کہانی کا بیان اور کہانی کی بنت دونوں افسانہ نگاری پر افسانہ نگار کی قدرت کا مظہر ہیں لیکن کہانی وہیں ختم ہو گئی تھی جہاں پرویز جیسا کردار اسی گھر سے نکل آتا ہے جہاں گناہوں کا بسیرا ہے – لیکن ” تبھی ولا ئت شاہ نے غرا کر پکا را
شہروز میاں “!
جی ابّا۔ ۔ ۔ ” وہ سعا دت مندی سے جھکے
” اس بار پر ویز کو بھی حج کر واؤ۔ ۔ ۔ !”
(پیغام آفاقی۔ افسانہ لبیک)
آپ کے افسانے پڑھتے ہوئے ہمیشہ زبان و بیان کی چاشنی میں کھو جاتا ہوں۔ زیر نظر افسانے میں بھی بڑی پیاری زبان برتی گئی ہے، پھر یہ ہے کہ بہت بے ساختہ پن ہے تحریر میں۔ ۔ کہیں بناوٹ نہیں۔ جیتے جاگتے ہمارے ارد گرد کے کردار دکھائے گئے ہیں، کہانی بھی خوب ہے، اور انجام تو انتہائی عمدہ۔ در اصل اس افسانے کا آخری جملہ میں ہی اس افسانے کی جان ہے۔
(وحید قمر۔ افسانہ لبیک)
بہت ہی عمدہ کہانی .. دین اور دنیا کو برتنا ..امیروں کو ہی آتا ہے ..غریب تو بس زبان پر اعتبار کر بیٹھتا ہے .بہت ہی خوبصورت کردار نگاری، بیانیہ بھی خوب! کہانی گو کہ پرانی ہے مگر انداز اچھا لگا .
خاص طور پر آخری جملہ ”
شہروز میاں “!
جی ابّا۔ ۔ ۔ ” وہ سعا دت مندی سے جھکے
” اس بار پر ویز کو بھی حج کرواؤ۔ ۔ !”
(فرحین جمال۔ افسانہ لبیک)
ارے انجم کیا شاندار افسانہ ہے وا ا ا ا اہ مزہ آ گیا ….. ! پوربی زبان کاچٹخارہ، رواں اسلوب اور جاندار مکالموں کیساتھ ایک مقصدی افسانہ جس میں مقصد فن پر حاوی نہیں ! ہندوستان میں بہت جگہوں پر ہندومسلمان ایک دوسرے کے تیوہاروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں – محرم کے جلوس یا کئی جگہ مزاروں پر عرس وغیرہ کے موقعہ پر زائرین کے لیے سبیلیں لگا کر ہمارے ہندو بھائی اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اسی طرح دسہرے، ہولی دیوالی وغیرہ پر مسلمان بھائی بھی اپنی بھر پور حاضری سے اس گنگا جمنی تہذیب کو بنا کر رکھتے ہیں ……مذکورہ افسانے کا اختتام بھی اسی صحت مند گنگا جمنی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے، اپنی سیاست چمکانے کے لیے کچھ شر پسند عناصر داؤ پیچ دکھا کر ماحول میں زہر گھولنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں کئی بار کامیاب بھی ہو جاتے ہیں لیکن زیادہ بار ناکام ہی ہوتے ہیں تبھی تو ایسے افسانے جنم لیتے ہیں ! پیاری دوست بہت داد اس زبردست افسانے کے لیے !
(افشاں ملک۔ افسانہ )
تالا نگری میں کہانی سنانے والی , سنہری روایت دھڑکن کا نام انجم قدوائی ہے – ان کے یہاں قلم تحریر رومانیت سے پیچھا چھڑاتی ہوئی , ہمیشہ حقیقت کی طرف گامزن رہی ہے – کہانی جب بھی کسی ماں کی قلم سے بیان ہوتی ہے وہ ہر عہد میں سفر کرتی ہے – زندگی کے مختلف ادوار کو، ٹوٹتی بکھرتی سنہری روایت/ روایتوں کے سلسلوں کو “آج”کی برق رفتار زندگی سے جوڑ کر کہانی بننے کا ہنر آپ کو خوب آتا ہے –
کہانی زمین پر دیے یوں ہی جلائے رکھیو- — – –
دھیمے سروں میں کہانی سنانے والی انجم قدوائی صاحبہ آپ سلامت رہیں – آمین۔
(خورشید حیات صاحب۔ افسانہ)
اس افسانے میں محبت کے جس عالمگیر انسانی عنصر کو انجم نے اپنے تحریر میں سمویا ہے اس کا پیغام آفاقی ہے۔ انجم نے فلسفہ محبت کے تحت سوئی ہوئی دینا کو جگا کر حسین سے تمام مذاہب کے لوگوں کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ “ہمارے ہیں حسین “۔ ۔ ۔
(سید صداقت حسین۔ افسانہ )
٭٭٭
تشکر: نسترن احسن فتیحی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...