“یہ احسن کی شادی بھی آپ نے اچانک ہی کر دی۔۔۔ وہ بھی پتہ نہیں کس خاندان میں۔”
ثوبیہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔
“یہ میرے بیٹوں کے فیصلے ہیں زندگی انہیں گزارنی ہے کسی اور نے نہیں۔۔۔ ”
وہ تلملا اٹھے۔
“ثوبیہ۔۔۔ ”
فیض حیات تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتے ہوۓ بولے۔
“تم دونوں اب یہیں رہو گے؟”
اب وہ وائز اور زرش کو دیکھ رہی تھی۔
“جی فلحال تو یہی ارادہ ہے۔۔۔ ”
وہ صوفے سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔
“بیٹا ڈاکٹر کو چیک کروانے جانا ہوگا نہ؟”
گل ناز بیگم اس کے سامنے بیٹھتی ہوئی بولیں۔
“ظاہر ہے جانا تو پڑے گا ابھی تمام زخم مندمل نہیں ہوےُ۔۔۔ وقت کے ساتھ ہی بھریں گے۔”
وہ رضی حیات اور احسن کو دیکھتا ہوا بولا جو آپس میں محو گفتگو تھے۔
“میں تمہارا کھانا دیکھتی ہوں۔۔۔ ”
وہ کہتی ہوئی چلی گئیں۔
آہستہ آہستہ سب وہاں سے منتشر ہو گئے۔
“بابا سائیں کچھ بات کر سکتی ہوں؟”
وہ دروازے پر دستک دیتی اجازت طلب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
“ارے بہو۔۔۔ ہاں کیوں نہیں آ جاؤ۔”
وہ چشمہ اتارتے ہوۓ بولے۔
وہ مسکراتی ہوئی ان کے سامنے بیٹھ گئی۔
“آپ برا تو نہیں منائیں گے؟”
وہ متفکر تھی۔
“نہیں۔۔۔۔تم پوچھ لو کیا پوچھنا چاہتی ہو؟”
وہ شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولے۔
“بابا سائیں آپ نے وائز کا نکاح مجھ سے کروا دیا حالانکہ اگر آپ چاہتے تو ایسا نہ کرواتے آپ طاقت ور لوگ ہیں کیس کو آسانی سے دبا سکتے تھے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔۔۔ ”
وہ الجھ کر انہیں دیکھنے لگی۔
“ہاں ہم سمجھ گئے۔۔۔ تم احسن کے نکاح پر ششدر ہو نہ؟”
وہ مسکراتے ہوۓ بولے۔
“جی۔۔۔”
وہ خفیف سی ہو گئی۔
“بیٹا آج سے بیس سال پہلے ہماری بہن کو کسی نے نشانہ بنایا تھا بلکل تمہاری طرح۔۔۔ لیکن وہ زندہ نہیں رہ سکی چند دن بعد چل بسی۔۔۔ ایک ہی بہن تھی ہماری!۔۔۔۔”
وہ سرد آہ بھرتے ہوۓ بولے۔
زرش انہماک سے انہیں سن رہی تھی۔
“جب تمہیں ہم نے ہسپتال میں دیکھا تو اپنی بہن یاد آ گئی۔ ہم نہیں چاہتے تھے پھر سے کسی آنگن کا ویران ہو جاےُ، کسی بھائی کی بہن دور ہو جاےُ اس سے۔۔۔ ”
وہ آنکھوں میں امڈ آنے والی نمی کو صاف کرتے ہوۓ بولے۔
“اسی لئے آپ نے تبھی میرا نکاح کروا دیا۔۔۔ ”
وہ کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں بولی۔
وہ اثبات میں سر ہلانے لگے۔
“اور حیا؟”
وہ آہستہ سے بولی۔
“احسن کی خاطر پہلے ہم نے نور کا رشتہ مانگا تھا لیکن اس کے باپ نے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اپنی بہن کے گھر کرنا چاہتا ہے نور کا رشتہ اس لئے دوبارہ بات کر کے ہم رشتہ داری خراب نہ کریں۔ سدرہ ہماری پسند تھی جس کے لئے احسن مان گیا۔۔۔ ”
وہ لمحہ بھر کو خاموش ہوۓ۔
“پھر؟”
وہ جیسے سننا چاہتی تھی۔
“وہ بہت آزاد خیال تھی۔۔۔ اس حویلی میں رہ نہیں سکتی تھی اس لئے جب احسن نے حیا کے لئے خواہش ظاہر کی اور بتایا کہ اس بچی پر کیسے ظلم ہو رہا ہے تو ہم نے حامی بھر لی۔۔۔ خدا نے ہمارا اور ہمارے بیٹے کا دل نرم کر دیا اسی لئے اسے اس ظلم سے بچا لیا۔”
وہ پانی کا گلاس اٹھاتے خاموش ہو گئے۔
“آپ بہت اچھے دل کے مالک ہیں۔۔۔ ”
وہ آنکھوں میں نمی لئے بولی۔
“یہ خدا کے کام ہوتے ہیں اس واقعے کے بعد خدا نے ہمارے دل میں نرمی ڈال دی ورنہ ہم بھی بس۔۔۔ ”
وہ بات ادھوری چھوڑ گئے۔
“وائز کمرے میں ہے؟”
انہوں نے بات کا رخ موڑا۔
“جی۔۔ بس اسی کے پاس ہی جا رہی تھی۔”
وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔
“اب اس کا خیال رکھنا۔۔۔ ”
وہ مسکراتے ہوۓ چشمہ لگانے لگے۔
“جی۔۔۔ ”
وہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
“تم ڈاکٹر کے پاس گئی تھی؟”
وہ واش روم سے باہر نکلتا ہوا بولا۔
“ہاں۔۔۔ کہہ رہی تھیں سب ٹھیک ہے۔”
وہ دراز میں ہاتھ مارتی ہوئی بولی۔
“تم کھانا کھا لو پھر واک کے لئے چلتے ہیں۔۔۔”
وہ تولیہ صوفے پر پھینکتا ہوا بولا۔
اس سے قبل کہ زرش نوالہ منہ میں ڈالتی ملازمہ ہانپتی ہوئی اندر آئی۔
“عقل کہاں مر گئی ہے تمہاری؟”
وائز اسے اندر آتے دیکھ کر چلایا۔
“بڑے صاحب اس کھانے میں کوئی دوائی ہے۔۔۔ ”
وہ لمبے لمبے سانس لے رہی تھی۔
“کون سی دوائی؟”
وہ زرش کا منہ میں جاتا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔
“پتہ نہیں ثوبیہ بی بی نے مجھے باہر بھیج دیا تھا اور جب میں واپس باورچی خانے میں گئی تو کوڑے دان میں یہ شیشی پڑی تھی۔۔۔ ”
وہ ہاتھ میں پکڑی بوتل اس کے سامنے کرتی ہوئی بولی۔
اس پر کوئی ٹیگ وغیرہ نہیں تھا یقیناً اس نے اتار دیا ہوگا۔
“پھینکو اس کھانے کو۔۔۔ ”
وہ درشتی سے کہتا زرش کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی جانب چلنے لگا۔
“وائز یہ سب کیا؟”
وہ ہکا بکا سی اس کے ہمراہ چل رہی تھی۔
“تم خاموش رہو میں دیکھ لوں گا۔۔۔ ”
وہ لاؤنج میں آتا ہوا بولا۔
“امی چاچی کہاں ہیں؟”
وہ گھورتا ہوا بولا۔
گردن کی رگیں تنی ہوئی تھیں، چہرے پر بلا کی سختی تھی۔
“وہ پتہ نہیں اپنے کمرے میں ہو گی۔۔۔ ”
وہ وائز کے غصے کو دیکھ کر گھبرا گئی۔
“چاچی باہر آئیں؟”
وہ حلق کے بل چلایا۔
“کیا ہو گیا کس بات پر شور مچا رہے ہو؟”
فیض حیات کمرے سے باہر نکلتے ہوئے بولے۔
“چاچی کو بلائیں۔۔۔ ”
وہ چبا چبا کر بولا۔
“ہاں بولو؟”
وہ کمرے سے نکل کر اس کے سامنے آتی ہوئی بولی۔
“شرم نہیں آتی آپ کو؟”
وہ اس پر دھاڑا۔۔۔
“یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا؟”
فیض حیات تلملا اٹھے۔
“آپ سے ہماری خوشی برداشت نہیں ہوئی؟ کتنے کند ذہن کی مالک ہیں آپ؟ میرے بچے کو مارنا چاہتی تھیں؟”
وہ فیض حیات کو نظرانداز کرتا ثوبیہ سے مخاطب تھا۔
“کیا ہو گیا کچھ بتاؤ تو سہی۔۔۔ ”
رضی حیات خفگی سے بولتے ہوۓ اس کے پاس آےُ۔
“آپ خود پوچھ لیں ان سے کیوں میرے بچے کو مارنا چاہتی ہیں یہ؟ بلکہ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے میں بتا دیتا ہوں۔۔۔ انہیں فکر ہے کہ اگر میرا بیٹا پیدا ہوا تو اس گھر کا وارث آ جاےُ گا۔”
وہ دانت پیستا ہوا بولا۔
نظریں ابھی تک ثوبیہ پر تھیں۔
زرش لب کاٹتی ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
“یہ کیا سن رہے ہیں ہم؟”
وہ باری باری ثوبیہ اور فیض کو دیکھتے ہوۓ بولے۔
“جھوٹا الزام ہے یہ۔۔۔ میں کیوں مارنے لگے اس کے بچے کو۔ ہاں مانتی ہوں مجھے یہ دو کوڑی کی لڑکی ایک آنکھ نہیں بھاتی لیکن۔۔۔”
“سوچ سمجھ کر بولیں میری بیوی ہے وہ۔۔۔”
وہ انہیں ٹوکتا ہوا بولا۔
“یہ مت سمجھئے گا آپ کے جو دل میں آےُ گا آپ بولیں گیں۔ شادی کی ہے اور اسے عزت بھی میں ہی دلواؤں گا۔ میں دیکھتا ہوں کون میری بیوی کے بارے میں کچھ بولتا ہے۔۔۔ ”
وہ سینے پر بازو باندھتا انہیں دیکھنے لگا۔
“بس یہی رہ گیا تھا۔۔۔ کیسی لڑکی ہے یہ بھائی صاحب دیکھیں گھر میں فساد برپا کر دیا ہے۔ کیا ثبوت ہے وائز کے پاس؟”
ثوبیہ دہائی دیتی ہوئی بولی۔
“یہ ڈرامہ یہاں نہیں چلے گا نہ ہی میں کسی کو اپنے گھر کا سکون برباد کرنے دوں گا۔ جیرو نے بتایا ہے مجھے اور سن لیں بابا سائیں فلحال میں جارہا ہوں۔۔۔ اپنے بچے کو لے کر آؤں گا یہاں۔”
وہ رضی حیات کی جانب گھومتا ہوا بولا۔
“اور ہرگز یہ مت سوچئے گا کہ میں حویلی چھوڑ کر جا رہا ہوں۔۔۔ میں کوئی رسک نہیں لے سکتا اس لئے کچھ وقت کے لیے۔۔۔ صرف کچھ وقت کے لیے۔ واپس یہی آؤں گا اور یہیں رہوں گا دیکھتا ہوں کیسے میری بیوی کے بارے میں کچھ بولتی ہیں آپ۔۔۔ ”
وہ ثوبیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا انگلی اٹھا کر بولا۔
وہ تھوک نگلتی فیض حیات کو دیکھنے لگی۔
“بھائی صاحب دیکھیں ذرا کیسے بات کر رہا ہے وائز۔۔۔ ”
وہ ثوبیہ کا اشارہ سمجھتے ہوۓ بولے۔
“بس۔۔۔ نظر ہمیں بھی آتا ہے۔۔۔وائز کا فیصلہ درست ہے بچے کی پیدائش تک وہ شہر میں رہے اور اس کے بعد ثوبیہ تم بھول جانا جو رقابت دل میں پال رکھی ہے۔ اس غلطی کو ہم نظر انداز کر رہے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تم پھر سے ایسی کوئی غیر اخلاقی حرکت کرو۔۔۔ ”
وہ ضبط کرتے ہوۓ بولے۔
حویلی میں ان کی بلند آواز گونج رہی تھی۔
“لیکن بھائی صاحب۔۔۔ ”
فیض حیات کے گھورنے پر وہ خاموش ہو گئی۔
وہ قہر برساتی نظروں سے زرش کو دیکھتی وہ اپنے کمرے کی جانب چل دی۔
“چلو زرش کمرے میں۔۔۔ امی ہمارا سامان تیار کروا دیں۔”
وہ رک کر گل ناز بیگم کو دیکھنے لگا۔
“ہا۔۔۔ ہاں میں کروا دیتی ہوں ابھی۔”
وہ ہڑبڑا کر کہتی ملازمہ کو ہدایات دینے لگی۔
“ہاں نمبر کا کچھ معلوم ہوا؟”
وہ فون کان سے لگاتا رک گیا۔
زرش مڑ کر اسے دیکھنے لگی۔
“تم جاؤ میں آتا ہوں۔۔۔ ”
وائز اسپیکر پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
وہ سر ہلاتی چلنے لگی۔
“کس کا؟”
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
“ٹھیک ہے فیڈی شکریہ۔۔۔ مجھے معلوم تھا خیر اب سب حساب برابر کرنے ہیں۔”
وہ تاؤ کھاتا ہوا بولا۔
“ہاں ملتے ہیں کل یونی چکر لگاؤں گا میں۔۔۔”
وہ کمرے کی جانب بڑھتا ہوا بولا۔
“ٹھیک ہے پھر بعد میں بات کرتا ہوں۔”
اس نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
~~~~~~~~
“ثوبیہ تم کیوں ہم دونوں کے لیے مشکلات کھڑی کر رہی ہو؟”
وہ جھنجھلا کر بولے۔
“ہاں تو کیا کروں پھر؟”
وہ کاٹ دار لہجے میں بولی۔
“صبر کرو۔۔ اور وائز ہمارے بیٹے جیسا ہے کبھی اس نے ہمارے ساتھ برا نہیں کیا پھر بھی تم اسی کے بچے کو۔۔۔۔ ”
وہ ششدر تھے۔
“تم نہیں جانتے وائز کا وارث آ گیا تو بھائی صاحب پوچھیں گے بھی نہیں ہمیں۔۔۔ ”
وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔
“یہ فتور اپنے دماغ سے نکال دو۔۔۔ بھائی صاحب کی ایسی عادت نہیں ورنہ سیاست میں جاتے ہی مجھے الگ کر دیتے۔۔۔”
وہ آگ بگولہ ہو گئے۔
“ہاں مجھے ہی برا کہو تم بھی۔۔۔ ”
وہ آنسو بہاتی ہوئی بولی۔
“جس سعدیہ کے لئے تم اس گھر کا ماحول خراب کر رہی ہو تمہاری بہن نہیں ہے وہ۔۔۔ اور اب اگر تم نے کوئی الٹی سیدھی حرکت کی تو تم اکیلی ذمہ دار ہو گی، میں کہہ دوں گا بھائی صاحب سے جو کرنا ہے کریں۔”
وہ کہتے ہوۓ کمرے سے باہر نکل گئے۔
“عقل ہی نہیں ہے اسے۔۔۔۔ ”
وہ تاسف سے کہتی دروازے کو گھورنے لگی۔
~~~~~~~~
“زاہد اسی کا بڑا بھائی جیل میں تھا نہ؟”
صفیہ اس کے سامنے کھانا رکھتی ہوئی بولیں۔
“ہاں کیوں؟”
وہ چہرہ اٹھا کر انہیں دیکھنے لگا۔
“میرا مطلب یہ لوگ ٹھیک نہیں لگ رہے۔۔۔ بھائی پر زیادتی کا کیس یہ نجانے کیسا ہو؟”
وہ متفکر سی بولیں۔
“جتنی ہم لوگوں کی اوقات ہے نہ کوئی شہزادہ نہیں ملنے والا تمہاری بیٹی کو۔۔۔ اور ویسے بھی سیاسی لوگ ہیں زمینوں کے علاوہ پیسہ بھی بہت ہوگا۔۔۔ ”
وہ نوالہ منہ میں ڈالتا ہوا بولا۔
“لیکن پھر بھی۔۔۔ دنیا تھو تھو کر رہی ہے رضی حیات پر اور تم ان حالات میں۔۔۔ لوگ کیا کہیں گے؟کچھ تو خیال کرو۔”
وہ بیچارگی سے بولیں۔
“تمہیں کہا ہے حیا نظر رکھا کرو۔۔۔ یہ فضول میں میرا دماغ خراب مت کیا کرو اب جاؤ اس گھر کے فیصلے میں لیتا ہوں اور یہی میرا فیصلہ ہے اور اب تو نکاح ہوگیا اب کیا فائدہ۔۔۔۔ ”
وہ ہنکار بھرتا ہوا بولا۔
وہ مایوسی سے سر جھکاےُ چل دیں۔
~~~~~~~~
“کوئی بھی آےُ تم دروازہ مت کھولنا۔۔۔ میں جب آؤں گا تو کال کر دوں گا۔”
وہ دروازے میں رک کر اسے ہدایات دینے لگا۔
“ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن کیا یہاں کوئی خطرہ ہے؟”
وہ اس کے اس انداز پر پریشان ہو گئی۔
“نہیں خطرہ کوئی نہیں ہے لیکن محتاط رہنا مفید ہوتا ہے۔”
وہ دو انگلیوں سے اس کا رخسار تھپتھپاتا ہوا بولا۔
“جلدی آ جانا۔۔۔ ”
وہ یاس سے اسے دیکھ رہی تھی۔
“ماسی سے کہنا جب تک میں نہ آؤں وہ جائیں نہ۔۔۔اوکے؟”
وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔
“اوکے۔۔۔ ”
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
وائز نرم سی مسکراہٹ اچھالتا زینے اترنے لگا۔
وہ لاک کرتی صوفے پر بیٹھ گئی۔
“کتنا عجیب ہے یہ سب؟ چاچی کا ہمارے بچے کو مارنا؟ یا ﷲ اگر جیرو وقت پر نہ آتی پھر کیا ہوتا؟”
وہ منہ پر ہاتھ رکھے خود کلامی کر رہی تھی۔
“ہمارے بچے کی حفاظت کرنا۔۔۔ اب کوئی دکھ برداشت نہیں کر سکتے ہم بہت مشکل سے یہ خوشی نصیب ہوئی ہے۔”
آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔
گلاس میں پانی انڈیلتی وہ پانی پینے لگی۔
وہ صوفے پر نیم دراز ہوتی وائز کے متعلق سوچنے لگی۔
~~~~~~~~
“فائنلی تمہاری شکل تو نظر آئی؟”
سعد گرمجوشی سے ملتا ہوا بولا۔
“ابھی بھی زخم باقی ہیں لیکن گھر بیٹھنا بہت کٹھن ہے اس لئے یہاں آ گیا۔۔۔ ”
وہ دور کھڑے فیڈی اور جینی کو دیکھتا ہوا بولا۔
“یار یہ باہر کیسے آ گیا جیل سے؟ اس کمینے کو تو سزا ملی تھی۔۔۔ ”
وائز کو اپنے عقب سے سرگوشی سنائی دی۔
چہرے پر سختی طاری کئے وہ مڑا اور ان لڑکوں کی جانب بڑھنے لگا۔
“کیا بکواس کی تم نے؟ تیری بہن تھی وہ؟”
وہ اس لڑکے کا گریبان پکڑے چلانے لگا۔
“ہم نے تو کچھ بھی نہیں کہا۔۔۔ ”
دوسرا لڑکا بوکھلا کر بولا۔
“اس زبان کو بند رکھنا۔۔۔ ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔”
وہ اس کی کالر چھوڑ کر شانہ تھپتھپاتا ہوا بولا۔
“وائز چھوڑ نہ۔۔۔ کس کس کا منہ بند کرواےُ گا۔”
سعد اسے ساتھ لئے چلنے لگا۔
“مجھے فرق بھی نہیں پڑتا۔۔۔ خود تو جیسے فرشتے ہیں نہ۔۔۔۔۔ہونہہ۔۔۔ ”
وہ ہنکار بھرتا چلنے لگا۔
“وائز کیسے ہو تم؟”
جینی اس کے گلے لگنے کی نیت سے آگے بڑھی جبکہ وائز دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔
“دور رہ کر بات کیا کرو۔۔۔ ”
وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھ رہا تھا۔
وہ لب بھینچ کر فیڈی کو دیکھتی الٹے قدم اٹھانے لگی۔
“یار تم ہمیں بتا سکتے تھے یہ سب؟”
فیڈی شکوہ کناں نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
“تم جینی اپنی حد سے باہر نہ نکلو۔۔۔ تمہیں کیا لگا تھا زرش کو میری خلاف بھڑکاؤ گی اور میں لاعلم رہوں گا؟”
وہ فیڈی کو نظرانداز کرتا اس کی جانب بڑھنے لگا۔
“مجھ پر جھوٹے الزام مت لگاؤ مجھے کیا ضرورت پڑی اس لڑکی کو میسج کرنے کی۔۔۔”
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
“دوبارہ اگر تم نے کوئی ایسی حرکت کی تو تمہیں بخشوں گا نہیں۔۔۔ آرام سے سمجھا رہا ہوں سمجھ جاؤ ورنہ میرے پاس بہت سے طریقے ہیں تم جیسے لوگوں کو سیدھا کرنے کے۔۔۔ ”
اس کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی۔
آس پاس سٹوڈنٹس کی بھیڑ لگ گئی تھی۔
جینی اپنی ہتک محسوس کرتی وہاں سے نکل گئی۔
“یار آرام سے۔۔۔”
سعد اس کے شانے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
“کیا آرام سے میری زندگی تباہ کر رہی ہے وہ۔۔۔ ”
وہ تلملا کر بولا۔
“اب سمجھ جاےُ گی وہ۔۔۔ چل کلاس میں چلتے ہیں۔۔۔ ”
فیڈی اس کا بازو پکڑ کر چلنے لگا۔
“وائز تم نے اس دو کوڑی کی لڑکی کے لئے مجھے بے عزت کیا سب کے سامنے؟”
وہ شیشے کے سامنے کھڑی آنسو صاف کر رہی تھی۔
“زرش تیار رہنا اب تم۔۔۔۔۔”
وہ بدلے کی آگ میں جل رہی تھی۔
آگ لگ جاےُ تو نقصان بھی یقینی ہوتا ہے۔
~~~~~~~~
“جنید صاحب یہ دیکھیں آج میں بازار گئی تھی۔۔۔ زرش کے بچے کے لئے کپڑے لائی ہوں۔”
ثریا پرجوش انداز میں کہتی انہیں وہ کپڑے دکھانے لگی۔
“واہ بھئی نانی کو بہت جلدی ہے۔۔۔ ”
وہ باری باری دیکھنے لگے۔
“میری تو بس یہی خواہش تھی اپنی زندگی میں زرش کی خوشیاں دیکھ لوں اور اب تو میری بچی کو خوشیاں ملی ہیں۔۔۔۔”
وہ انگلی سے آنکھ کا گوشہ صاف کرتی ہوئی بولی۔
“ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔۔ لیکن وہ پیسے والے ہیں وائز کو کہاں یہ سب پسند آےُ گا۔”
چہرے پر مایوسی در آئی۔
“ایسی بھی بات نہیں وائز کبھی ہماری حیثیت دیکھ کر ہم سے نہیں ملتا پھر ہماری محبت سے کیسے انکار کر دے گا؟”
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
“زرش کا فون آیا تھا آج مجھے۔۔۔ بتا رہی تھی حویلی سے آ گئے ہیں یہاں۔”
وہ بیڈ سے ٹیک لگاتے ہوۓ بولے۔
“یہیں ٹھیک ہے۔۔۔ سو کوئی مسئلہ ہو سکتا ہے ہاسپٹل بھی قریب ہیں وہاں سے پھر مشکل ہو جاتا۔”
وہ سامان سمیٹتی ہوئی بولی۔
“پھر مجھے آپ کل یا پرسوں زرش کی طرف چھوڑ دینا۔۔۔ وائز کی طبیعت بھی پوچھنی ہے۔۔۔”
وہ فکر سے بولی۔
“ویسے تو آج فون کیا تھا میں نے وائز کو۔۔۔ ماشاءﷲ اب ٹھیک ہے، چلی جانا تم بھی زرش کا بھی دل بہل جاتا گا اکیلی ہی ہوتی ہے وہاں۔”
وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولے۔
“میں لائٹ بند کر دیتی ہوں آپ آرام کر لیں۔۔۔ ”
وہ وہاں سے اٹھتی ہوئی بولی۔
~~~~~~~~
“تمہاری چاچی اس حد تک جا سکتی ہیں؟”
وہ بےیقینی کی کیفیت میں تھی۔
“ہم لوگوں کے بارے میں کوئی راےُ قائم نہیں کر سکتے۔۔۔ تمہارے آنے سے پہلے وہ ٹھیک تھیں لیکن اس سب کے بعد میں بھی شاک میں ہوں۔”
وہ پاؤں ٹیبل پر رکھتا ہوا بولا۔
“تم نے میڈیسن لی؟”
یکدم زرش کے دماغ میں جھماکا ہوا۔
“ہاں لے لی تھی۔۔۔ تم اب اس سب کے بارے میں مت سوچو۔ یہاں بس ہم دونوں ہیں اور بلکل محفوظ ہیں۔”
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
“میں نے ماسی کو بول دیا ہے کل سے کھانا بھی وہی بناےُ گی۔۔۔ ”
وہ کمبل اوڑھتی ہوئی بولی۔
“چلو اچھا کیا۔۔۔ ویسے یہ آفر صرف ابھی کے لیے تھی بعد میں سب تمہی کرو گی۔۔۔”
وہ گھورتا ہوا بولا۔
“میرے کام مجھے ہی کرنے ہیں۔۔ اور میں تمہیں منع بھی کرتی تھی لیکن تم نے ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی۔”
وہ خفگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
“ویسے نرس اچھی تھی میری۔۔۔ ”
وہ فون اٹھاتا کھڑا ہو گیا۔
“اسی لئے مجھے حویلی بھیجا تھا نہ۔۔۔ ”
وہ جل کر بولی۔
وائز قہقہ لگاتا اسے دیکھنے۔
“تم جیلیس ہو رہی ہو؟”
وہ اس کے سامنے آتا جھک کر بولا۔
زرش بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاےُ بیٹھی تھی۔
“جی نہیں۔۔۔ ”
وہ خفیف سی ہو گئی۔
“یس تم جیلیس ہو رہی ہے۔۔۔ اچھی بات ہے ہونا بھی چائیے۔”
وہ اس کا منہ تھپتھپاتا سیدھا ہو گیا۔
“وائز۔۔۔ ”
وہ جانے کے لیے مڑا ہی تھا لیکن اس کا ہاتھ زرش کے ہاتھ میں آ گیا۔
“یس میری جان؟”
بھاری گھمبیر آواز گونجی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...