سب سے بڑی چیز ہے اس سے بڑی کوئی چیز نہیں، اس سے بہتر کوئی ذکر ہو نہیں سکتا، یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عادت ہے۔ اللہ جو ہے وہ درود بھیجتا ہے، درود بھیجنا یہ اللہ تعالیٰ کا فعل، عادت اور سنت ہے اور نماز پڑھنا یہ کسی کی عادت ہے؟ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سُنت ہے۔ خدا نماز نہیں پڑھتا، خدا روزہ نہیں رکھتا جتنی عبادتیں ہم کرتے ہیں یہ سب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی عادتیں، خصلتیں اور سُنتیں ہیں۔ جو نسبت خدا کو رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے وہی نسبت خدا کی سُنت کو رسول صلی علیہ و سلم کی سُنت سے ہے اور خدا کی سُنت درود شریف ہے اور نبی کی سُنت عبادت ہے۔ جتنا خدا رسول سے افضل ہے اتنی ہے اس کی سُنت رسول کی سُنت سے افضل ہے۔ اور اس کی سُنت درود اور نبی کی سُنت عبادت، تودرود شریف سب عبادتوں سے بھی افضل ہو گیا۔
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مَحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَابَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیمَ وَ عَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیمَ اِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِید
کوئی چیز دنیا اور دین میں نجات دلانے والی نہیں ہے، درود ہی ایسی شئے ہے جو ہر وقت اِس عالَم میں بھی اور اُس عالَم میں بھی نفع دے گی۔ اس مضمون کا تعلق کسی فرقہ سے نہیں ہے نہ کبھی اس کا تخیل کیجئے۔ مجھے بڑی اذیت ہوتی ہے جو بات علمی ہے میرے خیال میں بیان کر رہا ہوں۔ دلیل کا مقدمہ آپ نے سمجھ لیا۔ غور کریں۔
ہر عبادت میں نامقبولیت کا امکان ہے، آپ نے نماز پڑھی ضروری نہیں ہے کہ قبول ہی ہو جائے، کبھی قبول ہو جائے گی، کبھی قبول نہیں ہونے کی، ہو سکتا ہے نہ ہویا چاہے قبول ہو جائے لیکن مَردود ہونے کا امکان ہے، ناقبول ہونے کا امکان ہر عبادت میں موجود ہے۔ اور درود شریف ہی ایسی چیز ہے کہ ہر وقت قبول ہے، تو یہ یقینی ہے کہ قبول ہو اور عبادت ظنی القبول ہے اور یقینی یہ ظنی سے افضل ہے، درود شریف ہر عبادت سے افضل ہو گیا۔ یہ وجہ ہے کہ جب آپ اپنی حاجت کے لئے دعا مانگتے ہیں تو لازم اور واجب ہے کہ پہلے درود شریف پڑھیں اور پھر اللہ سے اپنی حاجتوں کو پورا کرنے کے لئے دعا مانگیں، پھر درود شریف پڑھیں، وہ غفور الرحیم ہے۔ جب اس کے سامنے یہ خوان جائے گا تین قابیں رکھی ہوئی ہوں گی؛ پہلی درود شریف کی، دوسری آپ کی حاجت کی، پھر درود شریف کی یہ نہیں ہو سکتا کہ اِدھر اُدھر سے اُٹھا لے اور بیچ کی قاب چھوڑ دے، رحیم کی شان سے یہ بعید ہے وہ یہ سب ہی لے لے گا۔
آپ غور کیجئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: سورت واقعہ میں تین گروہوں کا ذکر کیا: وَ کُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَةً (سورت الواقعہ 56 آیت 7) ’جونہی یہ واقعہ پیش آ جائے گا یعنی قیامت آ جائے گی۔ تو تم تین گروہ ہو جاؤ گے ؛ایک اَلْمُقَرَّبِین، دوسرے اَصْحٰبُ الْیمِین، تیسرے اَصْحٰبُ الشِّمَال۔ معاذ اللہ! تین گروہ ہوں گے ان تینوں گروہوں کے واقعات اور حالات اللہ تعالیٰ نے تقریباً ڈھائی رکوع میں بیان فرمائے ہیں، تین رکوع کی سورت ہے۔ جب سورت کو ختم کیا تو ان تین گروہوں کے حالات کا خلاصہ اور نچوڑ بیان کیا ہے: ۔
فَاَمَّاۤ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِینَ (88) فَرَوْحٌ وَّ رَیحَانٌ وَّ جَنَّتُ نَعِیمٍ
(سورت الواقعہ 56 آیت 89) ’جو مُقَرَّبِین میں سے ہے کیا ہے، اس کا انجام حشر اس کی جزا کیا ہو گی؟ راحت بہت راحت، رَیحَان خوشبو میں معطر، باغ و بہار یہ اس کا انجام ہو گا، تو یہ کیفیت پہلے گروہ کی۔ اور دوسرا گروہ: وَ اَمَّاۤ اِنْ کَانَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیمِینِ (سورت الواقعہ 56 آیت 90) اللہ تعالیٰ مجھ کو اور آپ کو اسی گروہ میں شامل کر دے۔ اَصْحٰبُ الْیمِین ان لوگوں کو کہتے ہیں کہ جن کو سیدھے ہاتھ میں نامہ اعمال دیئے جائیں گے۔ مُقَرَّبِین تو بڑا درجہ ہے۔ اَصْحٰبُ الْیمِین ہی میں ہمارا انجام ہو۔ خداوند تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے انجام بخیر کرے۔ ان کو کیا جزا ملے گی؟ ان کو کیا انعام ملے گا؟ فَسَلٰمٌ لَّکَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیمِینِ (سورت الواقعہ 56 آیت 91) ’اللہ کی طرف سے ان کو سلام ہو۔‘ اتنے معزز آدمی کا سلام کرنا، اس سے بڑی کیا جنت اور راحت ہو گی؟ جن کے نصیب میں یہ نعمت ہو گی سلام اتنی بڑی چیز ہے، اَصْحٰبُ الْیمِین، تو خود بڑی چیز ہے یہ خود جزا ہے۔
آپ یہ درود و سلام کا تحفہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جناب میں خود پیش کر دیں یا آپ کسی کے ہاتھ سے بھجوا دیں، اس کے دونوں معنی ہیں اَلسَّلَامُ عَلَیکَ اَیُھَا النَّبِّی آپ خود پیش کر دیجئے یا اللہ سے کہہ دیجئے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیدِنَا مَحَمَّدٍ ہماری طرف سے دونوں طرح سے یا خود پہنچا دے یا اس کے ہاتھوں سے پہنچا دیں یہ آپ کو اختیار ہے۔
اب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی فضیلت کے متعلق کیا بیان کیا جا سکتا ہے؟ ہمیشہ یاد رکھیئے جب تعریف کسی کی کی جاتی ہے جو شخص کرتا ہے اگر وہ اس کے متعلق پوری معلومات رکھتا ہے جب تو صحیح تعریف کر سکتا ہے ورنہ نہیں کر سکتا۔ مثلاً مؤرخ کو مؤرخ سے زیادہ واقف ہونا چاہیئے، زیادہ آگاہ ہونا چاہیے نبی کے برابر یا نبی سے زیادہ کسی کو علم ہو، معرفت ہو تو وہ نبی کا تعارف کرا سکتا ہے، وہ نبی کی معرفت کرا سکتا ہے۔ اور کسی شخص کو نبوت کا علم نہیں ہے کسی صدیق میں یہ بات نہیں ہے یا جو رؤساءِ صدیقین ہیں ان میں بھی یہ بات نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح تعریف سمجھے ہوئے ہوں یا بیان کر سکیں۔ نبی کر سکتا ہے یا خدا کر سکتا ہے غیر نبی میں قابلیت نہیں ہے۔ یہ عقلی دلیل میں نے آپ کے سامنے بیان کی ہے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...