(Last Updated On: )
روشنی کے درمیاں داخل ہوا کالا سا گوشہ
جس طرح آواز کی اک لہر میں پیدا ہوا بد رنگ شوشہ
فکر میں کَے دن رہے گا خواب
اک لمحہ اُٹھے گا جاگ کا
وہ لمحہ شاید آ گیا ہو۔ (کیا خبر؟)
کیا خبر…
وہ اک پرانا در کہ جس کا رنگ بھی مٹنے لگا تھا
اس پہ جھک آئے گی کوئی سبز بیل
خوف روشن ہے کہ شاید گھر میں کوئی آب ہو…!
ڈھل چکی عمرِ رواں کی دھوپ
اب
سایہ سا کوئی رینگتا ہے جیسے مٹتی دھوپ میں
ایک انجانی شکن پڑنے لگی ماتھے کے سادہ روپ میں
اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ
اک مرمر کی ابیض سِل پہ گویا بڑھ رہا ہے
اک سیہ دھبّہ
کسی منحوس سائے کی طرح
٭٭٭
ایک شعر
کہاں پہ گم ہوا؟ ہر سمت اس کو کھوجتے ہیں
وہ ایک شعلۂ وحشت: مراد دماغ جو تھا!
٭٭٭