شہر کے شہر کا افسانہ، وہ خوش فہم، مگر سادہ مسافر
کہ جنہیں عشق کی للکار کے رہزن نے کہا: “آؤ!
دکھلائیں تمہیں ایک درِ بستہ کے اسرار کا خواب۔”
شہر کے شہر کا افسانہ، وہ دل جن کے بیاباں میں
کسی قطرۂ گم گشتہ کے نا گاہ لرزنے کی صدا نے یہ کہا:
“آؤ دکھلائیں تمہیں صبح کے ہونٹوں پہ تبسّم کا سراب!”
شہر کے شہر کا افسانہ، وہی آرزوئے خستہ کے لنگڑاتے ہوئے پیر
کہ ہیں آج بھی افسانے کی دزدیدہ و ژولیدہ لکیروں پہ رواں
اُن اسیروں کی طرح جن کے رگ و ریشہ کی زنجیر کی جھنکار
بھی تھم جائے تو کہہ اُٹّھیں: “کہاں؟
اب کہاں جائیں گے ہم؟
جائیں اب تازہ و نا دیدہ نگاہوں کے زمستاں میں کہاں؟”
اُن اسیروں کی طرح جن کے لیے وقت کی بے صرفہ سلاخیں
نہ کبھی سرد نہ گرم، اور نہ کبھی سخت نہ نرم
نہ رہائی کی پذیرا، نہ اسیری ہی کی شرم!
شہر کے شہر کا افسانہ، وہ روحیں جو سرِ پُل کے سوا
اور کہیں وصل کی جویا ہی نہیں
پُل سے جنہیں پار اترنے کی تمنّا ہی نہیں
اِس کا یارا ہی نہیں!