انسپیکٹر جمشید محکمہ سراغرسانی کے سب سے مشہور سراغرسان تھے, انہیں جو کیس بھی دیا جاتا تھا, وہ اسے حل کر کے چھوڑتے… آج تک کوئی ایسا کیس نہیں تھا, جو انہیں ملا ہو اور ان سے حل نہ ہو سکا ہو, وہ مجرم کو عجیب و غریب طریقوں سے پکڑتے….. اس طرح کہ مجرم کو وہم و گمان بھی نہ ہوتا کہ انسپیکٹر جمشید کا جال اس کے گرد گہرا ہوتا جا رہا ہے, اسے تو عین اس وقت پتا چلتا جب وہ اس کے خلاف تمام ثبوت حاصل کرنے کے بعد اس پر ہاتھ ڈال دیتے…
محکمہ سراغرسانی کے تمام آفیسر تو ان کا لوہا مانتے ہی تھے… محکمہ پولیس کے تمام شعبوں میں بھی ان کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی… اپنی ذاتی زندگی کے لحاظ سے وہ حد درجے ایماندار تھے… رشوت سے کوسوں دور بھاگتے تھے… انہیں حکومت کی طرف سے جو موٹر سائیکل ملا ہوا تھا, اسے صرف ڈیوٹی کے اوقات میں استعمال کرتے تھے… غریبوں کے بہت ہمدرد تھے… قانونی معاملات میں بہت سخت تھے… جب کسی کے خلاف کوئی جرم ثابت ہو جاتا تو پھر اس کے ساتھ نرمی نہیں کرتے تھے, بڑی سے بڑی سفارش کی بھی پروا نہیں کرتے تھے… جب کسی بات پر اڑ جاتے تو پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے…
ان کے تین بچے تھے… سب سے بڑے کا نام محمود احمد تھا جو ہائی سکول میں پڑھ رہا تھا, یہ بےحد ذہین اور پھرتیلا تھا, مشکل اوقات میں بالکل نہیں گھبراتا تھا, کوئی مصیبت آ پڑتی تو ڈٹ جاتا, اکثر اوقات اپنے والد کی مدد کرتا رہتا تھا…
ان کے دوسرے بیٹے کا نام فاروق احمد تھا, فاروق بہت چلبلا اور کھلنڈرا تھا… اس پر شرارت کا بھوت ہر وقت سوار رہتا… بات بات پر لطیفے چھوڑتا… ہر وقت دوسروں کو ہنسنے اور مسکرانے پر مجبور کر دینا اس کی خاص عادت تھی خود بھی مسکراتا رہتا… طبیعت میں شوخی کوٹ کوٹ کر بھری تھی… یہ بھی مشکل اوقت میں کبھی نہیں گھبراتا تھا… درختوں پر چڑھنا اس کا محبوب مشغلہ تھا…
فرزانہ فاروق سے ایک سال چھوٹی تھی, ذہین بلا کی, ترکیبیں سوچنے میں ماہر, انسپکٹر جمشید کو مصیبت میں دیکھ کر حد درجے فکر مند ہو جاتی تھی…
باپ کی صحبت میں رہ کر انہیں بھی جاسوسی کاموں سے ایک خاص قسم کا لگاؤ پیدا ہو گیا تھا, جونہی انہیں کوئی کیس حل کرنے کے لیے ملتا, وہ بھی اس میں دلچسپی لینے لگتے اس کی ایک ایک تفصیل ذہن نشین کے لیتے اور یہ کوشش کرتے کسی طرح وہ اپنے والد کی مدد کے بغیر ہی اس معاملے کی تہہ تک پہنچ جائیں, بلکہ تینوں بھی آپس میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے… فاروق البتہ بظاہر ایسے کاموں سے جی چراتا, لیکن جب کیس میں دلچسپی لیتا تو پھر ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جاتا…
ان کی والدہ بیگم جمشید جاسوسی بکھیڑوں اور جھنجٹوں سے بالکل آزاد تھیں, انہیں ان کاموں سے الجھن سی ہوتی تھی, لہٰذا وہ کسی کیس کے بارے میں کوئی تفصیل جاننے کی کوشش نہ کرتیں… ہاں اتفاق سے کسی معاملے میں الجھ جاتیں تو پھر حالات کے سامنے ڈٹ جاتیں…
ان کے ساتھ کے مکان میں شیرازی صاحب اور ان کی بیوی رہتی تھیں, شیرازی صاحب کا کاروبار دو تین شہروں میں پھیلا ہوا تھا… اس لیے وہ عام طور پر گھر سے باہر رہتے… ان کے ہاں فون لگا ہوا تھا… اکثر ان لوگوں کو ان کے ہاں فون کرنے کے لیے جانا پڑتا اور فون سننے کے لیے بھی, بیگم شیرازی ایک بہت ہی نیک سیرت عورت تھیں اور خاوند کی کاروباری مصروفیات کی وجہ سے تنہائی کا شکار بھی رہتی تھیں… اس لیے ان کے ساتھ بہت انس پیدا ہو گیا تھا… خود بھی ان کے ہاں آتی جاتی رہتیں…
محمود, فاروق اور فرزانہ صبح سکول چلے جاتے اور انسپکٹر جمشید دفتر, سکول سے واپس آ کر وہ کھانا کھاتے, کچھ دیر آرام کرتے اور پھر سکول کا کام کرنے بیٹھ
جاتے……. سکول کا کام کرنے کے لیے محمود اور فاروق عام طور پر نیشنل پارک چلے جاتے, کسی دن نہ بھی جاتے اور فرزانہ کے ساتھ ہی کر لیتے…
ان کی زندگی اسی طرح گزر رہی تھی اور یہ ایک بہت ہی دلچسپ زندگی تھی, لیکن چند دنوں سے محمود, فاروق اور فرزانہ اپنے والد کو بہت پریشان محسوس کر رہے تھے… انہوں نے کئی بار پوچھا بھی کہ کیا بات ہے لیکن وہ ہر بار ٹال گئے… آخر ایکشام چائے کی میز پر انہوں نے کہا…
“ملک میں ان دنوں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سمگلروں کا طوفان آیا ہوا ہے, سمگلنگ بہت بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے محکمہ نے یہ کیس میرے سپرد کر دیا ہے…….. لیکن میں ابھی تک اس کیس میں کچھ بھی معلوم نہیں کر سکا, بس اس لیے پریشان رہتا ہوں…..”
“کیا اس سلسلے میں ہم آپ کی کچھ مدد کر سکتے ہیں؟” محمود بولا…
“ابھی تو میں خود بھی کچھ نہیں کر سکا……. تم کیا کر سکتے ہو…”
کیا سمگلر صرف ہمارے شہر میں ہی پھیلے ہوئے ہیں؟” فرزانہ نے پوچھا…
“نہیں… ہر بڑے شہر میں…. یہی تو پریشانی ہے… میں چاہتا ہوں….. ان کے اصل مرکز کا سراغ لگاؤں اور پھر اس مرکز پر چھاپا مارا جائے…
ان کی پریشانی بدستور جاری رہی… ایک دن انہوں نے کہا…
“مجھے ایک سراغ ملا ہے, اس سلسلے میں مجھے دوسرے شہر جانا ہے….. میں آج شام کو روانہ ہو رہا ہوں…. وہاں پہنچ کر اپنی خیریت کی اطلاع دوں گا, میرا خیال ہے, مجھے کئی دن لگ جائیں گے…”
اور وہ روانہ ہو گئے, تین دن بعد ان کی طرف سے ایک خط ملا جس میں لکھا تھا کہ وہ بالکل خیریت سے ہیں اور اس شہر کے ہوٹل نیو لائٹ کے کمرہ نمبر ایک سو دو میں ٹھہرے ہوئے ہیں… انہوں نے بھی اپنی خیریت کی اطلاع انہیں ہوٹل کے پتے پر بھیج دی…
دو دن اور گزر گئے, پھر ایک پولیس انسپکٹر ان کے گھر آیا, اسی نے بتایا کہ دوسرے شہر کے ہوٹل نیو لائٹ کے کمرہ نمبر ایک سو دو میں ایک لاش ملی ہے….. اس کمرے سے ایک سوٹ کیس بھی ملا ہے… اس میں کچھ سامان موجود تھا جس میں سے اس گھر کا پتا بھی ملا ہے….. چنانچہ لاش کو یہیں بھیج دیا گیا ہے…….. آپ چل کر دیکھ لیں…..
ان کے دل دھک دھک کرنے لگے… چاروں مردہ خانے میں پہنچے, لیکن لاش کو دیکھ کر انہوں نے اطمینان کا سانس لیا… یہ ان کے والد کی لاش نہیں تھی, تاہم انسپکٹر جمشید ہوٹل سے غائب تھے… شہر میں بھی ان کا کہیں پتا نہ چلا, حکام نے انہیں ہر طرف تلاش کرایا, لیکن کوئی پتا نہ چلا, تاہم محمود, فاروق, فرزانہ اور بیگم جمشید پُرامید تھے کہ وہ ضرور زندہ ہیں……. ان کے دل گواہی دے رہے تھے….. وہ ان کا بیتابی سے انتظار کر رہے تھے… خدا سے ان کی واپسی کی دعائیں کر رہے تھے… ایسے میں ایک دن محمود اور فاروق نیشنل پارک سے لوٹ رہے تھے کہ……………….
………………………………………