جوگندر پال(دہلی)
ہیرو
میں اور کیا کرتا؟
ہمیں اپنے نئے فیچر فلم کے لئے چند نئے چہروں کی ضرورت تھی اور ہماری فلم کمپنی کے مالک آپا صاحب نے مجھے کہہ رکھا تھا ،دوسرے کسی بھی رول کے لئے جسے چاہو رکھ لو،مگر فلم کا ہیرو میرا اپنا ہی آدمی بنے گا۔
آپا صاحب کا اپنا آدمی خصلتاَ ولین تھا اور حالانکہ ہمارے فلم میں اس کا ہیرو بننا بالکل طے تھا،پھر بھی مجھے شاید ذہنی طور پر بدستور ہیرو کی تلاش تھی۔یا کسے معلوم ،کیا؟۔۔میں نے کیا کیا کہ اپنی رو میں ایک ایسے نوجوان کو ولین کا رول سونپ دیا جو مجھے اپنے ہیرو کے مانند فطرتاَ حسّاس،نیک طینت اور معصوم سا لگا۔
’’مگر میں۔۔۔‘‘اس نوجوان نے جھجک کر شاید تامل کا اظہار کرنا چاہا۔
’’میں وَیں کیا؟‘‘ میں جھلا گیا’’جب تک پورے ولین نہیں بنو گے،تمہیں ہیرو کون مانے گا؟‘‘
٭٭٭
کچّا پَن
’’بابا ،تم بڑے میٹھے ہو۔‘‘
’’یہی تو میری مشکل ہے بیٹا۔ابھی ذرا کچا اور کھٹا ہوتا تو جھاڑ سے جڑا رہتا۔‘‘
٭٭٭
موجود
کیا مجال،کوئی جان پہچان والا مرجائے اور وہ اس کے جنازے میں شامل نہ ہو۔مگر آج ہم اسی کا جنازہ لئے قبرستان کی طرف جا رہے ہیں،اور کسی نے آگے پیچھے دیکھتے ہوئے مجھ سے حیرت سے پوچھا ہے۔
’’تعجب ہے،آج وہ نہیں آیا!‘‘
٭٭٭
جیون کھیل تماشہ
’’میں سپنوں میں بہتر دِکھتا ہوں۔‘‘
’’مگر اس وقت تو آپ ہوبہو میرے سامنے موجود ہیں۔‘‘
’’کیا سپنے میں بھی سب کچھ ہوبہو نہیں ہوتا؟‘‘
’’مگر پھر آنکھ کھلتے ہی سب کچھ ایک دَم مٹی کیسے ہوجاتا ہے؟‘‘
’’ہاں بابا،جیسے آنکھ لگتے ہی ہم۔۔۔‘‘
٭٭٭
نیا آدمی
موت گھبرا گئی کہ وہ اُس کی جان کیسے لے۔وہ تو میری آمد سے پہلے ہی مَر چکا ہے۔مگر وہ متعجب تھی کہ یکسر مَر جانے کے باوجود مرحوم عین مین چل پھر رہا تھا۔موت کو اپنے چمتکار پر سراسیمہ پا کر مرحوم کا سینہ فخر سے پھول گیا۔
٭٭٭
بھوت بسیرا
’’ یا الٰہی،یہ ماجرا کیا ہے؟مہا نگر کے گھر گھر،جہاں بھی قدم رکھو،گھر خالی پڑا ہوتا ہے۔آخر سب کے سب گئے کہاں؟‘‘
’’ارے ، اتنا بھی معلوم نہیں؟سب کے سب ٹی وی کے ڈبے میں بند پڑے ہیں۔‘‘
’’پر۔۔۔۔؟‘‘
’’ارے بھائی،بھوتوں اور جنوں کا زمانہ ہے۔ڈبوں اور بوتلوں میں بند نہ پڑے رہیں تو جان پر بَن آئے۔‘‘
٭٭٭
کہانی
میں نے ندی کا پیچھا کرنا چاہا،مگر کیسے کرتا؟
وہ تو بہ یک وقت آگے بھی تھی اور پیچھے بھی!
سو میں لاچار سا اسے چپ چاپ دیکھتا رہ گیا۔
٭٭٭