دو لڑکیوں کے بعد تولید ہونے والے نادر ملک والدین کی آنکھوں کا تارہ تھے۔
اللہ نے صورت شکل کے ساتھ ذہانت بھی بخشی تھی جس کے سبب وہ ڈگریاں حاصل کرتے چلے گئے۔۔۔۔۔بات یہاں تک ٹھیک تھی لیکن بات بگڑی تب، جب وہ پردیس سے ایک نئی ڈگری کے ساتھ سنہری بال اور نیلی آنکھوں والی دوشیزہ لےآئے
جس کے تئیں خاندان پر سیاہ بادل چھا گئے۔۔۔۔ حمیدصاحب نے ننگے بازؤں والی نازک اندام انگریز کو بہو کی شکل میں قبول کرنے سے یکسر انکار کیا۔۔۔ بے انتہا ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے نادر ملک کے لیے گھر سے نکل جانے کا فرمان جاری کیا تو خاندان بھر میں ایک تہلکہ مچ گیا۔۔۔امی بہت روئیں کہ اکلوتے بیٹے کو یوں دربدرنہ کریں۔۔۔۔۔لیکن حمید صاحب کے فیصلے چٹان کی مانند سخت اور اٹل ہوا کرتے تھے۔۔۔۔۔ نادر ملک ماں کے قدموں میں گرگئے۔۔۔۔لیکن بلقیس بیگم کچھ نہیں کرسکیں۔
حمید صاحب نے بعد حکم، اپنی خوابگاہ کا دروزہ بند کرلیا اور وہ دروازہ نادر ملک کے رخصت ہونےکےبعد ہی کھلا ۔۔۔
ایک امریکن فیشن پرست لڑکی کا انتخاب نادر ملک کی سب سے بڑی بھول تھی جس کے تئیں زیست کا ہر پل پچھتاوے کی شکل اختیار کر گیا
دانیال صرف تین سال کا تھا بیوی نے طلاق کا مطالبہ کیا اور کسی پاکستانی مرد سے شادی کرلی ۔اس طرح نادرملک تنہا دانیال کی پرورش کرنے پر مجبور ہوگئے ۔۔ ڈگری مکمل ہوئی تو بیٹا پردیسوں کے رنگ میں رنگتا ہوا نظر آیا ۔۔ انھیں سب سے پہلے اپنا ملک اور خاندان کا تحفظ یاد آیا اور وہ پہلی فرصت میں انڈیا واپسی کا منصوبہ بنائے ۔۔۔ بیٹے نے بہت واویلا مچایا آخر بڑی مشکلوں سے راضی کیا۔۔۔۔۔اس شرط پر کہ ایک ماہ کی چھٹی گزار کر لوٹ آئیں گے۔
کئی سالوں بعد نادر ملک کو اپنی نظروں کے سامنے پاکر بلقيس بیگم خوشی سے پاگل ہوگئیں۔ بیٹے کو بےاختیار سینے سے لگا لیا۔۔۔۔۔حمید صاحب بناوٹی ناراضی کا اظہار کیے اپنا رخ موڑ رکھے تھے ، لیکن جب پوتا زبردستی گلے آلگا توساری ناراضی جھاگ کی مانند بیٹھ گئی ، دل کے تہہ خانے میں قید محبت سرکشی پر اتر آئی تو وہ پوتے کو گلے لگا کر بچوں کی مانند سسک اٹھے، سچ ہی کہتے ہیں کہ اصل سے سود پیارا ہوتا ہے۔۔۔
الگ تھلگ کھڑی سہمی ہوئی مومنہ ، نادر ملک کو پہلی نظر میں بہو کی شکل میں پسند آئی تھی ۔۔وہ نادر ملک کی بھانجی تھی جو یتیم و یسیر تھی۔
دانیال کو کسی افرادِخانہ سے کوئی لگاؤ تھا نہ دلچسپی تھی نہ ہی کوئی سروکار ۔۔۔وہ تو بس ڈیڈ کی خواہش پرانڈیا آیا تھا اور کچھ دن گزار کر واپسی کی راہ چاہتا تھا کیونکہ امریکہ میں اس کی ایک حسین دنیا آباد تھی۔۔۔۔۔۔ شعلہ نماگرل فرینڈز ۔۔۔۔۔۔دولت مند دوست۔۔۔۔۔۔۔ساتھ میں زندگی کی ہر آسائش دن جیسے پلک جھپکتے گزر گئے۔ایک رات حمید صاحب سوئے تو صبح جاگے ہی نہیں۔۔۔۔بلقیس بیگم اتنی ضعيف ہوچکی تھیں کہ جوان نواسی کی ذمہ داری کا بوجھ تنہا اٹھا نہیں سکتی تھیں۔نادر ملک اور دانیال کے واپس جانے کے دن جیسے جیسے قریب آرہے تھے۔۔وہ بہت پریشان رہنے لگیں پھر ایک دن ہمت جتھا کر بیٹے کے آگے منت سماجت کیں مومنہ کی ذمہ داری قبول کر لیں تاکہ وہ چین سے مرسکیں۔ نادر ملک انکار نہیں کرسکے ۔۔۔۔بیٹے پر اتنا پریشرڈالا کہ لاچار اس نے مومنہ سے نکاح کی ہامی بھرلی۔۔نادر ملک کے حکم کے آگے دانیال جھک تو گیا لیکن دل میں محبت کا جذبہ بیدار نہیں ہوسکا۔۔۔نکاح نہایت سادگی سے ہوا تھا۔۔۔۔۔اسے مومنہ اچھی لگی تھی لیکن لائف پارٹنر کی شکل میں قطعی منظور نہیں تھی۔حجاب سے اسے نفرت تھی اور مومنہ حجاب کے بغیر باہر قدم رکھنا بھی گناہ تصور کرتی تھی۔۔۔نادر ملک قدرت کی جانب سے انعام کی شکل میں اس اچانک ہونے والے فیصلے سے بہت خوش تھے دانیال نے سوچ رکھا تھا امریکہ پہنچ کر اس بوجھ نما رشتے سے جھٹکارہ حاصل کرےگا۔۔مومنہ بھی اس زبردستی کے رشتے سے کافی دلبرداشتہ تھی۔۔۔دانیال کی کوئی سوچ کوئی راہ اس تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔۔۔دونوں کی سمتیں بالکل جدا تھیں سوچ کادائرہ بھی مخالف سمت بڑھتا دکھائی دیتا تھا۔
پرندوں سے عاری اداس آسمان ، ماحول کو سوگوار بنا رہا تھا۔مومنہ کے وجود پر عجب سی اداسی طاری تھی ۔ وسیع صحن کے بالکل دائیں جانب جہاں پھولوں کی بےشمار کیاریاں قرینہ سے رکھی گئی تھیں ، بیٹھی وہ قرآن تلاوت کررہی تھی۔۔قرأت بہت دل سوز تھی ۔
آواز کی کشش جس کے سحر تلے دانیال کھینچا چلا آیا۔ خوبصورت کیاریوں میں رات کی رانی نے اپنی معطرخوشبو سے ماحول کو معطر کر رکھا تھا جس کے تئیں وجود میں سکوں بخش کیفیت سرایت کرگئی۔
دانیال بہت خوش نصیب ہو۔۔۔جو تمھیں مومنہ جیسی دیندار لڑکی شریکِ حیات کی شکل میں ملی ہے۔۔۔پیچھے سے نادر ملک کی رشک آمیز آواز پر دانیال چونکا۔۔۔۔مومنہ کے لبوں پر شرمیلی سی مسکان کھلی۔
زندگی کی خوشیوں کو چھلنی کرنے میں میرے اپنوں کی کرم نوازیاں قابل تحسین ہیں۔۔وہ جیسے آگ اگلا
”بیٹا جی! رب کا شکر ادا کرنا سیکھیں نشتر قابلِ تشکر نہیں ہوتے۔۔۔
دانیال کے دل پر لگے زخم رسنے لگے تو وہ وہاں سے چلاگیا۔۔۔۔مومنہ کی خوبصورت آنکھوں میں آنسوؤں کے قطرے جیسے ایک جلن سی پیدا کررہے تھے اس نےانھیں بےدردی سے مسل ڈالا۔
کیوں پریشان ہوتی ہو۔۔۔؟جب تک تمھارا ماموں زندہ ہے ۔۔۔دانیال کا بچہ تمھارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔۔
مومنہ ماموںجان کے لہجے کی چاشنی پر بے اختیار ہنس پڑی۔۔۔۔۔۔۔
ڈیڈ ایک لاوارث لڑکی ،جسے آپ نے میرے گلے باندھ دیا ہے۔۔کسی دن فرار ہوجاؤں تو مجھے دوش نہ دینا۔۔!!
مانا کہ مومنہ ایک یتیم لڑکی ہے جس کے پاس نہ خاندان ہے نہ رتبہ ہے۔۔۔ طاقت اور پیسہ بھی نہیں۔۔۔اس ڈبل گریجویٹ لڑکی کے پاس نیک اعمال ، اونچے کردار و اوصاف ۔۔۔۔ وسیع سوچ اور قلبِ سلیم موجود ہے۔۔۔ہوسکا تو اس کی قدر کرنا۔۔۔ورنہ ایک دن سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں بچے گا۔برخوردار ! تب آپ مجھے دوش نہ دینا۔
ائیرپورٹ پہنچ کر دانیال لگیج کرواکر امیگریشن کی لائن میں کھڑا ہوا۔۔۔ساتھ میں مومنہ بھی کھڑی عجیب لگ رہی تھی۔ ڈیڈ نے اپنی پہنچ سے صرف بیس دن کے اندر اس کا ویزہ نکلوایا تھا۔
میڈم اپنے چہرے سے نقاب کی یہ دیوار گرائیں۔۔! امگریشن آفسر نے کمپیوٹر سے نظر ہٹاکر مومنہ کی جانب دیکھتا ہوا نہایت تمسخر آمیز لہجے میں کہا۔
جواب میں مومنہ نے رخ سے نقاب ہٹانے سے صاف انکار کیا۔
اِمگریشن میں پروبلم ہوگی۔!!۔آپ کو نقاب ہٹانا ہی ہوگا۔۔۔!!افسر جھلا کر دبے سیور چیخاتھا۔۔۔۔مومنہ پر کچھ اثر نہیں ہوا ۔۔اس نے اپنی خوبصورت نگاہوں میں چنگاریاں بھرتی نفی میں سر ہلادی۔ کس قدر ضدی لڑکی ہے۔۔دانیال ماتھا پیٹ لیا۔۔ آفسر بھی انا کا مسئلہ بنالیا تھا اور اسے ایک سائیڈ کھڑا کردیا اور باقی تمام مسافر کو چیک کرتا امیگریشن کلیئر کردیا۔۔تمام مسافر جاچکے تھے۔۔ ائیرپورٹ کا عملہ حیران تھا۔۔لیکن مومنہ اپنی ضد پر اڑی رہی۔
نادر ملک سر تھام کر بیٹھ گئے۔۔۔۔کیونکہ بیٹے نے طلاق کا ارادہ ظاہر کیا تھا اور خود تنہا واپسی کا فیصلہ سنایا تھا۔۔۔بیٹے کی امیگریشن بھی رکوادی اور ایک سائیڈ لے جاکر دونوں شوہر بیوی کو بہت سمجھایا۔۔۔کوئی بڑی بات نہیں تھی۔۔۔لیکن ائیرپورٹ عملے نے بھی جیسے ضد کا جواب ضد سے دینا چاہتے تھے۔۔۔اس طرح امیگریشن نہیں ہوا ، کچھ ہی دیر میں فلائیٹ بھی ٹیک آف ہو گئی ۔۔۔۔نادر ملک دوسری فلائیٹ کے لیے کوشاں تھے۔۔۔لیکن اتنی آسانی سے دوسری فلائٹ ملنا بہت دشوار تھا۔۔۔دانیال بڑے غصے میں تھا۔۔۔ مومنہ کو اپنے ساتھ لے جانے سے صاف انکار کررہاتھا ۔نادر ملک سر تھام کر بیٹھ گئے انھیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔
گھر چلتے ہیں۔۔۔آرام سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔۔آخر نادر ملک نے فیصلہ سنایا۔
ڈیڈ آپ اپنی بہو کو لے کر گھر چلے جائیں۔۔۔میں کہیں نہیں جارہا۔۔۔
مومنہ کی آنکھوں کے گوشے بری طرح بھیگنے لگے
مومنہ حجاب اچھی چیز ہے ۔۔لیکن وہاں امریکہ میں تم اس طرح نقاب کی پابندی نہیں کرسکتی۔۔اگر ایسا کروگی تو وہاں ٹریریسٹ کہہ کر شک کی بنیاد پر تمھیں پریشان کیا جائےگا۔
ماموں جان ! مجھے اس بات کاعلم ہے ۔۔۔لیکن جب ہمارے ملک میں نقاب کی اجازت ہے تو پھر امیگریشن کے نام پر کسی شخص کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اس طرح تذلیل آمیز انداز میں ایک لڑکی پر حکم صادر کریں یہ بھی تو جائز نہیں۔
کچھ ساعتیں گزریں اچانک تین چار آفسرز دوڑتے ہوئے قریب آئے۔
آپ سے بات کرنی ہے۔۔۔دانیال پریشان ہو گیا۔نادر ملک بھی اندر ہی اندر پریشان ہوگئے۔۔
۔۔انھوں نے گھبرا کر بیٹے کو دیکھاسوچا۔۔۔
کہیں ٹریریسٹ کا الزام تو نہ لگایا جارہا۔۔؟
میں اپنی وائف کو سمجھاؤں گا۔۔!! اس نے پژمردہ لہجے میں کہا
آپ ہمارے ساتھ چلیں۔۔۔
تینوں کو ایک کشادہ آفس روم میں بیٹھایا گیا۔ایک افسر قریب بیٹھتا ہوا گویا ہوا
ابھی اطلاع ملی ہے۔۔۔۔
دیکھیں میری بہو بالکل معصوم ہے۔۔۔۔نقاب کا کوئی مسئلہ نہیں قوانین کے تحت ہم کارروائی مکمل کرلیں گے۔۔۔۔دوبارہ کسی قسم کی کوئی پروبلم کریئٹ نہیں کی جائے گی۔۔۔یہ ہمارا وعدہ ہے۔
جی ۔۔جی۔۔ہم آپ کی بیٹی کے اس جذبے کی دل سے قدر کرتے ہیں ۔۔ہمارا تمام عملہ بھی اپریشیڈ کرتا ہے۔
بری خبر یہ ہے کہ۔۔۔۔ وہ طائرہ بری طرح کراش ہوگیا ہے۔۔۔۔۔جس پر آپ لوگ جانے والے تھے۔۔۔کسی پیسنجر کی بچنے کی کوئی امید باقی نہیں۔۔۔۔آپ کی مسسز کی ضد نے آپ سب کی زندگی بچا لی ہے۔گاڈ کی جانب سے ایک کرشمہ ہی ہے
ہم اپنے تمام عملہ کی جانب سے معذورت خواہ ہیں اور ہرجانہ کی شکل میں آپ تمام کی اگلی فلائٹ ، وی آئی پی ٹکٹ دینا چاہتے ہیں جس کا ڈیپاچر دوگھنٹہ بعد ہی ہے۔۔دوسری گڈ نیوز یہ کہ ہم لیڈی آفسر کے ذریعے آپ کی وائف کا امیگریشن کروانا چاہتے ہیں۔
امگریشن سے گزرتے ہوئے دانیال نے مومنہ کی دودھیا کلائی مضبوطی سے تھام لی اور مومنہ کے کان کے قریب سرگوشی بھری
رنگریزہ !!
مومنہ نے حیرت سے دانیال کی طرف دیکھا۔اپنے رنگ میں رنگنے والی۔۔۔۔دانیال کی سرگوشی سے مومنہ کے چہرے پر شرمیلی مسکراہٹ سرخی مائل ہوگئی۔
**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...