لڈوک جاہن
مرکزی کردار لڈوک جاہن ہے، لیکن ملن کنڈیرا کے ناول ’’مذاق‘‘ (۱۹۶۷ء) کے چار زاویے یا دوسرے لفظوں میں چار رخ (perspectives) ہیں۔ ایک کا تعلق لڈوک جاہن سے ہے۔ باقی تین کا تعلق ان تین افراد سے ہے جن سے وہ تعلق وابستہ کرتا ہے۔ ایک ہیلینا جس کو اپنے انتقام کا نشانہ بناتا ہے۔ دوسرا کوسٹکا عقیدت مند عیسائی اور تیسرا جارو سلاف موراوا کا قوم پرست اور لڈوک کا بچپن کا دوست اور ہم جماعت۔
اس کتاب کو طنزیہ قرار دیا گیا ہے۔ اسٹالن کے عہد کی چیک کمیونسٹ پارٹی کی شخصی آزادی کو سلب کرنے والی حکومت اس طنز کا ہدف ہے۔
اس کتاب میں جس کا نام ’’مذاق‘‘ ہے، حقیقت میں مذاق کم ہے اور اگر ہے بھی تو مذاق در مذاق در مذاق۔ مذاق کا ایک سلسلہ سا ہے جس کا مزاج سنجیدہ، گمبھیر اور الم ناک ہے۔ زمان و مکاں کی جبریت نے اس ناول کو ایک ادبی شاہ کار کا روپ دے دیا ہے۔
اس ناول ’مذاق‘ کے ساتھ ایک ’مذاق‘ کا ہونا فطری امر ہے اور وہ مذاق یہ ہے کہ اس ناول کو ملن کنڈیرا کے اوّلین ناول کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔ خواہ پڑھنے والا عام قاری ہو یا کوئی مبصر، ناقد یا ادب کا پاریکھ۔
یہ ناول ایسا نہیں کہ اسے کسی نئے ناول نگار کی پہلی کوشش کہا جائے اور ہوا بھی یہی کہ فکشن کی دنیا میں اس ناول نے وہ مقام حاصل کرلیا جو اس کا حق تھا اور ہے۔
اس ناول کے کردار لڈوک جاہن کی شناخت یہ ہے کہ وہ ناول کے ان حصوں میں بھی موجود ہے جن میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یوں بھی سات حصوں پر مشتمل اس ناول کے تین حصوں کو صرف اس کے نام مختص رکھا گیا ہے۔ یہ تین حصے ہیں: (۱) پہلا حصہ، (۲) تیسرا حصہ، (۳) پانچواں حصہ۔ متذکرہ حصوں کے علاوہ ناول کے ساتویں اور آخری حصے میں بھی دیگر کرداروں کے ساتھ لڈوک جاہن موجود ملتا ہے۔
لڈوک جاہن ناول کا مرکزی کردار پراگ کی ایک یونی ورسٹی کے ایک فعال طالبِ علم کے روپ میں قارئین کے سامنے آتا ہے۔ اس کا تعلق موراویا کے جنوب میں واقع ایک چھوٹے سے شہر سے ہے۔ چھوٹے شہروں کے لڑکے بہرطور چھوٹے شہر کے لڑکے ہوتے ہیں۔ ان کو الٹ پلٹ کر دیکھو تو ظاہر میں کیسے ہی تیز و طرار بنیں، لیکن اندر ہوتے ہیں سادہ لوح، دہقانی۔ پراگ شہر کی چکاچوند بہت جلد لڈوک جاہن پر اثر انداز ہوئی اور اس نے فوری طور پر اپنی ایک ساتھی لڑکی سے دوستی کرلی۔ لڑکی مارکٹا تھی تو قبول صورت، پڑھائی میں بھی اچھی، لیکن وہ تھی پیدائشی سادہ لوح (naive)۔ اس کے ساتھی طلبہ اس کی اس خصوصیت سے آگاہ ہوچکے تھے اور اس کو تختۂ مشق بناکر مزے لیتے تھے۔ لڈوک جاہن بھی ان شرارتوں میں شریک ہوتا تھا۔ ایک اور لڑکا پے ول زمانک جو قدرے خود غرض، موقع پرست اور خود نمائی کا شوقین تھا، مارکٹا کو بیوقوف بنانے کی مہمات میں سب کے ساتھ گھل مل جاتا تھا۔ ان چھوٹی بڑی مہمات میں ایک بات سب کے لیے زیادہ حیرانی اور لطف کا باعث بنی۔ کچھ لڑکوں نے کسی فرصت کے وقفے کے دوران یہ گپ ہانکی کہ بونے حقیقت میں ہوتے ہیں، محض خیالی اور داستانی مخلوق نہیں۔ ان کا رہن عام انسانوں سے خاصا مختلف ہوتا ہے۔ وہ جتھوں کی صورت میں باہم مل جل کر رہتے ہیں۔ ساتھ کھاتے، پیتے اور سوتے ہیں۔ ان کے سونے کا انداز عام انسانوں سے قدرے مختلف ہوتا ہے۔ مرد، عورت ایک دوسرے کے پہلو میں لیٹنے کے بجائے ایک دوسرے کے اوپر لیٹتے ہیں۔ ان بونوں کی ایک خصوصیت اور ہے، وہ جنسی ملاپ کے معاملے میں انسانوں سے بہت بڑھ چڑھ کر ہوتے ہیں۔ ان کی اس غیر معمولی خصوصیت کی وجہ سے بوڑھی ہوتی ہوئی رئیس عورتیں ان کو ملازم رکھتی ہیں۔ کبڑوں کے بارے میں اس گپ بازی کو سب ہی جان گئے کہ بے پر کی اڑائی جارہی ہے، لیکن مارکٹا نے اس گپ کو سنجیدگی سے سنا اور یقین بھی کرلیا۔ مارکٹا جیسی بھی تھی، لیکن پارٹی سے اس کی وفاداری عقیدت کی حد کو چھوتی تھی۔ وہ زبردست چیک قوم پرست اور انتہائی مخلص کمیونسٹ تھی۔
مارکٹا کی شخصیت کا سہ رخی (three dimensional) مطالعہ اس طرح سامنے آتا ہے: (۱) چیک قوم پرست، (۲) کمیونسٹ پارٹی پرست اور (۳) جولیس فیوکک کو اپنی آدرشی شخصیت بنانے کی وجہ سے کٹر رجائیت پسند اور قنوطیت مخالف۔ وہ زمانہ تھا ۵۰-۱۹۴۸ء کا۔ کمیونسٹ اقتدار پر قبضہ کرنے کے نشے میں سرشار تھے۔ ٹروٹسکی کا آفتاب رو بہ زوال تھا اور اسٹالن کا رو بہ عروج۔ ان وقتوں میں ڈاک خانے کے سنسر کے شعبے میں ایک پوسٹ کارڈ گرفت میں آتا ہے۔ لکھنے والے کا نام لڈوک جاہن اور لکھا گیا ہوتا ہے مارکٹا کے نام۔ مذکورہ پوسٹ کارڈ پر انتہائی مختصر تحریر تھی۔ لکھا تھا:
Optimism is the opium of the people!
A healthy atmosphere stinks of stupidity!
Long live Trotsky!
محکمۂ ڈاک کے سنسر والوں نے اس پوسٹ کارڈ کو یقینی طور پر اس لیے اہمیت دی کہ:
۱۔ اس کے پہلے فقرے میں کارل مارکس کے مشہور و معروف فقرے میں تحریف کی گئی تھی۔ کارل مارکس کا مذکورہ فقرہ درج ذیل ہے:
’’مذہب عوام کی افیون (افیم- Opium) ہے۔‘‘
۲۔ کارڈ میں درج شدہ دوسرا فقرہ مشاہدۂ حیات کے برخلاف تھا۔ لکھا تھا:
’’صحت افزا فضا حماقت آلود ہوتی ہے۔‘‘
۳۔ تیسرا فقرہ سیاست اساس ہونے کے علاوہ اس عہد کے سیاسی مزاج کے برخلاف تھا۔ وہ دور اسٹالنزم کا تھا اور ٹروٹسکی کا نام لے کر زندہ باد لکھا گیا تھا۔ الفاظ یوں تھے:
’’زندہ باد ٹروٹسکی!‘‘
اس کارڈ پر لکھی ہوئی تحریر پہلی ہی نظر میں قابلِ گرفت معلوم ہوتی تھی۔ چناںچہ اس کا عکس سنسر حکام نے پارٹی کے مقتدرین کے ملاحظے کے لیے روانہ کردیا اور پوسٹ کارڈ مارکٹا کو ڈیلیور کردیا۔ مارکٹا کو بھی پوسٹ کارڈ پر درج فقرے قطعی پسند نہ آئے۔ پارٹی کے مقتدرین نے پوسٹ کارڈ کو تادیبی کاروائی کے لائق گردانا۔ لڈوک جاہن سے فوراً اس کا آفس واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا، یونی ورسٹی سے برخاست کردیا گیا، پارٹی سے خارج کردیا گیا اور اوسٹراوا کے علاقے کی کانوں میں مزدوری کی سزا بھی دی گئی۔
اس پوسٹ کارڈ کے بارے میں لڈوک جاہن کا مؤقف یہ تھا کہ اس نے مارکٹا سے محض ایک ’مذاق‘ کیا تھا۔ وہ مارکٹا کو ذہنی طور پر دق کرنا اور سوچوں میں مبتلا کرنا چاہتا تھا۔ اس کو پوسٹ کارڈ اور اس پر درج شدہ تحریر میں کچھ بھی قابلِ گرفت محسوس نہیں ہورہا تھا۔ لڈوک جاہن نے اپنے ایک دوست سے مشورہ کیا اور اس دوست نے لڈوک جاہن کو مشورہ دیا کہ وہ پے ول زمانک سے ملے، کیوںکہ ان دنوں وہی کسی ایسے معاملے میں ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ اس موقعے پر لڈوک جاہن کو یاد آیا کہ پے ول زمانک بھی مارکٹا کو بیوقوف بنانے میں حصہ لیتا تھا۔ خاص طور پر ’بونوں‘ والی گپ میں پے ول زمانک بھی لڈوک جاہن اور دیگر طلبہ کے ساتھ شریک تھا۔ لڈوک جاہن نے اس سلسلے میں جو کچھ سوچا اور پے ول زمانک سے جو امید باندھی، ایک بھیانک خوش فہمی ثابت ہوئی۔ پے ول زمانک نے الٹا لڈوک جاہن کے معاملے کو اپنے آپ کو اوپر اٹھانے کے لیے مفید پایا اور اس کے خلاف مدلل تقریر کر ڈالی۔ ہال میں بیٹھے ہوئے حاضرین میں سے کسی ایک نے بھی لڈوک جاہن کی حمایت میں کچھ بولنا مناسب نہیں سمجھا۔
مارکٹا نے لڈوک جاہن کو مجرم گردانتے ہوئے یہ یقین دلایا کہ وہ لڈوک جاہن سے تعلق ترک نہیں کرے گی۔ لڈوک جاہن کو یہ تجویز پسند نہیں آئی، جب کہ وہ اندر سے مارکٹا سے جسمانی تعلق کے لیے بے چین تھا۔ لڈوک جاہن اس دوران اور اس کے بعد بھی جب بھی موقع میسر آیا ہر کسی کے سامنے اپنی بریت ثابت کرنے کی کوشش کرتا اور ناکام ہوتا رہا۔
اس نے جو کچھ کیا وہ صرف اس کے لیے باجواز تھا۔ اس کے اور مارکٹا کے مابین تعلقات اس مرحلے پر آچکے تھے کہ چھٹیوں میں دونوں میں جنسی روابط قائم ہونا لازمی امر تھا۔ شومیِ قسمت سے مارکٹا کو دیگر لڑکیوں کے ساتھ دیہاتی علاقے میں کام پر لگا دیا گیا۔ اس کو کام بھی پسند آیا اور ماحول بھی۔ اُس نے انتہائی رجائی جذبات میں ڈوب کر لڈوک جاہن کو خط لکھا۔ اس خط میں اس مقام، ماحول اور فضا کو انتہائی صحت بخش بھی قرار دیا۔ اس خط کو پڑھ کر لڈوک جاہن ّبھنا گیا، کیوںکہ اس کے حساب سے تو چھٹیوں کا ناس ہوگیا تھا۔ دونوں کے ردِعمل میں زبردست تضاد تھا۔ مذکورہ نزاعی پوسٹ کارڈ اسی تضاد کا شاخسانہ تھا۔ نہ تو وہ پوسٹ کارڈ سیاسی تھا، نہ پارٹی مخالف تھا (پارٹی کا وہ پکا وفادار اور پرستار تھا اور بعد میں بھی رہا)۔ ٹروٹسکی کا نام بھی محض مارکٹا کو دق کرنے کے لیے لکھ مارا تھا۔ وہ ٹروٹسکی کا کچھ بھی حمایتی نہیں رہا۔ جس صورتِ حالات کی تفصیل دی گئی اس کے تحت اس نزاعی پوسٹ کارڈ کے تینوں فقروں کے جواز کی صورت نکل آتی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ اس پر انسانی نفسیات کے نقطۂ نظر کے مطابق غور کیا جائے، لیکن ۵۰-۱۹۴۸ء کے زمانے میں اس طرح غور کیا جانا ناممکن رہا ہوگا۔
جہاں تک پارٹی کے مقتدر اکابرین کا لڈوک جاہن سے بیزار اور ناراض ہونے کا معاملہ ہے اس کا ایک اور سبب بھی سامنے آتا ہے اور وہ دوسرا سبب یہ ہے کہ ابتدائی دنوں میں کمیونسٹ پارٹی میں ایسے افراد بھی شامل تھے جو عیسائیت سے منحرف نہیں تھے، لیکن پارٹی کے سرگرم رکن بھی تھے۔ بعد میں جب پارٹی طاقت ور ہوگئی اور اس نے اقتدار پر بھی قبضہ کرلیا تو ایسے لڑکوں کو پارٹی اور یونی ورسٹی سے نکالنے کی سوچ نے جنم لیا۔ اس مرحلے پر لڈوک جاہن نے آواز اٹھائی اور اس رویے کو احسان فراموشی اور محسن کشی کے رویے سے تعبیر کیا اور ایسے لوگوں کی حمایت کی۔ ان میں سب سے پیش پیش نام کوسٹکا کا تھا۔ لڈوک جاہن ان کو پہلے سے جانتا بھی نہیں تھا، لیکن پھر بھی ان کی حمایت میں کھڑا ہوا (لڈوک جاہن کے کردار میں یہ صفت نمایاں تھی کہ وہ لوگوں کی اعانت کرنے کا جذبہ رکھتا تھا)۔ پارٹی کے مقتدر لوگوں کو لڈوک جاہن کا اس معاملے میں ٹانگ اَڑانا ناگوار گزرا اور انھوں نے کارڈ کے معاملے میں سخت سے سخت سزائیں دلوائیں۔
لڈوک مارکٹا رومان کو ملن کنڈیرا نے ایسا لگتا ہے جانتے بوجھتے رواجی مثلث نہیں بنایا۔ اگر وہ پے ول زمانک اور لڈوک جاہن کو ایک دوسرے کا رقیب بناتا تو ایسا ممکن ہوسکتا۔ بادی النظر میں یہ مثلث یوں تشکیل پاتا ہے:
پارٹی
لڈوک مارکٹا
اس مثلث کی انفرادیت یہ ہے کہ رقیبِ روسیہ یا روسپید کوئی بانکا ترچھا جوان نہیں ہے، بلکہ کمیونسٹ پارٹی ہے جو کچھ مدت قبل ہی ایک کامیاب بغاوت کے بعد برسرِ اقتدار آئی ہے اور اس سبب سے محتاط، چوکنا اور سخت گیر ہے۔ لڈوک کی محبوبہ احمق ہونے کی حد تک سیدھی ہے اور پارٹی کی وفادار ہے۔ لڈوک اپنی محبوبہ مارکٹا سے محبت کے اس مرحلے تک آپہنچا ہے کہ اس کی محبت دوستانہ رفاقت کے بجائے ’’تڑپ رہی ہے مگر لذتِ گنہ کے لیے‘‘۔
لڈوک جاہن نے تڑپ رکھتے ہوئے بھی اپنی محبوبہ مارکٹا سے جنسی تعلق قائم نہیں کیا، اگرچہ کہ اس نے یہ عندیہ دے دیا تھا کہ وہ لڈوک کو مجرم سمجھتی ہے، لیکن کسی کے بھی منع کرنے سے اس سے ملنا نہیں چھوڑے گی۔ لڈوک کا یہ اقدام آسانی سے سمجھ میں نہیں آسکتا۔ نہ ہی آئے گا۔ ضروری نہیں کہ لڈوک جاہن خود اس کو سمجھ پایا ہو۔
لڈوک کے مذاق کو مارکٹا کا نہ سمجھ پانا، لڈوک کے سمجھ میں نہیں آیا اور اس نے رابطے توڑ لیے۔ لڈوک نے اس نکتے کو قطعی اہمیت نہیں دی کہ مارکٹا، لڈوک کی جسمانی تڑپ کو سمجھ چکی تھی اور اس کے جسم کی پکار پر ’لبیک‘ بھی کہہ رہی ہے۔ یہ ساری صورتِ حال لڈوک جاہن کے ’مذاق‘ کو المیے (ٹریجڈی) میں بدلنے کے لیے ضروری، بلکہ لازمی لگتی ہے۔
جہاں تک لڈوک جاہن کا تعلق ہے کیا یہ سوچا جاسکتا ہے کہ وہ اس سزا کو یکسر فراموش کرسکتا تھا جو اس نے برسوں بھگتی اور اس کی سوچ کے مطابق— ناحق؟ اس کے اندر انتقام کی خواہش آگ کی مانند بھڑکتی چلی گئی۔ ایک ہی فرد تھا جس سے انتقام لے کر وہ اس آگ کو بجھا سکتا تھا اور وہ تھا پے ول زمانک۔
جس طرح مارکٹا کے ایک خط سے بدمزہ ہوکر لڈوک جاہن نے پوسٹ کارڈ لکھ مارا تھا اسی طرح اس نے پے ول زمانک سے انتقام لینے کا منفرد طریقہ اختیار کیا۔
انتقام کی سوچ تو شروع سے موجود تھی، لیکن اس پر عمل درآمد کرنے میں برسوں کی تاخیر واقع ہوئی اور یہ مدت اوسٹراوا میں گزری۔ وہاں کی زندگی میں کان کنی کی مشقت اور اس کے بعد ڈرل کے معمولات تھے۔ ایک اچھی بات یہ تھی کہ کان کی اجرت بھی ملتی تھی۔ لڈوک جاہن کے اکثر ساتھی ان پیسوں کو پیشہ ور عورتوں پر خرچ کرتے، لیکن وہ ایسی عورتوں سے بیزار رہتا تھا۔ اتفاق سے لڈوک جاہن کو اوسٹراوا میں ایک قدرے معصوم سی خوب صورت لڑکی ملی۔ دونوں میں دوستی کا تعلق پیدا ہوا۔ ایک اور رومان پروان چڑھا۔ اس رومان نے بھی وہی راستہ اختیار کیا ’لذتِ گنہ کی تڑپ کا راستہ‘۔ اس رومان میں بھی لڈوک کے مقابل میں کوئی رقیبِ روسیہ یا روسپید موجود نہیں تھا۔ اس کے باوجود کش مکش موجود تھی۔ اس کش مکش کا تعلق نئی محبوبہ کے ماضی سے جڑا تھا۔ وہ کم عمری میں بلڈنگ میں رہنے والے لڑکوں کے ہتھے چڑھ گئی تھی۔ لڑکے بھی کم عمر تھے۔ سب سے بڑا بیس اکیس برس کا ہوگا۔ یہ سب پکڑے گئے تھے۔ اس جنسی تجربے کے علاوہ جس کی یاد لوسی کے لیے خوش آئند نہیں تھی، گھریلو زندگی بھی اچھی نہیں گزری تھی۔ اس کا سوتیلا باپ لوسی کو مارتا پیٹتا بھی تھا۔ اس پر گھر میں چوری کرنے کا الزام بھی لگا تھا۔ ان ہی اسباب کی بنا پر لوسی نے اسکول پاس کرتے ہی گھر چھوڑ دیا اور ملازمت اختیار کرلی۔ لوسی کی عمر ان دنوں انیس برس کی تھی۔ وہ دیگر تین لڑکیوں کے ساتھ ایک ڈور میٹری میں رہتی تھی۔ دیگر لڑکیاں، لڑکوں کو بلاتی تھیں، لیکن لوسی کی تفریح صرف ایک تھی، سینما دیکھنا۔ لڈوک سے پہلی ملاقات بھی سینما گھر میں ہوئی۔ ملاقاتیں بڑھیں۔ لڈوک لوسی کو خط لکھنے لگا۔ لوسی خط نہیں لکھتی البتہ پھول پیش کرتی۔ ایک مرتبہ لڈوک نے اسے جتایا بھی کہ دستور کے مطابق پھول مرد پیش کرتے ہیں۔ حالات کا مذاق۔ لوسی قبروں سے پھول چرانے کے الزام میں پکڑی بھی جاتی ہے۔ پھر وہ دن آیا جب لڈوک، لوسی کو نزدیکی ڈپارٹمینٹل اسٹور لے گیا اور نیا لباس خریدوایا۔ لڈوک جس لوسی پر فریفتہ ہوا تھا، وہ بچیوں جیسی تھی۔ اس کے بوسے بھی خشک اور بے جسم تھے۔ جس لوسی کو وہ نئے لباسوں میں دیکھ رہا تھا، وہ ایک متناسب بدن اور دل کش پنڈلیوں والی جوان عورت تھی۔
پھر یہ اتفاق دونوں کی زندگی میں آیا کہ لوسی کے ساتھ رہنے والی دیگر لڑکیوں کو ایک ماہ کے لیے جبریہ زراعتی بریگیڈ میں بھیج دیا گیا۔ لڈوک کے بے حد اصرار پر لوسی اپنے کمرے میں لے جانے پر راضی ہوگئی، لیکن حالات نے اچانک پلٹا کھایا اور ایک کم عمر اور سخت گیر افسر اُن لوگوں پر مسلط کردیا گیا۔ لڈوک کو سنیچر کا پاس نہ مل سکا اور جیسے ہی پاس ملا وہ دوڑا، دوڑا لوسی کے پاس پہنچا۔ لوسی کے کمرے کی ساتھی لڑکیوں کی واپسی دوسرے دن متوقع تھی۔ لڈوک کو چند گھنٹوں کا وقت میسر آیا۔ لوسی کا رویہ ناقابلِ فہم تھا۔ وہ اپنے آپ کو سپرد بھی کررہی تھی اور اس سے بچ بھی رہی تھی۔ مزاحمت بھی جم کر، کررہی تھی۔ وقت گزر گیا، البتہ لوسی نے آئندہ کے لیے وعدہ کرلیا۔
افسر نے ایک ریلے ریس کا انعقاد کروایا۔ جان بوجھ کر اس ریس کو ناکام کرانے میں کان کنوں نے تھکن کا بہانہ بنایا۔ اس کے نتیجے میں دو ماہ کے لیے ان کی چھٹیاں منسوخ کردی گئیں۔ سی او کے خیال میں چھٹیوں میں کان کن اپنی صحت برباد کرلیتے ہیں۔
اس پابندی کے خلاف ایک سرگرم کارکن ہونزا نے ایک کمیٹی تشکیل دی اور باڑھ کے ایک گوشے میں تار کاٹ کر ایک راستہ بنایا گیا جس میں سے لیٹ کر باہر جایا جاسکتا تھا۔ یہ طے پایا کہ باہر جانے والے کی باری لگے گی۔ ہر روز ایک کان کن کو موقع فراہم کیا جائے گا۔ سی او کو کسی طرح اس کا پتا چل گیا۔ ہونزا اور مذکورہ کمیٹی میں شامل کارکنوں کا کورٹ مارشل ہوا اور ان سب کو جیل بھیج دیا گیا۔ سب کی چھٹیاں مزید دو ماہ کے لیے منسوخ کر دی گئیں۔ سی او نے ایک واچ ٹاور بنوا دیا۔ ایک اضافی سیکورٹی گشت کا انتظام کروادیا۔ سی او کو البتہ یہ معلوم نہ ہوا کہ باہر جانے کا راستہ بھی بنایا گیا تھا۔
جب لوسی، لڈوک سے ملنے پہنچی اور باڑھ کے تاروں کے درمیانی خلا سے دونوں نے منہ سے منہ ملایا تو لڈوک نے ہونزا کے بنائے ہوئے راستے سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرلیا۔ ایک رات لڈوک اس راستے باہر نکلا، پہلے قریبی کوٹیج میں پہنچا۔ اس میں رہائش پذیر کارکن نے سردی کا خیال کرکے شراب کے دو جام پلائے، اپنا لباس اندر سے لاکر اسے دیا تاکہ شب خوابی کے لباس میں اسے سردی نہ لگ جائے۔ اس کوٹیج کے قریب کے کوٹیج میں لوسی پہلے سے موجود تھی۔ وہاں دونوں ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔ لڈوک نے مانگے کا لباس اتار پھینکا۔ جب اس نے لوسی کے اسکرٹ کو اوپر اٹھایا تو لوسی نے سخت مزاحمت کی۔ لڈوک ننگ دھڑنگ حالات میں لوسی کی گود میں گرپڑا۔ لوسی اپنے پورے لباس میں رہی اور لڈوک کی بار بار کی کوششوں کو ناکام بناتی رہی۔ آخر میں دونوں کی یہ رومانی ملاقات لڈوک کے ایک غصّے بھرے فقرے پر اپنے ٹریجک اتمام کو پہنچی اور وہ فقرہ تھا ’دفع ہوجاؤ‘ (گیٹ آؤٹ)۔ لذتِ گناہ کے لیے تڑپتا ہوا لڈوک بہت دیر بستر پر بے لباس پڑا پچھتاتا رہا۔ لڈوک خطرات سے نمٹتا ہوا واپس اپنی معمول کی مصروفیتوں اور ایذاؤں کی دنیا میں لوٹ گیا۔
وقت نے کئی برس طے کیے۔ لڈوک رہا ہوا اور تھوڑا بہت نام ور بھی ہوگیا۔ اس حد تک کہ ریڈیو کے محکمے میں ملازم، پے ول زمانک کی بیوی ہیلینا زمانک اس سے انٹرویو لینے پر مامور ہوئی۔ لڈوک نے اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پے ول زمانک سے انتقام لینے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ ہیلینا کو بے آبرو کرے۔ لڈوک نے بڑی گہما گہمی سے اس بے آبرو کرنے کے فرض کو انجام دیا، لیکن وقت نے، حالات نے شومیِ قسمت نے یا قدرت نے ایک بار پھر اس کے ساتھ مذاق کیا۔ بعد میں یہ راز کھلا کہ پے ول زمانک اور ہیلینا تین برسوں سے ایک ساتھ رہ تو رہے تھے، لیکن محض دکھاوے کے طور پر۔ پے ول زمانک نے اپنی ایک جواں سال شاگرد سے روابط استوار کرلیے تھے۔ ہیلینا اور لڈوک کو قریب دیکھ کر اس نے خوشی کا اظہار کیا تھا اپنے رویے سے۔ ایسا رویہ جو لڈوک پر قہر بن کر ٹوٹا تھا۔
دوسری جانب ہیلینا جو لڈوک کو اپنا جسم دے کر پھولی نہیں سما رہی تھی، یہ جان کر کہ لڈوک اسے پسند نہیں کرتا ہے خودکشی کی کوشش میں اپنے کم عمر اسسٹنٹ کے سامان سے گولیوں کی ایک پوری شیشی حلق میں انڈیل لیتی ہے اور ایک تحریر لڈوک کو روانہ کرتی ہے۔ اس تحریر کو پڑھ کر لڈوک ہیلینا کی تلاش میں دوڑتا پھرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہیلینا کا اسسٹنٹ بھی بھاگتا پھرتا ہے۔ اس بھاگ دوڑ کا انجام یوں ہوتا ہے کہ ہیلینا کسی بیرونی بیت الخلا میں پائی جاتی ہے۔ لڈوک جاہن کے انتقام اور بدلہ لینے کی لگن کا انجام اس درجہ مضحکہ خیز ہوتا ہے کہ کوئی کوئی قاری ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوجائے۔
اس سارے وقوعے یا واقعات کے مجموعے پر غور کیا جائے تو لڈوک جاہن کی شخصیت اور کردار کی جو تصویر تشکیل پاتی ہے وہ کچھ ایسی ہے کہ وہ انسانیت کی اعلیٰ اقدار کا حامل ہے۔ وہ خیر ہے اور شر سے رشتہ جوڑنا اس کے بس کی بات نہیں۔ گھر میں، گھر سے باہر اپنی جاے پیدائش موراویا، موراویا کے لوگوں میں، پراگ یونی ورسٹی اور اس کے ماحول میں، کمیونسٹ پارٹی کے اراکین سے تعلقات، میل جول کے معاملات میں، کان کنی کی سزا کاٹنے کے ماحول میں وہ حق کا حمایتی، راست گو ہونے کے علاوہ صلح جو انسان ثابت ہوتا ہے۔ انسان ثابت ہوتا ہے، فرشتہ ثابت نہیں ہوتا ہے۔ چوںکہ وہ بنا ہی انسانی ہم دردی کے دودھ سے (milk of human kindness)، انتقام لینا اسے آتا ہی نہیں۔ اس کی جگہ کوئی دوسرا آدمی پے ول زمانک کو براہِ راست گزند پہنچا کر تباہ و برباد کرکے یا شاید اس کی جان لے کر اپنے انتقام کی آگ سرد کرتا۔ جب اس کو اپنے دشمن پے ول زمانک کی بیوی کی وہ تحریر ملتی ہے جس میں وہ خودکشی کا ارادہ ظاہر کرتی ہے تو اس کی بھاگ دوڑ حتیٰ کہ ہیلینا زمانک کے اسسٹنٹ کے گھونسوں کی مار اور بدتمیزی کو نظر انداز کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ہیلینا کی موت کسی صورت گوارا نہیں کرسکتا، جب کہ وہ اس کے کٹر دشمن کی بیوی کے علاوہ اس کی اپنی کچھ بھی نہیں ہے۔
کہتے ہیں کہ آدمی کی شخصیت میں ایک نہ ایک کم زوری یا نقص ہوتا ہے جو اس کے زوال یا بربادی کا باعث بنتا ہے۔ آئیے لڈوک جاہن کی شخصیت اور کردار میں ایسے نقص کا پتا چلائیں۔ اس ضمن میں ہمیں یہ سوال کرنا پڑے گا، لڈوک جاہن نے اپنی اوّلین محبوبہ سے کیا چاہا تھا جس کے حصول میں اڑچن پیدا ہونے پر ازراہِ ’مذاق‘ ایسا پوسٹ کارڈ لکھ بھیجا جو اس کی اپنی تباہی کا باعث بنا۔ سوال کا جواب ہوگا، جسمانی جنسی ارتباط۔ اگر وہ یہ ’مذاق‘ نہ کرتا تو کیا چھٹیوں کے بعد لڈوک جاہن کو اس کی محبوبہ مارکٹا کا جسم کسی اور وقت اور موقعے پر حاصل نہ ہوتا؟ (وہ تو اس سارے فساد، ساری رسوائی کے بعد بھی مہیا ہورہا تھا) اس سوال کا جواب یہ ہے کہ دونوں کی دوستی جسمانی ارتباط کے مرحلے تک پہنچ چکی تھی۔ دونوں ہی یہ جانتے ہوں گے اور لڈوک کو تو اس کا یقینِ کامل ہوگا۔ آخر ان کا مسئلہ کیا تھا؟ تڑپ کی زیادتی اور صبر کی کمی۔ سعدی کہہ گئے ہیں:
دلے کہ عاشق و صابر بود مگر سنگ است
ز عشق تا بہ صبوری ہزار فرسنگ است
تڑپ، تاخیر اور دل کی ناصبوری بھی سمجھ میں آتی ہے، لیکن ’مذاق‘ سمجھ میں نہیں آتا۔ مذاق اس حد تک سمجھ میں آتا کہ وہ لڈوک جی اپنی حالت پر خود ہنستے، مسکراتے یا اپنے آپ کو طنز کا نشانہ بناتے۔ مانے لیتے ہیں کہ انھیں مارکٹا کو چھیڑنے کی سوجھی بقول غالب:
چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسدؔ
لیکن بند لفافے میں عرضِ احوال بھی کیا جاسکتا تھا۔ پوسٹ کارڈ کیوں بھیجا؟ کارڈ کے مضمون میں افیون کے حوالے سے کارل مارکس کو اور زندہ باد کے نعرے کے ساتھ ٹروٹسکی کو اپنے اور اپنی محبوبہ کے معاملے میں گھسیٹ لانے کی کیا ضرورت تھی۔ قطعی ضرورت نہیں تھی، لیکن کارڈ پر جب قلم رواں ہوا تو لڈوک جاہن کی اندر والی شخصیت مچل گئی اور قلم پر قابض ہوگئی اور پھر:
لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
لڈوک جاہن کی بارگاہِ خداوندی میں گزرانی ہوئی التجا بھی سنی اَن سنی ہوجاتی ہے اور کارڈ کا ’مذاق‘ پارٹی اور اسٹالنزم کے خلاف طنز و استہزا سمجھا جاتا ہے۔
لڈوک جاہن چوںکہ موقع بہ موقع اس کارڈ کی تحریر کا دفاع کرتا پایا جاتا ہے اس سے قاری اور ہم، آپ سب یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہیں کہ لڈوک جاہن یا تو بے حد سادہ لوح ہے یا بے حد خود رائے ہے۔
لڈوک جاہن نے پے ول زمانک سے انتقام لینے کے لیے ہیلینا سے جنسی ملاپ کرنے کا جو فیصلہ کیا، اس کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ لڈوک جاہن کی سوچوں میں کسی خاوند کے لیے اس کی بیوی کی آبرو کی بڑی قدر و قیمت ہے۔
لڈوک جاہن اور لوسی کے معاملے کو جانچا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ عجلت پسند ہے اور اس میں ’نہیں‘ سننے کی صلاحیت نہیں ہے۔
لڈوک جاہن کے کردار میں مندرجہ ذیل نقائص کی نشان دہی کی جاسکتی ہے:
۱۔ خود رائے۔
۲۔ ’نہیں‘ سننے کی صلاحیت کا فقدان۔
۳۔ عجلت پسندی (جلد بازی)۔
اگر ایک نقص پر انگلی رکھنی پڑے تو میں عجلت پسندی کا انتخاب کروں گا۔
ہیلینا زمانکوا (Helena Zamaneckva)
ملن کنڈیرا کے چیک زبان میں لکھے ہوئے ناول ’’زرٹ‘‘ (دی جوک/ مذاق) کی اہم نسائی کردار ہیلینا اٹھارہ برس کی عمر میں شہر پراگ پہنچی تو اسے پہلی مرتبہ اپنے زندہ ہونے کا عرفان نصیب ہوا اور وہ جینے لگی۔ اس سے پہلے وہ ملن کنڈیرا یا داستان گو کے بقول ایک چھوٹے سے قصباتی شہر کی بلڈنگ کے فلیٹ میں بورژوائی طرزِ رہائش کے تحت زندگی کو بھگتاتی تھی۔
پراگ میں وہ یونی ورسٹی، یونی ورسٹی کی ڈورمیٹری اور سب سے زیادہ رقص و نغمہ کے ایک گروپ کی گہما گہمیوں میں گم ہوکر رہ گئی۔ پڑھنا لکھنا، ڈورمیٹری میں رہائش کرنا اور رقص و نغمہ کے گروپ میں شامل ہوکر سب کے ساتھ گانا، بجانا اور کبھی کبھی پرفارم کرنا اسے بے حد پسند آیا۔ رقص و نغمہ کے گروپ میں پے ول زمانک بھی شریک تھا۔ آزادی کی سال گرہ میں دیگر رقص و نغمہ کے گروہوں کی مانند ہیلینا اور پے ول والا گروہ بھی چوک میں موجود تھا۔ ہزاروں کا مجمع تھا۔ اطالوی مزدور تحریک کا صدر تغلیاتی اسٹیج پر دیگر اکابرین کے ساتھ بیٹھا تھا۔ وہ اٹھا اور اطالوی زبان میں مجمعے کو مختصر خطاب سے نوازا۔ پھر تو مجمع جیسے جاگ اٹھا۔ نعروں، عوامی گیتوں اور تالیوں کا ایک طوفان بپا ہوگیا۔ اس موقعے پر پے ول زمانک نے موقع و محل کی مناسبت سے ایک مقبول اطالوی گیت شروع کردیا اور گروپ کے دیگر لوگوں کو اشارے کرتا رہا کہ اس کا ساتھ دیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ دیر بعد مجمعے میں موجود پچاس ہزار کے قریب لوگ پے ول کی آواز سے آواز ملا کر وہی گیت گانے لگے، اور پھر ہیلینا نے یہ بھی دیکھا کہ مزدور تحریک کا سربراہ ایک بار پھر کھڑا ہوکر اپنے ہاتھوں کی حرکات سے گیت کا جواب دینے لگا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے تھے۔
ہیلینا کا ہاتھ از خود پے ول کے ہاتھوں کی جانب بڑھا۔ پے ول نے بھی ہیلینا کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ جلسہ ختم ہوا۔ مجمع چلا گیا، لیکن دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئے۔ دونوں پرگ کے موسمِ بہار کا لطف اٹھاتے گھنٹوں ساتھ گھومتے پھرے۔
ہیلینا یا پے ول کے کرداروں کی تصویر کشی مندرجہ بالا وقوع کے بیان کے بغیر ممکن نہیں لگی، اس سبب سے یہ لکھنا پڑا۔
ہیلینا پے ول زمانک کی ہوگئی۔ شاید ہمیشہ کے لیے۔ سات سال دونوں نے ازدواجی زندگی گزاری۔ ایک بچی زینا پیدا ہوئی جو اپنے باپ پے ول سے بہت پیار کرتی ہے۔ ہیلینا بھی پے ول کے دیے ہوئے لاکٹ کو اپنے بدن سے الگ نہیںکرتی۔
شادی کے سات برس بعد جب زینا پانچ برس کی تھی پے ول زمانک نے یہ انکشاف یا اعتراف کیا کہ اس نے ہیلینا سے محبت کی شادی نہیں کی تھی، بلکہ پارٹی ڈسپلن کے تحت کی تھی۔ گویا ان سات برسوں میں ہیلینا پے ول کے لیے ناپسندیدہ اور پارٹی جبر کی نمائندہ مسلط شدہ رفیقِ حیات تھی۔
ہیلینا کی نسائی توقیر اس طرح بچ سکتی تھی کہ دونوں ایک دوسرے سے علاحدہ ہوجائیں۔ پچھلے تین برسوں سے وہ دونوں ساتھ رہ کر بھی جدا رہتے تھے۔ دو اجنبیوں کی مانند۔
ہیلینا زمانک ریڈیو کے محکمے میں کسی کلیدی عہدے پر تھی۔ اس کا رویہ محکمے کے ماتحت کارکنوں کے ساتھ سخت گیری کی حد تک تحکمانہ تھا۔ خاص طور پر وہ ریڈیو کے کسی نوجوان یا ملازم یا ملازمہ کے شادی کے بغیر رومانی/ جنسی تعلقات برداشت نہیں کرتی تھی اور فوری طور پر ملازمت سے برطرف کردیتی تھی۔ اس کی اس سخت گیری کے رویے کو لوگ بجا طور پر اس کی ازدواجی زندگی کی ناکامی کا شاخسانہ قرار دیتے تھے۔
اس کا رویہ یوں بھی پیشہ ورانہ، محکماتی اور مشینی/ میکانکی تھا۔ وہ اپنے فرائض کی ادائی میں مستعد اور باصلاحیت تھی۔ اس کو مشکل سے مشکل کام ریڈیو کے محکمے کی جانب سے دیے جاتے تھے۔ مثال کے طور پر ناول میں اس کو ’’رائڈ اوف دی کنگس‘‘ کی عوامی تقریب کو ریڈیو کے لیے کَوَر کرنے کی ذمے داری سونپی جاتی ہے جو خاصا بکھیڑے کا کام تھا۔ وہ اس کام کو بحسن و خوبی پایۂ تکمیل تک پہنچاتی ہے۔ اہم اور مشہور شخصیات سے انٹرویوز لینے کے فرائض بھی ریڈیو والوں نے ہیلینا کے سپرد کیے ہوئے تھے۔ اس دوران لڈوک جاہن ایک ابھرتے ہوئے سائنٹسٹ کے طور پر معاشرے میں اپنی جگہ بناچکا ہوتا ہے۔ جب ہیلینا زمانک اس سے انٹرویو کے لیے وقت مانگتی ہے تو اس کے ذہن میں اس کے ماضی کا تلخ ترین وقت لوٹ آتا ہے جب ہیلینا کے شوہر پے ول زمانک نے اس کو تباہی اور بربادی کی جانب دھکیلنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ ایسی بربادی جس میں جبری فوجی ملازمت اور فوجی خدمت کے طور پر کان کنی کی مشقت شامل تھی۔ یہاں میرے نزدیک قاری کے ذہن میں نطشے کے دائمی واپسی (Eternal Return) کے نظریے کا آنا لازمی ہورہا ہے۔ ملن کنڈیرا نے نطشے کے اس نظریے کو پوری طرح تسلیم نہیں کیا، لیکن پوری طرح رد بھی نہیں کیا (ملاحظہ ہو ملن کنڈیرا کا ناول اَن بیئر ایبل لائٹ نیس اوف بینگ)۔
وقت گزرا ہوا لڈوک جاہن کے ذہن میں لوٹ کر آتا ہے اور ہیلینا، ہیلینا ریڈیو محکمے والی صرف اور صرف لڈوک جاہن کے ازلی اور ابدی دشمن پے ول زمانکوا کی بیوی بن جاتی ہے۔ لڈوک جاہن اس کی وساطت سے (اس کی آبرو لوٹ کر) اپنے انتقام کی سال ہا سال سے جلتی ہوئی آگ بجھانے کا فیصلہ کر بیٹھتا ہے۔ ناول مجھ سے قاری کے لیے اس مرحلے میں داخل ہوتا ہے جس میں شومیِ قسمت یا تاریخ کا جبر ایسی صورتِ حالات کو ّمشکل کر دکھاتا ہے جس کو کثیر الجہت ’مذاق‘ یا مذاقوں کا گورکھ دھندا کہہ سکتے ہیں۔ یہ اور بات کہ بیشتر ناقدین کی رُو سے ’مذاق‘ مذاق نہیں رہتا، بلکہ طنز کی انتہائی صورت، یعنی سیٹائر میں بدل جاتا ہے۔ اس مرحلے میں ہیلینا کا کردار فعال نہیں ہوتا۔ وہ صید ہوتی ہے صیاد نہیں ہوتی، لیکن لطف کی بات تو یہ ہے کہ اس کا شکار کرنے والا شکار (صیاد) انجانے میں خود بھی شکار ہوتا ہے، شکاری نہیں ہوتا۔ اصل صیاد، شکاری غور کرنے پر آشکار ہوتا ہے۔ وہ کوئی آدمی (مرد یا عورت) نہیں ہوتا۔
ہیلینا شروع سے آخر تک حالات کے جبر، تاریخ کے جبر، قسمت کے جبر کا شکار ہوتی ہے اور بہ یک وقت مذاق در مذاق در مذاق کی زد میں آتی ہے۔ اس کی شادی مذاق، شوہر کے ساتھ رہتے ہوئے زن و شو کے تعلق سے محروم رہنا مذاق، شوہر کے بدلے میں خود انتقام کی زد میں آنا مذاق، انتقاماً محبت کا ڈھونگ رچا کر جنسی ملاپ کرنے والے سے سچ مچ دل لگا کر اپنا آپ اسے دینا مذاق، خودکشی کرنے کے لیے دھوکے سے جلاب کی گولیاں کھانا مذاق، عوامی بیت الخلا میں بیٹھے ہوئے پائے جانا مذاق، بلکہ بھیانک ترین مذاق۔ ان مذاقوں کے ماسوا ناول میں ہیلینا کے لیے ایک اور صورتِ حالات جو ناول کے انجام کے ساتھ وقوع پذیر ہونے کے لیے تیار نظر آتی ہے، وہ ہے کہ محکمۂ ریڈیو کی اس سخت گیر باس (boss) پر اس کا ایک نوجوان (اس سے چھوٹی عمر کا) ماتحت فدا ہے۔ اس حد تک کہ وہ لڈوک جاہن کو اس کے مصائب کا ذمے دار خیال کرکے گھونسے مار بیٹھتا ہے۔ جب لڈوک جاہن، ہیلینا کی تلاش میں دوڑتا پھرتا ہے تو خود بھی دیوانہ وار لڈوک جاہن کے ساتھ ساتھ دوڑتا پھرتا ہے۔
مجھ سے قاری کو یقینِ کامل ہے کہ اس نوجوان کی محبت زیادہ عرصے تک چھپی نہیں رہے گی اور جب بھی وہ کھل کر سامنے آئے گی تو اس سخت گیر ہیلینا کی بدنامی کا باعث بنے گی اور شادی میں بدل جائے گی، تو دونوں کی عمروں کا تفاوت شادی کو ناکام بنائے گا، اور اگر بفرضِ محال ہیلینا کی شادی لڈوک جاہن سے ہوئی (لڈوک جاہن احساسِ ندامت کے تحت شادی کرسکتا ہے) تو پھر ہیلینا کا نوجوان عاشق جس نے اپنے رقیب لڈوک جاہن کو پہلے ہی مارا پیٹا ہے، اس شادی کو آزار میں بدل دے گا۔
ان نقادوں کی رائے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جن کی نظروں میں ناول ’’زرٹ‘‘ (دی جوک/ مذاق) ایک کثیر الجہت تناظر کا حامل ناول ہے۔
جارو سلاف
ناول کے مرکزی کردار لڈوک جاہن کا ہم وطن، ہم علاقہ، ہم عمر، ہم مکتب، ہم مدرسہ، ہم جماعت، ہم بنچ (دونوں ایک ہی بینچ پر اسکول کی تعلیم کے دوران بیٹھتے تھے) ۔ دونوں کو جڑواں کردار بھی کہا جاسکتا ہے۔ کبھی کبھی وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے کردار دکھائی دیتے ہیں تو کبھی ایک دوسرے کے متقابل اور متضاد۔ لڈوک، جارو سلاف کے مقابلے میں بے حد زیرک، فعال اور متحرک تھا چھٹپن ہی سے۔ بقول جارو سلاف، ’’وہ (لڈوک) اپنی چھوٹی انگلی میں اتنا دماغ رکھتا تھا جتنا ہم دونوں کا ملا کر ہوگا۔‘‘
دونوں میں ایک مماثلت یا اشتراک کا عنصریہ بھی تھا کہ دونوں نصف یتیم تھے۔ جارو سلاف کی ماں اس کی ولادت کے دوران وفات پاگئی تھی۔ لڈوک کے والد کو جب لڈوک تیرہ برس کا تھا، کنسنٹریشن کیمپ لے جایا گیا تھا پھر اس کی کوئی خبر نہیں ملی تھی۔
موسیقی سے لگاؤ کے معاملے میں بھی دونوں، جارو سلاف اور لڈوک جاہن ایک دوسرے کے رفیق تھے۔ دونوں ایک ہی جاز بینڈ میں شامل تھے۔
بڑا ہوکر لڈوک جاہن گرجا سے دور ہوگیا، جب کہ جارو سلاف اپنی آخری عمر تک گرجا سے اور کیتھولک عقائد سے جڑا رہا۔
اسکول کی تعلیم ختم ہوئی تو جارو سلاف نے برنو یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ لڈوک نے پراگ کی کسی یونی ورسٹی میں نام لکھوایا۔ دونوں جدا ہوئے۔ قریباً ایک برس بعد جب وہ پراگ سے لوٹا (موسمِ گرما کی چھٹیوں میں، ۱۹۴۸ء) تو اس نے جارو سلاف سے بات چیت کرکے قائل کیا کہ ماضی سے وابستہ رہنا مناسب نہیں اور اس حقیقت کی جانب توجہ دلائی کہ اور اچھے کاموں کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی کی حکومت نے موسیقی (عوامی موسیقی) کے لیے کافی بڑی رقم مختص کی ہے۔ بالآخر جارو سلاف نے دیگر جاز گروپ کے ساتھیوں کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت کرلی۔ یہ ۱۹۴۹ء کے آغاز کا واقعہ ہے۔
جارو سلاف کو جب ’’رائڈ اوف دی کنگس‘‘ کی سالانہ رسم کی ادائی کے سلسلے میں بادشاہ کے رول کے لیے منتخب کیا گیا تو جارو سلاف نے اس کو ایک اعزاز کے طور پر قبول کیا اور عمر بھر ایک کیفیت اور سرشاری میں ڈوبا رہا۔ اسے یہ بھی بہت اچھا اقدام لگا کہ اس کے سب سے قریبی ساتھی لڈوک جاہن کو اس یادگار رائڈ میں اس کے مصاحبِ خاص کا کردار دیا گیا تھا۔ ’’رائڈ اوف دی کنگس‘‘ اس علاقے کی سب سے اہم عوامی تقریب تھی (اس نواح کے لوک کلچر، دریاے ڈینیوب کا ساحلی علاقہ)۔ لڈوک جاہن کے لیے بھی اس تقریب میں حصہ لینا ایک اعزاز سے کم نہ تھا۔
’’رائڈ اوف دی کنگس‘‘ لوک کلچر کی ان تقریبات میں شامل ہے جس کا ماضی بعید کی لوک تاریخ کے علاوہ ملک کی تاریخ کے ایسے واقعات سے تعلق ہے جن کے ڈانڈے ماقبل تاریخ عہد سے جاملتے ہیں۔ اس رائڈ کے دوران بادشاہ کی سوا ری، در در بھیک لینے کے لیے رکتی جاتی ہے۔ اس بھیک مانگنے کی رسم کو ہی لے کر آدمی پریشان ہوجاتا ہے۔ اس کی مقصدیت ہنوز غیر واضح اور ناقابلِ فہم ہے۔ ناول کے حصۂ چہارم کا جارو سلاف کے حوالے سے ایک ایسے منظر سے آغاز ہوتا ہے جس میں جارو سلاف ایک روڈ پر چل رہا ہے۔ دور و نزدیک کوئی اجتماعی کھیت نہیں۔ چاروں اور چھوٹے چھوٹے کھیت ہیں۔ وہ چلتا چلا گیا۔ اس پر ایک کیفیت طاری ہوگئی۔ وہ ایک جھاڑی کے نیچے بیٹھ گیا اور پھر لیٹ گیا۔ قاری کو یہ دکھایا گیا کہ جارو سلاف بادشاہ ہے اور دور سے آئے ہوئے گھڑ سوار دستے کے سربراہ نے جارو سلاف کو بادشاہ کے طور پر شناخت کرلیا ہے۔ یہ سب محض فلیش بیک نیریشن، پیچھے کی جانب جانے والے بیانیہ اور تکنیک سے ڈریم سیکوینس (dream sequence، خواب منظری) تکنیک میں بدل جاتا ہے۔ بادشاہ، گھڑ سوار دستہ، دریاے ڈینیوب کا ساحلی علاقہ، شاہی محل، لکڑی کی کوٹیج، درختوں کی ڈالیوں سے بنی ہوئی باڑھ، بوڑھا سیب کا درخت۔ ملکہ لاسٹا ہاتھوں میں بالٹی، برہنہ پا، گئو شالے سے آرہی ہے۔
یہاں جارو سلاف کے کردار کی یہ خصوصیت بھی سامنے آتی ہے کہ جارو سلاف ایک خواب دیکھنے والا آدمی ہے، جب کہ اس کا اسکول کا ہم جماعت اور ہم نشست اس صفت سے عاری ہے۔
جارو سلاف نہ صرف خواب دیکھتا ہے، وہ سوچتا بھی بہت ہے۔ اپنے ہر عمل سے پہلے سوچتا ہے (ماسوا بیوی سے گھریلو جھگڑوں کے)۔ لڈوک عمل کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ کچھ کرجاتا ہے پھر سوچتا ہے۔
ضلع موراوا میں عوامی کلچر جارو سلاف کی مساعی سے فروغ پارہا تھا۔ عوامی کلچر جارو سلاف کی شخصیت کا اہم ترین جز اور دوسرے لفظوں میں اس کی شناخت تھا۔ سرکاری افسروں نے عوامی کلچر کے معاملات میں جارو سلاف کو شامل کرلیا تھا۔ ’’رائڈ اوف دی کنگس‘‘ کی رسم سر پر تھی۔ اس مرتبہ کا ’’بادشاہ‘‘ چنا جاچکا تھا۔ وہ کوئی اور نہیں، جارو سلاف کا اپنا فرزند دل بند لادیمیر تھا۔ جارو سلاوف کی نظروں میں یہ ایک اعزاز کی بات تھی۔ حکومتی حلقے نے ’’رائڈ اوف دی کنگس‘‘ کے تہوار میں لادیمیر کو ’’بادشاہ‘‘ کے طور پر منتخب کرکے جارو سلاوف کی خدمات کا اعتراف کیا تھا۔ ’’اسے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ گھومنے والی کرسی پر بیٹھا تھا اور لادیمیر اس کے سامنے صوفے پر۔‘‘
لادیمیر سے بات کرنے کے دوران جارو سلاف کے ایک ہاتھ کی کہنی متوفی والد کے ہارمونیم کے ڈھکن پر تھی جو اسے بہت عزیز تھا۔ جارو سلاف کے بیٹے کے ذہن میں نہ تو ’’رائڈ اوف دی کنگس‘‘ کے تہوار کی، نہ ہی اپنے دادا کی یادگار ہارمونیم کی کوئی اہمیت تھی۔ لادیمیر کی سوچ اس کے باپ کی سوچ سے قطعی مختلف تھی۔ وہ گھوڑے پر سوار ہونے سے بھی خوف زدہ تھا۔ خاص طور پر اس حال میں کہ اس کا چہرہ زیرِنقاب ہو اور وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی نہ سکتا ہو، اور تو اور اس ساری رسم کی ادائی کے دوران، وہ کسی سے بات بھی نہ کرسکتا ہو اور نہ کسی کی بات کا جواب دے سکتا ہو۔ جارو سلاف نے اپنے بیٹے میں چیک قومیت کے جذبات کو ابھارنے کی کوشش کی۔ لادیمیر نے بظاہر ’’بادشاہ‘‘ کا کردار ادا کرنے کی ہامی بھرلی۔
لڈوک موراوا پہنچا تھا، کیوںکہ ہیلینا زمانک کو ریڈیو کے محکمے کی جانب سے وہاں آنا تھا۔ وہ ’’رائڈ اوف دی کنگس‘‘ کے تہوار کو کوَر کرنے پر متعین تھی۔
ناول کے حصۂ ہفتم میں جارو سلاف ایک بار پھر عجب سی صورتِ حالات میں سامنے آتا ہے۔ اس سے قبل ہم نے اسے ’خواب منظر‘ میں دیکھا تھا۔ دریاے ڈینیوب کے کنارے ’بادشاہ‘ کے بھیس میں۔ اس مرتبہ ملن کنڈیرا نے جارو سلاف کو خواب خرامی (dream walking) کرتے ہوئے بتایا تھا۔ یوں تو وہ بہ ظاہر خواب خرامی میں نہیں چل رہا ہے، لیکن اس کی حالت خواب میں چلنے والے کے مماثل ہے۔
’’وہ زبردست ماندگی کی زد میں تھا۔ اسے جمائیاں آرہی تھیں۔۔۔۔۔‘‘ اس کے پاس سے چند آدمی لادیمیر کے دوستوں کے لباس میں گزرے، کچھ شور مچاتے تماش بین اور پھر کوآپریٹیو کا ایک لڑکا لادیمیر کا گھوڑا لے کر گزر گیا۔ اس کے بعد کالاسیک ڈسٹرکٹ کونسل میں کلچر کا مشیر گزرا۔ وہ سیاہ سوٹ میں ملبوس تھا۔ اس کے ساتھ کوئی دل کش عورت تھی۔ وہ پراگ ریڈیو رپورٹر تھی۔
تقاریر کا سلسلہ ہوا۔ ریڈیو رپورٹر نے (اس کے جارو سلاف کے) منہ سے بھی مائک لگا دیا۔ اس نے بھی ’’رائڈ اوف دی کنگس‘‘ کے بارے میں اور لوک کلچر کے موضوع پر رسمی الفاظ بولے۔
ایک کمرے میں لادیمیر کو ’بادشاہ‘ کا لباس پہنایا جارہا تھا۔ جارو سلاف نے کمرہ کھلوانے کے لیے آواز لگائی۔ کمرے کے اندر سے اس کی بیوی لاسٹا نے جواب دیا کہ دروازہ نہیں کھولا جائے گا۔ جارو سلاف نے جب ’بادشاہ‘ کو سجا بنا گھوڑے پر سوار دیکھا تو اس سے بات کی۔ لاسٹا نے اسے بتایا کہ ’بادشاہ‘ کو کچھ بولنے کی، شام تک اجازت نہیں ہے۔ جارو سلاف اِن سے اُن سے بات کرتا پھرا۔ میلے میں لڈوک بھی نظر آیا۔ اسے جان پہچان کا ایک اور شخص ملا، کوٹیکی۔ وہ پہلے سے زیادہ بوڑھا لگا۔ اس کے ہاتھ میں لاٹھی آگئی تھی۔ باتوں میں اس نے بتایا کہ لادیمیر اس کے نواسے میلوس (Milos) کے ساتھ موٹر بائک پر کہیں گیا ہوا ہے۔ یہ سن کر جارو سلاف الجھن میں پڑگیا (’بادشاہ‘ کے لباس میں جو لڑکا گھوڑے پر سوار ہے وہ لادیمیر نہیں ہے؟)۔
بادشاہ کی سواری مکان، مکان رکتی تنگ گلیوں سے گزر رہی تھی۔ جارو سلاف نے گھوڑے پر سوار بادشاہ کی جنبشوں پر غور کیا۔ وہ اپنے بیٹے لادیمیر کی حرکات و سکنات سے بخوبی واقف تھا۔ وہ شناخت کرنے میں ناکام رہا۔ چہرہ طرح طرح کی سجاوٹی ربنوں سے ڈھانکا ہوا تھا۔
جارو سلاف کے کردار کی بنیادی خصوصیت اس کے رویے سے ہوتی ہے کہ اس نے کوٹیکی کی بات پر فوری طور پر یقین نہیں کیا۔ اس نے اپنے بیٹے لادیمیر کو عوامی کلچر اور ’’رائڈ اوف دی کنگس‘‘ کے تہوار کی اہمیت پر بہت کچھ کہا سنا تھا۔ بیٹے نے ’’بادشاہ‘‘ کا رول ادا کرنے کے لیے ہامی بھی بھرلی تھی۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اس کے بیٹے نے وعدہ خلافی کی اور کوٹیکی کے نواسے میلوس کے ساتھ کہیں اور چلا گیا۔ اگرچہ اس کے بیٹے کی عمر پندرہ برس تھی اور وہ ابھی بڑے اور سنجیدہ معاملات کو سمجھنے سے قاصر تھا پھر بھی اس سے ایسی حرکت کی توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی۔
جارو سلاف رسان سے سوچنے والا آدمی تھا۔ کسی بھی مسئلے کے تمام پہلوؤں کا تجزیہ کرنے والا آدمی تھا اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ قدرے سست سوچنے والا آدمی تھا۔ بہرحال گھوڑے پر سوار لڑکے کو شناخت کرنے میں ناکام ہوکر وہ فکر کے اس مرحلے تک آپہنچا کہ ’’بادشاہ‘‘ کو سجانے اور سنوارنے کا کام اس کی اپنی بیوی لاسٹا نے انجام دیا تھا۔ جب جارو سلاف نے اس کمرے پر آواز دی تو لاسٹا نے دروازہ نہیں کھولا تھا۔ اتنا کچھ یاد آنے پر جارو سلاف، لاسٹا کی جانب دوڑ گیا۔ لاسٹا باورچی خانے میں نوڈلس نمکا رہی تھی۔ جارو سلاف کے پوچھنے پر لاسٹا اپنے کام میں مصروف، جارو سلاف کی طرف پیٹھ کیے جلدی جلدی بولنے لگی۔ بولتی چلی گئی۔ بیٹے کے انکار کرنے پر لاسٹا نے کسی اور لڑکے کو ’’بادشاہ‘‘ کے کپڑے پہنائے تھے۔ جارو سلاف نے باورچی خانے میں توڑ پھوڑ مچائی، برتن رکابیاں فرش پر چکنا چور کردیں۔ ڈائننگ ٹیبل پلٹا دیا اور برابر کے کمرے میں وائلن لے کر بیٹھ گیا، لاسٹا کی سسکیاں سنتا رہا اور پھر وہ باہر نکل گیا اور دریاے موراوا کے کنارے لیٹ گیا۔ جب بھی کسی الجھن میں ہوتا وہ قدرت کی آغوش میں پناہ لیتا تھا۔
جارو سلاف کے کردار کی یہ خصوصیت بھی قابلِ ذکر ہے۔
لڈوک جاہن بھی اکثر اسی مقام پر ٹہلنے کا عادی تھا۔ چناںچہ دونوں وہاں آملتے ہیں۔ یہ طے پاتا ہے کہ جارو سلاف کے ساتھ لڈوک بھی اس شام چار بجے منعقد ہونے والی محفلِ موسیقی میں شریک ہوگا۔
جارو سلاف، لڈوک کو ساتھ لے کر اوپن ایئر ریستوراں میں پہنچا جہاں موسیقی کا مظاہرہ ہونے جارہا تھا (اتفاق کی بات کہ یہ اوپن ایئر ریستوراں وہی تھا جہاں ہیلینا کا پرچہ لڈوک کو ملا تھا)۔ وہاں پہنچ کر جارو سلاف نے لڈوک کا تعارف دیگر موسیقاروں سے کرایا۔ محفلِ موسیقی خوب جمی۔ پھر یہ ہوا کہ جارو سلاف پر بے خودی سی چھا گئی اور اس نے چاہا کہ لڈوک کو ساتھ لے کر باہر میدانوں میں چلا جائے اور دونوں گائیں اور بجائیں۔ اس کی چاہت پوری نہ ہوسکی۔ معاہدے کے مطابق ان کو رات کے نو بجے تک اسی جگہ پرفارم کرنا لازمی تھا۔ ساتھ ہی بدمست نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اوپن ایئر ریستوران میں گروہ در گروہ ہلڑ مچاتے ہوئے پہنچ گئے۔ جارو سلاف جو گھر میں توڑ پھوڑ مچا کر نکلا تھا، اس بگڑتے ہوئے ماحول اور فضا کو برداشت نہ کرسکا اور حملۂ قلب (heart attack) کی زد میں آگیا۔ اسے ہسپتال پہنچایا گیا۔
جارو سلاف کی شخصیت کی کسی ایک کم زوری کی نشان دہی کرنے کی کوشش کی جائے تو اس نتیجے پر پہنچا جائے گا کہ یہ دیو قامت اور عظیم الجثہ آدمی اپنے اندر ایک نرم و نازک، حساس، زود رنج اور ازحد جذباتی شخصیت کو چھپائے ہوئے ہے۔ بالآخر اس کے اندر کی یہ چھپی ہوئی شخصیت باورچی خانے کے برتن اور رکابیوں کی توڑ پھوڑ مچانے، ڈائننگ ٹیبل الٹانے کے بعد محفلِ موسیقی میں بدذوقی کا مظاہر کرنے والوں کے خلاف طوفانی ردِعمل پر قابو پانے کی کوشش میں اپنے ہی دل میں توڑ پھوڑ مچا دیتی ہے۔
کوسٹکا
کوسٹکا سے قاری ایک یونی ورسٹی لیکچرر کے کردار میں متعارف ہوتا ہے۔ وہ ایک ورکر (مزدور) باپ کا بیٹا ہے جو عیسائی تھا۔ وہ زندگی بھر مصائب میں مبتلا رہا۔ ڈھنگ کا کام نہیں ملا۔ گرجا نے اور معاشرے نے اس کی مدد نہیں کی۔ بالآخر وہ افلاس اور بیماری سے وفات پاگیا۔ کوسٹکا نے اپنے بچپن سے یہ مشاہدہ کیا کہ عیسائی، نام کے عیسائی تھے۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کے مطابق زندگی نہیں گزارتے تھے۔ اس معاملے میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں فرقوں کے پیروؤں کا رویہ ایک سا تھا۔
اس نے کسی نہ کسی طرح اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور یونی ورسٹی میں لیکچرر کی خدمات انجام دینے لگا۔ چوںکہ سوشلسٹ/ کمیونسٹ پارٹی اپنے منشور کے تحت ورکنگ کلاس کو سہارا دینے کے مؤقف پر قائم تھی، جب کہ گرجا نے ورکنگ کلاس کو تنہا چھوڑا ہوا تھا۔ کوسٹکا نے سوشلسٹوں/ کمیونسٹوں کی حمایت کی اور ان کا ساتھ دیا، جب کہ معاشرے میں ان کا کوئی مقام نہیں تھا۔ ۱۹۴۷ء کے آس پاس کا زمانہ تھا۔ کوسٹکا کو یہ حمایت اور رفاقت مہنگی پڑی۔ کوسٹکا نے یہ مؤقف اپنایا تھا کہ عیسائی مذہب اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات اور سوشلسٹ اور کمیونسٹ کے نظریات میں خاصی مماثلت ہے۔ نجی ملکیت کے بارے میں، معاشرے کی طبقاتی تقسیم کے بارے میں اور جنگوں کے خلاف اصولی مؤقف اختیار کرنے میں۔ کوسٹکا کا ان مماثلات کی نشان دہی کرنا اور گوسپل (Gospel) کی تعلیمات کی اس طرح تشریح کرنا پارٹی کے حق میں جاتا تھا۔ اس سبب سے پارٹی نے کوسٹکا کو اپنے ساتھ رکھا۔ جہاں تک عیسائی معاشرے کا تعلق ہے، کوسٹکا خدا کا منکر اور دہریہ تھا، جب کہ حقیقت میں کوسٹکا اندر سے راسخ العقیدہ عیسائی اور خداے تعالیٰ کو ماننے والا تھا۔ وہ تاعمر اسی مؤقف پر قائم رہا۔ پھر یہ ہوا کہ سوشلسٹ/ کمیونسٹ پارٹی کی طاقت میں اضافہ ہوا اور اس کا ُکو (coup) کامیابی پر منتج ہوا۔ پارٹی اپنے رویے میں سخت گیر ہوگئی۔ یونی ورسٹی سے ان طلبہ کو نکالنے کے اقدامات کا آغاز ہوا، جن کے والدین یا سرپرست پارٹی سے مختلف عقائد کے حامل تھے۔ کوسٹکا نے ایسے معتوب طلبہ کو یونی ورسٹی سے نکالے جانے سے بچایا۔ کوسٹکا کی یہ دخل اندازی یونی ورسٹی کے سربراہان کو پسند نہیں آئی اور یہ سوال اٹھایا گیا آیا کہ ایسے اساتذہ سے طلبہ کو پڑھنا مناسب ہوگا جو مذہبی اعتقادات کے حامل ہوں۔ ان ہی دنوں میں کوسٹکا کے علم میں یہ حقیقت آئی کہ لڈوک جاہن نامی ایک طالبِ علم اس مسئلے میں کوسٹکا کی حمایت کررہا ہے۔ اس کا مؤقف یہ ہے کہ کوسٹکا نے پارٹی کے ابتدائی زمانے میں گوسپل کی تعلیمات اور پارٹی کے مؤقف میں مماثلات کی نشان دہی کرکے پارٹی کی خدمت کی تھی۔ ایسے آدمی کے خلاف اقدامات کرکے پارٹی اور یونی ورسٹی کے حکام احسان فراموشی کے مرتکب ہوں گے۔
کوسٹکا نے یونی ورسٹی سے باہر لڈوک جاہن سے ملاقات کی اور اپنی حمایت کرنے پر اس کا شکریہ ادا کیا۔ کوسٹکا نے باتوں میں یہ اندازہ لگالیا کہ اندر سے وہ اس کا حلیف نہیں، بلکہ حریف ہے۔ اس نے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا کہ لڈوک جاہن باہر سے مطلب رکھتا ہے۔ اندر سے اسے قطعی کوئی دل چسپی نہیں تھی۔
اس کے بعد کوسٹکا کو یہ اطلاع ملی کہ لڈوک جاہن کے خلاف تادیبی کارروائی ہوئی۔ اس کو یونی ورسٹی اور پارٹی سے نکال دیا گیا ہے اور کان کنی کے لیے روانہ کردیا گیا ہے۔ ان ہی دنوں کوسٹکا نے یونی ورسٹی سے استعفیٰ دیا اور اُسے سفارشی خطوط کے ساتھ، ریاست کے کھیتوں میں ریسرچ کرنے کے لیے بھیج دیا گیا۔
یونی ورسٹی سے کوسٹکا کا استعفیٰ دینا اس کی ذاتی اور نجی زندگی کے حق میں نہیں تھا۔ اس کی بیوی اور پانچ برس کے بچے کے حق میں بھی نامناسب تھا۔ بہرحال کوسٹکا یونی ورسٹی چھوڑ کر جیسس کے راستے پر چل رہا تھا جس نے کہا کہ راہِ حق میں کل کی پروا نہ کرو، کل خود اپنی فکر کرے گا۔ اس کے علاوہ کوسٹکا کو استعفیٰ دے کر ایک طرح کی آزادی کا احساس ہورہا تھا۔
نئے ماحول میں کوسٹکا کو یوں لگا کہ جیسے اسے نیا جنم ملا ہو۔ وہ علاقہ جہاں اس نے کام شروع کیا جنگ کے خاتمے پر جرمن قبضے سے واگزار کیا گیا تھا، ہنوز کم آباد تھا۔ پہاڑیوں سے گھرا ہوا تھا۔ جھونپڑیوں پر مشتمل گاؤں تھے جو ایک دوسرے سے دور دور تھے۔ کہرا تھا اور دنیا ایسی تھی جیسی تخلیق کے پانچ ویں دن ہوگی جب خداے تعالیٰ نے یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ اس کو آدمی کے سپرد کرے یا نہ کرے۔ گھاس کے میدان ہی میدان- گایوں اور بھیڑوں کے ّگلے۔
کوسٹکا کے کام سے اور خیالات سے ڈائریکٹر خوش تھا۔ کوسٹکا نے ریسرچ کے ساتھ انقلابی تبدیلیوں کا آغاز کیا۔ گھاس اکٹھا کرنے کا طریقہ بدلا، کھیتوں میں کھاد ڈلوائی۔ گرین ہاؤس بنوائے۔ دوائیہ جڑی بوٹیوں کی کاشت شروع کروائی۔ وہ زمانہ تھا ۱۹۵۱ء ستمبر، نومبر کا۔ نومبر میں اس علاقے میں چھپ کر رہنے والی ایک لڑکی دریافت ہوئی۔ وہ لڑکی اور کوئی نہیں تھی لڈوک جاہن کی محبوبۂ دل نواز لوسی سبیٹکا تھی۔ کوسٹکا اس کو جانتا نہ تھا۔
لوسی سے پولیس اور دیگر حکام نے سوال کیا کہ اس نے اوسٹراوا میں کام کرنا کیوں چھوڑا تو اس نے صرف یہ بتایا کہ وہاں سے وہ ٹرین میں چھب (cheb) جارہی تھی، لیکن جب اسے خیال آیا کہ اس کا سوتیلا باپ اسے بہت مارے گا تو وہ درمیان میں ٹرین سے اس علاقے میں اتر گئی۔ اسے کاغذی کارروائی مکمل کرنے کے لیے اوسٹراوا بھیجا جانے لگا تو اس نے کہا، وہ راستے میں کہیں اتر جائے گی۔ پھر یہ ہوا کہ اسے ’’گرین ہاؤس‘‘ میں لگا دیا گیا اور یوں لوسی، کوسٹکا کے ماتحت آگئی۔ کوسٹکا نے اس سے کام لینے کے علاوہ فوری طور پر تنخواہ اور کچھ الاؤنس دلوایا تاکہ وہ ضروری کپڑے اور چھتری وغیرہ خریدلے۔
کوسٹکا، لوسی سے باتیں بھی کرنے لگا تھا۔ جب کوسٹکا نے اس سے پوچھا کہ اس نے اوسٹراوا پھولوں کی چوری کے سلسلے میں (قبرستان سے) پکڑے جانے کی ذلت کی وجہ سے چھوڑا تو اس نے بتایا کہ ایک فوجی اسے ایک نیم تاریک کمرے میں لے گیا جہاں ایک ہی بستر تھا۔ وہاں اس نے لوسی پر ہاتھ ڈالا۔ لوسی نے مزاحمت کی اور اس علاقے ہی کو چھوڑ دیا۔ وہ فوجی بھی دوسروں کی مانند بے ہودہ نکلا۔ کوسٹکا کو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ لوسی کے اس بیان والا فوجی اور کوئی نہیں لڈوک جاہن تھا۔
موسمِ بہار کی فضاؤں میں لوسی نے کوسٹکا سے اظہارِ محبت کیا۔ کوسٹکا بھی اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکا۔ لوسی نے اپنا سب کچھ کوسٹکا کو دے دیا۔ وہ سب کچھ جو اس نے لڈوک جاہن کو نہیں دیا تھا۔ کیا یہ بھی لڈوک جاہن کے خلاف حالات کا ’مذاق‘ نہیں کہلایا جائے گا۔ دوسری جانب کوسٹکا کے ساتھ بھی حالات نے مذاق کیا تھا۔ وہ پادری کے بھیس میں کسی عورت کو ورغلانے والا آدمی بن چکا تھا (اس نے لوسی کو جیسس کی تعلیمات سے روشناس کرنے کی سعی بھی تو کی تھی)۔
اسی زمانے میں ڈائریکٹر کے خلاف محکمہ جاتی انکوائری شروع ہوئی کہ وہ کوسٹکا جیسے عقائد والے آدمی کی سرپرستی کررہا ہے۔ کوسٹکا نے اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔ ڈائریکٹر نے بظاہر خفگی کا اظہار کیا، لیکن دستخط کردیے۔
اس مرتبہ کوسٹکا کو تعمیرات کے کام میں لگایا گیا جو اس کے لیے نامناسب تھا۔ لڈوک بڑی مدت بعد اس سے ملا اور اس کو تعمیرات سے ہٹا کر اسکول میں کام دلانے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں ناکامی ہوئی تو اس کو چوہوں پر ریسرچ کے کام میں لگا دیا۔ کوسٹکا بعد میں ایک ہسپتال میں کام کرنے لگا تھا۔ فارم ہاؤس سے الگ ہونے پر لوسی نے شادی کرلی اور کچھ برسوں بعد اسی شہر میں اپنے میاں کے ساتھ آگئی۔ وہ جب بھی کوسٹکا سے ملتی تو یہ ظاہر کرتی کہ اس کی شادی شدہ زندگی کامیاب گزر رہی ہے، لیکن چھوٹے شہر میں ایسی باتیں زیادہ عرصے تک چھپی ڈھکی نہیں رہتی ہیں۔ کوسٹکا کو معلوم ہوگیا تھا کہ لوسی کا شوہر اس سے وفا نہیں کررہا تھا اور قصائی فطرت ہونے کی وجہ سے لوسی کو مارتا پیٹتا بھی تھا۔ کوسٹکا کے تعلقات اس کی بیوی سے اچھے نہ تھے، لیکن وہ بیوی کو طلاق نہیں دے رہا تھا۔ اگر وہ شروع ہی میں بیوی کو طلاق دے کر لوسی سے شادی کرلیتا تو وہ اس کے، لوسی کے اور اس کی اپنی بیوی کے، تینوں کے حق میں بہتر ہوتا۔
ناول کے اس حصے کے خاتمے پر کوسٹکا خداے تعالیٰ سے التجا کرتا ہے:
’’میرے خدایا، مجھے بتائیے، کیا یہ سچ ہے؟ کیا میں حقیقت میں اتنا گیا گزرا ہوں اور لائقِ تضحیک ہوں؟ کہہ دیجیے یہ سچ نہیں ہے، مجھے یقین دلا دیجیے۔ مجھ سے بولیے خداوندا! بلند آواز میں۔ آوازوں کے اس ہجوم میں لگتا ہے آپ کی آواز سن نہیں پارہا۔‘‘
لوسی نے ماں کا گھر اس سبب سے چھوڑا تھا کہ اس کا سوتیلا باپ اسے مارتا پیٹتا تھا۔ اس کو ایسا شوہر ملا جو اسے مارتا پیٹتا تھا۔ کیا یہ لوسی کے ساتھ حالات کا مذاق نہیں تھا۔ لڈوک نے لوسی کو جسمانی/ جنسی طور پر حاصل کرنے کے لیے آزار سہے، خطرات مول لیے، اپنی نگاہوں میں ذلیل ہوا پھر بھی ناکام رہا۔ کوسٹکا نے نہ چاہتے ہوئے لوسی کو حاصل کرلیا۔ حاصل کرکے اپنی نظروں میں گیا گزرا اور لائقِ تضحیک بن گیا۔ کیا یہ کوسٹکا کے ساتھ قدرت کا مذاق نہیں مانا جائے گا۔