آئمہ گھر جانے کہ لیے اسکول سے باہر نکلی تو اس نے دیکھا ایک بوڑھی عورت روڈ کراس نہیں کر پا رہی آئمہ اس کہ پاس گئی روڈ کراس کرنے میں اس کی مدد کی آئمہ نے اس بوڑھی عورت سے پوچھا اماں آپ کہاں جائیں گی میں آپ کو چھوڑ دوں۔۔۔اس نے کہا بیٹامیرا گھر تھوڑا دور ھے۔۔آئمہ نے کہا کوئی بات نہیں اماں میں چھوڑ دیتی ھوں آپ کو ویسے بھی میں آج بھت خوش ہوں۔۔آئمہ اس بوڑھی عورت کے کہے پتے پہ پہنچی تو ایک کچی جھونپڑی نظر آئی آئمہ نے کہا اماں یہ ھے آپ کا گھر تو اس بوڑہی عورت نےکہا ہان بیٹا یہیں چلو آئمہ نے اس عورت کو اندر چھوڑ کہ کہا اماں میں اب چلتی ہوں تو اس عورت نے کہا بیٹا تم نے میری اتنی مدد کی ہے میری ہاتھ کی چائے تو پی کہ جاؤ۔۔۔ارے نہیں اماں میں بس اب چلون گی دیر ہو رہی ہے۔۔۔اماں بھی کہتی ہو بات بھی نہیں مانتی۔۔۔اچھا اماں مجھے بتا دیں میں بنا لاتی ہوں۔۔۔۔نہیں تم بیٹھو بیٹا میں لاتی ہوں۔۔۔
آئمہ وہیں اماں کا ویٹ کرنے لگی دس منٹ بعد وہ عورت دو چائے کہ کپ لائی ایک اس نے آئمہ کو دیا ایک خود رکھا آئمہ نے خوش دلی سے اسے دیکھا اور چائے پینے لگی۔۔۔چائے پیتے پیتے آئمہ کو نیند آنے لگی۔۔۔آئمہ ایک دم سے اُٹھی اور باھر جانے لگی تو نیچے گر کہ بیھوش ہو گئی۔۔
اسی وقت آہل اندر آیا اور اس عورت کو شکریا ادا کرنے لگا تو اس عورت نے کہا۔۔۔بیٹا یہ لڑکی بہت اچھی ھے میں کبھی ایسا نہ کرتی اگر تمہاری بیوی تم سے ناراض نا ہوتی اب جب یہ ہوش میں آئے میری طرف سے معافی مانگ لینا۔۔۔جی اماں وہ کہتا آئمہ کو اُٹھاتا اپنے ساتھ اپنے بنگلے پہ لے گیا۔۔۔
آہل جانتا تھا جو نبیل نے کیا ہے اس کہ بعد وہ بنگلو پہ نہیں آئگا اس لیے وہ آئمہ کو اپنے بنگلو لے گیا۔۔۔اسے وہان سلا کہ دروازہ لوک کرنا نہیں بھولا۔۔۔
اس کہ بعد آہل آئمہ کے دادا دادی کہ پاس گیا۔۔۔وہ بہت ناراض تھے آہل سے آہل ان کہ قدموں میں بیٹھ گیا انہیں ساری بات سچ بتا دی اور انہیں یہ بھی کہا آئمہ کہ لیے پریشان نہ ہوں اسے میں اپنی جان سے ذیادہ چاھونگا۔۔۔دادا دادی نے آہل سے کہا آئمہ کو ایسے نہیں لے جائے ہم بات کرین گے اسے پر آہل نے کہا آئمہ نہیں سنے گی کسی کی اسے مجھے ہی منانا ہوگا اور منت کہ بعد دادا دادی راضی ہوئیے اس شرط کہ ساتھ کہ آئمہ کا خیال رکھنا وہ آئمہ کہ لیے بہت پریشان تھی اب اگر آئمہ کا شوہر معافی مانگ رھا تھا پیرون میں گر کہ اور اس بات کی بھی گارنٹی دے رھا تھا کہ وہ آئمہ کو خوش رکھے گا و انہیں اور کیا چاھئے تھا۔۔۔
آہل ان سے اجازت لیتا سیدھا بنگلو پہنچا اس نے دیکھا آئمہ اب تک بیھوش تھی آہل آئمہ کہ قریب گیا جھک کہ اس کے رخسار پہ اپنے لب رکھ دیئے آئمہ اس سب سے بیگانی سوئی تھی۔۔۔آہل نے آئمہ کا سوتے ہوئے خوب لمس محسوس کیا۔۔۔اورپہر فریش ہونے چلا گیا۔۔۔آئمہ اُٹھی تو اپنا سر پکڑ کہ بیٹھ گئی۔۔۔کچھ دیر اسے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے اور کیوں ہے۔۔۔پہر آہستہ آہستہ اسے یاد آیا وہ ایک بوڑھی عورت کہ ساتھ اس کہ گھر گئی تھی اور وہاں اس نے چائے پی تھی اس کہ بعد اسے کچھ یاد نہیں اس نہ اماں اماں پکارنا شروع کیا تب آہل واشروم سے باہر آیا نہا کہ آہل نے شرٹ نہیں پہنی تھی آئمہ اسے دیکھ کہ گھبرا گئی اور اپنا منہ دوسری سائیڈ کرلیا آپ یہاں کیا کر رھے ھیں اور میں کہاں ہوں۔۔۔آہل کو آئمہ کہ انداز پہ ہسی آرہی تھی وہ دوبارہ اسی حالت میں آئمہ کہ سامنے آگیا آئمہ نہ آنکھیں بند کرلی اور دوسری طرف منہ کرنے لگی تو آہل نے فورن ہاتھ پکڑ کہ اس کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔۔کیا بدتمیزی ہے چھوڑیں مجھے آپ بہت بیشرم ہیں جا کہ کچھ پہنے پہر بات کریں۔۔۔اپنی بیوی سے کیسی شرم اور میں ایسے ہی رہون گا بات بھی ایسے ہی کرونگا۔۔۔۔آہل میں کہان ہوں آئمہ نے انکھیں میچے ہوئے کہا۔۔۔۔میرے پاس ہو تم میرے گھر اور اب ہمیشہ یہیں رہوگی۔۔۔۔کیا۔۔۔آئمہ نے فورن آہل کو دیکھا آپ نے میرا آغوہ کیا ہے۔۔۔۔ہاں آہل نے بڑے سکون سے جواب دیا۔۔۔۔آپ کو لگتا ہے میں ایسے مان جاؤنگی۔۔۔۔آئمہ نے منہ دوسری جانب کر کہ بات کی۔۔۔ہاں مننا تو پڑے گا نا میری جان اور کوئی راستہ بھی تو نہیں ہے تمہارے پاس جب روز ہمارا ملن ہوگا رومینس ہوگا۔۔۔۔۔اُفففف کتنے حسین پل ہونگے وہ۔۔۔۔آہل نے مزے لیتے کہا۔۔۔۔کہاں جاؤگی ہمارے بچے ہوں گے وہ مجھے پاپا کہیں گے تمہیں مما اور پہر تم۔ان میں الجھ کہ رہ جاؤگی پہر وہ تمہیں جانے نہیں دیں گے پہر میرا کام وہ کریں گے۔۔۔آہل بولتے جا رھا تھا ایک تو آئمہ اس کی طرف دیکھ نہیں پا رہی تھی اوپر سے آہل کی ایسی باتیں آئمہ کو بیھوش کر رہی تھیں۔۔۔ آئمہ نے دروازے کی جانب رُخ کیا اور کوشش کی دروازہ کھولنے کی پر وہ بند تھا آہل جو سکون سے صوفے پہ بیٹھا تھا جیسے اُٹھا آئمہ نے منہ اس کی سائیڈ کیے بغیر کہا وہیں رک جائیں ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔آہل کے لبوں پہ ایک دلکش مسکان دوڑ گئی۔۔۔۔اچھا کیا ہوگا آہل اس کہ قریب آتا جا رہا تھا آئمہ آنکھون پہ ہاتھ رکھی اسے منع کر رہی تھی پلیز میرے پاس مت آئیں آہل آئمہ کہ بہت قریب ہوگیا اور اس کا ہاتھ آنکھوں سے ہٹایا۔۔۔آئمہ نے آہل کو دھکا دیا اور بھاگنے لگی پر آہل۔اس کا،ارادہ بھاپ چکا تھا اس لیے اسے فورن پکڑ لیا۔۔۔اور اس کی کمر پہ اپنے بازو حائل کردئے۔۔۔اور اسے اپنے سے لگایا آئمہ چھڑانے لگی پر آہل نے گرفت اور تیز کردی۔۔آپ کیاچاھتے ہیں کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ ایسا میں نے آپ کا آخر کیا بگاڑا ہے آپ کیوں لائی ہیں مجھے یہاں آئمہ کی جب ہر کوشش ناکام ہو گئی تو بے بسی سے کہنے لگی آہل نے آئمہ کہ کندھے پہ اپنا سر جھکا لیا اور اس کے بال پیچھے کر کہ ایک گستاخی کی آئمہ کا وجود لرزنے لگا آئمہ سے کھڑا ہونا مشکل ہونے لگا۔۔۔آواز نکلنا بند ہو گئی ۔۔آہل پلیز مجھے چھوڑیں روتے روتے آئمہ نے یہی الفاط کہے۔۔۔آہل اس پہ جھکا رہا۔۔۔۔آفیس میں بہت نخرے دکھا لیے اب یہاں وہی ہوگا جو میں چاہون گا۔۔۔آہل آئمہ پہ اسی طرح جھکا رھا آئمہ لرز رہی تھی اور رو رہی تھی آہل کو اس پہ رحم آ ہی گیا اور اس نے آئمہ کو چھوڑ کہ کہا آج چھوڑ رہا ھوں مگر یہ مت سوچنا روز بچ جاؤگی۔۔۔۔آج ہی اپنے ذھن کو تیار کرلو۔۔۔۔تمہارے لیے بھتر ہوگا۔۔۔۔آگےمیں کچھ نہیں کہون گا تم سمجھدار ہو۔۔آہل یہ کہہ کہ کمرا باھر سے لاک کرتا چلا گیا۔۔۔۔
۔شام میں آہل نے میڈ سے آئمہ کہ لیے کھانا بھیجوایا اور ساتھ میں یہ کہہ کہ بھیجا کہہ اسے کھلا کہ آئے اور اگر آئمہ کھانے سے منع کرے تو اسے کہہ دیں پہر میں آ کہ کھلاؤنگا۔۔۔۔اور آہل کی دھمکی کار آمد ثابت ہوئی تھی۔۔آئمہ نے چپ چاپ کھانا کھا لیا تھا اور آہل مطمعیں ہو کہ باھر چلا گیا۔۔۔۔
نبیل نے آہل کو کال کی آہل نے بات کی تو اس نے پوچھا آئمہ کہاں ہے۔۔۔۔کیوں آہل نے جواب دیا۔۔۔۔یار میری بھن ھے وہ اور میں نے اسے وعدہ کیا ہے میں اس کی حفاظت کرونگا اب تو شرافت سے بتا دے کہان ہے میری بہن ۔۔۔واہ بھائی تو صحیح نکلا اپنے جان سے عزیز دوست کی تیری نظر میں کوئی اھمیت ہی نہیں رہی اب۔۔۔۔آہل فضول باتیں مت کر بتا آئمہ کہاں ہے۔۔۔ نہیں بتا رہا جا کر لے جو کرنا ہے۔۔۔۔ٹھیک ہے پہر میری جواب کا انتظار کرنا اب۔۔۔نبیل نے یہ کہتے کال کاٹ دی آہل نے موبائل دیکھا اور سوچنے لگا نبیل ایسا کیا کریگا کل۔۔۔۔چلو دیکھ لیتے ہیں نبیل صاحب آپ کو بھی۔۔۔۔آہل سوچتا گھر چلا گیا۔۔۔۔
آہل نے آئمہ کہ کمرے کو کھولنا چاھا تو کمرا اندر سے لاک ملا آہل کو آئمہ کی اس معصومیت پہ ہسی آئی اور اس نے دوسری کیز سے دروازہ کھولا۔۔۔اور اندر گیا تو دیکھا آئمہ سوئی ہوئی تھی اس کہ چھرے کی معصومیت دیھ کہ آہل. کہ دل نے گوارا نہیں کیا اسے اُٹھانا۔۔۔اور وہ نیچے آگیا اور ٹی وی آن کر کہ بیٹھہ گیا۔۔۔۔اور وہیں اسے نیند آگئی۔۔۔۔
صبح آہل اُٹھا تو کمرے میں فریش ہونے کی غرض سے گیا۔۔۔اس نے دیکھا آئمہ کھڑکی پھلانگنے کے چکر میں تھی آہل نے فورن اسے پکڑا اور کہا۔۔۔۔کہاں جانے کا ارادہ ہے میڈم۔۔۔آئمہ ایک دم سے ڈر گئی اس کا پورا وجود لرزنے لگا ٹانگوں میں جیسے جان ناہ ہونے کہ برابر تھی آہل مجھے نہیں رہنا آپ کے ساتھ مجھے جانے دیں۔۔۔۔آئمہ آہل کی گرفت میں تڑپتے کہنے لگی۔۔۔۔وہ سب اپنی جگھہ لیکن کیا تمہیں پتا ہے تم یہاں سے جمپ کر کہ کہاں پہنچتیں۔۔۔آئمہ نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔آؤ میں بتاتا ہوں آہل آئمہ کو باھر لے گیا اس کمرے کی بیک سائیڈ جہاں آئمہ کو رکھا ہوا تھا آہل آئمہ کو لیے کی جا رھا تھا اور آئمہ کی جان آدھی ہو رہی تھی وہان کہ السیشن ڈوگ دیکھ کہ آئمہ کی ڈر سے برا حال تھا آہل اس کمرے کہ سامنے جا کہ رکا اور کہا دیکھو تم یہاں سے جمپ کرتیں یہاں آکے گرتیں چلو مان لیا اگر تمہاری ھڈیاں بچ جاتیں تب یہاں یہ ڈوگ دیکھ رہی ہو یہاں میری اجازت کہ بغیر یہ یہاں سے کسی کو ھلنے بھی نہیں دیتے اور بھی بہت کچھ ھے میں تمہیں دکھا کہ اور ڈرانا نہیں چاھتا پہلے تم پوری طرح کامپ رہی ہو۔۔۔اب چلو اندر اور آئندہ اس طرح کی کوئی بیوکوفی نہ دیکھوں میں اہل آئمہ کو واپس کمرے میں لے آیا اور خود فریش ہونے چلا گیا۔۔۔۔آئمہ بہت ڈری تھی تو چپ۔چاپ بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔آہل فریش ہو کہ آیا تو اسی حالت میں تھا آئمہ نے کچھ نہیں کہا بس منہ پھیر کہ بیٹھ گئی۔۔۔
آج تو
تھوڑا جلدی میں ہوں جانا آکہ تم سے رومینس ہوگا۔۔۔۔آئمہ نے کوئی جواب نہیں دیا پر اندر تک لرز گئی۔۔۔آہل تیار ہو کہ باھر چلا گیا۔
__________
آہل ابھی اسکول مین بیٹھا اپنا کام فائنل کر رھا تھا اور نیو پرنسیپل ہائر رھا تھا کہ اسے حسان کی کال آئی۔۔۔۔اور وہ ایک دم اُٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔واٹ۔۔۔کسنے کہا۔۔۔۔آہل نے حسان سے پوچھا۔۔۔میں جاتا ہون گھر آہل کہتا کال بند کرتا سیدھا گھر بھاگا۔۔۔تو یہ تھا نبیل تیرا جواب۔۔۔آہل کو اس وقت نبیل پر شدید غصہ آرھا تھا۔۔اس نے فورن نبیل کو کال کی۔۔۔نبیل نے کال اُٹھاٹے کہا۔۔۔کیا ھوا خبر پہنچ گئے تجھہ تک اور ہسنے لگا ۔۔۔نبیل میں تجھے چھوڑوں گا نہیں بہت منحوس ہے تو ہمیشہ الٹا کرتا ہے اور مجھہ سے بھی کرواتا ہے اور سزا صرف مجھے ملتی ہے۔۔ھاھا چل چل اب جا جا کہ میرا جواب ھینڈل کر نبیل ہستا رہا آہل کال کاٹتا ریش ڈرائونگ کرتا گھر پہنچا۔۔
آہل جیسے گھر پہنچا جس بات کا ڈر تھا وہی ھوا تھا۔۔۔۔اس کہ بابا مما بیٹھے تھے آئمہ ان کہ ساتھ بیٹھی تھی۔۔۔آہل اندر داخل۔ہوا تو آہل کہ بابا نے اسے ڈھاڑ سے بلایا۔۔۔۔آہل۔۔۔آہل سر جھکاتا ان کہ پاس گیا۔۔۔جی بابا سائیں۔۔۔آہل کہ بابا نے آہل کو ایک زور،دار تھپڑ مارا آہل چپ کھڑا رھا۔۔۔۔کیا یہ لڑکی سچ کہہ رھی ہے تم نے اسے ذبردستی یہاں رکھا ہے ۔۔۔۔۔بابا سائیں بیوی ہے میری۔۔۔۔آہل کہ بابا نے آہل کی بات پہ آہل کو دیکھا۔۔اور کہا۔۔۔بیٹا سائیں اب تم اتنے بڑے ہو گئے ہو کہ اپنی شادی کا بتانا ضروری نہیں سمجھا۔ ۔۔۔۔غلط کیا تمہیں اتنی ڈھیل دے کہ۔۔۔۔آہل کہ پاس کوئی جواب نہیں تھا۔۔وہ بس اتنا کہہ پایا معافی بابا سائیں اور اس کہ بابا اندر روم میں چلے گئی آہل کی مما اس کہ پاس آئین اور کہا۔۔۔ بیٹا سائیں آج اپ نے ہمارا بہت دل دکھا یا ہے ہمارا مان تھے آپ اور آپ نے ہمارا مان توڑ دیا۔۔۔۔یہ کہہ کہ وہ بھی جانے لگیں جب آہل نے انہیں روکا اور کہا۔۔۔امی۔۔۔۔معاف کردیں پلیز۔۔۔بابا سائیں کو منائیں۔۔۔۔میرا یقین کریں امی میرا ایسا کوئی مقصد نہیں تھا۔۔۔سب غلط فھمی میں ہو گیا۔۔۔
۔۔وہ ماں تھیں نرم دل آہل کی کچھ منتون کہ بعد ہی راضی ہو گیئں۔۔۔۔اب اس اپنے بابا کو منانا تھا اور پورے دو دن اس نے منتیں کی پر اس کہ بابا نہیں مانے۔۔۔ان دنوں آہل کو آئمہ کو ہوش نہیں تھا وہ اس وقت اسکہ امی کہ ساتھ رہ رہی تھی۔۔۔۔گھر سے جانے کا تو سوال ہی نہیں اُٹھتا تھا بس چپ چاپ سب دیکھ رہی تھی۔۔۔
آج تیسرا دن تھا جب آہل کہ بابا نے سب کو حال میں جمع ہونے کا کہا۔۔۔۔سب جمع ہوئے تو انہوں نے کہا۔۔۔آہل نے جو کیا غلط کیا لیکن وہ مجھ سے دو دن سے معافی مانگ رھا ھے اب میں معاف کر رھا ہوں اور اپنے بیٹے اور بہو کو اپنے ساتھ گاؤن لے جا رھا ہوں مائی بتول تم بہو کا سامان پیک کرو اور دلاور خان تم چھوٹے صاحب کا سامان پیک کرو آئمہ اور آہل پرتو جیسے کسی نے دھماکہ کیا ہو۔۔۔آئمہ تو کچھ کہہ نہیں سکتی تھی پر آہل نے بولنے کی کوشش کی۔۔۔۔بابا سائیں آپ جانتے ہیں مجھے گاؤن نہیں پسند۔۔۔بیٹا سائیں بہت منمانی کر لی اب چلو اپنے گاؤن وہین رھوگےاب تم وہان کی فیکٹریان بزنس سمبھالو گے یہاں میں سب ورکر رکھ کہ جا رھا ہوں۔ ۔۔۔آہل مضید کچھ نہیں بول پایا وہ جانتا تھا یہ اس کی سزا تھی نا فرمانی کی وہ اپنے بابا کو اچھے سے جانتا تھا اس لیے چپ کر گیا۔۔۔۔لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا وہ انہیں کچھ دن میں منا لے گا۔۔۔۔۔تب تک آئمہ آگے آئی اور اس نے کہا۔۔گستاخی معاف۔۔۔بابا سائیں پر میرے دادا دادی اکیلے ہیں میں انہیں یہاں چھوڑ کہ نہیں جا سکتی۔۔۔۔آہل نے فورن آئمہ کو پیچھے کھینچا۔۔۔۔ہمت کیسے ہوئی بابا سائیں کہ سامنے بولنے کی۔۔۔بابا سائیں کا فیصلا آٹل ہوتا ہے چپ چاپ کھڑی رہو۔۔۔۔آئمہ کی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔۔۔اور جب ہی بابا سائین نے حکم سادر کیا۔۔۔دلاور خان۔۔۔بہو کے دادا دادی کو لے آؤ وہ بھی ہمارے ساتھ گاؤں جائینگے۔۔۔آئمہ پہٹی آنکھوں سے انہیں دیکھ رھی تھی آہل کو پتا تھا یہی فیصلا ہوگا۔۔۔کیونکہ اب آئمہ ان کی بہو تھی وہ نہ اس کی بات ٹالتے نہ ہی اسے یہاں چھوڑیں گے۔۔۔۔آئمہ چپ ہو گئے اس نے سوچا یہاں کچھ کہنے جا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔۔سب نوکر پیکنگ اور تیاریوں میں لگے تھے اور کچھ کو دادا دادی کہ پاس جانے کی تیاریاں کر رھے تھے۔۔۔ان کے بابا سائین نے کہا تھا وہ اور آہل کی امی جائیں گے بہو کہ دادا دادی کو لینے۔۔
جب وہ لوگ آئمہ کے دادا دادی کہ گھر پہنچے تو انہیں کسی نے نہیں پہچانا وہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کودیکھ رھے تھے کہ ایک گاؤن کا وڈیرہ ان کہ پاس کیون آیا ہے۔۔۔وہ ابھی سوچ رھی تھے کہ ان کہ ایک نوکر نے کہا۔۔۔سائیں۔۔۔آہل بابا کہ بابا سائیں ھیں۔۔۔جب وہ ان کہ طرف بڑھے اور بہت خوش دلی سے ملے۔۔۔۔آہل کہ بابا امی بھی ان سے بہت اچھی طرح ملے۔۔۔۔پہر انہوں نے اپنے آنے کا مدع رکھا پہر انہوں نے ایک بات کہے کہ وہ مان گئے جانھ کہ لیے ان کہ ساتھ اور وہ انہیں لے کہ بنگلے پر واپس آئے آہل اور آئمہ وہیں بیٹھے تھے ساری پیکنگ ورکرس کر رھے تھے……
اپنے دادا دادی کو دیکھ کہ آئمہ ان کہ گلے لگ گئی۔۔۔وہ بھی آئمہ سے مل کہ بہت خوش ھوئے۔ ۔ وہ لوگ بھی سب کہ ساتھ حال میں بیٹھ گئے۔۔۔جب سب تیاریاں ہو گیں تو آہل کہ بابا نہ چلنے کا حکم دیا۔۔۔۔وہ سب باہر آئے آئمہ دیکھ کہ حیران ھو گئی اتنی گاڑیاں۔۔۔آہل کہ بابا کہ ساتھ ہمیشہ گارڈس ہوتے تھے یہ سب دیکھ کہ آئمہ ڈر گئی۔۔۔پر چپ تھی آہل کہ بابا جیسے آگے آئے ایک گارڈ نے گاڑی کا دروازہ کھولا اوردوسرے نے آہل کی آمی کی سائیڈ کا دروزہ کھولا۔۔وہ جب بیٹھ گئے تب آہل آئمہ کہ دادا دادی کو بیٹھوایا اور خود آئمہ کا ھاتھ پکڑ کہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔۔۔اس کے آتے گارڈ نے دروازہ کھولا اس نے پہلے آئمہ کو بیٹھایا پہر خود بیٹھا اور اس کہ بعد پیچھے گاڑیون میں سب گارڈس کسان اور ورکر بیٹھے جو گاؤن سے ساتھ آئے تھے اور پہر سب لوگ گاؤن کہ لیے روانا ہو گئے۔۔۔
رستہ خاموشی سے گذرا آہل خود بھی بہت پریشان تھا گاؤن جانا اسے پسند نہیں تھا اور اب اس کہ پاس کوئی اور رستہ نہیں تھا بابا کو منانے کا۔۔۔۔اس لیے پورا رستہ وہ خاموش رہا۔۔۔آئمہ بھی چپ تھی۔۔۔