آغاجان کا یہ گھر الدریہ کے خوبصورت اور خاموش علاقے میں تھا۔ پستہ قامت دیواروں پر مبنی چھوٹا سا لان اور راہداری سے گزر کر رہائشی حصے کا آغاز ہوتا تھا۔ شہیر ولا کی طرح یہاں نہ وسیع و عریض لان تھا نہ کمرے۔ لیکن درمیانے سائز کے یہ کمرے انسان کو اس کی تنہائی کا احساس نہیں دلاتے تھے۔ لاؤنج اور کچن البتہ خاصے کشادہ تھے۔ ٹیرس بھی خوبصورت تھا۔
عشال بالکونی میں چلی آئی۔ سبک سی ہوا نے اس کا استقبال کیا۔ وقتی طور پر سہی وہ خود کو کچھ بہتر محسوس کررہی تھی۔ وہ واپس کمرے میں چلی آئی۔ اپنے پیروں کے تلووں کو چھو کر نادیدہ زخموں کو شمار کرنا چاہا۔ اگرچہ نشان مٹ چکے تھے۔ لیکن چبھن ابھی باقی تھی۔
“عشال! کھانا تیار ہے آجائیں۔”
دستک کے ساتھ ضیغم کی آواز سنائی دی تھی۔
وہ اپنا آپ سمیٹتی کمرے سے باہر نکل گئی۔
ٹیبل پر ضیغم کے ساتھ آغاجان پہلے سے موجود تھے۔ عشال کو خفت کا احساس ہوا۔ ان دونوں کو عشال کی وجہ سے انتظار کرنا پڑا۔
“السلام علیکم آغاجان!”
عشال نے دھیمے لہجے میں سلام کیا۔
“وعلیکم السلام!”
آؤ ضیغم!تم اکثر پوچھتے تھے۔ عشال نام کی ایسی کون سی کشش ہے جو ہمیں ہر بار تم سے دور لے جاتی ہے؟ اب خود ہی مل لو۔”
آغاجان نے کرسی سنبھالتے ضیغم سے کہا تھا۔ بے اختیار عشال کی نظریں ضیغم سے ٹکرائیں۔ وہ کچھ خجل سا محسوس ہوا۔
“دادو!آپ میری احمقانہ باتیں خوب یاد رکھتے ہیں۔”
وہ مسکرایا۔ اور پہلی بار عشال کو معلوم ہوا اس کی شخصیت کا اصل حسن تو اس کی مسکراہٹ میں تھا۔ عشال نے جھینپ کر اس پر سے نظریں ہٹائی تھیں۔
“آپ سے ملنے پہلے تک میں بھی ایسی ہی باتیں کیا کرتی تھی۔ جب بھی آغاجان کے نام آپ کی میلز آتی تھیں۔”
عشال نے سر جھکائے پست لہجے میں ضیغم کی مدد کرنا چاہی۔
“وہ دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
“واقعی عشال؟ ایسا ہے تو پھر حساب برابر!”
ضیغم نے خوشدلی سے کہا۔ تب عشال کو احساس ہوا۔ وہ شرمندہ نہیں تھا۔
کھانے ہلکی پھلکی گفتگو کے درمیان ختم ہوگیا اور عشال کو وقت کا احساس نہیں ہوا۔
کھانے کے بعد برتن دھونے کی ذمہ داری عشال نے ازخود لے لی۔ اس معاملے میں اس نے ضیغم کی نہیں سنی تھی۔ سو وہ سر جھکا کر آغا جان کے کمرے میں چلا آیا۔ اور آغا جان کے چہرے پر تفکر کے آثار پائے۔ ضیغم ان کے پاس پائنتی بیٹھ گیا۔ اور بغور ان کا چہرہ تکنے لگا۔
“کیا دیکھ رہے ہو؟”
دیکھ رہا ہوں آپ گئے تھے تو شاہوں کی شان سے لیکن لوٹے ہیں تو لٹے ہوئے کاررواں کی طرح!”
بے اختیار آغا جان کی گردن جھکی تھی اور بوڑھی آنکھوں کا بند ٹوٹا تھا۔ ضیغم نے بے اختیار انھیں سینے سے لگایا تھا۔
“ہم برباد ہوگئے ضیغم!”
ضیغم کے شانے پر آغا جان کی سسکیاں بہہ گئی تھیں۔
_____________________________
منظر تیزی سے بدلتے جارہے تھے۔ اور وہ اپنے پیچھے سارے زخم وقت کی گور کے سپرد کرتا انجانی راہوں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ واپسی کو وقت سے مشروط کر کے نکلا تھا۔
“تم ہماری عزت کو اپنے جذبات کی آگ میں جھونکنا چاہتے ہو۔ اس کی تمہیں میں اجازت نہیں دے سکتا۔ اور اس بنیاد پر تم ہمیں چھوڑنا چاہتے ہو تو میں تمہیں نہیں روکوں گا۔ لیکن ایک بار اس دنیا کو ہمارے معیار پر پرکھ کر دیکھنا۔ تمہیں نہ ہم غلط نظر آئیں گے۔ ناں آغا جان!”
ضیاءالدین صاحب کے الفاظ اس کا تعاقب کررہے تھے۔ جنھیں وہ بہت پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ اسے ابشام زبیر سے عشال کے ہر زخم کا حساب چاہیے تھا۔
_______________________________
“شہیر کی تم فکر مت کرو اسے میں سنبھال لوں گا۔”
مرتضی صاحب نے اپنے ہم زلف کو تسلی دیتےہوئے کہا تھا۔ نورین سیڑھیوں پر کھڑی ان کی باتیں سن سکتی تھی۔ اسے عشال کی اس طرح ہجرت بھول نہیں رہی تھی۔ وہ دو ماہ سے صارم سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ لیکن وہ واپس جا چکا تھا۔ اور اس کی پوسٹنگ کہاں ہوئی تھی۔ یہ معلوم کرنا اس کی دسترس سے اتنا ہی باہر تھا۔ جتنا وقت کو پلٹانا۔
“تمہارے لیے مجھے وقت کو بھی پلٹانا پڑا تو میں کروں گی۔ عشال!تمہاری خوشیوں کا ہر قرض مجھ پر واجب ہے۔”
نورین نے خود سے عہد کیا تھا۔
______________________________
“عشال!”
ضیغم صبح صبح اس کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔شاید وہ جلدی میں تھا۔ جو اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر بول پڑا۔
“عشال آپ کو دادو یاد کررہے ہیں نماز سے فارغ ہو کر ان کے پاس چلی جائیے گا۔ میں مسجد جارہا ہوں۔خدا حافظ۔”
عشال نے جاءنماز بچھائی اور اللہ اکبر کہہ کر سینے پر ہاتھ باندھ لیے۔
نماز سے فارغ ہو کر عشال نے چولھے پر چائے کا پانی چڑھایا اور کچن کیبنٹس کو کھنگالنا شروع کیا۔
ضرورت کی چیزیں نکال کر اس نے مکمل ناشتہ تیار کیا اور ٹرے سجا کر آغا جان کے پاس چلی آئی۔
“آپ نے یاد کیا آغاجان؟”
“ہاں! تم ناشتے کے بعد تیار ہوجانا۔ ضیغم تمہیں ساتھ لے جائے گا۔ تمہارا داخلہ کروانا ہے۔”
آغا جان نے تسبیح کو سنبھالتے ہوئے اس کے گوش گزار کیا۔
عشال کے اندر کوئی ہلچل پیدا نہیں ہوئی۔
“کیا سوچنے لگیں؟”
آغاجان نے اسے بت بنا دیکھ کر پوچھا۔
“میرا داخلہ لینا کوئی اتنا ضروری تو نہیں آغا جان!”
عشال نے ہر جذبے سے عاری لہجے میں کہا۔
“تمہارے لیے ہو یا نہ ہو۔ ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ پچھلی چار پشتوں سے ہمارا خانوادہ علم و ادب سے وابستہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں یہ سلسلہ چلتا رہے۔ یہ رکنا نہیں چاہیے۔”
عشال نے چونک کر انھیں دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں کئی گلے تھے۔
“ہم جانتے ہیں تم کیا سوچ رہی ہو؟ قسمت سے انسان لڑ نہیں سکتا۔ لیکن اس پر صبر ضرور کرسکتا ہے۔ تم بھی صبر کرلو اور آگےبڑھ جاؤ۔ اسی میں اللہ کی رضا ہے۔”
“اللہ کی رضا! میں نے سب کچھ اللہ کے سپرد کردیا تھا۔ آغاجان! لیکن اس نے مجھے کیا دیا۔۔۔۔رسوائی؟ اب مجھے اللہ سے کچھ نہیں چاہیے۔”
وہ کہہ کر آہستہ سے اٹھ گئی تھی۔ یہ دیکھے بنا کہ آغاجان کے چہرے پر زردی کھنڈ آئی تھی۔ اور انھوں نے سینہ تھام لیا تھا۔
___________________________________
شام گہری ہو کر ایک اور اختتام کی جانب بڑھ رہی تھی۔ شفاف گلاس وال کے پار پرندوں کا کارواں اپنے اپنے مسکن کی طرف رواں تھا۔ شامی کی نظریں دور افق پر اپنی منزل تلاش رہی تھیں۔ اس کی سماعتیں زبیر عثمانی کے لفظوں سے ابھی تک الجھ رہی تھیں۔
“شامی!”
شیما کی آواز اس کی پشت سے ٹکرائی لیکن شامی پر کچھ اثر نہ ہوا۔
“ہم بہت دور نکل آئے ہیں شامی! بہتر ہے اب سب کچھ قبول کرلو۔ ضروری تو نہیں کہ انسان جو چاہے وہ اسے حاصل بھی ہوجائے؟ زندگی اسی کا نام ہے۔”
شیما نے اپنا نرم ہاتھ اس کے شانے پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔
“یہ بات مجھ سے زیادہ تمہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ زندگی کے راستوں میں چاہے میں کتنا بھی آگے نکل جاؤں لیکن میری منزل تم نہیں ہوسکتیں شیما! میرا دل ایک بار جس چیز کو رد کردے۔ وہ دوبارہ کبھی میری آنکھوں میں نہیں جچ سکتی۔ اور تم میری چوائس کبھی نہیں تھیں۔ اس لیے میرے نزدیک بھی آنے کی مت سوچنا۔”
اپنی بات کہہ کر وہ پھر سے منہ پھیر گیا تھا۔
“تم جانتے ہو شامی؟ تمہیں یہ نئی زندگی میری وجہ سے ملی ہے۔ اس لیے اس پر اب تم سے زیادہ میرا حق ہے۔ بہتر ہے میرے ساتھ اچھے سے بی ہیو کرو۔”
شیما نے اس کے کالر سے نادیدہ گرد جھاڑی تھی۔
“تم مجھے دھمکی دے رہی ہو؟”
شامی کے چہرے پر تناؤ پھیلا۔
“ہرگز نہیں! میں محبت کرتی ہوں تم سے۔ اور چاہتی ہوں ہم اپنی نیولی میرڈ لائف اچھے کپلز کی طرح گزاریں۔ اس سے زیادہ مجھے تم سے کچھ نہیں چاہیے۔”
الفاظ کے برعکس شیما کا لہجہ کافی سرد تھا۔ شامی نے کافی کا مگ سائیڈٹیبل پر رکھا اور وہاں سے نکل گیا۔ زیادہ دیر وہاں ٹھہرنا ماحول کے لیے مناسب نہیں تھا۔ اور اس کے لیے بھی۔
******************
“ضیغم بھائی! آغا جان۔۔۔؟
عشال کے لیے جملہ مکمل کرنا محال تھا۔
“وہ اب بہتر ہیں۔ پریشان مت ہوں۔”
ضیغم نے اسے تسلی دی۔
عشال نے امڈتے آنسو پلکوں پر روکنے کی کوشش کی۔
“خود کو الزام مت دیں عشال! کبھی کبھی حالات ہمیں خود سے آشکار کرنے کے لیے بدل جاتے ہیں۔ ضروری نہیں ہر بار ہم غلط ہی ہوں۔”
عشال چونکنے پر مجبور ہوئی تھی۔ بلاشبہ وہ آغاجان کی حالت کا ذمہ دار خود کو سمجھ رہی تھی۔
“کیا سوچ رہی ہیں؟ میں نہ کوئی جوتشی ہوں نہ مائنڈریڈر! لیکن یہ آپ کا چہرہ آپ کے دل کا آئینہ ہے۔ یہ سب کچھ کہہ دیتا ہے۔ وہ بھی جو آپ کہنا نہیں چاہتیں۔ ویسے آپ دادو سے مل سکتی ہیں۔”
وہ عشال کو حیران سا چھوڑ کر وہاں سے ہٹ گیا تھا۔
“آغاجان! آپ نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ۔ کیوں چھپائی اپنی تکلیف؟ کارڈیک پیشنٹ ہونا کوئی چھوٹی بات ہے؟ ”
وہ سیدھے ان کے سینے سے جا لگی۔
“تو ضیغم نے تمہیں بتادیا؟”
آغاجان نے اسے تھپکا۔
“آپ نے اتنی بڑی بات ہم سب سے چھپائی۔۔۔آخر کیوں؟”
عشال ان کے سینے سے لگی، خفا لہجے میں کہہ رہی تھی۔
“تم سب ناحق پریشان ہوتے۔ اس لیے نہیں بتایا۔ اور پھر انسانی جسم ہو یا پرانا درخت۔ ایک دن بوسیدگی اسے گھیر ہی لیتی ہے۔ آخر زندگی کو اختتام کا بہانہ ہی تو چاہیے ہوتا ہے۔”
آغاجان نے آہستہ سے اس کا سر سہلایا۔
“آغاجان! آپ مجھے رلانا چاہتے ہیں؟”
وہ پریشان ہو کر سمٹی تھی۔
“ہرگزنہیں! ہم چاہتے ہیں تم اب حقیقتوں کا سامنا کرنا سیکھ لو۔ آج ہم ہیں لیکن ہو سکتا ہے کل ہمارے بغیر تمہیں زندگی گزارنی پڑے۔ لہذہ آج ہی آنے والے کل سے آنکھیں ملانے کی تیاری کرلو۔”
عشال نے سر اٹھا کر انھیں دیکھا۔ ان کے چہرے پر ٹھہراؤ تھا۔
“ٹھیک ہے آغاجان! میرے لیے آپ سے زیادہ کچھ اہم نہیں ہے۔ آپ ضیغم بھائی سے بات کرلیں۔ جب کہیں گے میں ان کے ساتھ چلی جاؤں گی۔ لیکن آئندہ ایسی باتیں ہرگز نہیں کریں گے آپ۔”
عشال نے سر جھکا کر کہا۔تو آغاجان کے چہرے پر طمانیت بھری مسکراہٹ ابھری تھی۔
“عشال! آزمائش میں شاکر رہنا ہی ایک مومن اور جلدباز میں فرق پیدا کرتا ہے۔ اس فرق کو بھولنا مت۔”
اور وہ سر جھکا کر وہاں سے نکل گئی تھی۔ آغاجان نے ٹھنڈی سانس بھر کر آنکھیں موند لیں۔ جانتے تھے۔ اسے ابھی جال نہیں بھولا۔
****************
لوگوں کی چہل پہل، شوخیاں، قہقہے۔۔۔ اسے کچھ بھولی بسری تصویریں یاد دلا رہی تھیں۔ وہ ضیغم کی معیت میں اس پختہ روش پر قدم اٹھاتی آگے بڑھ رہی تھی۔ ہر گزرتی ساعت ایک گہری ٹیس بن کر دل میں اندر تک اتر جاتی تھی۔ انجینئیرنگ ڈیپارٹمنٹ کے سامنے اس کے قدم رک گئے۔
“کیا ہوا عشال؟ آپ رک کیوں گئیں؟”
ضیغم نے اسے متذبذب پاکر پوچھا۔
“میں انجینئیرنگ نہیں پڑھ سکوں گی۔ ضیغم بھائی! بلکہ شاید اب کچھ بھی نہ پڑھ سکوں۔ پلیز مجھے یہاں سے لے جائیے۔”
وہ منت کرنے لگی۔ ضیغم اس کی متوحش آنکھیں دیکھ کر فکرمند ہوا۔ پھر اس کے نزدیک آکر آہستہ سے بولا۔
” آئیے کیفے میں چل کر بیٹھتے ہیں۔”
عشال ٹھنڈے ہاتھ پاؤں کے ساتھ ضیغم کے پیچھے چل پڑی۔ وہ یہاں تک آ تو گئی تھی۔ لیکن لوگوں کا سامنا کرنا اب اس کے لیے آسان نہیں رہا تھا۔ اس بات کا اندازہ اسے آج اتنے دن بعد لوگوں میں نکل کر ہوا تھا۔
عشال نے پریشان نظروں سے اس وسیع وعریض عمارت کو دیکھا۔ جس کا نام تک اس نے نہیں پوچھا تھا
“مشکلیں حل ہو جایا کرتی ہیں۔ راستے بھی نکل آتے ہیں۔ بس انسان کا یقین مضبوط ہونا چاہیئے ۔ انسان کو یہ اعتماد اور بھروسہ ضرور ہونا چاہیئے کہ اللہ ہے اور اس کے ساتھ ہے مشکلیں وہی حل کرے گا ۔
“راستے وہی بنائے گا۔ وہاں جہاں انسان اپنے لیے کچھ نہیں کر سکتا وہاں کوئی اور ہے جو اس کے لیے سب کچھ کر سکتا ہے اور وہ کوئی اور نہیں صرف اللہ ہے۔۔۔ وہ اللہ جو ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوتا ہے ۔ وہ کبھی آپ کو اکیلا نہیں چھوڑتا ۔ کبھی آپ کو نہیں بھولتا ۔ وہ آپ کے ساتھ رہتا ہے ، ہمیشہ آپ کا ساتھ دیتا ہے ۔
وہ دیتا ہے۔ بے شمار ، بے حساب ! آپ کے ناشکرے پن کے باوجود بھی دیتا رہتا ہے۔ وہ گِنتا نہیں ہے۔ احسان نہیں جتاتا ہاں پر آزماتا ضرور ہے اور اس کی بھیجی ہوئی آزمائشوں میں کھرا اترنا آسان نہیں ہوتا پر یقین مضبوط ہو تو ۔ ۔ اتنا مشکل بھی نہیں ہوتا۔”
ضیغم جوس کا گلاس اس کے سامنے رکھتے نرمی سے کہہ رہا تھا۔
“آپ بہت اچھا بول لیتے ہیں۔ جیسے کوئی استاد۔”
عشال کی سانسیں اب ہموار ہورہی تھیں۔
زندگی سے بڑا کوئی استاد نہیں۔ اور یہ سارے سبق مجھے زندگی نے پڑھائے ہیں”-
ضیغم نے اسٹرو منہ میں لی۔
“زندگی کے ایک ہی تجربے نے پچھلی تمام تحریریں مٹاڈالیں۔”
عشال نے جوس کو چھوا بھی نہیں تھا۔
“زنگی کا ہر موڑ اپنے پیچھے ایک نتیجہ چھوڑ جاتا ہے۔ اور اس دوران اگر زندگی ہم سے کچھ لے لے تو یقین کر لیجیے وہ ہمارا تھا ہی نہیں۔ تتلی کے رنگ خوشنما سہی لیکن وقتی اور سطحی ہوتے ہیں۔”
ضیغم نے لفظ عشال کی سوچ پر نئی دستک دے رہے تھے۔ پھر بھی وہ خود کو بولنے سے روک نہ پائی۔
“ضیغم بھائی! دل پر لگنے والے گھاؤ تتلی کا پر نہیں ہوتے۔ یہ روح پر نقش چھوڑ جاتے ہیں۔”
ضیغم نے ایک نظر اس کے چہرے پر ڈالی اور بولا۔
“گھاؤ کی بھی بہرحال ایک عمر ہوتی ہے۔”
“کچھ گھاؤ آب حیات سے جنم لیتے ہیں ضیغم بھائی!”
عشال کا اپنا تجربہ ہے۔
“یہ “رحمن الرحیم” سے سوءظن ہے۔”
ضیغم نے جان بوجھ کر اللہ کے لیے رحمن الرحیم کے الفاظ استعمال کیے تھے۔
“آپ کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ آپ زندگی کو دوسری طرف سے دیکھ رہے ہیں۔ میں لکیر کے جس پار کھڑی ہوں۔ کبھی اسے محسوس کر کے دیکھیے گا۔”
اتنا کہہ کر عشال اٹھ کھڑی ہوئی۔ جوس کا گلاس اپنی ٹھنڈک کھوچکا تھا۔
“عشال!”
ضیغم تیزی سے اس کے پیچھے لپکا تھا۔ مگر وہ تیزی سے باہر کی طرف جارہی تھی۔ ضیغم نے دو چار قدموں میں درمیانی فاصلہ پاٹ لیا اور اس کے ہم قدم ہوا تھا۔
“واؤ۔۔۔۔۔مسٹر ضیغم مصطفی!”
اجنبی آواز سن کر دونوں کے ہی قدم رکے تھے۔ ضیغم کرنٹ کھا کر مڑا۔ اس کے ساتھ عشال بھی مڑی۔
سنہرے رنگ و روپ اور جدید تراش خراش کے لباس کے ساتھ وہ ایک حسین لڑکی تھی۔
“تو یہ تھیں وہ !pirorties جن کے لیے تم نے مجھے چھوڑ دیا۔”
اس کا واضح اشارہ عشال کی طرف تھا۔
عشال کو جسم سے جان نکلتی محسوس ہوئی اور بےختیار ضیغم کے بازو اسے تھامنے کے لیے بڑھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“میں ٹھیک ہوں!”
عشال نے بمشکل خود کو سنبھالا تھا۔
“غنائم! اپنی زبان پر قابو رکھو۔”
ضیغم نے دانت بھینچ کر اسے مزید کہنے سے روکا۔مگر وہ طنز سے مسکرائی۔
“ویسے تم یہی ڈیزرو کرتے ہو۔ تمہارا اسٹینڈرڈ یہی ہے۔”
“شٹ۔۔۔۔اپ! تم مجھ سے کسی بھی سوال کا حق نہیں رکھتیں۔”
ضیغم نے چبا چبا کر اس خوبصورت اور درازقد لڑکی کا راستہ روکا تھا۔
“نہیں ضیغم مصطفی! تم اب بھی میرے سامنے جوابدہ ہو۔”
اور دوقدم پلٹ کر ضیغم کی طرف آئی۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔
“میں تم سے اب بھی سوال کرنے کا حق رکھتی ہوں۔ اور جب چاہوں اس حق کو استعمال بھی کرسکتی ہوں۔”
اور ضیغم کا کالر نرمی سے چھوا۔
“مجھے تم سے اس درجہ حماقت کی امید نہیں تھی۔”
ضیغم نے اس کا ہاتھ جھٹکا اور سپاٹ لہجہ میں بات کہہ کر منہ دوسری جانب موڑ لیا۔ گویا بے اعتنائی کی حد تھی۔
“امیدوں کی بات جانے دو۔ضیغم مصطفی!وہ تو میں نے بھی بہت باندھی تھیں۔ لیکن تم نے میری ہر امید کو ریت میں بدل دیا۔ فی الحال تم مجھے اس کی وضاحت دو۔”
گردن کے ہلکے سے خم سے عشال کی جانب اشارہ کیا۔
“میں جو بھی کروں تمہارا اس سے تعلق نہیں ہے۔”
ضیغم نے اسے سخت الفاظ میں متنبہہ کیا اور وہاں سے نکلنا چاہا مگر وہ ایک بار پھر آڑے آئی۔
“مگر تم سے تو کبھی تعلق تھا ناں میرا؟ اس بات کو زادہ عرصہ نہیں ہوا۔”
“تھا!”اب نہیں ہے۔وہ ماضی کا حصہ تھا جسے میں دفن کر چکا ہوں۔
ضیغم نے اپنے لفظوں پر زور دیا۔
سنو ضیغم مصطفی!میں اتنی آسانی سے خود کو تمارے ماضی سے نوچ پھینکنے نہیں دوں گی۔”
اس نے ضیغم کی آنکھوں میں براہ راست جھانکتے ہوئے کہا تھا۔
“میں زندگی میں غلطیاں دہرانے کا قائل نہیں ہوں۔ اور نہ اپنے فیصلے پر ڈگمگانے والوں میں سے۔ چاہو تو ایک بار پھر آزمالو۔”
اتنا کہہ کر وہ عشال کی کلائی تھامے وہاں سے تیزی سے نکل گیا تھا۔
غنائم نے پرتپش نظروں سے اس کی پشت دیکھی تھی۔
“کیا کررہے ہیں آپ؟”
کار کے پاس پہنچ کر عشال نے احتجاج کیا تھا۔ اور ضیغم نے اس کے عبایا سے ڈھکی کلائی چھوڑتے ہوئے سر کو پشت سے تھاما تھا۔
“معذرت! لیکن وہاں ٹھہرنا مناسب نہیں تھا۔”
عشال نے ایک نظر اپنی کلائی کو دیکھا اور دوسری نظر ضیغم پر ڈالی جس کے چہرے پر اذیت لکھی تھی۔
“اس کے لہجے میں بہت استحقاق تھا آپ کے لیے۔ آپ کو اسے وضاحت دے دینی چاہیے تھی۔”
عشال نے نپے تلے الفاظ میں کہا۔
“اس کی ضرورت نہیں تھی۔”
ضیغم نے گاڑی کے اگلے دروازے میں چابی ڈالی۔
“لیکن مجھے ضرورت ہے۔ آپ دونوں کا جو بھی معاملہ ہے۔ میں اس کے درمیان ایک فریق نہیں بننا چاہتی۔”
عشال نے زور دے کر کہا۔ضیغم نے رک کر عشال کی طرف دیکھا اور مطمئن سے انداز میں بولا۔
“آپ فریق ہیں بھی نہیں۔”
اتنا کہہ کر ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔ عشال کو ہتک سی محسوس ہوئی لیکن اس کے ساتھ بیٹھنا ہی پڑا کہ یہ سفر ناگزیر تھا۔
***************
“نیا آغاز ہمیشہ ہی سرشار کرتا ہے۔ میں بھی سرشاری کے عالم میں حقائق کو نظرانداز کر بیٹھا تھا۔ ان حقائق کو جو میرے اور غنائم کے درمیان آغاز سے تھے۔ اور جو ہمارے تعلق کا انجام طے کررہے تھے۔ ہمیں بہرحال ایک دن جدا ہونا ہی تھا۔”
ضیغم کی بات سن کر آغاجان نے حیرت سے اس کا سراپا دیکھا تھا۔ جیسے کسی اجنبی سے بات کررہے ہوں۔
“ہم تمہارے لیے کچھ کرسکتے ہیں ضیغم؟”
آغاجان نے اس کا دکھ سمیٹنے کی کوشش چاہی۔
“انسان جو کچھ خود اپنے لیے کرسکتا ہے دادو! وہ کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ اور میں تو ہر جذبے پر خط تنسیخ کھینچ آیا ہوں۔”
عشال آغاجان کے کمرے کی دہلیز پر آکر کھڑی ہوئی تھی کہ ضیغم کے الفاظ اس کی سماعت سے ٹکرائے۔ اور وہ ایک بار پھر چونکنے پر مجبور ہوئی تھی۔ پتہ نہیں یہ شخص اتنا فلسفہ کیوں بولتا تھا۔ ہر لفظ جیسے موتی۔
“جی؟”
وہ اچانک بات کرتے ہوئے عشال کی طرف متوجہ ہوا۔ عشال ٹرے ہاتھ میں لیے دہلیز سے اندر چلی آئی۔
“آغاجان کی دوا کا وقت ہو گیا ہے۔”
عشال نے سائیڈ ٹیبل پر ٹرے رکھی اور ضیغم نے انھیں نیم دراز ہونے میں مدد دی۔
“آپ اپنی جگہ شاید درست ہوں ضیغم بھائی۔ لیکن میرا تجربہ کہتا ہے۔ جب انسان کو کوئی راستہ سجھائی نہ دے تو ایک بار اپنے اردگرد کے لوگوں سے رجوع کرلینا چاہیے کہ تعلق کیل کی طرح دل کی زمین میں گڑ جاتا ہے۔ آپ اسے نکال پھینکیں تب بھی وہ اپنی جگہ ایک خلاء چھوڑ جاتا ہے۔”
ضیغم نے متاثر ہو کر عشال کی طرف دیکھا۔
“ہر انسان کا تجربہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر میں آپ سے کہوں کہ آپ خود کو دوسرا چانس ضرور دیں تو کیا یہ آپ کے لیے قابل قبول ہوسکتا ہے؟”
عشال لاجواب ہوئی۔ لیکن شکست تسلیم کرنے کو دل نہیں مانا تو بےکار سا عذر پیش کیا۔
“یہاں آپ کی بات ہورہی ہے۔”
“اپنی بات آپ نے خود شروع کی ہے۔”
ضیغم نے خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے دونوں ہاتھ اٹھادیے۔
آغاجان نے دلچسپی سے دونوں کو دیکھا۔
“آغاجان آپ انھیں سمجھاتے کیوں نہیں؟”
عشال نے آغاجان سے مدد طلب کی۔وہ مسکرادیے۔
“ہم نے تمہیں تو خوب ہی سمجھ لیا جو ضیغم کو سمجھائیں؟”
اور وہ ناراضی سے واک آؤٹ کرگئی۔ ضیغم نے ایک ہاتھ کان کو لگا کر آغاجان سے معذرت چاہی۔ انھوں نے بھی اشارے سے بےنیازی کا عندیہ دیا تھا۔
ضیغم مسکراتا ہوا عشال کے پیچھے ڈائننگ ہال کی طرف چل دیا۔
***************
ریس کورس مں لوگوں کا ہجوم اور غل غپاڑہ عروج پر تھا۔ وہ کوفت زدہ سی راستہ بناتی ہوئی بھیڑ میں آگے بڑھتی چلی جارہی تھی۔ یہاں تک کہ کروڑوں کی رقمیں لگانے والی مخصوص نشستوں تک پہنچی۔دوربین آنکھوں سے لگائے شاندار سے سوٹ میں ملبوس وہ شخص بھی شاندار دکھائی دیتا تھا۔
گہری بھوری آنکھوں میں چمک لہرائی اور براؤن مونچھوں تلے گلابی ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔جو جیت کی علامت تھی۔
شیخ ولید ہادی الجہری کے لیےکوئی میدان چیلنج نہیں رہا تھا۔ دوسروں کو پیچھے چھوڑنا اور جیت کا نشہ سرور بن کر شیخ کی رگوں میں دوڑ رہا تھا اور یہی نشہ اسے برسوں سے اسے ریس کورس سے جوڑے ہوئے تھا۔ شیخ کا اصل کاروبار تیل کا تھا لیکن اپنی شپنگ کمپنی بھی تھی۔ صحیح غلط سے اسے کوئی علاقہ نہیں تھا۔ اسے تو صرف جیتنے کا خبط لاحق تھا۔
“دیکھا تم نے؟ شیخ ہادی کے نام سے وابستہ ہر شئے پیروں سے نہیں پروں سے دوڑتی ہے۔ مگر افسوس!آج تک کوئی اچھا حریف سامنے آیا ہی نہیں۔ مجھے انتظار رہے گا ایسے حریف کا جو واقعی مدمقابل ہو۔”
شیخ ہادی نے دوربین ہٹا کر غنائم کی طرف دیکھے بغیر کہا تھا۔
“لیکن کبھی کبھی حریف کمزور ہونے کے باوجود شکست دے جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ابی؟”
غنائم نے سیاہ گلاسز بالوں میں اٹکاتے ہوئے پوچھا۔
“تم اپ سیٹ ہو ڈئیر؟”
شیخ نے غنائم کا سوال نظرانداز کرتے ہوئے اس کی طرف اچٹتی سی نگاہ ڈالی اور تیز روشنی کے اثر سے آنکھیں چندھی کیں۔
“آپ کب تک ان بےکار مشغلوں سے فارغ ہوں گے؟”
غنائم نے سینے پر ہاتھ باندھے اسی کوفت زدگی کے عالم میں پوچھا۔
“کم دس وے۔”
شیخ نے اس کے لیے راستہ بناتے ہوئے اشارہ کیا۔ اور اسے لیے ہوئے پارکنگ پلازہ تک آیا۔
گارڈز مؤدبانہ انداز میں ان کے اطراف چل پڑے۔
“میں نے تم سے پہلے ہی کہا تھا۔ یہ شخص تمہارے اندازوں سے مختلف ثابت ہوگا۔ یاد ہے تمہیں؟”
سیاہ لیموزین میں نشست سنبھالتے ہی شیخ نے کہا تھا۔ اس کی نظریں غنائم کے چہرے کا احاطہ کیے ہوئے تھیں۔
“میں پرانی باتیں دہرا کر وقت برباد نہیں کرنا چاہتی۔”
غنائم کے ماتھے پر تیوریاں تھیں۔
“تم نے کہا تھا۔ تم اسے کنوینس کرلو گی! ہے ناں؟”
شیخ نے سگار سلگایا۔
“آپ میرے احساس شکست کو بڑھارہے ہیں۔”
وہ تڑخی تھی۔
“میں تو یونہی تمہیں یاد دلارہا تھا کہ دوسال پہلے کی ہی تو بات ہے تم کس قدر کانفیڈنٹ تھیں۔”
اور سگار کا دھواں فضا کے حوالے کیا۔
“اور اب اتنے جلدی ہار کیوں مان لی ہے؟”
“وہ ان لوگوں میں سے ہے۔ جن کا ظاہر تو بڑا چکاچوند کردینے والا ہوتا ہے لیکن باطن اس کے برعکس ہوتا ہے۔ وہ ایک ہٹ دھرم اور ضدی شخص ہے۔ وہ صرف توڑنا جانتا ہے۔ ٹوٹنا نہیں۔”
غنائم کا سفید چہرہ سرخ پڑنے لگا۔ اسے رہ رہ کر ضیغم کی بےاعتنائی اور اجنبی انداز کھولا رہا تھا۔ اس پر اس ساتھ اجنبی لڑکی؟ کتنی اپنائیت سے تھاما تھا ضیغم مصطفی نے اس کا ہاتھ۔
غنائم بےچین ہوئی۔
“میں اب بھی یہی کہوں گا۔ تمہارا اندازہ اس کے بارے میں غلط ثابت ہوگا۔”
شیخ نے سگار کی راکھ جھاڑی۔
“آپ اسے فیور کررہے ہیں؟”
غنائم چیں بہ چیں ہوئی تھی۔”
“میں ہرگز اسے فیور نہیں کررہا۔”
شیخ نے اس کے غصہ کا اثر لیے بغیر کہا۔
“جو میں نے سمجھا وہ بتارہا ہوں۔ اور میرا تجربہ تم سے بہتر ہے۔ڈئیر!”
اور ایک بار پھر سگار منہ میں لیا۔ اس کا نھنھا ساشعلہ بساط بھر سلگ کر چمک اٹھا۔
“اینڈ آئی ایم شیور!تم سے تعلق ختم کرنا اس کے لیے بھی آسان نہیں ہوگا۔”
غنائم کچھ نہ بولی۔ اس نے بمشکل اپنی آنکھوں کی مٹی نمی سے روک رکھی تھی۔
“تم واقعی اپ سیٹ ہو۔۔۔۔ اوکے! بتاؤ کیا ہوا ہے؟”
غنائم نے نم مگر تیز نگاہ شیخ پر ڈالی۔ اس دوران شیخ اس کے بولنے کا مںتظر رہا۔
“کل تک وہ میرے ساتھ تھا۔ اور آج ایک نئی لڑکی اس کے پہلو میں تھی۔”
شیخ نے باہر کی طرف نظر ڈالی۔ سیاہ چمکدار سڑک پر گاڑی تیز رفتاری سے منظروں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی گزر رہی تھی۔
“ٹھیک ہے! اب تم کیا چاہتی ہو؟”
“میں زندگی کی ایک آخری چوٹ لگانا چاہتی ہوں جو اسے ہمیشہ میری یاد دلاتی رہے۔ وہ کبھی مجھے بھول نہ سکے۔”
غنام کے اندر کی تپش اس کے چہرے پر رقم تھی۔ شیخ کے چہرے پر طمانیت بھری مسکراہٹ چھائی۔
“لیکن تمہیں میرے ساتھ ایک کمٹمنٹ کرنا ہوگی۔”
غنائم نے سوالیہ نظروں سے شیخ کی طرف دیکھا۔
“اس بار تم بیچ میں نہیں آؤ گی۔”
غنائم نے ایک لمحہ سوچا اور سر اثبات میں ہلا دیا۔ شیخ نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے سگار کو ایش ٹرے میں پورا مسل دیا۔
*************