(Last Updated On: )
اگر ہر شہر اپنی ذات میں بغداد ہو جائے
یہ دنیا جابروں کے قہر سے آزاد ہو جائے
وہ ریگستاں جسے مؤ رخ بھی قاصر تھے جلانے سے
کہاں ممکن ہے تیری آگ سے برباد ہو جائے
کرشمہ دیکھئے اس کی خبر سازی کی صنعت کا
ستم احسان بن جائے، کرم بے داد ہو جائے
کہاں تک تجربہ پر تجربہ کرتے چلے جائیں
سبق وہ دو، ہمیشہ کے لیے جو یاد ہو جائے
اگر تقدیر سے اک خواب بھی سچا نکل آئے
تو اس دوران غم کی مختصر میعاد ہو جائے
ابھی اس شہر میں سچ بولنے کی رت نہیں آئی
تو اس پت جھڑ میں کوئی شعر ہی ارشاد ہو جائے
٭٭٭