شبِہ طراز(لاہور)
انسان دنیا میں آتا ہے تو محض ایک جان دار کے روپ میں ، جسے صرف بر وقت خوراک اور موسموں کے تغیراتی مدوجزر سے پناہ چاہیے ہوتی ہے ، اور اپنی ان دو جبلتوں کا اظہار وہ ان ضروریاتِ زندگی کے انتہائی مطلوب لمحوں میں رو کر کرتا ہے ۔۔۔ چیختا ہے ، چلّاتا ہے ، اس لئے کہ وہ اس وقت ’’ لفظ ‘‘ سے نا آشنا ہوتا ہے ، اپنے جذبات اور احساسات کو لفظوں میں ڈھالنے کا ہنر نہیں جانتا اسی لئے ضرورت پوری ہو تے ہی خوابوں کے اُن مرمریں ، حسین جزیروں میں کھو جاتا ہے جن کی خوب صورتی شعور کی حدوں میں داخل ہونے کے بعد بھی کہیں لا شعور کی نہاں ترین تہوں میں خوابیدہ رہ جاتی ہے ۔ اور پھر جنہیں ’’ لفظ ‘‘سے محبت ودیعیت ہوتی ہے اُن کے تخیل میں لفظوں کے تاج محل بننے لگتے ہیں ۔شعور کی پہلی سیڑھی پر کھڑے ہو کر وہ لفظ کی محبت میں مبہوت ہو جاتے ہیں کہ وہ جان جاتے ہیں کہ لفظ ہی وہ ذریعہ ہیں جو گہرے میٹھے جذبات کا اظہار کرنے کی قوت رکھتے ہیں ۔ فکر کے کسی ایسے ہی موڑ پر پہنچ کر احمد حسین مجاہد نے اقرار کیا
کن اچھوتے راستوں پر فکر ہے گرمِ سفر لفظ ہیں سب محوِ حیرت ، رنگ ہیں بکھرے ہوئے
اور یوں ایک شاعر کا ۔۔۔ ایک احمد حسین مجاہد کا شعری سفر آغاز ہوتاہے ۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں ’’ لفظ‘‘ رنگِ غزل بننے اور احساس تصویرِ غزل ہونے کے مراحل میں دریافت کے پہلے پہلے قدم اٹھانے کو تیار ہوئے۔ احساسات کی نوکیلی ، کٹیلی کرنیں آئینہء دل پر پڑنے لگیں ۔ یہاں سے مجاہد نے لفظ کو کھوجنا شروع کیا ۔ سب سے پہلے انہوں نے ہر سچے لفظ میں اپنا عکس پایا تو کہا
جذبوں کے ابلاغ میں سچا لفظ ہوں میں بھید بھری آنکھوں سے گہرا لفظ ہوں میں
بھید بھری آنکھوں کی گہرائی ناپنے کے لئے گہرائی میں اترنا پڑتا ہے ۔ کائنات کی سچائیوں ، حقیقتوں سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے ، زمینی فاصلوں کو آسمانی راستوں میں بدلنا پڑتا ہے ، موسموں کی صعوبتیں سہنی پڑتی ہیں ، عشق سمندر میں ڈوبنا ابھرنا پڑتا ہے ۔ تب کہیں جا کر جذبوں کو لفظوں کی مزّین و مرّصع پوشاک مہیا ہوتی ہے ۔ یہ تبھی ہوتا ہے جب کسی کے چاروں طرف عشق کی آب و ہوا میسر ہو اور اس کا وجود بھی اسی سرشاری کی کیفیت کا ادراک کرے۔ بے شک احمد حسین مجاہد نے اپنے مشاہدات کو اتنا گراں مایہ محسوس نہیں کیا اور کہہ اٹھے
نا معتبر حوا لہ ہیں میرے مشاہدات دیکھی ہے میں نے روزنِ زنداں سے کائنات
پھر بھی وہ اپنے ارد گرد ایک حقیقی عشق کی فضا بنانے کے لئے سرگرمِ عمل رہے اور کہتے رہی
ہر لفظ کو نوید بقائے دوام کی میرے سخن کی آب و ہوا عشق سے ہوئی
یہاں وہ اس اعتراف کے ساتھ ساتھ، کہ انسانی حسیات محدود ہیں اور جو ہے ، اسے دیکھنے کے لئے آنکھ نا کافی سہارا ہے ، اپنے مشاہدات کا ذکر کرتے ہیں اور تمام تر مزاحمتوں کے با وجود احمد حسین مجاہد لفظوں کی حرمت کا بھرم قائم رکھنے میں سر گرمِ عمل رہتے ہیں۔ کیسے کیسے دھوکے ، کیسے کیسے رویے ، کیسے کیسے نشیب و فراز زندگی میں پائے لیکن وہ کہتے رہی
میں کیسے کسی لفظ کی توہین کروں رکھنا ہے ہر اک شعر کا پندار مجھے
یہاں جو بات قاری کے ذہن میں احمد کا قد کاٹھ بلند کرتی ہے وہ ’’ لفظ ‘‘ سے ان کی محبت ، ’’ لفظ ‘‘ پر ان کا اعتماد ، ’’ لفظ ‘‘ کا ان پر احسان اور پھر ان سب کے ساتھ’’ لفظوں ‘‘ پر ان کی دسترس ہے ۔ لکھنا ، لکھے جانا ، گفتگو کرنا ، پڑھنا ، کسی کا ان کو پڑھنا ، جیسی تمام وارداتیں لا شعوری طور پر احمد کی نظموں اور غزلوں میں در آئی ہیں ، مثلاً
’’ میرے ہاتھ کی پشت پر ؍نرم ہونٹوں سے کوئی ؍محبت سے اک فیصلہ لکھ رہا ہے‘‘ ( پا بہ گِل )
یا ۔۔۔۔۔’’مجھے قدرت نے لفظوں کو ؍برتنے کا ہنر بھی ؍بخش رکھا ہے‘‘ ( ابلاغ )
اسی طرح بلند پایہ نسائی شاعری کی پہچان ، پروین شاکر کے لئے ایک نظم میں کہتے ہیں
’’قضا تازہ غزل میں ؍اک اچھوتے لفظ ہی کو؍قافیہ کرنے کے در پے تھی‘‘
ایک اور نظم کا ٹکڑا دیکھیے
’’اب تمہیں احساس ہو گا؍کرب کیا ہے ؍کرب کا احساس کیا ہے؍میں تو ان لفظوں سے پہلے ہی بہت مایوس تھا‘‘
( A Touch of Poetry )
ایسے ہی ذات کو کسی گفتگو کا حصہ بنانے اور خود کو کسی کی گفتگو کا حصہ بنے دیکھنے کی خواہش ان شعروں میں ملا حظہ کی جا سکتی ہے
اک عذاب ہوتی ہے ، رمزِ آشنائی بھی مجھ سے میری تنہائی گفتگو بھی کرتی ہے
اور ۔۔ اک وہم سے میں نکلوں اک راہ وہ چل دیکھی
میں اس کو پڑھوں احمد ؔ وہ میری غزل دیکھے
لفظوں میں اپنے حساس لمحے ڈھالنے والا شاعر ، شعروں اور نظموں کے آئینہ خانوں میں اپنے لہجوں کو عکس کرتے ، انگلیاں فگار کر لینے والا تخلیق کار ، لفظ کی پہچان رکھنے والا لکھاری ، لفظ کی حرمت کو خود مٹ کر بر قرار رکھنے والا انسان ، لفظ کے حسّاس ترازو میں رویوں کو تولنے والا منصف ، اور لفظ کو ایمانداری سے برتنے والا فن کار ہی دراصل ’’ لفظ ‘‘ کا غم خوار اور قدر دان ہوتا ہے ۔ لفظ انسان کی ذات کی پہچان کرواتا ہے ، یہی لفظ انسان کے شعور اور ادراک کی پہچان کرواتا ہے ۔ لفظ ہی کسی انسان کا خارج کی دنیا سے رشتہ جوڑتا ہے ۔ لفظ زبان سے ادا ہوتا ہے اور شخصیت دوسروں پر القا ہو جاتی ہے ، کہ تمام بڑے بڑے مفکرین کا قول ہے کہ انسان اپنی زبان کے پیچھے چھپا ہے ۔کسی بھی انسان کی لا شعوری نفسیات اس کے فن میں جھلکتی ہے ۔ دیکھنے سننے اور پڑھنے والے ، فن کار کی تخلیق سے ہی اس کی دلی کیفیات اور سوچ کے دھاروں کا اندازہ لگا لیتے ہیں ، اور بڑا انسان وہی ہوتا ہے جو کائنات کی خوابیدہ قوتوں ، مخفی حقیقتوں اور ظاہری حسن و جمال پر غور و فکر کرتا ہو ، جس کی سوچ ، جس کا تخیل ، جس کا لا شعور انسان کی ارفع ترین صورتِ حال کی غمّازی کرتا ہو۔ ا ور ارفع و اعلیٰ کی تعریف میں یہ بات ہی بڑی دلیل ہے کہ ہر انسان اپنے آپ کو ارفع و اعلیٰ دیکھنا اور دکھانا چاہتا ہے ۔
احمد حسین مجاہد کی شاعری میں ہمیں کائنات کے متعلق ایک ارفع سوچ کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں ، حسن و عشق کی وارداتوں کا سراغ بھی ملتا ہے ۔ ہجر و وصال کے ذائقے بھی محسوس ہوتے ہیں اور لا حاصلی اور تنہائی کا دکھ بھی زخمی کرتا ہے لیکن کہیں بھی لفظوں کے شتر ،بے کجاوہ اور بے مہار نہیں ہوتے ۔روایتی غزل گوئی اور جدید تمثالئے بین بین چلتے ہوئے ایک نئی تہذیب کو جنم دیتے ہیں ۔۔۔ و ہ تہذیب ، جس کی جاگیر خوب صورت تشبیہیں ، نادر ردیف قافیے ، غیر معمولی بحریں ، نئی نکور ترکیبیں اور شان دار الفاظ ہیں ۔
اس مقام پر پہنچ کر احمد حسین مجاہد کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ لفظ آغازِ شعور میں تو اظہارٍ ذات کے لئے سامانِ لذّت فراہم کرتے رہے ہیں ۔ انسان کو کہہ دینے یا لکھ دینے سے جو ذہنی آسودگی اور اطمینانِ قلب میسر آتا ہے اس کا کوئی بدل نہیں ، لیکن جب انسان حوادث کی بھٹی میں تپتا ہے ، جب اسے زمانے کے سردو گرم کی ہوا لگتی ہے ، جب اسے جھوٹے ’’ لفظ ‘‘ دھوکہ دیتے ہیں اور جب وہ لفظوں کی بازی گری کا شکار ہوتا ہے اور لفظ کی ستم ظریفی سے گھائل ہوتا ہے تب اچانک اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ یہ لفظوں کا سرمایا تو در اصل اسے دکھوں کو محسوس کرنے کی اعلیٰ ترین سطح پر لے آیا ہے جہاں سے واپسی کے راستے مفقود ہیں ۔ ایسے ہی کسی مقام پر احمد حسین مجاہد کہہ اٹھتے ہیں ،
مجھ کو زعم تھا لفظ مرا سرمایا ہیں لیکن لفظ تو جاں لیوا بیماری نکلے
ا ور لفظوں کے اس رنگا رنگ ،سجے سجائے میلے میں غزلیں کہتے ، نظمیں لکھتے احمد حسین مجاہد کو اپنی ذات کے ہونے کے احساس کے ساتھ ساتھ دنیا کی بے ثباتی اور نہ ہونے کے کرب کا ادراک بھی ہوتاہے ، دوسری طرف ان کی غزلوں میں رومان پرور فضا کی رو میں پُر اثر شعر بھی قاری کے ذہن و دل پر پیار کی کُن مُن بوندیں برساتے ہیں ۔ سوچ اور تخیل کی اس انتہا پر جب کوئی فن کار اپنی شعوری فکر کی رو میں بہتا، یہ گیان حاصل کر لیتا ہے کہ وہ اس کائنات کے بہاؤ میں بس ایک قطرہ ہے جو کسی بھی لمحے دریا میں مل کر بے وجود ہونے والا ہے تو یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اس کو ایک نیا وجود ملتا ہے ۔ جب وہ اپنی اور ’’ لفظ‘‘ کی بازیافت کرتا ہے ۔ جب وہ قطرے سے پھیل کر دریا میں ملتا ہے ، دریا ہو جاتا ہے ۔ اور اس کی سوچ کا دائرہ کائنات کو محیط کر لیتا ہے ۔۔۔۔ تب ۔۔۔ زندگی اسے ’’ دھند میں لپٹا جنگل ‘‘ دکھائی دیتی ہے جس کی دریافت میں وہ لفظ لفظ اپنی نظموں اور غزلوں میں ڈوبتا ابھرتا ہے ۔۔۔ !
اور کائنات کے اس بحرِ بے کراں میں ڈوبتے ابھرتے احمد حسین مجاہد اس بے ثباتی اور فنا کے کرب کو جھیلتے نظر آتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ وقت کی تختی پر نام لکھے جاتے ہیں پھر کوئی موجِ عمرِ رواں ان ناموں کو اچھال کر عدم آباد کرتی ہے اور زندگی کے منظر نامے پر نئے نام جگہ پاتے ہیں ۔۔۔ وہ اس قانونِ فطرت کو کھلے دل سے قبول کرتے ہیں ۔۔۔ ان کے نزدیک زندگی ’’ لفظ ‘‘ کے کسی احساس سے آغاز ہوتی ہے اور ’’لفظ ‘‘ ہی پر کوئی خوب صورت اختتام ہوتا ہے ۔ اس کا اظہار اس شعر میں دیکھیے
عبارتوں میں نئے لفظ روح پھونکیں گے میں حاشیے سے بھی ہو جاؤں گا حذف سائیں
اس عجز و انکساری کی منزل پر بے شک احمد حسین مجاہد دنیا کے بہت جلد بھول جانے والے رویے پر بحث کر رہے ہیں لیکن انہیں یقین ہونا چاہیے کہ لفظ کو خلوصِ دل و خلوصِ نیت کے ساتھ برتنے والے اتنی آسانی سے منظر نامے سے غائب نہیں ہوتے ، اور ابھی تو ان کا شعری سفر راستوں میں ہے ، ابھی تو وہ قرطاس و قلم کے عروج کی دنیا میں ہیں اور وہ اسی رفتار سے آگے بڑھتے رہے تو عنوان ، مضمون اور حاشیہ سب پر چھا جائیں گے ۔ میری دعائیں ان کے ساتھ ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد حسین مجاہد غزل کا ایک خوش فکر شاعر ہے۔ندرت کا متلاشی اور خلوص کا خواہاں ہے۔اُس کے ہاں تازہ خیال کو خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہنے کا رویہ ملتا ہے، جس نے اُس کی غزل میں ایک خوش گواریت کو قائم رکھا ہے۔غزل میں اُس نے ’عشق‘پر اپنی اساس رکھی ہے۔وُہ سمجھتا ہے کہ وہم و گماں کے چنگل سے عشق ہی رہائی دلا سکتا ہے ۔ عشق جو ’اذانِ بلال ‘میں جھلکتا ہے اور عشق جو خلقِ خدا کو مطیع کر لیتا ہے۔مجاہد نے اپنے سخن کی آب و ہَوا میں بیشتر عشق ہی کے رنگ و بُو سے استفادہ کیا ہے۔بالائی علاقوں کی نمائندگی کرنے والے اِس نوجوان شاعر کے پاس چٹانوں کو کاٹتے ہُوئے جھرنے کی سی شدت ہے جس کی تہذیب سے وُہ پتھروں کو تراش لینے کے فن سے آشنا ہو سکتا ہے۔ خاور اعجاز(ملتان)