جان عالم (مانسہرہ)
کرسٹوفرکاڈویل کہتا ہے کہ بندر کے لئے یا نیم وحشی انسان کے لئے گلاب کے ایک پھول کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ ایک چمکتی سی چیز ہے،جسے کھایا جا سکتا ہے ۔لیکن شاعر کے لئے یہ کیٹس ،اینیکرونanacroon،حافظ،اوڈ،جیولز لیفور جیو jules Laforgueکا گلاب ہے۔یہ کیفیت اس لئے ہے کہ آرٹ کی دنیا اجتماعی جذبے کی دنیا ہے ،اُن الفاظ اور اُن علامتوں کی دنیا ہے جو تمام افراد کے تجربوں سے فراہم ہوتے ہیں اور اُس کی بڑھتی ہوئی پیچیدگی سماجی زندگی کی بڑھتی ہوئی پیچیدگی کی مظہر ہے۔
وہ جذبات جن میں تمام افراد شریک ہوتے ہیں ،معاشرے کے ارتقاء کے ساتھ بدل جاتے ہیں ۔انسان فطرت کے آئینے میں اپنی آرزوئیں دیکھتا ہے ،خواب دیکھتا ہے اور انہیں اپنی انفرادی مجرد صلاحیتوں سے تجسیم دیتا ہے اور پھر معاشرے کے حساس لوگوں میں وہ خواب ،وہ آرزوئیں بانٹ دیتا ہے ۔یوں ایک تخلیق کار اپنی ذات اور اپنی زندگی کے تجربات کو ایک معاشرے ،ایک سماج کی اجتماعیت کے سپرد کر دیتا ہے ۔وہ خیالی دنیا جو حقیقت بدل سکتی ہے ․․․․جو کسی طرح سے وجود میں نہیں آسکتی ،وہ شاعرانہ تقریب خیالی کی سطح پر بہت کچھ کر لیتی ہے․․․گوداموں کو غلے سے بھر تی ہے اور لہلہاتے کھیتوں کے سرور انگیز منظر دکھاتی ہے ۔اس کے بغیر وہ محنت امکان پذیر نہیں ہوتی جو اس کامیاب دنیا کو وجود بخشے۔
تو ہماری آرزوئیں ،ہمارے خواب ہی ہماری زندگی کے رواں دواں رہنے کا اصل محرک ہیں ۔اب اگر کوئی معاشرہ خواب دیکھنا ہی چھوڑ دے تو اس کے مستقبل کا کیا بنے گا۔اس اندیشے کو کوئی خواب دیکھنے والا ہی دیکھ سکتا ہے ۔احمد حسین مجاہد کی دُوررس نظر اس اندیشے کو دیکھ رہی ہے؛
نظر میں رہتے ہیں اسباب ، میرا کیا ہو گا میں دیکھتا ہی نہیں خواب ، میرا کیا ہو گا
انسان کی زندگی میں اُس کے پاس اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں کہ وہ خواب دیکھتا ہے ۔آرزوئیں ،امیدیں جنم لیتی ہیں اور زندگی آگے بڑھتی ہے ۔آج کے انسان نے جسے محرومی ،مجبوری اور بے اختیاری کا نام دے اُسے خالق کا شاکی بنا دیا ہے ،حقیقت میں خالق کا اپنی مخلوق پر سب سے بڑا احسان ہی یہی ہے ۔ہماری زندگی کا سارا حسن ہمارے خواب ہیں ۔اور احمد حسین مجاہد تو زندگی اور موت کے پیمانے ہی الٹ دیتا ہے جب وہ زندگی کو خواب اور موت کو اس خواب سے بیدار ہونے کا نام دیتا ہے ۔
جیسے میرا خواب ہے یہ زندگی جیسے اب بیدار ہو جاؤں گا میں
اگر جدت کا کوئی وجود ہے تو اس کی تعریف میں یوں کروں گا کہ آپ اُن علامتوں کو بدل دیں جو ماضی میں کسی خیال کے ساتھ چپک گئی ہیں ۔سمند ر سیرابی کی علامت ہے تو اسے پیاس کے معنی دیں ،صحرا پیاس کا اظہار ہے تو اسے سمندر کے معنی دیں ۔اگر علامتوں کے نئے نظام نہیں بنائے جا سکتے تو شاعری اپنے کلاسیکی دور میں زیادہ خوشنما مقام پر کھڑی ہے ۔پھر ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت کا جواز نہیں رہتا۔احمد حسین مجاہد نے مذکورہ بالا شعر میں جدت کے اس پیمانے پر پورا اُترتے ہوئے نئی بات کی ہے ۔ یہاں زندگی ،خواب اور بیداری نئے معانی کے ساتھ وارد ہوتے ہیں ۔اور خواب اپنی حقیقت اور اہمیت میں اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں انسان کی زندگی سے خواب کو الگ کرنا ہی اس کی موت بن جاتا ہے۔
خواب دیکھنے والا انسان کچھ بھی کر سکتا ہے ۔وہ عام انسان نہیں ہوتا ۔وہ حالات کی مشکلات سے ایسے گزر جاتا ہے کہ اُس کے راستے میں حائل شے اُس کے سامنے حائل نہیں ہو پاتی ۔
لپٹ گیا صفِ اعدا میں گھس کے یار سے میں وُہ زعم تھا مجھے لشکر نظر نہیں آیا
یہی توانائی ہے جو ناممکنات سے ممکنات کے در کھولتی ہے ،آسمانوں کو مسخر کرتی ہے اور زمین کے بطون سے اپنی تعبیریں نکال لاتی ہے ۔مجاہد کے ہاں اس توانائی کی ایک توانا شکل ملتی ہے؛
پہاڑ اپنی جگہ سے سرک گیا احمدؔ پہاڑ پر نظر آیا تھا راستہ مجھ کو
خواب اگر اپنی تعبیر پر قناعت کرلے تو جستجو کا دم گھٹ جاتا ہے او ر زندگی ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح دریا سے جوہڑ میں آجاتی ہے ۔مگراحمد حسین مجاہد کہیں رکتا نظر نہیں آتا ،اُس کے خواب کا سفر دریا بہ دریا جو بجورواں دواں ہے؛
میں جس کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں اک زمانے سے کہیں وُہ مل ہی نہ جائے یہ احتمال عذاب
شاعر کا یہی توانا اور پُرامید لہجہ جب اجتماعی زندگی سے جڑتا ہے تو معاشرے میں تبدیلی کے امکانات روشن ہوتے ہیں ۔فصلیں لہلہاتی ہے اور خوشحالی کے وہ خواب جنم لیتے ہیں جنہیں دیکھنا انسان کی ضرورت بھی ہے ۔
٭٭٭
٭ساری اردو دنیا میں ’’دُھند میں لپٹا جنگل‘‘توجہ سے پڑھی جائے گی کہ یہ ایک بشارت سنانے والے اور تازہ تر امکانات کے دروازے پر دستک دینے والے شاعر کی ترجمانی کرتی ہے۔ افتخار عارف