کہ اگلے زمانے میں وسوامتر نام ایک شخص تھا۔ شہر کو چھوڑ جنگل میں رہا کرتا اور اپنے طور کی عبادت و ریاضت دن رات کیا کرتا۔ اپنے صاحب کی بندگی میں تن بدن کی کچھ اسے خبر نہ تھی، سوا اسی کے تصور کے کبھی نگاہ ادھر ادھر نہ تھی؛ یہاں تک دبلاپے سے لٹا تھا کہ پہچانا نہ جاتا:
بدن پھول سا سوکھ کانٹا ہوا تھا
ریاضت کے مارے وہ جیتا موا تھا
ان دکھوں سے اس کو کبھی ایک دم آرام نہ تھا۔ سوا اٹھانے ان جفاؤں کے کچھ کام نہ تھا تاکہ اس خاکساری سے آرزو دل کی بر آوے اور درخت سے مدعا کے پھل پاوے۔ ایسا جوگ کیا اور ایسا آسن باندھ بيٹھا کہ نزدیک تھا کہ بندگی کے زور سے راجا اندر کی سنگھاسن چھین لے۔ جتنے تیرتھ تھے، ان سب میں گیا، شہر شہر، دریا دریا، گھاٹ گھاٹ پر کرما کرتا پھرا، نہ چھوڑا کسی ندی کا کنارہ۔ جس جنگل میں کسی درخت تلے وہ بیٹھتا، گردا گرد آگ جلاتا۔ پھر اپنے تئیں الٹا لٹکاتا، دم بدم دھواں منہ میں لیا کرتا، تپسیا اس طرح کیا کرتا۔ غرض اس تپسوی کا یہی حال تھا۔ آٹھوں پہر تپ جپ کا خیال تھا۔ چونسٹھ برس تلک وہ بیابان نورد تھا، سر سے لگا کے پاؤں تلک گرد گرد تھا۔ بناسپتی ہی کھاتا رہتا، بھوک پیاس کی ایذائیں سہتا اور رو بہ آفتاب ہو کر، رباعی:
گرمیوں میں وہ جگر تفتہ جلا کر گرد آگ
بیٹھتا تھا ڈھیر جیسے راکھ کا آوے نظر
اور جاڑوں میں گلے تک پانی میں ہو کر کھڑا
جپ کیا کرتا تھا شوق دل سے ہر شام و سحر
ایسی باتیں سن کر راجا اندر کو بہت سوچ پڑا، ڈر دل میں ہوا۔ اس کے اس جوگ کو توڑنے کے لیے منیکا پری کو بلا کر بہت سی آؤ بھگت کی اور یہ احوال ظاہر کیا۔ وہ راجا کے حسن سلوک سے بہت خوش ہوئی اور اس مطلب کے سنتے ہی یوں بولی کہ میں وہ پری ہوں، اگر میرا سایہ برھمابشن مہادیو پر پڑے، دیوانے ہو جاويں۔ ابیات:
جو وے ہوویں وحشی تو کر لوں میں رام
میری یاد میں بھولیں سب اپنے کام
یہ ایسی ہیں جادو بھری انکھڑیاں
رہے دیکھ کر ان کو سدھ بدھ کہاں
یہ احوال جب ایسے لوگوں کا ہو
رکھوں پاک دامن میں کب اور کو
وسوامتر کو ایک پل میں اپنے پر دیوانہ کر لوں، تمام عمر کو قشقے کی جگہ یہ کلنک کا ٹیکا ماتھے پر دھر دوں۔ جوگی یا جتی تین طبق میں کون ایسا ہے جو مجھ سے آپ کو بچاوے؟ اس کو تو میں دم میں اور کا کچھ اور کر دوں۔ قسم ہے مہاراج کی! اگر اسے ‘کام’ کے بس کر، انگلیوں پر نہ نچاؤں تو نام اپنا منیکا نہ رکھاؤں۔
باتیں کتنی ایسی ہی کر کے بين کاندھے پر دھر وہاں سے اٹھی، بیٹھ اپنے تخت پر ہوائے آسمان سے زمین پر اتری۔
وہ ایسا ایک ستارہ تھی کہ تمام عالم کو جس نے روشن کر دیا؛ تس پر سولہ سنگار، بارہ ابھرن جو اس نے سر سے پاؤں تلک کیے، دن کو تو سورج اس کا جلوہ دیکھ رشک کی آگ سے جلا اور رات کو چاند غیرت سے داغ ہو کر ستاروں کے انگاروں پر لوٹا۔ ویسی موہنی صورت اور وہ بناؤ جو دیکھا جوگ میں آ گیا، تپسیا کا پیڑ جڑ سے اکھڑ گیا۔ وہ خرمن صبر کی جلانے والی بجلی تھی کہ جس پر اس کی نگاہ گرم پڑی بے تاب ہو کر دل اس کا سینے میں بھسم ہو گیا۔ اگر فرہاد دیکھتا، جان شیریں دیتا، لیلی مجنون ہو جاتی:
نہ بلبل ہی ہوئی تھی اس پہ شیدا
گلوں کے بے کلی تھی دل میں پیدا
بہشت سے نکل کر جو اسے دیکھتی حور، تو يقين ہے کہ جان دینے میں نہ کرتی قصور:
دیکھ کر اس کو کافر و دیں دار
کرتے آپس میں تھے یہی تکرار
جہان یہ صنم آوے یا رب نظر
کسے دین و دنیا کی واں ہو خبر
حاصل کلام وہ اس صورت سے اس مُنی کے موہنے کو اور من بس کرنے کو اٹکھیلیوں کی چال خرام ناز کے انداز سے چلی۔ اچپلاھٹ اور چنچل پنے سے ٹھوکر دامن کی گریبان شکیبائی کو چاک کرتی تھی، آنچل دوپٹے کا سر پر سے کاندھے پر اور کاندھے سے پھسل کر زمین پر آ رہتا تھا۔ اس سرو گل اندام کے اس ناز و انداز پر نسيم و صبا صدقے قربان جاتی تھی۔ مد بھری وے آنکھیں دیکھ کر نرگس پیالہ شراب شوق کا لے کر کھڑی کی کھڑی رہ جاتی تھی، کمر کی لچک سے تار تار سنبل کا پیچ و تاب کھاتا تھا۔
بين بجاتی ہوئی، ہولى گاتی ہوئی، دھیان تالوں پر دھرے، پھول دامن و گریبان میں بھرے ہوئے آکر وہاں جلوہ گر ہوئی جہاں وہ جوگ سادھے تپسیا کر رہا تھا۔ یک بہ یک پازیب کے گھونگروں کی جھنکار، بین کے تاروں کی آواز گانے کی لے سے ملی ہوئی سن کر بے قرار ہوا۔ اس نے جونہیں آنکھیں کھول دیں، ایسی شکل نظر آئی کہ ایک ہی نظارے سے اس کا سب دھیان گیان جاتا رہا، برسوں میں جپ کی جتنی پونجی جمع کی تھی اس کے ناز و غمزے کی فوج نے سب کی سب ایک ہی دم لوٹ لی۔ پھر تو غش کھاتا ہوا اٹھ کر پروانہ وار اس شمع رو کے گرد پھرنے لگا اور بے تابی سے دم بدم قدموں پر گرنے، بلائیں سر سے پاؤں تلک لینے اور صدقے ہو ہو جان اپنی دینے لگا۔
دل اس کا محو جلوۂ جانانہ ہو گیا
کرتے ہی یک نگہ کے وہ دیوانہ ہو گیا
تب تو پری دم دلاسا دے، اسے ہوش میں لا، اپنی بھی چاہت جتا، گرم جوشی کر کے اس مزے میں لائی کہ اس کے دل نے پہلے بوس و کنار سے نہایت لذت پائی، پھر تو ‘کام دیو’ نے آ کر اپنا کام کیا کہ ایک آن میں اس کا وہ کام تمام کیا۔ اس نے اپنے اس جوگ کا یہ پھل پایا کہ ایک دم کے مزے کی خاطر سب کچھ گنوایا۔ پھر بہت سا پچھتایا کہ میں نے کیا برا کام کیا، اپنے تئیں تمام بھلوں میں بدنام کیا۔
تب تو اس کے سوا کچھ اور بن نہ آیا کہ اس بن کو چھوڑ اور بن کو گیا۔ اور منیکا کو وہیں حمل دریافت ہوا، اس سبب اسے راجا اندر کے دربار میں جانا بار ہوا۔ چار و ناچار نو مہینے تلک دن گنتی رہی۔
جب مدت پوری ہوئی تو ایک ماہ رو لڑکی جنی۔ قہر یہ ہے کہ بے مہری سے نہ چھاتی لگا کر اسے دودھ دیا، بے الفتی سے نہ ایک دم گودی میں لیا۔ نسل انسان کی جان، محبت ذرا نہ کی اور وہیں پٹک کر اس نے اتنی بات کہی کہ جسے ہماری ذات میں کوئی نہ رکھے، اسے کیوں اللہ نے دیا۔ بیت:
بات یہ جوں نکلی لب سے کہا وہیں وہ پیچ و تاب
اڑ گئی آئی جدھر سے تھی بہ چندیں اضطراب
وہ تو گئی ادھر یہ رہی ادھر۔
اب آگے داستان کا یوں بیان ہے کہ اس جنگل میں سوا خدا کے اس کا کوئی خبر لینے والا نہ تھا، پر ایک پکھیرو اس پر اپنے پروں کا سایہ کیے تھا، اس سے اس کا نام سکنتلا ہوا۔
وہاں پڑی ہوئی وہ روتی تھی، آنسوؤں کے موتی پلکوں میں پروتی تھی، دودھ کے لیے منہ پسار رہی تھی، ہاتھ پاؤں مار رہی تھی کہ پروردگار عالم نے اپنا فضل کیا۔ جو ‘کن منی’ کہیں نہانے کو چلے تھے، جوں اس طرف سے ہو نکلے، دیکھا کہ یہ کیا قدرت الہی ہے جو اس صورت سے نظر آتی ہے۔ رباعی:
اس نو گل چمن کو گلستاں سے دور دیکھ
حيران برنگ بلبل تصویر ہو گئے
غلطاں در یتیم سی تھی لیک خاک پر
غلطانی اس کی دیکھ وے دل گیر ہو گئے
اس پر انھیں نہایت ترس آیا۔ دوڑ کر خاک پر سے اٹھایا۔ گودی میں لے کر کہنے لگے یہ پری، جن یا کسی قوم کی ایسی خوبصورت لڑکی ہے کہ دیکھی نہ سنی۔ کچھ کہا نہیں جاتا اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا، کس نے اس جنگل میں لا کر خاک کے اوپر اس چاند کے ٹکڑے کو ڈال دیا تھا۔
اسے چھاتی سے لگائے ہوئے وے دل میں سوچ بچار کرتے گھر کو پھرے۔ مکان میں پہنچتے ہی اپنی بہن گوتمی کو اس کی صورت دکھا کر پیار سے کہا کہ جی لگا کر بہت اچھی طرح پرورش کرتی رہيو، ایسا نہ ہو کہ کسی طور سے کوتاہی ہو۔ لڑکی کی جو وہ صورت اس نے دیکھی اور بھائی کی اس کے حق میں یہ مہربانی کی باتیں سنیں، پہلے اس کی بلائیں لیں، پھر گود سے لے کر اپنے گلے لگا پالنے لگی۔ دن رات چھاتی پر اسے لٹاتی تھی، مہر و محبت سے دودھ پلواتی تھی۔
وہ اس صورت سے پلتی تھی اور جتنے اس جنگل کے تپسوی تھے، اس کو پیار کرتے تھے، سب کی وہ پیاری تھی۔ ان سبھوں میں یہ مشہور تھا کہ یہ ‘کن مُنی’ کی بیٹی ہے۔ دن بدن وہ بڑی ہوتی تھی اور تخم محبت ہر دل میں بوتی تھی۔ اور بھی دو لڑکیاں وہاں تھیں، ایک کا نام انسویا تھا اور دوسری کا نام پریم ودا۔ تینوں پرورش پا کر جب بڑی ہوئیاں، آٹھ پہر ساتھ کھیلنے لگیاں۔ ان سبھوں کو آپس میں ایسا پیار و اخلاص تھا، گویا ان کی ایک جان اور جدا جدا قالب تھا۔ ابیات:
ہر ایک ان میں تھی زہرہ و مہر و ماہ
جنھیں دیکھ کر ہوئے یوسف کو چاہ
اگر چاہے شاعر کرے شاعری
بیاں ان کی ہووے نہ خوبی ذری
خدا نے اپنے دست قدرت سے ان تینوں کے سراپا میں سراپا خوبیاں بھر دیں تھیں:
بھویں جب کہ غصے میں تھیں تانتیں
جگر تیرِ مژگاں سے تھیں چھانتیں
تلطف سے جس دم کہ وے ہنستیاں
تو زاہد کو بھی سوجھتیں مستیاں
ہر ایک کا وہ پری سا چہرہ جو نظر آتا، کوئی تو غش کھاتا اور کوئی دیوانہ ہو جاتا:
جو زلفیں تھیں زنجیر پائے جنوں
کف پائے رنگیں تھی سر گرم خوں
اگرچہ ظاہر میں وے سبھی سر سے پاؤں تک تمام حسن و جمال اور ناز و ادا تھیں، لیکن حقیقت میں وہ شعلہ بھبھوکا کہ جس کا نام سکنتلا تھا، اپنے ایک جلوے سے دل و جان دونوں اس جہان کا پھونک دیتی تھی۔ شہرہ اس کی گرم بازاری کا، دھوم اس کے حسن عالم سوز کی ایسی تھی کہ آفتاب عالم تاب کو ایک ذرہ اس کے آگے تجلی نہ تھی:
کہاں تک بیاں اس کی ہوں خوبیاں
سراپا تھیں اس میں خوش اسلوبیاں
القصہ کن منی نے ایک دن اس نازنین سے یہ بات کہی کہ اب میں تیرتھ کو جاتا ہوں، تھوڑے سے دنوں میں نہا کر پھر آتا ہوں، تب تلک تو چین و آرام سے خوش رہيو، جو کچھ مطلوب ہو گوتمی سے کہا کریو، وہ تیری خاطر حاضر کیا کرے گی اور جان و دل سے صدقے قربان ہو کر سر سے پاؤں تلک تیری بلائیں لیا کرے گی۔ پر جو کوئی تپسوی یہاں آوے، آدر کر پاؤں پڑیو اور اس کی خدمت کیجیو، جہاں تک تجھ سے ہو سکے کوتاہی مت کیجیو۔
پس اس طرح وہ اسے سمجھا سمجھا، نصیحت دلاسا دے روانہ ہوا۔ اور وہ آتش کا پرکالا، اندھیرے گھر کا اجالا، شیریں منش، لیلی روش، طلسم حسن و جمال کے گنج کا یعنی سکنتلا برنگ گل جس کی جگہ چاہیے تھی چمن میں، رہی اسی بن میں:
شروع جوانی اور اس کا وہ جوبن
نیا عالم اپنا دکھاتا تھا بن بن
جتنے اس دشت کے چرند و پرند تھے، وے اس کے دام محبت کے پابند تھے اور وہ خدمت میں منی لوگوں کی مشغول تھی۔
جب کتنے دن گذرے، ایک تازی وحشت آ اس سے دو چار ہوئی۔ چار و ناچار اپنے دل کو یوں بہلاتی تھی؛ کبھی ہرن کے بچوں کو دانہ، کبھی درختوں کو پانی دیا کرتی اور خاطر اس کی ہر آن گوتمی ہر ہر طور سے کیا کرتی۔ کن کی سفارش کے سوا وہ خود اس کی فرماں بردار بلکہ جان نثار تھی اور وے دونوں سکھیاں اس کا منہ دیکھتی ہی رہتیاں تھیں۔
جب جوانی کی امنگ نے عالم کچھ اور دکھایا، شوخیاں نئے نئے طور کی اس نازنین میں سمانے لگیں، دل داری اور دل ربائی کے اختلاط ان ہمجولیوں سے شروع کیے۔ ترچھی نگاہوں، تیکھی نظروں سے اشاروں میں ان کے دلوں کو بے چین کرتی تھی، بگڑ بگڑ کر ہزاروں طرح چن چن کے ان کو نام دھرتی تھی:
کبھی ہنس بول کر نہال کیا
کبھی ٹھوکر سے پائے مال کیا
نہ تھا دل ربائی کا اک طور کچھ
ہر اک آن میں آن تھی اور کچھ
وہ قامت قیامت کا نمونہ بلکہ آمد میں اس سے بھی دونا؛ اس پر تمام وہ ترکیب بدن کی جیسا پھولوں کا گڑوا، آفت غضب وہ چھاتیوں کا ابھار، چمن حسن کی اس سے تر و تازہ بہار۔ عالم کچھ کا کچھ نظر آتا تھا جسے دیکھ کر عالم کا جی جاتا تھا۔ کمر کی بھی لچک سے رگ جاں تلک پیچ و تاب تھا اور ہر روز جوبن اس کا اس اس چمک سے بڑھتا تھا کہ چودھویں رات کے چاند کو بھی مکھڑا دیکھ کے چکا چوند آتی تھی۔ اس جنگل میں اس کے حسن کی یہ جھلک تھی کہ ہزار پردوں میں چھپائے نہ چھپے۔
اس حسن و جمال پر اب بیان اس کے پہناوے کا جو کیجیے تو سن کر گل چمن میں اپنے گریبان پھاڑیں اور گلا ننگا دیکھ کر معدن و دریا میں جہاں تلک گوہر ہیں، حسرت سے اپنے تئیں جوہر کریں۔
اگرچہ حسن خدا داد لباس و زیور کے بند سے آزاد ہے کہ اس سے اس کی خوبی ہے، نہ اس سے اس کی محبوبی، لیکن بہ ظاہر خوش نما ہے اور باطن میں تو دل کی لبھانے والی ہر آن ادا ہے۔
کہتے ہیں کہ اس کے بدن کی پوشش ہرن کی کھال تھی اور پوت کا بھی گلے میں ہار نہ تھا، تب بھی گویا ہزاراں ہزار بناؤ تھا۔ لیکن جوں جوں وہ جوانی پر آتی تھی توں توں خوبصورتی اور سماں دکھاتی تھی۔ جس کسی کی آنکھ اس کے چاند سے مکھڑے پر پڑتی، بے اختیار وہ یوں کہتا تھا:
مصور گر تری تصویر کو چاہے کہ اب کھینچے
لگاوے چاند سارا ایک چہرے کے بنانے کو
یہاں اس کی یہ صورت تھی اور منی وہاں جو راہ چلا جاتا تھا، یہی اس کے دل میں سوچ و بچار تھا جیسی وہ قبول صورت ہے ویسا ہی کوئی مقبول پری پیکر ماہ جمال اس کا جوڑا ہو تو دونوں ماہ و مشتری کے مانند وصل کے برج میں قران پاویں، ؏
یکایک سنو اور قدرت خدا کی
ایک دن راجا دشمنت کسی جنگل میں شکار کو نکلا تھا۔ ہرن کے پیچھے گھوڑا دوڑا اپنی فوج سے ایسا آگے نکل گیا کہ اس کی سپاہ جو گرد و پیش تھی، بہت پیچھے رہ گئی۔ جب آس پاس اپنے آدمیوں میں سے کوئی اس کو نظر نہ آیا اور دوپہر کی دھوپ سر پر پڑی اور وہ ہوائے گرم بدن کو لگی، تب بے تاب و بے قرار ہوا اور وہ ہرن کہ چھلاوے کی طرح نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا، اس جنگل میں (کہ سکنتلا کی جہاں بود و باش تھی) نمودار ہوا۔ راجا نے جھنجھلا اور طیش کھا، تیر کو کمان کے چلّے سے جوڑ کر چاہا کہ اسے نشانہ کرے، ہنوز تیر قبضے سے کمان کے سرکنے نہ پایا تھا کہ آواز آئی: تم راجا ہو اور ہم جتنے جنگل کے جوگی، تپسوی اور جتنے رہنے والے ہیں، کیا چرند کیا پرند، تمھارے سائے میں بستے ہیں، سبھوں کے تم رکھوالے ہو، ہا ہا! مہاراج! ہمارے تپ بن کا ہرن شکار مت کرو۔
جب جوگیوں منیوں تپسیوں کی راجا نے یہ بات سنی، ہاتھ رکھ گھوڑے کی باگ لی، ان سب رشیوں نے اشیر باد دیا۔
راجا نے ان کو ڈنڈوت کر کے یہ پوچھا: کن کا یہاں مكان کون سا ہے؟ ہم جا کر درشن کریں اور ان کے قدم لیں۔
یہ سن کر وے سب خوش ہوئے اور استھان ان کا پاس بتایا اور کہا: تھوڑے سے دن ہوئے ہیں، کن منی تیرتھ کو گئے ہیں۔ انھوں نے ایک لڑکی کو بیٹی کر کے پالا ہے، سو وہ ان کے مکان میں ہے۔ جو مہاراج اب وہاں تلک جاویں گے تو کن منی تیرتھ سے آن کر سکنتلا سے یہ بات سن بہت خوش ہوویں گے۔
راجا کے دل میں آ گئی، گھوڑے کو وہیں چھوڑ پاؤں پاؤں ان کے استھان تلک گیا۔ اس میں داہنی آنکھ جوں پھڑکی، دل میں شاد ہوا یہ شگون اچھا ہے۔ پاؤں جب آگے دھرا، اس کا یہ پھل پایا کہ چھوٹی چھوٹی عمروں کی تین نارنینیں نظر آئیں لیکن انھوں میں، ؏
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
حسن و جمال و خوبی ایک ایک کی شہرۂ عالم، جور و جفا و ستم میں ایک سے ایک اظلم، لیکن جب دیدۂ غور و چشم تحقیق سے دیکھا، ایک ان میں ایسی نازنین ہے کہ جس کے گل سے چہرے پر زلفيں جو سنبل سی ہوا سے جنبش میں ہیں تو کمر لچکی جاتی ہے۔ اس سے سے چمن رعنائی میں عجب بہار ہے اور ہر ایک ان دونوں میں سے نسیم و صبا سی اس پر نثار ہے:
ہوش جاتا رہا نگاہ کے ساتھ
صبر رخصت ہوا اک آہ کے ساتھ
وہ اس کا ایسا محو دیدار ہوا کہ بے خود ہو کر خاک پر گرا اور اپنے تن بدن کی کچھ خبر نہ رہی۔ کتنی ایک دیر کے بعد جس تس طرح سے جو آپ کو سنبھالا تو دیکھا کہ وہ نازنین اپنے ہاتھوں سے گھڑے پانی کے بھر بھر پودوں میں دے رہی ہے۔
وے دونوں اس کے ساتھ کی سکھیاں بھی اسی طرح پیڑوں کو سینچتی ہیں۔ جان کر یہ بھی ایک طور کی بندگی، خدمت اور پرورش درختوں کی کرتی ہیں۔ ان گل انداموں کے موئے سر سے کہ سراسر غیرت سنبل ہیں، قطرے شبنم کے سے ٹپک رہے ہیں اور تمام پسینے پسینے ہو رہیاں ہیں؛ گویا حسن کے دریا میں غوطے مار نکلیاں ہیں۔ وے صورتیں مورتوں سی بار بار سر، کاندھے، کمر پر گھڑے لے لے آتیاں ہیں، سانسیں چڑھ جاتیاں ہیں اور منہ اتر اتر جاتا ہے۔ چہروں پر ان کے ایک رنگ جاتا اور ایک رنگ آتا ہے۔ کبھی نزاکت سے پاؤں رپٹ جاتا ہے، کبھی بوجھ سے بید کے مانند سارا بدن تھرتھراتا ہے:
نہ تھا ان کو وہ رنج راحت سے کم
ہر اک آن کرتی تھیں چہلیں بہم
درختوں کی چھاؤں میں کھڑی ہو ہو کر اپنے اپنے جوبن پر ایک ایک مغرور تھی، لیکن ان سبھوں میں سکنتلا اپنے حسن خدا داد میں بہت دور تھی۔ چمکاوٹ اس کے چہرے کی عجب جلوے دکھاتی تھی اور زلفیں بکھری ہوئیں منہ پر اس کے اس رنگ سے نظر آتیاں تھیں جیسے نمود دھویں کی شعلے پر ہوتی ہے یا جیسے کچھ کچھ گھٹا سورج پر آ جاتی ہے۔ نگاہ بجلی تھی کہ نظروں میں کوندھ جاتی تھی۔ اس تپ بن میں اس رنگ روپ سے سماں بندھا تھا:
خجل دیکھ کر اس کو ہوتا تھا ماہ
ٹھہرتی نہ تھی مہر کی بھی نگاہ
غرض کہ وہ کن کے مکان میں بہ ایں جلوہ افروزی ہر روش سے نونہالوں کو نہال کرتی تھی۔
راجا نے اسے دیکھ کر تعجب سے کہا کہ اگر ہم اسے سرسوتی کہیں تو بین اس کے کاندھے پر کہاں ہے؟ اگر گورا پاربتی کہیں تو بھی نہ کہہ سکیں کہ آدھا انگ مہا دیو کا، آدھا انگ اس کا ہے! یا لچھمی کہیں تو کیوں کر کہیں؟ وہ چھاتی پر بشن کی رہتی ہے، ایک دم ان سے جدائی نہیں سہتی۔ اگر رنبھایا، منیکا یا رت سوچیں تو وے جوانیں ہیں، یہ جو اس کے نئے جوبن کا سن و سال ہے، وے کب رکھتی ہیں۔
راجا یہ باتیں سوچ سوچ کر حیران تھا اور دل میں بھی کہتا تھا: مگر یہ کوئی حور ہے جو سراپا عیب سے دور ہے۔ جان و دل سے اس پر فریفتہ ہوا، ہوش و حواس سب گم ہوئے، اس کے حسن کے سمندر میں ڈوب گیا۔ نگہ کے دام میں، زلفوں کے جال میں دل یوں پھنسا کہ پھر رہائی جنجال ہوئی۔ نقشہ اس کی صورت کا لوح دل پر کھنچ گیا۔ آئینے کے مانند یہ سراپا محو کے عالم میں تھا، جدھر جدھر نگاہ اس کی پھرتی تھی اس کا جی جلا جاتا تھا۔
غرض کہ یہ بن داموں کے غلام ہوا اور تیغ عشق سے کام تمام ہوا۔ کبھی مجنوں کے مانند اس لیلی منش کا شیفتہ تھا اور کبھی فرہاد سا اس شیریں ادا کا فریفتہ۔ قطعہ:
تیغ مژگاں سے جو سينہ سر بسر غربال تھا
دل برنگ نقش پا ہر ہر قدم پامال تھا
اشک تھے آنکھوں سے جاری لب پہ تھا شور و فغاں
آہ اس دل دادۂ الفت کا یہ احوال تھا
جب کبھی ہوش میں آتا، اتنی بات زبان پر لاتا آنکھوں نے تو اس کے حسن کی دید کی اور کان آواز پر لگے رہے لیکن سخن کے موتی جو وہ زبان سے پرووے، كان صدف سے پر در ہوویں۔ سو یہ کیوں کر آرزو دل کی بر آوے۔ درختوں کی آڑ اور اوٹ میں چھپا چھپا وہ نو گرفتار دام محبت اس سوچ میں کھڑا تھا، دید اس کے حسن کی کرتا تھا، سرد آہیں حسرتوں سے بھرتا تھا لیکن ان میں کسی کی نگاہ اس پر نہ گئی۔
اتنے میں سکنتلا سے دونوں سکھیاں پوچھنے لگی کہ تو جو ان درختوں کو سینچتی رہتی ہے، کیا منی کو یہ تجھ سے بھی بہت پیارے ہیں؟ جو تو ان کو جان سے بھی چاہتی ہے زیادہ، بھلا تجھ کو انھوں نے کیوں ان کی خدمت کو مقرر کیا ہے؟ خدا نے تجھے یہ شکل شمائل دی ہے کہ کوئی حسن و ادا میں تیرے مقابل نہیں۔ یہ نزاکت اور کامنی پن تیرا کہ لوگ چشم و دل اپنے تیری راہ میں فرش کرتے ہیں، پاؤں تیرے اپنے سر پر دھرتے ہیں۔ تیرا بدن اس محنت اور مشقت کے لائق نہیں۔
سکھیوں نے جب ایسی باتیں کہیں، سکنتلا نے جواب دیا: میں آپ دل و جان سے پرورش کرتی ہوں، آخر ایک دن اس کا پھل پاؤں۔ جو کوئی چھاؤں میں انھوں کی آن کر بیٹھے گا مجھے یاد کرے گا؛ منی کے کہنے سے خدمت ان کی نہیں کرتی ہوں بلکہ میں آپ دھیان ان پر دھرتی ہوں، مجھ کو خود الفت ہے۔ اور ہرن کے چمڑے کی وہ انگیا جو چھاتیوں پر کسی ہوئی تھی اور پھول سے اس کے بدن میں گڑ گئی تھی، جب ہاتھ سے کھولنے لگی نہ کھلی، تب انسویا سے وہ بولی: پریم ودا نے کس کر میری انگیا باندھی ہے، ٹک تو اسے ڈھیلا کر دے۔
جوں اس نے بندوں کو ڈھیلا کر دیا، پريم ودا کھسیا کر اور جھنجلا کر بولی: گھڑی گھڑی کی کھول موند کیا کریں۔ جوانی کے زور سے بدن تیرا بڑھتا ہے اور ابھار چھاتیوں کا ہوتا جاتا ہے۔ ہمارا گلہ تو کرتی رہتی ہے، اپنی طرف نہیں دیکھتی کہ تیرا بدن کچھ کا کچھ ہوا جاتا ہے۔
یہ بات سن کر وہ نہایت شرمائی، پھر اسی اپنے کام میں لگی۔ تب ایک بھونرا پھول پر سے اڑ کر منہ پر منڈلانے لگا اور خوشبو پا کر اس کے نازک نازک ہونٹوں پر جو گلاب کی پتی سے تھے، پھرتا تھا۔ وہ سسکیاں لے لے کر جھڑکتی تھی، اڑ جاتا تھا، پھر آ بیٹھتا تھا، تب جھجک کر اور گھونگھٹ کر کے سکھیوں کی طرف دوڑی اور وہ بھونرا بھی گونجتا ساتھ ساتھ لگا رہا:
دیکھ کر بھونرا برنگ گل وہ اس کا روئے خوش
گرد تھا اور لے رہا تھا اس کی ہر دم بوئے خوش
راجا یہ تماشا دیکھ رہا تھا اور من ہی من میں بھونرے سے یہ کہا: تیرے سے کہاں طالع میرے کہ اس کے گرد پھروں اور آن آن لب و دہن سے اس کے مزے لوں! کاش میں بھی تجھ سا ہوتا اور جو آرزو میرے دل کی ہے، خاطر خواہ بر آتی اور تجھ کو دور سے بھی بو باس نہ لینے دیتا۔ کیا کروں جو بے بال و پر ہوں، اسی حسرت سے نقش پا کی طرح پامال ہوں! تو اڑ کر پاس جاتا ہے، گویا خوشی کی باتیں کہہ اس سے لگن لگاتا ہے، وہ تجھے ناز و ادا سے جھڑک جھڑک دیتی ہے اور خفا ہو ہو منہ پر گھونگھٹ لیتی ہے۔ تو وہیں منڈلاتا پھرتا ہے اور اس کے ہونٹوں سے رس ليتا ہے، ہم دور سے چھپ چھپ کر یہ رنگ دیکھ رہے ہیں، آگے جاتے ہوئے خاطر نازک سے ڈر آتا ہے۔ دھن تجھے، ہم کس کام کاج کے ہيں؟ ابیات:
ترے سے کہاں ہیں ہمارے نصیب
یہ ممکن نہیں جا سکیں ہم قریب
کھڑے تکتے ہیں دور سے آن آن
ہر اک آن پر گو نکلتی ہے جان
قصہ کوتاہ اپنے دل کی باتیں رشک کے مارے کر رہا تھا اور وہ معشوقیت سے اس بھونرے کو بہ ہزار عشوہ و کرشمہ دور کر رہی تھی، پر وہ اس کی بو باس پر پاس سے نہیں سرکتا تھا۔ پھر کہنے لگی: مجھے اس جنگل میں اس بھنور نے ستایا۔ پھر چلائی کہ سکھیو! تم میرے پاس آؤ، اس بدبخت سے میرے تئیں چھڑاؤ، یہ ہونٹوں پر میرے منڈلاتا ہے، ٹالے سے نہیں ٹلتا، اس سے میرا بس نہیں چلتا۔ سنتے ہی سکھیاں دوڑی گئیں اور یہ رنگ دیکھ ہنس ہنس کہنے لگیں کہ ہمیں تو نے ناحق بلایا ہے، اس بیری سے ہم کیوں کر بچاویں۔ راجا دشمنت سے فریاد کر، وہ اس تپ بن کا رکھوالا ہے۔
راجا کا نام سنتے ہی پکار اٹھی اور وہ ان درختوں سے نکل کر پاس آ کر کہنے لگا: یہ کہو تمھیں کس نے ستایا۔ راجا کو دیکھتے ہی بن مول بک گئیاں اور شرم کے مارے گھونگھٹ کر کے جھک جھک گئیں۔ کچھ ڈریں گھبرائیں، بے قراری سے ایک جگہ کھڑی نہ رہ سکیں، حیرت سے آگے بھی پاؤں نہ پڑ سکا، بھونچک سی ہو گئیں، کچھ بول نہ سکیں۔ تب ان میں سے انسويا نے دل کرخت کر راجا کو جواب دیا کہ جس کی دہشت سے ظلم کا تو نام نہیں ہے اور عدل یہ ہے کہ گائے اور شیر ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں، اس تپ بن میں شوق و ذوق سے تپسوی لوگ جب تپ کرتے ہیں، کوئی درند گزند نہیں دیتا، کسی نے کسی کو آج تک نہیں ستایا؛ یہ بھولی نادان ہے، نادانی اور بھولے پن سے بھونرے کو دیکھ پکار اٹھی؛ ہم اس کے راج میں نڈر ہیں، کون ہمیں ستا سکے اور کون آنکھ دکھا سکے؟
یہ سن کر راجا نے کچھ اپنے تئیں بتا اور مسکرا اور سکنتلا کی طرف دیکھ کر پوچھا کہ تمھارے نونہال درخت سرسبز اور ہرن کے بچے اچھے ہیں؟
اتنی بات کے سنتے ہی اس کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے اور سارا بدن شرم کے مارے کانپنے لگا۔ منہ سے کچھ بات نہ نكلی، حیا کے مارے نیچے نظریں کر لیں۔
تب انسويا نے اسی قرینے سے تھوڑا سا دریافت کرکے بہ خاطر داری اس کی طرف سے یہ کہا: کیوں نہ ہو اب خیر ہماری جو تم سے نیک بخت رکھوالے ہوں۔ تم جو پاؤں پاؤں یہاں دوڑے آئے ہو، پسینا تمھارے منہ پر آ گیا ہے، درختوں کی چھاؤں تلے دم لو۔ ہم تمھارے ہاتھ پاؤں دھو دیں۔ ہم نے قسمت سے تمھارے قدم دیکھے، آج کے دن تم ہمارے مہمان ہو۔
سکنتلا سے کہا:تو کیوں نادان بنی ہے، ٹھنڈا پانی لا، اس اپنے مہمان کو پلا۔
راجا نے مسکرا کر کہا: ہمیں کچھ درکار نہیں، تمھیں دیکھ کر ہمارا کلیجا ایسا ٹھنڈا ہوا کہ بھوک پیاس سب جاتی رہی۔ تمھاری میٹھی میٹھی باتوں سے یہ ہم نے مزہ پايا کہ یہی ہماری مہمانی تھی۔ تم بھی پانی سینچتی سینچتی تھک رہی ہو۔ سب مل کر ان درختوں کی چھاؤں میں بیٹھو اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا لو۔
تب ہنس کر انسویا سکنتلا کی طرف دیکھ کر بولی: ہمارے یہاں انوٹھے مہمان آئے ہیں، ان کا ڈر کچھ مت کر، ان کی باتوں پر کان دھر۔ سکھیوں کی سن کر یہ باتیں، حسن و ادا کی کر کر گھاتیں، راجا اور سکنتلا چھاؤں میں درختوں کی بیٹھے۔ ایک کی طبیعت ایک کی طرف آئی ہوئی اور مہر و محبت دل میں سمائی ہوئی، قسمت سے ان دونوں کی اس جنگل میں ملاقات ہوئی، دونوں کی دل کی گرہ کھلنے لگی، کیا اچھی بات ہوئی! اشعار:
گرہ جوں غنچہ ہر دل کی ہوئی وا
بہم دونوں گل و بلبل تھے گویا
وہاں بیٹھے جو تھے وہ خرم و شاد
بہم قید دو عالم سے تھے آزاد
نظارے میں تھا گو سر گرم دیدہ
ولے آپس میں تھا ہر اک ندیدہ
ایک ایک سکھی انھیں دیکھ دیکھ محو دیدار تھی، بلكہ كام ديو اور رتی سی کڑوڑ کڑوڑ ان پر وار کر آپ ان پر نثار تھی۔ ظاہر میں سکنتلا دزدیدہ نگاہوں اور نیچی نظروں سے راجا کو دیکھ رہی تھی؛ تب راجا نے ان سے یہ بات کہی: تم تینوں کا بھلا سنجوگ ہوا ہے، رنگ و روپ ایک سا، عمریں برابر، جانیں ایک، بدن جدا جدا ہے۔
يہ راجا کی ان مول باتیں سن کر انسویا بولى: دھن ہے اس دیس کو جہاں سے تم آئے ہو! منیوں کی جگہوں میں جو دیو خلل کرتے ہیں تم نے بچایا۔ صاف کہو تم کون ہو؟ دیو یا گندھرب یا کام دیو ہو۔ کچھ تو ہمیں بتاؤ، مہربانی کر کے ہمارے دل کی دبدھا مٹاؤ اور اپنا نام جتاؤ۔
راجا نے کہا: ہمیں راجا دشمنت نے بھیجا ہے اور یہ فرمايا ہے کہ رکھی لوگوں کی خدمت اور رکھوالی کیا کرو۔ رات دن ہم تپ بن میں پھرتے ہیں، راجا دشمنت کے چاکر ہیں۔
بہ بات کہہ کر راجا چپ رہا۔ اگرچہ اس نے صاف اپنا نام نہ بتايا، در پردہ یہ بات کہی۔ پر انسویا کو يقين ہوا کہ راجا یہی ہے؛ تب ہنس کر کہنے لگی: اب منی سب نچنت ہوئے کہ اپنا رکھوالا اور خاوند سر پر رکھتے ہیں۔ تم جیسا رکھوالا جو سر پر آیا، بھلا تم نے آ کر ہمیں درشن دکھایا، ہم لوگوں کو نوازا۔
اس کی باتوں سے اس نے بہت مزا اٹھایا اور لذت پا کر اس سے اور دوسری سکھی سے کہا: سکنتلا کو خدا نے اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ یہ جو ایسی نازک اندام، قبول صورت ہے، منی اس کی شادی کر دے گا یا صاحب کی بندگی کراوے گا؟ ریاضت کیوں کر ہوگی اس سے، اٹھ نہ سکے بار نزاکت جس سے۔ بیت:
یہ ایسی نظر آئی نازک بدن
گرانی کرے جس پہ بوئے سمن
انسویا نے جواب دیا کہ منی نے اپنے دل میں ٹھانا ہے جیسی سکنتلا ہے، جو کوئی ویسا ملے گا اور یہ بھی اسے قبول کرے گی، اس سے ہم شادی کردیں گے۔ شعر:
بات جب یہ زبان پر آئی
وہ گل اندام سن کے شرمائی
راجا بولے: سکنتلا جیسی ہے ویسا تو ملنا اس کا معلوم، اس کا ثانی دنیا سے ہے معدوم۔ جس گل بدن سے اس کے دل کا کنول کھلے گا، ایسا باغ جہان میں بر کہاں سے ملے گا۔ تمام ملکوں میں منی ڈھونڈھا کرے گا اور ساری عمر اسی آرزو میں مرے گا۔ شعر:
نہ پاوے گا کوئی ایسا جہاں میں
زمیں سے جائے گا گر آسماں میں
سکنتلا دکھ تنہائی کے سہے گی اور زندگی بھر بن بیاہی رہے گی۔
پھر انسويا ہنس کر اس شعور داری سے بولی اور اس کے غنچۂ دل سے گرہ کھولی کہ جب خدا اچھے دن لاتا ہے، دل کا مقصد گھر بیٹھے ہی مل جاتا ہے۔ تم جیسے لوگوں کا جب یہاں قدم آیا، کن کے من کا مطلب پورا ہوا۔
راجا یہ بات سن کر بہت خوش ہوا اور سکنتلا نہایت شرمائی۔ پريم ودا مسکرائی اور اس کے کان سے جا لگی۔ چپکے چپکے کہتی تھی: تم آج ہی بیاہی جاتیں، کیا کریں کن منی آج کے دن گھر نہیں۔ وہ شرمائی جاتی تھی اور یہ باتیں ایسی ہی سناتی تھی، ترچھی نظروں سے راجا کو دیکھ رہی تھی۔
راجا کی آنکھ سکنتلا سے اٹکی۔ وہاں فوج ڈھونڈھتی ہوئی جنگل میں بھولی بھٹکی۔ آخرش ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے سپاہ کا وہاں گذر ہوا جہاں یوں بہم ناز و ادا کی فوجیں تل رہی تھیں اور آپس میں یہ رد و بدل ہو رہی تھی۔ فوج کے پرے کے پرے جب نزدیک آئے اور ہر ایک نے گھوڑے ادھر کو اٹھائے، گرد زمین سے آسمان تلک گئی۔ شور چاروں طرف بلند ہوا، جنگل کے جانوروں کو گھیرنے کو قراول دوڑے۔ اس طور سے اور اس طریق سے وہ سپاہ اس کی شکار کرتی ہوئی وہاں پہنچی۔ تپسوی لوگوں نے فریاد مچائی کہ اپنے اپنے جانوروں کی رکھوالی کرو۔ یہ شور و غل سن کر سکھیاں اپنے جی میں گھبرائیاں، دل دھڑکنے لگے، ہر ایک کا چہرہ پھول سا کملایا۔
راجا خوشی کی باتیں کرنے نہ پایا، دل میں اپنے اس فوج کے آنے سے بہت رکا ۔ انسويا دہشت کھا کر راجا سے بول اٹھی: تم بیٹھو یا جاؤ ہمارا کلیجا تھرتھراتا ہے، ہم اپنے مکان میں جاتیاں ہیں، تم مہربانی کرکے ہمارے مکان میں آئیو۔ تمھاری خدمت ہمیں لازم تھی سو ہم خدمت کیے بن رخصت ہوتی ہیں۔ یہ بات کہتے بھی ہمیں شرم آتی ہے۔ ہم سے رکاوٹ دل میں مت کیجیو، پھر ایک بار ہمیں درشن دیجیو۔
سکنتلا کو تھام اور ہاتھ میں ہاتھ لے کر وہاں سے گھر کو چلیاں، جدائی سے دونوں کے دل میں بے کلیاں ہوگیاں۔ وے ادھر چلیں اور راجا فوج کی طرف چلا، جوں جوں وہ آگے جاتا تھا دل اس کا پیچھے رہا جاتا تھا۔ شعر:
وہ جب پاؤں رکھتا تھا آگے بڑھا
کشش دل کی لاتی تھی پیچھے پھرا
ہر ہر قدم پر اس کا تو یہ حال تھا اور سکنتلا کا عجب احوال تھا۔ اپنی کف پا سے جو برگ گل سے نازک تر تھی، کانٹے نکالنے کے بہانے جا بجا ٹھہر جاتی تھی، اور کبھی آنچل اس کا بے قراری سے جو خاک پر گرتا تھا، کھڑی ہو ہو اور سنبھال سنبھال آپ کو اٹھاتی تھی، اور کبھی بال سر کے جو آشفتہ سری سے منہ پر بکھر جاتے تھے، سنبل کا سا دستا بنا کر اسی حیلے سے باندھ کر جوڑا آگے پاؤں بڑھاتی تھی، کبھی نظریں بچا کر سکھیوں کے پیچھے پھر کر راجا کو دیکھ لیتی تھی، شعر:
اسی طرح ہر ہر قدم راہ تھی
کبھی نالہ تھا اور کبھی آہ تھی
يوں ہی لگن لگائے ہوئے وہ اپنے استھان میں گئی، قالب میں گویا جان نہ تھی۔ شعر:
نہ تھا دن کو آرام، نے شب کو خواب
شب و روز تھا اس کے جی کو عذاب
شرم کے مارے سکھیوں سے بھی نہ کچھ کہہ سکتی تھی، دل کا درد دل ہی دل میں رکھتی تھی۔ تیر کاری یا تیز کٹاری کلیجے پر لگے تو سورما سہتے ہيں پر نئی جدائی کا دکھ کسی سے سہا نہیں جاتا۔ کون کہے سے بات یہ مانے، جس پر بیتے وہی جانے۔ جہاں وہ اکیلی جا کر بیٹھتی، ساون کی سی جھڑی لگاتی۔ اس کی یہ حالت تھی کہ سب رنگ بدن کا زرد تھا، دل اور جگر میں درد تھا۔ داغ سے سینہ سارا جلا تھا، شور جنوں سے سر میں اٹھا تھا۔ شعر:
خوں ناب جگر دیدۂ گریاں سے بہے تھا
اور نالہ جان سوز ہی دمساز رہے تھا
یہ آگ جو اس کے بدن میں لگ رہی تھی، رو رو کر آنسو بجھاتی تھی۔ اس کا تو ہر دم یہی حال تھا اور راجا کا بھی عجب احوال تھا۔ دھیان میں وہ اس کے حیران رہتا تھا اور ایسا دم بخود تھا کہ کسی سے درد دل کا بھی نہیں کہتا تھا۔ شعر:
حسرت سے ہر اک سو وہ حیرت زدہ تکتا تھا
سکتے کا سا عالم تھا کچھ کہہ نہیں سکتا تھا
سکنتلا سے جو اس نے دل اٹكايا، پل مارتے وہ راج اپنا سب جلایا، بھلایا۔ رات دن میں کل ایک دم بھی نہیں پڑتی تھی، اسی کا دم بھرتا تھا۔ نئی لگن نے اسے گھر جانے نہ ديا، تپ بن کے پاس ڈیرہ کیا۔ خاک پر سر اپنا پٹکتا تھا، منی لوگوں سے ڈر کر بول نہیں سکتا تھا کہ کہیں یہ بد دعا نہ دیں۔
عشق کی آگ سے جلتا تھا اور دل میں اپنے کام دیو سے کہتا تھا: تو بڑا کم بخت ہے، نہایت بے انصافی تو نے یہاں آ کر کی۔ من سے تو اپجا اس لیے تیرا نام منوج ہے، اس من کو تو کیا جِلاتا ہے؟
اس طرح کام دیو سے گلہ کر کے، چاندنی رات کا عالم دیکھ کے، کہنے لگا: وہ مہ پارہ مجھ سے جدا ہے۔ تو اے چاند! اپنے جلوے دکھاتا ہے، عاشقوں کو آتش حسرت سے جلاتا ہے، ان کی آہ جاں سوز سے نہیں ڈرتا؟ سمندر سے تیری پیدائش ہے، کیوں دل میں تو آگ لگاتا ہے؟ سمندر بھی تیری ان حرکتوں سے نہیں شرماتا؟ دل میں تو جو جلن ڈالتا ہے، یہ تیرا قصور نہیں بلکہ یہ گناہ راہو کا ہے جو تجھے نگل کر چھوڑ دیتا ہے۔ جو تجھے آب حیات کا چشمہ کہتے ہیں، وے دیوانے ہيں۔
خیال میں اس کے بے قراری سے یہ باتیں کر رہا تھا کہ کسی منی نے دو چیلے اس کے پاس بھیجے۔ راجا نے سنتے ہی بلا لیا۔ ان دونوں نے اسیس دی۔ راجا نے ڈنڈوت کر آؤ بھگت کی۔ تب وے بولے: بنا ‘کن’ بن سونا ہے، ہمارے یہاں ہوم ہوتا ہے، دیو آن کر خلل کرتے ہیں۔ یہ عرض منیوں نے کی ہے۔
وہ آپ ادھر جانے کا ارادہ رکھتا تھا، یہ بات سن کر بہت شاد ہوا اور خوشی خوشی تیر و کمان ہاتھ میں لے تپ بن میں گیا، رکھیوں کی رکھوالی کرنے لگا۔ بروگ اس کے دل میں سکنتلا کا بڑھا، بن میں اسے ڈھونڈنے لگا۔ از بس کہ گرمی کے دن تھے۔ جب دوپہر کو سورج تپنے لگا، اس کے دل میں یہ سوچ ہوا سکنتلا مدھو مالتی ندی کے کنارے اس کڑی دھوپ میں کھڑی ہوگی۔ شعر:
جب اس داغ سے اس کا سینہ جلا
نہ آئی اسے تاب آگے چلا
ڈھونڈتے ڈھونڈتے جو اس طرف گذر ہوا، دیکھا کہ تالابوں میں کنول پھول رہے ہیں۔ ہر ہر پھول پر بھونرے منڈلانے اور گونجتے ہیں، شعر:
ہوا ٹھنڈی ٹھنڈی چلی ہے یہاں
جہاں تک کہ جائے نظر ہے سماں
مور بول رہے ہیں، کوئل کوک رہی ہے، درختوں کی گھنی گھنی ڈالیاں جھک جھک رہی ہیں، گھڑی گھڑی چھاؤں چھا رہی ہے، کنول کی پتیوں کی سیج بچھا کر سکنتلا لیٹی ہے، پر وے تمام کانٹے ہیں جو تلے بچھے ہیں، ایک کروٹ اسے چین نہیں، برہ کے درد سے بے کلی ہے، درد سر سے صندل ماتھے پر لگا ہے، سکھیاں کنول کی پتیوں کا پنکھا بنا ہلاتياں ہیں۔ اگرچہ سخت بے تاب ہے پر نزاکت سے بہانہ کرتی ہے۔ کبھی دھوپ کی تپش سے، کبھی سموم کی شدت سے گلہ ہے؛ سکھیوں سے تس پر بھی چھپاتی ہے۔ بے کلی دل کی زبان پر نہیں لاتی، کبھی کہتی ہے: گرمی سے میرا عجب احوال ہے، جنگل سے دل وحشت کرتا ہے اور جی میرا نہایت ڈرتا ہے۔
سکھیوں سے وہ یوں کہہ رہی تھی۔ اتنے میں راجا آئے۔ جدھر سے یہ صدا آتی تھی، ادھر كان لگائے۔ نگاہ جب اس پر کی دیکھا لباس بدن کا میلا ہے، گریبان بہ رنگ گل سراسر چاک، تن پر جمی ہوئی جنگل کی خاک، لب خشک، چشم تر، اشک ارغوانی، چہرہ زعفرانی، بے تاب، بے قرار، پریشان خاطر، عجب احوال سے نالہ و زاری کر رہی ہے۔
راجا کے دل میں یہ آئی ابھی اسے دکھائی نہ دیجیے، پہلے اس کی سب باتیں سن لیجیے۔
یہ کہہ کر گو کہ راجا ان درختوں کے اوجھل کھڑا تھا، پر سکنتلا سکھیوں سے اپنے دل کی لاگ ظاہر نہ کرتی تھی۔ انسويا نے شعور داری سے دریافت کر کے کہا: جس دن سے وہ بن کا رکھوالا منہ دکھا کر پھر نہ آیا، اسی دن ہنسنا بھول گئی اور دن رات اداس رہتی ہے۔ ہر چند آتش ہجر سے جلتی ہے پر شرم کے مارے کچھ نہیں کہتی۔
پريم ودا اس کی یہ باتیں سن، افسوس کر، سںکنتلا سے واشگاف بھید پوچھنے لگی کہ سوا ہمارے تمھارے یہاں کوئی اور نہیں، ہم سے کیوں درد دل چھپایا ہے۔ قطعہ:
احوال دل زار کو لا اب تو زباں پر
باقی نہیں کچھ آئی ہے غافل تری جاں پر
بس جانے دے اب کام نہ تو شرم کو فرما
رکھ مہر خموشی نہ لب و کام و دہاں پر
گو کہ نہیں کہتی تو پر یہ چشم تر، رنگ زرد اور آه سرد جو تو دم بدم بھرتی ہے، تمام آثار عشق کے ان طوروں سے ظاہر ہیں۔ صاف اگر تو زبان سے بیان کرے تو شاید کچھ ہم سے تدبیر ہو، اس کا ہم علاج کریں۔ تیرا یہ رنگ دیکھ کر جان میں جان ہماری بھی نہیں۔ دل گھبراتے ہیں، ہوش و حواس اڑے جاتے ہیں، رونا چلا آتا ہے، دم نکلا جاتا یے۔ خدا کے واسطے نادان مت ہو، اپنے حسن و جوانی کو دیکھ، کیوں خاک میں اپنے کو ملاتی ہے؟ شعر:
جو کچھ ہم کو کہنا تھا ہم نے کہا
نہ اک بار اب بلکہ وہ بارہا
ایک رو رو بلائیں لیتی تھی، دوسری صدقے ہو ہو جاتی تھی۔ دیکھ دیکھ ان کا منہ وہ آئینہ رو جو سراپا حیرت کی شکل بن گئی تھی، دم سرد بھر کر کہنے لگی: تم دونوں میری جان سے زیادہ عزیز ہو اور سر سے پاؤں تلک عقل و ہوش و تمیز ہو۔ کیا کہوں میں اور کیا سنوں میں؟ جو کچھ میری جان پر گذرتی ہے اسے خدا یا میرا دل ہی جانتا ہے۔ ہر چند تم میرے دکھ کی شریک ہو لیکن اس واسطے نہیں کہتی کہ ایک تو میں آپ مرتی ہوں، تس پر تم دونوں کو بھی کڑھاؤں ؏
گذرتی ہے جو کچھ گذرنے دو مجھ پر
یہ سنتے ہی انھوں نے اپنے گریبان چاک کیے اور خاک پر ہر ایک نے اپنے تئیں پٹک پٹک دیا اور کہنے لگیں ہماری زیست تیرے دم کے ساتھ ہے۔ جب تیری یہ حالت ہوئی، ہم جی کر کیا کریں گے۔
تب وہ اور بے حواس ہوئی، چار و ناچار بیان کرنے لگی: جب سے صورت دکھا کر گیا ہے وہ بن کا رکھوالا، تب سے زخم جگر کا میرے ہے آلا۔ کل ایک پل نہیں پڑتی دل کو۔ بے کلی سے جان لبوں پر آ رہی ہے، شكل اس کی آنکھوں کی پتلیوں میں پڑی پھرتی ہے۔ یا اسے کسی صورت سے دکھاؤ یا میری زیست سے ہاتھ اٹھاؤ۔
کچھ اور کہنے نہ پائی تھی کہ اشک کی آنکھوں میں یہ طغیانی ہوئی، دم بند ہوگیا، ہچکی لگ گئی۔ ؏:
دم بخود ہوکے پھر ہوئی خاموش