ناصرؔ زیدی(راولپنڈی)
ہائے کیا لوگ میرے حلقہء احباب میں تھے
میں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا اور شاعری میں بھی خصوصاً غزل گوئی سے ۔ تاہم یہ بات ایک انکشاف ہی ہو گی کہ اپنی جو تحریر سب سے پہلے ناصرؔزیدی کے نام سے چھپوائی وہ میرا پہلا اور آخری افسانہ تھا جو ’’بیتے ہوئے کچھ دن۔۔۔‘‘ کے عنوان سے ماہنامہ’’گلِ خنداں ‘‘ لاہور کے افسانہ نمبر غالباً ۱۹۶۰ء میں چھپا۔ محترم المقام جناب پیام شاہجہا ن پوری اس ماہنامے کے مدیر اعزازی تھے۔ اعزازی اس لیے کہ دراصل وہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے مستقل ملازم تھے اور ہفت روزہ’’ حمایتِ اسلام‘‘ کے ایڈیٹر تھے ۔ بعد ازاں جنوری ۱۹۶۲ء سے دسمبر ۱۹۶۳ء تک میں ’’گلِ خنداں‘‘ کا معاون مدیر رہا۔! مجھے افسانہ پڑھنے کا چسکا اسکول کے زمانہ طالب علمی سے تھا، اس لیے اپنے اکلوتے افسانے کی اشاعت کے بعد بہ وجوہ افسانہ لکھنا ترک کیا، مگرپڑھنا نہ چھوڑ سکا اور یہ چاٹ آج تک لگی ہوئی ہے۔ شعر کہتا ہوں، افسانے پڑھتا ہوں اور بہت پڑھتا ہوں ، شاید ہی کسی دور کا کوئی افسانہ نگار ایسا ہو جس کا کوئی بھی افسانہ کبھی نہ پڑھا ہو، بعض افسانے تو بلا مبالغہ دسیوں بار پڑھے اور پڑھے ہوئے کو پھر سے پڑھ کر بھی لطف اندوز ہوا مگر سینکڑوں، ہزاروں میں ایسے افسانوں کی تعداد کم کم ہی ہے۔ ایسے ہی کم کم افسانوں میں، جنھیں بار بار پڑھ کر محظوظ ہوا، افسانہ ’’باجی ولایت‘‘ بھی ہے۔ اردو کا یہ شاہکار، نا قابلِ فراموش افسانہ آغا بابر کی تصنیف لطیف ہے۔ افسانے کا بنیادی موضوع عورت، جنس اور جذبات ہے۔ میرے بہت ہی عزیز و محترم نقاد دوست ڈاکٹر سلیم اختر نے آغا بابر کے بارے میں لکھا ہے:
’’آغا بابر نے پردے میں بیٹھی اور ڈھکی چھپی عورت کے جنسی معاملات سے خصوصی دلچسپی ظاہر کی ہے لیکن تمام عمر جنس پر لکھنے کے باوجود ان کے ہاں جنس کے بارے میں کسی گہرے شعور کا احساس نہیں ہوتا ۔ ’’!
اس مختصر سی رائے میں ’’لیکن‘‘ کے بعد کے جملے سے مجھے اتفاق نہیں۔ میرے عدم اتفاق کا سب سے بڑا اور منہ بولتا ثبوت افسانہ ’’ باجی ولایت‘‘ ہی ہے جو جنس کے بارے میں آغا بابر کے گہرے شعور کی غماز ی کرتا ہے۔ آغا بابر کے تمام تر افسانوں میں اردو کا صحیح استعمال بھی ملتا ہے اور زبان کا چٹخارا بھی۔ ان کا اپنا اندازِ تحریر ہے جو سب سے مختلف ہے، جداگانہ ہے، منفرد ہے۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں بجا طور پر، فخریہ انداز میں کہا تھا:
’’میں پنجابی ہوں، اہلِ زبان نہ ہونے کے باوجود، اردو زبان دان ہوں، مجھے فخر ہے کہ میں معیاری اردو بولتا اور لکھتا ہوں۔ آج اردو سے مذاق کیا جا رہا ہے ۔ اب ہم زبان سیکھنے پر محنت نہیں کرتے اسی لیے اعلیٰ اور معیاری اردو دیکھنے کو نہیں ملتی‘‘!(روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ لاہور، ۳فروری ۱۹۹۳ء)
اپنے اسی انٹرویو میں ، انہوں نے پاکستانی افسانے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا:
’’ پاکستانی افسانے، امریکی، برطانوی افسانے کے مقابلے میں بہتر اور معیاری ہیں اور پاکستانی افسانوں کا انگریزی ترجمہ کر کے ان کو بین الاقوامی سطح پر منوایا جا سکتا ہے۔ ! ‘‘
یہ بات آغا بابر نے ہوا میں نہیں کر دی تھی۔ ان کا برطانوی اور امریکی لٹریچر کا مطالعہ خاصا وسیع تھا۔ پاکستان میں جب تک وہ رہے ، میں نے اکثر ملاقاتوں میں انہیں انگریزی زبان کی کتابیں پڑھتے دیکھا ۔ لکھتے اردو تھے۔ پڑھتے انگریزی تھے اور بولتے پنجابی تھے۔ مدتوں سے امریکہ میں جا بسے تھے اور یوں امریکی ادب پڑھنے ، سننے کے ساتھ ساتھ وہاں کے معاشرے کو برتا بھی تھا۔ وہ جب بھی پاکستان آتے ان سے لاہور یا اسلام آباد میں کہیں نہ کہیں ملاقات ضرور رہتی، بعض ملاقاتوں میں صرف وہ ہوتے اور میں ۔، اور شعر و ادب کی باتیں۔!
آغابابر آخری بار جب پاکستان آئے تو اسلام آباد کی ایک تقریب میں وہ نئی وگ لگائے ہوئے ایک سمارٹ سے نوجوان کے روپ میں کسی معزز خاتون سے مصروف گفتگو ملے ، میں نے حسب معمول بے تکلفانہ سلام عرض کیا، انہوں نے سلام کا جواب،رواروی میں رسماً سا دیا اور میری طرف کوئی خاص توجہ دئیے بغیرکان میں آلۂ سماعت دبائے، خاتونِ محترم سے ہمہ تن گوش، مصروف گفتگو رہے۔ مجھے سخت دھچکا لگا۔ میری ، ان سے عمروں کے تفاوت کے باوجود ، بے پناہ بے تکلفی تھی اور ہم ’’گفتہ و نا گفتہ‘‘ باتوں کے بھی عادی تھے۔ ’’یا اللہ! یہ آغابابر کو نئی وِگ‘‘لگا کر کیا ہو گیا ہے؟‘‘ ۔ اسی بدگمانی کے سبب میں تقریب ختم ہوتے ہی، ان سے ملے بغیر چلا آیا اور انہیں اپنی نئی مرتب کردہ کتاب’’اردو کے نا قابلِ فراموش افسانے‘‘ بھی نہ دی، جو میں خاص طور پر ان کے لیے دستخط کر کے لے کر گیا تھا کہ اس میں ان کا بھی ناقابلِ فراموش افسانہ ’’باجی ولایت‘‘ شامل ہے۔ بعد ازاں یہ کتاب محبِ عزیز خاور نقوی کے ہاتھ بھجوائی اور تمام اَن ہونی داستان سنا کرتاکید کی کہ وہ آغابابر صاحب کو جتلادیں کہ ان کے سر د مہرانہ رویے سے میرے دل پر سخت چوٹ لگی ہے ۔ خاور نقوی نے بلا کم و کاست آغا بابر صاحب کو میری رنجش کا پیام، زبانی یا تحریری پہنچا دیا۔ کچھ ہی دنوں بعد امریکہ سے آغا بابر کا دو صفحوں کا خط برادرم خاور نقوی کی معرفت ہی مجھ تک پہنچا۔ خط پڑھ کر میں پانی پانی ہو گیا۔ اس سے ایک سبق ہمیشہ کے لیے ملا کہ بدگمان ہونے سے پہلے حقائق جان لیے جائیں تو بہت سے رشتے ٹوٹنے سے بچ سکتے ہیں۔ اب ملا حظہ ہو آغابابر کا آ خری خط امریکہ سے:
۲۹جون۱۹۹۴ء
میرے پیارے ناصر زیدی ! سلامت باشد
مجھ سے چوک ہوئی، بھول ہوئی،جو آپ کو میرے متعلق غلط فہمی ہوئی۔ میرے عزیزم میرے بھیا، میری سوانح میں جو ’’نقوش‘‘ میں ’’خدوخال‘‘ کے نام سے چھپ رہی ہے ۔ بٹالے کے ایک بزرگ خانوادے کا ذکر تھا، اس خانوادے کے ایک رکن مجھ کو کچھ معلومات دے رہے تھے اور اپنی بیوی کو مجھ سے ملانے کو لائے تھے ، وہ بھی میری معلومات میں اضافہ کر رہی تھیں۔ آپ رنجیدہ خاطر ہوئے۔ مجھے اس کا دکھ ہے۔ معافی مانگتا ہوں۔ معاف کر دو !
جانے بھی دو مان بھی جاؤ چھوڑو بھی اب پچھلی باتیں
ایسے دن آتے ہیں کب اور کب آتی ہیں ایسی راتیں
[تاثیر کی ایک نظم کی یہ ابتداہے]۔
ہماری تو بہت چہلیں ہوا کرتی تھیں۔ مجھے تم سے، ۔ ’’L “INTELLECTUA گدگدیاں‘‘ کر کے بڑا لطف آیا کرتا تھا۔ کاش! اب بھی آتا ۔ تمہارا شعر جو مجھے حمید اعظمی نے لکھ کر بھیجا تھا، ابھی تک یاد ہے۔
نغمہ و عیش وطرب یاد آئے آغا یاد آئے تو سب یاد آئی
مجھے بہت افسوس ہے کہ میری ناخواہی میں تم جیسا عزیز دوست مجھ سے رنجیدہ ہو جائے۔ بس جانے دو ، ہاتھ بڑھاؤ اور گلے ملو۔ اب کے آیا تو خاور (نقوی) صاحب کو لے کر تمہارے مکان پر معافی نامہ ساتھ لے کر آؤں گا۔
تمہاری بیوی صبا حت کا کیا حال ہے؟ کتنے بچوں کا منہ دھوتی ہے۔ مہینے میں تم اس سے کتنی بار لڑتے ہو؟ وہ کتنی بار لڑتی ہے؟۔۔۔ ہم تم تو اس قسم کی چہل بازی کیا کرتے تھے۔یاد ہے کہ نہیں؟ آغا ایسے تو یاد نہیں آتا۔ میری جان! تیرے شعر سننے کو جی چاہتا ہے۔ اب کے آیا تو ’’ ہانڈی والے تنور (۱سلام آباد ، بلیو ایریا میں ایک جدید ہوٹل ،’’ولِج‘‘ نام کا ، قدیم تہذیب لیے بہت چلا تھا، پھر بند ہو گیا۔ وہاں آغا بابر سے ایک طویل، ملاقات، صرف ہم دو کی نشست کی صورت میں ، لالٹینوں کی روشنی میں یاد گار رہی سرسوں کا ساگ اور وہ بھی مٹی کی ہانڈی میں پکا ہوا، مکئی کی روٹی اور مکھن کے ساتھ کھایا گیا تھا ۔ شعرو شاعری کے ساتھ ساتھ!) پر بیٹھ کر غپ ہو گی اور پیٹ بھر کر تیرے اشعار سنوں گا۔ !
کچھ افسانے ایسے اکھٹے کرو جو چیدہ چیدہ افسانہ نگاروں نے تقسیم ہند سے متاثر ہو کر لکھے تھے۔ بیس(۲۰) پچیس(۲۵) ہو جائیں گے یا زیادہ [فی کس دو افسانے لے لو] ۔ ایک تاریخ دان جس کا پتا اب نہیں بتاتا، پھر بتاؤں گا، جو میری جیب میں ہے۔ اس سے یہ دیباچہ لکھوایا جائے کہ ایسی تقسیم دنیا بھر کی تاریخ میں نہیں ہوئی، جیسی یہ تقسیم تھی، یہ کتاب کوئی بھی ناشرِ قبول کرے گا۔ کیا خیال ہے ؟
آغا بابر17 7White Plams Road, Tarry Town -NY 1059 1(USA)
عظیم شخصیت کے حامل ، عظیم افسانہ نگار، آغا بابر کا اپنے نام یہ آخری خط پڑھتے ہوئے میں باقاعدہ آنسوؤں سے رویا ہوں! ہائے کیا لوگ تھے؟ کہاں سے لاؤں میں اب ان جیسی ہستی کو؟ کاش! میں اس خط کا جواب بر وقت دسے سکتا اور اپنی بدگمانی کی تہہ دل سے معافی مانگ سکتا ۔ انہوں نے ان ہوئی بات پر مجھ جیسے ہر لحاظ سے خورد سے معافی مانگ کر مجھے زندہ درگور کر دیا اور خود آسودہء خاک ہو گئے۔ ایسے بڑے لوگ اب کس طرح، کسی کو دیکھنے کو ملیں گے۔ کتابوں میں تذکرے ہی شاید رہ جائیں۔!!************
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاکہ نگاری میں اکبر حمیدی نے اپنے سوانحی واقعات اور خاندانی و ذاتی تعلقات کے حوالے سے ایک انشائی اور افسانوی لب ولہجہ اختیار کیا ہے۔ یو ں یہ خاکے، انتہائی ذاتی ہوتے ہوئے بھی بہترین ادب پارے قرار دئیے جا سکتے ہیں۔ خاص طور پر میاں جی، اباجی، بے بے جی اور عظیم یعنی خورشید بیگم کے خاکے جیتے جاگتے انسانوں کی سچی، انمول اور دلکش تصویریں ہیں، اور انہیں پڑھتے ہوئے قاری خاکوں اور کرداروں کی فضا میں داخل ہو جاتا ہے۔ جبکہ اکبر حمیدی کے بہت سے ناقدین نے اہل قلم پر لکھے گئے خاکوں میں اس شدت احساس اور فنی رچاؤ کا شکوہ کیا ہے، دراصل خاکہ لکھتے ہوئے اکبر حمیدی جس جذباتی لگاوٹ کا اظہار خاندانی افراد کے حوالے سے روا رکھتے ہیں، وہ شاید اہل قلم کے معاملے میں انہیں میسر نہیں ، یہی وجہ ہے کہ یہ خاکے احساس اور کیفیت کی سطح پر اتر کر قاری کو گرفت میں نہیں لیتے۔ پھر بھی ان کی انشائیوں کی دونوں کتابوں، قدآدم ، اور ، چھوٹی دنیا بڑے لوگ، میں موجود چند ایک خاکے تو ایسے ہیں جو انھیں خاکے جیسی اہم صنف سخن میں ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔********
اکبر حمیدی کی خود نوشت، جست بھر زندگی، ایک محتاط شخص کے سچ کی روداد ہے۔ جس نے قدم قدم ، طویل اور ناہموار، رستے عزم وہمت سے طے کئے ہیں۔ یہ متوسط طبقے کے ایک باشعور شخص کی داستان ہے، جسے دعویٰ ہے کہ ، عام آدمی ، کی روداد بیان کر رہا ہے ۔ اکبر حمیدی کی یہ آپ بیتی ، ہمیں سماجی روابط، رشتوں ناتوں ، سماجی اور معاشی رکاوٹوں اور کامیابیوں کی چلتی پھرتی تصویریں دکھاتی چلی جاتی ہے۔ کہیں کہیں انھوں نے اپنی ذاتی نفسی کمزوریوں کو بھی نشان زد کیا ہے اور اپنے بارے میں کسی قسم کی مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا ۔ اس آپ بیتی میں انھوں نے لا یعنی واقعات اور معاملات سے بھی اجتناب کیا ہے۔
(مضمون اکبر حمیدی کا فن ا ز خلیق الرحمن سے اقتباس)