قالب انساں ازل میں عشق کی خاطر بنا
اس نشیلی مے کے لائق بس یہی پیمانہ تھا
انسان کی تخلیق میں علاوہ ان عناصر اربعہ کے جن کا تجزیہ کیمیاوی طریقہ پر کیا گیا ہے، محبت کا عنصر بھی شامل ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کسی میں یہ جز کم ہے کسی میں زیادہ۔ بعض میں نشو و نما پانے سے قبل فنا ہو جاتا ہے اور بعض میں نشو و نما پا کر اس قدر زیادتی حاصل کرتا ہے کہ دوسرے عناصر بھی اس سے مغلوب ہو جاتے ہیں۔ اس وقت انسان کو ایک ایسا درجۂ امتیاز حاصل ہو جاتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس دنیاے آب و گل کو ٹھکرا کر ایک جدید نظامِ کائنات قائم کر دے۔
بہت عرصہ ہوا عہدِ طفلی کا ذکر ہے ایک رات میں نے دادا جان سے کہا: “دادا ابا! کوئی کہانی سناؤ۔”
پہلے انھوں نے ٹال دینا چاہا مگر میرے اصرار پر کہنے لگے:
“اچھا سنو۔ کوہ قاف کی پریوں میں ایک پری تھی جس کا نام نیلم پری تھا۔ ایک دن وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ سیر کو نکلی، دور ہوا میں اڑتے اڑتے اپنے پرستان کی حد سے باہر نکل گئی۔ اچانک اس کی نظر نیچے زمین پر پڑی اور ایک شاہزادہ کو دیکھا جو جنگل میں شکار کھیل رہا تھا۔ پری نے پہلی مرتبہ انسان کی شکل دیکھی تھی، وہ اسے دیکھتے ہی عاشق ہو گئی اور اپنی سہیلیوں سے کہا: کسی طرح اس آدم زاد کو بے ہوش کر کے میرے محل میں لے چلو۔ چنانچہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
یہاں تک کہ نیند آنے سے قبل کہانی ختم ہو گئی۔
چند سال بعد میں مدرسے کے کمرے میں بیٹھا تھا کہ ایک ہم جماعت نے کھڑے ہو کر کتاب کھولی اور پڑھنا شروع کیا:
“حاتم نے منیر شامی کو بہت کچھ دلاسہ دے کر کہا کہ تمھارے جذباتِ محبت نے میرے دل پر بہت اثر کیا۔ خدا کرے تمھاری دلی مراد پوری ہو۔ میں انتہائی کوشش کروں گا کہ حسن بانو کے تمام سوالات کا جواب دے کر تمھارے ساتھ اس کی شادی کرا دوں۔ میری واپسی تک۔۔۔۔۔”
حتیٰ کہ وقت ختم ہو گیا مگر قصہ کی تکمیل نہ ہوئی۔ اس لیے باقی حصہ دوسرے دن کے لیے ملتوی کر دیا۔
مدرسہ کی تعلیم کے بعد کالج کا زمانہ آیا۔ اب خیالات میں کسی قدر زیادہ پختگی اور مطالعہ میں وسعت پیدا ہو چلی تھی۔ بزمِ ادب کا سالانہ جلسہ ہوا۔ ناظم مجلس نے زبردستی میرا نام بھی مقررین کی فہرست میں شامل کر دیا۔ “فلسفۂ محبت” پر اظہار خیال کرنے کی فرمائش ہوئی۔ میں نے شاعرانہ موشگافیوں سے قطعاً خالی الذہن ہو کر نہایت محققانہ طریقہ پر ایسی موثر تقریر کی کہ سامعین عش عش کرنے لگے۔ میں نے فلاسفۂ یونان کے خیالات زریں بھی پیش کیے اور حکماے عرب کے غیر فانی اقوال کا حوالہ بھی دیا تاکہ بیان میں زیادہ زور پیدا ہو جائے۔ لیکن جب میں اس نقطہ پر پہنچا کہ “محبت کیوں ہو جاتی ہے؟” تو میرے حواس گم ہو گئے۔ اس تنقیح کے جواب کو فلسفہ کی روشنی میں، جس کے مہمل نظریے عملی زندگی سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے، پیش کرنا تضییع اوقات تھا اور اگر میں یہ کہہ دیتا کہ اس کا جواب صرف اس صورت میں ممکن ہے، جب کہ قسام ازل کی طرف سے زبان کو بینائی یا آنکھوں کو گویائی ان قوتوں کے علاوہ نصیب ہو جائے جو پہلے سے ان کو ودیعت کی جا چکی ہیں تو شاید لوگ اسے بھی شاعری سمجھتے۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے۔
ایک سہانی رات تھی، تھیٹر ہال تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا تھا، تل دھرنے کی جگہ نہ تھی کہ یکایک موسیقی کی ایک دلنواز لَے کے ساتھ پردے اٹھے اور لیلیٰ مجنوں کا ڈراما شروع ہو گیا۔ ہندوستان کی ایک مایہ ناز ایکٹرس ہیروئن کا پارٹ کر رہی تھی۔ زمانۂ مکتب سے آغاز محبت، جذبات صادق کی بتدریج ترقی، اضطراب مسلسل کی دائمی سکون کوشی، والدین کی ضد، عزیز اقارب کے ظلم و ستم، رسم و رواج کی پابندیاں، آرزوؤں کی پامالی، خون کے آنسو، فراق کے صدمے، جنگل کی لامتناہی وسعتوں میں وحشی جانوروں کے ساتھ بود و باش اور آخرکار ناکامیِ عشق کا المناک انجام۔ غرض یہ کہ صبح کاذب کے نمودار ہونے سے قبل سب کچھ ہوا اور ہو کر رہ گیا۔
ایک روز بیٹھے بیٹھے جی میں آئی کہ لاؤ ہم بھی کوئی افسانہ لکھیں۔ سینکڑوں ناولوں کا مطالعہ کیا تھا، انگریزی رسائل میں بے شمار افسانے پڑھے تھے، کچھ خیال کہیں سے لیا کچھ کہیں سے، یہاں تک کہ ایک نیا پلاٹ تیار ہو گیا۔ “افسانۂ محبت” اس کا عنوان قائم کیا، حسن و جمال کی نیرنگیوں سے قطعی ناواقف، عشق و محبت کے سحرِ حلال سے نا آشناے محض، لوگوں سے سنا تھا، کتابوں میں پڑھا تھا کہ ایک کیفیت کا نام ہے اور دوسرا حشر جذبات کا۔ انھی سُنی سنائی، پڑھی پڑھائی باتوں کا اعادہ اپنے الفاظ میں کر دیا، افسانہ مکمل ہو چکا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ شاعر تلمیذ الرحمٰن ہوتا ہے اور شاعری ایک ودیعتِ خاص ہے جو ہر شخص کو نصیب نہیں ہوتی، لیکن یہ سب کہنے کی باتیں ہیں، طبیعت موزوں ہونی چاہیے۔ کچھ عرصہ اساتذہ کے کلام کا مطالعہ کیا اور پھر حسن و عشق، گل و بلبل، آہ و فغاں، شمع و پروانہ، وصل و ہجر، شراب و ساقی وغیرہ کو دیگر الفاظ کے امتزاج سے مختلف پیرایہ میں بیان کرنا شروع کر دیا۔ اب مجھ ہی کو دیکھ لیجیے کہ دل کے معمولی جوش و ولولے کی بنا پر شاعر بن بیٹھے، خواہ جذبات کے ماتحت کسی حسینہ کی طرف دیکھنا بھی نصیب نہ ہوا ہو مگر اس فن لطیف کے طفیل نت نئے معشوق زینت آغوش ہونے لگے۔
مناظرِ قدرت کی نقاشی میری زندگی کا بہترین مشغلہ بن گئی تھی۔ ایک روز بارش کے اختتام پر جب کہ باد و باراں کا طوفان مضمحل ہو کر سکون و طمانیت میں تبدیل ہو چکا تھا۔ میں دریا کے کنارے ٹہلنے چل دیا۔ خیال تھا کہ ضرور کوئی دلفریب منظر فردوسِ نگاہ بن جائے گا اور موے قلم کے وسیلہ سے اس کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کر لوں گا۔ ابھی چند لمحے بھی نہ گذرنے پائے تھے کہ فضا میں نغمے منتشر ہو کر ایک تموّج پید اکرنے لگے۔ میں نے دیکھا کہ ایک حسینہ ہاتھ میں بربط لیے ساحل کے قریب بیٹھی گا رہی ہے۔ موسیقی کا یہ کمال کہ سننے والوں کی روح بھی ان لطیف ترانوں پر تصدّق ہو جانے کے لیے ایک بار تڑپ اٹھے۔ وہ سامعہ نواز آواز سن کر اس روز زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے محسوس ہوا کہ ساز کے مہین تاروں کو بھی صنفِ نازک کے لحن عبودیت سے اکتسابِ ترنم کا شرف حاصل ہے۔ وہ چاہتی تھی کہ اپنے راگ کی مقناطیسی قوت سے پانی کی روانی کو مسخر کر کے منجمد کر دے۔ یا پھر یہ ہو کہ دریا کے عمق میں سونے والی جل پریاں خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر بشکل حباب آب رواں کی چادر سیماب پر ابھر آئیں اور اگر یہ بھی کافی نہ ہو تو کم از کم کششِ ثقل زمین کی طبقات سے نکل کر خود اس کے وجود محترم میں جذب ہو جائے تاکہ کائنات کا ہر ذرہ اس کو مرکز تصور کر کے فضا میں رقص کرتا ہوا اس کے فلک پیما قدموں میں آ گرے۔
ابتدائی دورِ حیات کا بیشتر حصہ چچا زاد بہن جمیلہ کے ساتھ گذرا تھا مگر اس زمانہ میں نہ اس کے اعضا کے اندر کچھ کشش و جاذبیت ہی مستور تھی نہ میرے جسم میں ایک دوسری شے کی جانب کھچ جانے کی صلاحیت۔ ہاں آٹھ سال کی طویل مدت کے بعد چچا پنشن لے کر کلکتہ سے وطن واپس آئے تو اس کا رنگ ہی کچھ اور تھا۔ حسن کی صحیح کیفیات نہ آج تک شرمندۂ الفاظ ہوئی ہیں نہ ہو سکتی ہیں۔ اس لیے میں بھی یہ بیان کرنے سے قاصر ہوں کہ اس کی وہ کون سی ادا تھی جس نے بیک نظر میرے دل کو موہ لیا۔ یہ سچ ہے کہ محبت کا تعلق نفس سے نہیں بلکہ صرف دل سے ہے مگر بیداری جذبات کے بغیر اس منزل میں گامزن ہو جانا غیر ممکن ہے۔
اس کی آنکھوں کی وحشت اور انداز جنوں سے ظاہر تھا کہ وہ کسی شے کی تلاش میں خود اپنی ہستی کو گم کر دینا چاہتی ہے۔ افق رُخ پر پھیل جانے والی شفق غمازی کر رہی تھی کہ اس کی رگوں میں دوڑنے والے خون کے اندر سیمابی کیفیت پیدا ہو چلی ہے۔ ہیجان تنفس سے سینہ کی سطح کا نشیب و فراز صاف بتا رہا تھا کہ اس کے میناے شباب دوسری صنف کے ساتھ تبادلۂ صہبا کے لیے بے تاب ہیں۔
پہلی ہی ملاقات میں اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کچھ ایسی بے گانگی سے دیکھا گویا اس سے قبل شناسائی ہی نہیں تھی، مگر بے گانگی کی یہ ادا ہی ایک ایسی ادا ہے جو بسا اوقات ایک شرح بسیط بن جاتی ہے اور تکلم خاموش سے وہ راز سنا دیا جاتا ہے جس کی سماعت صرف لبوں کے ذریعہ ممکن ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھ سے میرا سب کچھ چھین کر لے گئی۔ مگر ایک ایسی شے دے گئی جو اس سے قبل میرے پاس نہیں تھی۔
غنیمت ہے کہ خود والد صاحب ہی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ میری شادی جمیلہ کے ساتھ ہو جائے تو بہتر ہے۔ چچا کے سامنے تجویز پیش کی گئی، جو انھوں نے فوراً منظور کر لی اور ہم دونوں نے عشق کے دیوتا کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے ہماری داستانِ محبت کو ایک المیہ رومان میں تبدیل نہیں کیا۔
بہت زمانہ گذر گیا، پرسوں رات کا ذکر ہے کہ اظہر میرا پیارا پوتا میرے پاس آیا اور کہنے لگا: “دادا کوئی کہانی سناؤ۔” مجھ میں ضعیفی کے باعث زیادہ دیر بولنے کی ہمت نہیں تھی۔ اس لیے پہلے تو ٹال دینا چاہا مگر اس کے اصرار پر میں نے کہا:
“اچھا سنو! کوہ قاف کی پریوں میں ایک پری تھی جس کا نام نیلم پری تھا۔ ایک دن وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ سیر کے لیے نکلی اور ہوا میں اڑتے اڑتے اپنے پرستان کی حد سے باہر نکل گئی۔ اچانک اس کی نظر نیچے زمین پر پڑی اور ایک شاہزادہ کو دیکھا جو جنگل میں شکار کھیل رہا تھا۔ پری نے پہلی مرتبہ انسان کی شکل دیکھی تھی۔ وہ اسے دیکھتے ہی عاشق ہو گئی اور اپنی سہیلیوں سے کہا: کسی طرح اس آدم زاد کو بے ہوش کر کے میرے محل میں لے چلو، چنانچہ۔۔۔۔۔۔”
یہاں تک کہ نیند آنے سے قبل کہانی ختم ہو گئی۔