Like caterpiller, we weave a coccon of thoughts, doubts and fantasies slowly suffocating ourselves.(shams
tabrizi)
کچھ لوگ خواہشات تصورات ، شک و شبہات میں بند ہو کر آہستہ آہستہ اپنا سانس خود ہی بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ارج کو کالج میں داخل ہوئے گئیں ماہ گزر گئے تھے ۔ وہ دل لگا کر پڑھنا چاہتی تھی ۔پر یہاں کے ماحول نے اسے احساس کمٹری کا شکار ہو گئی ۔
"یار ! لینا کا نیا فون دیکھا ہے ۔ "یہ شمع کی آواز تھی
"ہاں یار مزےہیں اس کے تو” ۔ مہلیل بولی
"ارج تم نے کوئی فون نہیں لیا ۔” سارا کی آواز پر وہ چونکی
"نہیں ۔میں ایسی خرفات نہیں پڑتی ” اس نے کہتے ہوئے دوبارہ اپنے کام کی طرف توجہ مبذول کرنے کی کوشش کی ۔
"ار ے یہ کیسے لے گی ۔ اس کی ماما تو نوکرانی ہیں اور پاپا مزدور ۔ "بیچاری شمع کی آواز میں کچھ اسے نیچ سمجھنے کی وجہ سے حقارت تھی اور کچھ افسوس ۔ اپنی طرف سے آہستہ ہی بولی پر ارج تک آواز پہنچ گئی ۔ تبھی لینا کلاس میں داخل ہوئی
” لینا اپنا فون تو دیکھنا "
"یہ لو ۔ دور سے دیکھو "
"یہ کیا بٹن والا ۔ ٹچ نہیں لیا "۔ سارا بولی
"نہیں ! پاپا سے کہا ہے وہ کہ رہے تھے ایک دو دیں تک لندن سے بجوا دیں گے ۔ "لینا ادا سے بولی ۔
"یہ یہاں پڑھنے آتی ہے یا فیشن کی دکان کھولنے "ارج نے تپ کر سوچا ۔
"ارے ارے !!ارج تمہاری دوست نہیں آئی وہ ٹام بوئے "۔ ان کا اشارہ نین تارہ کی طرف تھا ۔ جس کی بوئے کٹ تھی اور وہ کپڑے بھی لڑکوں کی طرح ہی پہنتی تھی ۔ یہاں تک کے چلتی بھی ایسے ہی تھی ۔
"خود کو کبھی ششہ میں دیکھا ہے ان لوگوں نے ۔ جب بھی کوئی پارٹی ہوتی ہے جینز کے ساتھ ٹاپ پہن کر آتی ہیں دوسروں کی دفع سہی غلط یاد آ جاتا ہے ۔ "ارج نے تپ کر سوچا ۔
"نہیں "۔ بس اتنا کہہ کر ارج کتاب پر جھکی
"ان کو کیا پتا وہ بیچاری کس طرح گزارہ کرتی ہے ۔ ایک بھائی تھا جس نے پندرہ سال (جو اب اٹھارہ کی تھی )کی عمر میں ہی بد کردار کہ کر گھر سے نکال دویا ۔ وہ چھوٹی بہن کو لئے اپنے پرانے گھر آ گئی جہاں لوگوں ے رہنے نا دیا ۔ وہ گنڈا گر دی نا کرے تو کیا کرے ۔ کسی ایماندار افسر کو کم ہی بڑے عہدہ ملتا ہے کے اگر مل جائے تو ٹیکنے نہیں دیتے ۔ نا پولیس کے پاس جا سکتی تھی نا کوئی انسان مدد کو تیار تھا ۔ نظر اس کے اور بہن کے نام اٹھ مرلے کے گھر پر ہوتی سب کی ۔ پندرہ سال کی عمر میں کتنی سمجھ بجھ ہو سکتی تھی ۔ اپنے جیسے دو تین بچوں کو آگے لگایا اور تھوڑی بہت گنڈا گردی کی ۔ سب چھپ ۔ کے بہت سے شریف اور اچھے گھر کے لوگ اکیلی لڑکی کو جینے نہیں دیں گے اسے ۔ اس پر تہمت لگانا ان کی ذمداری میں شامل ہوتا ہے ۔ مگر اگر اصل میں گنڈا گردی کی تو سب کو اپنی بچیان یاد آ گئیں کے ان کے ساتھ برا نا کر دے ۔ دوگلے لوگ ۔ا رج نے غصے سے کتابیں بیگ میں پٹکین اور کلاس چھوڑ کر باہر چل دی ۔
"وہ غلط کرے گی تو ایسے لوگ بھی اتنے ہی ذمدار ہو گے اس جگہ جن کی وجہ سے پہنچی ۔ ” وہ سوچتے ہوئے تیزی سے سیڑھیاں اتر گئی ۔
آخری لیکچر تھا تو وہ گھر جانے کے کالج سے نکال گئی ۔ وہ گرمی میں تیز تیز اٹھا کر جا رہی تھی کے کسی سے ٹکرائی ۔
"معاف کیجئے گا "۔ وہ کہہ کر آگے بڑھنے لگی
"آپ مس ارج ہیں نا” اس نے آواز پر حیرت سے موڑ کر دیکھا ۔
سامنے لمبے سے قد کے لڑکے کو دیکھ کر کھبرائی ۔
اور نظر انداز کر کے جانے لگی ۔
"ارے ۔ میری بات تو سن لیں میں شمع کا بھائی ہون شارق ۔ شاہانہ زمان ان کا بیٹا ۔” اس کی مسکراہٹ بلا کی دلکش ہے ارج نے سوچا” افف میں بھی کیا سچ رہی توبہ توبہ ۔” ارج نے ” اچھا” کہہ کر واپس دوسری طرف قدم بڑھا دیے
شارق کی نظروں نے دور تک اس کا ا حا طہ کیا تھا
وہ گھر پہنچی تو عجیب گھوئی سے کفیت میں تھی ۔ زلیخا اور زری دونوں نے یہ چیز نوٹ کی تھی ۔
"ارج پتر کوئی بات ہے بچے” زلیخا نے لاڈ سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
"نہیں اماں کچھ نہیں ہوا "۔ ارج بول کر کمرے میں چلی گئی
اب یہ روز کا معمول تھا ۔ ارج ایک دن شارق کے پاس سے کچھ شرما کر گزری تو شارق نے اس کا ہاتھ تھام لیا ۔
"ارج کبھی میرے پاس بھی دو پل رہ جایا کرو ۔ ہر روز بس دیکھ کر چل دیتی ہو "۔
"میرا ہاتھ چھوڑ دیں کسی نے دیکھ لیا تو خوامخوا میری شامت آ جائے گی "وہ آس پاس دیکھتے ہوئی بولی
"بس اج چل کے میرے ساتھ چائے ہی پی لو ۔ یقین کرو پوری رات تمہاری یاد میں سو نہیں سکا ۔ میں یہاں پر ہی بیٹھ جاؤں گا جان نا تمھیں جانے دوں گا ۔ نا خود جاؤں گا ۔” شارق نے وہاں سائیڈ بنچ پر بیٹھنے لگا ارج کو ساتھ لئے یہ کیا کر رہے ہیں ۔” ٹھیک ہے ٹھیک ہے چلیں آپ "
یہ پہلی ڈیٹ تھی اس کے بعد ڈیٹز کی لمبی لائن لگ گئی ۔
"ارج تمھیں میں کب سے بولا رہی ہون ۔” کان بند ہیں کیا ۔ زری اس کے سر پر کھڑے ہوئے چیخی
"آہستہ بولو۔ مجھے سنائی نہیں دیا ۔” ارج نے انسٹا گرام استعمال کرتے ہوئے کہا ۔
"یہ فون کہاں سے آیا تمہارے پاس "۔ زری نے ٹچ موبائل اس کے ہاتھ میں دیکھ کر کہا ۔
"یہ ۔۔” ارج جو اس کو چھپانا بھول گئی تھی کھبرا گئی ۔
"یہ میرے پاس پیسے تھے تو ایک دوست کے پاس پرانہ تھا مجھے دے دیا اب جاؤ یہں سے زیادہ سی آئی ڈی بننے کی۔ ضرورت نہیں ۔ "
وہ واپس اپنے کام میں۔ مشغول ہو گئی ۔ پر زری چھوٹی عمر میں بھی جانتی تھی ۔کہ آپی اب جن رہوں پر چل پڑی ہے واپسی ناممکن ہے ۔
"ارج تم یہ جو سب کر رہی ہو اچھا نہیں کر رہی ۔” حبا (ارج کی۔ کلاس فیلو )نے اپنے سکاف کو سیٹ کرتے کہا ۔
"اچھا کیا کر رہی ہون مثلا ۔” ارج ابرو اچکا کر بولی
"یہ لڑکوں کے ساتھ گھومنا پھرنا ۔اس سے لوگ سمجھتے شائد ہم بھی تمہارے جیسے ہی ہیں” ۔ حبا کچھ سخت لہجے میں بولی ۔
"کیا مطلب میرے جیسے ہی ہیں ۔میں بھی تو اچھی بھلی انسان ہون” ۔ وہ تپ گئی ۔
"میں نے یہ کب کہا تم بری ہو ۔ پر بات سمجھو کیا امیج بن رہا ہے ہم لوگو۔ گا سب کے سامنے ۔ ہم ٹین اجر ز ہیں ہم لوگوں کے جذبات بہت نازک ہوتے ہیں ہر کسی کو اپنا مان لیتے ہیں یہ زندگی کا ایک جذباتی دور ہوتا ہے "۔ حبا بولی
"زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں جب دیکھو محبت کرنے والوں کے ظالم سماج بن جاتے ہیں سب” وہ کہہ کر باہر چل دی
ارج ابھی کالج سے آ کر بیٹھی ہی تھی کے فون پر ہوتی گھنٹی نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا ۔ شارق کا نمبر دیکھ کر اس نے مسکرا کر کال پک کر لی ۔
"کسی ہو ارج” شارق کی آواز سے خماری جھلک رہی تھی
"ٹھیک ہون آپ کیسے ہیں ۔اتنے دن سے آپ آئے کیوں نہیں ہیں ۔” ارج نے ایک نا محرم سے شکوہ کیا
"ہاں یار۔ یاد تو بہت آ رہی تھی ۔ تمہاری یاد میں تو پاگل ہو رہا ہون میری جان ۔ تمہاری وجہ سے یہ جیلسی کی بیماری لگ گئی ہے ۔مجھ سے محبت کرتی ہو نا جان ۔اپنے پیار کا ثبوت تو دو "
شارق نے فون لوڈ سپیکر پر کرتے ہوئے نعیم کوخباثت آنکھ ماری ۔ اور زلیل نے دانتوں کی نمائش کی ۔
"ہاں بہت محبّت کرتی ہون ۔ "اس کے بعد جو نازیبا گفتگو ہوئی ۔ وہ کوئی بھی سن کر شرم اور غصے سے لال پیلا ہو جائے ۔ جو شارق کے ساتھ ساتھ اس کے دوستوں نے بھی سنی ۔
"شارق صرف اور صرف مجھ سے محبت کرتا ہے ۔ پورا پورا یقین ہے شارق پر ۔”اس نے فون بند کر کے تکیے کے پاس رکھتے ہوئے کہا
زری نے گئیں بار اپنی ماں کو بتانے کی کوشش کی پر بے سود ۔
"اماں میں ہمیشہ کہتی ہون ایسی لڑکیاں دوسری پڑھنے والی لڑکیوں کو بھی بد نام کرتیں ہیں ۔ "پر زلیخا کو ارج پر اندھا اعتماد تھا ۔
"تو نا بس جلتی رہا کر اپنی بہن سے اور کوئی کام جونہیں تجے جا ۔ جا کے کم۔ کر اسکول کا "۔ زلیخا واپس گھر کے کاموں میں لگ گئی ۔
"اماں اتنی ڈھیل دے کر تو اچھا نہیں کر رہی ۔ تو نہیں دیکھے گی تو کون دیکھے گا ۔ اسے ۔ یہ تربیت کرنا اچھا غلط بتانا تیرا کام۔ ہے ۔ "زری پھر سے بولی
"یہ کیا برائیاں جو رہی ہیں میری ۔ "ارج نے چھت سے نیچے آتے ہوئے کہا ۔
"کوئی برائیاں نہیں ہو رہیں میری دھی رانی ۔ کھانا لگا دو۔ اتنا پڑھنا جو ہوتا ہے "۔ زلیخاکی بات سن ارج نے زری کی طرف طنزیہ مسکراہٹ اچھالی
ارج اور زری پاس کے بازار میں کچھ چیزیں خریدنے کے لئے آئیں تھیں ۔ کے ارج کا فون بجا
"ہاں ۔ ایک منٹ "۔ ارج بولی
"زری تم سبزی لو اور چپل کا جوڑا لے لو اپنے لئے میں فون سن کر آئی ۔” اس سے پہلے کے زری کچھ کہتی وہ دوسری طرف چلی گئی ۔ زری اپنی سی شکل بنا کر رہ گئی ۔
کچھ دیر بعد وہ رش سے باہر نکلی تو ارج سامنے ہی بات کرتی دیکھی ۔
"ہاں !ں ٹھیک ہے میں آتی ہون بس پانچ منٹ ۔ ارج کی جان” ۔ اس نے کہہ کر فون بند کر دیا ۔
اور زری کو لئے ساتھ چل دی ۔
"یہ ہم کہاں جا رہے ہیں "زری نے ارج کو غلط راستے جاتے دیکھ ٹوکا ۔
"کہیں نہیں بس پانچ منٹ ۔” ایک بڑی سے کوٹھی کے باہر رکتے ہوئے کہا ۔
"میں آتی ہون ابھی ٹھیک ہے دس منٹ میں اندر مت آنا ۔” ارج اسے کہہ کر اندر بڑھ گئی ۔
عیباں والا بندہ میں
اندروں باروں گندا میں (بابا بُلھے شاہ )
جب ارج کافی دیر تک نا آئی تو مجبور ہو کر زری کو ہی اندر جانا پڑا ۔ اندر داخل ہو کر بیر ونی دروازہ کھلا تو ۔ زری کو اپنے پیروں کے تلے سے زمین کسکتی محسوس ہوئی ۔
ارج نے زری کو دروازے پر چھوڑا اور خود گھر میں چلی گئی ۔
لیکن سامنے کا منظر اس کا دل بند کرنے کے لئے کافی تھا ۔ شارق صوفہ پر بیٹھا تھا اس کے دو لوگ اور بھی تھے ۔ اور کسی بات پر وہ شراب پیتے ہوئے تبصرہ کر رہے تھےپیچھے آواز آئی تو لگا شائد مووی کی آواز ہے پر ۔ غور سے سننے پر اسے معلوم ہوا یہ کوئی مووی نہیں بلکے اس ہی کالز کی ریکارڈنگ ہے ۔
ان کی باتیں کسی زہر کی مانند اس کے کانون میں پڑھ رہیں تھی ۔
"یار ابھی تک وہ (گالی ) آئی نہیں ۔ افف اب اور کتنا انتظار کرنا ہے ۔ تو بس ایک بار مووی ہی بنا لینا ۔ تھوڑا بلیک میل کرتے خود ہی قابو میں آ جائے گی ۔ تو ان غریب لوگوں کو نہیں جانتا ۔ عزت بہت پیاری جو ہوتی ہے "۔ وہ مکرو ہ قہقہ لگاتے ہوئے بولا ۔
"ہاتھ آ جائے یہ لڑکی تو مزہ ہی آ جائے ۔” اس کا دوست بولا
ارج کے لئے سانس لینا دشوار ہو گیا ۔ وہ الٹے قدم اٹھا کر چلنے لگی ۔ پر اس کی بد قسمتی پیچھے ہوتے ہوئے واس کو ہاتھ لگا اور وہ زمیں بوس ہو گیا بلکل ارج کی طرح ،
سب کی نظریں اس طرف اٹھین تھیں ۔ ارج نے باہر کی طرف دور لگائی ۔مگر پیچھے کے اس کے بال کسی نے جکڑ لئے ۔
"چھوڑو مجھے ۔ذلیل انسان ۔ بے غیرت ۔” ارج چیخی پر اس کی چیخیں سپیکر پر سے اٹھنے والی گانون کو آواز میں دب گئی ۔
"اتنی مشکل سے ہاتھ آئی ہو جان من ایسے کیسےجانے دوں "۔کسی نے ارج کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ۔
"چھوڑو ۔۔” ارج نے روتے ہوئے کہا ۔ خود کو چھوڑانے کے لئے وہ سر توڑ کوشش کر رہی تھی ۔ پر تین درندوں کے سامنے کیسے کامیاب ہوتی ۔ جو بویا تھا وہی کاٹ رہی تھی ۔
"تمہاری بہن ٹھیک کہتی تھی ۔ ہم جیسوں کا کوئی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے "۔ وہ بولتے ہوئے آواز ہیبت ناک لگی ۔
"وہ ڈرگ لائے ہو یا نہیں ۔” کسی کی آواز گونجی ۔
"ہاں ۔ "
ارج کے خوف سے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔ اس نے بیرونی دروازے کی طرف پیش قدمی کی مگر سامنے زری کو دیکھ کر اس کے منہ میں الفاظ ختم ہو گئے ۔ اس نے آنکھوں سے اسے جانے کی التجا کی ۔ مگر بے سود تھا سب بے سود۔ شارق کے دوست کی نظر اس پر پڑھ گئے تھی ۔ ارج کے لئے تو وقت تھم گیا ۔ ارج کا ھر جذبہ ھر احساس اس پل ہی مر گیا ۔
زری نے آگے بڑھتے شارق کے دوست کے منہ پر تھپڑ دے مارا ۔
جس پر وہ آگ بگولہ ہو گیا ۔
"زری بھاگ ۔۔بھاگ جا ۔ زری ۔ جا "۔ ارج نے ہمت کر کے کہا ۔
پر دیر ہو گئی تھی بہت دیر ۔
"چھوڑو مجھے ۔آپی ۔۔آپی ۔۔ٹھیک ہو "۔ زری بولی اور ایک اور تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا کسی۔ نا کسی طرح ۔
"تیری ہمّت ۔ مٹی کا تیل یا پیٹرول وغیرہ کچھ ہے” ارج اس لڑکے کی بات سن چیخی
"چھوڑ دو اسے اس نے کچھ نہیں کیا ۔ بے قصور ہے وہ ۔ "
ارج رو رہی تھی چیخ رہی تھی پر کوئی سن نہیں رہا تھا ۔ ایک تھپڑ نے اس کی بولتی بند کر دی ۔ اس کے ناک سے خون بہ رہا تھا
بے بسی ہی بے بسی تھی۔
اس نے اٹھنے کی کوشش کی پر کندھے پر چبن محسوس ہوئی ۔ اور ایک تھپڑ نے اس کا استقبال کیا ۔آہستہ آہستہ اسے چکر آنا شروع ہو گئے دماغ سن ہوتا محسوس ہوا ۔
"ز۔۔۔لی ۔ ” اس نے ٹوٹے پوٹے لفظ ادا کئے ۔
مگر ایک دل خراش چیخ نے اپنی طرف متوجہ کیا ۔ تھوڑی سی نظر پھیری اور ارج کو لگا اس کی زری اس کے سامنے شیشے کے پار جل رہی تھی ۔
"آپی ٹھیک ہو "۔ زری کی یادیں اس کے سامنے گونج رہی تھیں ۔گونج رہیں تھیں ۔
"آپی یہ سب بہت غلط بات ہے ۔ اب میری باری تھی ۔ بٹنگ کی ۔ *
"آپی ۔ آج گول گپے کھاتے ہیں ۔”
ارج کچھ بھی محسوس کرنے سے قاصر تھی ۔ اس کی عزت کی دھجیاں اڑ گئیں تھیں ۔ زری مر گئی جل ارج گئی ایسا کیسے ہوا۔ ارج نے بیہوش ہونے سے پہلے سوچا ۔
حال ارج عمر پچس سال
"ارج ارج” پامیر نے کھبرا کر اسے جہنجھو ڑ ڈالا ۔
"اب کیا کروں یہ تو بیہوش ہو گئی ۔” پامیر نےپانی کے چھنٹے اس کے منہ پر مارے تو کچھ ہوش میں آئی ۔
"مین تو اج بھی جل رہی ہون ۔ "ارج بہ مشکل بولی ۔
"شش ۔ کچھ نہیں ہوا میں ہون ناکچھ نہیں ہوا ۔” پامیر نے اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے ہوئے ۔
پ”ھر پتا ہے پتا ہے کیا ہوا ۔ مجھے ہوش ہسپتال میں آیا ، میں نے زری کو بلایا وہ آئی ہی نہیں ۔ ان ذلیلوں کو سزا ہی نا ہوئی ۔ ہم پر ہی الزام لگا دیا ،چوری کا ۔ میں تو بیاں دینے کی حالت میں ہی نا تھی ۔ لوگوں کی آنکھوں میں حقا رت تھی میرے لئے ۔ اماں اکیلی ہی رہ گئی ۔مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ کے مجھے معاف کر چکی پر اب ۔ بار بار یہاں انے کی سکت نا تھی نادر بھائی کو اپنی غیرت زری کے مرنے کے بعد یاد آئی ۔ بابا چلے گئے” ارج کی ہچکی بند گئی ۔ پامیر اسے سر پر تھپکی دے رہا تھا ۔
"میں پاگل ہو گئی ۔مجھے کسی کا ہوش نا رہا ۔ زری کو بلاتی ۔ وہ بیچاری ہوتی تو آتی نا ۔ ڈاکٹر بنا چاہتی تھی زری ۔ بہت سے پیسے جوڑ کر رکھے تھے اس نے سکولڑ شپ لے گی تو کتابیں ان پیسوں سے لے گی ۔ سپنے بھی مر گئے اس کے ساتھ ۔ "
"اس کی لاش جھاڑیوں سے ملی ۔ اور ارج کوڑا دان سے۔” وہ بہ مشکل بول پائی ۔
تین سال بعد ۔ وہاں تابندہ صاحبہ تھیں بوڑھین تھیں ان کے پاس رہی ۔ بی اے کیا اور ان کے ساتھ ہی ترکی آ گئی ۔ جمال انکل ان کے ملازم تھے ۔ تابندہ صاحبہ کی میں کیئر ٹیکر تھی ۔ تو آرزو صاحبہ کا پتا کر کے ان کے پاس بیھج دیا ۔
کیونکہ تابندہ صاحبہ کا خاندان کافی بڑا تھا ۔ اور کافی لوگ آتے جاتے ۔ جس کی وجہ سے پنیک اٹیک زیادہ ہونا شروع ہو گئے ۔ مگر میں نے یہاں آنے سے پہلے عہد کیا تھا ۔ اگر میں برائی کو جیتنے نہیں دوں گی ۔ میں آگے بڑھوں گی ۔ تکلیف بہت ہے پر ماضی کو کمزوری بھی تو نہیں بنا سکتی تھی ۔ جل جو رہی تھی "۔ ارج نے چہرہ اوپر کر کے دیکھا تو حیرت کا جھٹکا لگا ۔ پامیر کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔
"تم رو رہے ہو ؟” بچیوں کی طرح سوال کیا تھا ۔
"شش فلحال کچھ نا بولو ۔ ” پامیر نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تھا ۔
ایک غم زدہ خاموشی نے اج دونون کے دل پر بسیرا کیا تھا
اشرف یعقوبی: جدید احساسات اور خوبصورت خیالات کا شاعر
اشرف یعقوبی کا کولکاتا مغربی بنگال سے ہے، آپ جدید احساسات اور خوبصورت خیالات کے شاعر ہیں ان کی غزل...