھے فون اور مسیج نا کرے میں اپنا فیصلہ نہیں بدلوں گا کم از کم پانچ سال تو میں شادی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا اور ظاہر ہے اتنے سال آپ زویا کو میرے لیے بیٹھا تو نہیں سکتے اسلئے آپ نواز انکل سے بات کریں احسن اچھا لڑکا ہے زویا کو پسند کرتا ہے
حاشر خان
زویا نا جانے کتنی بار رات سے اب تک یہ ای میل پڑھ چکی تھی اور اب تو اسکے پاس آنسو بھی ختم ہو گئے تھے کتنا ارزاں کر دیا تھا حاشر نے اسے ہلکی پڑ گئی تھی وہ سارے گھر کے سامنے اسے لگا وہ مر گئی ہے نماز کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے
آج اسے اللّٰہ سے شرم آئی ایک شخص کے پیچھے وہ دین اور دنیا بھلا بیٹھی تھی اسنے تو کبھی خود کے لئے دعا ہی نہیں کی تھی ہر دعا اس شخص سے شروع ہو کر اس پر ہی ختم ہو جاتی تھی وہ بھول بیٹھی تھی
” نامحرم محبتیں ایسے ہی رسوا کرتی ہیں کزن تھا زبردستی کا منگیتر تھا محبت تھا پر شوہر تو نہیں تھا جو چھوڑنے سے پہلے ایک بار سوچتا یہ تو زویا کی غلطی تھی نا کہ وہ اپنا ہر رشتہ اس شخص میں ڈھونڈتی تھی اس شخص کے پاس تو رشتوں اور محبتوں کی کمی نہیں تھی ،،،
کیا وہ جی سکتی تھی اسکے بغیر وہ جو کہتا تھا اسے وہ ہوا بھی بری لگتی جو زویا کو چھو کر گزر جائے اور اج کتنے آرام سے آج ایک دوسرے مرد کا نام جوڑ دیا تھا زویا کے نام کے ساتھ،،،،،
وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اس شخص کے لئے جو بیچ راستے میں چھوڑ گیا تھا
### ######
اور پھر زویا نے اپنا فیصلہ کر لیا اسنے باتھ لیا اور اپنے کپڑے بدل کر شیشے کے سامنے آکر کھڑی ہوئی اپنے چہرے سے ایک دم نفرت سی محسوس ہوئی
آج آخری بار روئی ہوں تمھارے لئے حاشر آج سے تم میرے لئے کچھ بھی نہیں،،،،
وہ کمرے سے نکلتی چلی گئی اور لاونج میں آکر کھڑی ہوگئی سب اسکو دیکھ کر خاموش ہوگئے
تایا جان میں نے فیصلہ کر لیا ہے میں شادی کے لئے تیار ہوں
احسان صاحب نے پہلے حیرت سے اسے دیکھا پھر کہا
ٹھیک ہے میں نواز کو فون کر دیتا ہوں
نہیں تایا جان اس بار آپکا بیٹا میری ذندگی کا فیصلہ نہیں کرے گا بہت کر لئے اس نے میرے لئے فیصلے آپ ماموں جان کو ہاں کر دیں اور میری بارات 27 دسمبر کو ہی ہو گی ،،،وہ جیسے آئی تھی ویسے ہی تیزی سے واپس چلی گئی،
اور شازیہ بیگم تو شازیہ بیگم کمرے میں بیٹھے ہر شخص نے زویا کی بے باکی کو حیرت سے دیکھا پر زویا کو اب کسی کی پروا نہیں تھی
####$##
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...