ﭘﮭﺮ ﭨﮭﯿﮏ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ ﺍﺳﮑﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﻧﺎﮎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔۔
ﯾﺲ ﮐﻢ ﺍﻥ۔۔
ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻟﺘﮯ ﮨﯽ ﺛﻨﺎﺀ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮئی ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺑﮭﺎﮒ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﮔﻠﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﻢ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﯿﻮﮞ ﭼﮭﭗ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮨﻮ ﺁﺝ ﺍﺭﮮ ﺍﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺭﺷﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ ﺟﺐ ﻻﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﺐ ﺑﮩﺖ ﺷﻮﻕ ﺳﮯ ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﭼﮭﭗ ﮐﺮ۔۔
ﺛﻨﺎﺀ ﺑﺪﺗﻤﯿﺰ ﺗﻢ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﺪﮬﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﮞ ﺗﻢ ﮐﯿﻮﮞ ﻣﯿﺮﺍ ﺭﺷﺘﮧ ﻟﯿﻨﮯ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺲ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ؟
ﺍﭼﮭﺎﺍﺍﺍﺍ ﺗﻮ ﺟﻨﺎﺏ ﮐﻮ ﭘﺘﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ؟
ﻧﮩﯿﮟ۔۔
ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺑﮭﺎﺉ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ۔۔
ﺩﻓﻌﮧ۔۔ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮐﮭﮍﻭﺱ ﺑﮭﺎﺉ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔۔
ﺁﻑ ﮐﻮﺭﺱ ﺗﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ۔۔
ﮨﻨﮩﮧ ۔۔ﭘﺴﻨﺪ۔۔
ﺍﯾﺴﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﮭﮍﻭﺳﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ؟
ﯾﺎﺭ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﮨﯽ ﺑﻮﻝ ﺩﻭ۔۔
ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﺱ ﮨﯿﺮﻭ ﺑﮭﺎﺉ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ۔۔
ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ۔۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﻣﺤﺒﺖ ۔۔
ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺗﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ؟
ﮐﯿﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ؟
ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺑﮩﺖ ﺑﮯ ﺗﺎﺏ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ؟
ﺛﻨﺎﺀ ﮐﯽ ﺑﭽﯽ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﻮﺉ ﺍﯾﺴﯽ ﻭﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﻧﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮔﻼ ﺩﺑﺎ ﺩﻭﮞ ﮔﯽ۔۔
ﯾﻘﯿﻦ ﻣﺎﻧﻮ ﻗﺴﻢ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯿﮟ ﺑﻮﻟﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔۔
ﺍﻭﺭ ﺍﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺵ ﮔﭙﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺗﮭﯿﮟ ﺟﺐ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺳﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﻧﺎﮎ ﮨﻮﺍ۔۔
ﺍﻑ ﺍﻭﮦ۔۔ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﺏ ۔۔ﯾﺲ ﮐﻢ ﺍﻥ۔۔
ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺍﺳﮑﯽ ﺑﮯ ﺗﺎﺏ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﻣﮩﺮﻣﺎﮦ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺗﮭﻢ ﮔﺊ ﺗﮭﯿﮟ۔۔
ﻭﮦ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻟﮓ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﻭﮦ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﻓﺎﺭﻣﻞ ﮈﺭﯾﺴﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﮐﭽﮫ ﺗﮭﮑﺎ ﺗﮭﮑﺎ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺍﺳﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﭘﺮﮐﺸﺶ ﺑﻨﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮦ ﺁﻓﺲ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﺑﮭﺎﺉ ﺁﭖ ﮐﺲ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉﺗﮯ ﭘﮭﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺁ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔۔
ﺛﻨﺎﺀ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯽ ﻭﮦ ﺟﻮ ﮐﺐ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﻣﺮﮐﺰ ﻣﮩﺮﻣﺎﮦ ﮐﻮ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﺎ ﺧﺠﻞ ﺳﺎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔۔
ﺍﻭﺭ ﻓﻮﺭﻥ ﺳﻨﺒﮭﻠﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻻ۔۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺲ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﻣﻤﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﭙﮭﻮ ﻧﮯ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﻼﻧﮯ ﺍﮔﺮ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﮔﺊ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﺎﮨﺮ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﺁﺋﯿﮟ۔۔
وہ ابھی تک وہی کھڑا تھا اور اسے یوں کھڑا دیکھ کر ثناء بولی تھی۔۔
ہارون بھائ کیا ساتھ ہی لے جانے کا ارادہ ہے؟
کیا مطلب؟
مہرماہ اور ہارون دونوں ایک ساتھ بولے تھے۔۔
میں تو یہ پوچھ رہی تھی کہ ہارون بھائ آپ مجھے اور مہرماہ کو اپنے ساتھ ہی لے کر جائیں گے کیونکہ آپ ابھی تک یہیں جو کھڑے تھے۔۔
مگر آپ دونوں نے تو یوں ہڑبڑا کر مطلب پوچھا جیسے میں صرف آپ دونوں کے متعلق ہی کوئ بات کر رہی ہوں۔۔
مہرماہ کا دل چاہا تھا کہ وہ ابھی ثناء کا گلا دبا دے مگر وہ یہ کہتے ہی کمرے سے باہر نکل گئ تھی اور پھر ہارون بھی وہیں کھڑا تھا اس لئے وہ کچھ بھی نا کر سکی اور خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گئ۔۔
اب وہ دونوں ساتھ چلتے چلتے ڈائننگ ہال میں آ گئے تھے جہاں کھانا لگایا جا رہا تھا اور باقی سب اپنی خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔
انہیں آتا دیکھتے ہی ثناء چہکی تھی ویسے آپ دونوں ساتھ میں بہت اچھے لگتے ہیں وہ اتنی آواز میں بولی تھی کہ اسکی بات صرف وہ دونوں ہی سن پائے تھے۔۔
کیا مطلب ہے اس بات کا ثناء؟ مہرماہ نے اسے گھرکا تھا جبکہ یہ سنتے ہی ہارون جہانزیب کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی تھی۔
ارے میرا مطلب آپ دونوں ہی بہت خوبصورت ہیں اور آپ دونوں کی ہائیٹ ہیلتھ ایک دوسرے کے ساتھ پرفیکٹ میچ ہے آپکا یو نو وٹ میڈ فار ایچ ادر مطلب ایسی فیلنگز آتی ہیں آپ دونوں کو دیکھ کر اپنی بات مکمل کر کے وہ جا چکی تھی۔۔
اور مہرماہ بھی خاموشی سے بنا اسے دیکھے آگے بڑھ گئ تھی
اور پھر ایک خوشگوار موڈ میں رات کا کھانا کھایاگیا تھا
وہ سبھی بہت خوش تھے کہ آج بہت عرصے بعد وہ یوں مل کر بیٹھے تھے مگر سفیان اور نائلہ کو عالیہ کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی تھی جو اپنی شادی کے بعد دبئ میں سیٹل ہو گئ تھی۔
اور وقار فاطمہ کی کمی کو شدت سے محسوس کر رہا تھا جو اپنے شوہر وقار کے دوست علی کے ساتھ لندن میں رہائش پذیر تھی۔۔
لیکن پھر بھی وہ اسے کبھی بھولا نہیں تھا وہ دونوں تقریبن روز ہی ایک دوسرے سے سکائپ پر بات کرتے تھے اور مہرماہ بھی اس سے انجان نا تھی۔۔
جب سب کھانا کھا چکے تو وہ باہر لان میں آ کر بیٹھ گئے جہاں پر لان کی چئیرز اور ٹیبل کے علاوہ کچھ صوفے لگا کر یہاں پہ سب کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔۔
یہ پلین مہرماہ کا تھا اور وہ اپنے بابا کا بازو تھامے انکے ساتھ ساتھ یہاں آئ تھی۔۔
باقی سب بھی اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے۔۔
مگر سبھی اس بات سے انجان تھے کہ یہاں کیا ہونے والا ہے۔۔
مہرماہ نے نائلہ اور وقار کو ٹو سٹر صوفے پر اکٹھا بٹھایا تھا اور ان کے ساتھ ہی ایک اور ٹو سٹر صوفہ لگایا گیا تھا جس پر سفیان اور عاصمہ بیٹھے تھے۔۔
ایک اور ٹو سٹر صوفہ عارفہ اور عاصمہ بیگم کے لئے رکھا گیا تھا جس پر وہ براجمان ہو گئیں تھیں اور ان کے قریب ہی لان کے ٹیبل کے گرد رکھی گئ چئیر کھینچ کر مہرماہ بیٹھ گئ تھی۔۔
اور ہارون اور ثناء کے لئے بھی شکیلہ نے چئیرز کھینچ کر اس دائرے کے گرد رکھتے ہوئے یہ دائرہ مکمل کر دیا تھا مہرماہ کے ساتھ والی چئیر پر ثناء اور ثناء کے ساتھ والی چئیر پر ہارون جہانزیب نے اپنی نشست سنبھال لی تھی۔۔
اوکے تو آج ہم سب بہت عرصے بعد اکٹھے ہوئے ہیں اسی لئے میں نے سوچا کہ کیوں نا کچھ ہلا گلا کیا جائے آئ مین کوئ گیم وغیرہ۔۔
ارے بیٹا اس عمر میں ہم کونسی گیم کھیلیں گے؟عارفہ بیگم بولی تھیں ۔
ڈونٹ وری گرینی گیم بیٹھ کر ہی کھیلنے والی ہے اور پلیز اب آپ میں سے کوئ انکار نہیں کرے گا پلیز نا۔۔
مہرماہ نے ایسا کہتے ہوئے اتنا معصومانہ منہ بنایا تھا کہ وہاں بیٹھے سبھی افراد کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئ تھی اور سبھی نے اسکی اس انجان گیم کے لئے ہامی بھر لی تھی۔۔
لیکن آخر یہ ایسی کونسی گیم ہے مہرماہ بیٹے؟اب وقار احمد نے سوال کیا تھا۔۔
اوکے تو مائ ڈئیر فیملی ممبرز گیم یہ ہے کہ میں ٹیبل پر ایک بوٹل گھماوں گی اور اس بوٹل کا منہ جس کے سامنے بھی آ کر رکے گا اسے یا تو کوئ بھی اپنا من پسند گانا گانا ہو گا یا پھر کوئ شعر سنانا ہو گا۔۔
لو جی اب ہم اس عمر میں گانے گاتے اچھے لگیں گے؟ساجدہ بیگم بولی تھیں۔۔
اور مجھے تو کوئ شعر بھی نہیں آتا۔۔یہ عارفہ بیگم بولی تھی۔۔
اوہو گرینی اور نانو آپ دونوں کوئ نصیحت ہی کر دیجئے گا بس اب تو خوش ہو جائیں۔۔
اور مہرماہ کی اس بات پر سب ہنس دئیے تھے اوکے تو پھر میں بوٹل گھماوں؟مہرماہ نے پوچھا تھا۔۔
نہیں بئی بوٹل میں گھماوں گی۔۔ثناء بولی تھی۔۔
اچھا لو تم گھما لو کر لو اپنا شوق پورا۔۔
لیکن اس سے پہلے میں ایک بات اور ایڈ کرنا چاہتا ہوں۔۔ہارون جہانزیب بولا تھا۔۔
وہ یہ کہ سب کی صرف ایک ایک ٹرن ہی ہو گی اگر یہ بوٹل دوسری دفعہ پھر اسی کے سامنے رکی جو آل ریڈی اپنا گانا یا شعر سنا چکا ہو گا وہ دوبارہ نہیں سنائے گا اوکے؟
اوکے مہرماہ اور ثناء نے باآواز بولا تھا جبکہ باقی سب نے صرف سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا تھا۔۔
اوکے تو بی ریڈی میں بوٹل گھما رہی ہوں اور بوٹل گھومتے گھومتے ثناء پر ہی آ کر رکی تھی اور مہرماہ یہ دیکھتے ہی قہقہ لگا کے ہنسی تھی۔۔
ہاں تو اس میں اتنا ہنسنے والی کیا بات ہے؟
کچھ نہیں بس ویسے ہی یہ چھوڑو تم یہ بتاو کہ ہماری خدمت میں گانا پیش کر رہی ہو یا پھر کوئ شعر۔۔
نہیں بئ میں کیوں ابھی سے شاعرہ بننے لگی میں تو گانا سناوں گی۔۔
اور پھر اپنا گلا صاف کرنے کے بعد اس نے گانا شروع کر دیا تھا۔۔
“دل کی لگی کچھ اور بھی دل کو دیوانہ کرے
میری التجا ہے۔۔
خدا سے یہ دعا ہے۔۔
کہ دو دل جدا نا کرے۔۔
دل کی لگی کچھ اور بھی دل کو دیوانہ کرے۔۔”
اور اسکا گانا ختم ہوتے ہی سب نے تالیاں بجائ تھیں۔۔
اور اس کے بعد ایک بار پھر ثناء نے بوتل گھمائ تھی جو عارفہ بیگم پر آ کر رکی تھی۔۔
ارے یہ کیا اب میں کیا سناوں؟
گرینی پلیز نا آپ کچھ بھی سنا دیں بئ کوئ اقوال زریں ہی سنا دیں۔۔
اچھا تو پھر سنو۔۔
عارفہ بیگم نے وقار احمد اور نائلہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہنا شروع کیا تھا۔۔
“بعض لوگوں کے پاس بے پناہ الفاظ اور خیالات کا ذخیرہ ہوتا ہے پھر بھی وہ خاموش ہی رہتے ہیں کیونکہ ان کو بحث کرنا نہیں آتا۔
وہ ہر درد کا جواب خاموش مسکراہٹ اور معمولی آنسووں سے دیتے ہیں وہ بظاہر خوش نظر آتے ہیں مگر وہ زندگی سے لڑ رہے ہوتے ہیں اور وہ ان رویوں سے لڑ رہے ہوتے ہیں جو ناقابل یقین ہوتے ہیں”
وقار نے عارفہ بیگم کی یہ بات سننے کے بعد اپنی نظریں جھکا لی تھیں وہ جانتا تھا کہ یہ سب انہوں نے نائلہ کے متعلق کہا تھا۔۔
اور پھر عارفہ بیگم کے خاموش ہونے کے بعد سب نے تالیاں بجائ تھیں۔۔
واو گرینی مجھے تو لگتا ہے کہ آج کی ونر آپ ہی بنیں گیں۔۔
بیٹا کچھ فیصلے اتنے قبل از وقت نہیں کرنے چاہئے وقار احمد نے جواب دیا تھا۔۔
اوہ بابا جان تو آپ ونر بننے کے چکر میں ہیں؟
نہیں میں نے ایسا تو نہیں کہا۔۔
اوکے اب گیم دوبارہ شروع کرتے ہیں۔۔
ثناء نے ایک دفعہ پھر سے بوٹل گھما دی تھی جو عاصمہ کی طرف جا کر رکی تھی۔۔
اوکے میں بھی شعر ہی سناوں گی۔۔
نو مما پلیز گانا سنائیں نا تا کہ مجھے بھی سمجھ آئے کچھ۔۔
کوئ بات نہیں تمہیں میں سمجھا دوں گی ثناء ۔۔مہرماہ نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔
یہ شعر میرے ہمسفر سفیان طارق کے نام۔۔یہ کہتے ہوئے عاصمہ نے اپنا شعر سنانا شروع کیا تھا۔۔
“سنو اک کام کرنا چاند سے کچھ مٹی لانا۔
اس سے تم پیار کے دو مجسمے بنانا۔۔
اک تم جیسا۔۔
اک مجھ جیسا۔۔
پھر ان کو توڑ دینا۔۔
پھر ان سے دو اور بنانا۔۔
اک تم جیسا۔۔
اک مجھ جیسا۔۔
تاکہ تم میں کچھ میں رہ جاوں۔۔
اور مجھ میں کچھ تم رہ جاو۔۔”
عاصمہ کی آواز کا سحر ٹوٹتے ہی سب نے تالیاں بجا کر اسے داد دی تھی۔۔
ہممم تو آج کی محفل سب کے دل کی باتیں جاننے کے لئے موزوں ہے کیوں بھائ؟
ثناء نے مہرماہ اور ہارون کے درمیان بیٹھے ہوئے سرگوشی کی تھی۔۔
اور اس بات پر ان دونوں نے ہی اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا ۔
اور ثناء نے انہیں دیکھتے ہوئے اچھے بچوں کی طرح اپنے منہ پر انگلی رکھ کر ایک دفعہ پھر سے بوٹل گھما دی تھی جو اب کی بار ہارون جہانزیب پر جا کر رکی تھی۔۔
بھائ پلیز پلیز پلیز گانا گائیے گا آپ بھی اب شعر مت سنانے بیٹھ جائیے گا ورنہ آئی سویر میں یہیں سو جاوں گی۔۔
اوکے میری پیاری بہن چلو تمہارے لئے ایک عدد گانا ہی گا دیتے ہیں ۔۔
ہارون نے ثناء سے یہ کہتے ہوئے مہرماہ کی جانب دیکھا تھا۔۔
اور پھر گنگنانا شروع کر دیا تھا۔۔
“مجھے رات دن بس مجھے چاہتی ہو۔۔
ہاں مجھ کو یہ پتا ہے۔۔
چھپاتی ہو مجھ سے یہ تمہاری خطا ہے۔۔
مجھے رات دن بس مجھے چاہتی ہو۔۔”
اسکا گانا سنتے ہی مہرماہ نظریں چرا گئ تھی۔۔
اور باقی سب نے ایک بار پھر سے پہلے کی طرح تالیوں سے اسے داد دی تھی جن میں سے سب سے زیادہ پرجوش ثناء کی تالیوں کی گونج تھی۔۔
اب ایک بار پھر بوٹل گھومی تھی جو نائلہ پر جا رکی تھی۔۔
یس آپی اب آپ بھی بابا جانی کے لئے ممانی کہ طرح کوئ رومینٹک سا شعر کہیں۔۔
وہ بیٹا مجھے کوئ شعر یاد ہی نہیں۔۔
آپی پلیز نا ڈونٹ ڈو دس پلیز سے سمتھنگ نا ایٹ لیسٹ فار می؟
اوکے پھر مجھے ایک ہی غزل یاد ہے میں وہی سنا دیتی ہوں مگر وہ تمہارے بابا جان کے لئے نہیں ہو سکتی کیونکہ رومینٹک نہیں ہے۔۔
مزہ تو نہیں آئے گا لیکن چلیں کوئ بات نہیں آپ سنائیں۔۔
اور پھر نائلہ نے اپنے دل کے حال کو اس غزل کی صورت میں بیان کرنے کی کوشش کی تھی۔۔
“کیسی میں ہمسفر تمہاری ہوں؟
ساتھ ہوں منتظر تمہاری ہوں۔۔
مجھ سے پوچھا میرا تعارف جو۔۔
کہہ دیا مختصر۔۔
تمہاری ہوں۔۔
ہو سکے تم نا میرے پل کے لئے۔۔
اور میں عمر بھر تمہاری ہوں۔۔
خود جو ٹوٹی تجھے بنانے میں۔۔
میں وہی کوزہ گر تمہاری ہوں۔۔
سایہ میرا تو میرے بس میں نہیں۔۔
پر ہے وعدہ۔۔
شجر تمہاری ہوں۔۔
ہم کو منظور ہر قیامت ہے۔۔
تو جو کہہ دے اگر۔۔
تمہارا ہوں۔۔
روک رکھا ہے اک صحرا نے۔۔
ضد کرے میں ہی گھر تمہارا ہوں ۔۔
تم تو اس کے ہو گئے۔۔
اور میں بے خبر تمہاری ہوں۔۔”
یہ بات وہاں بیٹھے کچھ نفوس بخوبی جانتے تھے کہ یہ محض الفاظ نہیں بلکہ نائلہ کے احساسات ہیں جو اس نے اس غزل کیصورت میں اپنے ہمسفر وقار احمد تک پنہچائے تھے۔۔
اور جو ان الفاظ کی حقیقت نہیں جانتے تھے انہیں بھی اس میں سچائی کی کچھ بو سی محسوس ہوئ تھی۔۔
اور پھر شاید مہرماہ نے خود کو جھوٹی تسلی دینے کی خاطر نائلہ سے پوچھا تھا۔۔
آپی یہ آپ نے۔۔
اور مہرماہ کا سوال پورا ہونے سے پہلے ہی اسکے چہرے کے تاثرات بھانپتے ہوئے نائلہ نے جواب دیا تھا۔۔
میری جان مجھے بس ایک یہی یاد تھا لیکن تمہارے بابا کی محبت میں تو کوئ اور شعر ہی بنتا تھا۔۔
پر خیر تم تو جانتی ہو نا ہماری محبت کو؟ تو پھر ان شعروں کی کیا ضرورت اس نے اس کمال مہارت سے یہ جھوٹ گھڑا تھا کہ وقار اسے سر اٹھا کر دیکھے بنا نا رہ سکا۔۔
اور وہ سوچ رہا تھا کہ آخر مجھے دکھ و شرمندگی سے بچانے کے لئے اور کتنے جھوٹ بولو گی نائلہ اسے ایک بار پھر وہی نو سال کی نائلہ یاد آ گئ تھی جس نے پہلے رو رو کر سب کو اکٹھا کر لیا تھا اور پھر وقار کو دکھ اور شرمندگی سے بچانے کے لئے کمال مہارت کے ساتھ اپنی زندگی کا پہلا جھوٹ گھڑا تھا۔۔
اس پل بھی اسے اس میں وہی نو سالہ نائلہ کی جھلک نظر آ رہی تھی۔۔
اور ثناء نے ایک بار پھر بوٹل گھما دی تھی جو اب ساجدہ بیگم پر جا کر رکی تھی۔۔
اف پھر سے کوئ نصیحت ثناء اس بار بھی کمنٹ پاس کئے بغیر نا رہ سکی تھی۔۔
جبکہ اس کے پاس بیٹھی مہرماہ نے اسے آنکھیں نکالی تھیں۔۔
جی نانو آپ اب کوئ اچھی سی بات سنائیں مہرماہ نے مسکراتے ہوئے ساجدہ بیگم کو کہا تھا جس کے جواب میں انہوں نے مہرماہ سے کہا تھا کہ بیٹا تھورے اداب اپنی سہیلی کو بھی سکھا دو انکا اشارہ بلاشبہ ثناء کی جانب تھا۔۔
اور اس بات پر سبھی ہنس دئے تھے جبکہ ثناء نے برا سا منہ بنا لیا تھا۔۔
اچھا تو میں تمہیں ایک حدیث سناتی ہوں۔۔
“اپنے سے کم تر کی طرف دیکھو اور اپنے سے اوپر والے کی طرف نا دیکھو ، ایسا کرنے سے تم اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کو حقیر نہیں سمجھو گے”
واو نانو یو آر گریٹ آپ نے تو سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔۔
اس بات پر تالیاں نہیں بلکہ سبحان اللہ کہنا چاہئے اور پھر سب نے مہرماہ کو فالو کرتے ہوئے سبحان اللہ بولا تھا۔۔
اور ثناء نے ایک بار پھر سے بوٹل گھما دی تھی جو اب مہرماہ کی جانب آ کر رکی تھی۔۔
اور ثناء نے خوشی سے نعرہ لگایا تھا اوہ یسسسسسسسسس۔۔
میں۔۔امم میں شعر ہی سناوں گی کیونکہ مجھے کوئ بھی گانا نہیں آتا۔۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے مہرماہ مجھے نہیں پتا تم گانا ہی سناو گی۔۔
سچ میں مجھے نہیں آتا۔۔
تو پھر جو مرضی کرو لیکن تم نے یہ انتہائ بورنگ گیم پلین کی ہے۔۔
نہیں ایسا تو نہیں ہے ثناء گیم تو بہت اچھی ہے وہ الگ بات ہے کہ تمہاری عقل تھوڑی کم ہے۔۔جو تم کچھ بھی سمجھ نہیں پا رہی۔۔
ہارون بھائ اس نے ہارون کی اس بات پر منہ پھلا لیا تھا۔۔
اچھا اب اپنی یہ ڈرامے بازیاں بند کرو تا کہ ہم مہرماہ کو بھی سنے کہ وہ کیا سنانا چاہتی ہے چلو بیٹا تم سناو اب عاصمہ بولی تھی۔۔
اور پھر مہرماہ نے اپنی مسحور کن آواز میں شعر پڑھنا شروع کیا تھا۔
“بہت آسان ہے کہنا۔۔۔
محبت تم سے کرتے ہیں!!!
مگر ،،،
مطلب محبت کا سمجھ لینا نہیں آسان۔۔۔
محبت پا کے کھو دینا !!!
محبت کھو کے پا لینا۔۔۔
یہ ان لوگوں کے قصے ہیں !!!
محبت کے جو مجرم ہیں۔۔۔
جو مل جانے پہ ہنستے ہیں !!!
بچھڑ جانے پہ روتے ہیں۔۔۔
مگر سن لو زرا تم بھی !!!
محبت کرنے والے تو بہت خاموش ہوتے ہیں۔۔۔
جو قربت میں بھی جیتے ہیں !!!
جو فرقت میں بھی جیتے ہیں۔۔۔
نہ وہ فریاد کرتے ہیں!!!
نہ وہ اشکوں کو پیتے ہیں۔۔۔
بہت آسان ہے کہنا!!!
محبت تم سے کرتے ہیں۔۔۔”
اس نے ہارون کے گائے گئے گانے کا جواب بخوبی دے دیا تھا۔۔
اوکے تو اب صرف ڈیڈی اور وقار انکل رہ گئے ہیں دیکھتے ہیں کہ کس پر جا کے یہ بوٹل رکتی ہے؟
اور اب کی بار بوٹل سفیان پہ رکی تھی۔۔
اچھا جی میری بیگم نے تو میرے لئے کچھ اشعار کہے تھے مگر اب چونکہ میری پیاری بیٹی بہت بور ہو گئی ہے تو اس لئے میں اپنی بیگم کے لئے ایک گانا گا دیتا ہوں۔۔
“آ کہیں دور چلے جائیں ہم۔۔
دور اتنا کہ ہمیں چھو نا سکے کوئ غم۔۔
پھولوں اور کلیوں سے مہکے ہوئے جنگل میں۔۔
اک حسین جھیل کے ساحل پہ ہمارا گھر ہو۔۔
میں تجھے پیار کروں میرے صنم
تو مجھے پیار کرے میرے صنم
آ کہیں دور چلیں جائیں ہمم۔۔”
اوہ یس یہ ہوئ نا بات ثناء گانا سن کر بہت خوش ہو گئی تھی۔۔
ویسے یہ گانا واقعی آپ نے میرے لئے گایا ہے عاصمہ نے سفیان سے پوچھا تھا ۔
کیوں جی کوئی شک ہے؟
نہیں بس ایسے ہی یقین نہیں آرہا تھا۔
اور ان دونوں کی اس گفتگو پر سب ہنس دئیے تھے۔۔
اوہ تو بابا جانی اب صرف آپ ہی رہ گئے ہیں تو اس لئے اب تو بوٹل گھمانے کی کوئ ضرورت نہیں آپ خودی اپنی مرضی سے سنا دیں جو سنانا چاہتے ہیں مہرماہ نے بہت محبت بھری نظروں سے اپنے بابا جان وقار احمد کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
سب تجسس بھری نظروں سے وقار احمد کو دیکھ رہے تھے کہ آخر وہ کیا سنانے والا ہے؟
اور وقار احمد وہ بھلا کیا سنا سکتا تھا اپنی محبت کے قصے کے سوا۔۔
اور تھا ہی کیا اس کے پاس سنانے کو تو اس نے اپنی محبت کا قصہ ہی شاعری کی زبان میں سنانا شروع کر دیا۔۔
“ایک لڑکی بھولی بھالی تھی ۔۔
آنکھوں میں اسکی،،
شرم کا پانی تھا۔۔
چہرے پہ چمک تھی،،
جینے کی ۔۔
ملاقات ہوئی ایک لڑکے سے ۔۔
جو اس کے لئے دیوانہ تھا ۔۔
جانا پہچانا سا انجانا تھا۔۔
پھر ان دونوں کا ساتھ ہوا۔۔
اور جینے کا آغاز ہوا۔۔
قسموں وعدوں کا پاس ہوا۔۔
جینا مشکل ہے اس کے بن۔۔
یہ پہلی بار احساس ہوا۔۔
پھر بد دعا لگی انکو شاید۔۔
ہاتھوں سے وہ ہاتھ چھوٹ گیا۔۔
جو وعدہ تھا وہ ٹوٹ گیا۔۔
ہر پیار کا موسم روٹھ گیا۔۔
وہ لڑکی۔۔
وہ لڑکی آج بھی زندہ ہے۔۔
پر پیار کے ذکر حوالوں میں۔۔
اور اس لڑکے کے خیالوں میں۔۔
وہ جینا تو شاید سیکھ گیا۔۔
پر یادیں۔۔
یادیں آج بھی باقی ہیں۔۔
اس لڑکی سے جو کہی نہیں کچھ باتیں آج بھی باقی ہیں۔۔
ایک لڑکی بھولی بھالی تھی۔۔”
وہ بظاہر مسکرا رہا تھا مگر اسکی آواز کا درد اور اسکی آنکھوں میں اترتی نمی مہرماہ دیکھ چکی تھی جس نے اسکے اندر ایک ہلچل سی مچا دی تھی ایسا کون سا پہلو تھا اسکے بابا جان کی زندگی کا جس سے وہ انجان تھی۔۔
اس نے وقار احمد کی آنکھوں میں ہمیشہ ویرانی و اداسی دیکھی تھی مگر وہ سمجھ نہیں پائ تھی کہ اسکی وجہ کیا ہے مگر آج وقار احمد اپنی جو داستان سنا رہا تھا پتا نہیں کیوں اسے سنتے ہی مہرماہ کو یہ احساس ہوا تھا کہ یہ محض کوئ نظم نہیں بلکہ یہ اسکی اداسی اور ویرانی کی داستان ہے اسکے ایک ایک لفظ میں سچائ اور دکھ واضح تھا۔۔
اس سے پہلے کے مہرماہ اسکے چہرے پر مزید کچھ پڑھ پاتی وہ وہاں سے اٹھ گیا تھا۔۔
ایکس کیوز می پلیز مجھے ایک کال کرنی ہے۔۔
مگر درحقیقت وہ اپنی آنکھوں کی نمی چھپانے کے لئے یہاں سے اٹھا تھا۔۔
اور عارفہ بیگم جنہوں نے اپنے بیٹے کو اسکی اس حالت سے نکالنے کے لئے اسکا نکاح زبردستی نائلہ سے کروا دیا تھا۔۔
آج بھی اسے یوں ٹرپتا دیکھ کر انکا کلیجہ دکھ سے چھلنی ہو گیا تھا وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو کس طرح یوں ٹرپتا دیکھتی اسی لئے تو انہوں نے اتنا بڑا قدم اٹھایا تھا۔۔
اور پھر سب اندر آ گئے تھے مہرماہ کے اندر یک دم اداسی سے بھر گئ تھی۔۔
اور پھر کچھ ہی دیر بعد سفیان طارق نے اپنے بیوی بچوں سمیت واپسی کے لئے اجازت چاہی تھی اور ساجدہ بیگم نے کہا تھا کہ وہ بھی انکے ساتھ ہی چلیں گی۔۔
مگر کیوں نانو اس دفعہ تو آپکو یہاں رہنا تھا مہرماہ نے نانو کے جانے پر شدید احتجاج کیا تھا۔۔
اوہو میری گڑیا میں کسی کام سے جا رہی ہوں دو تین دن میں پھر واپس آجاوں گی۔۔
ایسا کونسا کام ہے جو یہاں رہ کر نہیں ہو سکتا ؟
بس ہے ایک کام جب ہو جائیگا تب بتاوں گی۔۔
نانو۔۔اس نے اداس لہجے میں ساجدہ بیگم کو پکارا تھا اور پھر انکے گلے لگ گئ تھی۔۔
اور پھر وہ سب سے اجازت لے کر چلے گئے تھے۔۔
سب کام سمیٹنے کے بعد نائلہ بھی اپنے کمرے میں آگئ تھی۔۔
آج وہ بہت تھک گئ تھی اس لئے آتے ہی چینج کر کہ وہ سونے کے لیے جب سٹڈی کی جانب بڑھی تو وقار کی آواز نے اس کے چلتے قدموں کو روک دیا وہ اسے بلا رہا تھا۔۔
نائلہ ؟
جی؟کچھ چاہئے ؟اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تھا۔۔
نہیں وہ میں کہنا چاہ رہا تھا کہ یہی سو جاو۔۔
آج بائیس سال گزر جانے کے بعد وہ اسے اپنے کمرے میں سونے کی دعوت دے رہا تھا۔۔
یہاں۔۔یہاں کہاں؟نائلہ نے بے سمجھی کے عالم میں اس سے سوال کیا تھا۔۔
بیڈ پر اور کہاں؟
تو کیا آج نائلہ وقار احمد کے برابر بیڈ پر سوئے گی؟یہ اسکے لئے آج حیرت کا تیسرا جھٹکا تھا۔۔
اور وہ آہستگی سے چلتے ہوئے خاموشی سے آکر بیڈ پر وقار احمد سے مخالف سمت کی جانب کروٹ لے کر سمٹتے ہوئے لیٹ گئ تھی وقار نے اپنی سائیڈ ٹیبل پر جلنے والا لیمپ بند کر دیا تھا۔۔
شاید وہ سونا چاہ رہا تھا اسی لئے نائلہ نے بھی اپنا ہاتھ بڑھا کر اپنی سائیڈ ٹیبل پر جلتا لیمپ بھی بند کر دیا تھا۔۔
مگر اب اسے بلکل بھی نیند نہیں آرہی تھی اور نیند آتی بھی کیسے وہ آج پہلی بار وقار احمد کے ساتھ اسکے بیڈ پر جو لیٹی تھی بھلا اس نے کب سوچا تھا کہ کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے؟
ہاں اس نے صبر کے بہت کڑوے گھونٹ پئیے تھے مگر اس کے بدلے میں اس نے تو کچھ بھی نہیں مانگا تھا سوائے اپنے رب سے معافی کہ تو پھر یہ کیسا تحفہ تھا جو آج اسے ملا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔☆☆☆☆☆☆۔۔۔۔۔۔۔
مہرماہ آج عارفہ بیگم کے ساتھ ہی لیٹی تھی۔۔
گرینی کیا میں آپکے پاس سو جاوں؟
ہاں ہاں سو جاو یہ بھی کوئ پوچھنے کی بات ہے؟عارفہ بیگم نے محبت لٹاتے لہجے میں اسے جواب دیا تھا۔
کیا ہوا میری بچی کیا سوچ رہی ہو؟عارفہ بیگم نے نوٹ کیا تھا کہ وہ بہت چپ چپ سی کسی سوچ میں گم ہے۔۔
گرینی آپ سے اگر میں کچھ پوچھوں تو کیا آپ مجھے بتائیں گی؟
ہاں اگر مجھے پتا ہوا تو ضرور بتاوں گی میری گڑیا۔۔
کیا بابا جان کی شادی آپی سے زبردستی کروائ تھی آپ نے؟
کیا مطلب یہ کیسا سوال ہوا بھلا؟
آپ نے کہا تھا کہ آپ مجھے بتائیں گیں۔
اب عارفہ بیگم اسے کیا بتاتی وہ چاہتی تھیں کہ اسے اپنے ماضی کے بارے میں اگر وقار کچھ بتانا چاہتا ہے تو خود ہی بتائے اسی لئے انہوں نے آج تک مہرماہ کو وقار کے ماضی کی بھنک بھی نا لگنے دی تھی۔۔
نہیں ایسی تو کوئ بات نہیں بیٹا کیوں کیا ہوا تمہیں ایسا کیوں لگا؟
آپ نے آج بابا جان کی پوئیٹری نہیں سنی؟
اوہو مہرماہ تم بھی نا۔۔وہ تو صرف ایک پوئیٹری تھی بس وقار نے کہیں پڑھی ہو گی اسے اچھی لگی ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ اسے بس یہی یاد ہو تو اس نے سنا دی۔۔
نہیں گرینی مجھے نہیں لگتا کہ ایسا کچھ ہے مجھے تو ان کا کہا گیا ایک ایک لفظ سچ لگا اور آپکو پتا ہے میں نے انکی آنکھوں میں نمی بھی محسوس کی۔۔
کیا وہ کسی لڑکی سے محبت کرتے تھے؟
مجھے کیا پتا مہرماہ یہ سب تم اپنے باپ سے ہی پوچھ لینا۔۔اب عارفہ بیگم اسکی باتوں سے جھنجلا سی گئ تھیں۔۔
چلو آو میں تمہارے سر میں انگلیاں پھیرتی ہوں اور تم آنکھیں بند کر کے سو جاو شاباش۔۔
مہرماہ نے اپنی آنکھیں تو بند کر لی تھیں مگر وہ اپنے بابا جان اور آپی کو کسی بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی تھی وہ جاننا چاہتی تھی کہ آخر ایسا کیا ہے جو ان دونوں کو تکلیف دیتا ہے وہ انہیں اس تکلیف سے نکالنا چاہتی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔☆☆☆☆☆☆☆☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح ناشتے کی ٹیبل پر عارفہ بیگم نے وقار احمد سے کہا کہ مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے وقار آفس جانے سے پہلے میرے کمرے میں آنا۔۔یہ کہتے ہوئے عارفہ بیگم نے نائلہ کو معنی خیز نظروں سے دیکھا تھا اور نائلہ سمجھ گئ تھی کہ عارفہ بیگم وقار سے کیا بات کرنے والی ہیں۔۔
جی اماں جان۔۔وقار نے مودب سے انداز میں جواب دیا تھا۔۔
اور بابا جان یو نو نا آج میری یونیورسٹی کے سیمینار میں آنا ہے آپکو؟
اوہو میں تو بھول ہی گیا تھا مہرماہ آج میری اتنی امپورٹنٹ میٹنگ ہے۔۔
نو ایکسکیوزز بابا جان۔۔
اوکے اوکے مادام میں آجاوں گا۔۔
یس ڈیٹس لائک مائ گڈ فادر۔۔
اوکے پھر میں نکلتی ہوں یونیورسٹی کے لئے بابا جان اور وقار احمد نے اسے کھڑے ہو کر اپنے سینے سے لگاتے ہوئے اسکے ماتھے پر بوسا دیا تھا۔۔اوکے بیٹا دھیان سے ڈرائیو کیا کرو۔۔
یس بابا جان میں بلکل آرام سے ڈرائیو کرتی ہوں آپ پریشان مت ہوا کریں۔۔
اب وہ نائلہ کی جانب آئ تھی اور اسکی چئیر پر جھک کر اس نے اسکے ہاتھوں کو تھام کر اس پہ بوسا دیا تھا۔۔وہ ہمیشہ سے جب بھی کہیں جاتی ایسے ہی اپنے بابا جان اور آپی سے مل کر جاتی تھی۔۔
اور اب وہ عارفہ بیگم کی جانب بڑھی تھی اور انکی کرسی پر جھک کر انکی گردن کے گرد اپنے بازو حائل کرتے ہوئے بولی تھی اوکے مائ گورجیس لیڈی میں جا رہی ہوں اپنا خیال رکھئے گا اور میری آپی کو روایتی ساسوں کی طرح تنگ مت کیجئے گا۔۔
اور عارفہ بیگم نے اس بات پر اسکا کان پکڑ لیا تھا۔۔
آہ گرینی میرا کان۔۔
شریر کہیں کی میں تمہیں ایسی لگتی ہوں؟
اوہ گرینی وہ تو مذاق کر رہی تھی میں میرا کان تو چھوڑ دیں۔۔
لو چھوڑ دیا ویسے تمہارے ہوتے ہوئے مجھے اور نائلہ کو کسی اور ساس کی کیا ضرورت ہے؟
اور مہرماہ نے روٹھتے لہجے میں وقار احمد سے مدد مانگی تھی۔۔
بابا جان دیکھیں نا میں ایسی ہوں کیا؟
نہیں نہیں میڈم آپ تو بہت اچھی ہیں ۔۔اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا تھا۔۔
جا رہی ہوں میں آپ دل کھول کر میری برائیاں کریں۔۔
اور پھر اس نے گیراج میں آ کر اپنی گاڑی سٹارٹ کی تھی جسے دیکھتے ہی گارڈ نے وقار ولا کا گیٹ کھول دیا تھا۔۔
اور پھر اس نے گاڑی گیٹ سے باہر نکالتے ہی سڑک پر دوڑا تھی۔۔
اور پھر کچھ ہی دیر میں وہ یونیورسٹی پنہچ گئ تھی۔۔
اسے آتا دیکھ کر عمارہ اسکی جانب بڑھی تھی۔۔
ہیلو۔۔کیسی ہو؟
پرفیکٹ۔۔
وہ میم عائشہ کہہ رہی تھیں کہ تم یونیورسٹی پنہچتے ہی ان سے ملو۔۔
ہاں انہوں نے بابا کے متعلق پوچھنا ہو گا۔۔
تو کیا وہ آ رہے ہیں؟
ہاں آخر میری بات کیسے ٹال سکتے ہیں وہ؟
یار تم کتنی لکی ہو نا؟
اچھا وہ کیسے؟
تمہارے فادر تم سے کتنا پیار کرتے ہیں تمہاری کوئ بات نہیں ٹالتے مجھے تو لگتا ہے اگر تم ان سے کبھی یہ فرمائش کر دو کہ تمہیں چاند چاہئے تو وہ وہاں بھی پنہچ جائیں گے۔۔
ہاں یہ تو سچ ہے مگر میں حقیقت پسند ہوں صرف اسی چیز کی خواہش کرتی ہوں جو مل سکے۔۔
اوہ رئیلی؟
ہاں۔۔
تو پھر ہارون جہانزیب کے بارے میں کیا خیال ہے تمہارا؟
کچھ بھی نہیں۔۔
فضول مت بولو۔۔تم اس سے محبت کرتی ہو صاف ظاہر ہوتا ہے تمہاری باتوں سے؟
تو؟
تم اپنے بابا جان سے کیوں نہیں کہتی؟
کیا؟
یہی کہ تمہیں ہارون جہانزیب چاہئے ویسے بھی تمہارا اور کسی کے ساتھ میچ بنتا بھی نہیں ہے ہر طرح سے تم دونوں کا ایک پرفیکٹ کپل بنتا ہے برابر کا سٹیٹس ، سٹڈیز اور پھر by look بھی۔۔
عمارہ وہ کوئ چیز نہیں ہے جو میں منہ پھاڑ کر بابا جان سے مانگ لوں وہ ایک انسان ہے۔۔اور پھر مجھے وہ نہیں چاہئے جس سے صرف میں محبت کرتی ہوں جو بہت خوبصورت ہو جو ہر لحاظ سے میرے شایان شان ہو مجھے تو وہ چاہئے جو مجھے بھی محبت دے اور اس سے بھی زیادہ مجھے عزت دے۔۔
اور جو صرف میری ہی عزت نا کرتا ہو بلکہ عورت زات کی عزت کرتا ہو۔۔
اور سب سے بڑی بات وہ جاہل نا ہو؟
تو کیا تمہیں وہ جاہل لگتا ہے جو بریڈفورڈ سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ڈگری حاصل کر کے آیا ہے؟
نہیں میں ان جاہلوں کی بات کر رہی ہوں جو اسلام پر غورو فکر نہیں کرتے اور وہ جو ہمارے اسلام میں بدعات کو جنم دیتے ہیں۔۔اور ویسے بھی میں نے ہارون کی بات نہیں کی میں ایک جنرل سی بات کر رہی ہوں۔۔
یو نو وٹ مجھے تمہاری باتیں بلکل بھی سمجھ نہیں آتیں۔۔
تم اسے کہتی کیوں نہیں کہ تمہیں اس سے محبت ہے؟
میری انا اجازت نہیں دیتی۔۔
یہ کیسی محبت ہوئ بھلا؟ محبت میں تو انا نہیں ہوتی۔۔
ہاں اگر محبت آپ اپنے محرم سے کرو پھر انا کو دھتکارا جا سکتا ہے مگر ایک نامحرم اور محرم کی محبت میں بہت فرق ہے عمارہ۔۔
اچھا وہ کیسے؟
اگر ایک نا محرم کے لئے ہم لڑکیاں اپنی انا کو پس پشت ڈال دیں تو پھر ہمارے پاس کچھ نہیں بچتا عمارہ۔۔میری محبت تو ایسی ہی ہے بس۔۔
تو پھر تم اس سے محبت کرتی ہی نہیں ہو مہرماہ۔۔
ایسا نہیں ہے بس میری محبت اور تمہاری محبت میں فرق ہے۔۔
میں اس سے محبت کرتی ہوں لیکن میں اپنے بابا سے بھی تو محبت کرتی ہوں۔۔
اگر میں مہرماہ وقار احمد اس کے سامنے جا کر کھڑی ہو جاوں اسے یہ بولوں کہ ہارون میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں۔۔جانتی ہو پھر کیا ہو گا؟
کونسی قیامت آجائے گی پھر؟
پھر وہی ہو گا جو آج کل کی محبتوں میں ہوتا ہے موبائل فون پر باتیں ، رومینس ، ڈیٹنگ وہ سب جسے تم محبت کہتی ہو۔
اچھا تو تم اپنا فلسفہ سنا دو محبت کا؟
پہلی بات تو یہ کہ محبت ایک بہت ہی پاکیزہ اور معصوم جذبہ ہے میرا نہیں خیال اس میں ان سب چیزوں کی ضرورت ہے یہ سب ایکسٹرا ordinary چیزیں ہیں جن میں تم اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ وقت ضائع کرتی پھرتی ہو۔۔
اور دوسری بات محبت خودغرض نہیں ہوتی تو پھر میں کیسے ایک محبت کی خاطر خودغرض بن جاوں؟
جانتی ہو میرے بابا وقار احمد انکا ایک نام ہے جسے دنیا جانتی ہے پاکستان کے بزنس ٹائیکون۔۔ جانتی ہو میں انکا فخر ہوں انہیں ناز ہے مجھ پر میرے سر پر لپیٹے گئے اس سکارف پر میری اوڑھی ہوئ اس چادر پر تو میں اس چادر کی حرمت کو کیسے پامال کر دوں جسے کسی نے مجھ پر زبردستی مسلط نہیں کیا بلکہ میں نے خود اپنی مرضی سے اسے اوڑھا ہے یو نو وٹ میں اپنا ہر کام بہت sincerity کے ساتھ کرتی ہوں۔
میں نے ابھی جاہلوں کی بات کی تھی نا؟جو اسلام پر غورو فکر نہیں کرتے؟میں ان جاہلوں میں سے کیسے ایک بن جاوں؟
میرا اللہ بس مجھے اتنی اجازت دیتا ہے کہ اگر میں کسی کے لئے اپنے دل میں ایسا کوئ جذبہ محسوس کروں تو صرف نکاح کے ارادے سے۔
اور میں چاہتی ہوں میرا اس سے نکاح ہو جائے مجھے میری محبت مل جائے اور میرا ایمان ہے اپنے رب پر اگر میرے اس جذبے میں ذرا برابر بھی سچائ ہوئ تو مجھے وہ مل جائے گا؟
اور اگر نا ملا تو؟
تو۔۔۔۔اس تو کے آگے تو اس نے کبھی کچھ سوچا ہی نہیں تھا۔۔تو اللہ کو جو منظور ۔وہ بس اتنا ہی کہہ سکی تھی۔
اور اب باتیں کرتے کرتے وہ سٹاف روم کے باہر پنہچ چکی تھی۔
اچھا میں میم عائشہ سے مل کر آتی ہوں ۔
اوکے میں پھر ہال میں ہی ملوں گی تمہیں کیونکہ جیسے ہی میم عائشہ کو پتا چلے گا کہ تمہارے فادر آ رہے ہیں تو تم بھی انکے لئے ایک مہمان خصوصی بن جاو گی۔۔عمارہ نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
اور پھر وہ وہاں سے چلی گئ تھی جبکہ مہرماہ سٹاف روم میں میم عائشہ کے پاس چلی گئ تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔☆☆☆☆☆☆☆☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار عارفہ بیگم کے کمرے میں داخل ہوا تو انہیں اپنا منتظر پایا۔۔
کیا ہوا اماں جان ایسی کیا بات ہے جس کے لئے آپ اتنی بے صبری سے میرا انتظار کر رہی تھیں؟
ہاں بتاتی ہوں آو بیٹھو یہاں ۔۔عارفہ بیگم نے یہ کہتے ہوئے وقار کے لئے بیڈ پر اپنے برابر جگہ بنائ تھی۔۔
اب وقار احمد وہاں بیٹھ چکا تھا ۔۔جی اماں جان۔۔
دیکھو بیٹا مہرماہ اب بڑی ہو چکی ہے اور ماشااللہ سے اسکی پڑھائ بھی مکمل ہونے والی ہے تم نے اب آگے کے بارے میں کیا سوچا ہے؟میرا مطلب تھا اسکی شادی کے بارے میں۔۔
تو کیا میری بیٹی اتنی بڑی ہو گئ ہے کہ اب اسکی شادی کے بارے میں بھی سوچا جانے لگا ہے۔۔جس وقار احمد پر اب بھی نو عمر لڑکیاں مر مٹتی تھیں اور جو کسی طرف سے بھی ایک جوان بیٹی کا باپ نا لگتا تھا اس وقار احمد کو یہ بات سنتے ہی یک دم اپنا وجود بوڑھا لگنے لگا اور اسکے اندر ایک اداسی سرایت سی کر گئ۔۔
مہرماہ کی شادی کا سنتے ہی اسکی آنکھوں میں نمی سی اترنے لگی تھی شاید ہر بیٹی کا باپ بظاہر چٹان سا مضبوط دکھنے والا مرد اپنی بیٹی کے معاملے میں ایسا ہی ہوتا ہو گا۔۔
اماں جان نے اسکی اداسی محسوس کر لی تھی۔۔
وقار ۔۔انہوں نے اسے پکارا تھا اور وہ اپنی سوچوں سے نکل آیا تھا۔
جی اماں جان۔
بہت محبت کرتے ہو نا تم مہرماہ سے بس بیٹے یہ اولاد چیز ہی ایسی ہے اور پھر اگر اکلوتی اولاد ہو تو اسے تو خود سے دور کرنے کے خیال سے ہی انسان کی جان پر بن آتی ہے۔۔لیکن کیا کئا جائے بیٹیاں تو ہوتی ہی پرائ ہیں یہ کب بڑی ہو جاتی ہیں پتا بھی نہیں چلتا پتا چلتا بھی ہے تو تب جب انکو رخصت کرنے کا وقت آ پنہچتا ہے اور پھر یہی زمانے کا دستور ہے اور سنت بھی یہی اللہ کا حکم ہے بیٹا۔
لیکن اگر تم چاہو تو مہرماہ شادی کے بعد بھی ہمیشہ کے لئے تمہاری آنکھوں کے سامنے ہی رہ سکتی ہے؟
وہ کیسے اماں جان؟
اب میری بات صبر و تحمل اور غور سے سننا۔
اگر مہرماہ کی شادی اپنے ہارون سے کر دی جائے تو ایسا ممکن ہے دیکھو ہم پہلے بھی تو ایک فیملی ہی تھے لیکن تمہارے منہ سے نلکے گئے تلخ الفاظ کی وجہ سے سفیان نے وہ گھر چھوڑ دیا مگر اس رشتے کے بعد تمام تلخیاں دور ہو جائیں گی پھر سے ہم ایک ہو جائیں گے بیٹا وہ حویلی جو تم دونوں کے جانے سے ویران ہو گئ ہے وہ پھر سے آباد ہو جائے گی۔۔وہاں پھر سے رونقیں آ جائیں گی۔۔
تو کیا آپ صرف اپنی حویلی کی رونقیں واپس لانے اور سفیان اور میرے درمیان کی خلش دور کرنے کے لئے مہرماہ کا رشتہ وہاں کرنا چاہتی ہیں؟
اماں جان وہ میری بیٹی ہے آغا وقار احمد علی خان کی بیٹی اور میں اسکی شادی وہی کروں گا جہاں وہ چاہے گی جہاں اسکی خوشی ہو گی میں اتنا خود غرض نہیں کہ محض اسے اپنی نگاہوں کے سامنے رکھنے کے لئے اسکی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ کر لوں۔۔
میں آپکے جیسا نہیں بس سکتا نا اماں جان۔۔وہ ایک بار پھر طنز کے نشتر چبھانے سے باز نا آیا تھا۔۔
اچھا اور اگر اسکی مرضی بھی اس رشتے میں شامل ہو تو؟
تو وہ مجھ سے ضرور شئیر کرتی اماں جان میں اسکا باپ ہوں۔۔
وہ یہ بات نائلہ سے کر چکی ہے۔۔
کیا نائلہ سے؟
ہاں تم جو بھی کہو مہرماہ کی نظر میں تو وہی اسکی ماں ہے نا؟
تو نائلہ نے مجھے یہ کیوں نہیں بتایا؟
تو کیا وقار احمد تم نے اسے یہ حق دے رکھا ہے کہ وہ تمہیں کچھ بتائے؟
میرا مطلب مہرماہ نے مجھ سے کیوں یہ بات نہیں کی؟وہ اب بات بدل گیا تھا۔۔
کیونکہ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو صرف ماں سے ہی کی جا سکتی ہیں اور اگر آج نائلہ نا ہوتی تو شاید تم تو یہ کبھی جان ہی نا پاتے اور وہ معصوم تمہاری خوشی کو دیکھتے ہوئے جہاں تم کہتے وہی پر خوشی خوشی شادی کر لیتی۔
نہیں میں کبھی بھی اسکی مرضی کے بغیر اسکی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ نا کرتا۔۔
تم اسے اتنا ہی کہتے نا کہ بیٹا میں نے تمہارے لئے یہ رشتہ دیکھا ہے مجھے بہت پسند ہے یہ لڑکا میں چاہتا ہوں تمہاری شادی یہاں ہو جائے تم بہت خوش رہو گی۔۔اور وہ تمہاری آنکھوں کی خوشی دیکھتے ہوئے اسی خوشی اور اسی مان کو قائم رکھنے کی خاطر خاموشی سے اپنی معصوم محبت قربان کر دیتی۔۔اور کیا صورت ہوتی اسکے پاس؟
تم کیا جانو وقار احمد یہ بیٹیاں نا ایسی ہی ہوتی ہیں بس اپنے ماں باپ کے چہروں پر خوشی دیکھنے کی خاطر خاموشی سے قربان ہو جانے والی۔۔
ٹھیک ہے آپ پھر مناسب موقعہ دیکھ کر بات چلائیں میرے لئے میری بیٹی کی خوشی سے بڑھ کر کچھ بھی اہم نہیں لیکن پھر بھی میں ایک دفعہ مہرماہ سے اس بات کی یقین دہانی کر لینا چاہتا ہوں اسکی زندگی کا فیصلہ میں یوں اس سے براہ راست پوچھے بغیر نہیں کر سکتا۔۔
ٹھیک ہے آخر کو ہے تو وہ تمہاری ہی بیٹی تم اچھی طرح سے سوچ سمجھ کر مجھے رات تک بتا دینا۔۔
جی ٹھیک ہے اب میں چلتا ہوں اماں جان۔۔
ہاں بیٹا جاو اللہ تمہارا نگہبان۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔☆☆☆☆☆☆☆☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے ہی سٹاف روم میں بیٹھی سب فی میل ٹیچرز کو یہ پتا چلا کہ وقار احمد آج کے سیمینار میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے آ رہا ہے تو وہ مہرماہ کو ایک شہزادی سا پروٹوکول دینے لگیں مقصد یہ تھا کہ بس انہیں مہرماہ کے توصل سے وقار احمد کے ساتھ ایک ملاقات نصیب ہو جائے۔۔
جبکہ میل ٹیچرز کے لئے تو وہ اپنی خوبصورتی اور حیاء کے باعث پہلے ہی ایک امتیازی حیثیت رکھتی تھی۔۔
اس یونیورسٹی کا ہر سٹوڈنٹ مہرماہ وقار احمد کی قربت کو ترستا تھا۔۔
اور پھر کچھ ہی دیر میں رفتہ رفتہ سب سٹوڈنٹس یونیورسٹی کے ہال میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور پھر سیمینار کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن تلاوت پاک سے کیا گیا تھا۔۔
مہرماہ اگلی نشستوں پر فی میل ٹیچرز کے ساتھ براجمان تھی۔۔
تلاوت اور حمد کے بعد اس سیمینار کا آغاز کر دیا گیا تھا۔۔جو کہ وومن ڈے سے متعلق تھا اور وہاں پر بیٹھی تمام خواتین کے لئے اس سے بڑی کیا بات ہو سکتی تھی کہ اس وومن ڈے کے موقعے پر انہیں وقار احمد کا دیدار نصیب ہو رہا تھا۔۔
اور پھر اس سیمینار میں آنے والی ایک این جی او چلانے والی کامیاب وومن نے آج کے دن کی نسبت سے عورتوں کے حقوق اور اہمیت کے بارے میں بتانا شروع کر دیا تھا۔۔
اور ہال میں بیٹھی سبھی سٹوڈنٹس تقریبن پندرہ منٹ بعد ہی سخت بوریت کا شکار ہونے لگی تھیں سب نظریں بار بار ہال کی اینٹرنس کی جانب وقار احمد کے انتظار میں اٹھ رہی تھیں ۔
اور پھر تقریبن مزید دس منٹ کے انتظار کے بعد ہال کی اینٹرنس پر ایک چہل پہل سی ہوئ تھی اور پھر یونیورسٹی کے ڈائریکٹر اور کچھ ٹیچرز ہال کی مین اینٹرنس کی جانب بڑھے تھے۔۔
اور مائیک میں بولتی ہوئ عورت نے اپنا سلسلہ کلام کچھ دیر کے لئے منقطع کیا تھا۔۔
اور پھر گرے کلر کے ڈریس پینٹ کوٹ میں وہ سرمئ آنکھوں والا وقار احمد اپنی غضب ڈھاتی پرسنالٹی کے ساتھ وہاں نمودار ہوا تھا سب ٹیچرز اور ریجنل ڈائریکٹر اسکے استقبال کے لئے ہال کی اینٹرنس پر موجود ہوئے تھے اور اب مائیک میں اناونسمنٹ کی جا رہی تھی ۔۔
ویلکم مسٹر آغا وقار احمد علی خان بے شک آپ سب اس نام کے تعارف کے محتاج تو نہیں ہوں گے پھر بھی میں آپکو بتاتا چلوں کہ یہ ہمارے پاکستان کے بزنس ٹائیکون اور ہمارے آج کے سیمینار کے چیف گیسٹ ہیں۔۔اب سب سٹوڈنٹس اور ٹیچرز اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے ہوئے اسکا استقبال کر رہے تھے۔۔
ایک بار پھر سے مائیک میں آواز ابھری تھی مسٹر وقار احمد ہم سب آپکے بے حد مشکور ہیں کہ آپ نے اپنے قیمتی وقت میں سے ہمارے انسٹیٹیوٹ کے لئے ٹائم نکالا یہ ہمارے لئے بہت بڑے اعزاز کی بات ہیں ایک بار پھر بھرپور تالیوں میں بے حد جوش و خروش کے ساتھ ہم آپکو خوش آمدید کرتے ہیں۔۔
اور اب تک وہ سٹیج پر آچکا تھا جہاں اسے پھولوں کے گلدستے پیش کئے جا رہے تھے۔۔
اور پھر وہ اپنی سیٹ پر براجمان ہو گیا تھا اور ایک بار پھر سے وہاں پر موجود ایک معروف این جی او چلانے والی عورت نے اپنا سلسلہ کلام وہی سے جوڑا تھا جہاں پر روکا گیا تھا۔۔
اور پھر اسکے بعد دوبارہ سے ہوسٹ نے آ کر اپنی سیٹ سنبھال لی تھی اب وہ اس عورت کا شکریہ ادا کر رہا تھا اور پھر اب وہ وقار احمد کو مائیک میں آ کر بولنے کی دعوت دے رہا تھا۔۔
اور پھر وقار احمد نے بھی مائیک میں آکر آج کے دن کی نسبت سے ایک معاشرے کے لئے عورتوں کی امپورٹنس کو ہائیلائٹ کیا تھا اور پھر وہ جانے ہی والا تھا جب ہوسٹ اس سےبپھر مخاطب ہوا تھا سر پلیز اف یو ڈونٹ مائنڈ ہم جاننا چاپتے ہیں کہ کیا آپکی کامیابی کے پیچھے بھی کسی عورت کا ہاتھ ہے اور اگر ایسا ہے تو وہ کون ہیں۔۔
ویل بلکل میری کامیابیوں کے پیچھے بھی عورت کا ہی ہاتھ ہے مگر وہ ایک نہیں دو ہیں میری بیٹی مہرماہ اور آف کورس اسکی مدر وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔۔
جبکہ مہرماہ ایک بار پھر سے نئ الجھن کا شکار ہو گئ تھی کہ آخر بابا جان مہرماہ کی مدر بولنے کی بجائے میری بیوی بھی تو بول سکتے تھے۔۔
سر آپ انکے لئے کچھ کہنا چاہیں گے پلیز؟ایک بار پھر سے ہوسٹ وقار احمد سے مخاطب تھا۔۔
کیونکہ یہاں پر صرف میری بیٹی مہرماہ ہی موجود ہے تو میں اسی کے لئے ایک گانے کے دو فقرے کہہ دیتا ہوں کیونکہ مجھے بس اتنا ہی آتا ہے۔۔جو کچھ یوں ہے۔۔
ہمیں اور جینے کی خواہش نا ہوتی
اگر تم نا ہوتے
اگر تم نا ہوتے
اور اسکے بعد وقار احمد تھینک یو کہہ کر وہاں سے سب سے ملنے کے بعد چلا گیا تھا ۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...