THE wound is the place where the light enters you. (RUMI)
گہری رات کا فسوں پھیلا تھا ۔ چاند کی روشنی کھڑکی سے اندر آتی ماحول کو رعنائی بخش رہی تھی ۔
پامیر نیچے زمین پر بستر لگایا تھا جبکہ ارج بیڈ پر سو رہی تھی ۔ پامیر نے کتاب پڑھتے ہوئے ایک بار نظر اٹھا کر ارج کو دیکھا ۔ ہلکی مسکراہٹ نے چہرے کا احاطہ کیا اور پھر سے کتاب پڑھنے میں مشغول ہو گیا اتنے تھکا دینے والے دن کے باوجود نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔
تھوڑی ہی دیر گزری تو سسکی کی آواز پر وہ چونکا ۔
"ارج !!! ” لائٹ جلاتے ہوئے بولا ۔
"زری !!!” اب کی بار ارج کی آواز اونچی تھی ۔
"چھوڑو مجھے ۔۔ اسے جانے دو ۔۔ وو معصوم ہے۔۔۔۔ اسے جانے دو۔ چھوڑ دو اسے !!!” ارج کی چیخیں پورے کمرے میں گونج رہیں تھیں ۔
آنکھوں سے مسلسل آنسو بہ رہے تھے ۔ وہ بیڈ پر بار بار سر دائیں بائیں پٹخ رہی ہے تھی ۔
"ارج آنکھیں کھولو دیکھو میں ہوں” ۔پامیر نے اسے جگانے کی سی کی
"چھوڑو مجھے!! ذلیل انسان ۔۔۔زری ! زری !۔”ارج چلائی اور پامیر کے ہاتھوں کو جھٹکنے کی کوشش کی ۔
"ارج !! پامیر ہوں !! ہوش میں آؤ۔” پامیر کے چلانے پر وہ کچھ ہوش میں آئی ۔
"پا ۔پ۔۔۔پامیر !!” ارج روندی ہوئی آواز میں بولی
"ہاں میں !!”پامیر نے اسے حصار میں لیتے ہوئے کہا
"میں خواب دیکھ رہی تھی ؟ وہ خواب تھا نا ؟’ ارج نے تصدیق چاہی "ہاں خواب تھا ۔ کچھ بھی نہیں ہوا ۔ تم ادھر ہو میرے پاس "۔ پامیر کی حالت بھی اچھی نا تھی ارج کو تکلیف میں دیکھ اسے بہت دکھ ہوا ۔
"تم بیٹھو میں پانی لے کر آتا ہوں ۔ "ارج کو الگ کرتے ہوئے کہا ۔
"جلدی آنا ۔ ”
"ہمم ! ”
آندھیوں نے تھوڑ دیں ہیں درختوں کی ٹہنیاں
کیسے کٹے کی رات پرندے اداس ہیں ۔ ۔۔
پانی پی کر ارج سونے کے لئے واپس لیٹ گئی ۔ جبکہ پامیر نیچے لگائے اپنے بستر پر بیٹھ گیا ۔ کافی دیر کے بعد ارج کی آواز آئی
"پامیر تم جاگ رہے ہو ۔ ”
"نہیں ۔ ” ماحول میں موجود تناؤ کو کم کرنے کے لئے مسکرا کر کہا گیا
ارج کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی ۔
"شب بخیر” ۔ اس نے کہہ کر کروٹ لی ۔
"شب بخیر” پامیر نے لمپ کی روشنی گل کی ۔ اور آنکھیں موند لیں
دوپہر کا وقت تھا ۔سورج اپنے پورے جوبن پر تھا ۔ ارج اپنے کام میں مصروف تھی جب آرزو صاحبہ بیکری میں داخل ہوئیں ۔
ارج چند پل کے لئے رکی ۔پر پھر نظر انداز کئے اپنے کام میں۔ مصروف ہو گئی ۔
"ارج بچے” ۔آرزو صاحبہ نے اس کے پاس آتے ہوئے کہا
"جی آرزو صاحبہ کیسی ہیں آپ ۔ بہت دن بعد نظر آئیں” وہ خوشامدی اندازمیں گویا ہوئی
"ارج بچے اب یہ ضد چھوڑ بھی دو ۔ آج شام میں استنبول جا رہی ہوں ۔ دو تین ماہ تک تو کبھی بھی نا آ پاؤں گی ۔ تمہارا تو پتا نہیں بچے پرمیں نے ہمشہ تمھیں اپنی بیٹی ہی سمجھا ، اپنا سمجھ کر تمہارےلئے فصیلہ لیا لیکن شائد تم کبھی مجھے اپنا نہیں سمجھ سکی ۔ پر پھر بھی تم ہمیشہ میری بیٹی ہی رہو گی ۔ چلتی ہوں۔ بچے ۔ اللہ تم دونو ں کو خوش رکھے”۔ وہ اپنی بات کہہ کر باہر کو بڑھیں
ارج کے آنکھوں میں آنسو چمکے ۔ دل پر جمی برف پگھلی ۔
"آرزو آنٹی ۔۔ !!” ارج کی آوازپر آرزو صاحبہ صاحبہ چونکیں ۔
"میں زندگی کے اس دور پر ہوں ۔ جہاں مجھے اپنے احساسات کی خبر نہیں ۔ مجھے خود پتا نہیں میں کس کے کیا جذبات رکھتی ہوں ۔ لیکن آپ میری زندگی بہت اہمیت رکھتی ہیں ۔ آپ سے تو دل کا رشتہ ہے” ارج کاؤنٹر سے باہر آئی اور ان کے گلے لگاتے ہوئے گویا ہوئی
"آپ میری پیاری سی آرزو آنٹی ہیں ۔ میں نے آپ کا دل دکھآیا اس کے لئے معذرت خواہ ہوں ۔ ”
"کوئی بات نہیں بچے ۔ اپنا خیال رکھنا اور واپسی پر ایک بار مجھ سے مل لینا "۔ آرزو صاحبہ نے آبد ید ہ لہجے میں کہا ۔ دروازہ کھلنے کی آواز پردونوں چونکیں ۔
"اب میں چلتی ہوں "۔ تم کام کرو اپنا ۔
"جی۔ میں شام کو آؤں گی ۔ کب تک جانا ہے آپ نے ؟” ارج نے آرزو صاحبہ سے مسکراتے ہوئے پوچھا
"چھ بجے تک جمال بھائی ساتھ جا رہے ہیں "۔ آرزو صاحبہ نے ارج کو بتایا پھر کھڑی پر ٹائم دیکھ فورا سے بولیں
"بہت دیری ہو گئی ہے ۔ شام کو آنا۔۔ اللہ حافظ ۔” وہ کہہ کر باہر کو چل دیں
"اللہ حافظ !!” ارج نے مسکراتے ہوئے کہا اور اپنے کام میں مصروف ہو گئی ۔
ارج نے شام ہوتے ہی آرزو صاحبہ کے گھر کی رہ لی ۔ آج مطلع ابر آلود تھا ۔ ہلکی ہلکی پھووار نے موسم کو اور دلکش بنا دیا تھا ۔ وہ خاموشی سے ہلکی چلتی ہوا کو چہرے پر محسوس کر رہی تھی ۔ اس کے فون پر بجنے والی گھنٹی نے یہ تسلسل توڑا ۔
فون پر اننون نمبر آ رہا تھا ۔
"یہ کون ہو سکتا ہے ؟”اس نے سوچتے ہوئے فون اٹھایا ۔ اور کان پر لگاکر خاموشی سے کھڑی رہی تاکہ پتا چل سکے کے فون کس نے کیا تھا ۔ کوئی جواب نا پا کر اسے ہی پہل کرنی پڑی ۔
"ہیلو کون ہے ؟”
پر جواب نادارات ۔ فون کرنے والا لائن پر ہی موجود تھا ۔ کیونکہ بیک گراؤنڈ کی آوازیں سنی جا سکتیں تھیں ۔
ارج نے ایک دو بار اور پوچھ کر فون بند کر دیا پر دل پر خوف غلبہ پا رہا تھا ۔ ارج نے اپنی چلنے کی رفتار تیز کر دی ۔
آرزو صاحبہ کے گھر پہنچ کر عجلت میں دروازہ کھٹکھٹایا ۔ آرزو آنٹی جلدی دروازہ کھل دیں ۔ دروازہ کھٹکھٹانے کے ساتھ ساتھ وہ مسلسل بول رہی تھی ۔
"کیا ہوا بچے ۔ آرام سے” آرزو صاحبہ نے دروازہ کھلتے ہوئے کہا۔
"وہ ۔۔۔ بارش ۔۔ بارش ہونے والی ہے تو بجلی بھی گرجے گی”۔ تو "اس لئے”۔ ارج نے کہتے ہوئے دروازہ بند کر دیا
"ایک بات میں تمھیں نہیں بتا پائی ارج ۔ تم سے جھوٹ نہیں بولا جاتا ۔ تو تحمل سے کام لو اور پھر سب بات گوشگزار کرو ۔ اور بلکل ایک ایک حرف سچ "انہوں نے پانی کا گلاس بڑھاتے ہوئے کہا
"وہ ایک ان نون نمبر سے فون آیا تھا ۔ کال ملی ہوئی تھی ۔ پر کوئی بات نہیں کر رہا تھا تو ڈر گئی "۔ ارج نے پانی کے چند گھونٹ لئے اور گلاس واپس بڑھایا
"آپ ٹنشن نا لیں ۔ ویسے ہی رانگ نمبر ہو گا اگلا بندہ بھی پریشان ہی ہو گیا ہو گا ۔ کے پتا نہیں کون خاتون بول رہی ہے ۔ "اس نے آرزو صاحبہ سے زیادہ خود کو تسلی دی ۔
"ہاں ہو سکتا ہے ۔ میں نے کچھ کپڑے تمہارے لئے لیے تھے میں لے کے آتی ہوں اور پامیر کو فون کرو بس آدھے گھنٹے تک ہم نے جانا ہے ”۔ آرزو صاحبہ نے کمرے کی طرف جاتے ہوئے کہا ۔
ارج نے پامیر کو فون کر کے آنے کو کہا ۔ اور خود کو تسلیاں دیتی رہی ۔
پامیر اور ارج سے مل کر اور ارج کو ڈھیروں ہدایات دیتے ، پامیر کو ارج کا خیال رکھنے کا کہتے ہوئے ۔ وہاں سے رخصت ہو کر استنبول کی طرف روانہ ہو گئیں ۔ ارج کے دل کو اداسی کے حوالے کئے ۔
۔ ۔
ارج پامیر کے ساتھ ساتھ گھر کی طرف روانہ ہوئی ۔” ارج آئس کریم کھاؤ گی ؟” پامیر نے ارج کی اداسی کو کم کرنےکی کوشش کی ۔
"ہمم ۔۔۔۔ہاں کھاؤں گی ” ارج نے متوجہ ہوتے ہوئے کہا ۔
"میں لے کر آتا ہوں ۔ تم یہاں ہی کھڑی رہنا ٹھیک ہے "۔ پامیر نے ہدایات دیتے ہوئے کہا
"جی سر ٹھیک ہے ۔ میں اچھے بچوں کی طرح یہاں ہی کھڑی رہوں گی ،” ارج نے مسکراتے ہوئے کہا
پامیر اس کے انداز پر مسکرایا ۔ اور آئس کریم لینے کو چل پڑا ۔
ارج وہاں ہی کھڑی آس پاس دیکھنے میں مشغول تھی ۔ کہ ایک دم سے پیچھے ہونے والے شور نے اسے متوجہ کیا ۔
دیکھا تو گاڑی اس طرف ہی آ رہی تھی یوں محسوس ہو رہا تھا رکاوٹوں کو توڑ کر اس کی طرف بڑھ رہی ہو ۔ لیکن راستے میں موجود گئیں لوگوں کو اپنا نشانہ بنا چکی تھی ۔ سڑک تھوڑی آگے تھی جبکہ اگے کچھ کنسٹرکشن کے کام کی وجہ سے رکاوٹیں تھیں ۔
وہ ارج کو بھی اپنا نشانہ بنا چکی ہوتی۔ اگر گاڑی کے راستے میں پتھر نا ہوتا ۔
اارج بلکل منجمد ہوئی تھی ۔ آنکھیں پھاڑے گاڑی کو دیکھ رہی تھی ۔
ارج پامیر نے بھاگتے ہوئے آ کر اسے پکڑا تھا ۔
"ہوش کرو ۔ ”
"وہ ۔۔”ارج نے گاڑی کی طرف دیکھا تو ایک شخص شیشہ تھوڑا نیچے کیے اس طرف ہی دیکھ رہا۔ لیکن جس چیز نے پامیر کو چونکایا تھ اس کے ہاتھ پر بنا ٹا ٹو تھا ۔ سانپ کا ۔ جو کنڈالی مارے بیٹھا تھا۔ لیکن وہ ایک چھلک ہی دیکھ پایا تھا شخص نے شیشہ اپر کیا اور گاڑی اڑا لے گیا ۔
اب کہ پامیر کے چہرے کا رنگ فق تھا ۔
"چلو یہاں سے” ۔ وہ ارج کو تکریبا گھسیٹ کر وہاں سے لے گیا ۔لوگوں کا کہنا تھا کہ یا تو چھوڑ اچاکا تھا یا اس نے پی رکھی تھی ۔ لیکن پا میر کو شک تھا کے وہ ان میں سے کوئی۔ بھی نا تھا ۔
دونوں خاموشی سے گھر میں داخل ہوئے تھے ۔ پامیر نے دروازہ بند کیا اور صوفہ پر جا بیٹھا وہ بار بار اپنے بالوں پر ہاتھ پھیر تھا ۔ چہرے سے بھی اس کی پریشانی کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا ۔
"میں کپڑے رکھنے جا رہی ہوں الماری میں "۔ ارج روبوٹیک انداز اندر جا رہی تھی جب پامیر نے روکا ،
” تم ٹھیک ہو؟”
"ہاں۔ ٹھیک ہوں ۔’ وہ کہہ کر اندر چلی گئی ۔ جبکہ پامیر نے اپنا فون نکال کر نمبر ملایا ۔
ارج کچھ پوچھنے کے لئے واپس آئی تو اس کے کانوں میں پامیر کی آواز آئی
"۔No he hecho nada malo.”
("میں نے کچھ غلط نہیں کیا؟”) یہ زبان ترکش تو بلکل بھی نہیں تھی۔
"۔Sì۔”
(ہاں) کچھ وقفے کے بعد بولا گیا
"۔Gracias”
(شکریہ )۔ کچھ ہی الفاظ بولے گئے جیسے زیادہ بات کرنے سے اجتناب کیا گیا ہو ۔
"۔ Adiós”
(الوداع )۔۔
پامیر نے جلد از جلد بات ختم کے کہیں ارج کچھ سن نا لے ۔ ایک نظر کمرے کی طرف دیکھا تو ارج دروازے پر ہی کھڑی تھی ۔
"کس زبان میں بول رہے تھے” ۔ ارج نے پوچھا ۔ اور باتیں کس سے کر رہے تھے ۔
لاطینی بول رہا تھا ۔ اور تمھیں کیوں فرق پڑتا ہے میں جس سے ”مرضی بات کرتا پھروں ۔ تم جا کے کام کرو اپنا "۔ پامیر نے بیزاری سے کہا ۔
"میں بیوی ہوں میرا حق ہے” ۔ ارج نے آنکھیں دیکھا کر کہا ۔
"اچھا ۔ بیوی کے فرائض بھی ہوتے ہیں ان کا کیا آپ نے تو کبھی اچھے سے بات نہیں کی مجھ سے۔یہاں تک کے حال بھی نہیں پوچھا کبھی ۔”۔ پامیر نے بھی رخ اس کی طرف پھیرا
"دیکھ لوں گی” ۔ ارج نے ہار مانتے ہوئے واپس کمرے میں جاتے ہوئے کہا ۔
”شوق سے” ۔ پامیر نے مسکراہٹ روکی