(Last Updated On: )
یار مشاء سوری تم بہت اچھی ہو مگر میرے بھائ نے تمہارے ساتھ اچھا نہیں کیا اسلیے میں rude تھی آبیر نے خود کلامی کرتے ہوۓ کہا اور کپڑے نکالنے لگ گئ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج مہندی کا فنکشن تھا اسلیے مشاء نے میک اپ نہیں کیا تھا مگر وہ لگ بہت خوبصورت رہی تھی کھڑی ناک گلابی ہونٹ چہرہ بلکل شفاف ہری چھوٹی قمیض کے ساتھ گلابی لہنگا اور ملٹی ڈوپٹے میں وہ حسین لگ رہی تھی مہندی والی مہندی لگانے آگئ تھی مشاء کو بس آبیر کا انتظار تھا مشاء بیٹا جلدی آجاؤ جی پھپھو آئ وہ نیچے آکر بیٹھی ہی تھی کہ آبیر آکے اسکے گلے لگی سوری یار دیر ہوگئ کوئ بات نہیں چلو آؤ اپن ساتھ مہندی لگواتے ہیں نہیں تم لگواؤ میں آتی ہوں تھوڑی دیر میں اوکے مگر جلدی آنا اوکے آبیر چلی گئ مہندی والی نے مشاء کی بہت خوبصورت مہندی لگائ تھی مشاء کا رنگ پہلے ہی صاف تھا اسلیے اسکی مہندی نے فورا بہت گہرا رنگ چھوڑا تھا ہر کوئ اسکی مہندی کی تعریف کر رہا تھا کہ ابھی تو صرف مہندی لگی ہے اور اتنا گہرا رنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مشاء تمہیارے شوہر تمہیں بہت پیار کریں گے پاس بیٹھی عورت نے اسے کہا اس کی بات پہ وہ صرف مسکرائ
اچانک گھر کی لاۂٹز بند ہوگئ بابا مشاء نے جمال صاحب کو آواز دی وہ ھمیشہ سے اندھیرے سے ڈرتی تھی ہاں میری جان میں یہی ہوں جمال صاحب نے کہا اتنی دیر میں ایک فلو لاۂٹ آبیر پہ آئ
Raat ki rangini dekho
Kya rang laai hai
Haathon ki mehendi bhi jaise
Khil-khil aai hai
آبیرblack شرٹ اور پنک لہنگا اور پیلا ڈوپٹہ پہن کر بہت خوبصورتی ڈانس کر رہی تھی
Mehndi laga rakhna, doli saja ke rakhna
Mehndi laga rakhna, doli saja ke rakhna
Lene tujhe o gori, aayenge tere sajna
Mehndi laga rakhna, doli saja ke rakhna
اب کی بار لڑکے بھی ڈانس کر رہے تھے جو مشاء کے کزن تھے سب کو ایسے دیکھ کے وہ خوش ہو رہی تھی سب خوش تھے
mehndi la ke gehne pake
Gehne pake hay roke too sabko rulake
Savere tu jayegi tu bada yaad aayegi
Tu bada yaad aayegi yaad aayegi
mehndi la ke gehne pake
Gehne pake hay
اب غشاء بیگم مشاء کے گلے لگ کے رو رہی تھی مشاء کے لیے بھی اپنا گھر چھوڑنا آسان نہ تا بےشک یہ وہ گھر نہ تھا جہاں وہ پیدا ہوئ تھی کیونکہ وہ گھر تو جمال صاحب نے ھریرہ بیگم کے جانے کے بعد چھوڑ دیا تھا مگر اس گھر سے بہت ساری یادیں وابستہ تھیں جنہیں وہ کبھی نہیں چھوڑ سکتی تھی
Sab ke dil ki saare ghar ki yeh raaniya hai
Yeh chidiya ek din phur se udjaaniya hai
Koi inka haath na chhode koi inka dil na tode
Tey saache rab diya meherbaaniya hai
Yeh betiya toh baabul ki raaniya hai
Mithi mithi pyaari pyaari yeh kahaniya hai
Kahaniya hai kahaniya hai
اب کی بار گانا جمال صاحب نے گایا مشاء انکے گلے لگ کے رورہی تھی دونوں باپ بیٹی پہ پیار ہی ایسا تھا وہ دونوں ہی ایک دوسرے کیلیے سب کچھ تھے
Balle balle..
Ho balle balle nache hai ye bawra jiya
Balle balle le jayega sanwra piya
Jale jale naino mein jaise pyar ka diya
Ballay ballay nache hai ye bawre jiya
Ballay ballay le jayega sanwra piya
Jee bhar ke aaj naach le
Aa saari raat naach le
Sharmana chhod naach le
Naach le.. oye, oye!
Chahne lage dil jise ussi pe addh jaaye
Door na rahe yaar se aankh jab lad jaaye
Ho jahan bhi ho raasta wahin ko mud jaaye
Koi pyaar ka raag sa badan mein chhid jaaye
Khwaab aankhon mein sajayega piya ke sang re
Gin gin gin gin ke ab din aaye wo piya ke sang
O balle balle..
O balle balle nache hai ye bawra jiya
Balle balle le jayega sanwra piya
Jale jale naino mein jaise pyar ka diya
Ballay ballay naache hai ye bawre jiya
Ballay ballay le jayega sanwra piya
Phoolon si meheke teri zindagi bahaar ho
Dheeron wafaein mile pyaar beshumaar ho
Laage nazar na iss jode ko kisi ki
Kaisa sama hai ye aanshu bhi hai khushi bhi
Lo nayi duniya basane ko piya ke sang re
* apne ghar jaane ko piya ke sang
O balle balle..
Balle balle nache hai ye bawre jiya
Balle balle le jayega sanwra piya
Jale jale naino mein jaise pyar ka diya
Ballay ballay naache hai ye bawra jiya
Ballay ballay le jayega sanwra piya
Ballay ballay naache hai ye bawra jiya
Ballay ballay le jayega sanwra piya
اب سب نے ڈانس کیا تھا اور ہنستے روتے مشاء کی مہندی کا اختتام ہوا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دوسری طرف احمد کے گھر میں بھی کچھ کم ہنگامہ نہ تھا احمد کے سارے کزنز نے خوب ڈانس اور فاۂرنگ کی تھی اور دونوں کی مہندی خیر سے اختتام پزیر ہوئ
________
اگلا دن بھی تیاریوں میں گزرا دونوں گھروں میں تیاریاں عروج پہ تھی زوبی کو جب پتہ چلا کہ مشاء کی شادی احمد سے ہورہی ہے تو وہ غصے میں پاگل ہوگیا نہیں ایسا نہیں ہوسکتا جسے پانے کیلیے جسے حصل کرنے کیلیے میں نے محنت کی اپنا سب کچھ ختم کردیا وہ کسی اور کی ہوجاۓ ایسا نہیں ہوسکتا کبھی نہیں اسنے سامنے رکھا گلاس زور سے توڑا احمد کرلو شدی مگر مشاء میری ہے میری تھی میری رہے گی گزار لے کچھ دن ہنسی کے اپنے اور زوبی کے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ نمودار ہوئ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج کا دن بہت مصروف تھا آج احمد اور مشاء کی بارات اور نکاح تھا جمال صاحب تو بہت دکھی تھی ساتھ خوش بھی ساتھ تکلیف میں بھی تھی وہ خوش تھے انکی بیٹی کیی شادی ہو رہی تھی اورر وہ شخص بھی انکی بیٹی کو بے انتہا چجاہتا تھا اسکا اندازہ انہیں ہوگیا مگر وہ ایسے گھر میں جا رہی تھی جہاں جب سب اسکے دشمن ہی تھے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ارے بھائ مشاء کو پارلر سے لینے جانا ہے آپ جلدی چلیں جاۓ اور اسے لیں کے آجاۓ بارات آجاۓ گی ویسے ہی دیر ہوگئ ہے ہاں عشاء جا رہا ہوں بسسس ایک منٹ رک جاؤ ٹھیک ہے بھائ
جمال صاحب مشاء کو لینے پارلر گۓ تھے پارلر سے نکال کر اس نے راستہ خاموشی سے طے کیا اس میں بولنے کی ہمت نہ تھی گھر پہنچ کر عشاء بیگم نے اسے پیچھے والے دروازے سے اسکے کمرے میں بھیجا مشاء جب تک بارات نہیں آتی آرام کرلو کچھ چاہیے ہو تو مجھے بلوالینا عشاء بیگم دروازہ بند کرتی ہوئ چلی گئ وہ جا کے اپنے بیڈ پہ بیٹھ گئ اسے ہر وہ لمحہ یاد آرہا تھا جو اسنے اس گھر میں گزارہ اسکا اپنے بابا کے ساتھ ہنسنا رونا کھیلنا سونا سب کچھ اسکی اس گھر میں اچھی بری سب یادیں تھی اور یہ یادیں اسکے لیے بہت انمول تھی انسان کی یادیں ہی اسکا بہترین دوست ہوتی ہے آج وہ یہ کمرہ آخری بار دیکھ رہی تھی اسکے بعد نہ یہ کمرہ اسکا تھا نہ یہ گھر۔۔۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عشاء بیگم دروازہ کھول کے اندر آئی مشاء بارات آگئ ہے انہوں نے مشاء کی طرف دیکھا جو کچھ اور ہی سوچ رہی تھی ہنہوں نے مشاء کو ہلایا وہ ایک دم چونک کے پیچھے پلٹی مشاء میری جان میں جانتی ہوں یہ گھر چھوڑ کے جانا تمہارے لیے آسان نہیں ہے مگر جانا سبکو ہوتا ہے وہاں ایڈجسٹ ہونا پڑے گا تمہیں بہت سی قربانیاں دینی پڑے گا میں تمہیں لینے آئ ہوں بارات آچکی ہے جی پھپھو اور پیچھے ہی اسکی کزنوں کا پورا گروپ اندر آیا چلو مشاء احمد بھائ تمہیں یاد کر رہے ہونگے ارے تم لوگ اسے کے آؤ میں ہال میں لوگوں سے مل لوں جب تک
٭٭٭٭٭٭٭٭
مشاء کی کزنز اسے لے کے آ رہی تھی ہلکی آورز میںن بجتا یہ گانا
Dehleez pe mere dil ki
Jo rakhe hain tune kadam
Tere naam pe meri zindagi
Likh di mere humdum
بہت اچھا لگ رہا تھا اورنج اسکرٹ شرٹ اور واۂٹ لہنگے میں وہ بے حد حسین لگ رہی تھی احمد نے بھی واۂٹ شلوارقمیض کیساتھ اورنج واسکٹ پہنی ہوئ تھی جیسے ہی وہ اسٹیج پہ آئ احمد نے اپنا ہاتھ آگے کیا دونوں کی کپل بےحد حسین لگ رہی تھی ہر کوئ انہیں آنے والی زندگی کییے مبارکباد دے رہا تھا احمد کی تو خوشی کا کوئ ٹھکانہ ہی نہیں نہ تھا مشاء کے کزنز نے دونوں کو کپل ڈانس کرنے کا کہا مشاء تو منع کرتی رہی مگر احمد نے ہاتھ آگے بڑھایا تو مجبورا اسے اٹھنا پڑا دونوں نے ساتھ کپل ڈانس کیا اور انکی ہر یاد کو کیمرے میں محفوظ کرلیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تھوڑی دیر بعد کھانا شروع ہوا اور اسکے بعد وہ لمحہ جہاں ہر باپ ہمت ہار جاتا ہے مگر خود کو دوسروں کے سامنے مضبوط دکھاتا ہے مشاء جمال صاحب کے گلے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے روئ عشاء بیگم بھی روئ تھی انہوں نے مشاء کو ماں کے برابر پیار دیا تھا اپنی اولاد سمجھا تھا اسے ماں کی کمی محسوس نیں ہونے دی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ھریرہ بیگم کو بھی رونا آرہا تھا مگر انہوں نے خود کو روکا آخر وہ انہی کے گھر جا رہا تھی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مشاء کار میں بیٹھ کے میر سلطان کے گھر پہنچی جہاں پھولوں سے اسکا استقبال ہوا مگر اسے یہاں کے ہر شخص سے نفرت تھی مشاء بیٹا آؤ تمہیں اندر چھوڑ دوں ھریرہ بیگم نے اسکا ہاتھ پکڑا میں خود جا سکتی ہوں اسنے اپنا ہاتھ چھوڑاتے ہوۓ کہا ھریرہ بگم کو لگا شاید ابھی اپنے گھر سے آئ ہے جبھی ایسا رویہ ہے اسنے کمرے میں آتے ہی کپڑے change کیے نماز پڑھی اور صوفے پہ سو گئ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
احمد آدھے گھنٹے بعد کمرے میں آیا ساتھ میں necklace بھی لایا تھا تاکہ وہ مشاء کو پہناۓ بہت سے ارمان لیے وہ کمرے میں آیا وہ سمجھ رہا تھا مشاء اسکے انتظار میں بیٹھی ہوئ ہوگی مگر جب وہ اندر آیا تو وہ lawn کے کپڑوں میں صوفے پہ سو ررہی تھی چہرے پہ آنسوؤں کے نشانات واضح تھی اففففففف نا جانے یہ لڑکی ایسا کیوں کر رہی ہے mall والی بات تو نہیں ہوسکتی صبح ہی پوچھوں گا احمد نے پریشانی سے سوچا اور اسے اٹھا کے بیڈ پہ لٹایا اور خود اسکے برابر میں جا کے لیٹ گیا
_________
صبح اپنے آپ کو بیڈ پہ پا کر اسے حیرت ہوئ پھر غصہ آیا سنو اسنے احمد کو آواز دی مگر احمد سو رہا تھا احمد اسنے اب اسے ہلایا مگر وہ نہ ہلا وہ اب کپڑے چینج کرنے کیلیے اٹھی ہی تھی کہ احمد نے اسے ہاتھ پکڑ کے بٹھایا کہاں جا رہی ہو یار اور خود اسکے پاس بیٹھا ایک تو پورا گھر ہی ڈرامے باز ہے مشاء نے دل میں سوچا تمہاری ہمت کیسے ہوئ مجھے ہاتھ لگانے کی مجھ سے دور رہو سمجھے یہ شادی سمجھوتہ سمجھو تم سجھے بسسسس ایک خواہش پوری ہونے دو پھر تمہیں چھوڑ کے چلی جاؤ گی تم جیسے انسان کی زندگی ميں میری جوتی رہتی ہے وہ کہتی چلی گئ مگر احمد حیران تھا اسے کیا ہوا چھوڑ کر جانے والی بات سے وہ بہت ناراض ہوا تھا اسنے ایسا تو نہ سوچا تھا کبھی
٭٭٭٭٭٭٭٭
مشی تم اٹھ گئی میں ابھی اٹھانے ہی آرہی تھی تمہیں جمال آرہے ہیں تم تیار تو ہوجؤ ایسے حال میں دیکھ کر وہ کیا سوچیں گے ھریرہ بیگم نے پیار سے اسے کہا پہلی بات تو یہ کہ میری نام مشی نہیں مشاء ہے اور بابا کے بارے میں مجھے سب پتہ ہے وہ کیا سوچیں گے کیا نہیں آپ کو سچنے کی ضروت نہیں ہے اور آۂندہ میرا نام لیجیے مہربانی ہوگی آپکی اسنے ھریرہ بیگم کو اتنا کچھ بولا مگر ھیرہ بیگم کو برا نہیں لگا وہ تو یہی سمجھ رہی تھی کہ ابھی adjust ہونے میں ٹاۂم لگے گا
٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اپنے کمرے میں آئ اور جلدی جلدی تیار ہونے لگی لگی پنک ڈریس اور بیلو حجاب بہت خوبصورت لگ رہی تھی اور پیروں پہ بلیک نیٹ پہنی جو ہمیشہ سے اسکی عادت تھی ایک نظر آۂینے میں خود کو دیکھ کے وہ نیچے جانے لگی کہ احمد سے بری طرح ٹکرائ نظر نہیں آتا کیا احمد نے اسے بغیر دیکھے جواب دیا ہاں نہیں دکھتا تمہیں دکھتا ہے نہ بسسسس کافی ہے اسنے بس کو کھینچتے ہوۓ کہا نیچے جمال صاحب اور عشاء بیگم آۓ تھے تو وہ فورا نیچے چلی گئ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جمال صاحب اور عشاء بیگم سے ملنے کے بعد انہیں ڈاۂنگ ٹبل پہ لائ ناشتہ بھی مشاء نے لگایا تھا ھریرہ بیگم بھی بیٹھی تھی سب نے ناشتہ شروع ہی کیا تھا کہ مشاء نے ایک دم کہا ارے ایک منٹ میں نے کچھ بنایا ہے میں ابھی لائ مشاء اٹھ کے کچن کی طرف گئ تھوڑی دیر بعد احمد نیچے آیا جمال صاحب اور عشاء بیگم سے ملا مشاء کو نہ دیکھ کے تھوڑا پریشان ہوا مگر جب نظر سامنے آتی مشاء پہ پڑی تو نظر ہٹانا ہی بھول گیا وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ارے بیٹا کیا ہوا ھریرہ بیگم کی آواز پہ وہ چونکا نہیں کچھ نہیں مشاء آکر احمد کے برابر والی کرسی پہ بیٹھی بابا دیکھیں میں نے lasagna بنایا ہے آپکو پسند تھا نہ ارے مشی میرا مطلب مشاء بیٹا تم مجھے بول دیتی میں بنا دیتی تم نےفضول میں ہاتھ خراب کیے ھریرہ بیگم نے نام ٹھیک سے بول کر پیار سے کہا میں اپنے اور بابا کے کام خود کرتی ہوں اور میرے بابا کے لیے جو بھی کام میں کروں وہ کام کرنے سے میرے ہاتھ خراب نہیں ہوتے ارے آپ لوگ چھوڑیں کھانا کھاۓ ھریرہ بیگم نے جمال صاحب اور عشاء بیگم کو کہا مشاء نے سبکو کھانا نکال کے دیا احمد نے جیسے ہی lasagna کھایا اسے یقین نہ آیا کہ یہ مشاء نے بنایا ہے مشاء تم بہت اچھا کھانا بناتی ہو احمد نے دل سے تعریف کی کھانا سب کو پسند آیا مشاء اب ہم چلتے ہیں دیر ہو ہی ہے پھر ولیمے کی بھی تو تیاریاں کری ہے ٹھیک ہے بابا وہ جمال صاحب اور عشاء بیگم کے گلے لگی آج ان دونوں کا ولیمہ تھا سب بہت خوش تھے دونوں ہی حسین لگتے تھے ساتھ ہر کوئ انکی تعریف کرتا تھا اور ولیمے میں تو مشاء بہت پیاری لگ رہی تھی
_________
ریڈ میکسی اور ریڈ حجاب میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی جمال صاحب اور عشاء نے دونوں کو بہت دعاۂیں دی آبیر کی فیملی بھی آئ ہوئ تھی میر سلطان صاحب نے بھی صرف ولیمے میں شرکت کی تھی انکے اندر جمال صاحب کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی سب بہت خوش تھے ھریرہ بیگم نے بھی اپنی کچھ دوستوں کو بلایا آبیر تو مشاء کا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہی تھی ارے بسسس لڑکی اب تم کھانا کھالو کتنا بولتی ہو تم عشاء بیگم نے آبیر کو کہا جو جب سے آئ تھی مشاء کے کان کھا رہی تھی جی پھپھو بسس جا رہا ہوں اب بھی آجاۂیں نیچے اب بھی کھڑی ہوئ ہے کب سے ہاں تم جاؤ ہم آ جاۂیں گے عشاء بیگم نے آبیر کو کہا اور وہ کھانا کھانے یچے چلے گئ عشاء بیگم بھی اسٹیج سے نیچے اتر گئ
٭٭٭٭٭٭٭٭
مشاء بیٹا تم آؤ میں تمہیں اپنی دوستوں سے ملواؤں ھریرہ بیگم نے مشاء کو کہا جو احمد کے برابر خاموشی سے بیٹھی تھی نہیں مجھے کوئ شوق نہیں ہےکسی سے ملنے کا مشاء نے فورا کہا مشاء ماما کہہ رہی ہیں چلی جاؤ ھریرہ بیگم تو حیران رہ گئ تھی کیونکہ احمد نے کبھی انہیں ماما نہیں کہا تھا میں نے کہا نہ نہیں جانا تو میری مرضی مشاء نے غصے میں کہا ارے بیٹا کوئ بات نہیں تھک گئ ہوگی بچی تم دونوں بیھٹو میں کھانا بھجواتی ہوں تھوڑی دیر بعد ھریرہ بیگم کھانا لے کے آئ بیٹا یہ کھا لو انہوں نے نوالہ بنا کہ مشاء طرفف کیا مجھے نہیں کھانا ارے بیٹا کھالو تھوڑا سا مشاء نے انکے ہاتھ سے نوالہ پھینکا جب کہہ دیا نہیں کھانا تو نہیں کھانا کوئ زبردستی ہے کیا آپ کے ہاتھ سے کھانا تو کیا میں زہر بھی نہ کھاؤں ہال میں صرف عشاء بیگم جمال صاحب ھریرہ بیگم احمد مشاء تھے سلطان صاحب طبیعت خراب کا بول کر چلے گۓ تھے اور ہال کے ویٹرز تھے جو ٹیبلز صاف کر رہے تھے مشاء کے چیخنے کی آواز پہ سب متوجہ ہوۓ تھے عشاء بیگم جمال صاحب بھی اسٹیج کی طرف آگۓ تھے نہ جانے کیک مص؛بت ہے آپ ایک ی انسان ہے اور آپکے کتنے چہرے ہیں آپ دوسروں پہ مسلط کیوں ہوتی ہیں آپکے وجود سے نفرت ہے مجھے سنا آپ نے نفرت اگلے ہی لمحے احمد کا ہاتھ مشاء کے گال پر پڑا توہاری ہمت کیسے ہوئ ماما کے بارے میں بکواس کرنے کی جانتی کیا ہو انکے بارے میں احمد نے ھریرہ بیگم کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے کہا ہاہاہاہاہا انکے بارے میں میں کیا جانتی ہوں وہ سب جانتی ہوں جو تم نہیں جانتے جس بچی پہ تم ترس کھاتے ہو نہ جسے یہ چھوڑ کے آئ وہ کوئ اور نہیں میں ہی ہو مشاء جمال ہاں یہ میری ہی وہ ماں ہے جو مجھے چھوڑ کے چلی گئ تھی میرے بابا کیا حال تھا وہ میں ہی جانتی ہوں مشاء بری طرح روتے ہوۓ بول رہی تھی ھریرہ بیگم سے اسکی یہ حالت دیکھی نہیں جارہا تھی مشاء جمال صاحب کے گلے لگی ہوئ تھی اور بری طرح رو رہی تھی احمد کے ہاتھ ہلکے ہلکے ھریرہ بیگم کے کندھے سے ہٹ رہے تھے عشاء بیگم مشاء کو چپ کروا رہی تھی ماما کیا یہ سچ ہیں احمد نے ھریرہ بیگم کا چہرہ ہاتھ میں تھام کر پوچھا ھریرہ بیگم نے گردن ہاں میں ہلائ احمد نے فورا اپنے ہاتھ ہٹا لیے جمال صاحب جو کب سے مشاء کو چپ کرووا رہے تھے ایک دم بولے بسسس میں اسلیے چپ تھا تاکہ میری بیٹی کا گھر خراب نا ہو مگر بس اب بہت ہوگیا میں مشاء کو لے کے یہاں سے جارہا ہوں بس جمال صاحب ابھی مشاء کو گلے سے لگاۓ مڑے ہی تھے کہ احمد نے انہیں روکا بابا پلز ایسے نہ کریں پلز بابا میں مغاء کے بغیر مر جاؤں گا میں ہاتھ جوڑتا ہوں آپکے آگے یہ تمہیں ہاتھ اٹھانے سے پہلے سوچنا تھا مشاء پہ میں نے کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا پھر تم نے کیسے خیر تم سے بات کرنا فضول ہے مشاء پلز تم تو بولو نہ انکل کو پلز مشاء میں نے جان کر کچھ نہیں کیا احمد سے بول رہا تھا مگر وہ تو جیسےزندہ مردہ بن گئ تھی اور جمال صاحب سے ٹیک لگاۓ انکے سہارے کھڑی تھی سارے سہارے تو اسکے لیے آج ختم نہیں مر گۓ تھے ایک باپ ہی سچا ہوتا ہے جو ہر مشکل میں کام آتا ہے احمد نے آگے بڑھ کر مشاء کو گلے لگایا وہ تو بلکل بےجان ہوچکی تھی مشاء مشاء تم ایسے تو کبھی نہیں کرتی ہو تم مجھ پہ غصہ کرلو مجھے ایک کے بجاۓ دو تھھپڑ مار لو مگر ایسے نہ جانا پلز مشاء کوئ نہیں ججانتا مگر تمم تو جانتی ہوو نہ تمہارہ احمد تم سے کتنا پیارکرتا ہے وہ مشاء کو خود سے لگاۓ بول رہا تھا بسسسس یہہ ڈدررامے کہیں اور کرنا جمال صاحب غصے میں ڈھارے اورر مشاء کو لے کر چلے گۓ
٭٭٭٭٭٭٭٭
آپ کی وجہ سے سب ہوا ہے آپ نے مشاء کو مجھ سے الگ کیا ہے مشاء اور میری زندگی تو اب شروع ہوئ تھی آج وہ لال لباس میں حون کے آنسو بہا رہی تھی صرف آپکی وجہ سے آپ تو قاتل ہے آپ میری خوشیوں کی قاتل ہے آج ہی میں نےآپ کو ماں بولا تھا مگر آپ نے ثابت کردیا سگی ماں ہی ہمدرد ہوتی ہے مگر آپ تو وہ بھی نہیں تھی احمد روتے ہوۓ ھریرہ بیگم کو بول رہا تھا احمد بیٹا سنو تو بسسسس چلی جاۂیں آپ یہاں سے خدا کیلیے مگر احمد ٹھیک ہے مت جاۓ میں جا رہا ہوں احمد باہر کی طرف گیا ھریرہ بیگم اسکے پیچھے گئ مگر وہ جا چکا تھا ھریرہ بیگم وہی بیٹھ کے رونے لگ گئ وہ سبکی گنہگار تھی
٭٭٭٭٭٭٭٭
سنسان سڑک پہ لا کر اسنے گاڑی روک دی اور سیٹ سے سر لگا کے بیٹھ گیا مشاء مجھے معاف کردو پلز مشاء تتم مجھھ سے لڑ لیتی مگر ایسے نہ جاتی مشاء واپس آجاؤ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ بری طرح سے کوئ چیز گاڑی پہ گری گاڑی کے شیشے لال ہوگۓ تھے احمد نے آنکھیں کھولی تو سامنےے کے شیشے لال تھے وہ گھبرا کر نیچے اترا تو وہ بلکل پاگل ہوگیا کیونکہ سامنے۔۔
اسکی گاڑی کے سامنے مشاء تھی احمد ایک لمحے کیلیے ساکت ہوگیا تھا اسے لگ رہا تھا وہ مر گیا ہے جمال صاحب کی آواز پہ وہ ہوش میں آیا مشاء جمال صاحب چلاۓ جمال صاحب کے ہاتھوں میں مشاء کا چہرہ تھا اسکے سر سے خون بری طرح بہہ رہا تھا احمد نے مشاء کا سر اپنی گود میں رکھا مشاء۔۔۔۔۔ اور بہت پیار سے اسے آواز دی مشاء اٹھ جاؤ نہ یار جلدی سے خبردار جو میری بیٹی کا نام بھی لیا اپنے منہ سے یہ تمہاری وجہ سے ہوا نہ تم اس پہ ہاتھ اٹھاتے اور نہ وہ اس بات کا صدمہ لیتی اگر میری بیٹی کو کچھ ہوا نہ تو میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا یہ کہتے ہی انہوں نے مشاء کا ہاتھ پکڑا انکل مشاء کو کار میں بٹھاۓ انکل آپ بعد میں بول لیجیے گا جوآپکو بولنا ہے پلز انکل احمد نے جلدی سے مشاء کو کار میں لٹایا مششاء کے سر سے خون بی طرح بہہ رہا تھا احمد کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے وہ ٹوٹ گیا تھا مشاء اسکی وجہ سے ہی وہ اس حال میں تھی تھوڑی ہی دیر میں وہ قریبی ہسپٹل پہنچے ڈاکٹر نے فورا مشاء کو ایمرجینسی میں ایڈمٹ کیا اسکی حالت بہت نازک تھی ڈااکٹر فورا آپریشن کیلیے لے گۓڈاکٹر نے پہلے ہی کہہ دیا تھا اگر مشاء کو کوئ چیز بچا سکتی ہے تو وہ صرف دعاۂیں ہے سب ہمت ہار چکے تھے جمال صاحب کو اپنا سب کچھ پھر سے ختم ہوتا نظر آ رہا تھا عشاء بیگم کے اندر اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ ایک اور اپنے کو کھوۓ احمد کا تو سب کچھ برباد ہو رہا تھا اسکی ماں کی غلطیوں کی سزا اسے مل رہی تھی آپریشن تھیٹر سے ڈاکٹر باہر آۓ سب ڈاکٹر کی جانب بڑھے ڈاکٹر میری بیٹی کیسی ہے جمال صاحب نے ڈاکٹر سے پوچھا سب نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا جی دیکھیں میں جھوٹ نہیں بولوں گا اور آپ لوگوں کو جھوٹی آس بھی نہیں دونگا پیشنٹ کی طبیعت بہت خراب ہے انہوں نے کسی بات کا صدمہ تھا اور اوپر سے یہ ایکسیڈینٹ انکا nervous system break down ہو چکا ہے انکے بچنے کے ٪30 chances ہہے آپ لوگ دعا کیجیے ڈاکٹر تو اپنی بات کہہ کر چلے گۓ مگر جمال صاحب عشاء بیگم اور احمد تو بلکل ختم ہوتے جا رہے تھے عشاء بیگم اور جمال صاحب کو تو احمد نے گھر بھیج دیا تھا زبردستی کرکے مگر خود کسی لمححے اسے قرار نہ تھا ڈاکٹر نے اندر جانے سے بھی منع کیا تھا نہ جانے رات کے کس پہر اسکی آنکھ لگ گئ ڈاکٹر نے اسے ہلایا تو اسے ہلایا تو فورا اٹھ گیا جی پیشنٹ کسی احمد کو بلا رہی ہیں آپ اندر جا جاسکتے ہیں مگر آدھے گھنٹے کیلیے اور پیشنٹ ڈسٹرب نہ ہو اس بات کا خیال رکھیۓ گا جی شکریہ اور وہ بنا لمحے ضاۂع کیے اندر گیا مشاء کو ایسی حالت میں دیکھ کر وہ حیران رہ گیا وہ اسی کی وجہ سے اس حال میں تھی سفید رنگت زرد رنگت میں تبدیل ہوگئ تھی گلابی ہونٹ اپنی خوبصورتی کھو رہے تھے احمد میں جھوٹی نہیں ہو میں نے کچھ غلط نہیں کیا مشاء کی آواز اٹکتے ہوۓ آرہی تھی آکسیجن ماسک اسکے منہ پہ تھا اور وہ مشینوں میں جکڑی ہوئ تھی مشاء تم نے کچھ نہیں کیا میری غلطی ہے تم ایک بار اٹھ کے مجھ سے بات تو کرو تو نے سب کو پریشان کیا ہے اب اٹھ جاؤ مگر مشاء اسکی نہیں سن رہی تھی ابھی احمد واپس جانے کیلیے مڑا ہی تھا کہ
_________
بھی احمد واپس جانے کیلیے مڑا ہی تھا کہ مشاء نے اسکا ہاتھ پکڑا اححححمد مشاء نے اٹکتے ہوۓ اسکا نام لیا احمد فورا پیچھے مڑا مشاء کے منہ سے اپنا نام سن کے اسکی جان واپس آگئ تھی ہاں مشاء بولو دیکھو میں ہی ہوں احمد مشاء آنکھیں کھولو مگر وہ واپس آنکھیں بند کر چکی تھی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭