(Last Updated On: )
بیچ سرزمین فردوس آئین ولایت روم کے ایک بادشاہ تھا سلیماں قدر فریدوں فر، جہاں بان دین پرور، رعیت نواز عدالت گستر، برآرندهٔ حاجات بستہ کاراں، بخشندهٔ مرادات امیدواراں، فرخندہ سِیَر نام کہ اشعۂ شوارق فضلِ ربانی کا اور شعشہ بوارق فیض سبحانی کا ہمیشہ اوپر لوح پیشانی اس کے لمعاں و نور افشاں رہتا لیکن شبستانِ عمر و دولت اس کے کا، فروغ شمع زندگانی کے سے کہ مقصد فرزند ارجمند سے ہے، روشنی نہ رکھتا تھا۔ اس سبب سے ہمیشہ غنچۂ خاطر اس کے کا بادِ سموم اس فکر دل خراش کے سے افسردہ رہتا اور اصلاً گلِ عشرت اس کے کا شدت صرصر اس غم و الم کے سے بہار شگفتگی کی نہ لاتا مگر ضرورتاََ بہ امید اس کے کہ شاید نقش بند خاطر طراز آفرینش کا دستیاری قلم قدرت کے سے شکل اولاد کی اوپر صفحۂ روزگار کے ثبت کرے، گاه گاه فرخنده سیر بیچ حریم حرم تعظیم کے کہ خاک پاک اس کے تئیں کحل الجواہر دیدهٔ قدسیاں کا کہا چاہیے، قدم رنجہ فرما کے سب پرده نشینانِ حریم حرمت اور ہودج گزینان تُتقِ عفت سے جو کوئی مقبول خاطر اشرف والا و پسند طبع ارفع و اعلی کے ہوتی، ساتھ اس کے داد معاشرت و داد طبع کی دیتا۔
قصہ کوتاہ ایک روز وہ خورشید برج خلافت کا بیچ آئینہ محل خاص سپہر اساس کے کہ فردوس بریں بھی تماشاے تعمیر اس کی سے عرق انفعال کا اوپر چہرہ کے کھینچے، ساتھ ایک بدر منیر اوج عصمت کے مانند ماہ و مشتری کے قِران السعدین تھا، اتفاقاً اس عرصہ میں نظر مبارک بادشاہ کی طرف ایک آئینہ کے کہ مقابل مکان عشرت گاہ کے نصب کیا تھا جا پڑی۔ جو سن شریف اس کا قریب پچاس سال کے پہنچا تھا وقت مشاہدہ جمال مہر تمثال اور معائنہ صورت حال اپنے کے دیکھتا کیا ہے کہ ایک موے سفید درمیان داڑھی سیاہ کے مانند سہیل ستارے کے بیچ آخر شب تاریک کے کہ واقعی اس نشان کے تئیں ختم عمر کا کہتے ہیں، نمودار ہوا:
پس دیکھتے ہی آنکھوں کو یرقاں سا ہو گیا
یھاں تک ہوا کہ ہو گیا ہر استخوان زرد
پر اس وقت وہ ابر نیساں آسمان عظمت و کرامت کا طوعاً و کرہاً موتی مقصود کے تئیں بیچ صدف آرزوے ملکہ حور لقا زیبا طلعت کے پُر کرکے بعد فراغت غسل کے اس مکان سے اٹھ کر طرف خانہ باغ کے متوجہ ہوا اور اپنے دل میں غور کیا کہ ہراول لشکر خزاں بہار عمر کا ساتھ فوج بے شمار گلریزی گلزار لطافت و توانائی کے شمشیر برہنہ موے سفید کی کہ برہم زنی صف جوانی کی ہے لے کر مقابل ہوا اور امید زندگانی بالکل منقطع ہوئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ باغبان قضا و قدر کے نے بیچ روز ازل کے گلشن تمناے دلی کے تئیں گلِ مراد سے رونق نہیں بخشی کہ بعد میرے حدیقہ سلطنت کے تئیں سرسبز کرکے بہار افزا ہوا۔ پس آج سے ترک لذت ہَوا و ہوس دنیوی کا کرکے بیچ ایک گوشۂ قناعت کے بیٹھا چاہیے اور اس آرزو کی حسرت میں ساتھ دلِ بِریاں و دیدۂ گریاں کے نہایت محزون و غمگیں ہو کر کبھی گرد کلفت کی اوپر دامن عشرت کے جھاڑ کر بے اختیاریِ ملال طبیعت کے سے ہر ساعت بند اس مسدس کے تئیں اوپر زبان کے لاتا:
کون ہے جس سے کہوں حال دل آزاری کا
باعثِ رقت جاں سوزِ دل افگاری کا
غم جو گذرے ہے مرے دل پہ بیاں کیا کیجے
درد بے طاقتی و رنج گرفتاری کا
سبب عاجزی و موجب لاچاری کا
پر جہاں بس نہ چلے، ہاے وہاں کیا کیجے
اور کبھو شبستان جمعیت دل کے تئیں آتشِ سراسیمگی و آشفتگی کے سے سوخت کرکے بے قراریِ تشویش خاطر کے سے دم بدم بند اس شعر کے تئیں پڑھنا شروع کرتا ؎
آہ حسرت مرے دل کی نہیں بر آتی ہے
قطع امید ہے اور یاس نظر آتی ہے
اس مصیبت کا بیاں کیجیے کس سے افسوس
مفت باتوں میں مری عمر چلی جاتی ہے
ہاے یہ زندگی کیا کیا مجھے دکھلاتی ہے
درد اس دل کا عیاں کیجیے کس سے افسوس
یہ کہتا ہوا خراماں خراماں مضطر و متفکر خفگی طبیعت کی سے سب کار پردازان کارگاہِ خلافت کے تئیں جواب مجرے کا فرما کے قدم فرماں روائی و جہانداری کا بیچ دامن قناعت کے کھینچ کر ایک گوشہ میں تنہا جا بیٹھا اور ساری حلاوت و مزه زندگانی کے سے تلخ کام ہو کے ارشاد فرمایا کہ ہرگز کوئی خویش و بے گانہ سے سواے خادمانِ درگاہ کے بیچ خلوت سراے بادشاہی کے باریاب نہ ہو اور اضطراب شدتِ رقت طبع کے سے مجنون دل، اندوه منزل اس کے کا بیچ خیال جمال لیلی کامرانی کے پڑھنے اس بند مخمس کے سے مشتغل تھا ؎
یا الٰہی! میں کہوں کس سیتی اپنا احوال
یا رب! اس رنج سے اب اس دل شیدا کوں نکال
تجھ سوا کون ہے، جس سے میں کہوں دل کا ملال
تیری ہی ذات سے رکھتا ہوں میں ہر دم یہ خیال
ساز آباد خدایا دل ویرانہ را
اس طور فرخنده سیر چند روز سیر تحیر کا اوپر زانوے تفکر کے رکھ کے متوجہ مہمات جہانگیری و معاملات مالی و ملکی کا نہ ہوا۔ اس صورت میں تخلّل عظیم بیچ ممالک محروسۂ سلطانی کے واقع ہوا اور ہر چہار طرف سے غبار فتنہ و فساد کے نیں درمیان اقلیم متصرفہ کے سر اٹھایا۔ جب بازار بے تسلطی و بے انتظامی کا سخت جوش پر آیا تب سب خیر اندیشان دولت عظمی و نیک سگالان صولت کبری کے کہ صفحۂ باطن کے تئیں حروف اعتقاد اور اخلاص کے سے مرتسم اور تختۂ پیشانی کے تئیں سجود بندگی و فرماں برداری کے سے مزین رکھتے تھے، بیچ دیوان خاص بادشاہی کے جمع ہو کے ہر ایک اشہب تیز گام زبان کے تئیں بیچ میدان تقریب اور تمہید کے جولاں کرتے تھے۔ آخرش پنجہ عروس مصلحت کا ساتھ حنا اس تجویز کے رنگیں ہوا کہ اگر خردمند نامی وزیر کہ ظہیر سلطنت ابد مدت و مشیر تدبیر مملکت قضا سطوت کا ہے، بیچ حضور اقدس خاقانی کے جا کے قفل سر بستہ اسرار نہانی، مزاج حضرت ظلِ سبحانی کے تئیں، کلید حسن قابلیت و فرزانگی سے وا کر کے مرکوزِ باطن تقدس مواطن و مكنونِ خاطر دریا مقاطر کا دریافت کرے، اغلب کہ باعث خلوت نشینی اور سبب گوشہ گزینی جناب مبارک خدیو کائنات کا بواقعی معلوم ہو۔ بعد ازاں تدبیر عقل و تردد و خرد کے سے واسطے حل کرنے اس مشکل کے کوشش فراواں و جہدِ نمایاں بیچ ظہور کے لا ویں۔
غرض کہ خردمند وزیر فرخنده سیر کا کہ افلاطوں باوصف اس کیاست اور فِراست کے خوشہ چین فطرت اس کی کا تھا اور ایام شہزادگی حضرت کے سے نقش عبودیت و فدویت اپنے کا منقوش خاطر ہمایوں کے رکھتا تھا، بہ موجب استصواب سب ارکان خلافت کے اور استقرار اس صلاح محمود العاقبت کے، واسطے مجرے ولیِ نعمت کے، اوپر در خلوت سراے شاہی کے آیا اور معرفت حاضران بارگاہِ عظمت و باریابانِ بساط قربت کے آداب بندگانہ بہ دستور خانہ زادان موروثی کے بیچ حضور لامع النور اقدس عالی کے عرض کر بھیجا۔ جو بادشاہ خردمند کے تئیں بہ نسبت اور مقربان درگاہ کے عمدہ محرمان راز و زبدہ مصاحبان دَم ساز کا جانتا تھا، حکم قضا توام واسطے حاضر کرنے، بیچ حضور پرنور کے صادر کیا۔ جب وزیر حسب الارشاد ہدایت بنیاد کے باریاب خلوت مقدس کا ہوا، دیکھتا کیا ہے کہ گل روے مبارک شہر یار کا مانند برگ خزاں کے مرجھا رہا ہے اور دریا آنسو کا چشمہ چشم کے سے جاری ہے۔ بہ مجرد ملاحظہ اس احوال کے خردمند نے جبین نیاز کی اوپر زمین ادب کے گھس کے زبان تحیت اور ثنا کی کھولی ؎
یا الٰہی یہ جو تیرا ہے چراغ دولت
تا قیامت رہے مسجود خلایق وہ جا
تا ابد اس سے منور رہے قندیل فلک
مسندِ جاہ کی تیری بچھے جس پر توشک
اور بعد تقدیم مراسم کورنش و تسلیم و مراتب تلثيم پایہ سریر سپہر تکریم کے بجا لا کے عرض کیا کہ آئینہ ضمیر خورشید تنویر قبلہ عالم کا زنگ تردد اور تفکر کے سے مکدر کیوں ہے؟ بادشاہ نیں نائرہ تاسف اور تحیر کا بیچ بھٹی سینہ کے مشتعل کرکے کہا:
کس سے میں کہوں دل کی گرفتاری کو یارب
جل جائے گی بلبل، مرے سینہ سے نہ لگ بیٹھ
کیا جانے وہ جس کو یہ سروکار نہ ہووے
یاں آگ کے شعلے ہیں، یہ گلزار نہ ہووے
وزیر کہ ہمدم و دلکشاے مجلس خاص کا اور محرم خلوت سراے وفا و اخلاص کا تھا ملتمس ہوا کہ حضرت جہاں پناہ سلامت! اگر غلام قدیم الخدمت کے جان و مال سے تصدق فرق مبارک کے ہے، لب بہ تحقیق رموز پنہانی کعبہ جہانی کے کھول کر دقیقہ یاب سرائر سلطانی کا نہ ہووے، پھر عقدہ کشاے اسرار خاطر قدسی کا کون ہوگا۔ امیدوار نوازشات خسروانہ عنایات بادشاہانہ کا ہوں کہ اس فدوی جان نثار کے تئیں مضمر ضمیر آفتاب کے سے مفصل ایما ہو کہ بندہ بھی درخور حوصلہ اپنے کے شرط نمک حلالی کی بجا لاوے۔
بادشاہ نے جو وزیر کے تئیں شریک رنج و راحت اپنے کا جانا، مطابق مضمون اس شعر کے ؎
حال دل کچھ کہا نہیں جاتا
آہ چپ بھی رہا نہیں جاتا
لاچار تمام باعث کلفت طبع مقدس کا مفصل ارشاد کیا اور فرمایا کہ اے رمز شناس عالم مزاج دانی کے جو منشی تقدیر کے نے بیچ سرنوشت میری کے حرف تولد فرزند کا نہیں لکھا اور ایام زیست کے قریب الانقضا ہیں کہ آئندہ توقع استحصال اس نعمت غیر مترقب کی پیش نہاد خاطر کے رکھتا، پس اب واسطے چند روز کے کیا ضرور ہے کہ اوقات اپنی کے تئیں بیچ کاروبار اس دار ناپائیدار کے صرف کروں۔ اس سے یہی بہتر ہے کہ ترک تعلق دنیوی اور تبدیل لباس کا کر کے درمیان صحراے لق و دق کے کہ جہاں بود و نشان انسان کا نہ ہو بیچ عبادت حضرت واجب الوجود کے مشغول ہوں اور آہ سرد دل پُر درد سے نکال کر پڑھنے لگا ؎
دل مرا درد سے نالاں نہ ہوا تھا، سو ہوا
اس قدر حال پریشاں نہ ہوا تھا، سو ہوا
اس تمنا میں مری چشم سے روتے روتے
یاں تلک اشک کا طوفاں نہ ہوا تھا، سو ہوا
وزیر کہ ذو الخِردان زمانہ کے سے گوے سبقت کی لے گیا تھا، ملاحظہ احوال کثیر الاختلال بادشاہ کے سے دل پر یہ ارادہ مصمم کیا کہ تمام مقدمہ سلطنت کا درہم برہم ہو کر ایک عالم تباہ ہو جائے گا اور ہر طرف سے مخالفان واقعہ طلب قابو فرصت کا غنیمت جان کے باعث ویرانی ممالک محروسۂ شاہی کے ہوں گے، پھر بقول اس شعر کے نوبت پہنچے گی ؎
چمن کے تخت پر جس دن شہ گل کا تجمل تھا
خزاں کے دن جو دیکھا کچھ نہ تھا جُز خار گلشن میں
ہزاراں بلبلاں کی فوج تھی اور شور تھا غل تھا
بتاتا باغباں رو رو یہاں غنچہ یہاں گل تھا
پس تقاضا دور اندیشی و خیر خواہی کا یہ ہے کہ کسو طور سے مزاج بادشاہ کے تئیں بر سر فسخ اس عزیمت کے لائے۔ بعد ایک ساعت کے متامل ہو کر بولا کہ اگر گستاخی و بے ادبی غلام کی معاف ہو تو کچھ عرض کرے۔ ارشاد ہوا کہ ہوں۔ خرد مند نے آداب بجالا کے عرض کیا کہ جہاں پناہ سلامت! دشت پیمائی شعار دوں ہمتان ناقص فہم کا ہے، نہ ضابطہ بادشاہان اولو العزم کا۔ اور واقعی یوں ہے کہ عبادت حضرت معبود حقیقی کی کچھ موقوف اوپر سیر کوہ بیاباں کے نہیں، شاید بیچ سمع مبارک کے یہ شعر نہیں پہنچا ؎
عابد و معبود ہیں تیرے ہی پاس اے بے خبر
کیوں ارادہ کر رہا ہے طوف بیت اللہ کا
اور جو خوامخواہ مزاج مقدس کے تئیں مصروف صحرا نوردی کے فرمائیے گا تو اولیٰ یقین خاطر اقدس کے رہے کہ یہ خرمن گروہ خلایق کا کہ بزرگان حضرت کے نیں ایک ایک خوشہ ہر متنفس کا واسطے حصول دانۂ ناموری کے جمع کیا ہے، ایک مرتبہ آتش ظلم مخالفاں قابو جو کی سے سب سوخت ہو جائے گا اور تمام محنت سالہا سال بادشاہان سلف کی یکلخت رائیگاں و برباد جائے گی، پھر بہ مقتضاے اہانت العبد اہانت المولی کے، تکلف بر طرف حرف بد نفسی کا صریح طرف حضرت کے ہے اور دویم یہ کہ جو کافہ رعایا کے تئیں ودیعت جناب احدیت و صمدیت کا کہتے ہیں ایزد سبحانہ و تعالی نے شاہان عظیم الشان کے تئیں واسطے حفاظت و حراست جمہور انام کےتعین کیا ہے اور ایک سر مُو ایذا لاحق حال اس فرقۂ غریب کے ہو تو روز دیوان حشر کے باز پرس اس کی گروہ قدسی شکوہ ان کے سے تعلق ہے۔ پس اس صورت میں عبادت بھی اثر قبولیت کا نہیں رکھتی کیونکہ توڑناں ایک دل کا برابر ڈھانے سو کنگرہ عرش کے ہے۔ بہ مضمون اس کے ؎
دل مت پٹک نظر سے کہ پایا نہ جائے گا
جوں اشک پھر زمین سے اٹھایا نہ جائے گا
کعبہ اگرچہ ٹوٹا تو کیا جاے غم ہے شیخ
یہ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا
مگر از راہ حق پسندی و منصف مزاجی کے جو عرض غلام کی پذیرائی طبع مقدس کے ہو، صلاح دولت یوں ہے کہ قبلۂ عالم دست دعا اوپر درگاہ حضرت مجیب الدعوات کے کہ دستگیر درماندگان کوے ناکامی کا و چارہ ساز بیچارگان عالم بے سر انجامی کا ہے، دراز کر کے اور ہر وقت منتظر فتوحات غیبی و فیوضات لاریبی کے رہ کے دن کے تئیں بیچ رتق و فتق مہمات سلطنت کے و نظم و نسق امورات نصفت و عدالت کے کہ انتظام و استحکام بناے خلق اللہ اس شغل خطیر سے منتظم و مستحکم ہے مشغول رہیں اور شب کے تئیں اوپر استفادہ پڑھنے درود و طواف مقابر متبرکہ بزرگان جنت نشیں کے واستفاضۂ زیارت جناب درویشان حق گزیں کے مزاج مبارک کے تئیں مصروف کرکے وجہ ہمت کا کریں۔ ان شاء اللہ تعالی برکت اس وسیلہ جمیلہ کے سے یقین ہے کہ شام ناکامی کی ساتھ صبح کامیابی کے تبدیل پا کے شاہد مراد کا، نقاب تمنا کے سے چہرہ کشا ہو اور ابواب بہجت و شادمانی کے اور اسباب مسرت و کامرانی کے اوپر روے روزگار فرخندہ آثار خسرو والا تبار کے ہر چہار طرف سے مفتوح ہوں۔ تس پر ہرچہ طبع مقدس اقتضا فرماوے، مبارک ہے۔
بادشاہ نے جو زر التماس وزیر کے تئیں اوپر محک راے زریں کے کسا معلوم کیا طلاے ناب اس کے کا بلا تشکیک کامل عیار کا ہے، عارض عرض معروض خرد مند کے تئیں ساتھ گلگونہ اجابت کے رونق بخشی اور مکان خلوت کے سے اٹھ کے اوپر تخت سلطنت و فرمانروائی کے جلوس فرمایا اور گلزار خلافت کے کہ بہ سبب باد سموم بے انتظامی و ہنگامہ پردازی کے ژولیدہ ہوئے تھے، سر نو سے ساتھ رشحات سحاب انتظام و تسلط کے سرسبز و شاداب ہو کے صدا نقارہ مبارکی و فرخی کی بیچ گنبد دوّار سپہر کے پہنچی اور صفیر نفیر تہنیت اور شادی کی بیچ شش جہت عالم کے بلند ہوئی ؎
دھوم ہے گھر گھر سبھوں کے، سب کے گھر میں شادیاں
عید کرتے ہیں سبھی دے دے مبارکبادیاں
یاس کی بیداد سے ویراں ہوا تھا ملک دل
پھر ہوئی امید کے عامل سیتی آبادیاں
بندہ ہاے فدوی خاص و فدویان عبودیت اساس مصدر مراحم و اختصاص بادشاہی کے ہو کے بدستور قدیم اپنے پایہ پر بیچ دربار معلی کے حاضر ہوئے اور پھر مجدداً بند و بست سلطنت قدر قدرت کے نیں یاں تلک رونق آراستگی کی پائی کہ طوطی نطق پرداز خلایق کی بیچ سبزہ زار رفاہت و آسودگی کے بے اختیار مطالعہ اس رباعی کے سے نغمہ سرا تھی ؎
ایواں میں عدالت کے تمھارے اے شاہ
کب جرم کو ہے راہ نعوذاً باللہ
شیشے کا اگر طاق سے رپٹے ہے پاؤں
پتھر سے نکلتی ہے صَدا بسم اللہ
قصہ کوتاہ اور عبارت مختصر آخرش بادشاہ بہ موجب صلاح خردمند وزیر کے کہ فی الواقعہ اظہار اس کا کنایہ پیش طاق دانش و آگاہی کا تھا، دن کو اوقات خجستہ آیات اپنے کے تئیں بیچ قبض و بسط مہمات مملکت کے مصروف رکھتا اور شب کے تئیں واسطے استسعاد زیارت مقابرۂ پیش قدمان معرکہ حقیقت کے و طواف جناب قافلہ سالاران شاہراہ شریعت کے تشریف فرماتا۔
ہوتے ہوتے عرصہ نو دس ماہ کا منقضی ہوا۔ اتفاقاً ایک مرتبہ بادشاہ موافق ضابطہ معہود کے دولت خانہ مبارک سے نکل کر وقت نصف شب کے تن تنہا طرف برآمدہ شہر کے متوجہ ہوا اور اس وقت ہواے تند نے ساتھ زور اور شور تمام کے کہ جس کے سراہٹے کے جھکور کے بیان سے باد پاے سخن کا لنگ ہو جاوے، چلنا شروع کیا۔ اس عرصہ میں فرخندہ سیر کے تئیں دور سے بفاصلہ فرسنگ کے ایک چراغ نظر آیا لیکن باوصف اشتداد باد صرصر کے زینہار اشتعالۂ چراغ کے تئیں سر مو حرکت نہ تھی۔ بادشاہ نے اول خیال کیا کہ طلسم شب یمانی کا ہوگا، یعنی اگر پھٹکری کو گرد فتیلۂ چراغ کے چھڑک دیجیے تو کیسی ہی ہوا چلے چراغ گل نہ ہو، بعد ازاں بقول اس مضمون کے مصر؏
چراغ مقبلاں ہرگز نمیرد
ملاحظہ اس عجائبات کے سے اپنے دل میں تصور کیا کہ یہ تجلی کسی مردان خدا کے مکان پر متجلی ہے۔ اغلب کہ چراغ آرزو میری کا اسی نور سے منور ہو اور طرف اس چراغ کے رخ توجہ کا فرمایا۔ چلتے چلتے پھر متصل پہنچا۔ دیکھتا کیا ہے کہ اوپر مزار ایک مقبول بارگاہ لاہوت کے فانوس بلوریں کے اندر شمع روشن ہے اور چار شخص مَلَک سیرت درویش صورت کہ ظاہر حال خجستہ مآل ان کا بہ ترکیب لباس فقیر کے آراستہ ہے، گرد روشنی کے جلوہ آرا ہیں لیکن غنچہ دہان ان کے کا سموم دل تنگی کی سے بیچ گلزار مجلس سکوت کے بہار شگفتگی گفتگو کی نہیں لاتا۔ ملہم غیبی نے فرخندہ سیر کے دل پر الہام دیا کہ آبیاری تفضلات باغبان قضا و قدر کے سے یقین کامل ہے کہ نخل امید کا ترشح فیض صحبت درویشوں کے سے سرسبزی وشادابی پا کر بیچ باغ اس مجلس کے بارور ہو۔ پر اس وقت مناسب یوں ہے کہ اپنے تئیں مخل مجلس خاص ان کی کا نہ کر کے ایک گوشہ میں مخفی ہو کر استکشاف احوال اس چہار عنصر لطیف کا کیجیے۔ غرض کہ بادشاہ درمیان کُنج اس مکان کے اس طور سے کہ کسی پر اطلاع نہ ہو، پوشیدہ پنہاں جا بیٹھا اور صدف گوش ہوش کی تئیں واسطے پُر کرنے مروارید کلمات میمنت آیات درویشوں کے وا کیا۔ اتنے میں درمیان ان چہار درویش کے ایک شخص نے عندلیب زبان کے تئیں بیچ گلزار سخن آرائی کے نغمہ پرداز کیا کہ اے یاران ہمراز و اے رفیقان دمساز! ہم چار شخص انقلاب روزگار غدار و گردش دور دوّار کے سے حیران و پریشان وارد اس مکان کے ہوئے تھے لیکن الحمد للہ و المنۃ کہ رہبریِ قسمت و یاوریِ بخت ہمارے کی سے شام تنہائی کی نے ساتھ فروغ شمع ملاقات ہم دیگر کے روشنی پائی مگر بالفعل کہ درازی سر رشتۂ شب تار کی نے زنجیر بے خوابی کی بیچ پاے استراحت کے ڈالی ہے۔ اس سے صلاح وقت یہ ہے کہ واسطے شغل بیداری کے ہر ایک قفل گنجینۂ زبان کے تئیں ساتھ کلید تشریح و تفصیل قصہ سرگذشت واقعی اپنے کے کھولے کہ اس وسیلہ سے متاع فوائد صحبت سراپا برکت یک دیگر کے بیچ کیسۂ تمنا کے حاصل کریں۔ یاران دیگر نے انگشت قبولیت کی اوپر دیدۂ رضا و رغبت کے رکھ کے کہا کہ کیا مضائقہ، اول آپ ہی صورت حال اپنی کے جو کچھ بہ چشم یقین کے و دیدۂ حقائق بیں کے دیکھا ہو اوپر صفحۂ اظہار کے کھینچ کے گوش رفیقان ہمدم کے تئیں گرانبار گوہر منت کا کریں۔
چنانچہ رفیق اول نے غزال رعناے اس داستان ندرت بیان و واردات احوالِ صدق مقال اپنے کے تئیں بیچ چراگاہ مجلس کے یوں جولاں گر عرصۂ تقریر کا کیا ؎
دوستاں دل سے سنو حال دل افگار کے تئیں
حالت گریہ اس دیدۂ خونبار کے تئیں
تم کو شفقت ستی پاتا ہوں جو غم خوار اپنا
شرح افسانۂ غم عشق کے بیمار کے تئیں
قصۂ بے سر و سامانی اس خوار کے تئیں
پس بجا ہے کہ کروں درد کا اظہار اپنا
کہ اے یاران غمگسار! مولد متوطن اس سرگشتۂ بادیہ آشوب و فتن کا بیچ خطۂ پاک یمن کے ہے اور والد اس عاجز کا ملک التجار نامی نہایت مالدار و آسودۂ روزگار، پیشہ تجارت کے سے اس قدر گنج وافر بیچ بساط جمعیت کے موجود رکھتا تھا کہ شاید صراف سپہر کا بھی بیچ صندوق کہکشاں کے خزانہ ستاروں کا جمع نہ رکھتا ہوگا۔ اس سے دو فرزند تولد ہوئے تھے، ایک یہ عاجز اور دوسری ہمشیرہ کہ اس کے تئیں قبلہ گاہ نے بہ حین حیات اپنی کے ساتھ ایک سوداگر بچہ عمدہ خاندان کے سے منکوح کیا تھا۔ القصہ یہ فقیر عہد خوردگی سے بیچ ناز و نعمت کے پرورش پا کے اور فکر و افکار دنیا کے سے کچھ سروکار نہ رکھ کے بشغل کودکاں بازی و عیش و عشرت کے مشغول رہتا۔ جب مہتاب عمر میری کا بدرجہ چہاردہ سالگی پہنچا روز روشن سرور و ابتہاج اس تیرہ بخت کا تاریک تر شب یلدا سے ہوا یعنی پیمانہ زندگی مار و پدر بزرگوار کا شراب خوشگوار حظوظ نفسانی کے سے لبریز ہو کے اُسی سال میں صدمہ دست قضا کے سے ڈھلا۔ وقوع اس واقعۂ جانگداز و سانحۂ ہوش رُبا کے سے عالم بیچ آنکھوں میری کے تاریک نظر پڑ کے دود آہ و فغاں کے نے سر غبار کا فلک تک کھینچا اور نہایت غم و الم سے لباس سیاہ بیچ بدن کے کر کے چہرۂ حال تباہ اپنے کے تئیں ساتھ ناخن مصیبت کے نوچا۔ سچ کہتے ہیں ؎
اس گلشن ہستی میں عجب دید ہے لیکن
جب چشم کھلی گل کی تو موسم ہے خزاں کا
بعد از چند روز کے خویش و اقربا نے رسم تعزیت و دلداری کی بجا لاکے کشتیِ دل شکستہ میری کے تئیں گردابِ غم سے اوپر کنارہ صبر و شکیبائی کے پہنچایا۔ جس وقت اس ماتم زدہ نے رسمیاتِ سوگواری سے فراغت پائی، مالیت باپ کی سے اوپر مبلغ خطیر و گنج وافر کے قابض و متصرف ہوا اور نہایت خوش حالی و فارغ البالی سے محرمان خلوت سراے وفا و اخلاص کے تئیں بیچ عشرت کدہ اپنے کے جمع کر کے بساط نشاط کی آراستہ کی و دوستان ہم پیالہ و ہم نوالہ نے بیچ بزم مسرت و انبساط کے داد خوش وقتی و خورسندی کی دی۔ اس طور سے ایک مدت فجر سے شام تک استفادہ خدمت بزرگوں کی سے روپوش اور شام سے فجر تک خمار نشۂ اوباشی کے سے مدہوش رہنا، اختیار کر کے دست اسراف بے جا کا اوپر مال مفت کے دراز کیا اور نقد عمر عزیز کے تئیں بیچ قمار بازی لہو و لعب روزگار نا ہنجار کے کھوتا۔ آخرش یہ حالت پہنچی کہ سواے ایک کلاہ اوپر سر کے اور آہ بیچ جگر کے کچھ باقی نہ رہا اور رفیقان جو فروش گندم نما نِرد رفاقت کے تئیں بیچ ششدر بے وفائی کے چھوڑ کر مانند کافور کے غائب ہو گئے۔ پھر ہر چند دست تاسف کا دندان ندامت سے کاٹا اور جتنا کہ خون جگر کا کھایا کچھ فائدہ نہ دیکھا۔ اس وقت میرے تئیں یہ شعر حسب حال اپنے یاد آیا ؎
اس زیست سے بہتر ہے اب موت پہ دل دھریے
جل بجھیے کہیں جاکے یا ڈوب کہیں مریے
کس طور کٹیں راتیں کس طرح سے دن بھریے
کچھ بن نہیں آتا ہے حیران ہوں کیا کریے
کیا کام کیا دل نے دیوانہ کو کیا کہیے
جو بیچ اس شہر کے بد وضعی میری سے سواے قُرصِ آفتاب کے شکل نان کی دیکھنا ممکن نہ تھا، لاچار برقع بے حیائی کا اوپر چہرے کے ڈال کر بیچ خدمت ہمشیرہ کے کہ بعد وفات قبلہ گاہ کے اس بد بخت نے کبھی استفسار احوال اس کے کا نہ کیا تھا بلکہ پیغام اس کے کا جواب بھی نہ دیتا، افتاں و خیزاں پہنچا۔ وہ مشفقہ مہر پرور دلنواز نے بہ مقتضاے شفقت و عطوفت کے سرور ملاقات میری کے سے مثل گل کے شگفتہ و سرخ رنگ و دریافت احوال سراپا ملال میرے کے سے مانند غنچہ کے دل تنگ ہوئی اور اس سرگردان دشت کوہ حیرانی کے تئیں بیچ ایک مکان مطبوع و دلکش کے جاے سکونت کی دے کر ملبوسات زیبا و فاخرہ و لوزیات لطیف و بامزہ و اغذیات خوب و خوش ذائقہ کے تئیں لاکے حاضر کیا جو اس بے سر و ساماں کے تئیں عالم تباہی میں بیچ سیر و تماشاے جہاں کے صورت گندم کی سواے گندمی رنگ چہرۂ خوبوں کے اور شکل کنجد کی سواے خال رخسارۂ محبوبوں کے ایک مدت سے نظر نہ پڑی تھی، ایک مرتبہ بہ سبب مہیا ہونے سب اسباب جمعیت کے دوگانہ شکر کا بہ درگاہ حضرت واہب العطایا کے کہ فضل و کرم اس کا مرہم ناسور دل درد مندوں کا ہے، ادا کیا اور چند روز قدم اس آرام گاہ سے باہر نہ دیا۔
رفتہ رفتہ ایک روز اس کان مروت کی نے نزدیک میرے آکے بعد از ذکر اذکار اور طرف کے مصلحتاً فرمایا کہ اے نور باصرہ بصیرت ہمشیرہ کے! اگر چہ ہنوز آتش غم مفارقت کی آب زلال سیری مواصلت تیری کے سے کما حقہ منطفی نہیں ہوئی اور دیکھنا تیرا ہر دم باعث زندگانی اس عاجزہ کا ہے، لیکن مردوں کے تئیں خانہ نشین ہونا سبب پریشانی گوناگوں اور علاوہ اس کے مطعونی خاص و عام کے ہے، خصوصاً بے جہت استقامت اس شہر کے سے خویش و بیگانے مظنّہ اوپر نا خلفی و بے ہنری و دوں ہمتی تیری کے لے جا کے زبان طعنے کی دراز کریں گے۔ اس صورت میں واسطہ خفت و ندامت میری و تیری کا اور بدنامی و گمنامی مادر و پدر کا ہے۔ پس صلاح دولت یہ ہے کہ ارادہ سفر کا اوپر دل اپنے کے مصمم رکھ، ان شاء اللہ تعالیٰ اس وسیلۂ جمیلہ سے یقین ہے کہ شب ظلمات صعوبت خانہ خرابی کی ساتھ صبح نورانی اور شادمانی کے مبدل ہو۔ فقیر نیں در جواب التماس کیا ؎
کہ میرے واسطے خاطر میں جو ترے آوے
وہی ہے خوب مرے حق میں جو تجھے بھاوے
پس اندرون گھر کے جا کر پچاس توڑے اشرفی کے آگے میرے لاکے رکھے اور کہا کہ ایک گروہ تجار کا تہیہ سفر دمشق کا پیش نہاد خاطر کے رکھتا ہے۔ لازم ہے کہ اس زر سے متاع تجارت کی خرید کر کے جماعت تجار سے حوالہ ایک شخص کے کر کے اور دستاویز مکمل اس سے حاصل کر کے تو بھی رہ نورد سر زمین دمشق کا ہو۔بعد از پہنچنے منزل مقصود کے تمام جنس بہ جنس تیرے تئیں پہنچے گی اور ایوان گل ہاے منفعت بے شمار کے بیچ چمن شغل سوداگری تیرے کے بہار افزا ہوں گے۔ بندہ نے ارشاد ہدایت بنیاد اُس مظہر عاطفت و مکرمت کے تئیں ذریعۂ سعادت اپنی کا جان کے بہ موجب استصواب اور استصلاح اُس غمخوار غمگسار کے مال تجارت کا خرید کر کے حوالہ ایک شخص سوداگر کے کیا۔ بعد از روانہ ہونے جہاز تجارت کے چند روز پیچھے بندہ نے بھی تیاری چلنے کی خشکی کی راہ سے کی۔ اس وقت سواے نوازش زر تجارت کے ایک خلعت زری کا کہ ہر تار اس کا خجلت دہ خطوط شعاعی خورشید کا تھا اور ایک گھوڑا باد رفتار برق آہنگ کہ جس کی تیز روی و جلد بازی کے بیان کی سرپٹ سے اشہب تیز گام زبان کا بیچ میدان تقریر کے غلطاں و پیچاں ہے، اہاہاہا کیا گھوڑا!
گاہ آجاوے نظر گاہ نظر سے غائب
روبرو سے اگر آئینہ کے اس گلگوں کو
اتنے عرصہ میں پھر آتا وہ کہ بے شبہ و شک
کہ ہوا بیچ وہ شبرنگ ہے جگنو کی چمک
پھینکتا چڑھ کے جو میں شرق سے لے غرب تلک
عکس بھی آئینے سے ہونے نہ پاتا منفک
اور ایک توڑا اشرفی کا بہ تقریب زاد راہ کے علاوہ عنایات بے غایات اول کے تواضع کر کے خوشی و خرمیِ تمام سے میرے تئیں رخصت کیا اور فقیر فاتحہ خیر کی پڑھ کے پا در رکاب ہوا اور رہبریِ بدرقۂ فضل الٰہی کے سے شبانہ روز مانند مہر و ماہ کے سریع السیر ہو کے سب رفقاے ہمراہی سے بعد طے مراحل و قطع منازل کے گرد نواح دمشق کے جا پہنچا۔
جب طائر زریں بال آفتاب کے نے رخ بیچ آشیانۂ مغرب کے کیا اور بیضۂ سیمیں ماہتاب کا بطن مرغِ مشکیں شب تار کے سے نمودار ہوا، مُستحفظان و مُحارِسان شہر کے نے کہ بموجب حکم والی اس دیار کے مامور تھے، دروازہ شہر پناہ کا مسدود کر کے راہ آمد و رفت صادر و وارد کی بند کی۔ ہر چند کہ عاجز نے ساتھ کمال لجاجت و سماجت کے زبان عجز و نیاز کی واسطے درآمد ہونے شہر کے کھولی، اصلاً عرض میری کے تئیں پیرایہ اجابت کا نہ بخشا۔ لاچار بیچ پناہ دیوار کے استقامت کر کے مزاج کے تئیں واسطے شُغل بیداری و شب گزاری کے اوپر تماشہ برج حصار کے کہ رفعت عمارت اس کی ہمسر چرخ بریں کی تھی مصروف کیا۔ جس وقت زلف خاتون شب کی کمر تک پہنچی اور چشم خلایق کی خمار نشۂ غنودگی کے سے سرمست خواب غفلت کے ہوئی، یکایک صندوق چوبیں فراز دیوار حصار کے سے مانند خورشید کے برج حمل کے سے جلا بخش دیدۂ تماشا بیں کا ہوا۔ فقیر واردات اس عجائبات کے سے کمال متعجب ہوا کہ آیا یہ خیال طلسمات کا ہے یا مسبب الاسباب حقیقی نے اوپر بے کسی اس بے کس کے نظر ترحم کی فرما کے، خزانہ غیب کے سے دولت عمر غیر مترقب مرحمت کی اور بعد یک لمحہ کے نشست گاہ سے اٹھ کے صندوق کے تئیں ایک گوشہ میں لے جا کر کھولا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک نازنین پری چہرہ حور لقا خورشید طلعت ماہ سیما بلکہ آفتاب بھی فروغ جمال صبح اس کے سے کباب آتش حسرت کا تھا اور ماہتاب شعشۂ حسن ملیح اس کے سے داغ رشک کا بیچ سینے کے رکھتا تھا، مانند بسملان شمشیر نگاہ محبوبوں کے زخم ہاے کاری سے مجروح و بے خود، درمیان صندوق کے چشم بند کیے ہوئے پڑی تڑپتی ہے اور آہستہ آہستہ زبان نرم بلبل زبان اس کی یوں سخن پرداز ہے کہ اے دوست بے وفا، و اے جو فروش گندم نما، و اے کمبخت جفا کار، و اے بد بخت دل افگار! عوض اس نیکی کا اور تلافی اس مہر ورزی کا یہی تھا کہ تجھ سے ظہور میں آیا ؎
بدلہ ترے ستم کا کوئی تجھ سے کیا کرے
قاتل ہماری لاش کو تشہیر ہے ضرور
اپنا ہی تو فریفتہ ہووے خدا کرے
آئندہ تا کوئی نہ کسی سے وفا کرے
یہ کہہ کے بعد ایک لمحے کے عالم بے ہوشی میں نقاب اوپر چہرے کے کھینچ کر رخ توجہ کا نہ فرمایا۔ فقیر نے ملاحظہ احوال سراپا درد و ملال اس شمس الضحیٰ برج حسن و جمال کے سے نہایت متحیر ہو کے کہا کہ واللہ اعلم کس سنگ دل بے درد نے سنگ بے مہری کا اوپر سینہ کے رکھ کے خنجر ظلم کا اوپر بدن اس گلبدن کے مارا کہ اس پری چہرہ کے تئیں ہنوز شبہ مصاحبت اس کی کا بیچ خیال کے ہے اور یہ شعر بے اختیار اوپر زبان کے گذرا ؎
تڑپتی ہے پڑی بلبل قفس میں
پڑی تھی ہاے کس ظالم کے بس میں
جس وقت کلمات محبت آمیز زبان میری سے بیچ گوش ہوش اس محبوب مرغوب کے پہنچے ایک مرتبہ پردہ اغماز کا دروازہ چشمِ نرگسیں کے سے اٹھا کے میری طرف متوجہ ہوئی۔ سبحان اللہ ؎
برقع کو اٹھا چہرہ سے وہ بت کہ بر آیا
اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آیا
جب نگاہ اس جادو نگاہ کی ساتھ نگاہ میری کے ہم نگاہ ہوئی، واللہ کہ اپنے تئیں مقدور نگاہ رکھنے کا نہ پایا ؎
نگاہوں سے نگاہیں سامنے ہوتے ہی جب لڑیاں
یکایک کھل گئیں دونوں طرف سے دل کی گل چھڑیاں
لیکن از بس کہ تاب جمال اس کے کی نہ لایا، مانند اس مجروح دل خستہ کے زخم تیغ چشم اس کی سے بے حس و حرکت ہوا۔ بعد ایک لمحہ کے دماغ کے تئیں نسیم ورق گلاب رخسارہ اس گلستان خوبروی کے سے معطر کر کے کہا کہ اے نو بہارستان ملاحت کی! سچ کہہ کہ توں سرو خراماں کس چمن کی ہے۔ و اے روشن چراغ شبستان نزاکت کی! توں شمع شب افروز کس انجمن کی ہے۔ باعث اس واردات کا کیا ہے اور قصہ سرگذشت تیری کا کیوں کر ہے۔ جو وہ نازنین شدتِ درد جراحت ہاے کاری کے سے تاب گفتگو کی نہ رکھتی تھی، نہایت آہستگی سے پستہ دہان کے تئیں شیریں زبانی سے شکر آمیز کر کے بولی ؎
یا چشم تر ہوں یا رگِ تاک بریدہ ہوں
گریاں بشکل شیشہ و خنداں بطرزِ جام
جو کچھ کہ ہوں سو ہوں غرض آفت رسیدہ ہوں
اس میکدے کے بیچ عبث آفریدہ ہوں
اے عزیز! از بس بے طاقتی سے اس مجروح بے طاقت کے تئیں طاقت گزارش احوال پُر ملال کی نہیں۔ اغلب کہ کوئی لمحہ میں طائر روح کا قفس تن کے سے بلند پرواز عالمِ فنا کا ہو۔ اگر تو بہ مقتضاے حمیت و جواں مردی کے مزاج اپنے کے تئیں اوپر استفسار بے فائدہ حال تباہ میرے کے تئیں مصروف نہ کر کے اور براے اللہ اس برگشتہ طالع کے تئیں بیچ ایک گوشۂ صحرا کے مدفون کرے تو باعثِ نجات اس تیرہ بخت کا ملامت زبانِ خلایق کے سے کہ فی الحقیقت سواد الوجہ فی الدارین کا ہے ہووے اور اقدام اس امر خیر کے سے توں بھی داخل ثوابِ عظیم کے ہو کر جزا اس نیکی کمال کی بارگاہِ کبریاے حضرت عالم السّر و الخفیات کے سے حاصل کرے۔ یہ کہہ کر خاموش ہوئی۔ جو وقت شب کے عالم بے کسی میں کچھ چارہ نہ تھا لاچار صندوق کے تئیں خواب گاہ اپنی پر اٹھا لا کے بے اختیار روتا تھا اور پڑھتا تھا ؎
شبِ غربت میں یارو گریہ و زاری ہے اور میں ہوں
جھپکتی ایک پل نئیں آنکھ، بیداری ہے اور میں ہوں
غرض تمام شب گریہ و زاری و ستارہ شماری سے بسر لے جا کے اس فکر میں تھا، الٰہی کب مرغِ صبح خیز شمس کا بیچ قفس مشرق کے منقار شعاع کے سے صدا روشنی کی بلند کرے گا اور کب عابدِ شب زندہ دار ماہ کا تسبیح ستاروں کے تئیں بیچ سجادۂ سپہر کے رکھ کے متوجہ آرام گاہ مغرب کے ہوگا کہ میں داخل شہر کے ہو کر تدبیر معالجہ کی کروں۔ اس عرصہ میں شاہ زرّیں کلاہ خورشید کا اوپر تخت زمردیں افلاک کے جلوہ آرا ہو کے تجلی بخش سیاحت سرزمین دمشق کا ہوا۔ بندہ نے اس وقت قید انتظار کی سی مخلصی پا کر دوگانہ شکرانہ کا بیچ جناب حضرت کارساز حقیقی کے ادا کیا اور صندوق کے تئیں درمیان خورجین گھوڑے کے کس کے داخل شہر کے ہوا اور ہر ایک متنفس سے مستفسر و متلاشی مکان کرایے کا تھا۔ آخرش بعد تفحّص و تجسسِ بسیار کے ایک حویلی خوش تعمیر و خوش اسلوب کہ جس کے دیکھتے ہی غنچہ دل کا کھل جاوے، کرایہ لے کر اس ماہ جبیں کے تئیں درمیان کنج خانہ کے مکان محفوظ میں مانند حرف یاد الٰہی کے بیچ نقطہ سُویداے دل واصلان درگاہِ کبریائی کے اوپر بچھونے نرم کے کہ ملائم تر رخسار سیمیں عذاران کے سے تھا، چھوڑا و معتمدان ہمراہی کے تئیں بیچ خدمتگاری اس نازنین کے تعین کر کے آپ واسطے تحقیقات مکان جرّاح کے حویلی سے باہر آیا۔ چنانچہ زبانی ایک شخص کے معلوم ہوا کہ عیسیٰ نامی ایک جراح بہ کمال کسب طبابت و جراحی کے، کہ اگر مردے کے تئیں بھی چاہے تو عنایتِ الٰہی سے زندہ کرے، فلانے محلہ میں رہتا ہے۔ فقیر اس گلبانگ بشارت اندوز سے بسان گل کے شگفتہ و خنداں ہو کر پوچھتے پوچھتے اوپر دروازہ جراح کے کہ مثل دل بیدار دلوں کے کشادہ تھا، جا پہنچا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ وہ متبرک ذات خضر صفات بیچ دہلیز گھر کے رونق افزا ہے۔ فقیر نے مصلحتاً بعد آداب سلام کے التماس کیا کہ اے مرد نیک سیرت، خجستہ طلعت! یہ غریب مسافت بعید سے معشوقہ اپنی کو کہ مدار زندگی میری کا اوپر مشاہدۂ جمال مہرِ تمثال اس کے ہے، ساتھ لیے بہ تہیہ روزگار تجارت پیشگی کے اس طرف کو آتا تھا۔ جب بہ فاصلہ ایک فرسخ اس طرف شہر کے پہنچا، عروس شفق کی نیں کاکل مشکیں شام کی اوپر چہرے کے کھینچی جو اپنے تئیں ملک بیگانہ میں اصلاً منزل شناسی کی اطلاع نہ تھی، لاچار وقت شب کے حرکت کرنا اس جگہ سے امرِ محال جان کے وہیں زیرِ سایہ درخت کے استقامت کی۔ قضایا وقت نصف شب کے ایک گروہ رہزنوں کا مستعد و مسلّح اوپر سر میرے کے آ ٹوٹا اور جو کچھ مال متاع بیچ بساط جمعیت میری کے تھا بالکل لوٹ لیا، علاوہ اس کے اس گل اندام عطر بخش مشام زندگانی اس ناتواں کے تئیں بہ طمع زیور کے جراحت ہاے کاری سے رشک تختۂ شقائق کا کیا۔ جو مرضی الٰہی سے کچھ چارہ نہیں، باقی شب اللہ اللہ کر کے بسر لے گیا۔ علی الصباح داخل شہر کے ہو کے ایک حویلی کرایے کی میں اس آرام خاطر کے تئیں چھوڑ کر رہبری طالع سعید کے سے مستفید خدمت فیض موہبت تیری کا ہوا ہوں۔ جو حکیم علی الاطلاق نے تیرے تئیں داد رس ملہوفان خدنگِ بلا کا کیا ہے، بہ مقتضاے غریب پروری و عاجز نوازی کے اگر کلبۂ احزاں میرے کے تئیں قدوم میمنت لزوم اپنے سے منور کرے، بندۂ بے درم خریدہ ہوتا ہوں۔ بارے جراح نے اوپر حال تباہ میرے کے نظر ترحم کی فرما کے غریب خانے تک قدم رنجہ فرمایا و بعد ملاحظہ زخموں کے نہایت دلنوازی سے اوپر درد سر میرے کے صندل تشفّی کا لیپ کے کہا کہ اگر فضلِ الٰہی شامل حال فرخندہ مآل اس پری تمثال کے ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ چالیس روز کے عرصہ میں غسل شفا کا کراتا ہوں و صحتِ کامل نصیب اس عنصر لطیف کے ہوتی ہے۔ غرض اس مرد نیک ذات، خضر صفات نے بعد از کلمات مہر انگیز کے یراق اپنے سے ایک ڈبیا مرہم کافوری کی، کہ فی الحقیقت بیچ حق اس سکندر طالع کے آب حیات تھی، نکال کے پھایے اس کے جا بہ جا اوپر زخم ہاے کاری کے لگائے اور بہ مقتضاے کمال مہرورزی و دلنوازی کے اقرار خبر گیری دو وقتہ کا کر کے سوال رخصت کا کیا۔ جو میرے تئیں تشریف فرما ہونا اس مرد بزرگ کا باعث جہاں جہاں نشاط اور سبب عالم عالم انبساط کا تھا، جان و مال سے بیچ خدمت اس پیر مرد کے رسمِ تعظیم و تواضع کی بجا لا کے مُرخص کیا۔ بارے چند روز میں توجّہات باطنی سے جراح نے ایفا وعدہ کر کے اس قمر طلعت کے تئیں غسل شفا کا کرایا۔ میں نے اس وقت خوش وقتی اس معراج طالع اپنے کے تئیں تسخیر ہفت اقلیم کے سے نسبت دینا غلط فہمی ابناے روزگار کی جان کے دوگانہ شکرانے کا بیچ بارگاہ شافی مطلق کے ادا کیا اور اس سیمیں بدن کے تئیں فرش قالین و قاقُم کا بچھا کے اوپر مسند جاہ و حشمت کے رونق افروز کر کے جو کچھ نقد و جنس سے بیچ بساط جمعیت کے موجود رکھتا تھا نثار اُس گل عذار کے کیا اور اپنے تئیں مانند عندلیب شیدا کے اس نرگسیں چشم پر جان و مال سے فدا کر کے بندگی اس کی کے تئیں افتخار کونین کا جانا۔ سبحان اللہ! جب خورشید جمال اس مہر تمثال کا کُسوف رنج و ملال جراحت ہاے مالا مال سے نکل کے اوپر مطلع صباحت و وجاہت کے درخشاں ہوا، بے شائبہ تکلف آفتاب تاباں مانند مہتاب کے تاب حسن اس کے کی نہ لا کے تاب سے بے تاب ہوا۔
حسن ایسا کہ جگر ماہ کا ہو جاوے داغ
رنگ سے چہرہ کے شرمندہ ہو کندن کی دمک
قامت ایسا ہے کہ ہنگامِ خرام اس کے اگر
رزق و برق ایسی ہے پوشاک میں اس کی کہ جسے
جیسی ہو سج سے گلے بیچ حمائل گُل کی
غرض اس شکل سے آئے جو نظر وہ یارو
اس کی تشبیہ سے جب اس کو تجاوز دے فلک
آگے غبغب کے خجالت زدہ سونے کی ڈھلک
آگے آ جاوے قیامت تو یہ بولے کہ سَرک
کوند بجلی کی کہوں یا کہوں شعلے کی جھلک
ویسی ہی عطر کی بو، وِتنی ہی سوندھی کی مہک
کہا میں دل کے تئیں دیکھ کے، اللہ مَعَک
قصہ مختصر، یہ فقیر بہ مقتضاے محبت عاشقانہ کے شبانہ روز کمر اطاعت کی بیچ خدمت اس زیبا طلعت کے محکم باندھ کے حاضر و مستعد رہتا لیکن وہ از بسکہ غرور حسن و ریاست کا بیچ دماغ کے رکھتی تھی، میری طرف بہ نظر الفت شاہدانہ کے رخ توجہ کا نہ فرماتی اور اکثر اظہار کرتی کہ اگر تیرے تئیں دلداری ہماری منظور ہے، زینہار بیچ حرکات و سکنات ہمارے کے دخل تفتیش کا نہ کرنا۔ خبر شرط ہے۔ مگر پاس مرّوت دلنوازی کا بیچ تلافی حقوق خدمت گزاری کے البتہ ملحوظ خاطر رکھتی۔ چنانچہ فقیر بھی اِسترضاے اس کی سے سر مو تجاوز نہ کرتا بلکہ اتنی بھی مہر ورزی کے تئیں محض یاوری بخت اپنے کی جانتا اور ایک مدت تک فرمائش اس کی کے تئیں بسر و چشم بجا لاتا۔ آخرش نقل مشہور ہے “زرکار کُند و مرد لاف زند”۔ جو یہ عاجز اثاث البیت سے تا متاع و اِنتِفاع جہاز تجارت تک جو کچھ بیچ قبضہ اختیار اپنے کے رکھتا تھا، نثار اس مایۂ ناز کے کر چکا اور ملک بیگانہ میں کوئی تفَقُّد طراز احوال بے حال اپنے کا نہ دیکھا، اس سبب سے بہ مضمون اس کے کہ بے زر بے پر، طاقت توانائی میری کے طاق اور خواب بیچ چشم میری کے خواب ہوئی اور چہرہ میرا کہ عکس پذیراے شعاع مِہر لقا اور نور الٰہی کے سے مانند بدرِ منیر کے تاباں ہوا تھا، جان کاہی فکرِ اخراجات لابدی کے سے مثل ہلال کے حقیر ہوا۔ رفتہ رفتہ ایک روز اس داناے عصر نے ذکاے طبیعت کے سے ماہیت احوال میری کی دریافت کر کے کہا کہ اے عزیز! حقوق خدمت گزاری تیری کا بیچ خدمت ہماری کے اس قدر ثابت ہے کہ تلافی اس کی سے عہدہ بر آ ہونا ممکن نہیں لیکن واسطے اخراجات ضروری کے غبار تردد اوپر اندیشے کا بیچ دامنِ طبیعت کے نہ جھاڑ، بفضل الٰہی سب آسان ہووے گا۔ پر ایک پرچہ کاغذ کا اور روشنائی و قلم حاضر کر۔ بندہ نے اُس وقت عقل سے معلوم کیا کہ شاید کسی ملک کی بادشاہزادی ہے کہ اس دماغ سے باتیں کرتی ہے اور بہ موجب حکم کے سامان لکھنے کا حاضر کیا۔ چنانچہ اُس نازنیں نے ایک رقعہ بقلم اعجاز رقم کے کہ اگر پیر عطارد، جو دبیر فلک کا کہلاتا ہے، قطع نظر تمام ملاحظۂ خط مشکیں اور عبارت رنگیں اُس کی سے اگر صرف ایک الف پیشانی اُس کے کا کہ بجاے بسم اللہ کے لکھتے ہیں، دیکھے تو محنت سیاہہ نویسی دفتر روزگار کے سے کہ پُشتِ دوتا اور نہایت ضعیف ہو کر دل تپاں ہے، کمال خوش وقتی سے عصاے پیری اپنے کا جان کے قوت نوجوانی کی حاصل کرے، لکھ کر حوالے میرے کیا اور فرمایا: نزدیک تِرپولیہ قلعہ کے فلانے کوچے میں ایک عمارت عظیم الشان واقع ہے اور مالک اُس کا شیدی بہار نامی ایک شخص ہے، تو جا کر اس رقعہ کے تئیں اُس مکان کے مالک کو دے۔
فقیر حسب الارشاد رخصت ہو کے رقعہ کے تئیں لے کر اوپر منزل مقصود کے جا پہنچا اور زبانی ایک دربان کے حقیقت ابلاغ حکم کی کر بھیجی۔ بہ مجرد سُننے اس بات کے ایک حبشی نوجوان سبز رنگ نہایت وجاہت اور صباحت میں ممتاز ایک پھیٹا بسنتی سجے ہوئے حویلی سے برآمد ہوا، اللہ اللہ ؎
ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا
موسیٰ نہیں کہ سیر کروں کوہِ طور کا
پڑھیے درود حُسن صبیح و ملیح دیکھ
جلوہ ہر ایک پر ہے محمد کے نور کا
پس ملاحت اُس حُسن ملیح کی اور پھبن بسنتی پھیٹے کی بھی خاطر سے فراموش نہیں ہوتی۔ جیسا ہی سبز رنگ چہرہ کا تھا ویسا ہی سبز رنگ پھیٹے کا، گویا عالم اس شعر کا اُس پر ختم ہے ؎
حُسن سبزے بخط سبز مرا کرد اسیر
دام ہمرنگ زمیں بود گرفتار شدم
نکلتے ہی دروازے سے بے حرف و حکایت پھر اندرون محل سرا کے جا کے بعد ایک ساعت کے گیارہ کشتی سر بہ مہر زر بفت کی، تورہ پوشوں سے چھپی ہوئیں، غلامان غِلمان سرِشت کے سر پر لے کے باہر آیا اور کہا کہ ہمراہ اس جوان کے جا کے کشتیوں کے تئیں پہنچا۔ بارے میں اُس اسم بامسمی سے رخصت ہو کر بیچ خدمت اُس بدیع الجمال کے پہنچا اور غلاموں کے تئیں دروازہ سے رخصت کر کے کشتیاں سر بہ مہر بیچ نظر مبارک ملکہ ماہ سیما کے گزرانیاں۔ بعد ملاحظہ کے میری طرف مخاطب ہو کے فرمایا کہ بِالفعل گیارہ توڑے اشرفیوں کے لے اور سر انجام ضروریات سے جو کچھ کہ چاہے اسباب درست کر، آگے خدا رزاق مطلق ہے بقول اس کبت کے:
جب دانت نہ تھے تب دودھ دیو، جب دانت دیے، کا انّ نہ دیہے
جو جل میں تھل میں پنچھی پُش کی سُدھ لیت، سو تیری ہو لیہے
کاہے کو سوچ کرے من مورکھ، سوچ کرے کچھ ہاتھ نہ ایہے
جان کو دیت، اجان کو دیت، جہان کو دیت، سو تو ہو کو دیہے
اور مرزا عبد القادر بیدلؔ فرماتے ہیں ؎
چِرا خود را اسیر غم ز فکر بیش و کم داری
کہ نہ گذارد ترا محتاج ایزد تا کہ دم داری
مشو بے دست و پا از مفلسی و بے کسی ہرگز
مگر نشنیدۂ بیدلؔ خدا داری چہ غم داری
بارے فقیر نیں حسب الارشاد اس خجستہ طالع کے زر کے تئیں لے کے رفع احتیاج ضروری کا کیا اور مرض محتاجگی کے سے کہ بے ہوش اور بدحواس تھا، فی الجملہ اِفاقت میں آیا لیکن یہ عُقدہ بیچ خاطر میری کے گِرہ ہوا اور معمہ اس بات کا بیچ دل میرے کے لاحل رہا کہ بارے یہ کیا خیال تھا کہ بہ مجرد دیکھنے پرچۂ کاغذ کے ایک شخص نا آشنا صورت نیں بے حرف و حکایت مبلغ خطیر حوالے میرے کیے۔ پر اس نازنیں نیں جو میرے تئیں روز اول تفحص اور تجسس حرکات و سکنات اپنی کے سے منع کیا تھا، اس باعث سے مجال دم مارنے کی نہ تھی۔ رفتہ رفتہ بعد ایک ہفتہ کے اُس پری چہرہ نیں میری طرف مخاطب ہو کے فرمایا کہ حق سبحانہ تعالیٰ نیں جس بشر کے قامت رعنا پر خلعت انسانیت اور مروت کا آراستہ کیا ہے، اُس کے تئیں لباس کہنہ سے حرف اوپر شخصیت کے نہیں لیکن بہ نظر ظاہر پرستی کے معیوب ہے۔ پس توں دو توڑے اشرفیوں کے ہمراہ لے کے درمیان چار سوے بازار کے بیچ دوکان یوسف نامی ایک سوداگر بچہ کے جا اور قدرے جواہر گِراں بہا اور دو خلعتِ فاخرہ و زیبا خرید کر کے لا۔ یہ عاجز بہ موجب ارشاد اُس زلیخاے مصر نزاکت اور لطافت کے سوار ہو کر بیچ چار سوے بازار کے اوپر دوکان سوداگر بچہ کے جا پہنچا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک نوجوان فرشتہ طلعت خورشید لقا کہ ایک عالم گرد اس ماہ تاباں کے بسان ہالہ کے حلقہ مار کے مستعد ہے کہ بیچ چاہ زنخداں اُس کی کے ڈوب مرے، لباس زعفرانی پہنے ہوئے اوپر مسند خوبروئی کے جلوہ افروز ہے، واقعی ؎
ہے جھوٹ کہ حُسن کا تھا بانی یوسف
رکھتا تھا کہاں یہ نوجوانی یوسف
یہ کہنے کی باتیں ہیں کہ یوں تھا ووں تھا
شاید کہ نہ ہوگا اُس کا ثانی یوسف
قصہ مختصر یہ عاجز دیوانگیِ شوق دیدار اُس کی سے مانند مجذوبوں کے نزدیک جا کر رسم صاحب سلامت کی بجا لایا اور اوپر حسن خداداد اُس کے ہزارہا تحسین و آفریں کر کے بعد اختلاط و گرمیِ صحبت کے سامان مطلوبہ درخواست کیا، جو فحواے کلام میرے کے تئیں اصلاً زبان دمشق کی سے کچھ مناسبت نہ تھی۔ اُس جوان خوش طبیعت زیبا طلعت نے بھی خیال اپنا اوپر گفتگوے دلچسپ میری کے مصروف کر کے کہا کہ آنچہ در بغداد است گرد سر خلیفہ۔ لیکن جب سر رشتۂ محبت اور مودت جانبین کے نے اِنضباط و اِستحکام تمام پایا پھر اِخفاے راز و نیاز طرفین کا بعید شرط اخلاص کے سے ہے۔ پس مولد و موطِن شریف سے اس مخلص یک رنگ کے تئیں مطلع کرنا از جملہ واجبات ہے اور اطلاع سبب استقامت ملک بیگانہ کے بھی بہ مقتضاے یک جہتی کے ضرور۔ جو میرے تئیں نشو و نما کرنا اپنا بیچ اُس شہر کے منظور نہ تھا اور اس وقت کی راست گوئی کے تئیں صرف وبال گردن کا جانا، اس واسطے بقول کلام بزرگوں کے کہ دروغ مصلحت آمیز بہ از راستی فتنہ انگیز، نظر بہ اصلاح وقت کے جو کچھ مناسب جانا اظہار کیا اور بعد حصول مطالب کے سوال رخصت کا درپیش لایا۔ نوجوان از بس کہ سلیقہ دل پر چاونی کا زیادہ رکھتا تھا، روکھا ہو کے بولا کہ اے عزیز! اگر تیرے تئیں پیچھے سے چراغ محبت کا آستین بے وفائی کی سے گُل کرنا تھا، بس کیا ضرور تھا کہ تو اول بڑی گرمی سے رسم صاحب سلامت کی بجا لایا، خیر۔ بیت
جو ایسا جاؤں جاؤں کرتے ہو تو سدھارو
اس دل پہ کل جو ہوئے، سو آج ہی وہ ہو لے
میرے تئیں ایک ادا سے اس بات کا ادا کرناں اُس کا نپٹ ہی دل کوں بھایا اور انسانیت میری مقتضی اس حرکت کی نہ ہوئی کہ یک مرتبہ چشمِ مروت کی بند کر بے رضاے خاطر اُس کی اُٹھ کھڑا ہوں، پاس خاطر اُس کے ایک دم اور بھی ٹھہر کے یہ شعر زبان پر لایا:
یہ جو کہتے ہو قدم چھوڑ کہاں جاؤں گا
تجھ سا میں یار وفادار کہاں پاؤں گا
بارے اتنی بات سے اُن نے بھی ہنس دیا اور کہا کہ اگر آج بیچ مہماں سراے میری کے قدم رنجہ فرمائیے تو بزم نشاط کی آراستہ کر کے چند ساعت سرور خاطر سے گزرانوں اور لوازم اکل و شُرب کا ترتیب دے کے فیض نعمت صحبت تیری کے سے بہرہ عشرت کا حاصل کروں۔ اس عاجز نیں بہ خیال تنہائی اُس نازنین کے ہر چند کہ عذر اقبال ضیافت کا چاہا قبول نہ کیا اور جتنی کہ معذرت کی، مبالغہ اُس کا کم نہ ہوا۔ لاچار بہ وعدہ پہنچا آنے جواہر کے اقرار حاضر ہونے کا بیچ مہماں سراے اُس یگانۂ زمانہ کے کر کے دوکان سے اُٹھ کر جواہر کے تئیں بیچ خدمت ملکہ خورشید لقا کے لایا۔ جس وقت ملکہ نیں حقیقت قیمت جواہر کی اور وضع اور عادت جوہری کی استفسار کی، قصہ سرگذشت اپنی کا سر نو سے التماس کیا۔ فرمایا کہ اے جواں مرد! آدمی کے تئیں ایفاے وعدہ کا نہایت ضرور ہے، پس توں میرے تئیں حافظ حقیقی کوں سپرد کر کے الکریم اِذا وعد وفا کوں کام فرما اور جوہری کے ڈیرے جا کر اجابت دعوت کی کر کہ سنت نبوی ہے۔ حالانکہ جدائی اُس پری پیکر کی ایک لمحہ میرے تئیں برابر ہزار سال کے تھی اور تقاضا ادب کا بھی نہیں کہ تنہا چھوڑ کر چلا جاؤں لیکن بحکم الامر فوق الادب کے چار و ناچار اوپر دوکان جواہر فروش کے کہ چشم انتظار کی بیچ رہ گذر میری کے دو چار رکھتا تھا، جا کر وعدے کوں وفا کیا۔ وہ جوان رعنا نہایت تپاک سے ہم دست ہو کے میرے تئیں اُس مکان سے اُٹھا کر بیچ ایک باغ کے کہ طراوت و نزاہت میں روضۂ رضواں سے دلکشا تھا اور گلزار ہمیشہ بہار اُس کی نظارت ریاض جنت کی سے فرح افزا تھی لے گیا اور لباس زیبا اوپر قامت اپنی کے راست کر کے بعد ایک ساعت کے زینت آراے مجلس کا ہوا۔ واقعی اُس پوشاک نے کیا ہی اُس قامتِ زیبا پر بہار زیبائش کی دی تھی کہ یہ شعر بے اختیار زبان پر گذرا ؎
سودا یوسف کا زلیخا ہی تلک ہو گذرا
پھرتے ہیں سر کو لیے تیرے خریدار کئی
اس بات کو سُنتے ہی اور بھی خوش ہو کر بولا کہ صلاح یہ ہے کہ آپ بھی تبدیل لباس کا کر کے رونق افروز مجلس کے ہوں۔ چنانچہ فقیر واسطے دلداری کے یوں ہی عمل میں لایا۔ غرض کہ اُس عزیز نے نہایت تکلف سے مجلس ضیافت کی آراستہ کی اور اسباب عیش و طرب کا جیسا چاہیے تیار کیا۔ کبھی نُکتہ ہاے شیریں سے بیچ گوش سامعانِ مجلس انبساط کے موتی لذت کے پروتا اور کبھی لطیفہ ہاے رنگیں سے غنچۂ خاطر حاضرانِ مجلس نشاط کے تئیں شگفتگی عشرت کی دیتا۔ جب کاسہ دماغ کا شراب خرّمی کے سے لبریز ہوا اُس وقت چار امرد سادہ رو غلمان سرِشت مانند ماہِ شب چہاردہم کے زلفِ مسلسل اوپر رخسارے کے مثل سنبل کے گُلِ یاسمیں پر پیچیدہ کیے زینت بخش محفل کے ہوئے اور ساز خوش آواز چھیڑ کر کے ایسی خوش الحانی سے نغمۂ تہنیت آمیز شروع کیا کہ ایک مرتبہ اُس کے سننے سے داؤد بھی وجد میں آ جاوے اور جو آواز اُس کی بیچ سر زمین ہند کے پہنچے تو بے شائبۂ تکلف اودھو نائک اور تان سین سبق تربیت کا بیچ دبستانِ شوق کے پڑھیں۔ اس عرصہ میں اُس جوان نے دو چار اشک کے قطرے دیدۂ پُر آب سے نکال کر میری طرف مخاطب ہو کر کہا کہ راز پنہانی دوستان جانی سے چھپانا کسی مشرب میں شایان یک جہتی کے نہیں، اِس واسطے بے تکلفانہ اظہار کرتا ہوں کہ اگر اجازت ہو تو معشوقہ اپنی کے تئیں بھی بیچ اس مجلس کے بُلوا کر تسکین دل بے تاب کی کروں کہ اُس کے فراق میں ایک بند مخمس کا حسب حال میرے بے اختیار زبان پر گذرتا ہے ؎
نہ مجھ کو شرم عالم کی، نہ ننگ و نام کی خواہش
نہ مجھ کو مے خوش آتی ہے، نہ مجھ کو جام کی خواہش
نہ دن کو چین ڈھونڈوں ہوں، نہ شب آرام کی خواہش
پر اک رہتی ہے مجھ کو ساقیِ گلفام کی خواہش
جو آ جاوے تو جی جانا، جو اُٹھ جاوے تو مر جانا
میرے تئیں اُس کے مبالغہ سے نہایت شوق دیکھنے کا زیادہ ہوا اور اُس جوان سے کہا کہ واہ واہ اس سے کیا بہتر ہے ؎
گر مری آنکھوں پہ رکھ دیوے قدم وہ نازنیں
خارِ ہر مژگاں مرا ہووے ابھی رشکِ چمن
بہ کشادہ پیشانی بُلوائیے اور چشم منتظر مشتاقوں کے تئیں جمال فرحت آثار اُس کے سے منور کیجیے۔ بارے اس جوان نیں اشارہ درِ پردہ کے کیا۔ بعد ایک ساعت کے دیکھتا کیا ہوں کہ ایک رنڈی کریہ منظر بد ہیئت کہ جس کے دیکھتے روح بیچ قالب کے جذب ہو جائے، چڑیل کے سے ہاتھ پاؤں لے کے برابر اس جوان کے آ بیٹھی ؎
بس اُسے دیکھتے ہی ہوش مرا بھول گیا
باغِ مجلس میں کوئی اور ہی گل پھول گیا
میں اس واردات سے اپنے دل میں بہت محظوظ ہوا کہ الٰہی وہ یہی محبوب دل پسند اُس کی ہے کہ جس کی تعریف اس مبالغہ سے تھی۔ پھر جو سوچا تو یہی ہے گوشت خر و دندانِ سگ۔
مُقصر یہ کہ تین روز کامل ہنگامہ بزم ناے و نوش کا گرم رہا اور فقیر بیچ خواب غفلت کے بد مست و مدہوش ہو کے کچھ خبر آپ سے نہ رکھتا تھا۔ روز چہارم جب کیخسرو سیمیں بخت ماہ کا بیچ شبستان مغرب کے گیا اور شہسوار زریں لباس آفتاب کے نے بیچ میدان اُفق کے قصد ترک تازی کا کیا، جوان نے گراں خواب بے ہوشی سے میرے تئیں بیدار کیا اور صداے نوشا نوش کی گرم کر کے مشغول عیش و طرب کا ہوا۔ ایک لمحہ پیچھے معشوقہ پسندیدہ اپنی سے کہا کہ اس سے زیادہ تکلیف ضیافت کی دینا بعید رسم مہمان داری کی سے ہے۔ پس اب تخفیف تصدیعہ مہمان عزیز کے سے راضی ہونا شرط دلداری و میزبانی کی ہے۔ آخرش دونوں ہم دست مجلس سے بر آئے اور میں اجازت و دستوری اُس جوان سے لے کر سبک دوش اُٹھا اور جلدی پوشاک قدیم اپنی پہن کر روانہ غریب خانے کا ہوا۔ جو ابتدا سے کبھی اتفاق جدا رہنے کا اُس ملکۂ جادو ادا سے نہ ہوا تھا اس سبب سے خجالت زدہ و محجوب ہو کر زبان معذرت کی بیچ خدمت اُس شیریں دہن کے کھولی اور قصہ ضیافت کا مفصل نقل کیا۔ بفضل الٰہی وہ کہ داناے عصر تھی، میرے تئیں نہایت دلداری سے فرمایا: اگر دوتین روز مہمان خانہ میں اتفاق رہنے کا ہوا، کچھ مضائقہ نہیں کہ مشہور ہے رفتن بہ ارادت و آمدن بہ اجازت۔ توں گرد اِنفعال بے جا کی چہرہ حال کے سے جھاڑ کر ہرگز تشویشِ خاطر کے نہ لا لیکن تیرے تئیں بھی اسباب ضیافت اُس کے کا ترتیب دینا از جملہ واجبات ہے، پر عدم سر انجام ضروری سے کچھ فکر اندیشہ نہ کر۔ بس یہی کہ جوان مرد جواہر فروش کے تئیں اپنے ساتھ لے آوے اور یہاں خدا کے فضل سے ایک دم میں سب لوازمہ ضیافت کا آئین شائستہ سے زیب ترتیب کی پاوے گا۔ فقیر نے بہ موجب امر کے اُسی وقت جواہر فروش سے جا کے کہا کہ جو یہ عاجز فرمانے تیرے کے تئیں بسر و چشم بجا لایا، پس بہ مقتضاے مہر و محبت کے اگر توں بھی نور قدوم بَہجت لزوم اپنے کے سے شبستان آرزوے مشتاق کے تئیں منور کرے، گنجائش رکھتا ہے۔ غرض کہ اُس کے تئیں نہایت مبالغہ سے ہمراہ لے کر ڈیرے کو آتا تھا اور بے مائیگی اپنی سے یہ خیال جی میں لاتا تھا ؎
مفلسی سب وقار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
اگر آج میرے تئیں مقدور ہوتا تو سرانجام دعوت کا اس سے بہتر تیار کرتا اور اب جو بے اختیاری سے اُس کو لے کر مکان میں جاتا ہوں خدا جانے کہ کیا اتفاق در پیش آوے اس خیال میں مضطر و متفکر چلا جاتا تھا۔
جب مسافر جہاں پیماے آفتاب کا قطع مسافت گیتی کا کر کے بیچ منزل گاہ مغرب کے پہنچا، آخر روز نزدیک غریب خانے کے آ کر ایک مرتبہ دیکھتا کیا ہوں کہ کوچہ حویلی کا از بس آرائش لوازم ضیافت کے سے رشک افزاے گلستان فردوس کا ہو رہا ہے اور میدان جلو خانے کا جاروب کشی کی رخت و روب سے خجلت دہ صفاے رخساره محبوبوں کا ہو گیا۔ فقیر نے اس واردات سے مانند آئینہ کے پشت اوپر دیوار حیرت کے رکھ کے غور کیا کہ یا رب! یہ عالم طلسم کا ہے یا خواب و خیال ہے یا غلطی سے راہ گھر کی فراموش کر کے والیِ شہر کی دولت سرا پر پہنچا ہوں کہ اس مرتبہ انبوه مردم کا صف بہ صف مستعد تیاری جشن شاہانہ کے ہے۔ آخرش آثارِ علامات سے نشان گھر کا معلوم کر کے اندرون دروازہ کے داخل ہوا تو کیا نظر پڑتا ہے کہ آب پاشی صحن دیوان خانہ کی نے ترشح شبنم گلزار کے تئیں بے آب کر رکھا ہے اور شفافی فرش چاندنی کی نیں رنگ چہرہ چاندنی کے تئیں سفید کر دیا ہے ایک طرف جماعت مُخَدَّرات چراغاں کی بیچ نقاب ٹٹی ابرق کے نور افزاے دیدۂ نظارگیوں کی ہو رہی ہے اور ایک طرف نو عروسان شمع کے بیچ چھیپان فانوسوں کے جلوہ آرا ہو کر فروغ بخش چشم مشتاقوں کی ہوتے ہیں ؎
زبس کیا ہے مرصع اسے جواہر سے
ہر ایک حلقۂ زنجیر سقف میں اُس کے
بیاں میں کیا کروں اس لطف کے تئیں جیسے
ہے کان لعل سے خالی گہر ستی دریا
عجب ہی لطف سے ہر قمقے کو نصب کیا
بندھا ہے زلف میں معشوق کے دل عاشق کا
کہیں صدا تان ترنگ کی و آواز ترانۂ موزوں رباب و آہنگ و سَرناے گلو مطربان خوش نوا نغمہ سنج کے سے بہ نحو حالت در مست و دیوار مست کے بندھ رہی ہے اور کہیں ساقیان خوش لقا جادو ادا با زلف دل آویز و تبسم شکر ریز کے مے گلگلوں کے شیشہ سے جام مرصع پُر کر کے مشغول مراسم تواضع و لوازم مہمانداری کے تھے۔ کوئی حُسنِ نمکین سے نمک دانِ گزک بیچ ہاتھ نازنین کے لے کر نمک شوق کا اوپر کباب دل سوختگان محبت کے چھڑکتا اور کوئی غبغب شیریں سے شیریں نُقل ہاے میوہ کے بیچ خوانچہ سیمیں کے رکھ کے ذائقہ شکر خواران عالم مَودت کے تئیں حلاوت لذت کی دیتا۔ بارے مہمان کے تئیں اوپر صدر مجلس کے بٹھایا اور اسباب لوازم ضیافت کا بیچ خدمت اُس کی رجوع کر کے آپ واسطے تلاش ملکۂ نازنیں اپنی کے اُٹھا۔ تماشا یہ کہ جہاں دیکھتا ہوں اصلاً نشان اُس کے سے سُراغ نہیں۔ رفتہ رفتہ متصل مطبخ کے پہنچا، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ پری پیکر بیچ کُنج ایک مکان کے چادر سفید سر پر کھینچے ہووے محنت تیاری سامان دعوت کے سے عرق عرق اور تر بہ تر ہے۔ اُس وقت کے پسینہ کی بہار میں دو شعر بے اختیار زبان پر گذرے ؎
عرق گرتا ہے تیری زلف سے اور دل سہمتا ہے
شب تاریک ہے اور ٹوٹتے ہیں دم بہ دم تارے
اور ایک یہ عرض کرتا ہوں ؎
عرق ہے مکھ پہ ترے یا گلاب ٹپکے ہے
عجب ہے مجھ کو کہ شعلہ سے آب ٹپکے ہے
اور روبرو آ کے پیشانی اُس کے کے تئیں بوسہ دیا اور قربان ہو کر اوپر متانتِ راے و رِزانتِ فکر و جوہرِ فطرت و سلیقۂ قابلیت اس کے ہزار تحسین و آفرین کر کے کہا ؎
کیوں نہ ہو ناز زمانے کو تری ذات سے آج
اس قدر جس کو دیا حُسنِ لیاقت حق نیں
ختم ہے تجھ پہ فراست کے کمالات کے کام
دی تجھے جوہر اول کی نیابت حق نیں
اس بات کے سُننے سے ملکہ نے در جواب فرمایا کہ استغفر اللہ! یہ حُسن ظن تیرا ہے و اِلّا یہ بشر سے وے وے کام سر انجام پائے ہیں کہ جس کے خیال کی رفعت میں مرغ تیز رو وہم و قياس کا کیا قدرت کہ بال پرواز کے کھول سکے اور اس کا تو کیا ذکر ہے۔ لیکن میرے تئیں تیری لسّانی خوش نہیں آتی۔ کہیں یہی رسم زمانے کی ہے کہ مہمان کے تئیں تنہا چھوڑ کر آپ بہ فراغت باتیں بنائے۔ پس توں وہیں جا کے رسم تواضع و مدارات کی بجا لا اور اُس کی معشوقۂ پسندیدہ کے تئیں بھی بُلوا کر مسند علیٰحدہ بیچ مجلس کے آراستہ کر کے بٹھلا۔ فقیر بہ موجب امر کے مجلس میں آ کر حاضر ہوا اور جو کچھ واجبات مہمان داری کے تھے تعظیم و تکریم سے ادا کر کے کسی خدمت سے مقصر نہ رہا اور فی الفور ایک خواجہ سرا کے تئیں واسطے طلب اس عجائب المخلوقات کے بھیجا۔ جب معشوقہ سیاہ فام شب کی نے اِس طرف کی پٹّی سے اُس طرف کو کروٹ لی، وہ تحفہ عِلّت بیچ چھیپاں مُکَلّف کے سوار ہوکر آن پہنچی۔ بارے فقیر اُس کے ساتھ لوازم استقبال و احترام کے بجا لا کے نہایت تپاک سے پیش آیا اور برابر مہمان کے نپٹ اعزاز و اکرام سے اوپر مسندِ زرّیں کے بٹھلایا۔ جوان جمال اُس کا دیکھ کر از بس خوش وقتی سے بیچ پیرہن کے نہ سمایا اور وہ بھی آتے ہی بلاے ناگہانی سی جوان قمر طلعت سے یوں چپٹ گئی جیسے چاند کو گہن گھیر لیتا ہے اور تماشابیں مجلس کے انگشت حیرت کی دندانِ حسرت سے کاٹ کر لا حول کے پڑھنے سے یوں غوغا کر رہے تھے جس طرح سے صدقہ لینے کوں بھنڈریے گرہن کے روز شور کرتے ہیں، لا حول و لا قوة الا باللہ۔ جان صاحب کیا آئیں، گویا ایک سَوانگ آیا، جدھر دیکھتا ہوں اُدھر سے آدمی سب مجلس کے تماشا تیاری و آرائش ضیافت کا چھوڑ کر اُسی طرف متوجہ ہیں اور بے اختیار ہنس ہنس کے پڑھتے ہیں ؎
کیا ہے عشق کے سودے نیں کیا کام
کہ ہوتا ہے ہُما الّو سے بدنام
اور ایک عزیز ایک گوشے میں کھڑے ہوئے جُدا ہی کہہ رہے ہیں کہ یارو عشق کو ساتھ عقل کے کیا مناسبت ہے کہ متحیر ہو رہے ہو ؎
عشق کا مکّڑ جدھر آ کر کے کج رفتار ہو
عقل کی مکھی کی کیا قدرت وہاں بھنکار ہو
پر فقیر ایک گوشے میں واسطے تقديم خدمات مہمان داری کے موافق حکم ملکہ کے حاضر و مستعد ہو کر دم بخود تھا۔ ہرچند کہ مہمان مالک گھر کا میرے تئیں جان کے بیچ مدارات ہم پیالہ و ہم نوالہ ہونے کو مبالغہ کرتے تھے۔ میں اصلاً مزاج اپنے کے تئیں طرف کھانے پینے کے یا سیر تماشے کے مائل نہ رکھتا تھا۔ اس حالت میں سہ شبانہ روز گذرے۔
شب چہارم مہمانوں نے میرے تئیں نزدیک بُلوا کر نپَٹ ہی گرم جوشی سے کہا: میاں ؎
آدمی کے تئیں کچھ گرمیِ صحبت بھی ہے شرط
گو ترا وضع زمانہ سے ہے دل افسرده
ایسے مہمان کی لازم ہے کہ خاطر ہو عزیز
آج وہ دن ہے کہ جس جا میں تو دیکھے اس میں
یاں تلک شیخ و برہمن ہیں طرب کے مصروف
بادہ کو ہاتھ سے ساقی کے نہ پیوے ملا
پھر تو ہی بادۂ گلگوں سے رہے کیوں محروم
وہ بھی انسان ہے دنیا میں جو اتنا ہو خُنک
پر ہم آئے ہیں ترے گھر میں ادھر دیکھ تنک
بادہ بھر شیشے میں، رکھ لا کے نمک داں میں گزک
کہیں تو ہوتا ہے سنگیت کہیں ہے اولک
دیر میں بجتی ہے مِردنگ حرم میں ڈھولک
پر یہ راضی ہے کہ کپڑوں پہ جو چھڑکے تو چھڑک
پاس لے بیٹھ ہمیں سب کو چھکا، آپ بھی چھک
اور جو با وصف اس گفتگو کے پھر حرف انکار کا اوپر زبان کے لائے گا واللہ کہ ہمارے تئیں توقف ایک ساعت کا حکم عنقا کا رکھتا ہے۔ میرے دل میں یہ خیال گذرا کہ اگر در صورت اِغماض کے غبار کدورت کا بیچ خاطر مہمانوں کے بیٹھے کچھ لطف نہیں، لاچار پاس خاطر ان کے بساط نشاط کی آراستہ کر کے ہنگامہ بزم باده و پیمانہ کا گرم کیا۔ آخرش کثرت نوشانوش کی سے ابل مجلس سرشار ہو کے سر مست خواب غفلت کے ہوئے۔
روز چہارم جس وقت مغبچہ مخمور خورشید کا خمخانہ مشرق کے سے گلابی صبح کی ہاتھ میں لے کر واسطے شکست خمار کے طرف ساغر گل کے کہ شراب صبوحی شبنم کی سے پُر تھا متوجہ ہوا، یہ فقیر خمار خواب مستی کے سے بیدار ہو کر دیکھتا کیا ہے کہ آثار تشریف شریف ملکہ مہر طلعت اور تیاری اسباب ضیافت کے سے کچھ نشان نہیں اور وہ دونوں شخص سر از تن جدا درمیان ایک گلیم کے لپٹے ہوئے پڑے ہیں۔ معائنہ اس حال کے سے لشکر غارت گر وحشت کا بیچ اقلیم طبیعت میری کے تاخت لا کے متاع حواس کے اس قدر غارت کیا کہ بیچ شبستان دل کے چراغ عقل کا روشن نہ رہا۔ اتنے عرصہ میں اوپر بالیں میرے کے ایک خواجہ سرا صورت آشنا کہ بیچ تیاری سامان ضیافت کے حاضر تھا، نظر آیا۔ میں نے اس کے دیکھنے سے فی الجملہ افاقت حاصل کر کے استفسار احوال اس ماجرے کا کیا۔ اس عزیز نے در جواب کہا کہ تیرے تئیں دریافت حقیقت اس سرگذشت کے سے کچھ سروکار ہے کہ اتنا تفحص کرتا ہے؟ میں نے جو غور کیا تو واقعی ؏
مارا چہ ازیں قصہ کہ گاؤ آمد و خر رفت
ایک لمحہ خاموش ہو کر کہا کہ خیر، لیکن یہ فرمائیے کہ وہ شمع شبستان نزاکت کی کس مکان پر جلوہ افروز ہے؟ کہا کہ البتہ جو کچھ معلوم ہوگا بیان کروں گا، پر جاے تعجب ہے کہ تجھ سا شخص باشعور بے استرضاے خاطر مبارک اس کی سرمست شراب خود پسندی کا ہو یعنی بزم نشاط کی مخلّا بالطبع آراستہ کرنا اور دوستان دو روزہ سے بے دھڑک ہم پیالہ و ہم نوالہ ہو جانا کیا معنی؟ فقیر اپنے کیے پر سخت نادم ہو کر بولا کہ الانسان مرکب من الخطاء والنسیان، اب کرم کر کے معذور رکھیے ؎
خدا کے واسطے جانے بھی دو، ہوا سو ہوا
بھلا دو غصے کو، آؤ چلو، ہوا سو ہوا
بارے خواجہ سرا نے کچھ خدا ترسی سے اس کان ملاحت کے مکان کے سے نشان دیے اور آپ واسطے تجہیز و تکفین ان دونوں مقتول کے رہ کے میرے تئیں رخصت کیا۔ بندہ نیں اولا بہ شوق وصال اس بدیع الجمال کے اور دویم بہ خیال اس کے ؏
مبادا ہو کوئی میرا اگر گریباں گیر
فرصت کو غنیمت جان کے اپنی راہ لی اور افتاں و خیزاں شام کے وقت بیچ کوچۂ محبوب دلنواز کے پہنچ کر متصل دروازہ محل سراے کے ایک گوشہ میں تمام شب بیچ گرمی شوق ملاقات اس کی کے بے قرار تھا اور صبح تک سواے باد صبا کوئی واقف واقعی اس تپش درونی کا نہ پایا۔ لاچار اس صورت بے کسی میں ایک مسدس کے دو بند کہ حسب حال اس وقت کے تھے رو رو کر پڑھتا تھا ؎
کس ستی جا کے کروں درد کا اظہار اپنا
غم دل کس کو سناؤں کہ نہیں یار اپنا
جا دکھاؤں میں کسے دیدۂ خوں بار اپنا
جز خدا، کوئی نہیں مشفق و غم خوار اپنا
پس کروں کس ستی احوال کو اپنے اظہار
کہ کرے عرض مری جا کے صنم کے دربار
اے نسیم سحری! جا کے کہہ اس یار ستی
سبب گریہ ستی، ظالم خونخوار ستی
باعث درد ستی، موجب آزار ستی
بت بے رحم ستی، شوخ ستم گار ستی
کہ فلانا تیرے ہجراں میں پڑا مرتا ہے
سر کو پتھر پہ پٹک شور و فغاں کرتا ہے
علی الصباح جب خاتون مہر افروز شب کی نیں نہاں خانہ خاور کے سے سر بر لا کے اوپر کرسی زمردیں سپہر کے جلوس فرمایا، وہ خورشید لقا او پر مکان بالا خانہ کے جلوہ آرا ہو کر دریچہ کی راہ سے میری طرف متوجہ ہوئی۔ سبحان اللہ ایک صبح کیا دو صبح ہوئیں۔ بعد ایک لمحہ کے ایک خواص نیں نزدیک میرے آ کے کہا کہ تو فلانی مسجد میں جا کر قیام کر، اغلب کہ شام کے وقت عروس مراد تیری کی نقاب حجاب کا درمیان سے اٹھا کر چہرہ کشا ہو۔ فقیر بہ موجب ایما اس کے مسجد میں جا کر نرگس چشم انتظار کے تئیں مانند چشم نرگس کے اس نو گل خنداں چمن نزاکت کی طرف دو چار رکھتا تھا اور رو رو کے پڑھتا تھا ؎
ملائم ہوگئیں دل پر برہ کی ساعتیں کڑیاں
پہر کٹنے لگے اُن بِن نہ کٹتیں جن بناں گھڑیاں
جس وقت زاہد صومعہ دار روز کا قرص آفتاب کے تئیں بیچ حلق شفق کے فرو لے گیا وہی خواجہ سرا کہ اول روز رہنما مکان ملکہ کا ہوا تھا، مسجد میں آ کر دیکھتا کیا ہے کہ احوال فقیر کا ؏
چوں گوش روزه دار بر اللہ اکبر است
بعد ایک لمحہ کے نماز مغرب کی سے فراغت حاصل کر کے اس محرم اسرار نے میرے تئیں کمال دلداری سے ہمراہ لاکر درمیان ایک باغیچۂ دلکشا کے بٹھلایا اور کہا کہ جب تک غنچۂ آرزو تیرے کا شگفتہ نہ ہوئے، یہیں کوئی دم بیچ سیر تماشاے کیفیت چاندنی کےمشغول ہو اور آپ اجازت رخصت کی لے کر واسطے طلب اس قمر طلعت کے متوجہ ہوا۔ سبحان اللہ، بیچ تعريف نور افشانی بہار چاندنی اس رات کی کہ شب برات عاشقوں کی کہا چاہیے۔ ماہتابی وہاں کی شعاع زبان سے روشنی بیان کی بلند نہیں کر سکتی۔ ایک طرف فراش ماہتاب کے نے شامیانۂ چاندنی کے تئیں اوپر چبوترہ خیابان باغ کے رونق افزا خاطر عاشقوں کا کر رکھا تھا اور ایک طرف مشاطۂ جوئبار کے نیں شاہد آبشار کے تئیں زیور نگین الماس کا پہنا کر جلوہ پیرا دل مشتاقوں کا کیا تھا لیکن جب تک کہ وہ ماہتاب سپہر حسن و لطافت کی جلا بخش دیدۂ منتظر کے نہ ہوئی تھی بہ مضمون اس کے ؎
گل بے رخ یار خوش نہ باشد
بے باده بہار خوش نہ باشد
گلزار بیچ خاطر میری کے خار تھی اور لیلۃ القدر بیچ خیال میرے کے شب تار۔ اس وقت فی البدیہ یہ غزل حضرت تحسینؔ صاحب کی بے اختیار زبان میری سے دُر ریز ہوئی ؎
کس مزے کے رنگ سے، بن بن کے آتی ہے بہار
چاندنی ہے سیر ہے اور بادۂ گل رنگ ہے
ماہتابی کے مزے میں حیف وہ مہتاب نئیں
جھومتی، جھکتی، جھلکتی، جھلجھلاتی چاند سی
واہ واہ تحسینؔ نپٹ یہ مصرعۂ موزوں ہوا
حسن کو اپنے عجب سج سے دکھاتی ہے بہار
گر نہیں ساقی تو کس کافر کو بھاتی ہے بہار
ہاے اس کے ہجر میں کیا مفت جاتی ہے بہار
چاندنی کے رنگ میں کیا دل لبھاتی ہے بہار
جو وہ گل رخ پاس نئیں، کس کو خوش آتی ہے بہار
شکر بدرگاہ حضرت مقلب القلوب کے کشش دل بے تاب کی نیں اوپر دل اس ماہرو کے جنبش دی، یعنی اس خواجہ سرا نیں جاتے ہی یہ کبت کب دیو کا بیچ خدمت اس کے گزارش کیا ؎
چاندنی سے آنگن بچھونا بچھے، چاندنی سی پھیل رہی چاندنی سہاے دیو بھوم بھوم
تو ہے بن پھیکی لگت جل چند مکھی، تیرے چرن چرچت جھک چوم چوم
آلی آن دیکھو کیسورا کھو ہے چند واتان تاتین سکھ داں تو برہ کرے گھوم گھوم
چھنے چھنے چھائیں سے جو بناے جھکی جھلکت ہے جل میں جھالریں جھک رہیں جھوم جھوم
بارے مضمون اس کبت کے اوپر دل اس ماه جبیں کے اثر کر گئے کہ بعد یک لمحے کے وہ ماہ شب چار دہم رونق افزا حدیقۂ فردوس پیرا کی ہو کر اوپر مسند زربفت نقرہ کے جلوہ آرا ہوئی۔ واہ جی واہ! جس وقت وہ قمر طلعت داخل باغچۂ نمونۂ جنت کے ہوئی، عطر گلاب رخسارۂ زلیخاے شبِ مہتاب کا تقویت بخش دماغ تماشائیوں کا ہو کے زینت آرا بزم کامرانی کا ہو گیا اور یوسف عکس بیاض نگینہ ہاے الماس انجم کا اوپر خاتم مینا رنگ سبزۂ ریاض خُلدآئین کے زیب افزا دیدۂ نورانی کا ہوا ؎
کنِّے کیا خرام چمن میں کہ اب صبا
لاتی ہے بوئے ناز سے بھر بھر کے جھولیاں
نو عروسان شبّو کیں اوپر فرش چاندنی کے لباسِ نقرہ سے بہار افروز بزم دل فریبی و دل ربائی کی تھیں اور ماہ رویان نسترن کیں اوپر بساط چمن کے خلعت سیمیں سے رونق افروز خوب روئی و خوش نمائی کی تھیں ؎
جوں ہی آئی بزم میں وہ ماہرو سیمیں عذار
کیا قیامت شکل تھی، مہتاب جس کے حُسن کو
کیا کروں تعریف اس کی نقرئی پوشاک کی
زیورِ الماس میں دیکھا چُھپے نور جمال
ہوگیا مہتاب پر کچھ اور ہی نور آشکار
دیکھتا تھا دور ہی سے آنکھ اپنی پھاڑ پھاڑ
موج دریا میں ہو جیسے ماہ تاباں کی بہار
ماہ کی ہووے جھلک جوں درمیان آبشار
واقعی کیا سیر ہے تحسیںؔ کہ کچھ کہنا نہیں
جب میسر ہو کبھی، اس جی کو کر دیجیے نثار
بہ مجرد جلوہ آرا ہونے اُس شمع شبستان حُسن و جمال کے یہ فقیر مانند پروانے کے تصدّق ہو کر بصورت بندہ ہاے جاں نثار کے رو برو آ کے حاضر ہوا۔ اس عرصہ میں خواجہ سرا بیچ سفارش میری کے کچھ کلمۂ خیر بولا۔ فقیر نیں اُس وقت طرف خواجہ سرا کے مخاطب ہو کے کہا کہ میاں! ؎
جو گذری مجھ پہ اُسے مت کہو، ہوا سو ہوا
بلا کشانِ محبت پہ جو ہوا سو ہوا
نازنیں از بس کہ غبار کدورت کا میری طرف سے بیچ خاطر کے رکھتی تھی، ایک بد دماغی سے میری طرف متوجہ ہو کے بولی کہ اب صلاح وقت یہی ہے کہ سو توڑے دینار سرخ کے زادِ راہ لے کر وطن مالوف کو سدھاریے۔ فقیر کہ سوختہ آتش عشق و محبت کا تھا، سنتے ہی اس بات کے آهِ سرد دلِ پُر درد سے بَر لایا۔ جو وقت تلف ہونے حق کے سواے چارہ ساز حقیقی کے کوئی داد رس اس بیچارے کا نظر نہ پڑا۔ لا چار نائرہ تاسف کا بھٹّی سینہ کی سے مُلتَہِب کر کے اس شعر کے تئیں بے اختیار پڑھ کر رویا ؎
داد کو پہنچا نہیں فرہاد ناحق مرگیا
دیکھ لی ہم نے خدا تیری خدائی واه واه
اور اُس کی خدمت میں گزارش کیا کہ یقین خاطر عالی کے رہے اگر اس عاجز کے تئیں طمع دينار و درم کی ہوتی تو جان و مال سے تصدّق فرق مبارک کے نہ ہوتا لیکن افسوس کہ زمانے سے مَراتب حقوق شناسی کے اٹھے۔ جب معشوق خانہ خراب نیں اس قدر بے مہری کو کام فرمایا تب کسی عاشق کمبخت نے یہ واسوخت تحریر خامۂ سوز و گداز کا کیا ہے کہ جس کا یہ بند حسب حال اپنے پڑھتا ہوں ؎
تم سے امید یہ تھی دل کو مرے شاد کرو
خاکساری مری ناحق تو نہ برباد کرو
کہ کوئی مجھ بغیر اُس وقت خریدار نہ تھا
نہ کہ اُلفت کے تئیں چھوڑ کے بیداد کرو
کچھ تو اس فدویت اگلی کے تئیں یاد کرو
حالتِ غم میں کوئی مونس و غم خوار نہ تھا
اس بات کو گوش کر کے اُس شیریں زبان نے برہم ہو کے کہا: چہ خوش، مینڈکی کو بھی زکام ہوا۔ اے عزیز! تو دیوانہ ہوا ہے کہ اندازہ سے قدم باہر رکھ کے سوداے محال بیچ سر بے مغز کے پکاتا ہے۔ از براے خدا اس گفتگو بے معنی سے درگذر۔ اگر اور کسی سے یہ اداے خارج عمل میں آتی، واللہ کہ مارا جاتا، پر تجھ سے کچھ کہنا نہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ اب آپ اپنی راہ لیجیے کہ بیچ لوح تقدیر کے آب و خورد تیری ہمارے پاس یہیں تک لکھی تھی۔ اس وقت یہ فرہاد دشت بلا کا آنکھوں میں آنسو بھر لا کے بولا: اگر بیچ دیوان مشیّت کے منشور ناکامی کا میرے نام ہی پر ثبت ہے تو خیر ؎
واجب القتل ہیں ہم لایق تلوار ہیں ہم
ہاں میاں سچ ہے کہ ایسے ہی گنہگار ہیں ہم
وہ لیلیٰ ناقۂ بد دماغی کی اس بات کے سننے سے اور بھی خفا ہوئی اور کہا کہ رمز و ایما کی بات چیت اپنے تئیں خوش نہیں آتی۔ یہ اشارہ اور کنایہ کسی اور سے کر، اختلاط پیش از آشنائی چہ معنی ؎
یہ بھی کوئی طرز ہے، کہنے کی کسی سے ناداں
دردسر زیادہ نہ کر، چپ ہو، بس اب زیادہ نہ بک
یہ کہہ کر عالم خفگی میں خراماں خراماں متوجہ دولت سرا کے ہوئی۔ پھر میں نیں ہر چند سر پٹکا، اس طرف رُخ توجہ کا نہ فرمایا۔ لاچار یہ مجنوں صحراے بے خودی کا ساتھ دلِ بریاں و دیدہ گریاں کے اس مکان سے مایوس ہو کے اُٹھا اور اسی ساعت سے چالیس روز تک شبانہ روز حیران و پریشان بیچ عالم دیوانگی کے کوچہ گردی و صحرا نوردی میں بے خواب و خَور مانند مجذوبوں کے یہ مخمس حضرت تحسینؔ صاحب کا کہ بعینہ حسب حال فقیر کے تھا، پڑھ پڑھ کے روتا پھرتا تھا۔ مخمس:
ارے قاصد تو جا کر یار کے کوچہ میں کہہ آنا
تری حسرت میں اُس کو رات دن رہتا ہے غم کھانا
کہ تحسیں عشق میں تیرے سدا رہتا ہے دیوانا
یہ حالت ہو گئی اُس کی نہیں جاتا ہے پہچانا
لبوں پر جان ہے اس کی کہ جیوں لبریز پیمانا
شب فرقت میں تیری سخت بے تابی سے روتا ہے
نہ اُس کو کچھ دوا سے ہو، نہ کچھ افسوں سے ہوتا ہے
نہ دن کو چین ہے اُس کو نہ دکھ سے رات سوتا ہے
نپٹ ہی گریہ و زاری سے اپنے جی کو کھوتا ہے
تجھے لازم ہے اُس تک ایک دن تشریف لے جانا
کبھی سودائیوں کی طرح سیتی آہ بھرتا ہے
کبھی مجنوں صفت گھر چھوڑ کر صحرا میں پھرتا ہے
کبھی دیوانگی سیتی گریباں چاک کرتا ہے
کبھی فرہاد کی صورت لگا تیشے کو مرتا ہے
کبھی مانند پروانہ کے خاکستر ہو جل جانا
کبھی گھبرا کے اشک آنکھوں میں بھر لاتا ہے رقّت سے
کبھی جھنجھلا کے جی دینے پر آجاتا ہے دقّت سے
کبھی سوزِ درونی سے جلے ہے غم کی حدّت سے
کبھی مرنے کی رکھتا ہے تمنا دکھ کی شدت سے
کبھی مجذوب کی صورت سے سنگِ کودکاں کھانا
کوئی کہتا ہے سودا ہے اسے، فصّاد کو لاؤ
کوئی کہتا ہے عاشق ہے، کہیں واں اس کو لے جاؤ
کوئی کہتا ہے، کچھ آسیب ہے، سیانے کو دکھلاؤ
طبیب عشق کی دوکان کوئی اس کو بتلاؤ
علاج اس کا یہی ہے شربتِ دیدار پلوانا
نہ اس کو چین سے مقصد، نہ ہے آرام کی خواہش
نہ کچھ رسوا کے ہونے سے غرض، نَے نام کی خواہش
نہ کچھ مینا سے مطلب ہے، نہ اس کو جام کی خواہش
دِوانہ ہو کے رکھتا ہے سدا دشنام کی خواہش
مگر حاصل ہے اس کو عمر سے ساقی کا آجانا
جسے گذری نہیں، راز دل بے تاب کیا جانے
مراتب دوستی کے، تارک الاحباب کیاجانے
جگر جلنے کی لذّت آگ پر، سیماب کیا جانے
کوئی بے مہر حال دیده پُر آب کیا جانے
عبث ہے داستانِ غم تجھے رو رو کے سمجھانا
جو مدار زندگی انسان ضعیف البنیان کا محض اوپر اکل و شُرب کے ہے، لاچار عالم بے طاقتی میں حرکت مَذبوحی سے بھی معذور ہو کر زیر دیوار اُسی مسجد کے جا پڑا اور آہستہ آہستہ وے اشعار مخمس کے زبان حال کی سے پڑھتا تھا۔
اتفاقاً ایک روز اسی خواجہ سرا نے بہ تہیہ نماز جمعہ کے اُسی حالت میں اوپر سر میرے کے گذر کیا۔ ہر چند فقیر حالت بے خودی میں اصلاً صورت اپنی بحالت اصلی درست نہ رکھتا تھا لیکن از بسکہ آثار حزن و ملال کا پڑھنے اشعار درد آمیز کے سے اوپر چہرے میرے کے آشکار تھا۔ خواجہ سرا نے احوال میرا ملاحظہ کر کے نہایت خون جگر کا کھایا اور بہ مقتضاے رحم دلی کے نپٹ ہی دل سوزی سے میری طرف خطاب کر کے کہا ؎
دیکھا تھا اُن دنوں میں یہ چنگا بھلا غریب
یاں کون درد رس ہے ترا اور کہاں طبیب
عاشق ہوئے سے پہنچ گیا مرگ کے قریب
اس مرض سے لکھا تھا، جو مرنا تو یا نصیب
عاشق تو کیوں ہوا تھا سزا ہے تری یہی
تب میں نے کہا: کیا کیجیے ؎
جان اُس کا ہے، دل اُس کا ہے، جگر اس کا ہے
تیرِ بیداد جدھر رُخ کرے، گھر اُس کا ہے
چنانچہ مطابق اُس کے ایک کبت بھی یاد ہے۔ کبت:
نار نار کیوں نہ تجوں، نین نین کیوں نہ تجوں، سیسں سیسں کیوں نہ تجوں جاوے یاہی تن تیں
تن کیوں نہ جر جاؤ، جر کیوں نہ جھاڑ ہو جاؤ، جھاڑ کیوں نہ اُڑ جاؤ برہا کی پَوَن تیں
یہ حال، یہ جیو، تبھ بن آوے جبھ بنواری آویں، یا آوے واہی بن تیں
رنگ جاؤ، روپ جاؤ، جے لے ہوے سو ہی جاؤ مادھو جی کی ہُیت نہ جاؤ میرے من تیں
اور ایک مضمون موافق اس کے اور پڑھا:
عشرت سے دو جہاں کی یہ دل ہاتھ دھو سکے
اُس کے قدم کو چھوڑ سکے، یہ نہ ہو سکے
آخِرش بعد تاسّف تمام کے ایک شخص کے تئیں نزدیک میرے چھوڑ کر آپ واسطے اداے نماز کے متوجہ مسجد کا ہوا اور وقت معاودَت کے فقیر کے تئیں درمیان ایک میانے کے سوار کر کے ہمراہ اپنے بیچ خدمت اُس تخت نشیں کِشور غرور کے لے جا کے چِلوَن کے باہر بٹھلایا۔ اگرچہ شکل فقیر کی شباہت قدیم سے البتہ تجاوز کر گئی تھی لیکن ملکہ نے باوصف اُس کے کہ میرے تئیں ایک مدت بیچ مصاحبت اپنی کے ممتاز رکھا تھا، از روے اغماض کے دیدہ و دانستہ خواجہ سرا سے استفسار احوال میرے کا کیا۔ اُس پاک طینت نے عرض کیا کہ یہ وہی گنہگار ہے کہ مورد عتاب ملکہ کا ہوا تھا۔ اُسی ساعت سے اس فلک زدہ کی یہ نوبت ہے کہ جہاں کہیں آتش عشق اُس کے کی بہار اشتعال کو گُل کرتی ہے، شعلہ عرق انفعال کا اوپر چہرے کے کھینچتا ہے اور جس جگہ کہ سیلاب اشک اس کے کا طوفان ریزش کا لاتا ہے، دریا حرف خجالت کا اوپر صفحہ خاطر کے لکھتا ہے۔
ملکہ نے از راہ تمسخر کے خواجہ سرا سے کہا کہ استغفر اللہ! قریب یک ماہ کے ہوتا ہے کہ اُس شخص کے روانہ ہونے کی خبر وطن مالوف کوں میرے تئیں مُخبران صادق سے پہنچی ہے۔ خدا جانے کہ یہ کون شخص ہے اور کس کا ذکر ہے۔ اُس وقت خواجہ سرا نے جبیں نیاز کی اوپر زمین ادب کے گھس کر عرض کیا کہ اگر گستاخی معاف ہو تو التماس کروں۔ فرمایا کہ کہو۔ کہا کہ ؎
جب مسیحا دشمن جاں ہو، تو کب ہو زندگی
کون رہ بتلا سکے جب خضر بھٹکانے لگا
اے مہر سپہر قدردانی! از براے خدا نقاب حجاب کا درمیان سے اُٹھا دے اور اوپر بے کسی اس بے کس کے نظر ترحم کی فرما کے حرف ناحق شناسی کا لوح دل سے دھو ڈال کہ اجر اس مہر ورزی و دل نوازی کا ضائع نہیں ہوگا، آگے جو کچھ مرضیِ مبارک میں ہو عمل میں لائیے۔ ملکہ نیں متبسم ہو کے کہا کہ خوب! بالفعل اس کے تئیں بیچ دار الشفا کے بھیجنے کے فکر صحت کا کر۔ بعد ازاں استفسار احوال کا بھی ہووے گا۔ عرض کیا کہ جان قربان، جب تلک اُس کے اوپر گلاب پاشی دست مبارک کی نہ ہوگی، تب تک طپش درونی اُس کی مُنطفی نہیں ہونے کی۔
ملکہ اس بات کو سن کر خاموش ہو گئی۔ پھر خواجہ سرا نے لاچار ہو کے گزارش کیا کہ تکلف برطرف:
کم بولنا بھلا ہے ہر چند پر نہ اتنا
مُند جائے چشم عاشق، تو بھی تو لب نہ کھولے
اندازہ سے زیادہ خموشی بعید شرط اہلیت کی سے ہے۔ اُس نیک بخت نے اس پر بھی اصلاً زبان کے تئیں جواب سے آشنا نہ کیا۔ اُس وقت فقیر کہ اپنی زندگی سے عاجز تھا، از بس سوزشِ سینہ اور سوختگیِ دل سے یہ دو شعر بے اختیار پڑھ اُٹھا ؎
اس درد دل سے موت ہو یا دل کو تاب ہو
قسمت کا جو لکھا ہے الٰہی شتاب ہو
اس کشمکش کے دام سے کیا کام تھا ہمیں
اے الفت چمن! ترا خانہ خراب ہو
تب ملکہ نے خدا ترسی سے نظر ترحم کی فرما کے باریابان بساط قربت کے تئیں حکم کیا کہ معالجان حاذق کے تئیں حاضر کرو۔ انھوں نیں آتے ہی تشخیص مرض کی کر کے شربت دیدار بتلایا اور واسطے رفع نقاہت و ضعف دل کے یہ مفرّح دلکشا کہ آگے اطبّاے حکمت اساس و حکماے مزاج شناس نیں از روے قانون عقل کے تالیف کر کے خستہ دلان بیمارستان شوق کے تئیں تناول اس کا ترغیب فرمایا ہے، تجویز کی۔ نسخہ:
سنبل الطیب گیسو، پرسیاؤشانِ ابرو، بادام چشم، مرزنگوشِ گوش، گل سرخِ رخسارہ، عنبر اشہب خال، مشک سیاہ کاکل، ابریشم مقرض زلف، یاقوت لب، مروارید دنداں، پستہ دہن، سیب ذقن، ورق نقرۂ بدن، پشم سفیدِ سینہ، حجر الیہود دل، مرجان پنجہ، فندق سر انگشتاں، سقنقور ساق۔
ان اجزا کے تئیں دوکان رستہ بازار حُسن کے سے تفحّص کر کے بعد ترتیب کے تھوڑا عرق بید مشک رخسارہ کا اور قدرے شکرِ خندہ اضافہ کرے اور آتش نرم جوشی سے آہستہ آہستہ پختہ کر کے بقدر دسترس مداومت کرے تو ان شاء اللہ تعالیٰ جلد شفاے کامل حاصل ہو۔
بارے نازنیں نے پنجۂ التماس حکماے حاذق الزماں کا ساتھ حناے اجابت کے رنگیں کیا۔ یہ بیمار عشق کا بہ توجہات دلی اس شفا بخش کے ایک ہفتہ کے عرصہ میں استعمال اُس یاقوتی روح افزا کے سے افاقت میں آیا۔ بعد ازاں نازنین نے کارپردازان حضور کے تئیں ارشاد کیا کہ اس جوان کے تئیں بعد فراغت حمام کے تبدیل پوشاک خاصہ کا کر کے لے آؤ۔ چنانچہ عاجز موافق حکم کے لباس فاخرہ زیب قامت کا کر کے بیچ خدمت ملکہ کی حاضر ہوا۔ اُس وقت نازنین پری چہرہ نے نہایت تپاک سے متوجہ ہو کے فرمایا کہ کمبخت شعلہ عشق تیرے کا دامن عصمت میرے کے تئیں آتش رسوائی سے ملوّث تو کر چکا۔ پھر اب کیا کہتا ہے۔ جو کچھ مرکوز خاطر تیرا ہو صاف صاف اظہار کر۔ تب تو بندہ دوگانہ شکرانہ کا بیچ درگاہ حضرت کارساز حقیقی کے بجا لا کے از بس خوش وقتی سے بیچ پیرہن کے نہ سمایا اور حالت بشاشت میں نقد جان عزیز کے تئیں تصدق فرق مبارک اُس کے کر کے، یہ شعر زبان پر لایا۔ فرد ؎
آج سب مل کے کہو لوگ مبارک مجھ کو
شکر للہ مرا یار مہربان ہوا
اور بیچ خدمت اُس خورشید طلعت کی عرض کیا کہ تقصیر معاف! بیچ حوصلہ اس رنج و مشقت کے امیدوار تفضّلات دل ربایانہ کا ہوں کہ اس جاں نثار کے تئیں بیچ شرف مناکحت اپنی کے سرفراز کیجیے۔ آخرش گھڑی دو ایک الخاموشی نیم رضا کی ٹھہری۔ بعد ازاں اس گل عذار نے عارض عرض میری کے تئیں ساتھ گلگونۂ قبولیت رونق بخشی اور جس وقت کہ نوجوان شاہد بادلہ پوش ماہتاب کا ساتھ عروس زرّیں لباس مشتری کے قران السعدین تھا، قاضی قضا کے نیں بہ حکم زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ کے عقد ازدواج کی منعقد کی۔ الحمد للہ و المنۃ کہ آرزوے دیرینہ بر آئی اور نقش مراد کا اوپر کرسی حصول مدعا کے بیٹھا۔ فرد ؎
صندلی رنگ نیں بوسہ نہ دیا تھا سو دیا
درد سر کا مرے درماں نہ ہوا تھا سو ہوا
لیکن جس طرح نقش آرزوے مناکحت ملکہ کا اوپر خاتم دل میرے کے منقش تھا، اُسی طرح سے دریافت کرنا معنی اس مضمون کا بھی عین تمناے خاطر تھا کہ دراصل وہ نازنین روشن چراغ کس شبستان کی ہے اور حبشی سبزہ رنگ نیں مبلغ خطیر کس وجہ سے بہ مجرّد ملاحظہ ایک پرچہ کاغذ کے حوالے میرے کیے اور سامان ضیافت کا اس تکلف سے ایک پہر کے عرصہ میں کیوں کر ہوا اور بیچ قتل ہونے اُن دونوں مقتول کے کیا سرّ تھا اور باعث خفگی مزاج مبارک کا اس عاجز کی طرف سے کس واسطے ہوا۔
چنانچہ فقیر بعد رسم مناکحت کے ایک ہفتہ تک تکلفات عرفی سے متعذّر رہا۔ آخرش ملکہ اس واردات سے متحیر ہوئی بلکہ ایک گونہ سوے مزاج ہو کے فرمایا کہ یا بہ آں شورا شوری و یا بہ ایں بے نمکی! اس کو کیا کہتے ہیں۔ بندہ نے اُس وقت بلا تصنع ظاہر کیا کہ صاحبہ عالم سلامت! اگر صحیح جانیے تو منصفی سے نہ گذریے۔ کہا: معلوم ہو کہ کس بات کا انصاف چاہتا ہے۔ عرض کیا کہ اشتیاق میرا بیچ استحصال نعمت غیر مترقب مواصلت تیری کے مسلم، لیکن جس بشر کے تئیں استقلال طبیعت کا درست نہیں اس کو انسان نہ کہا چاہیے۔ کہا کیوں کر۔ عرض کیا کہ عاجز نے اپنے دل میں اقرار کیا تھا کہ بعد مراسم مہرورزی صاحبہ زمانہ کے بعضے عقدۂ مشکل کے کہ استکشاف اُس کا بے توجہ عالیہ کے نہیں ہو سکتا جب تک بیان دُر بیان سے بیچ خاطر میری کے حل نہیں ہونے کے، بیچ کسی امر کے اقدام نہ کروں اور سچ بھی ہے کہ اگر شمع زبان بشر کی بیچ شبستان دل اپنے کے فانوس صدق مقال میں جلوہ پرداز نہ ہو تو اور کسی کے تئیں عکس فیض اُس کے سے استفادہ روشنی ہدایت کا معلوم۔ بقول شخصے کہ مصرع:
او خویشتن گم است کرا رہبری کند
پس توں اوپر مستقل مزاجی میری کے آفریں کر کے کلمۂ چند اُس عبارت سے کہ معنی مراد کے تئیں موافق پڑے، فصاحت کلام سے بیان کر۔ والّا ممکن ہے کہ دانہ تسبیح دل کا بیچ رشتہ محبت زبان کے کہ کلید گنجینہ نطق کی ہے، سرگرداں نہ ہو کے ایک جان دو قالب نہ رہ سکے۔ ملکہ نے چیں بہ جبیں ہو کے کہا کہ تیرے تئیں یاد ہوگا کہ میں نے اول مرتبہ منع کر رکھا ہے کہ توں بیچ حرکات اور سکنات میری کے زینہار مستفسر و متلاشی نہ ہو جیو۔ پس اب خلاف معمول بات کہنا کیا لطف ہے۔ فقیر نے ہنستے ہنستے ملکہ سے کہا کہ جیوں اور بات خلاف معمول معاف ہوئی، اتنی یہ بھی سہی۔ ملکہ اُس وقت جل کر اور بھی آتش کا پرکالہ بن گئی اور نپٹ ہی خفگی سے کہا کہ معقول! یک نہ شد دو شد۔ چل اپنا کام کر ان باتوں سے کیا چاہتا ہے۔ بیت ؎
دل کے تئیں سوخت نہ کر، زخم پہ چھڑکا نہ نمک
اتنا بھی بیہودہ گوئی ستی احمق نہ بہک
میں نے کہا: تقصیر معاف، زمانے میں کوئی راز مخفی تر ستر سے نہیں اور جب اسرار اُس کا دوسرے پر منکشف ہونا روا رکھا ہو تب بہر صورت محرمیت ہر سرّ کی طرفین پر واجب جاننا چاہیے اور انکشاف نہ کرنا اُس کا صریح رسوائی جانبین کا ہے۔ جب ملکہ نے فحواے کلام میرے کے تئیں بیان واقعی اور نفس الامر جانا، کہا: خیر، لیکن اتنا ہی پس و پیش ہے کہ مبادا اگر اس مبتلاے بلا کا راز برملا ہو تو خوب نہیں۔ میں نے کہا کہ استغفر اللہ، زینہار یہ خطرہ محظور خاطر خطیر کے نہ رکھیے اور میرے تئیں محرم خلوت سراے وفا و اخلاص کا جان کے بہ کشادہ پیشانی حقیقت سرگذشت اپنی کے سے ہمراز کیجیے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ کچھ سرّ فاش نہیں ہونے کا۔ قول مرداں جاں دارد۔
قصہ مختصر اس پری چہرہ نے جو دیکھا کہ یہ عزیز در پے استفسار ماجراے احوال میرے کے ہے اور بغیر کہے گریز نہیں، لاچار طوطی زبان کے تئیں بیچ سبزہ زار گفتگو کے یوں مترنم کیا کہ ہر چند افشاے راز کا کرناں موجب قباحت چند در چند کا ہے لیکن دوش ہمت اپنی کے تئیں بھی بار حقوق تیرے کے سے سُبک سار کرنا ضرور ہے، اس واسطے قصہ سرگذشت اپنی کا پاس خاطر عزیز تیری کے بیان کرتی ہوں، پر خبر شرط ہے ؎
اس بات کو گر اور سے ارشاد کرو گے
یہ یاد رکھو ہم کو بہت یاد کرو گے
آگے مختار ہو۔
قصۂ سرگذشت ملکۂ عالی جاہ
ملکہ نے صدف زبان سے سُرخی حکایت سرگذشت اپنی کے تئیں اوپر قرطاس بیان کے اس طور سے دُر ریز کیا کہ میں دختر والی اس ملک یعنی سواد اعظم سرزمین ولایت دمشق کی ہوں اور وہ بادشاہ ذی جاہ از بس رفعت و ثروت و منزلت سے ظل افتخار کا اوپر فرق فرقداں کے رکھتا ہے، جو سواے میرے اور فرزند بیچ مشکوے خلافت کے نہیں، عہد خوردگی سے درمیان مہد ناز و نعمت کے زیر سایہ عاطفت و پرورش مادر و پدر بزرگوار کے بسر لے جاتی اور ہمیشہ بزم عیش و نشاط کی آراستہ کر کے بیچ اکل و شُرب شراب و کباب کے ساتھ صحبت محرمان ہمراز و مصاحبان دمساز کے مشغول رہتی۔ مُقصّر اسی نوع سے حد بلوغ کو پہنچی اور اُس وقت سے اپنے تئیں مائل جمال گل رخان عشوہ ساز و پری پیکران نغمہ پرداز کے رکھ کے بیچ تماشاے رقص ارباب طرب کے اوقات صرف کرتی اور تمام لذت جہان کی سے مُرفہ الحال و فارغ البال ہو کے ہر حال دوگانہ شکرانہ کا بیچ جناب حضرت کارساز حقیقی کے بجا لاتی۔
اتفاقاً ایک مرتبہ بسبب بعضے عوارض جسمانی کے مصاحبت ہمدمان جانی کے سے طرح مباعدت کی پڑی۔ اس صورت میں مجلس نشاط کی مانند کُلبہ تیرہ روزوں کے اسباب شادمانی کے سے تہی تھی اور جام شراب کا مثل کاسۂ چشم حریفوں کے بادہ کامرانی سے خالی ہوا اور ترک عادت معہود سے غلبہ سودا کے نیں یہاں تک بیچ دل میرے کے راہ پائی کہ زلیخاے طبیعت کے تئیں یوسف استراحت کا بیچ خواب کے دیکھنا مشکل پڑا۔ جو آرام خاطر میرے کے تئیں سب خادمان حضور کے دل سے چاہتے تھے، ہر ایک ارکان دولت بقدر حوصلہ اپنے بیچ جستجوے معالجہ و چارہ سازی مرض میرے کے تگاپو کرتے۔ قضایا یہی خواجہ سرا کہ اُس وقت بھی محرم اسرار و ہمدم غمخوار میرا تھا، میل اپنا طرف شربت ورق الخیال کے بیشتر رکھتا تھا، مجھ سے کہنے لگا کہ اگر ملکہ جہاں شیرہ ورق الخیال کے تئیں بطور شربت کے نوش جان فرماویں تو زنگ کُلفت کا کہ اوپر آئینہ ضمیر منیر تیرے کے بیٹھا ہے، ساتھ صیقل سرخوشی کے دور ہو جاوے۔ میرے تئیں اُس کے مبالغہ سے رغبت شربت ورق الخیال کی زیادہ ہوئی اور کہا حاضر کرو۔ خواجہ سرا باہر جا کے ایک صُراحی شربت ورق الخیال کی ایک لڑکے کے ہاتھ میں لے کر آیا۔ میں نے بے تامل ایک جام بھر کے اُسے نوش کیا اور لذت اُس کی جو کچھ خواجہ سرا نے بیان کی تھی ہو بہو پائی۔ اُس وقت عوض اُس حُسن خدمت کے خواجہ سرا کے تئیں ایک خلعت فاخرہ مرحمت کیا اور مورد عنایات بے غایات کا کر کے اُس جام زمردیں کی پروانگی ہر روز کی دی۔ خواجہ سرا بلا ناغہ صراحی شربت کی موافق قاعدۂ مستمرہ کے اُس لڑکے کے ہاتھ لے آتا اور میں اُس کے تیں نپٹ خوش دلی سے پی جاتی۔ جب طاؤس نگاریں خیال میرے کا بیچ سبزہ زار نشہ اُس کے کے جلوہ گر ہوتا واسطے تفنن طبع کے کوئی گھڑی اُس لڑکے کے ساتھ کہ بیچ شیوہ ہزل و استہزا کے شہرۂ آفاق تھا اور حُسن و جمال میں یوسف ثانی کہا چاہیے، خوش طبعی سے اوقات صرف کرتی اور وہ بھی کمبخت لطیفہ ہاے رنگیں و نکتہ ہاے شیریں سے نقل ہاے عجیب اور ذکر ہاے غریب ایسی چرب زبانی سے ادا کرتا کہ کاسہ دماغ میرے کا شراب خوشگوار حظوظ نفسانی کے سے بے اختیار لبریز ہو جاتا۔ غرض کہ بیچ تلافی اُس خوش وقتی کے ہر روز جام آرزو اس کی کے تئیں مالا مال جواہر گراں بہا کے کرتی اور اوقات میرے بیچ تماشا بازی و ظرافت اُس کی خوش گذرتے۔ لیکن باوجود اس قدر عنایات و انعامات کے ظاہر حال لڑکے کا روز بروز تباہ نظر آتا اور وہ تبدیل لباس کثیف کا نہ کرتا۔ میں نے ایک روز تفُحّص حال اُس کے کا کیا کہ توں باوصف اس قدر غایات جواہر و زر کے حالت اپنی پریشاں کیوں رکھتا ہے اور یہ زر خطیر کہاں صرف کیا کرتا ہے۔ لڑکے نے جو دلجوئی اور دلنوازی میری مصروف حال اپنے کے پائی، آبدیدہ ہو کر بولا کہ جو کچھ تفضّلات پیش گاہ ملکہ جہاں کے سے ہوا، اُستاد بے مہر نے بہ مقتضاے بے رحم دلی کے ایک دام بھی اُس سے میرے تئیں عنایت نہ کیا۔ اس سبب سے بیچ تبدیل لباس کے معذور ہوں۔ میرے تئیں اس کی غریبی پر سخت رحم آیا اور خواجہ سرا کے تئیں فرمایا کہ تو اس لڑکے کے تئیں کسوت لطیف تیار کر کے اپنی صحبت میں تربیت کر اور زنہار اس کا مجوّز نہ ہو کہ مانند لڑکوں عوام الناس کے بیچ لہو لعب کے مشغول رہے، بلکہ بیشتر استرضاے عالیہ کی یوں ہے کہ بیچ خدمت باریابان حضور ہماری کے حاضر رہے۔ خواجہ سرا کہ رضا مندی میری کے تئیں سب چیز پر مقدم رکھتا تھا، موافق ارشاد کے بجا لایا۔ غرض کہ چند روز میں بہ سبب مہیا ہونے اسباب جمعیت کے رنگ و روپ لڑکے کا کچھ اور ہی ہو گیا ؎
جس نے دیکھی شکل اُس کی کہا سبحان اللہ
قدرت حق سے نمایاں نہ ہوا تھا سو ہوا
قصہ مختصر میں اس کے تئیں لباس فاخرہ و زیورات مکلّف سے آراستہ کر کے مصاحبت اس کی تئیں سرمایہ حیات سرمایہ جاودانی کا جانتی اور روز و شب بیچ دلداری و غمخواری اُس کے کی سعی کر کے ایک لحظہ نظارہ جمال دلفریب اُس کے سے چشم مشتاق کے تئیں معطل نہ رکھتی۔ رفتہ رفتہ یہ نوبت پہنچی کہ اگر ایک لمحہ بھی مفارقت اس کی پیش آوے تو از بس گرمی آتش شوق کی سے مانند سیماب کے بے قرار ہو جاؤں۔ چنانچہ اسی حالت میں سبزہ عنفوان شباب اُس کے کا بیچ چمن بہار عمر کے نورُستہ ہوا اور غنچہ سن طفولیت اُس کے کا نسیم عہد جوانی کی سے شگفتگی بلوغیت کی لایا۔ آخرش مثل مشہور ہے کہ عشق و مشک را نتواں نہفتن۔ بعد چند روز کے سر اس بات کا اوپر سب ملازمان سرکار کے و حاضران دربار کے شائع و آشکار ہوا۔ اس وقت محرمان سرادق عصمت کے بمقتضاے دور اندیشی کے آنے اس کے کے تئیں بیچ حرم سراے خاص کے باعث رسوائی خاص و عام کا جان کے ممانعت سے پیش آئے۔ میرے تئیں کہ بغیر اس کے ایک دم آرام و قرار و خواب و خیال نہ تھا، یہ سانحہ ہوش ربا سخت قیامت گذرا لیکن کیا کیجیے زمین سخت آسماں دور۔ لاچار خواجہ سرا کہ ہمراز میرا تھا، اس کے تئیں بلا کے حکم کیا کہ جو میرے تئیں پرداخت اس کی ہر طرح منظور ہے، پس بالفعل صلاح وقت یوں ہے کہ اس جواں کے تئیں دس ہزار اشرفی سرمایہ دے کر بیچ چار سوے بازار کے دکان جواہر کی مرتب کر دے اور نزدیک محل سرا خاص کے ایک خوش تعمیر آراستہ کر کے اسباب خانہ داری کا از قسم غلام و کنیزک کے بقدر مطلوب و بر وفق مقصود اس کے مہیا کر کہ اس مکان میں چشم بد ناتواں بینوں کی سے محفوظ رہ کر جو کچھ متاع تجارت سے انتفاع بہم پہنچاوے صرف مایحتاج اپنے کا کرے۔ بارے خواجہ سرا یوں عمل میں لایا۔ بعد چند روز کے اس جوان نے فیض دوکان تجارت کے سے نقد شہرت کا بیچ کف مراد کے اس قدر جمع کیا کہ جو کچھ جواہر گراں بہا و ملبوسات زیبا و مصارف سرکار والیِ شہر کے ہوتا، دکان اس کی سے آتا۔ تا بہ حدیکہ آوازہ نام آوری اس کے کا بیچ چاردانگ عالم کے بلند ہوا اور بدولت شغل جواہر فروشی کے گوہر فوائد کلی کا بیچ دامن آرزو کے فراہم لایا۔ حاصل کلام یہ ؎
خدا کسی کا کسی سے دل آشنا نہ کرے
اگر کرے تو کبھی اس سے پھر جدا نہ کرے
میرے تئیں مفارقت چند روزہ اس کی نپٹ ہی شاق گذری۔ اس واسطے بہ صلاح خواجہ سرا کے ایک نقب دولت سراے خاص سے اس کے محل سرا تک تیار کی اور یہ اسرار سواے خواجہ سرا اور دو دایہ کے کسی پر منکشف نہ تھا۔ جس وقت خسرو آفتاب کا متوجہ خلوت گاہ مغرب کے ہوتا اور کاسہ چشم مقربان بساط قرب کا بادہ نوم بے خبری کے سے لبریز ہوتا، خواجہ سرا اس جوان کے تئیں نقب کی راہ سے نزدیک میرے لے آتا اور میں تمام شب بیچ صحبت اس کی کے بادہ پیماے پیمانہ عشرت کی رہتی۔ کبھی وہ بہار حسن میری کے سے گل ہاے کامرانی کے چنتا اور کبھی میں چشمۂ جمال اس کے سے آب زلال کامیابی کا پیتی۔ جب مؤذن صبح خیز شمس کا اوپر مصلیٰ خاور کے بانگ نماز فجر کی دیتا، خواجہ سرا اس جوان کے تئیں نقب کی راہ سے بیچ مکان اس کے پہنچا آتا۔ اسی طور سے ایک مدت بسر لے گئی۔ چنانچہ ایک روز کا ذکر کرتی ہوں کہ جس وقت عروس مہر کی بیچ حُجلہ مغرب کی سدھاری خواجہ سرا موافق ضابطہ کے واسطہ طلب اس جوان کے گیا۔ دیکھتا کیا ہے کہ وہ عزیز گرفتگیِ طبع سے مانند غنچہ کے دل تنگ ہو رہا ہے، خواجہ سرا نے جو سبب اس کا پوچھا تو بلبل زبان اس کے کی بیچ قفس سکوت کے آ کر نغمہ پرداز نہ ہوئی۔ لاچار خواجہ سرا نے اس بات کے تئیں بیچ عرض پرستاران حضور کے پہنچایا۔ اس بندی کے تئیں جو اغواے شیطانی خوار کیا چاہے، ہواے محبت اس کی نے پرواز دیا کہ قلابہ پیار اس کے کا بیچ گریبان خاطر عشق پسند اپنے کے قائم کرکے زیب گلوے فہمید ناقص اپنے کا جانا۔ استغفر اللہ! اگر یہ جانتی کہ آتش بے قراری کی خان و مان ناموس کا یوں جلا دے گی تو واللہ میں زنہار اسیر دام بلا کی نہ ہوتی۔ آخر عشق کمبخت وہ بد بلا ہے کہ شیشہ حیا کا اوپر سنگ رسوائی کے ٹوٹے ہی ٹوٹے۔ ہاے ؎
آنکھ اپنی طرف اس کی جب میل نہ کرتی تھی
قینچی کی طرح دل کے پرزے نہ کترتی تھی
ٹکڑوں سے مرے دل کے دامان نہ بھرتی تھی
جب عشق نہ تھا یارو کیا خوب گذرتی تھی
کیا کام کیا دل نے دیوانہ کو کیا کہیے
اور اگر سچ پوچھیے تو واقعی یوں ہے ؎
دل کی تقصیر نہیں آنکھوں کا سب سے ہے یہ فساد
نین نئیں دل کے نصیبوں کے گویا ہیں جلاد
اول اس کام کے بنیاد کے یہ ہیں استاد
طرفۃ العین میں کر دیتے ہیں دل کو برباد
از گرفتاری چشم است گرفتاریِ دل
سبب چشم بود موجب لاچاریِ دل
کہ تجھ تک نوبت کہنے سننے کی پہنچی، و الا کہاں تو اور کہاں میں۔ خیر اس کو کہاں تک کہیے۔ غرض اس کے تئیں پیغام پہنچایا کہ جو میں باوجود اس قدر و منزلت کے کہ محک امتحان جوہر انسانیت کا ہے اور تاکید محارسان سلطنت کے ممکن نہیں کہ آ سکوں، پس اگر تو بھی نہیں آنے کا تو یقین جانیو کہ تیرے واسطے کیا کچھ متاع گراں بہا امتیاز و حرمت کی بیچ سیل غفلت کے نہ بہ جائے گی اور کیا لعل قیمتی اعتبار و عزت کا صدمہ سنگ بے قدری کے سے چور نہ ہوگا۔ یعنی میں بہ مقتضاے اس کے کہ زلف تیری نے بیچ ہر حلقہ کے سو کمند بلا کی لٹکا کر دل میرے کے تئیں پھنسا رکھا ہے، افتاں و خیزاں آ ہی پہنچوں گی لیکن اس صورت میں نتیجہ اس کا تیرے حق میں بھی خوب نہیں۔ ان نے جو اشتیاق میرا نپٹ بے قراری سے اپنی طرف پایا اور غرض اس کی اسی میں منظور تھی، بہ ہزار ناز و نیاز آیا۔ میں نے پوچھا کہ دل تنگی و آزردگی تیری کی کیا وجہ ہے کہ اتنی شوخی سے پیش آیا۔ عرض کیا کہ میں جو خاک برداشتہ اس جناب کا ہوں بحکم اس کے، مصرع:
ناز بر آں کن کہ خریدار تُست
نظر اوپر دلداری ملکہ جہانیاں کے بتوقع عفو تقصیر و امید اجابت التماس کے واقعی بے ادبی سے پیش آیا؛ پر اب، بیت ؎
بہ جان و دل ستی تقصیر وار حاضر ہے
ذبح کرو اسے یا چھوڑ دو ہوا سو ہوا
میں کہ کشتہ تیغ نگاہ اس کے کی تھی، حرکت اس کی سے دیدہ و دانستہ اغماض کرکے بولی کہ کیا وہ شکل ہے کہ جس کا حل ہونا اس قدر مشکل ہے۔ جوان نے عرض کیا کہ میں بے چارہ خاک برداشتہ اور محتاج اس آستانۂ دولت کا ہوں۔ اس سبب سے میرے تئیں بہ قول اس مضمون کے بہر طور مشکل ہے:
نے زر کی اسے قدرت، نے زور کی ہے طاقت
کس طرح سے کاٹوں میں، کٹتی نہیں یہ زحمت
نے عجز سے کچھ حاصل، نے کام کرے منت
کیا فکر کروں اس کا، لاحول ولا قوۃ
کیا کام کیا دل نے دیوانہ کو کیا کہیے
اور آپ بفصل الٰہی ملکۂ زماں اور مالک الملک ہیں، اس واسطے بقول اس مضمون کے سب طرح آسان ہے، مخمس:
حاتم کو نہیں قدرت ہمت کو تری پاوے
قاروں کے خزانے کو اک دم میں جو لٹواوے
منہ کس کا سخاوت کے آگے جو ترے آوے
اس دل کی بھی مشکل کو آسان تو ہی کراوے
کیا کام کیا دل نے دیوانہ کو کیا کہیے
آخرش بعد گفتگوے بسیار کے فحواے کلام اس کے سے معلوم ہوا کہ ایک باغ خوش تعمیر نہایت شگفتگی و طراوت میں روح افزا متصل محل سرا اس جوان کے اور اس کے شامل ایک کنیز مغنیہ کہ علم موسیقی میں کم و بیش مہارت رکھتی ہے، اس طرح سے جیسے اونٹ کے ساتھ بلی، یعنی اگر باغ لیجیے تو لونڈی بھی ساتھ ہی کوئی شخص فروخت کرتا ہے اور مزا یہ کہ مثلاً قیمت اونٹ کی ایک روپیہ تو بلی کی قیمت سو روپیہ پر جگ نہ پھوٹے۔ علی ہذا القیاس قیمت باغ اور لونڈی کی کہا چاہیے۔ غرض وہ عزیز از بس بے اختیار مائل خریداری اس کے کا ہے، لیکن بسبب عدم سر انجام زر قیمت کے دست آرزو اس کے کا گل چینِ مراد کا نہیں ہوسکتا۔ اس سب سے غنچہ خاطر اس کے کا افسردہ ہو کے بہار روے اس کے کی مانند برگ خزاں رسیدہ کے بے رونق کر رہا ہے۔ میرے تئیں کہ دلداری اس کی ہر وقت منظور نظر و ملحوظ خاطر کے تھی، اسی وقت خواجہ سرا کے تئیں حکم کیا کہ صبح پیش از طلوع آفتاب قیمت اس کی مشخص کر کے کلید تصرف اس کے کی بیچ قبضۂ اختیار اس جوان کے چھوڑ۔ بارے اس بات کے سننے سے جوان نے غبار تفکر کا کہ اوپر چہرہ جمال اس کے بیٹھا تھا، دامن تشفی کے سے پاک کیا اور تمام شب نظاره جمال میرے کے سے اس کو اور اس کے سے میرے تئیں ہمدوش شادمانی کے وہم آغوش کامرانی کے رہنا اتفاق ہوا۔ علی الصباح جس وقت تدرو آفتاب کا بیچ سبزہ زار سپہر کے خراماں ہوا، کار پردازان حضور کے یوں ہی عمل میں لائے۔
چند روز اس واردات کو گذرے تھے، ایک روز اتفاقاً موسم بہار میں کہ مکان بھی دلچسپ تھا اور ابر بھی زور طرح سے ہو رہا تھا اور بجلی بھی یوں کوند رہی تھی جس طرح بینجنی پوشاک پر کناری چمکتی ہے اور ہوا بھی خوب ہی موافق پڑی تھی اور چھوٹی چھوٹی بوندیوں کے ترشح نیں عجب مزا کر رکھا تھا اور ستھری ستھری گلابیاں شراب ارغوانی سے بھری ہوئیں اس ڈول سے رکھیاں تھیں کہ یاقوت کا جگر اس کی جھلک کی حسرت سے خون ہو جاوے۔ چاہتی ہوں کہ ایک جام اس بادہ مروّق سے نوش کروں کہ یکایک ایک شعر بے اختیار زبان میری پر گذرا ؎
چمن ہے، ابر ہے، عیش و طرب ہے، جام و صہبا ہے
پر اک باقی ہے مجھ کو ساقیِ گلفام کی خواہش
اور اسی حالت میں میرے تئیں اشتیاق سیر باغ نو خرید کا سلسلہ جنباں ہوا۔ چنانچہ ایک دایہ کے تئیں ہمراہ لے کر نقب کی راہ سے اس کی حویلی تک اور وہاں سے طرف باغ کے متوجہ ہوئی۔ دیکھتی کیا ہوں کہ واقعی باغ بڑی ہی بہار سے گوے سبقت کی روضۂ رضواں سے لے گیا ہے۔ ایک ادنی کیفیت اس کی بیان کروں کہ ترشح سے تقاطر کے باغ کے درختوں پر یہ عالم ہو رہا تھا کہ گویا چتر زمردیں پر موتیوں کی جھالر جھلکتی ہے اور سرخی گل ہاے شقائق و ریاحین کی شام کے وقت بدلی میں یہ لطف دیتی تھی کہ جیسے رنگریز قدرت کا ابر کے وصلچے شفق میں پھیلا رکھتا ہے، بوٹا کاری و رنگ طرازی نقش و نگار بنگلوں کی نے نگارخانہ ارژنگ کے تئیں پرے کر رکھا تھا اور شفافی آب زلال حوضوں کی نے صفاے تختہ آئینۂ حلبی کے تئیں بے آب کر دیا۔ سخن مختصر میں بہ تلاش اس جوان کے خراماں خراماں باغ میں سیر کرتی پھرتی تھی کہ اس اثنا میں طاؤس مرصع دم آفتاب کا اوپر دیوار شفق کے جلوہ گر ہوا اور کویل مشکیں بال شب کی آشیانہ مغرب کے سے بلند پرواز عرصہ روزگار کی ہوئی کہ ناگاہ وہ عزیز خیاباں کی طرف سے نظر پڑا۔ خدا جانے اس کو آگے ہی سے میرے آنے کی اطلاع تھی یا کیا تھا کہ میرے تئیں دیکھتے ہی نپٹ تپاک سے پیش آ کے ہم دست ہوکر متوجہ بارہ دری کا ہوا۔ سبحان اللہ! وہاں کا جو عالم دیکھا تو شام کی بہار پر بھی کچھ فوقیت رکھتا تھا اور از روے انصاف کے کہیے تو تماشے کے عالم میں رات نہ تھی گویا شب برات تھی۔ اگر چراغاں کی کیفیت کا ذکر کروں تو دل مانند قمقمہ محفل سرا بستان ارم کے تجلی بخش دیدهٔ بصیرت ارباب ذوق کا ہو جاوے اور کنول چمن کے روشنی کا بیان کیجیے تو غنچہ دل کا مانند گلریز کے ہواے محبت اس کی گل کی صورت میں پکھڑی پکھڑی ہو کے جھڑ جاوے۔ ایک طرف انار کے جھاڑ نے مانند جھاڑ درخت چنار کے گلہاے آتشیں سے صحن باغ کے تئیں گل انار کر رکھا تھا۔ گھونگھچی کے گلدستہ نے گلدستۂ شقائق و ریاحین کے تئیں اپنی روشنی کے شعشہ سے اس کے جگر کو حسرت سے داغ داغ کر دیا تھا۔ ہوائی نے اپنی بلند پروازی کے رو برو ہوا کے تئیں بے بال و پر کر رکھا اور پٹاخے نیں اپنی غُرّش کے آگے بادل کی گرج کو صم بکم کر دیا۔ ہتھ پھول کا جو لطف کہوں تو بے شائبۂ تکلف جس طرح کرن پھول خورشید کا بیچ بنا گوش عروس صبح کے جھلکتا ہے اور پھلجھڑی کی گل افشانی کا جو ذکر کروں تو بے تصنع جیسے قمر کے نوشہ کے مکھ پر کرن کی جوت مقیش کے سہرے میں جھلملاہٹ کرتی موتی کی لڑی جھمکتی ہے۔ اس عرصہ میں آتش باز فلک کے نے ماہتابی ماہتاب کے تئیں روشن کیا یعنی اس وقت ابرِ سیاہ میں یکایک چاند نکلا تب کچھ اور ہی تماشا نظر آیا گویا نافرمانی لباس سے کسی ماہرو نے نقاب چہرہ سے اُٹھا کر جلوہ دکھلایا۔ غرض چاندنی کے نکلتے ہی جوان میرے تئیں اوپر بالاخانہ بُرج باغ کے لے گیا۔ از بس کہ بُرج باغ کا دیوار شہر پناہ کے سے اتصال رکھتا تھا، میرے تئیں اُس کی بلندی پر اپنے حُسن کے روبرو تمام چراغانِ بازار شہر کا، یوں معلوم ہوتا تھا جس طرح آفتاب کے آگے ذرے چمکتے ہیں اور میں اُس عالم میں جوان کے گلے میں ہاتھ ڈالے ہوئے خوش وقت تھی۔ اس عرصہ میں ایک کنیز بد ہیئت ایک شیشہ آتشیں شراب دو آتشہ سے لبریز کہ جس کے چند قطرہ میں انسان حیوان بن جاوے، ہاتھ میں لیے مانند کسوف کے خورشید جمال میرے کے تئیں دابتی ہوئی آئی، جو از بس کریہ منظر تھی۔ میرے تئیں آنا اُس کا دل کو نہ بھایا اور اُس جوان سے پوچھا کہ یہ تحفہ معجون کہاں سے بہم پہنچائی۔ تب نہایت خوشامد سے لگا کہنے کہ یہ وہی کنیز مغنیہ ہے کہ آپ کی عنایت سے خرید ہوئی۔ خیر جو میرے تئیں معلوم ہوا کہ جوان نے اُس کے تئیں نپٹ خواہش سے خرید کیا ہے، شاید کچھ گوشہ خاطر کا بھی طرف اُس کے مصروف رکھتا ہو، لاچار پاس خاطر اُس کی سنگ آمد و سخت آمد جان کر خاموش ہو رہی لیکن مزاج اسی وقت سے منغض ہوا۔ تِس پر قیامت یہ کہ اس بدبخت نے بہ مقتضاے اس کے کہ کند ہم جنس باہم جنس پرواز، ساقی اُسی ناپاک کو مقرر کیا۔ اُس وقت جیسے طوطی کو ساتھ زاغ کے بند کرتے ہیں، نوبت میری گذری، نہ پاے رفتن نہ روے ماندن۔ قصہ مختصر جو اُس کی نفس امارہ جوش پر تھی، علی التواتر دو چار جام شراب کے بیچ صُراحی حلقوم جوان کے ڈھالے اور ایک آدھ پیمانہ بیچ گلابی غنچہ دہاں میرے کے۔ آخرش رنڈی کچھ بدمست سی ہو کر جوان کے ساتھ عشوہ سازی و غمزہ پردازی میں آئی اور وہ بھی کچھ چبلّا سا حالت مستی میں بے لحاظ ہو چلا۔ اُس وقت میری یہ حالت ہوئی کہ اگر زمین پھاٹے تو سما جاؤں۔ لیکن میں احمق جب بھی بتوقع حرف وفا اُس بے وفا کے یہ دو بند واسوخت کے پڑھ اُٹھی ؎
کیوں رے بے مہر تجھے یاد ہے وہ اگلی چاہ
تو جو اخلاص کا اپنے نہیں کرتا ہے نباہ
غیر سے سامنے میرے تو لڑاتا ہے نگاہ
ایک دن میری جدائی کا تجھے تھا سوماہ
کہہ تو اب کون سا اثبات کیا مجھ پہ گناہ
اس قدر ہم سے تو بیزار ہے سبحان اللہ
گر بظاہر بہ کسے خلق نکو خواہی کرد
شوخ با ما تو چہ کردی کہ بہ او خواہی کرد
اس قدر چشمِ مروت کا اُٹھا مت یکبار
خوبرویوں میں تجھے کن نے بنایا سج دار
بلکہ پھرتا تھا تو ہر ایک کے گھر سو سو بار
چھوڑ کر حق کو نہ کر کفر کی باتیں زنہار
ورنہ خوباں میں کوئی تجھ کو نہ کرتا تھا شمار
اپنی مجلس میں نہ دیتا تھا کوئی تجھ کو بار
ایں زماں جاے تو در دیدۂ مردم شدہ است
روے زیباے تو از دیدۂ ما گم شدہ است
آخرش وہ جو کہتے ہیں کہ “تربیت نا اہل را چوں گردگاں بر گنبد است”۔ یہ سب گفتگو یوں ہوئی جیسے بھینس کے آگے بین باجے یعنی اُس قمار باز قمار خانۂ بے حیائی کے نیں نقد ہوش و عقل اپنے کے تئیں کھیل ڈالا اور خزینہ سینہ کا متاع الفت و محبت میری کے سے خالی کیا اور اسی وقت بہ مقتضاے بے غیرتی کے ہواے نفسانیت جوان کی نیں دامن شرم گاہ کنیزک کے تئیں مانند گریبان غنچہ سیاہ دھتورے کے چاک کیا اور اُس کنیز بے تمیز نیں بیچ عالم بدمستی کے خمخانۂ ملاقات جوان کے سے ساغرِ مراد کا پیا۔ ہنگامۂ ناز و نیاز کا گرم ہوا اور پیمانہ بوس و کنار کا لبریز۔ اُس وقت ؎
نہ اُس بے وفا کو وفا سے اثر
نہ اُس بے حیا کو حیا سے نشاں
تب کاسہ دماغ میرے کا مانند دیگ کے آتشِ جنوں سے جوش میں آیا اور معنی الخبیثات للخبیثین کا مطابق حال اُن دونوں نابکار کے جان کے حالت غضب میں سخت کہتی ہوئی اُٹھی۔ جوان نے اپنے دل میں سوچا کہ اگر ملکہ ناخوش اُٹھی، خدا جانے کہ صبح کیا قیامت نازل ہوگی۔ پس اس کے تئیں یہیں فیصل کیجیے۔ بارے یہ ارادہ کر کے موافق صلاح اُس فاحشہ کے اول مکر و تزویر سے میرے تئیں پھسلا پُرچا بٹھلایا اور اُس بادۂ ہوش رُبا کے دو چار جام متواتر سے میرے تئیں مدہوش کیا۔ جس وقت دُزد غفلت کے نے اوپر قافلہ حواس میرے کے شب خوں کیا، اُس بے رحم سنگ دل نے سنگ ستم کا اوپر سینۂ الفت کے رکھ کے اِس بے گناہ کو ساتھ تیغ بے دریغ کے زخم ہاے کاری سے رشک گلہاے ارغواں کا کیا۔ میں کہ کشتۂ تیغ ابروے خمدار اس کے کی تھی، اُس وقت بھی اپنی محبت سے نہ چوکی کہ باوجود اس حرکت کے جوان کی طرف مخاطب ہو کے کہا :
مبادا ہو کوئی قاتل ترا گریباں گیر
مرے لہو کو تو دامن سے دھو، ہوا سو ہوا
اور ایک رباعی مرزا سوداؔ صاحب کی کہ حسب حال اُس وقت کے تھی، پڑھی ؎
بدلہ تیرے ستم کا کوئی تجھ سے کیا کرے
قاتل ہماری لاش کو تشہیر ہے ضرور
اپنا ہی تو فریفتہ ہووے خدا کرے
آئندہ تا کوئی نہ کسی سے وفا کرے
یہ کہہ کر خاموش ہوئی پھر میرے تئیں خبر نہیں۔ شاید بعد اس ماجرے کے اُس قصاب نے اپنی دانست میں میرے تئیں بے جان سمجھ کر درمیان اُس صندوق کے کہ تو واقف ہے، زیر دیوار شہر پناہ کے لٹکایا لیکن اگر اوقات آدمی کے مرنج مرنجاں سے گذرتے ہوں گردش فلکی سے اُس کے حال پر اگر رسی ظلم کی کبھی دراز بھی ہو تو اُس کے حق میں حبلُ المتین عنایات فضل الٰہی کی عروۃ الوثقیٰ توفیقات فیض نامتناہی کی ہو جاوے۔ واقعی سچ ہے تو یہ ہے دشمن چہ کند چو مہرباں باشد دوست۔ قدرت خدا کی دیکھیے کہ اُس وقت اپنے فضل و کرم سے تیری تئیں بھیجا کہ باعث شفا کا ہوا۔ قطعہ ؎
وہ جناب کبریا ایسا ہے جس کی حمد میں
اتنی ہی ہے آرزو میری کمال عجز سے
ہو سکے آدم کی خلقت سے کوئی رطب اللساں
اپنے بندوں پر رہے یونہی سدا وہ مہرباں
ہر چند مقتضا حیا کا نہیں کہ باوجود اس رسوائی کے اپنے تئیں سلامت رکھوں لیکن کیا کروں، رشتہ حیات کا زبردست تھا۔ ؏
جو جو خدا دکھاوے سو لاچار دیکھنا
قصہ کوتاہ، بعد از ظہور صورت شفا کے تیرے تئیں بے خرچ دیکھا، وہ رُقعہ شیدی بہار نامی اپنے خزانچی کو لکھا تھا کہ میں خیریت سے بالفعل جلوہ افروز فلانے مکان کی ہوں تو خبر میری بیچ جناب سِر اوقات عصمت حریم بادشاہی کے پہنچا دیجیو اور بہ مجرد ملاحظہ شُقہ کے گیارہ توڑے اشرفیوں کے حوالہ اس عزیز کے کیجیو اور جب تیرے تئیں واسطے خرید کرنے جواہر و خلعت کے اوپر دوکان یوسف سوداگر بچے کے بھیجا، اصل یوں ہے کہ میرے دل میں تھا کہ تیرے تئیں مرد اجنبی جان کے اغلب کہ تکلیف دعوت کی کرے گا۔ چنانچہ تصور میرا درست پڑا کہ وہاں بہ موجب خیال میرے کے عمل میں آیا اور یوں تو اُس کے تئیں متوقع ایفاے وعدہ کا کر کے واسطے اِسترضا میری کے آیا۔ جو یہ بات بہ موجب تخیل میرے کے ہوئی بہ خیال اس کے کہ جب تو نقل اِجابت کا خوان دعوت اس کے سے تناول کرے گا شاید کہ وہ بھی اگر توں بجد ہو تو شراب ضیافت تیری کی سے مخمور ہو، رخصت تیری اُس وقت مقرون بہ صلاح جانی۔ بعد سہ شبانہ روز کے توں جو مہمانی سے فراغت کر کے نزدیک میرے آیا اور بہ سبب اس غیر حاضری کے عرق انفعال کا اوپر چہرہ کے لایا، اُس وقت میں نے تیری تشفی کے واسطے کہا کہ کچھ مضائقہ نہیں رفتن بہ ارادت و آمدن بہ اجازت۔ توں زِنہار دامن اطمینان کے تئیں غبار وسواس کے سے آلودہ نہ کر لیکن تیرے تئیں بھی اُس کی ضیافت کی تیاری از جملہ واجبات ہے۔ توں حسب الحکم میرے واسطے طلب اُس جوان کے گیا۔ پر میں جو دیکھتی ہوں تو کچھ اسباب ضیافت کا تیار نہیں۔ جو ایام سلف سے رسم و آئین مقرر ہے کہ سلاطین اس مملکت کے نہ ماہ تک بیچ مُہمات مالی و ملکی کے مشغول رہتے ہیں اور باقی موسم برسات میں بیچ دار الخلافت عالیہ کے رونق افزا ہوتے ہیں، اتفاق حسنہ یہ کہ اس وقت دو چار ماہ پیشتر سے والد بزرگوار یعنی خسرو عالی تبار والی اس دیار کا موافق قاعدہ مستمرہ کے بیچ گرد و نواح ممالک دمشق کے متوجہ بہ نظم و نسق اُمورات سلطنت کے ہوا تھا اور شبستان دل میرے کے تئیں آتشِ غضب خشمگین کی سے خوف جلا دینے کا تھا، جب تک کہ تو معاودت کرے میں فرصت کو غنیمت جان کے بیچ جناب بادشاہ بیگم کے کہ مادرِ مہربان تھی، سوار ہو کر پہنچی جو ستار حقیقی نے وصف ستار عیوبی کا بیچ حق مادر بزرگوار کے عطا فرمایا ہے، ابتدا سے انتہا تک قصہ سرگذشت اپنی کا اور حقیقیت گناہ و بے گناہی کی مفصل نقل کی۔ معلوم ہوا کہ مادر مہر پرور نے میرے غائب ہونے سے بہ مُقتضاے دور اندیشی کے سنگ شہرت کا اوپر دیوار رسوائی کے نہیں مارا کہ آخرش یہی سنگ اُلٹ کر تمام خاندان کے ننگ و ناموس کا سر ٹکڑے کرے گا لیکن مخفی تلاش تھی۔ اس عرصہ میں زبانی شیدی بہار خزانچی کے رقعہ کے رو سے خبر معلوم ہوئی۔ بعد ازاں میں جا پہنچی۔ تب اوپر حال میرے کے آبدیدہ ہو کر فرمایا کہ کمبخت توں نے جو دیدہ و دانستہ شیشہ ننگ و ناموس سلطانی کا رسوائی کے پتھر پر توڑا، یہ کیا کِیا۔ ہزار حیف۔ علاوہ اُس کے پیمانۂ عمر اپنی کے تئیں بادۂ زندگانی سے خالی کیا، توبہ و استغفار کر۔ خوب ہوا سو ہوا ؎
تقدیر کے لکھے کو امکان نہیں دھونا
تقصیر نہیں دل کی قسمت کا بدا ہونا
پر اب مطلب تیرا کیا ہے؟ تب میں نے کمال محجوبی سے عرض کیا کہ جو کلک قضا کے نے بیچ دیوان مشیت کے مجھ سیہ اختر کے حق میں یوں رقم کھینچا ہو کہ اس خواری اور بدنامی سے بیچ زمانے کے بسر لے جاؤں، اس سے یہی بہتر کہ تن قضا کو دوں اور نقد جاں کے تئیں حوالہ متقاضی اجل کے کروں لیکن ستم یہ ہے کہ وہ دونوں نابکار میرے ہاتھ سے نجات پا کے چاشنی لذت کی خوان زندگانی کے سے حاصل کریں اور میری آتش حسرت تلافی کی دل کی دل ہی میں سرد ہو، پس امیدوار ہوں کہ اگر کار پردازان کارگاہ حضور عالیہ کے تئیں ارشاد ہو تو سامان ضیافت کے تئیں آئین شائستہ سے بیچ غریب خانہ کے زیر ترتیب کا دیویں کہ میں بہ حیلہ ضیافت کے اُن دونوں سیہ بختوں کو بُلوا کر بہ پاداش نکوہیدہ عمل کے انتقام اپنا لوں یعنی رحیق حیات کی ایاغ وجود ناپاک اُن کے سے اوپر خاک عدم کے ڈالوں۔ بارے کچھ تو تلافی مافات کی ہو۔ مادر سراپا مہر بہ تقاضاے عطُوفت مادری کے عیب میرے کے تئیں مستور کر کے سب لوازمہ ضیافت کا ہمراہ اُسی خواجہ سرا کے کہ عالم صِغر سِن سے محرم اسرار میرا ہے، بھیجا اور باری داران حضور کے تئیں اپنے اپنے عہدہ پر بدستور محفل سلطانی کے آراستہ کیا۔ جب فرّاس سپہر کے نے اسپک نیلگوں شب کو بیچ عرصۂ شام کے استادہ کیا توں اُس جوان جواہر فروش کے تئیں ہمراہ لے کر داخل میہمان خانہ کے ہوا۔ جو میرے تئیں اُس کی معشوقہ کو بھی بُلوانا منظور تھا، تیرے تئیں واسطے طلب اُس کے تقید کیا۔ چنانچہ وہ بھی آتے ہی بادہ پیما پیمانۂ عشرت کی ہوئی۔ جس وقت کمیں دارانِ مستی کے اوپر بدرقہ ہوشیاری اُن بے ہوشوں کی تاخت لائے اور تو بھی مانند قالب بے جان کے دست و پا دراز کر کے مست شراب غفلت کا ہوا میں نے ایک قلماق کے تئیں حکم کیا کہ ان دونوں ناپاک کے تئیں ساتھ تیغ بے دریغ آبدار کے اوپر بستر فنا کے آرام سے سُلا دے۔ چنانچہ اُس نے بہ موجب اجازت میری کے سر اُن دونوں بے حیاؤں کا مانند گوے اوپر زمین نیستی کے لوٹایا توں جو مَورد عتاب میرے کا ہوا تھا، اُس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے تیرے تئیں اجازت تیاری لوازمہ میہمان داری کی دی تھی نہ کہ برخلاف مرضی میری کے دل جمعی سے آشناے دو روزہ کے ساتھ ہم پیالہ و ہم نوالہ ہو جائے۔ یہ حرکت البتہ میرے تئیں خوش نہ آئی اور واقعی جب توں از خود بے خود ہوا، پھر شرط رفاقت کی کہاں رہی لیکن سوابق حقوق تیرے نے گردن میری کے تئیں اس قدر زیر بار منت کا کر رکھا تھا کہ الماضی لا یذکر کو کام فرمایا۔
قصہ کوتاہ و سخن مختصر، اے عزیز طوطی نُطق پرداز! حکایت سرگذشت میری کی اس قدر گویا تھی کہ بیچ چمن گفتگو کے نغمہ سرا ہوئی۔ پر اب آرزو دل کی یہ ہے کہ جو میں پاس خاطر تیری کے تئیں بجا لائی پس تو بھی حرف زبان میری کے تئیں کزلک اِغماض کے سے محو نہ کر یعنی اب قدم سکونت کا بیچ اس دیار کے قائم رکھنا صلاح وقت نہیں، آگے مختار ہے۔
اے یاران غمگسار! ملکہ جدول کلام کی اوپر صفحۂ بیان کے یہاں تک کھینچ کر خاموش ہو رہی۔ اُس وقت میں کہ مقید سلسلۂ عشق و گرفتار دام محبت اُس کی کا تھا، رضاے خاطر اُس کی کے تئیں سب چیز پر مقدم جان کے بولا ؎
ہے پرورش سخن کی تری مجھ کو یاں تلک
بے مرضیِ شریف کروں گا نہ کام کچھ
چلنا زمیں کا کیا ہے اُڑوں آسماں تلک
تنگی سے گر ہو چاک گریبانِ جاں تلک
زیادہ اس سے کیا کہیے۔ تب ملکہ نے میرے تئیں رفیق دل سوز اپنا جان کے حکم کیا کہ دو بادپا سُبک رو سُبک خرام اصطبل بادشاہی سے طلب کر کے مستعد تیاری روانگی کا رہو۔ چنانچہ بندہ نے حسب الحکم ملکہ کے دو گلگوں برق رفتار جلد بازی و سُبک خرامی میں ایسے ہی خوب کہ بے مبالغہ ہواے مجسم کہا چاہیے ؎
چمن میں صنع کے اُن کی سُبک روی آگے
غرض وہ گرم عِناں ہو کے جب چمک جاوے
کبھو نہ ایک قدم چل سکے نسیم بہار
نہیں پہنچتی ہے برق اُن کی گرد کو زنہار
لا کر حاضر کیے، جس وقت باج بہادر ماہتاب کے نے روپ متی زہرہ کے تئیں اوپر اشہب خوش خرام سپہر کے سوار کر کے مُسافت چند کروہ کی طے کی تھی۔ چار گھڑی شب باقی ماندہ تھی یہ فقیر ملکۂ قمر طلعت کے تئیں اوپر شبدیز شبرنگ کے لباس مردانہ سے سوار کر کے اور آپ بھی کُمیت تیز رفتار پر ہمراہ ہو کر مانند باج بہادر و روپ متی کے چلا و شبانہ روز بہ طرز مہر و ماہ کے سریع السیر ہو کے تھوڑے عرصہ میں مسافت چند روزہ کی طے کر آیا۔ کوئی گھڑی میں راہ کاٹنے کے واسطے موتی آبدار حکایات دلچسپ کے نثار حُسن مسامع اُس مایۂ ناز کے کرتا ور کوئی ساعت پھول کلمات دلفریب کے گلزار دہاں اُس کے سے بیچ چمنِ سمع اِس سراپا نیاز کے جھڑتے۔ اسی طور سے ہنستے کھیلتے باتیں کرتے چلے جاتے تھے۔ ہر ایک روز عید تھا اور ہر ایک رات شب برات۔ ہر منزل میں کنول دل کا نہایت بالیدگی سے یوں کھل رہا تھا جیسے دِہ میں کنول پھول رہتا ہے اور ہر مقام میں غنچہ خاطر کا ازبس شگفتگی سے یوں پھول رہا تھا جس طرح موسم بہار میں شگوفہ کھل رہتا ہے۔ لیکن میرے تئیں اس سپہر بے مہر کی کج روی پر آتا ہے کہ یکایک عشرت کے لفظ سے شین کے نقطے دور کر کے سین کے حرف کو پیش پہنچایا کہ عشرت کے لفظ کا بے نقطگی سے بازار گرم ہوا اور تو کیا کہوں، دل جلے پر یہ شعر مرزا سوداؔ صاحب کے، زبان سے بے اختیار اُس کے حق میں نکلتے ہیں ؎
مستعد اتنا ہے یہ افعی گزند خلق پر
خوان پر اُس روسیہ کے مت سمجھ تاروں کو نُقل
ختم اُس پر ہو چکی بد خلقی و بد خصلتی
کام عالم کا بسانِ جوے تصویر اُس کے ہاتھ
جب تلک ہر گز نہ کھولے کار بستہ سے گرہ
دیکھ ٹک احوال عنقا کا کہ اس ظالم کے ہاتھ
پابرہنہ میں پھروں خوبوں کی خاطر دھوپ میں
کیا کروں اُس کے تلون کی طبیعت کی میں نقل
پس جو ایسا ہو کوئی، اے دل نہ کیجیے اس کا ذکر
گر نسیم زلف کا اُس کے چمن میں ہو بیاں
طوطیِ تصویر اُس کے روبرو کرتی ہے نطق
پیچ اُس کے چال کا دیکھا تو ہے شکل دہاں
چمکے ہیں تودے میں خاکستر کے یہ چنگاریاں
پھر نہ آیا اپنے گھر اُس کے گیا جو میہماں
بند رہتا ہے بمعنی گر بصورت ہو رواں
تا نہ باندھا چاہیے محکم کر اُس پر یہ گماں
نام گر پیدا کرے کوئی تو مٹ جائے نشاں
خار کے سر پر کرے دامان گُل کو سائباں
کیا کروں نیرنگیِ گردش کا اب اُس کے بیاں
آشنا کر اب غزل خوانی سے تو اپنی زباں
نکہت گُل سے پریشاں ہو دماغ بلبلاں
محو جو دیدار کا تیرے ہوا آئینہ ساں
یعنی عین مزے میں اُس پری چہرہ نے کہ جس کی تعریف میں اس روسیاہ کا ذکر کرتے کرتے عاجز ہو کے آخر کے دو شعر پڑھ گیا ہوں، مجھ سے کہا کہ غنچہ دہاں میرے کا تشنگیِ تپش سے کمھلایا جاتا ہے۔ اگر کہیں سے تھوڑا سا پانی ملے تو چشمۂ آبِ حیات سے گویا حیاتِ جاوداں پائے۔ میرے تئیں جو آرام خاطر اس آرام خاطر کا اپنے آرام خاطر پر مُقدم تھا، اُس نازنین کے تئیں زیر سایہ درخت کے بٹھلا کر بہ تلاش پانی کے چلا۔ چلتے چلتے درمیان اُس صحراے ہولناک کے ایک دریا مہیب کہ جس کے خیال سے زہرہ دل کا آب ہو جائے نظر آیا۔ بارے فقیر کے تئیں باوجود وحشت کے ایک طمانیت حاصل ہوئی اور اس چشمہ سے ایک صُراحی پُر کر کے نزدیک اُس درخت کے لے پہنچا۔ وہاں جو دیکھتا ہوں تو خیریت نہیں یعنی وہ ماہ شب چہار دہم بیچ ابر غیب کے سما گئی۔ تب میں گھبرا کر یہ اشعار پڑھتا ہوا چلا ؎
عشق ہے دامِ بلا، زلفِ پریشاں مددِے
ہجر میں یار کے پھرنا ہے مجھے دشتِ عظیم
راہ بھولا ہے یہ دل، خضر بیاباں مددے
پا برہنہ ہے مرا، خارِ مغیلاں مددے
جہاں کہیں سیلِ سرشک میرے کا رِیزش کرتا دریا از بس خِجالت سے آب آب ہو جاتا اور جس جگہ نائرہ آہ میری کا مُلتہِب ہوتا، شعلہ نہایت حسرت سے سوخت ہو جاتا۔ اسی طرح سے ڈھونڈھتا پڑا پھرتا تھا اور قدم قدم پر بیٹھ بیٹھ کر آئینے کی مثال، پشت بہ دیوار حیرت ہو کر دیدۂ پُر آب سے رو رو کر یہ شعر پڑھتا تھا ؎
بٹھا گیا ہے کہاں یار بے وفا مجھ کوں
کبھی مقیم حرم ہوں کبھی ہوں ساکنِ دیر
کوئی اُٹھا نہ سکا مثلِ نقش پا مجھ کوں
کِیا خراب مرے دل نے جا بجا مجھ کوں
اگر روز ہے تو آتشِ اِستیلاے اشتیاق اُس کی سے جگر داغ و سینہ پُر سوز، اگر شب ہے تو اشتعالہ آہ فراق اُس کے کا بیچ کانون دل کے شعلہ افروز۔ نہ جی کو قید جسم کی سے رہائی اور نہ جسم کو ساتھ جی کے توقع آشنائی۔ دل اُس کی یاد میں نہایت بے تاب اور جان اُس کے خیال میں سراپا اضطراب ؎
روٹھا ہے اب وہ یار، جو ہم سے جدا نہ تھا
یہ جور عشق، کس کے بلا کی نظر میں تھا
یوں بے وفا ہوا ہے، گویا آشنا نہ تھا
جب لگ ہزار جاں سے یہ دل مبتلا نہ تھا
واقعی اگر مجنوں دِل مُضطرب میرے کا مفتُون جمال اُس لیلی نژاد کا نہ ہوتا تو اس کمبخت کو صحرا نوردی و دشت پیمائی سے کیا کام تھا۔ واہ واہ حضرت دل نے مجھ غریب پر خوب وار کیا۔ شعر:
میں دشمن جاں ڈھوندھ کے اپنا جو نکالا
سو حضرتِ دل، سلمہ اللہ تعالیٰ
آخرش جب بیچ پاے تلاش و اُمید کے آبلے یاس و نومیدی کے پڑے لاچار تن بہ تقدیر دے کر یہ خیال میرے جی میں گذرا، مخمس:
اس زیست سے بہتر ہے اب موت پہ دل دھریے
کس طور کٹیں راتیں کس طور سے دن بھریے
جل بجھیے کہیں جا کر یا ڈوب کہیں مریے
کچھ بن نہیں آتی ہے، حیراں ہوں کیا کریے
کیا کام کیا دل نے، دیوانے کو کیا کہیے
اس عرصہ میں بیچ صحرائے لق و دق کے ایک پہاڑ نظر آیا، میرے دل میں یہ ارادہ مصمم ہوا کہ اوپر اس کوہ کے جا کے ایسا ہی گروں کہ استخواں سے نشان نہ رہے۔ چنانچہ اُس طرف کو متوجہ ہوا۔ چلتے چلتے اوپر ارتفاع پہاڑ کے پہنچ کر چاہتا ہوں کہ قلۂ کوہ سے گرا کر اپنے تئیں ضائع کروں کہ اس اثنا میں ایک سوار سبز پوش باساز و یراق مُسلح ناگہانی پیدا ہو کر مجھ سے فرمانے لگا کہ توں زینہار مُرغ روح اپنے کے تئیں بیچ ہواے ناکامی کے پرواز نہ دے۔ بعد اِنقضاے چند روز کے بیچ مرزبوم روم کے تین درویش اور ہمدرد تیرے با یک دگر ملاقات کریں گے۔ اُس وقت ان شاء اللہ تعالیٰ بہ طفیل فرخندہ سیر نامی بادشاہ روم کے کہ اُس کے تئیں بھی ایک مشکل لاحل درپیش ہے، فیض صحبت ہم دیگر کے سے شاہد مقصود ہر ایک کے نقاب حجاب کا درمیان سے اُٹھا کر چہرہ کشا ہوں گے۔ یہ بات فرما کر پھر بیچ عالم غیب کے غائب ہو گیا۔ قصیدہ:
تب وہیں پوچھا مرے دل نے یہ پیر عقل سے
کس کا یہ ارشاد میرے حق میں ہے تسکیں فزا
یوں کہا پیرِ خرد نے مجھ سے اے ناداں! خموش
مطلق آگاہی نہیں، اِس راز سے میرے تئیں
واقف اس اسرار کا کوئی نہیں جُز ذاتِ حق
لیکن اتنا میں سمجھتا ہوں کہ جُز ذات علیؓ
اس کی قدر و منزلت کا کیا کروں تجھ سے میں ذکر
کس کا ہے مقدور، جو کچھ لکھ سکے اُس کا جلال
پر کیا تو نے جو مجھ سیتی سوال اس بات کا
تا قیامت ہو نہ آدم پر ہویدا سِر غیب
لیکن اُس کی ذات کے مظہر کا یہ اسرار ہے
پس بقول حضرتِ تحسینؔ کہ اپنے طرز میں
کس کے تھا نورِ قدم سے جلوہ افزا یہ مکاں
جس کے سُننے ہی سے میری ہو گئی خاطر نشاں
کیا مری طاقت ہے تجھ سے گر کروں اُس کا بیاں
اس کی تحقیقات کا ہرگز نہ کر مجھ پر گماں
راز کا اس کے نہیں کوئی بجز حق رازداں
کس کو قدرت ہے جو اس صورت سے آ کر ہو عیاں
عرش جس کا فرش ہو، کُرسی ہو جس کی لامکاں
کون ہو سکتا ہے اُس کے وصف سے رطلب اللساں
اس کا دیتا ہوں جواب، اب دل سے اس پر کر نشاں
تا نہ ہووے منکشف اس پر کبھو راز نہاں
ہے جو کچھ مخفی جہاں میں، اُس پہ رہتا ہے عیاں
بے تکلف ہے وہ گویا طوطیِ ہندوستاں
ہو جو کچھ الہام مولا اُس پہ اے دل کر عمل
ہو جو فتح الباب مقصد اُس طرف کو ہو رواں
بارے بندہ بہ موجب ہدایت اپنے مولا مُشکل کشا کے روانہ منزل مقصود کا ہوا۔ اگرچہ دل کے تئیں تسکین امید کی حاصل ہوئی تھی لیکن خار فراق اُس گلبدن کا، بیچ پاے تلاش میرے کے اس قدر چبھا تھا کہ جب تلک گلدستہ مراد کا گلستانِ وصال محبوب دل نواز کے سے رونق بخش دیدۂ انتظار کا نہ ہووے، رونے سے سروکار رکھوں۔ چنانچہ اُس جنگل مہیب میں تن تنہا روتا ہوا چلا اور اُس وقت سِواے قافلۂ اشک کے کوئی ہمراہ نہ تھا۔ مخمس:
کبھی منصور کی بالیں پہ جا جا شب کو روتا تھا
کبھی فرہاد کی حالت میں اپنے جی کو کھوتا تھا
کبھی اشک اپنے سے یعقوب کی تُربت کو دھوتا تھا
کبھی تخم جنوں مجنوں کی جا وادی میں بوتا تھا
کبھی گلشن میں جا بلبل کے سر سے سر پٹکتا تھا
اس طرح سے اُفتاں و خیزاں بیچ مرزبوم روم کے پہنچ کر رہبری طالع کے سے نعمت غیر مُترقب ملاقات ہم دیگر کی کہ بسم اللہ نسخۂ جمعیت و کامرانی کی ہے، حاصل کی۔ اب امید قوی ہے کہ ان شاء اللہ چشم تمنا کی مشاہدۂ جمال خجستہ خصال فرخندہ سیر کے سے جلد منور ہو۔ بعد ازاں یقین ہے کہ دامنِ آرزو ہر ایک کا گل ہاے کامیابی سے گل چین مراد کا ہوئے۔
اے یاران غم گُسار! قصہ سرگذشت اس سرگشتۂ بادیۂ غربت کا اس قدر تھا کہ گزارش کیا لیکن معلوم نہیں کہ کب تلک شبِ دیجور مہاجرت کی شمع وِصال جاناں کے سے روشنی پاوے گی اور کس گھڑی کلبۂ احزاں میرا قُدوم عشرت لُزوم اُس مایۂ ناز یعنی ملکہ دل نواز کے سے رشک گلستان ارم کا ہوگا۔ فرخندہ سیر کہ ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا گوش خیال کے تئیں مائل اِصغاے ماجراے درویش اول کے رکھتا تھا، سُننے اس داستان ندرت بیان کے سے ازبس خوش وقتی سے بیچ قالب کے نہ سمایا اور متوجہ اِستماع قصہ سرگذشت درویش دویم کا ہوا۔