سو تو نہیں گئی ہو۔؟ مجھے جواب دو۔! مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے۔!
جی روحیل میں ادھر ہی ہوں۔
وہ بس گھر کے اندر ایک بڑی گاڑی داخل ہوئی ہے تو مجھے حیرت ہو رہی ہے۔ اس وقت بھلا اور کون ہو سکتا ہے؟
کیسی گاڑی ہے زینہ۔؟؟
پتا نہیں کافی بڑی سی گاڑی ہے اور بس ابھی ابھی کوئی شخص گاڑی کے اندر سے نکلا ہے۔۔
ہائے اللہ یہ تو بالکل آپ جیسا دکھتا ہے۔میرا مطلب ہے قد کاٹھ اور جسامت میں۔!!
اچھا میں چوکیدار کو فون کرکے پوچھتا ہوں ، تم نے کہیں بھی نہیں جانا ہے ۔! سمجھی ہو۔؟
جی میں ادھر ہی ہوں۔!
چوکیدار ایسے تو کسی بھی ایرے غیرے کو گھر کے اندر داخل ہونے کی اجازت قطعاً نہیں دے گا۔!
زینہ نے فون ہاتھ میں تھامے ہوئے لپک کر بند کنڈی کو ہاتھ لگا کر دوبارہ تصدیق کی۔
پیغام کے بجائے سکرین پر روحیل کا نام جھلملانے لگا۔
ہائے اللہ یہ تو فون کر رہے ہیں۔
السلام علیکم ۔!
جی روحیل۔!
زینہ تم گھبراؤ نہیں یہ جیمی آیا ہے پھپھو کو اچانک خوش کرنے کا منصوبہ بنا کر آیا ہے ، اسی لیے سب کو اپنی آمد سے بےخبر رکھا ہے۔۔
جیمی کون ہے روحیل ؟؟
اوہ تمہیں تو بتایا ہی نہیں ہے یہ ہماری پھپھو کو اکلوتا بیٹا ہے جو آئے روز نئے نئے منصوبے تشکیل دیتا رہتا ہے۔۔
وہ تو ٹھیک ہے مگر وہ یہاں پر کتنا عرصہ ٹھہرے گا۔؟؟ میرا مطلب میرے اس سے پردہ کرنے پر پھپھو ناراض نہ ہو جائیں۔؟
زینہ میری بات ذہن نشین کر لو۔! تم میری بیوی ہو ،میری ذمہ داری ہو اور میں یہ حق کسی اور کو نہیں دوں گا کہ وہ تمہارے اوڑھنے پہننے کے طریقے سکھائے۔۔۔ وہ چاہے پھپھو ہوں یا پھر کوئی اور تیسرا ہو ، میری غیرت گوارا نہیں کرے گی کہ میری بیوی کو میرے علاوہ کوئی اور دوسرا دیکھے۔!!
تم جیسے پہلے نامحرم سے پردہ کرتی تھی ،اب بھی ویسا ہی کرو گی۔!!
جی بہتر ہے۔۔۔ زینہ نے دھیمے لہجے میں بولا مگر پھپھو کی نقطہ چینی اور عیب جوئی کی عادت پریشان کرنے لگی۔۔
اچھا میں فون بند کرتا ہوں ، ہم ایئر پورٹ پہنچ چکے ہیں۔ چیک ان کے بعد رابطہ کرتا ہوں ان شاءاللہ۔۔
جی ان شاءاللہ۔!!
زینہ نے الوداعی کلمات کے بعد فون بند کر دیا،ساتھ ہی روحیل کا تحریری پیغام جھلملانے لگا۔۔
زینہ سونا نہیں ہے پلیز۔ ابھی ڈرائیور اور عاصم کی وجہ سے میں فون کال پر نہیں بول پایا ہوں ، میں سامان وغیرہ سے فراغت کے بعد تمہیں کال کرتا ہوں۔۔
روحیل امی سو رہی ہیں ، میں کوشش کروں گی تحریریں پیغام رسانی ہی کر لیتے ہیں۔
اچھا چلو ٹھیک ہے۔! سونا ہرگز بھی نہیں ہے۔!!
جی ۔! زینہ فون ہاتھ میں تھامے دوبارہ کھڑکی کے پاس آن رکی ۔ دل میں آنے والی اگلی صبح اور اس آنے والے نئے مہمان کی فکر ستانے لگی۔۔
یا اللہ تو ہی پھپھو کا دل میری طرف سے نرم کر دے۔ پہلے پھر بھی ویرے اور روحیل کا تھوڑا بہت لحاظ کر لیتیں تھیں ، مگر اب تو مجھے کچا چبا جائیں گی۔۔ چچا تو بس خاموشی سے پھپھو کی باتوں پر ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں۔۔
پتا نہیں نیا مہمان کہاں پر پڑاؤ ڈال رہا ہے۔؟؟
کہیں پھپھو روحیل کے کمرے میں نا بھیج دیں ۔ ہائے اللہ اگر روحیل کی ڈائری پھپھو کے ہاتھ لگ گئی تو۔؟
زینہ کا خون خشک ہونے لگا۔۔ ابھی آدھی رات کو اوپر جانا بھی مناسب نہیں ہے۔۔
روحیل آپ کے گھر سے رخصت ہوتے ہی میں کس قدر لاچار ہو گئی ہوں ۔
روحیل اللہ کرے آپ سارے کام نپٹا کر بہت جلد لوٹ آئیں ، شاید میں آپ کے بنا اکیلی نہیں چل سکوں گی ۔ حجاب کے دشمن میرے اوپر گدھ کی طرح ٹوٹ پڑیں گے۔۔۔
ناچاہتے ہوئے بھی زینہ کی آنکھیں مینہ برسانے لگیں۔۔
کھڑکی سے آتے تازہ ہوا کے جھونکے زینہ کے اندر کی حبس کو بھی نا مٹا سکے۔۔
باغیچے میں پھیلا سناٹا اور روش پہ کھڑی گاڑی نئے آنے والے کی مالی حیثیت کو اجاگر کرنے لگی۔۔۔
یقیناً مالدار بندہ ہے جبھی تو بادشاہوں کی طرح دنداناتا ہوا گھس آیا ہے۔۔
سوچوں میں گھری زینہ نے جھرجھری لی ،شاید ہوا میں پھیلی خنکی اندر کے رنجیدہ جذبات کو ٹھنڈا کر دے مگر نم آلود آنکھیں ہوا خوری سے گریزاں ہونے لگیں۔ زینہ نے آگے بڑھ کر کھلی کھڑکی کے پٹ کا گلا گھونٹ دیا۔ کمرے میں مکمل سناٹا چھا چکا گیا۔ گاہے بگاہے امی کی بھاری سانسیں کمرے میں ارتعاش پیدا کرتیں۔
مسلسل کھڑے رہنے سے ٹانگیں شل ہونے لگیں،آج کی رات نیند تو گویا روٹھنے کا تہیہ کیے بیٹھی تھی۔۔
تھکے ماندے قدموں سے بستر کا رخ کیا اور دھیرے سے امی کی بائیں جانب نیم دراز ہو گئی۔۔
نجانے دل روحیل عاصم کے چلے جانے پر اداس تھا یا پھر اس نئے آنے والے کی آمد پر خوفزدہ تھا بہرحال جو بھی تھا زینہ کے کڑے امتحان کا وقت دستک دینے لگا۔۔۔
گہری سوچوں میں گم زینہ اچانک فون کی تھرتھراہٹ پر سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ روحیل کا پیغام دیکھ کر دل میں اطمینان سا اتر آیا ۔
زینہ سو گئی ہو ۔؟؟
نہیں تو .! میں آپ کی منتظر تھی۔!
اچھا۔ ! مجھے اچھا لگا ہے کہ تم میری منتظر تھی مگر ساتھ میں تمہاری نیند بھی خراب ہونے پر افسوس ہے ۔
نہیں آپ پریشان نہ ہوں۔ نیند کا کیا ہے روزانہ رات کو سوتی ہوں ایک دن نہ سوئی تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔!
اچھا۔! اسکا مطلب ہے پتھر دل پر محبت کی پھوار برسنے لگی ہے ۔؟؟
محبت کا تو نہیں پتا البتہ آپ کی غیر موجودگی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔!
ہائے زینہ۔! تمہارا یوں اپنے جذبات کی عکاسی کرنا مجھے بہت اچھا لگا ہے۔۔۔! امید ہے میری غیر موجودگی ہی تمہارے ان سوئے جذبات کو اجاگر کرے گی ان شاءاللہ۔۔
شاید ایسا ہی ہو۔! قبل از وقت کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے۔
زینہ ظالم محبوبہ دل رکھنے کے لیے ہی پردیسی شوہر کو ہاں بول دیتی۔۔
ہاہاہاہا ہاہاہاہا پردیسی شوہر اتاولے کیوں ہوئے جا رہے ہیں۔؟؟
روحیل آپ سے کچھ پوچھوں۔؟
ہاں بولو۔!
یہ آپ کا پھپھی زاد کس ذہنیت کا مالک ہے۔؟ میرا مطلب ہے یہ بھی حجاب کے خلاف زہر اُگلتا ہے یا پھر اللہ کا تھوڑا بہت خوف رکھتا ہے ۔؟؟؟
زینہ تم سے پہلی ملاقات پر جیسے میں تھا بالکل ویسے ہی اس جیمی کی سوچ ہے۔۔! مگر تم پریشان نہ ہو ، مجھے امید ہے جیسے میری زینہ نے مجھ جیسے اکڑو کو زیر کیا تھا ایسے ہی اس سے بھی پہلو تہی کرنے میں کامیاب رہے گی، اسکی کسی بات کو دل پر مت لینا اور پھپھو کے ناجائز مطالبات پر کان نہ دھرنا۔ تم وہی کرنا جو تمہیں شریعت حکم دے رہی ہے۔۔ ! اپنے فرائض نبھا کر اپنے کمرے میں قیام پذیر رہنا۔!!
جی میں بھی یہی سوچ رہی تھی۔! جب تک مہمان گھر پر موجود ہے مجھے بہت محتاط ہونا پڑے گا۔۔
اور ہاں ڈائری ماسی امی کے دوائیوں والے دراز میں رکھی پڑی ہے۔ جب میں ان سے ملاقات کے لیے آیا تھا تو ادھر چھپانے کے لیے علاوہ اور کوئی چارہ نظر نہیں آیا ۔
روحیل۔!!
جی روحیل کی جان ۔!!
روحیل شکر ہے آپ ڈائری یہاں پر چھوڑ گئے ہیں وگرنہ میں تو گزشتہ ایک گھنٹے سے ہلکان ہوئے جا رہی تھی کہ اگر پھپھو نے مہمان کو آپ کے کمرے میں بھیج دیا تو میرا کیا بنے گا۔؟
زینہ جیمی کا کمرہ عاصم کے کمرے کے ساتھ والا ہے جہاں پر وہ ہمیشہ سے آ کر ٹھہرتا رہا ہے۔۔۔تم پریشان نہ ہو۔۔
جی بہتر۔۔
پر آپ ڈائری کا پہلے بتاتے تو میں فضول میں جلنے کڑھنے کے بجائے آپکی تخلیقی صلاحیتوں سے مستفید ہوتی رہتی۔
بیوی صاحبہ آپ کا پہلا شکوہ سن کر دل میں خواہش ابھری ہے کہ آپ کے چہرے مبارک کا دیدار کروں۔۔
آپ بھی نا۔!
کیا میں بھی ۔؟؟
فوراً پٹڑی سے اتر کے کچی شاہراہِ پر کلابازیاں لگانا شروع کر دیتے ہیں۔۔
ہاہاہاہا ہاہاہاہا ہاہاہاہا روحیل نے جوابی کارروائی کی۔
ابھی ہنس رہے ہیں۔؟
تو اور کیا رو دوں۔؟؟ زینہ یار باتوں باتوں میں 45 منٹ گزر گئے ہیں۔۔
آپ کے تو 45 منٹ میرے ساتھ محو گفتگو رہ کر گزر رہے ہیں ، میرے ویر کا کیا حال ہو رہا ہو گا ؟؟
تمہارا ویر بھی موبائل پر گیم کھیلنے میں غلطاں ہے۔۔!
اچھا زینہ ابھی ہمیں طیارے میں سوار ہونے کے لئے بلایا جا رہا ہے۔ میں سوار ہوتے ہی تمہیں آگاہ کرتا ہوں۔!
جی بہتر ۔!!
کہیں نہیں جانا زینہ !
میں کہیں نہیں جا رہی ہوں روحیل .!!!
زینہ نے پیغام رسانی کے فورا بعد سر دبیز کشن پر ٹکا لیا۔۔۔
آنکھوں کے بے لگام جذبات گال بھگونے لگے۔۔
سمجھ سے باہر تھا کہ اس شخص سے محبت ہو چکی ہے یا پھر ہونے جا رہی ہے۔ ؟
اسکی دوری مجھے کیوں رلا رہی ہے۔؟
شاید میں نامحرم کی آمد پر پریشان ہوں۔؟
سوچوں کے گھوڑے تھک ہار کر ایک نقطے پر رکنے لگے۔۔ روحیل کا حسنِ سلوک ہے زینہ جو تمہیں اسکی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔۔۔
یا پھر نکاح کے اس پاکیزہ بندھن میں اس قدر طاقت ہے کہ ناچاہتے ہوئے بھی دل اس محرم کی طرف کھچا چلا جا رہا ہے۔۔
زینہ نے خود کو طفل تسلیاں دیں جبکہ دل آنے والے نئے امتحان پر خائف تھا۔۔
زینہ ہمارا طیارہ اڑان بھرنے لگا ہے لہٰذا میں فون بند کرنے لگا۔ ! اپنا بہت سارا خیال رکھنا۔! اور میں نہ سنوں کے تمہاری نشیلی آنکھیں میرے فراق میں آبدیدہ ہو رہی ہیں۔!!
پڑھتے ہی زینہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی، روحیل آپ کو کیا پتا زینہ کی آنکھیں آپ کے فراق میں ابھی سے شکوہ کناں ہیں۔ زینہ سوچ کر رہ گئی۔۔
روحیل میں آپ کو مسنون اذکار ریکارڈ کر کے بھیجتی ہوں ، دوران سفر انہیں دہراتے رہیے گا۔
ہاں نا ۔جلدی سے بھیجو میرے پاس صرف پانچ منٹ ہیں۔
جی بہتر۔! زینہ اپنی شیریں مدھم آواز میں اذکار مسنونہ ریکارڈ کرنے لگی۔۔یکے بعد دیگرے پیغام صوتی بھجوا کر الوداعی سلام بھیجا۔۔۔
زینہ تم مجھے بہت عزیز ہو ، اپنا ڈھیر سارا خیال رکھنا۔! تمہاری محبت کا طلبگار روحیل ارشاد۔ الوداعی پیغام ملتے ہی چند لمحوں بعد روحیل آف لائن ہو گیا۔۔۔
پیغام پڑھتے ہی زینہ کا دل گویا کسی نے مٹھی میں لے لیا۔۔۔
فوراً آنسو صاف کر کے وضو کے لیے چل دی۔۔
اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز اپنے روحیل کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگنے لگی۔
روحیل ڈائری تو شاید دور کی بات ہے مجھے شاید آپ سے محبت ہو چکی ہے۔اللہ نے میرے دل کو آپ کی طرف مائل کر دیا ہے۔۔۔شاید آپ کی دعاؤں میں میری دعاؤں سے زیادہ شدت ہے۔ ؟ زینہ نے جائے نماز کو سمیٹا تو عقب سے امی کی آواز آئی۔۔
زینہ۔!
جی امی۔!
بیٹی ابھی جاگی ہو۔؟ فجر طلوع ہو چکی ہے کیا۔؟؟
ارے نہیں امی فجر میں ابھی گھنٹہ بھر باقی ہے اور مجھے نیند نہیں آ رہی تھی تو سوچا نوافل ادا کر لوں۔۔
جیتی رہ میری بچی۔! اللہ تجھے دنیا و آخرت کی خوشیاں نصیب کرے آمین۔
ماں کی مامتا نے جوش مارا اور زینہ دعائیں سمیٹنے لگی۔۔
***************#Zaynah_Hayyat**********
زینہ یہ تم کیا بھوت بنی پھر رہی ہو ؟؟ باورچی خانے میں بھی بھلا کوئی برقعہ پہن کر آتا ہے۔؟؟
نرالے اسلام پر چل نکلی ہو لڑکی۔!!!
اب زینہ پھپھو کو کیا بتاتی کہ اگر آپ کا بیٹا شرعی حدود و قیود کا پابند ہوتا تو وہ کبھی بھی اس دہری اذیت سے دوچار نہ ہوتی۔۔زینہ دل میں سوچ کر رہ گئی۔۔۔
زینہ کی امید کے مطابق پھپھو کے کچوکوں کا آغاز ہو چکا تھا۔۔
جیمی کا ناشتہ میں خود بناؤں گی تمہیں تو ٹھیک سے انڈا فرائی کرنا بھی نہیں آتا ہے۔!!
جی پھپھو۔! زینہ نے آنسو پیتے ہوئے فرائی پین پھپھو کو پکڑا دیا۔۔۔
گھر آئے مہمان کی آؤ بھگت کا سلیقہ بھی سیکھ لو۔
زیادہ نہ سہی میرے بیٹے کو جھوٹے منہ سلام ہی بول دو لڑکی۔! تم تو یہی چاہتی ہو میرا میکہ چھوٹ جائے اور تم اکیلی یہاں پر اپنی شدت پسندی کا پرچار کرتی پھرو۔!!
پھپھو قطعاً ایسی بات نہیں ہے۔ روحیل کے حوالے سے آپ مجھے بہت عزیز ہیں۔اور جہاں تک بات جیمی بھائی کی ہے تو میں چچا کی موجودگی میں انہیں سلام بولنے جاؤں گی ان شاءاللہ۔۔
آئے ہائے تیرے یہ نخرے۔!
چچا کی غیر موجودگی میں کیا وہ تم پری کو ہڑپ کر جائے گا ۔؟؟
پھپھو جان بات ہڑپ کی نہیں ہے ، بات اصول و ضوابط کی ہے۔! میں کسی بھی غیر محرم سے تنہائی میں نہیں ملتی ہوں۔!! ۔
اے کونسا نامحرم ۔؟؟ میرے بچے کے اوپر ابھی سے الزام تھوپنا شروع کر دیا ہے ، ابھی تو اس بیچارے کے جہاز کے چکر بھی نہیں اترے ہیں اور تمہاری گل افشانیاں عروج پر ہیں۔۔!
پھپھو آپکو غلط فہمی ہو رہی ہے ، میرا وہ مطلب نہیں تھا جو آپ سمجھ رہی ہیں۔ زینہ نے آنسو پیتے ہوئے لاچارگی سے اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔۔
مگر روحیل کی پھپھو ہی کیا جو حجاب پر کاری وار کرنے سے گریزاں رہے۔۔
بےدھیانی میں چولہے پر ابلتی چائے پتیلی سے ابل کر گرنے لگی۔۔
اے لڑکی چائے کے سر پر کھڑی ہے اسکے باوجود تیرا دماغ ٹھکانے پر نہیں رہتا ہے۔ سر کو ہر وقت ڈھانپ ڈھانپ کر تیرا دماغ ناکارہ ہو چکا ہے۔۔
پھپھو نے غصے میں بولتے ہوئے زینہ کو گھورنا واجب سمجھا ۔۔
زینہ نے کپکپاتے ہاتھوں سے چولہا فوراً بند کیا اور ابلیتی چائے میں بڑا چمچ چلانے لگی۔۔
اب ادھر کھڑی چائے کو نہ گھورو لڑکی۔!! چائے کو چائے دانی میں چھان کر میز پر رکھ کر آؤ۔۔!!
بڑی بیگم صاحبہ میں چھوڑ آتی ہوں چائے۔!! برتن دھوتی شریفاں نے ہاتھ روک کر اپنی خدمات پیش کیں۔۔
نہیں نہیں تم رہنے دو ۔! گھر کی بڑی بہو ہونے کے ناطے سے اس کا فرض ہے کہ گھر آئے مہمانوں کی دیکھ بھال کرے۔۔!
جی بیگم صاحبہ۔! شریفاں اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔ جبکہ زینہ کسی ربورٹ کی طرح پھپھو کے اشاروں پر کام کر رہی تھی۔۔
چائے دانی ٹرے میں رکھ کر ساتھ میں کیک بسکٹس سجانے لگی۔۔
لڑکی جلدی جلدی ہاتھ چلاؤ۔! میرا بیٹا کب سے میز پر ناشتے کا منتظر ہے۔
شریفاں تم دومنٹ بعد ابلتے انڈے چھیلو۔! جیمی پروٹین ڈائٹ ہر اکثر رہتا ہے تو شاید وہ فرائی انڈے کے بجائے ابلا انڈا کھانا پسند کرے۔۔
جی بیگم صاحبہ۔!
اور تم یہاں پر کھڑی کیا کر رہی ہو۔؟
پھپھو میں نقاب درست کر رہی ہوں۔! زینہ نے دھیمے لہجے میں ادب سے جواب دیا۔
ہونہہ نقاب ۔!!!
تو میرے بیٹے سے بھی پردہ کرو گی ؟ جو سال میں نجانے کتنے چکر اپنے ننھیال کے لگاتا ہے۔!
ججججی پھپھو۔!!
چلو میں بھی دیکھتی ہوں کتنا عرصہ تک تمہارا یہ پردے کا ڈھونگ رچے گا۔چند ماہ میں گرمیاں آ رہی ہیں ۔! دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا لڑکی۔!
چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے یہاں پر کھڑی اسے شربت بنا کر لے جاؤ گی۔؟؟
ننننہیں پھپھو!
میں آپ کے ساتھ چل رہی ہوں۔!
ہاتھوں کی لرزش پر قابو پاتے ہوئے زینہ نے ٹرے تھام لی۔۔
باورچی خانے سے ملحقہ کمرے میں بارہ افراد کا اکھٹے بیٹھ کر کھانے کا انتظام موجود تھا۔۔ایک شاہانہ بڑا شیشے کا مستطیل میز جس کے چاروں اطراف شاہی انداز میں بچھی کرسیوں پر براجمان دو افراد کو دیکھ کر خوف سے زینہ کے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی ۔۔
زینہ کو دیکھتے ہی ارشاد صاحب کرسی سے کھڑے ہو گئے۔۔
آؤ آؤ زینہ بیٹی۔!
اس سے ملوں یہ جیمی ہے شمیم کا اکلوتا بیٹا اور میرا عزیز ترین بھانجا۔۔۔!
زینہ نے ہاتھوں میں تھامی ٹرے کو میز پر رکھا اور جھکی گردن سے سلام بولا۔۔ جبکہ مہمان بےباک نظروں سے زینہ کے حجاب میں چھپے جسم کو سر سے پاؤں تک گھورنے لگا ۔۔۔
ماموں یہ کیا ؟؟ کیا یہ روحیل کی بیوی ہے ۔؟؟
بڑی حیرت کی بات ہے ، اتنی پڑھا لکھا بندہ ہے اور اس طرح کی دقیانوسی خیالات کی لڑکی بیاہ کر لے آیا۔
جیمی نے بولتے ساتھ بڑا قہقہہ لگایا۔۔
ارے نہیں بیٹا ۔ ہماری زینہ تعلیم یافتہ ،سلجھی ہوئی بچی ہے ماشاءاللہ۔
ارشاد صاحب نے ہنوز کھڑی زینہ کے سر پر دست شفقت رکھا۔۔
ماموں پھر بھی کتنا (اوکورڈ) عجیب لگتا ہے نا ۔؟؟؟
زینہ کا جی چاہا اس دوٹکے کے ذہن والے کے سر پر گرم چائے انڈیل دے اور پوچھے کہ جہنم کی گرمی کا اندازہ کر کے بتاؤ جو تم اس وقت بیٹھے اللہ کے حکم کی دھجیاں فراغ دلی سے بکھیرتے پھر رہے ہو۔!
تاڑو سا جیمی زینہ کو دنیا کا بدصورت ترین شخص لگنے لگا۔ زینہ گردن جھکائے اس ہتک آمیز ماحول سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔۔
چچا جان میں نے امی کو ناشتہ کھلانا ہے ، مجھے اجازت دیں۔
ہاں ہاں بیٹی جاؤ امی کو ناشتہ کھلاؤ اور خود بھی سیر ہو کر کھانا۔! ارشاد صاحب نے لاڈ سے اپنی بہو کو اجازت نامہ جاری کر دیا۔۔۔
پھپھو نے منہ مروڑا۔۔۔جبکہ انکا تاڑو بیٹا بھی گردن موڑے بنا نہ رہ سکا۔۔
امی کے ناشتے سے فراغت کے بعد فوراً روحیل کی چھوڑی گئی ڈائری کھول لی۔۔
پہلا صفحہ پلٹتے ہی خوش خطی سے تحریر کردہ جملے اپنی طرف کھینچنے لگے۔۔
“ڈائری لکھنا میری زندگی کا کبھی بھی شیوہ نہیں رہا ہے مگر اس لڑکی نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں اپنے جذبات و احساسات کو کاغذ قلم کے سپرد کر دوں۔۔
“دسمبر کی وہ سہ پہر میری زندگی کی کایا پلٹ گئی، نجانے اس لڑکی کی آنکھوں میں کیا تھا جو مجھ جیسے دل پھینک مرد کو سوچنے پر مجبور کر گیا۔
میں جو اسے اپنی اور اپنے دوستوں کے لئے تر نوالہ سمجھ کر شکار کرنے نکلا تھا ، وہ مجھے مسمار کر گئی، وہ تو ساحرہ نکلی۔
منیب کے بےپناہ اصرار پر بھی میں نے اسے جانے دیا۔۔
اپنے اندر کے حیوان کو قابو کرنے کے چکر میں ، میں اسے اسکی رنگت کے طعنے دینے لگا حالانکہ اسکی نشیلی آنکھوں کی کشش اور اسکے چہرے کی معصومیت ، اسکے ڈھکے پاکیزہ وجود کی بناوٹ میرے سے پوشیدہ تو نہ تھی۔۔۔
مجھے نہیں خبر کیوں وہ لڑکی مجھ جیسے سخت جان مرد کے اعصاب پر سوار ہو گئی۔؟؟ شاید اس کے ساتھ اللہ کی مدد تھی جو مجھ جیسے آوارہ مزاج کو رحم کرنے پر آمادہ کر گئی۔۔۔
اس کی بےبسی اپنے عروج پر تھی مگر میں اپنی مردانگی دکھانے کے لیے ہر حد پار کرنے کے لیے تیار بیٹھا تھا نجانے ان چند لمحوں میں مجھے کیا سوجھی اور میں نے اسے آزادی کا پروانا تھما دیا۔۔۔
وہ تو چلی گئی مگر میری دنیا آباد کر گئی۔۔ میرا دل اس کی طرف کھنچنے لگا۔۔ منیب اور دوستوں کے ہمراہ کھوکھلی ہنسی ہنستا میرا چہرہ اس کی پارسائی کے طمانچے سہنے لگا۔۔۔
مجھے نہیں خبر یہ سب اللہ کی طرف سے تھا یا پھر اس لڑکی کے ساتھ ملاقات ایک حادثہ تھی۔
آئے روز منیب سے اس کے قصے سن سن کر کان پک گئے تھے ، سوچا تھا جیسے ہی سامنے آئے گی اسکا غرور اس کے جسم سے لطف اندوز ہو کر پاش پاش کر دوں گا ۔۔۔
اسکا غرور تو توڑ نہ پایا مگر خود پاش پاش ہوگیا۔۔
اسی ایک گھڑی میں مجھے زینہ حیات سے محبت ہو گئی۔۔۔
میں ہر ڈال کا بھنورا منیب سے بھی چھپانے لگا۔۔۔ منیب کے بارہا اصرار پر بھی اسکی ویڈیو اپلوڈ نہ کر پایا۔۔۔ زینہ صفحات پلٹتی چلی جا رہی تھی اور ہر نیا صفحہ نئی داستان سنا رہا تھا۔۔۔
بہت سوچ بچار کے بعد منیب کو اس سے معافی تلافی پر رضامند کیا کہ شاید میرے اس بے کل دل کو قرار مل جائے مگر ہنوز وہی تشنگی اپنے حصار میں لیے ہوئے تھی۔۔
منیب کی وفات کے بعد تو ایسے لگنے لگا جیسے اس لڑکی کی بددعائیں ہمارا پیچھا کرتی رہیں ہیں، جیسے ہمیں اسکی آہ لگ گئی ہے۔۔ اور اسکی آہ و زاری کی زد میں سب سے زیادہ میں بدذات خود آیا ہوں، میری تو راتوں کی نیند اڑ چکی ہے۔
رتجگوں کی سزا میں افاقے کے لیے کام کی شفٹ دن کے بجائے رات کو کرنے لگا ہوں ، بار بار دماغ بھٹک جاتا ہے ، لیپ ٹاپ کی سکرین پر کھلے ونڈوز دھندلانے لگتے ہیں۔
میں کیسے اس لڑکی کو یقین دلاؤں کے مجھے اسکے ساتھ کیے گئے ظلم کی سزا اللہ کے بہترین عدل کے مطابق مل رہی ہے، میری بھوک اڑ چکی ہے۔۔ کان سائیں سائیں کرنے لگے ہیں، سینے کی جکڑن بڑھتی چلی جا رہی ہے، ڈیڈ میرے ہر وقت ٹپ ٹاپ حلیے کے بجائے اجڑی حالت پر پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ آئے روز میرے سے پوچھ تاچھ کرتے ہیں مگر میرے پاس انہیں بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا کیوں کہ میں نے ابلیس کے راستے کا انتخاب خود کیا ہے۔۔
اب رنگ و بو کی محفلوں میں میرا دل نہیں لگتا ہے، حسین وجمیل دل لبھاتی لڑکیاں میرے سامنے ایک زانیہ ، بدکار کے سوا کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہیں ،مجھے ایسی لڑکیوں سے گھن آنے لگی ہے جبکہ چند ہفتے قبل میں بھی اسی آوارگی کا دلدادہ تھا۔۔۔ میں زانی تھا ، میں بدکار تھا۔
آئے دن میرے بستر کی رونق بننے والی ایک نئی دوشیزہ ہوتی تھی۔ میری ایک گہری مسکراہٹ اور ایک جملہ ان امیر زادیوں کے لئے حرف آخر کی حیثیت رکھتا تھا۔۔ میری موہنی صورت پر مرنے والی یہ بیوقوف لڑکیاں اپنے آپ کو میرے سامنے کسی نئے کھلونے کی طرح وار دیتی تھیں۔۔
آخری جملے پڑھ کر زینہ کی آنکھیں چھلکنے لگیں ، دل پر گھبراہٹ طاری ہونے لگی مگر ہمت و حوصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ڈائری میں مقید حقائق کو جاننے کی چاہ میں مطالعہ جاری رکھا۔۔۔
اگلا صفحہ پلٹا:
روزانہ اسکا ویڈیو دیکھتا ہوں تو پچھتاووں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہوں ، میری نظر میں دنیا کی حسین ترین لڑکی اس پارسا زینہ کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہے ۔ میری دعا ہے کہ میں کسی طرح اس لڑکی کو اپنا حال دل سنا سکوں۔۔
اس کی یونیورسٹی آج بھی گیا ، اسے دیکھا تھا مگر اس سے بات کرنے کی ہمت نہیں کر پایا ۔۔ اسکی پارسائی کا رعب میرے گناہوں پر حاوی ہو جاتا ہے ، اسکے کردار کا نور میری سیاہ کاریوں پر غالب آ جاتا ہے۔
اب ارادہ یہی ہے کہ روزانہ اسے یونیورسٹی میں فاصلے پر رہ کر دیکھ تو آیا کروں۔۔
زینہ کا تجسّس بڑھنے لگا دھڑکتے دل کے ساتھ اگلا صفحہ پلٹا۔۔
روز دیکھتا ہوں اور دل میں کسک اٹھتی ہے کہ کاش میں اس لڑکی کو پا لوں۔۔
اپنے گناہوں کی توبہ دن رات کرتا ہوں، اسلام آباد میں رنگ و بو کی محفلوں کو چھوڑ کر زیادہ وقت میرپور میں گزارنے لگا ہوں۔ ماموں کے چھوڑے گئے ترکے نے میرے لیے اس شہر میں قیام کو آسان بنا دیا ہے ورنہ ڈیڈ کا روز کریدنا میرے چھکے چھڑا دیتا ۔۔ ایسے لگتا ہے جیسے اسکی اس شہر میں موجودگی مجھے تقویت بخشتی ہے۔۔۔
ساری رات آنکھوں میں کٹتی ہے اور آج سالوں بعد فجر کی باجماعت ادائیگی کی توفیق ملی ہے۔۔
میں ایک پتھر دل انسان کی اللہ کے حضور سجدوں میں ہچکیاں بندھ گئیں۔۔۔
اللہ کے حضور گردن جھکی تو دل کا غبار نکلا ہے ، اب میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا ہے ، آج شاید اس پارسا شہزادی سے بات کرنے کی ہمت پیدا کر سکوں۔
روزانہ کوشش کرتا ہوں مگر ناکام رہتا ہے۔۔۔
زینہ بچی آج کمرے میں کیوں بیٹھی ہو ؟ جاؤ کوئی کام کاج کرو میری بچی۔!!
میں ناشتہ کر چکی ہوں کچھ دیر بعد فزیو آ جائے گا۔۔۔
زینہ امی کی پکار پر چونک کر پلٹی۔۔
امی روحیل کے پھپھی زاد جیمی رات کو اچانک آئے ہیں تو پھر میں انکے سامنے سارا دن حجاب میں تو نہیں گھوم سکتی ہوں۔
اے بیٹی سسرال کا معاملہ ہے ، ماں کے گھر کی بات اور تھی ،تم اپنا ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر اپنی بات منوا لیتی تھی مگر سسرال میں رہتے ہوئے انکی منشاء کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔
پھپھی مہمان بن کر میکے آئی ہے ، نجانے کتنے دن کا قیام ہے۔؟ کہیں دل پر نہ لے جائے۔۔
امی نے دھیمے لہجے میں زینہ کو تنبیہ کرنا واجب سمجھا۔۔
زینہ نے چند لمحوں میں دلعزیز بن جانے والی ڈائری بند کرکے دواؤں والے دراز میں چھپا دی۔۔ متوازن چال چلتی ماں کے پاس بستر پر آن اٹکی۔۔
ماں کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر گویا ہوئی۔ امی ہم اللہ کی احکامات کی نافرمانی کرتے ہوئے ناراض کیوں نہیں ہوتے ہیں۔؟؟ ہم رسم و رواج کے لیے خالق کے حکم کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔!
وہ مالک جس کی عطا کردہ لاتعداد نعمتوں سے ہم دن رات فیض یاب ہوتے ہیں، ہم اسی خالق کی حکم عدولی پر کیوں فخر محسوس کرتے ہیں۔؟؟
امی میں اللہ کے حکم کے سامنے لوگوں کے حکم کو نہیں مانوں گی۔!
زینہ میری بچی بعض اوقات مصلحت سے کام لینا پڑتا ہے۔! تم میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔!!
امی جی۔! یہ کیسی مصلحت ہے کہ میں ذیشان بھائی سے پردہ کروں اور روحیل کے پھپھی زاد کے سامنے کھلا چہرہ لے کر گھوموں پھرو کیوں کہ وہ میرا سسرالی رشتہ دار ہے ، میرے شوہر کا پھپھی زاد ہے۔؟؟ امی یہ تو اللہ کے دین کے ساتھ کھلواڑ ہے۔
اپنے نفس کی پیروی کرنا ہے ۔ نعوذ باللہ یہ تو دین کے ساتھ مذاق ہے ۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
بَدَأَ الْاِسْلَامُ غَرِیْبًا وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَاَ‘ فَطُوْبَی لِلْغُرَبَائِ”
”اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا اور عنقریب پھر اجنبی ہو جائے گا،جیسے شروع میں تھا، تو ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں(غرباء ) کے لیے خوشخبری ہے“۔
اس کا معنی یہ ہے کہ اسلام ابتداء میں مکہ کے اندر اور ہجرت کے ایام میں مدینہ میں اجنبی تھا ،لوگ اسے جانتے نہیں تھے ، اس پرعمل کرنے والے بھی قلیل تعداد میں تھے ،پھر یہ دین اللہ کی مدد سے دنیا میں پھیلا ،اور لوگ فوج در فوج اس میں شامل ہوئے ،اور یہ دین باقی تمام ادیان و مذاہب پر غالب آگیا ،
پھر ایک زمانہ آئے گا کہ ،دنیا میں یہ دین حق لوگ بھول جائیں گے ،اور ابتدا اسلام کی طرح ایک مرتبہ پھر یہ لوگوں کیلئے “اجنبی” بن کے رہ جائے گا؛
بہت کم لوگ اس کو جاننے ، ماننے والے رہ جائیں گے یہی “غرباء” ہونگے ؛
انہی لوگوں کو نبی کریم ﷺ نے خوشخبری دی ہے ((فطوبى للغرباء))
صحیح مسلم کے علاوہ مصادر میں موجود اس حدیث میں مزید یہ بات بھی ہے کہ :
((قيل يا رسول الله ومن الغرباء؟ فقال: الذين يصلحون إذا فسد الناس)).
وفي لفظ آخر: ((هم الذين يصلحون ما أفسد الناس من سنتي)).
یہ ارشاد سن کر لوگوں نے پوچھا :’’ غرباء ‘‘ کون ہونگے ؟
فرمایا :جب دوسرے لوگ دین سے بگڑ جائیں ۔۔یہ “غرباء” اصلاح کریں گے،۔۔یا فرمایا :لوگوں نے میری سنت میں جو بگاڑ پیدا کیا ہوگا ،یہ غرباء اس کی اصلاح کریں گے۔(مجموع فتاوى العلامة عبد العزيز بن باز رحمه الله۔۔25-104)
زینہ تم موقع کی نزاکت نہیں سمجھ رہی ہو۔!
امی میں سب سمجھتی ہوں۔!
روحیل نے مجھے اجازت دے رکھی ہے کہ میں اپنے شرعی پردے میں کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہ کروں۔ امی میرا شوہر میرے ساتھ ہے ، وہ مجھے تحفظات دے رہا ہے تو میں دوسروں کی باتوں کی پرواہ کیوں کروں۔؟؟
پھر بھی زینہ بچی سسرال میں سہج سہج کر قدم اٹھاتے ہیں۔!!
امی میں آپ کی بات سمجھ رہی ہوں مگر میں اللہ کے حکم کے سامنے لوگوں کے احکام کی پابند نہیں ہوں۔
میری چلتی سانسوں اور میرے جسم پر اختیار صرف اس رب العالمین کا ہے ، جس نے مجھے صحیح سالم جسم بخشا ہے ، عقل بخشی جس سے میں اچھے برے کی پہچان کر سکوں۔
امی میں پہلے بھی کبھی نہیں ڈگمگائی ہوں تو اب تو میرے ساتھ ایک مضبوط مرد کا ساتھ ہے جو مجھے سرد وگرم سے بچانے کےلئے میرے ساتھ کھڑا ہے۔
امی جان روحیل میرے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں، وہ میرے حجاب پر خوش ہیں۔
روحیل کے تذکرہ پر چند لمحوں کے لئے زینہ کے دل کی دھڑکن اتھل پتھل ہوئی۔۔۔
روحیل تو میرے ہیں نا امی ۔۔! اڑیل دل نے سرگوشی کی اور روحیل کے ذکر پر مچلنے لگا ۔۔ لبوں پر پھیلنے والی مسکراہٹ کو امی سے چھپانے لگی۔۔قیدی جذبوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔۔
پھر بھی بیٹی انکی پھپھو کا دل تمہاری وجہ سے نہ دکھنے پائے۔۔ !!!
امی آپ مجھے جانتی ہیں ،میں دل دکھانا تو دور کی بات ہے ، میں تو انکے سامنے اونچی آواز میں بات نہیں کرتی ہوں، روحیل کی پھپھو جیسے چاہتی ہیں ، میں ہوبہو ویسے ہی کرتی ہوں۔۔
شاباش میری بچی۔! ایسے ہی کرتی رہو۔! وہ کون سا ساری عمر یہاں پر قیام پزیر رہے گی۔! یہ گھر تو تمہارا ہی ہے۔
گھر آئے مہمان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہیں۔!
جی امی مگر میں دین اور حجاب کے معاملے میں انکی بات نہیں مانوں گی۔!
بے شک نا ماننا مگر روحیل کی پھپھو کی دل آزاری بھی نہیں کرنی ہے۔۔!
آپ بس تسلی رکھیں میں کسی کا بھی دل نہیں دکھاؤں گی ان شاءاللہ۔۔
زینہ کب سے میرے پاس بیٹھی ہو ، جاؤ دوپہر کے کھانے کا بندوست کرو۔! ویسے بھی کچھ دیر میں فزیو آ جائے گا۔۔۔
جی امی چچا ارشاد بول رہے تھے کہ آج فزیو شاید آدھے گھنٹے کی تاخیر سے آئے۔ روحیل فزیو کو چچا کا نمبر دے کر گئے ہیں تاکہ رابطے میں سہولت رہے۔۔
زینہ کا جی چاہا روحیل کی ڈائری دوبارہ کھول لے اور اس کے جذبات و احساسات کو پڑھتی چلی جائے۔
زینہ روحیل عاصم کے بخیریت پہنچنے کی کوئی اطلاع آئی ہے ۔؟؟
نہیں امی فی الحال تو کچھ پتا نہیں ہے ، شاید گھر پہنچ کر سو گئے ہوں۔ زینہ نے اندازہ لگایا۔۔ انہوں نے اطلاع نہیں دی تو تم پیغام بھیج کر پوچھ لو۔
امی میں نے فجر کے بعد ہی انہیں پیغام بھجوا دیا تھا مگر جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
اچھا فون تو دیکھو۔!! سارا دن اس فون کو دراز میں چھپائے رکھتی ہو۔!!
جی امی دیکھتی ہوں۔!
شہلا کو فون ملاؤ میں ذرا اسکی خیریت دریافت کر لوں۔
زینہ نے فون ملا کر ماں کو پکڑایا اور خود حجاب پہن کر باورچی خانے کا رخ کرنے لگی۔
امی شہلا کے ساتھ محو گفتگو ہو گئیں جبکہ زینہ خاموشی سے کمرے سے نکل کر کوریڈور میں آگئی ، ابھی چند قدم ہی آگے بڑھی تھی کہ عقب سے مردانہ آواز نے قدم روک دیئے۔۔
اے ۔! تمہارا نام زینہ ہے ۔؟ موم نے بتایا ہے۔!
جیمی بےتکلفی سے زینہ کے نہایت قریب آن کھڑا ہوا۔
زینہ یکدم ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹی۔
اووووووووہ واؤ۔!
تم تو بہت محتاط رہتی ہو۔ جیمی کی نظروں کی بھوک زینہ بخوبی سمجھ سکتی تھی۔۔
جیمی بھائی میں معذرت خواہ ہوں ،مجھے ابھی باورچی خانے میں جانا ہے ، آپ کو کچھ چاہیئے تو میں خالہ کے ہاتھ بھجوا دیتی ہوں۔!!
ارے نہیں مجھے تو کچھ بھی نہیں چاہئے۔
ویسے تمہارے نام کا مطلب کیا ہے؟ کافی نادر سا نام ہے ۔!! جیمی کی نظروں کی کمینگی بڑھنے لگی۔۔
زینہ نے مذید دو قدم پیچھے ہٹ کر جواب دیا۔۔
بھائی میرے نام کا مطلب “جمال” ہے ۔۔۔
اووووووووہ جیسے نام کا معنی ہے ویسے دکھتی بھی ہو گی ۔؟؟ جیمی کی کمینگی اپنے عروج پر تھی۔!
زینہ نے وہاں پر ٹھہرنے کے بجائے باورچی خانے میں دوڑ لگا دی۔ زینہ باآسانی اپنے عقب میں اس تاڑو شخص کے قہقہے سن سکتی تھی۔۔
باورچی خانے میں پہنچنے پر شریفاں خالہ کو دیکھ کر جان میں جان آئی۔۔
بی بی جی سب خیریت ہے۔؟؟ آپ کی سانس پھولی ہوئی ہے۔
ہاں خالہ۔! پھپھو اور چچا کدھر ہیں۔؟؟
بی بی جی دونوں ناشتے کے بعد عقبی باغیچے میں چلے گئے ہیں ، جیسے روزانہ انکا معمول ہے۔۔
خالہ پھپھو نے آپ کو دوپہر کے کھانے کا کچھ بتایا ہے۔؟؟
فی الحال تو نہیں بی بی جی۔!
اچھا خالہ پھر ان سے پوچھ لیتے ہیں۔ چلو اکھٹے باہر باغیچے میں چلتے ہیں۔۔! آپ ادھر ہی رکیں میں پوچھ آتی ہوں۔!
ارے نہیں خالہ میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں ،ہوا خوری بھی ہو جائے گی۔
چلیں بی بی جی جیسے آپ کو مناسب لگے۔۔
شریفاں نے خشک پلیٹیں دراز میں رکھیں اور دوپٹہ درست کرنے لگی۔۔
بی بی جی آپ کیسے اتنے سارے دن گھر کے اندر رہتے ہوئے برقعے میں گزاریں گی۔؟؟
آپ کا دم نہیں گھٹتا ہے ۔؟؟ پکی روش پر چلتی شریفاں زینہ سے باز پرس کرنے لگی۔۔
خالہ دنیا میں دم گھٹنا بہتر ہے بنسبت قبر میں میرا دم گھوٹا جائے۔
خالہ میں پردے کو عبادت سمجھ کر کرتی ہوں کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے ۔ !
وہ بات تو ٹھیک ہے بی بی جی مگر آج کل پردہ پوشی معیوب سمجھی جاتی ہے۔۔
زینہ شریفاں کی بات پر مسکرائی۔۔
خالہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین پر عملدرآمد کرنے والوں کو خوشخبری دی ہے ۔۔
تو میں کیوں نا اس خوشخبری سے فائدہ اٹھاؤں۔
کونسی خوش خبری بی بی جی ۔؟؟ جو ہمیں آج دن تک پتا نہیں چلی ہے۔؟ سادہ لو شریفاں متجسس دکھائی دینے لگی۔۔
خالہ میں غریب ہوں۔! میرے تمام اعمال عام لوگوں کے لئے غریب ہیں۔۔عربی میں غریب کا معنی اجنبی ہے ۔۔
“اسلام جب آیا تو اس کے ماننے والوں کی زندگی جس اجنبیت کے عالم میں گزر رہی تھی یہاں تک کہ لوگ ان سے نفرت کرتے تھے، اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کو اپنے لیے حقارت سمجھتے تھے انہیں تکلیفیں پہنچاتے تھے، ٹھیک اسی اجنبیت کے عالم میں اسلام کے آخری دور میں اس کے پیروکار ہوں گے، لیکن خوشخبری اور مبارک بادی ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اس اجنبی حالت میں اسلام کو گلے سے لگایا اور جو اس کے آخری دور میں اسے گلے سے لگائیں گے، اور دشمنوں کی تکالیف برداشت کر کے جان و مال سے اس کی خدمت و اشاعت کرتے رہیں گے۔”
زینہ اور شریفاں پکی روش سے گزر کر ہریالی گھاس پر چلنے لگیں ، جہاں سے وہ چند گز کے فاصلے پر براجمان اہل خانہ کو دیکھ سکتیں تھیں۔۔
السلام علیکم ۔! زینہ نے اجتماعی سلام جھاڑا۔۔
وعلیکم السلام۔! آؤ بیٹی بیٹھو۔!
نہیں چچا جان میں پھپھو سے دوپہر کے کھانے کا پوچھنے آئی ہوں کہ کیا پکایا جائے۔؟
کرسی پر براجمان پھپھو نے بھنویں اچکا کر منہ مروڑا۔۔
پھپھو جان آپ بتائیں کیا پکاؤں۔؟ زینہ کا شیرینی مؤدب لب ولہجہ بھی پھپھو کی پیشانی کی سلوٹیں نہ ہٹا پایا۔۔
جواب کے بجائے زہر اگلنے لگیں۔۔
مجھے تمہارا اس حلیے میں باورچی خانے میں آنا جانا پسند نہیں ہے ۔!
یا اپنا حلیہ بدلو یا پھر کھانا بنانا چھوڑ دو۔! زینہ کا دل ایک دم سے بجھ گیا ، فوراً مدد طلب نظروں سے سسر کو دیکھا۔۔
شمیم تم کیوں پریشان ہوتی ہو۔!
یہ زینہ اور روحیل کی زندگی ہے جیسے چاہیں گزاریں۔!
زینہ تمہارا جو چاہے وہ کھانا بنا لو ۔!
ارشاد صاحب نے نرمی سے ساری بات کو سمیٹا۔۔
جی بہتر چچا جان۔!
کیا میں آپ کے لئے پھل کاٹ دوں۔؟؟
ارے نہیں بیٹی۔!
سسر بہو کی گفتگو کے دوران پھپھو منہ کے زاویے بدلنے میں مصروف رہیں جبکہ ذرا سے فاصلے پر کھڑی شریفاں دل ہی دل میں زینہ کی ہمت کی داد دیئے بنا نہ رہ سکی۔۔
اسی دوران ارشاد صاحب کا فون چلایا۔۔۔
اوہ شکر ہے روحیل کا فون ہے ۔
سلام دعا کے تبادلہ کے بعد روحیل نے اپنے بخیریت پہنچنے کی اطلاع دی اور زینہ کے بارے میں پوچھنے لگا ۔۔۔
زینہ تو میرے پاس کھڑی ہے ۔یہ لو بات کرو ۔!
یہ لو زینہ روحیل سے بات کرو۔!!
چچا جان پہلے پھپھو سے بات کروائیں پھر میں بات کر لوں گی۔۔! زینہ نے تابعداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سسر کو جواب دیا۔۔
یہ لو شمیم بھتیجے سے بات کرو ۔
ہاں بھتیجے پھپھو کی یاد آگئی ہے۔؟
جی پھپھو جان آپ کی یاد نے ستایا تو میں نے فون ملایا ہے نا ۔!!
اچھا اچھا اب زیادہ باتیں نہ بگھارو۔! جیمی کل رات سے اچانک آیا بیٹھا ہے، تم لوگوں کے بنا شدید اکتاہٹ کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔۔!
پھپھو اسے بولیں جم شروع کر لے ۔! آرام سے دو گھنٹے گزر جائیں گے۔!!
روحیل تم یہ مشورہ اپنے پاس رکھو۔! پہلے ہی وہ طرح طرح کی مشینوں کے پرزے ہلاتا رہتا ہے۔
خیر چھوڑو جلدی کام نپٹاو اور واپسی کی راہ لو۔۔!
اور اپنی بیگم سے بات کرو ، جو نجانے اپنے ساتھ ہمارا بھی دم گھوٹنے پر تلی ہوئی ہے۔!
پھپھو میری بیگم کو اسکے حال پر چھوڑ دیں، وہ جو بھی کر رہی میری رضامندی سے کر رہی ہے میں اسکے ہر قدم پر خوش ہوں۔
ہاں ہاں تم نے تو زن مریدی کا خاندانی ریکارڈ جو توڑنا ہے ۔!
پھپھو یہ کام میں عاصم کے لئے چھوڑ دوں گا۔!
پھپھو نے کان سے فون ہٹا کر زینہ کو پکڑا دیا۔۔
زینہ کا دل عجیب انداز میں دھڑکنے لگا۔۔شرم سے ہتھیلیاں بھیگنے لگیں۔۔
ارشاد صاحب نے زینہ کو یہاں سے دور چلے جانا کا اشارہ کیا۔
زینہ دھیرے دھیرے چلتی باغیچے کے دوسرے کونے میں چلی گئی۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ روحیل کی جان کیسی ہے۔؟
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔! میں ٹھیک ہوں ، آپ کیسے ہیں۔؟
اور صبح سے میرے پیغام کا جواب کیوں نہیں دیا ہے ۔؟؟
ہاہاہاہا ہاہاہاہا کل سے دوسرا روایتی شکایتی انداز بہت پسند آیا ہے۔
بیوی صاحبہ عرف خشک مزاج محبوبہ۔!! پہلے تمہارے فون پر ہی جوابی پیغام بھیجا ہے مگر ہمیشہ کی طرح فون سے بے نیاز رہنے والی کا مجھے پتا ہے اس لیے ڈیڈ کو کال کی ہے۔!
فون تو اندر کمرے میں امی کے پاس ہی تھا اور میں باہر چچا پھپھو کے پاس چلی آئی۔
اچھا اور سناؤ میں یاد آ رہا ہوں۔؟؟؟
فی الحال تو نہیں کیونکہ آپ میرے ساتھ بات کر رہے ہیں۔! زینہ کھنکتی آواز میں کھلکھلائی۔
شریر ہوتی جا رہی ہو۔!
جناب کی مبارک صحبت کا اثر ہے۔!
یا اللہ۔! میری واپسی تک میری صحبت کا اثر بڑھ کر دس گنا ہو جائے۔
میرا ویر کیسا ہے ۔؟؟
ساتھ والے کمرے میں خراٹے لے رہا ہے۔!
تو آپ بھی خراٹے لے لیں۔!
میرے خراٹوں پر زینہ کا پہرہ جو رہتا ہے تو ان دنوں خراٹے بھی ہڑتال پر ہیں۔!
آپ بھی نا۔! زینہ شرمائی۔
ابھی شرافت سے نیند لیں تاکہ طبیعت خراب نہ ہو۔!
جی نیم حکیم صاحبہ۔!