(Last Updated On: )
آج کل جب وہ کارآمد مگر بدنما گاڑی جسے ٹانگہ کہتے ہیں، سیر کشمیر کے شائقین کو راولپنڈی سے سری نگر دو دن میں پہنچا دیتی ہے اور ملک کے ہر گوشہ سے راولپنڈی تک تیز رفتار ریل موجود ہے، کیونکر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شاہان مغلیہ سیر کشمیر کے لیے کیسی کیسی مشکلات اٹھاتے تھے۔ بہت سے لوگ جنھیں مناظر قدرت کی خوبیوں کی شناخت فطرتاً نصیب نہیں ہوئی مگر جو عہد اکبری کے شعرا کی نظمیں تعریف کشمیر میں پڑھ چکے ہیں، کشمیر پہنچ کر سوال کرتے ہیں کہ وہاں کون سی چیز ہے جس کی اس قدر تعریف کی جاتی تھی۔ اس سوال کے دو جواب ہیں۔ ایک تو یہ کہ اب بھی دیکھنے والے کے لیے وادی کشمیر وادئ جنت نظیر ہے، بشرطیکہ کوئی ہمت سے کام لے اور کوہ و دریا پھاندتا ہوا ملک کے اندرونی حصوں میں پہنچ جائے اور دوسرے یہ کہ جن شعرا نے تعریفیں لکھی ہیں وہ خود حسن قدرت کے دلدادہ ہونے کے علاوہ ایسے ساز و سامان کے ساتھ سفر کشمیر کرتے تھے کہ اس سفر کی ہر منزل ان کی شاعرانہ طبیعت کو گدگداتی ہوگی اور ہر قدم پر وہ اشعار آبدار انھیں سوجھتے ہوں گے جن کی بدولت کشمیر کو ایسی عالمگیر شہرت حاصل ہوئی ہے۔ میں نے اکبر نامہ ابو الفضل سے بعض اقتباسات کیے ہیں جو نہ صرف شائقین فن تاریخ کے لیے دلچسپ ہوں گے، بلکہ جن سے اس زمانہ کے شاہانہ دورہ کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آ جائے گا۔ اور یہ بھی معلوم ہو گا کہ خاندان مغلیہ کا وہ نامور تاجدار جو اپنی پائدار شہرت صفحہ تاریخ پر چھوڑ گیا ہے کس راستہ سے کشمیر گیا تھا اور کشمیر کا پرانا راستہ کون سا تھا۔ (ایڈیٹر مخزن)
عہد اکبری کو شروع ہوئے چونتیسواں برس تھا جب دربار( ) اکبری نے اس سیر کشمیر کا ارادہ کیا جس کا بیان آج لکھ رہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے لاہور سے کشمیر تک اس وقت نہ کوئی سڑک تیار تھی نہ شاہراہ موجود۔ راستے کا پتہ لگانا اور اسے صاف کر کے شاہی جلوس کے گزرنے کے قابل بنانا، یہ کام سفر مینا آگے آگے کرتے جاتے تھے اور جلوس شاہی پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔ جو مقامات راہ میں آتے تھے ان کے انتظام کی دیکھ بھال، وہاں کے عاملوں کا عزل و نصب یہ سب کام ساتھ ساتھ ہوتے جاتے تھے۔ کیا زمانہ تھا، کیسے سفر تھے اور کیسے مسافر۔ ابو الفضل کی روح کے حق میں دل سے دعا نکلتی ہے جس کا قلم معجز رقم اس سفر کی تصویر الفاظ میں کھینچ گیا ہے۔ لاہور سے روانگی ملاحظہ ہو:
“شب شانزدہم اُردی بہشت پس از سپری شدنِ دو ساعت و چہل و ہشت دقیقہ از آب راوی گزشتند و نزدیک سرائے مادھو سنگھ نزول ہمایوں شد۔ سہ ہزار سنگ تراشانِ کوہ کن و خارا شگافانِ فرہاد فن، دو ہزار بیلداران کار گزار بہ سرکردگیٔ قاسم خاں دستوری یافتند تانشیب و فراز ایں راہ شگرف را ہموار سازند۔ دریں منزل سیالکوٹ و برخے جا درتیولِ زین خاں کوکہ دادند۔ راجا بھگونت داس و راجا ٹوڈرمل و قلیج خاں را بدار الملک لاہور گذاشتند تا ہمگی مہمات بہ بہدید ایناں سر انجام یابد۔”
راوی سے پار ہوتے ہی پہلا پڑاؤ شاہدرہ تھا۔ وہاں سے ایمن آباد، ایمن آباد سے سوہدرہ۔ یہاں راجا رورا اس نواح کا ایک جاگیر دار ملاقات کے لیے حاضر ہوا اور علاوہ خلعت اور ایک سو ایک گھوڑے انعام پانے کے چند پرگنے اسے اور مل گئے۔
چوتھی منزل(١) کنار دریائے چناب پر تھی اور پانچویں سیالکوٹ کے مضافات میں جے پور کھیڑی اور بھنبر چھٹی اور ساتویں منزلیں ہوئیں۔ اب پہاڑی علاقہ شروع ہوا۔ بادشاہ گھوڑے پر اور کچھ پیادہ پہاڑ پر چڑھے۔
غازی کوٹ پر آٹھویں منزل ہوئی اور نویں راجوری پر۔ قاسم خاں نے پہلے ہی پہنچ کر خیمے لگا رکھے تھے؛ ان میں اُترے۔ یہاں مشکل کا سامنا تھا۔ آگے کئی راہیں نکلتی تھیں اور ہر ایک برف سے اٹی ہوئی۔ واقف کار آدمیوں کو راستہ ڈھونڈنے اور بہترین راستہ انتخاب کرنے کے لیے روانہ کر دیا۔ انہوں نے پیر پنجال کو پسند کیا اور ادھر کو چلے۔ آگے رتن پنجال کے قریب ایک موضع ہے تہتہ، وہاں آرام کیا۔ یہاں سے کشمیری زبان شروع ہوتی ہے۔ بادشاہ نے جب لوگوں کو یہاں کشمیری زبان بولتے سنا تو بولے: “ولایت ہا از یکدیگر بکوہ و دریا وہا موں و زباں جدا گردد”۔
اکبر کو جو چیز نہ صرف اپنے خاندان کے بادشاہوں سے بلکہ دنیا کے تاریخی لوگوں میں بیشتر سے ممتاز کرتی ہے، وہ اس کی وہ خداداد قوتِ ادراک ہے جس کی بدولت وہ ملک داری کی باریک سے باریک باتوں کو سمجھ جاتا تھا اور باوجود ذی علم نہ ہونے کے نہایت سلیس اور سادہ الفاظ میں ان باریکیوں کو ادا کر دیتا تھا۔ کون نہیں جانتا کہ زبان کی یگانگت بہت بڑا رشتۂ اتحاد اور زبان کی جدائی بہت بڑا ذریعہ علاحدگی ہے ۔ لیکن قدرتی جغرافی حدود کو جو ملکوں کے درمیان حد فاصل ہیں، زبان سے اور زبان کو کوہ و دریا و ہاموں سے بہ حیثیت حد فاصل ہونے کے تشبیہ دینا اسی کا حصہ تھا۔ کاش اہل ملک اس نکتہ پر اِس زمانے میں غور کریں اور خود اپنی تخریب کی کوشش نہ کریں۔ جہاں جہاں زبان کی علاحدگی کی کوشش ہو رہی ہے، ایک بڑی حد فاصل ایک قوم اور دوسری قوم میں اور ایک صوبہ اور دوسرے صوبہ میں کھڑی کی جا رہی ہے جو کوہ و دریا سے بڑھ کر علاحدہ کرنے والی ثابت ہو گی۔ اکبر کا حکیمانہ قول دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیااور میں نے چند الفاظ ایسےلکھ دیے ہیں جو گو مضمون موجودہ سے غیر متعلق ہیں مگر نہایت ضروری ہیں۔ اب احوال سفر کی طرف عود کیجیے۔
پیرم کل پر گیارھویں منزل ہوئی۔ ابو الفضل لکھتا ہے کہ نہایت دلکشا جگہ ہے اور آب و ہوا اور رنگا رنگ کے پھولوں میں بے مثال ہے۔ کیوں نہ ہو، کشمیر کا علاقہ شروع ہو گیا ہے۔ ایک سے ایک جگہ بڑھ کر آئے گی۔ بارھواں پڑاؤ بوشانہ تھا۔ اس کی مختصر تعریف یہ ہے “کوہ ہائے پُردخت و بسیار گل و چشمہائے جاں پرور”۔ یہاں پر لطیفہ ہوا۔ اب برفانی پہاڑ آنے لگے۔ بادشاہ کے ہندوستانی ہمراہی گھبرائے۔ نہ آگے جانے کی ہمت نہ پیچھے جانے کی جرأت۔ بادشاہ نے خود ان کو تسلی دی اور پیر پنجال کا پہاڑ ختم کر کے موضع دونیا میں پہنچے۔ اس تیرھویں منزل کی کیفیت ابو الفضل نے مختصر لفظوں میں یوں بیان کی ہے:
“از سختیٔ سرما سخن سراید۔ یا شگرفیٔ برف و سراسیمگیٔ ہندی نژاداں باز نماید۔ از بلندیٔ کریوہ حرف زند۔ یا داستانِ تنگیٔ راہ برگزارد۔ از نشیب و فراز ایں مرحلہ باز گوید۔ یا از چشمہ و درخت و گُل برنویسد۔”
اب پہاڑ کے ندی نالوں کی بہتات کی یہ حالت تھی کہ ایک منزل میں چوالیس پُل گزرنے پڑے۔ ہیرہ پور پر قیام ہوا۔ مرزا یوسف خاں نے اس مقام کو خیمہ و خرگاہ سے آراستہ کر رکھا تھا۔ یہاں سب نے آرام کیا۔ یوں تو بھنبر سے چل کر جو جگہ رستے میں پڑی، سفر کی سختی کے لحاظ سے ایک سے ایک دشوار اور خوبصورتی کے لحاظ سے ایک سے ایک دلاویز مگر ہیرہ پور پہنچ کر عجیب حالت ہوئی۔ میں ترجمہ کر کے فارسی عبارت کا لطف کیوں گھٹاؤں۔ ابو الفضل سے ہی سن لیجیے:
“از نیرنگئ درخت زار و شگفتگیٔ گلہا و شگرفیٔ ہوا و نغمہ سرائی آبشار ہا زماں زماں حیرت می افزود۔ وآزردگیٔ راہ را از دل می برد۔ لیکن امروز کہ از کوہستان بدشت گزارشد، شگفت نمائشے کرد۔ جہانے دیگر پدید آمد۔ ونو بہشتے نقاب از رو بر گرفت۔ عادتیانِ سبب بیں را محنت راہ یکبارگی فراموش شد و ژرف نگاہانِ خدا پرست بہ خرمئ دیگر شدند۔”
پندرھواں مقام جس کا نام اس مختصر سفر نامہ میں درج ہے سری نگر ہے۔ پچیسویں ماہ خرداد کو سری نگر پہنچے۔ سری نگر کے مقامات گو اب بھی خوشنما ہیں مگر خاص شہر اب سیاح کے دل پر عموماً بہت اچھا نقش نہیں چھوڑتا۔ اس وقت شہر زیادہ خوش رنگ اور باشندے زیادہ خوش حال اور خوش مذاق ہوں گےکہ ابو الفضل لکھتا ہے:
“سری نگر بزرگ شہرے است بہ دراز آباد۔ رودبار بہت (جہلم) ازمیان آں برگزرد۔ و در آں بیشترچو بیں کا خہا تا بہ پنج آشیانہ برسا زند و برفراز بامہا لالہ و رنگا رنگ گل بکا رند۔ و در بہاراں رشک افزائے گلستاں گردد۔”
ابو الفضل نے جو سحر نثر میں کیا ہے، وہی جادو بیانی اس کا بھائی فیضی نظم میں کرتا ہے۔ اس کے قصیدے کے یہ شعر کشمیر کی شان میں نہایت مشہور ہیں:
ہزار قافلہ عیش میکند شبگیر
درد بجائے گیا زعفراں ہمی روید
زمینِ او چو دل بے غماں طرب خیز است
کہ بار عیش کشاید بہ عرصۂ کشمیر
کہ آب و خاکِ طرب را چنیں بود تاثیر
سپہر کردہ مگر خاکِ او بیادہ خمیر
سری نگر میں جاتے ہی جو چیز آج کل بھی سب سے نئی اور دلچسپ معلوم ہوتی ہے وہ وہاں کی متحرک آبادی ہے جو کوٹھی نما کشتیوں میں رہتی ہے، جنھیں انگریزی میں “ہوس بوٹ” کہتے ہیں۔ جب تک جی چاہا ایک جگہ ٹھہرے، ذرا جی اکتایا کشتی کو آگے لے گئے۔ جن کشتیوں میں انگریز سیاح فروکش ہوتے ہیں، وہ نہایت آراستہ نظر آتی ہیں۔ چھت پھولوں کے گملوں سے سجی ہوتی ہے۔ شام کو ان آبی مکانوں کے خوش پوش مکین چھت پر کرسیاں بچھا کر بیٹھے ہوتے ہیں اور کشتیاں آہستہ آہستہ چلتی جاتی ہیں تو عجب بہار دیتی ہیں۔ مگر موجودہ حالت اور اس زمانہ کی حالت کا مقابلہ کرنے کے لیے ذرا تخیل سے مدد لیجیے۔ اب ایک وقت میں چند صد سے زیادہ ایسی کشتیاں سری نگر کے قریب نظر نہیں آتیں۔ اُس وقت کی رونق کا اندازہ اس سے کیجیے کہ ایک ہزار سے اوپر کشتی بادشاہ اور خاصان دربار کی موجود تھی۔ اور لوگوں کی کشتیوں کا تو شمار ہی نہیں۔ ابو الفضل لکھتا ہے:
“دریں ملک از سی ہزار کشتی افزوں است لیکن سزاوار نشیمن کشور خدائے نبود۔ کار آگہانِ خدمت گزار در کمتر فرصتے گزیں کاخہائے دریائی سر انجام نمودند۔ و گلزارے بر سطح دریا اساس نہا دند و نام آوران و نزدیکان نیز بہ بہین روشے آمادہ گردانیدند۔ افزوں از ہزار کشتی آراستہ شد و شہرستانے بر فراز دریا آبادی گرفت۔”
ان انتخابات میں مَیں نے فقط وہ حصے لیے ہیں جو غیر معمولی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر جزویات کا ذکر بھی کیا جاتا جو بجائے خود کم دلچسپ نہیں تو اس سے بہت زیادہ لکھا جا سکتا تھا۔ ان حالات کو پڑھ کر زبان سے اکبر کی عالی ہمتی کی بیساختہ داد نکلتی ہے اور عہد اکبری کی عظمت و شان کا ایک جلوہ عالمِ خیال میں نظر آجاتا ہے۔ مگر اس عظمت و شان کے ساتھ جو چیز اکبر کی پائدار ہر دلعزیزی کا باعث ہوئی، اس کا ذکر کیے بغیر اس مضمون کو ختم کرنا زیبا نہیں۔ رعیت کے آرام اور غریبوں کی حفاظت پر اس شہنشاہِ عادل اور اس کے فاضل وزرا کو اس قدر توجہ تھی کہ سری نگر میں پہنچتے ہی حکم دیا کہ شاہی لشکر کا کوئی شخص رعیت کے مکانوں میں نہ اُترے اور اپنی آسائش کا بند و بست آپ کرے۔ اور جب سب فرو کش ہوئے اور ہر طرح سے اطمینان ہوا تو خاص آدمی تعینات کیے گئے جو “پاسبانیٔ زیر دستاں و کاشتکاراں” میں کوشش کریں۔
(از رسالہ مخزن اپریل 1910ءجلد 19 نمبر1)