پہلا سوال: کیا خبر واحد حجت ہے یعنی موجب عمل ہے یا نہیں؟ یعنی مجموعہ احادیث جو اس وقت بخاری اور مسلم وغیرہ میں موجود ہے یہ احادیث حجت ہیں یا نہیں؟
جواب: ہاں خبر واحد حجت ہے اور موجبِ عمل ہے۔
ثبوت: اگر خبر واحد موجبِ عمل نہ ہو گی تو نظام عالم درہم برہم ہو جائے گا۔ لیکن نظام عالم باقی ہے، قائم ہے۔ لہذا خبر واحد یعنی حدیث حجت ہے اور موجب عمل ہے اور حدیث پر عمل کرنا واجب ہے۔
خبرِ واحد کے حجت ہونے کے دلائل
پہلی دلیل: اب اس بات کا ثبوت کہ اگر خبرِ واحد حجت اور موجب عمل نہ ہو گی تو نظامِ عالَم درہم برہم ہو جائے گا، یہ ہے کہ انسان مدنی الطبع ہے یعنی اپنی زندگی باقی رکھنے میں دوسروں کا محتاج ہے اور اس احتیاج کو رفع کرنا اور دفعہ کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ وہ اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کا دوسروں پر اظہار کرے۔ اور اظہار کا طریقہ یعنی ما فی الضمیر کا اظہار پوری طرح صرف خبر اور حکایت ہی کے ذریعہ ہو سکتا ہے تو گویا انسان کی زندگی خبر اور حکایت پر ہی موقوف ہے۔
خبر متواتر: خبر کی دو قسمیں ہیں؛ ایک تو خبر متواتر جو یقینی ہے، جیسے کہا جائے کہ قاہرہ، دمشق، مکہ وغیرہ یہ شہر ہیں تو جن لوگوں نے ان کو نہیں دیکھا ان کو بھی یہ خبر متواتر ان کے شہر ہونے کا ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ ان کے دیکھنے والوں کو ان کے شہر ہونے کا یقین ہے۔
خبرِ واحد: خبر کی دوسری قسم خبر غیر متواتر یعنی جو خبر متواتر نہیں ہے اس کو ’خبر واحد‘ کہا جاتا ہے۔ اور ہماری مراد واحد کی خبر سے وہ خبر ہے جو متواتر نہ ہو۔ بہر حال چونکہ انسان کی زندگی کا دارومدار خبر پر ہے اور خبر یا متواتر ہے یا غیر متواتر۔
خبر متواتر پر ہر عمل دشوار بلکہ تقریباً محال ہے، کیونکہ خبر متواتر اس خبر کو کہتے ہیں کہ اتنی کثیر جماعت کہ جس کا جھوٹ پر متفق ہونا عقلاً محال ہو۔ وہ واقعہ کو محسوس کرے یا مشاہدہ کرے پھر دوسروں کے سامنے اس طرح نقل کرے کہ اس کی تعداد کم نہ ہونے پائے تو ایسی خبر کا تحقق انسان کے اعمال میں تقریباً محال ہے۔ تو لابُد انسان کے عمل کرنے کے لئے صرف غیر متواتر یعنی خبرِ واحد ہی موجب ہو سکتی ہے، لہذا اگر خبرِ واحد موجبِ عمل نہ ہو گی تو اعمالِ انسانی کا خاتمہ ہو جائے گا اور نظام درہم برہم ہو جائے گا۔
پہلی دلیل: اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان عمل کرنے میں خبر کا محتاج ہے اور خبرِ متواتر جو یقینی اور قطعی ہے اس کا تحقق دشوار بلکہ تقریباً محال ہے، تو لابُد خبر واحد جو غیر یقینی اور ظنی ہے وہی موجب عمل ہو گی۔ مثلاً ایک شخص نے ایک شخص کو منع کیا کہ آگے نہ بڑھنا دیوار گرنے والی ہے، اب اگر وہ کہے کہ تیری خبر تجھے اکیلے کی ہے یعنی خبرِ واحد ہے اور خبرِ واحد ظنی ہے اور میں تو یقین پر عمل کروں گا۔ اور یقین حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ دیوار کے گرنے کا مشاہدہ یا احساس جمِ غفیر اور ایسی کثیر جماعت نہ کرے جس کا جھوٹ پر متفق ہونا عقلاً محال ہو، ایسی جماعتِ کثیرہ کا تحقق اس وقت محال اور نا ممکن ہے۔ لہذا یقین تو حاصل ہونے سے رہا اور اس نے منع کرنے والے کی خبر پر عمل کیا نہیں اور آگے بڑھ گیا اور دیوار کے نیچے دب کر مر گیا، لہذا خبرِ واحد پر عمل نہ کرنا موجبِ ہلاکت ہو گیا۔
دوسری دلیل: فائدہ حاصل کرنے سے نقصان سے بچنا مقدم ہے۔ یعنی خبرِ واحد اگر واقعی میں نبی کا قول ہے تو اس پر عمل کر کے ترکِ عمل کے عذاب سے بچنا ہے اور اگر نبی کا قول نہیں ہے تو عمل کرنا بے فائدہ ہے۔ بہر حال عمل کرنے میں دفعِ مضرت ہے۔
تیسری دلیل: جب غور و فکر کر کے انسان اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ خبرِ واحد حجت نہیں ہے اور عمل کو واجب نہیں کرتی، تو اب قصد اس بات کا کرے گا کہ اس خبرِ واحد پر عمل ترک کرے۔ یعنی اب قصد ترکِ عمل کا ہو گا اور قصد ترک عمل بھی عمل ہے تو اس عمل کا موجب وہم ہو گا۔ یعنی خبرِ واحد پر عمل تو ظن اور راجح کی بنیاد پر ہوتا اور یہ ترکِ عمل ظن اور راجح کے مقابلہ کی چیز یعنی وہم اور مرجوح پر ہوا، تو جب کہ عمل و ہم جو ظن سے کمزور ہے اس پر روا ہو گیا۔ تو ظن جو وہم سے بہت قویٰ ہے اس پر بدرجہ اولیٰ ہونا چاہیئے۔
چوتھی دلیل: قول رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا قطعی ہونا عمل کو واجب کر رہا ہے اور عمل کے قطعی واجب ہونے کو حکمِ الٰہی ہونا لازم ہے۔ تو قولِ رسول کے ظنی ہونے کو حکمِ الٰہی کا ظنی ہونا لازم ہے اور حکم الٰہی کا ظنی ہونا قطعاً موجبِ عمل ہے، لہذا قولِ رسول جو ظنی ہے قطعاً موجبِ عمل ہو گیا۔
اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا وہ قول جس کا قطعاً علم ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہی کا قول ہے، اس قول پر قطعی عمل واجب ہے اور عمل کا قطعی ہونا یہ بتا رہا ہے کہ یہ قطعی اللہ کا حکم ہے تو قولِ رسول کو حکم الٰہی ہونا لازم ہو گیا۔ یعنی قولِ رسول ملزوم ہے حکم الٰہی ہونا لازم ہے اور قولِ رسول کے ظنی ہونے کو حکمِ الٰہی کا ظنی ہونا لازم ہے اور حکمِ الٰہی کے ظنی ہونے کو قطعاً وجوب عمل لازم ہے۔ یعنی جب یہ علم ہو جائے کہ یہ اللہ کا ظناً حکم ہے، تو اس ظنی حکمِ الٰہی پر قطعاً عمل واجب ہے۔
پانچویں دلیل: رسول کا قطعی قول قطعی حکمِ الٰہی ہے اور قطعی واجب العمل ہے اور رسول کا ظنی قول ظنی حکمِ الٰہی ہے، اور ظنی حکمِ الٰہی بھی قطعی حکمِ الٰہی کی طرف واجب العمل ہے۔
اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ عمل کا واجب ہونا حکمِ الٰہی پر موقوف ہے خواہ وہ حکمِ الٰہی قطعی ہو یا ظنی ہو۔ جیسا کہ ظاہر قرآن پر عمل واجب ہے اور بیشتر آیات کی دلالت اپنے معنی پر ظنی ہے لیکن عمل واجب ہے۔ تو وجوبِ عمل کی عِلت صرف حکم الٰہی ہونا ثابت ہوئی، خواہ وہ حکمِ الٰہی قطعی طور پر معلوم ہو یا ظنی طور پر معلوم ہو ہر صورت میں قطعاً واجب العمل ہے۔ اور قرآن کی آیات کے ظنی ہونے کے یہ معنی ہیں کہ آیات کا جو مفہوم اور معنی مجتہد یا عالِم نے سمجھے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ کی مراد نہ ہو، اگرچہ آیات کا ثبوت قطعی ہے لیکن ان کی دلالت اپنے معنی پر ظنی ہے۔ تو جس طرح قطعی الثبوت ظنی الدلالت حکمِ الٰہی موجبِ عمل ہو گیا بالکل اسی طرح ظنی الثبوت ظنی الدلالت یعنی خبرِ واحد اور حدیثِ رسول موجبِ عمل ہو گیا اور کوئی فرق باقی نہ رہا۔
چھٹی دلیل: تمام صحابہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ خبرِ واحد حجت ہے اور اگر خبرِ واحد حجت نہ ہوتی تو صحابہ رضی اللہ عنہم خبرِ واحد پر عمل نہ کرتے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کیا:
لائمۃ من القریش
’امام قریش میں سے ہو گا۔‘
نَحنُ مَعَاشِرَالأَنبِیَاءِ لَا نُوثُ وَلَا نُورَثُ
’ہم انبیاء کی جماعت نہ وارث ہوتی ہے اور نہ کوئی دوسرا ان کا وارث ہوتا ہے۔‘
الانبیاء یدفنون حیث یموتون
’اور انبیاء جہاں فوت ہوتے ہیں وہیں دفن ہوتے ہیں۔‘
یہ تمام حدیثیں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیں اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے بالاجماع ان احادیث کو قبول کر لیا اور ان کا یہ اجماع ہم تک بالتواتر منقول ہے۔
ساتویں دلیل: تواتر سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ایک جو احکام کی تبلیغ کے لئے بھیجا، اگر خبرِ واحد حجت نہ ہوتی تو تبلیغ کا فائدہ حاصل نہ ہوتا بلکہ گمراہی حاصل ہوتی۔
آٹھویں دلیل: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمَا کَانَ المُؤمِنُونَ لِیَنفِرُوا کَآفَّۃً فَلَولَا نَفَرَ مِن کُلِّ فِرقَۃٍ مِّنہُم طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوا فِی الدِّینِ وَلِیُنذِرُوا قَومَہُم اِذَارَجَعُوۤا اِلَیہِم لَعَلَّہُم یَحذَرُونَ
(سورت التوبۃ 9 آیت 122)
’سب مومنوں کو نہیں چاہیئے کہ وہ دین حاصل کرنے کے لئے رسول کی طرف کوچ کریں، پھر جتنے فرقے اپنی اپنی بستیوں میں تھے ان میں سے، ہر فرقہ کے ایک ایک طائفہ نے دین کو سمجھنے کے لئے کیوں نہیں کوچ کیا؟ تاکہ وہ دین کو سمجھ کر جب اپنے وطن لوٹتا تو اپنی قوم کو ڈراتا اور وہ یعنی اس کی قوم والے ڈرتے۔‘
’’فرقہ‘‘ کا لفظ تین پر بولا جاتا ہے، یعنی کم از کم تین پر بولا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واجب کیا کہ ہر ’’فرقہ‘‘ یعنی ہر تین میں سے ایک طائفہ نکلتا اور تین میں سے جو نکلیں گے وہ یا تو دو ہوں گے یا ایک ہو گا، تو طائفہ یا ایک ہے یا دو ہیں۔ بہرحال اس طائفہ کے ڈرانے یعنی اس طائفہ کے خبر دینے پر عمل کو واجب کیا۔ یعنی جب یہ طائفہ اپنے وطن کو لوٹ کر جائے اور اپنی قوم کو ڈرائے اور خبر دے تو اس کی قوم کو اس طائفہ کی خبر پر عمل کرنا واجب ہے۔
آیت کا حاصل یہ ہے کہ یہ طائفہ تفقہ فی الدین کے لئے کوچ کرے، پھر تفقہ حاصل کر کے اپنے وطن جب لوٹے تو اپنی قوم کو ڈرائے یعنی خبر دے، اور خبر دار کر دے کہ اے قوم! رسول کی نافرمانی اور مخالفت سے ڈرو! اور اس کی قوم پر واجب ہے کہ وہ اس طائفہ کے ڈراوے کی خبر سُن کر ڈرے اور اس طائفہ کی خبر پر عمل کرے۔ چونکہ طائفہ ایک کو اور دو کو شامل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ المُؤمِنِینَ اقتَتَلُوا فَأَصلِحُوا بَینَہُمَا
(سورت الحجرات 49 آیت 9)
’اگر مسلمانوں کے دو طائفے لڑیں تو ان میں صلح کراؤ۔‘
اور صلح جس طرح دو بڑی جماعتوں کی لڑائی میں واجب ہے، اسی طرح دو فردوں کی لڑائی میں بھی واجب ہے۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ ایک فرد بھی طائفہ ہے، لہذا طائفہ کا اطلاق ایک اور دو پر بھی صحیح ہے اور طائفے کے ڈراوے پر اور ڈرانے کی خبر پر جب اللہ تعالیٰ نے عمل واجب قرار دیا۔ تو اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ قوم کے لئے خبرِ واحد شرعاً حجت ہے، یعنی اللہ نے واحد کی خبر کو قوم کے لئے حجت قرار دیا۔
نویں دلیل: اعمال حرکات و سکنات کو کہتے ہیں اور حرکات و سکنات لامحدود ہیں یعنی کسی حد پر نہیں ٹھیرتے یعنی انسان بے شمار عمل کرتا ہے۔ نیز عمل حالات کے اختلاف سے مختلف ہوتے ہیں اور عمل مختلف احوال میں مختلف احکام چاہتا ہے، لہذا احکام لا انتہا یعنی بے شمار ہو گئے۔ اور نصوصِ قرآنی جو موجبِ احکام ہیں وہ محدود ہیں، لہذا اگر نصوصِ قرآنی پر عمل کیا جائے گا تو بیشتر اعمال بے احکام کے رہ جائیں گے۔ یعنی بہت سے ایسے اعمال ہوں گے جن کی حرمت عِلتِ جواز اور عدم جواز کے لئے کوئی ثبوت قرآن سے نہیں مل سکے گا اور اس وقت انسان کی زندگی ان اعمال کی موجودگی میں بیکار اور لغو ہو گی۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَفَحَسِبتُم اَنَّمَا خَلَقنٰکُم عَبَثًا
(سورت المومنون 23 آیت 115)
’کیا تم یہ سمجھے ہوئے ہوں کہ ہم نے تم کو بکار بنایا ہے۔‘
اب اگر حدیث پر عمل نہ ہو گا اور خبر واحد پر عمل نہ ہو گا تو انسان کی بیشتر خلقت عبث ہو جائے گی، لہذا حدیث پر عمل واجب اور ضروری ہے۔
دسویں دلیل: جھوٹی حدیث وضع کرنی حدیث کے حجت ہونے کی حجت ہے۔ یعنی جعلی سکّہ جب ہی ڈھالا جائے گا جب کہ ٹکسالی سکّہ چالو ہو اور جب کہ اصلی سکّہ چالو نہ ہو، تو جعلی بنانا بالکل بے سود ہو گا، چونکہ حدیث کی حجیت چالو تھی اس لئے جعلی حدیث وضع کی گئی۔ اگر حدیث کی حجت تمام مسلمانوں میں چالو نہ ہوتی تو وضاعین کو جعلی اور نقلی حدیث کے وضع کرنے سے کوئی فائدہ ہی نہ ہوتا۔
گیارہویں دلیل: اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے:
وَجَآءَ رَجُلٌ مِّن اَقصَا المَدِینَۃِ یَسعیٰ قَالَ یٰمُوسٰۤی اِنَّ المَلَاَ یَاتَمِرُونَ بِکَ لِیَقتُلُوکَ فَاخرُج اِنِّی لَکَ مِنَ النّٰصِحِینَ
(سورت القصص آیت 20)
’ایک شخص شہر کے پَرلے کنارے سے دوڑتا ہوا آیا اور کہا، اے موسیٰ! اہل دربار تیرے قتل کرنے کا مشورہ کر رہے ہیں، سو تو نکل جا میں تیرا خیر خواہ ہوں۔‘
اگر واحد کی خبر قابل قبول اور موجبِ عمل نہ ہوتی تو موسیٰ علیہ السلام اس کی خبر سے باہر نہ جاتے۔ اور اس طرح جب عورت بلانے آئی تھی اور اس نے کہا تھا:
اِنَّ اَبِی یَدعُوکَ لِیَجزِیَکَ اَجرَ مَا سَقَیتَ لَنَا
(سورت القصص 28 آیت 25)
’میرا باپ تجھ کو بلاتا ہے تاکہ تجھ کو پانی پلانے کا بدلہ دیوے۔‘
اس ایک عورت کی خبر اگر قابلِ قبول نہ ہوتی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے ساتھ نہ جاتے۔ پھر جب اس عورت کے باپ کے پاس پہنچے اور ان سے سارا واقعہ بیان کیا، تو اس عورت کا باپ یہ نہ کہتا کہ فکر نہ کر تو ظالم لوگوں سے بچ نکلا۔ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت شعیب علیہ السلام سے سارا واقعہ بیان کیا اور انہوں نے ان کی خبر سُن کر تصدیق کی اور ان کو مطمئن کیا اور فرعون والوں کو ظالم قرار دیا۔ تو اگر خبرِ واحد قابلِ قبول نہ ہوتی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام جو ابھی نبی نہیں ہوئے تھے ان کی خبر کو حضرت شعیب علیہ السلام قبول نہ کرتے۔ اور اسی طرح فرعون والوں میں سے جو مومن مرد اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھتا تھا، اس نے کہا:
وَقَالَ الَّذِیۤ اٰمَنَ یٰقَومِ اتَّبِعُونِ اَہدِکُم سَبِیلَ الرَّشَادِ
(سورت المومن 40 آیت 38)
’اے میری قوم! میری پیروی کر، میں تم کو بھلائی کا راستہ دکھلاتا ہوں۔‘
اس ایک شخص کی اتباع ہدایت ہے، اگر اس کی اتباع اس کا قول قابلِ قبول نہ ہوتا تو کس طرح سیدھے راستے کی ہدایت ہو سکتا تھا؟ پھر اس شخص نے کہا:
فَسَتَذکُرُونَ مَاۤ اَقُولُ لَکُم
(سورت المومن 40 آیت 44)
’عنقریب تم کو میرا کہنا اور میرا قول یاد آئے گا۔‘
تم میری بات یاد کرو گے، اگر اس کا قول حجت نہ ہوتا تو کیوں کر یاد آتا؟ اور اس کا قول حجت نہ ہوتا تو اس کے نہ ماننے سے آل فرعون کو عذاب نہ گھیرتا۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ خبرِ واحد قرآن کی رُو سے قابلِ قبول اور حجت ہے۔
بارہویں دلیل: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَجَآءَ مِن اَقصَا المَدِینَۃِ رَجُلٌ یَّسعیٰ
(سورت یٰس 36 آیت 20)
’شہر کے پَرلے نکڑ سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا۔
قَالَ یٰقَومِ اتَّبِعُوا المُرسَلِینَ
(سورت یٰس 36 آیت 20)
’اس نے کہا، اے میری قوم! رسولوں کی پیروی کرو۔‘
اگر اس شخص کا قول اس کی قوم پرحجت نہ ہوتا تو اس شخص کی نافرمانی پر اس کی قوم عذاب کی مستحق نہ ہوتی، اور عذاب کی ایک ہی چنگھاڑ میں وہ جل بجھ کر راکھ نہ ہو جاتی۔ اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ خبرِ واحد قرآن کی رُو سے حجت ہے۔
تیرہویں دلیل: اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
اِن جَآءَکُم فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۤا
(سورت الحجرات 49 آیت 6)
’اگر تمہارے پاس فاسق خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لو۔‘
اس سے صاف ظاہر ہے کہ فاسق کی خبر قابلِ تحقیق ہے نہ قابلِ ردّ۔ یعنی اگر عادل خبر لائے تو قبول کر لو، اگر فاسق خبر لائے تو بلا تحقیق قبول نہ کرو۔ یعنی فاسق کی خبر بھی قابلِ ردّ نہیں ہے بلکہ قابلِ تحقیق ہے، لہذا عادل کی خبر بغیر تحقیق قرآن کی رُو سے قابلِ قبول ہے۔
چودہویں دلیل: ’خبرِ واحد حجت نہیں ہے‘ یہ بات قرآن سے ثابت نہیں ہے۔ ’خبرِ واحد حجت ہے‘ یہ بات قرآن سے ثابت ہے، حدیث سے ثابت ہے، عقل سے ثابت ہے، اجماع سے ثابت ہے، تمام محدثین سے ثابت ہے، تمام مجتہدین سے ثابت ہے، تمام ائمہ محققین سے ثابت ہے۔ اب بتاؤ کہ جو بات کسی ذریعہ سے ثابت نہیں ہے، وہ قابلِ قبول ہے یا وہ بات جو ہر ذریعے سے ثابت ہے وہ قابلِ قبول ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلاَ تَقفُ مَا لَیسَ لَکَ بِہِ عِلمٌ
(سورت بنی اسرائیل 17 آیت 36)
’جس چیز کا علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو۔‘
لہذا یہ کہنا کہ خبرِ واحد حجت نہیں ہے، یہ ایسی بات ہے کہ جس کا کسی ذریعہ سے علم نہیں ہے، اس لیے اس کے پیچھے نہ پڑنا چاہیئے۔
٭٭٭