’’شہناز خانم عابدی کے افسانوں کو میں نے اپنی بساط بھر پڑھ کر دیکھا ہے اور میں پڑھنے والوں کو اطمینان دلا سکتا ہوں کہ یہ وہ نیا افسانہ نہیں ہے جو کہانی سے بے نیاز ہوگیا تھا۔ یہ خالصتاًکہانی والا افسانہ ہے، بلکہ شہناز خانم کا امتیاز ہی اسی بات میں ہے کہ انھوں نے کہانی سنانے کے فن میں مہارت حاصل کی ہے۔ نیا افسانہ جو علامتی تجریدی افسانہ کہلاتا تھا، اس کا پرچھانواں بھی اپنے افسانوں پر پڑنے نہیں دیا، تو ان کے افسانوں کی طرف سے قارئین کو ایسا اندیشہ نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے افسانے دل چسپی کے ساتھ پڑھے جاسکتے ہیں۔ نئی افسانوی تکنیکیں جو ایچ پیچ لے کر آئی تھیں، ان سے ان افسانوں کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ سو ان سارے عیبوں میں سے جو نئے افسانے سے منسوب چلے آتے ہیں، کوئی عیب ان افسانوں میں نہیں پایا جاتا۔
شہناز خانم کہانی سلیقے سے لکھتی ہیں، کڑی سے کڑی ملتی چلی جاتی ہے۔ کہیںجھول کا احساس نہیں ہوتا۔ نہ یہ شک گزرتا ہے کہ ایسا ہو بھی سکتا ہے کہ نہیں۔ واقعہ جس طرح بیان ہوتا ہے، وہ ہمیں یقین دلاتا نظر آتا ہے کہ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ کردار بھی صحیح طور پر نشوونما کرتے ہیں۔ ہر کردار اپنی پہچان الگ کراتا ہے۔
انتظار حسین
شہناز خانم عابدی کو پڑھتے ہوئے اکثر معلوم ہوتا ہے، گویا اسے آپ ہی آپ بنی بنائی کہانیاں سوجھ جاتی ہیں مگر ایسا نہیں ہوتا ہوگا۔ لکھنے سے پہلے اسے بھی ہم سب کی مانند بہت سوچنا ہوتا ہوگا اور کہانی کے فطری بہائو کا اہتمام کر پانے کے لیے بہت رک رک کر لکھنا ہوتا ہوگا۔ لکھی ہوئی رواں دواں کہانیاں اکثر (قیام) کی کیفیات سے عاری ہوتی ہیں۔ ’’خواب کا رشتہ‘‘ ہی کو لے لیجیے، اس کے مطالعے سے قاری کو طبع زاد معانی کی ٹٹول ہونے لگتی ہے۔ اور یوں گویا اس نے بھی کہانی کی تخلیق میں اپنی ساجھے داری نبھائی ہو۔ مجھے یقین ہے کہ شہناز خانم عابدی اپنی اس نمایاں خوبی کی بدولت اردو کہانی میں ایک اہم رول ادا کرے گی۔
شہناز خانم عابدی کے فن کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مانوش وقوعہ اس کے یہاں کہانی شروع کرنے سے پہلے انجام پاچکا ہوتا ہے۔ مگر نہیں، اسے بھی سبھوں کی مانند موزوں و قوعوں کی تلاش میں بہت د ّقت کا سامنا رہتا ہوگا۔ تاہم اپنی یہ دقت ایک اچھے فن کار کی طرح وہ اپنے قاری تک نہیں پہنچنے دیتی جو دل چسپ مطالعے کی تیز روی میں کہانی کے اختتام سے پہلے کہیں دم نہیں لیتا۔
رائٹر اگر اوریجنل ہو تو اپنی اوریجنیلٹی سے بہ حسن و خوبی نمٹ پانے کے لیے اسے بہت زیادہ اور لگا تار محنت اور زندگی کے مطالعے سے کام لینا ہوتا ہے۔ خانم کی موجودہ تخلیقی بے چینیاں اس امر کی شاہد ہیں کہ اس کے شوق اور شدت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اور یوں وہ اپنی فکشن کی تخلیق کے اسباب تادمِ آخر بنائے رکھے گی۔ کسی مصنف کے اوائل کی اچھی تحریریں اس تأثر کے باعث قابلِ اعتنا ہوتی ہیں کہ وہ اواخر تک آتے آتے ڈھیروں اور بھی اچھا لکھے گا۔ شہناز خانم عابدی سے بھی ایسی توقعات باندھنا عین فطری معلوم ہوتا ہے۔ تخلیقی انہماک بڑا جان لیوا ہوتا ہے۔ خدا کرے اس کے انہماک میں انحطاط واقع نہ ہو۔
اردو کہانی کا یہ باب یقینا حوصلہ افزا ہے کہ ہمارے بعض لکھنے والے برِصغیر کے باہر بسے ہوئے ہیں اور یوں بھی ہمارے افسانوی اسکوپ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ نئے ادب کی زندگی پر بھرپور نظر رکھے بغیر بھی چارہ نہیں ہے۔ خانم کے وقوعی اسباب میں ان امکانات کا بھرپور اسکوپ موجود ہے۔
طبع زاد کہانیاں زندگی کرنے کے باب سے بھی زیادہ کٹھن اور محنت طلب ہوتی ہیں۔ شہناز خانم عابدی کی موجودہ تخلیقی شرکتیں گواہی دیتی ہیں کہ وہ اوّل بھی تخلیق کار ہے اور آخر بھی۔ خدا اُسے لکھنے کی صعوبت سے عہدبرا ہو پانے کے ذرائع اور ہمت عطا کرتا رہے۔
جوگندر پال
بیگم شہناز خانم عابدی پیشے کی ہومیوپیتھک فزیشن ہیں اور میڈیکل پروفیسر، مگر ۱۹۷۰ء کی دہائی سے ادبی زندگی میں بڑے کروفر سے داخل ہوچکی ہیں۔ افسانے اور مضامین مختلف ادبی جرائد میں شامل ہوتے رہے، مگر انھیں کتابی صورت بہت بعد (کافی تاخیر) سے ملی۔ ۱۹۹۵ء سے ۱۹۹۸ء تک پندرہ روزہ ’’اعظم‘‘ کے شعبۂ ادارت سے منسلک رہیں۔ یہ جریدہ اردو اور ہندی کے نہایت ممتاز افسانہ نگار، شاعر اور ناقد ڈاکٹر اعظم کریوی کی یاد میں شائع ہوتا تھا۔ افسانوں کے تین انتخاب اور ادبی خاکوں اور مضامین کا ایک مجموعہ شائع ہو چکے ہیں۔ ایسی صاحبِ استقامت خواتین اب ہم میں کم کم ہیں۔
جمیل الدین عالی
مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ کی کتاب ’’افسانوں کے دریچوں سے جھانکتی زندگی‘‘ کے دو نسخے ملنے پر جو خط ارسال کیا تھا، وہ آپ تک نہیں پہنچا۔ یہ خاصے عرصے پہلے کی بات ہے کہ میں نے آپ کو یہ بھی لکھا تھا کہ آپ کی کتاب کی اضافی کاپی میرے ایک ساتھی جو تاشقند یونی ورسٹی میں اردو پڑھاتے ہیں ازبکستان، تاشقند یونی ورسٹی کے کتب خانے کے لیے لے گئے۔ یہاں ماسکو میں جب کوئی کتاب آتی ہے، وہ ہم سب اردو جاننے والوں کے لیے دستیاب ہو جاتی ہے۔ اس طرح آپ کی کتاب کی میری اپنی کاپی یہاں کے ساتھی بھی پڑھ سکتے ہیں۔
اس کتاب پر آپ کو دلی مبارک باد۔ میں آپ کے افسانوں سے، لکھنے کے انداز اور زبان سے بہت متأثر ہوئی ہوں۔ بہت صاف زبان ہے، اس میں وہ سادگی اور روانی ہے جو مغربی ممالک میں رہنے والے افسانہ نگاروں کی تصنیف میں اکثر نہیں ہوتی ہے۔ افسانے بڑی دل چسپی کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں۔ شاید اس کا سبب وہی ہے جو آپ نے خود کہا کہ آپ افسانے جیتی ہیں، لکھتی نہیں ہیں۔ آپ کے افسانے پڑھتے وقت یہی محسوس ہوتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ آپ کے افسانوں کو ناصرف کینیڈا کے اردو ادب میں بلکہ پوری اردو نثر میں ایک خصوصی جگہ حاصل ہے۔ ایک بار پھر آپ کتاب پر میری مبارک باد قبول کیجیے۔
لڈمیلا ویسلوا
شہناز خانم عابدی نامی یہ افسانہ نگار اپنے اسلوبِ تحریر اور صوری و معنوی خاکوں سے بظاہر مطمئن ہے۔ اس اطمینان میں مسرت کا وجود اپنا جواز فراہم کرتا نظر آتا ہے۔ مجوزہ اطمینان میں پنہاں مسرت کا احساس، شہناز کو فرحاں و شاداں بناتا نظر آتا ہے۔ وہ اس احساس سے باخبر بھی ہے اور اس کا اعلان بھی کرتی ہے، اعترافِ احساس کے ساتھ۔ یہ سامنے کی باتیں ہیں جو اُس کے افسانوں میں شامل واقعات و حالات، اشاروں، کنایوں اور کرداروں سے ابھرنے والے پیاموں کے چہرے روشن کرتی ہیں۔ وہ چہرے انسانوں کے چہرے ہیں، جن سے شہناز متعارف ہے۔ اس تعارف میں ربط کا اظہار بھی ہے، لیکن ذرا ذرا سے شائبوں کے ساتھ۔ وہ شائبے وضاحت اور صراحت سے ہم کنار ہیں۔ ان شائبوں کو لفظ نہیں، پس منظر کہا جائے گا۔ ہر پس منظر، ایک دریچے سے منسوب ہے، ہر دریچے میں کوئی نہ کوئی چہرہ ہے، جو خود کو زندگی کا نام دیتا ہے— وہ زندگی جو انسانوں کے سانسوں کے ساتھ ساتھ، جذبات، احساسات اور معاملاتِ دنیا سے مربوط ہے۔ وہی مربوط عنصرِ حیات، شہناز خانم عابدی کے افسانوی خاکوں کا عنصرِ احساس ہے۔
منظر اور پس منظر خیالی نہیں، حقیقی ہیں کہ بطورِ خاص انسانی زندگی— عدم، وجود، عدم، وجود— کے باعث، حقیقت کے درجے پر فائز ہے۔ اس درجے میں فراز بھی ہیں اور نشیب بھی، راستے بھی ہیں اور سراب بھی، دوری بھی ہے اور قرب بھی۔ اس درجے میں کہیں پھول ہیں اور کہیں پتھر۔ وہ درجہ ایک باقاعدہ حقیقت ہونے کے ساتھ ساتھ خود کو افسانے کے مختلف النوع زاویوں ہی کا ایک فعال زاویہ کہتا ہے۔ وہ زاویہ افسانے کے ’’تصادم‘‘ کی وجہ کا اعلان کرتا ہے۔ یاد رہے کہ بیشتر افسانوں میں اعلانات واضح ہیں۔ اُن میں سوالات بھی نظر آتے ہیں، لیکن کسی ’’پھڈے‘‘ یا ’’گنجل‘‘ کے بغیر۔ کیوں؟ شہناز کے اسلوب میں ’’صاف گوئی‘‘ ہے۔ بہ الفاظِ دیگر وہ صاف گوئی قاری کو یہ باور کراتی ہے ’’شہناز خانم عابدی کے افسانے، وہ دریچے ہیں جن سے زندگی جھانکتی ہے۔‘‘
روایتی افسانوں میں کسی نہ کسی ’’تصادم‘‘ کی شمولیت ضروری ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر تصادم تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ۱۔ فرد بہ مقابلہ ذات۔ ۲۔ فرد بہ مقابلہ فرد اور ۳۔ فرد بہ مقابلہ معاشرہ۔ نیز روایتی افسانوں کا ایک خاص وصف یہ بھی ہے کہ تصادم کے حوالے سے سوالات کرنے کی دعوت دے۔ شہناز کے بعض افسانوں کا اختتام سوالات کرنے کی دعوت دینے کے بجائے قاری کے ذہن کو تصادم سے سمجھوتا کرنے اور اسے ایک حتمی نتیجہ مان لینے پر اکساتا ہے۔ یہ روش بھی روایتی افسانوں ہی کی ایک طرزِ تحریر ہے۔ یوں کہیے کہ اس افسانہ نگار نے دو باقاعدہ روشوں سے ضرورتاً استفادہ کیا ہے، کامیابی کے ساتھ۔
مامون ایمن
شہناز خانم عابدی ایک عرصے سے کہانیاں لکھ رہی ہیں، وہ کہانیاں چپ چاپ ادبی رسالوں میں چھپ جاتی ہیں۔ پبلک ریلشننگ کا کوئی ہنگامہ کیے بغیر ادب کی خاموش خدمت گار کی طرح شہناز خانم عابدی نے اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے۔ ’’خواب کا رشتہ‘‘ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے، اس میں سترہ افسانے شامل ہیں۔افسانہ ’’خواب کا رشتہ‘‘ جس کے نام پر کتاب کا نام بھی رکھا گیا ہے، بلاشبہ حاصلِ کتاب ہے۔
حیدر قریشی
شہناز خانم عابدی ذہنِ رسا کی مالک ہیں اور اُن کے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ ان کے افسانے پڑھ کر لگتا ہے کہ انھیں افسانے لکھنے کے لیے بہت زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی ہوگی۔ اس لیے کہ اپنے موضوع اور اس کے بیان پر انھیں پوری قدرت حاصل ہے۔ افسانے ان کے پاس ڈھلے ڈھلائے آتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ فن پر بہت محنت کرتی ہوں اور پوری ریاضت کے بعد قلم اٹھاتی ہوں۔ لیکن یہ ساری محنت اور ریاضت کہیں پس منظر میں رہتی ہے۔ اظہار کی سطح پر تو ہمیں صاف ستھرا اور ڈھلا ڈھلایا افسانہ نظر آتا ہے۔ جو فن کار اور اس کے فن کی کامیابی اور مہارت کا ثبوت ہوتا ہے۔
جہاں تک زبان و بیاں کا تعلق ہے، وہ بہت خوب ہے۔ سادہ اور آسان زبان ایک بڑی خوبی ہے جوشہناز خانم عابدی کے ہاں موجود ہے۔ ان کے افسانے ہماری روز مرہ زندگی میں ہونے والے حادثات اور واقعات کا احاطہ کرتے ہیں جیسے ’’سیٹھ‘‘، ’’رانی‘‘، ’’بدا کرنا جو تھا‘‘ وغیرہ۔ اسی طرح چوں کہ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں، اس لیے وہاں کے پس منظر میں بھی انھوں نے نہایت خوبی سے کہانیاں لکھی ہیں جیسے ’’نیاگرا‘‘ اور ’’جنجال‘‘ وغیرہ۔ شہناز خانم کے افسانوں میں سماجی رنگ کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی حد تک مقصدیت بھی نظر آتی ہے۔ لیکن مقصدیت ان کے افسانوں کو سماج سدھار تقریر یا اصلاحی بیان نہیں بناتی۔ اصل میں شہناز خانم عابدی کسی نظریے کی علم بردار یا کسی اصلاحی تحریک کی نمائندہ نہیں ہیں۔ انھیں تو انسانوں اور ان کے مسائل سے سروکار ہے۔ اسی لیے وہ اپنے افسانوں میں اپنی مقصدیت کو اس طرح پیشِ نظر نہیں رکھتیں کہ فن ہی قربان ہو جائے اور صرف مقصد ہی مقصد رہ جائے۔ مقصد اُن کے ہاں سطح پر نہیں ہوتا بلکہ بین السطور میں ہوتا ہے۔ گویا کونین کی گولی کو شکر میں لپیٹ دیا گیا ہو۔ شہناز خانم کو کہانی کہنے کا فن بخوبی آتا ہے۔ ان کی کہانیوں میں دل چسپی بھی ہے اور جاذبیت بھی۔ خدا ان کے قلم کو اور طاقت دے۔ آمین
پروفیسر رئیس فاطمہ
شہناز خانم عابدی سے میری تمام تر شناسائی اس کے افسانوں کے توسط سے ہے جنھیں پڑھ کر میں اعتماد سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ یہ افسانے ایک پڑھی لکھی اور مہذب تخلیق کار کے تحریر کردہ ہیں۔ روانی اور سلاست اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں، ایک چیز جس نے مجھے شہناز خانم عابدی کے افسانوں پر اظہارِ خیال کے لیے اکسایا، وہ ہے ان کا سنجیدہ مطالعہ اور گہرا مشاہدہ جو جگہ جگہ اپنا آپ دکھاتا اور منواتا ہے۔ یہ اگر پہلی اڑان ہے تو بہت بھرپور ہے جس کا اعتراف ہر صاحبِ ذوق کو کھلے دل سے کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر یوگندر بہل تشنہ
میرے پیشِ نظر شہناز خانم عابدی کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’خواب کا رشتہ‘‘ ہے۔ کتاب کا ’’پیش لفظ‘‘ پڑھا۔ فکشن جس میں داستان، قصہ، افسانہ، ناول اور ڈراما شامل ہے، کم از کم میں تو یہی سمجھتا ہوں کیوں کہ ان میں ماجرائیت، کردار نگاری، منظرنگاری اور چلتی پھرتی زندگی کی کرشمہ سازیاں قدرِ مشترک ہیں، مصنفہ کو ادب کے اس شعبے کی قوت، اثر پذیری اور سچائی کو تسلیم کرتے ہوئے پایا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ انھوں نے موضوع کی اہمیت کو مانا اور اس کی اثر آفرینی کے ساتھ ساتھ اس کے معرضِ وجود میں آنے کی فعالیت اور تخلیقیت کی پرسراریت اور اصرار انگیزی کو بھی تسلیم کیا ہے۔ اہم موضوع کے اصرارِ تخلیقی کے ساتھ اگر قلم کار کا اسلوب اور لفظیات ہم آہنگ ہو کر مستعد ہو جائیں توتخلیق کار اس پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ قرطاس و قلم لے کر بیٹھ جائے یا کمپیوٹر آن کر لے اور تجربے یا خیال یا موضوع کو ٹھوس پیکر میں ڈھال دے۔
اس میں دو رائیں نہیں کہ موضوع ہمیشہ نیا نہیں ہوتا مگر پرانے موضوع کو نئے زاویے، نئی تکنیک، شاداب اسلوبیات کی چاشنی، کرداری تنوع اور ماحول آشنائی کی بوقلمونی کے ذریعے نیا بنا لیا جاتا ہے۔ یہی قلم کاری بھی ہے اور فن کاری بھی۔ شہناز خانم ہوا سے لڑتے ہوئے تازہ کاری کے اڑتے ہوئے دامن کو بار بار چھوتی ہوئی ملتی ہیں۔ ان کی جستجوے تازگی ان کے فن کے لیے بھی پرکشش ثابت ہوئی ہے اور قارئین کے لیے بھی مقناطیسیت کی حامل ہے۔
شفیق احمد شفیق
کتاب کو نہایت دل چسپی سے پڑھا بلکہ کتاب نے خود مجھے اپنی گرفت میں لے لیا۔ خوب صورت افسانے ہیں، دل فریب منظر کشی ہے اور اس کا پڑھنا سہل ہے جو اعصاب کو ایک گونہ سکون دیتا ہے۔ دوسرا افسانہ ’’خواب کا رشتہ‘‘ ہی قاری کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ آپ کا اندازِ بیاں خوب ہے۔ اس قسم کی پراسراریت لیے افسانے کبھی حجاب امتیاز علی تاج لکھا کرتی تھیں۔ مجھے سب سے زیادہ آپ کا افسانہ ’’نیاگرا‘‘پسند آیا۔ ایک تو اس میں جذبات کی شدید ترجمانی کی گئی ہے، دوسرے الزائیمر پر آپ نے ایک خوب صورت کہانی کی بنیاد کھڑی کی ہے۔ اس کی ایک اچھائی یہ بھی ہے کہ شروع میں قاری کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس کا اختتام کیسے ہوگا۔ اس کے علاوہ مجھے ذاتی طور پر یہ افسانہ اس لیے بھی زیادہ اچھا لگا کہ جن علاقوں کی آپ نے منظر کشی کی ہے (اور خوب خوب کی ہے) میں ان علاقوں میں رہا ہوں۔ اس کو پڑھ کر وہ مناظر آنکھوں میں دوبارہ زندہ ہو اٹھے۔ میں نے اپنی امریکی زندگی کی ابتدا ڈیٹرائیٹ سے کی تھی پھر شکاگو میں دس سال گزارے۔ ان دنوں کینیڈا آنا جانا خوب رہا۔ درجنوں دفعہ ٹورانٹو اور نیاگرا فالز گیا اور مانٹریال بھی جانا ہوا۔
باقی افسانے بھی پرکشش ہیں۔
ڈاکٹر فیروز عالم
شہناز خانم عابدی ایک باخبر اور اہلِ نظر خاتون ہیں۔ اس بات کا ثبوت ہمیں اس مجموعے کے ہر ایک افسانے سے مل جاتا ہے۔ انھوں نے افسانہ لکھنے کے لیے جن موضوعات کا انتخاب کیا ہے، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ کوئی گوشہ گیر اور اپنی ذات میں سمٹی ہوئی خاتون نہیں ہیں بلکہ کھلی آنکھوں سے دنیا کو دیکھنے اور بیدار ذہن کے ساتھ اس کے بارے میں سوچنا ان کا معمول ہے۔ اسی لیے اُن کے ہاں ہمیں رنگ رنگ کے کردار اور الگ الگ موضوعات کے افسانے ملتے ہیں۔ وہ افسانوں کو اور زندگی کو اپنی ہی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور اپنے ہی ذہن سے ان کے بارے میں سوچتی ہیں۔ ان کا زاویۂ نگاہ ایسا ہے کہ وہ انسانوں کے اندر جھانک کر دیکھنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں اور ایسے حقائق کو آسانی سے پالیتی ہیں جو عام طور سے دیکھنے والوں کی نظر سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔ ان کے افسانوں کے اس مجموعے میں موضوعات کا جو تنوع اور کرداروں کی جو رنگا رنگی ہمارے مطالعے میں آتی ہے، اس کی تو ہم داد دیتے ہیں لیکن ایک اور چیز جس کو ہم محسوس کیے بغیر نہیں رہتے، وہ ان کے مشاہدے اور تخیل کا آپس میں ملاپ اور اس کے نتیجے میں بننے والی کہانی کا دل کش اسلوب ہے۔
بحیثیت افسانہ نگار انھوں نے خود کو کسی خاص چوکھٹے میں قید نہیں کیا ہے بلکہ زندگی کے وسیع میدان میں اُن کا فن اپنا اظہار کرتا ہے۔ اس لیے کہ وہ ایک انسان دوست فن کارہ ہیں اور افسانہ لکھنا ان کے لیے ایک فطری عمل ہے۔ آج کے دو بڑے افسانہ نگاروں انتظار حسین اور جوگندر پال نے انھیں کہانی کی بے ساختگی اور روانی پر دل کھول کر داد دی ہے۔ اتنے بڑے ادیبوں کی طرف سے یہ داد سند کا درجہ رکھتی ہے۔
کرن سنگھ
شہناز خانم عابدی ایک عرصے سے افسانے تحریر کر رہی ہیں۔ ’’خواب کا رشتہ‘‘ سترہ کہانیوں پر مشتمل کتابی شکل میں شائع ہونے والا ان کا پہلا افسانوں کا مجموعہ ہے۔ اکیس ویں صدی کے افسانہ نگاروں کا روپ وہ نہیں ہے جو گزشتہ صدی میں تھا۔ آج کل کے افسانہ نگاروں نے منظر کشی کے ماحول سے نکل کر حقیقت کی سنگلاخ زمین پر اپنے قدم جما دیے ہیں۔ شہناز خانم عابدی نے زندگی کے سانحات اور واقعات کو خلوصِ دل کے ساتھ سادہ اور بیانیہ انداز میں تحریر کیا ہے۔ ان کے افسانے زندگی کی جیتی جاگتی کیفیات کی نمائندگی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان افسانوں میں عورت کے جذبات، تأثرات اور جنسِ تانیث کی فوقیت کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔
شہناز خانم عابدی نے اپنے افسانوں میں تمثیلات پیش کی ہیں جو جیتی جاگتی حقیقتوں کی شکل میں ذہنوں میں داخل ہوتی ہیں۔ ایک دو افسانوں کے علاوہ سب ہی افسانوں میں خوبیاں اور معیار مضمر ہیں۔ کتاب غلطیوں سے پاک ہے۔ ہم امیدکرتے ہیں یہ کتاب تو ابتداے عشق ہے، یہ ہی کتاب دو تین اشاعت کے مراحل طے کرے گی اور مزید افسانوں کے مجموعے زیرِ تحریر ہوں گے۔ میں جوگندر پال سے متفق ہوں۔ ’’مجھے یقین ہے کہ شہناز خانم عابدی اپنی اس نمایاں خوبی کی بدولت اردو کہانی میں اہم رول ادا کرے گی۔‘‘
صابر ارشاد عثمانی
’’خواب کا رشتہ‘‘ کے تمام افسانے اپنی جگہ خوب بلکہ خوب تر ہیں۔ موضوعات کے چنائو اور ان کے بیان میں اس قدر سادگی اور سچائی محسوس ہوتی ہے کہ قاری خود کو ان کہانیوں کا کردار سمجھتے ہوئے کہانی کار کی انگلی تھامے اس کے ساتھ چلنے پر مجبور رہتا ہے۔
انوار شریف
شہناز خانم عابدی کے افسانوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کا ہر افسانہ مختلف ہے، اتنا مختلف کہ قاری کبھی بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ وہ کہانی پلاٹ اور کرداروں کو افسانے میں کس طرح ٹریٹ کرنے والی ہیں۔ اس طرح وہ ہر افسانے میں بالکل مختلف تکنیک استعمال کرکے قاری کی دل چسپی کو مہمیز کرتی ہیں۔
شہناز خانم عابدی نے اپنی کتاب ’’خواب کا رشتہ‘‘ میں اپنے قارئین کو بہت سے اچھے افسانے پڑھنے کو دیے ہیں۔ اس افسانوی مجموعے کی دنیا آپ کی ہماری دنیا ہے۔ اس دنیا میں بسے ہوئے لوگ بھی ہمارے اور آپ کے جیسے ہیں۔ یہ ایک زوال پذیر معاشرے کی پیداوار ہیں اور افسانہ نگار نے اپنے برے سے برے کردار کے لیے ’’نفرت‘‘ کے جذبات کو کھلی چھٹی نہیں دی ہے۔ یہ احساس ہمیشہ باقی رکھا ہے کہ اقدار سے تہی معاشرے میں ایسے لوگوں کا وجود قرینِ قیاس ہے۔
ان کرداروں میں جو منفی عناصر ملتے ہیں وہ خلقی اور وہبی (God given) نہیں بلکہ معاشرے کی دین ہیں۔ اسی معاشرے میں، اسی دنیا میں مثبت عناصر کے حامل لوگ بھی موجود ہیں خواہ کیسا بھی معاشرہ ہو، کیسی ہی دنیا ہو، قدرت کا دستور ہے جہاں شر ہو تو وہاں خیر بھی موجود ہوتی ہے۔ ان افسانوں کے بارے میں یہ حکم نہیں لگایا جاسکتا کہ ہر افسانہ اس انصاف کا مظہر ہے جس کو شاعرانہ انصاف (Poetic justice) کہا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو میں ان افسانوں کے معیار سے ہرگز مطمئن نہیں ہوتا۔ ہر افسانے میں جو وقوعہ اور اس کا انجام دکھایا گیا ہے، وہ اس افسانے سے جڑا ہوا ہے بالکل اسی طرح جس طرح حقیقی زندگی میں ہوتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے: افسانہ حقیقی زندگی کی عکاسی ہی نہیں تفسیر بھی ہوتا ہے۔
شہناز خانم عابدی کے افسانوں کی بڑائی اس امر میں مضمر ہے کہ یہ افسانے عصری ہوتے ہوئے آفاقی بھی ہیں۔یہ آفاقیت افسانہ نگار کی فکر سے ہم رشتہ ہے۔
سہیل جاوید