احمد جاگنگ کے بہانے مزمل صاحب کے گھر گیا اور دروازہ نوک کیا
کچھ دیر بعد صبا بیگم نے دروازہ کھولا تو احمد کو دیکھ کر حیران رہ گئیں
اسلام و علیکم آ نٹی
کیا حال ھے آپ کا
کچھ دیر تک تو صبا بیگم حیرانگی سے بس احمد کو ہی دیکھی گئیں پھر احمد کے مخاطب کرنے سے ہڑبڑا کر ھوش میں آ کر بولیں
ھاں
آپ باہر کیوں کھڑے ھو بیٹے
اندر آ ؤ
مزمل دیکھیں کون آ یا ھے
صبا بیگم مزمل صاحب کو پکارتی ھوئ احمد کو ھال کمرے میں لے کر آئیں اور صوفے پر بیٹھا دیا
اب جو بھی تھا احمد ان کی اکلوتی بیٹی کا شوہر تھا
جی آ نٹی وہ میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا تھا اور معافی بھی مانگنا چاہتا تھا
احمد ابھی بات کر ہی رھا تھآجب مزمل صاحب بھی احمد کے پاس آ کر بیٹھ گئے
اسلام و علیکم انکل
احمد نے مزمل صاحب کو دیکھ کر سلام کیا
وعلیکم السلام بیٹے
کیا حال ھے آپ کا اور حور کیسی ھے
جانتا ھوں بہت ناراض ہو گی مجھ سے
میں آ نے والا تھا آپ کے گھر حور سے ملنے کے لئے مگر پھر آپ کے گھر کا ایڈریس نہیں پتہ تھا
مزمل صاحب آہستہ آہستہ تحمل سے بات کر رہے تھے جبکہ احمد بس سر جھکائے ہوئے مزمل صاحب کی بات سن رھا تھا
وہ انکل اصل میں میں آپ دونوں سے معافی مانگنے آ یا ھوں مجھے اس طرح سے نہیں کرنا چاھیے تھا
لیکن انکل میں کیا کرتا
میں بہت زیادہ محبت کرتا ہوں حور سے
میں کیا کروں انکل یہ میرے بس میں نہیں ھے
میں حور کو کھو نہیں سکتا تھا میں نے بھیجا تھا آپی کو آپ کے گھر رشتے کے لئے
مگر آپ نے کہا دیر ھو گئی ھے حور کا نکاح ھو رھا ھے
تو تو مجھے یہی راستہ بہتر لگا
اس طرح حور آج میرے نکاح میں تو ھے نا
آئی ایم سوری انکل
میرے اس طرح کرنے سے آپ کی بہت بد نامی ھوئی
بہت سی باتیں برداشت کرنی پڑیں آپ کو
میں جانتا ہوں کہ سوری لفظ بہت چھوٹا ھے ان سب باتوں کے بدلے میں
مگر پھر بھی اگر ھو سکے تو مجھے معاف کر دیں
آئی پرومس انکل
میں حور کو بہت خوش رکھوں گا
اور آپ نے دیکھا نا انکل وہ حمزہ
کس طرح اس نے حور کو چھوڑ دیا تھا صرف اپنی زندگی کی خاطر
وہ بھی صرف میں نے دھمکی دی تھی اب آپ خود سوچیں انکل جو شخص حور کی حفاظت تک نہ کر سکے وہ حور کے لئے بہتر کیسے ھو سکتا ھے
میری ان سب باتوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ پلیز مجھے معاف کر دیں اور حور سے ملنے کے لئے آجائیں وہ بہت دکھی ھے بہت مس کر رہی ھے آپ کو
اور میں یہاں آ یا بھی آپ کو لینے کے لئے ھوں
آپ دیکھئیے گا کہ حور کتنی خوش ھو گی آپ دونوں کو دیکھ کر
پلیز چلیں میرے ساتھ میں باہر گاڑی میں آپ کا ویٹ کر رھا ھوں
احمد نے مسکرا کر کہا اور باہر نکل گیآجبکہ مزمل صاحب ابھی تک احمد کی باتوں پر غور کر رھے تھے کہ اچانک صبا بیگم کے بلانے پر ھوش میں آئے
ھاں کیا کہا تم نے
مزمل صاحب کے کہنے پر صبا بیگم دوبارہ بولیں
مزمل مجھے احمد کی محبت پر یقین ھے آپ نے دیکھا نہیں وہ صرف حور کی خوشی کے لئے آج ہمارے پاس آ کر معافی مانگ رھا ھے اور ہمیں اپنے ساتھ لے جانے آ یا ھے
اور سب سے بڑھ اس کی محبت دیکھی آپ نے
وہ مخلص ھے حور کے لئے تبھی تو شادی کی ھے
صبا بیگم نے مزمل صاحب کو سمجھانا چاہا مگر وہ تو پہلے ہی احمد کی کھری محبت پر یقین کر چکے تھے
تبھی ہلکے سے مسکراتے ہوئے بولے
چلو صبا احمد ہمارا ویٹ کر رھا ھے
مزمل صاحب اٹھ کر باہر چلنے لگے تو صبا بیگم بھی گھر کو لوک کر کے گاڑی میں آ کر بیٹھ گئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
حور کھانے کے ٹیبل پر آ کر بیٹھی تو فروز وہاں پہلے سے ہی موجود تھآجبکہ فضا شاید کیچن میں کچھ لینے گئی تھی یعنی فروز کو تو موقع مل گیا حور کو گھورنے کا
جب حور نے غور کیا کہ فروز کافی دیر سے اسے گھور رہا تھا تو غصے سے بولی
بھائی صاحب کوئی مسلہ ھے آپ کو
جو مجھے اس طرح گھورے جا رھے ھیں
اور ویسے بھی کھانا ٹیبل پر موجود ھے تو کھانے پر فوکس کریں
مجھ پر نہیں
حور نے بغیر کسی لحاظ کے فروز کو کھری کھری سنا دیں جبکہ فروز کو اپنی بے اختیاری پر بہت غصہ آ یا کہ اگر فضا یآپھر احمد اسے اس طرح دیکھ لیتے تو اس کے لئے مشکل پیدا ھو سکتی تھی
اس لئے اپنا فوکس کھانے کی طرف کر کے چپ چاپ کھانا کھانے لگا
حور کو تو پہلے ہی فروز پر غصہ تھا کہ کس طرح وہ اس کے روم میں داخل ھو کر اسے گھور رہا تھا اور اب پھر اس کے گھورنے سے حور اپنے غصے کو کنٹرول نہ کر سکی اور فروز کو باتیں سنا دیں جبکہ فروز اپنے دماغ میں حور سے بدلا لینے کے پلان بنا رھا تھا
ارے حور تم کچھ کھا کیوں نہیں رہی
سوری وہ احمد صرف میرے ھاتھ کا کھانا کھاتا ھے تو اس لئے اس کا ناشتہ بنا رہی تھی
خیر تم ناشتہ شروع کرو
فضا اپنائیت بھرے لہجے میں بات کر رہی تھی جس پر حور کو صبا بیگم کی یاد آ گئی
وہ بھی تو صرف صبا بیگم کے ھاتھ کا بنا کھانا کھلاتی تھی اورکسی کا نہیں
اسے ابھی بھی یاد تھا کہ ایک دفعہ صبا بیگم دوپہر کو اپنی ایک دوست کی طرف چلی گئیں تھی ان کے گھر میں کسی بچے کے عقیقے پر
تو وہ رضوانہ کو کھانے بنانے کا کہ گئیں تھیں مگر حور رات تک بھوکی رہی تھی جس پر صبا بیگم نے جلدی سے خود کھانا بنایا تو پھر حور نے کھانا کھایا
کیا ھوا حور
اگر کچھ اور کھانا ھے تو بتا دو میں بنا دیتی ھوں
حور نم آ نکھوں سے صبا بیگم کو یاد کر رہی تھی کہ فضا کی آ واز پر چونک کر اس کی طرف دیکھا
ارے حور بچے تم رو کیوں رہی ھو
کیا ھوا کسی نے کچھ کہا تمہیں
فضآجلدی سے اٹھ کر حور کے پاس آئی اور اسے اپنے گلے لگا کر بولی جبکہ فروز نے حور کو چونک کر دیکھا
(کہیں یہ میرے دیکھنے کی وجہ سے تو نہیں رو رہی اور اگر اس نے احمد یا فضا کو بتا دیا تو
نہیں نہیں
میں نے کچھ غلط تو نہیں کیا
پھر میں کیوں ڈروں)
فروز اپنی سوچ کو جھٹک کر دوبارہ حور کی طرف دیکھنے لگا کہ وہ کیآجواب دیتی ھے
انکل آ نٹی کی یاد آ رہی ھے تمیں
فضا آ ہستہ آہستہ حور کی کمر کو سہلا رہی تھی
و۔۔۔۔وہ
حور دیکھو کون آیا ھے
حور ابھی ہقلا کر بولنے کی کوشش کر رہی تھی کہ احمد کی آ واز سنائی دی تو حور کی نظر باہر ھال میں کھڑے احمد پر پڑی جبکہ احمد کے پیچھے کھڑے مزمل صاحب اور صبا بیگم کو حور بغیر پلکیں جھپکائے دیکھے گئ
ماما بابا حور نے زیر لب کہا اور بھاگ کر مزمل صاحب کے سینے سے لگ گئی
کیوں بابا
کیوں آپ نے مجھے جانے دیا اور روکا نہیں
آپ نے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ میرا کیا ھوگا
کیسے رھوں گی میں آپ کے بغیر
میں آپ سے بہت ناراض ھوں بابا
حور مسلسل رو کر مزمل صاحب سے شکوہ کر رہی تھی جبکہ باقی سب کچھ فاصلے پر کھڑے ان دونوں کو دیکھ رھے تھے
حور بیٹے آپ کی ماما بھی ادھر ہی ھیں مگر لگتا ھے آپ ان سے ملنا نہیں چاہتی
صبا بیگم نے حور کو جتانا ضروری سمجھا تو حور مزمل صاحب سے الگ ھو کر مسکرا کر صبا بیگم کے پاس آئ جس سے صبا بیگم نے اسے گلے لگا لیا
انکل آ نٹی آپ کھڑے کیوں ھیں پلیز بیٹھیں میں ابھی تھوڑی دیر میں آتی ھوں فضا کہ کر کچن میں چلی گئ جبکہ احمد انھیں صوفوں پر بیٹھانے لگا
آپ بیٹھیں میں ابھی فریش ھو کر آ تا ھوں
احمد نے مسکرا کر کہا اور ایک نظر حور کے مسکراتے ہوئے چہرے پر ڈال کر اوپر اپنے کمرے میں چلا گیا
بیٹے میں جانتا ھوں آپ مجھ سے بہت ناراض ہو
مجھے اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا
پلیز اپنے بابا کو معاف کر دو
مزمل صاحب نے حور کو دیکھ کر کہا تو حور نے جلدی سے بولی
بابآپلیز ایسے مت کہیں
میں مانتی ھوں کہ مجھے آپ سے تھوڑی ناراضگی تھی مگر اب وہ بھی ختم ھو گئ آپ کے یہاں آ نے سے
حور نے مسکرا کر کہا تو مزمل صاحب بھی مطمئن ہو گئے
بیٹے آپ کو پتہ ھے کہ احمد ابھی ہمارے پاس
چلی آجائیں سب ناشتہ ریڈی ھے
ابھی صبا بیگم بات کر رہی تھیں کہ فضا آ کر انہیں ناشتہ کا بتانے لگی
چلیں ماما بابآجلدی سے چلیں
سچ میں بہت بھوک لگی ھے حور جلدی سے اٹھ کر مزمل صاحب کو اٹھانے لگی تو وہ بھی مسکرا کر حور کے ساتھ چل پڑے
کتنی خوش ھو گئی تھی وہ انہیں یہاں دیکھ کر جیسے دنیا فتح کر لی ھو
احمد ناشتے کے دوران بھی بار بار حور کو دیکھے جا رہا تھآجبکہ حور احمد کو مکمل اگنور کر رہی تھی
خوش گوار ماحول میں ناشتہ کیا گیآپھر مزمل صاحب اور صبا بیگم حور سے مل کر اور فضا کو اپنے گھر کھانے پر انوایٹ کر کے واپس چلے گئے
تو حور بھی فضا کے پاس جا کر بیٹھ گئی یعنی پھر احمد کو نظر انداز کر رہی تھی جبکہ احمد بھی تیار ھو کر آفس چلا گیا
یہ سوچ کر کے حور سے تو وہ رات کو نمٹے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔