محمد حامد سراج(میانوالی)
افسانہ نگار کو یہ افسانہ بہت سال پہلے لکھ لینا چاہئے تھا۔
بہت دیر کر دی اس نی
اب تو فضا میں آکسیجن کی جگہ صرف بارود کی بو ہے اور مشرق کی پوری نسلِ انسانی کو اسی بارود کی بو میں سانس کھینچنا ہے۔ہوا کا رخ یہ بتاتا ہے کہ آنے والے دنوں میں فضا میں آکسیجن کی جگہ صرف بارود لے لے گا۔
قلم میں بھی روشنائی کی جگہ اب بارود ہے۔
الفاظ بھی بارود میں ڈھل رہے ہیں ۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایک طالع آزما صدام حسین نے کویت کو تاراج نہیں کیا تھا۔
یہ ان لمحوں کی کہانی ہے جب امریکہ نے کو یت سے عراقی افواج کو نکالنے کے بہانے ابھی دو درجن سے زائد مما لک کے اشتراک کے ساتھ بغداد پر چڑھائی نہیں کی تھی۔
یہ کتھا اس وقت کی ہے جب ابھی ورلڈ ٹریڈ سنٹر سینہ اٹھائے کھڑا تھا۔اس کے انہدام نے دنیا کی کیمسٹری نہیں بدلی تھی۔ابھی ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ملبے سے اٹھنے والے دیو ہیکل جنگی جہازوں نے افغانستان کی ایٹ سے اینٹ نہیں بجائی تھی۔
یہ اس ساعتِ بے اماں سے بھی پہلے کی بات ہے جب نام نہاد اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی دھجیاں اڑا کر امریکہ اور انگلستان نے ہنستے بستے عراق کو ابھی کھنڈرات میں نہیں بدلا تھا۔
یہ اس عہد کی روداد ہے جب ابھی شام‘ایران اور پاکستان کی دیواروں پر جنگی پرندوں کا خوف نہیں منڈلایا تھا۔
اس وقت راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔
یہ ان دنوں کا قصہءِ پارینہ ہے جب اہلِ مغرب بارود تیار کر رہے تھے اور مشرق کی دنیا پرفیوم کی خوشبو میں مدہوش اپنے آپ سے بیگانہ تعیش کی پگڈنڈی پر سرپٹ بھاگی جا رہی تھی۔اسے یہ ہوش ہی نہیں تھا کہ وہ پلٹ کر دیکھتی کہ مغرب پسِ پردہ کیا کر رہا ہے۔
افسانہ نگار تلاشِ روزگار میں کویت کی سلیٹی سڑکوں پرمارا مارا پھر رہا تھا۔
وہ گھر سے ملازمت کی تلاش میں صبح دم نکلتا۔بلندوبالا عمارات کے سامنے اپنے آپ کو بونا محسوس کرتا‘انہی بلندوبالا عمارات میں اسے اپنے حصے کا رزق تلاش کرنا تھا۔وہ جب بڑی بڑی دیو قامت مارکیٹوں میں لمحے بھر کو رکتاتو اس کے دماغ کے خلیوں میں سوالات چیونٹیوں کی طرح ایک قطار باندھ کر چلنے لگتے۔پہلے روز اس
نے ایک ساتھی سے پوچھا تھا
یہ سوق کے کیا معنی ہیں ۔۔۔؟
مارکیٹ کو عربی میں سوق کہتے ہیں ۔
جس سوق سے بھی اس کاگزر ہوتاوہ حیرت اور استعجاب سے ایک ایک چیز کو غور سے دیکھتا۔انسانی تعیش اور آرام کا وہ کون سا سامان تھا جو یہاں میسر نہیں تھا۔مغرب نے سارا سامان عربوں میں انڈیل دیا تھا۔اور ہر چیز کے عوض وہ اپنی معیشت کی بنیاد میں ایسی کنکریٹ ڈال رہے تھے جو ‘ان کی آنے والی نسلوں کو بھی سنوار دے۔کویت کا ہر شہری الف لیلوی دنیا میں رہتا تھا۔وہاں کے عام شہری نے بھی اپنے گھر کو محل میں بدل لیا تھا۔
اونٹ قصہ پارینہ ہو کر صرف ’’ثمونے‘‘میں قیمے کے کام آتا تھا۔وہاں نیرو چین کی بانسری بجاتا تھا۔تعیش ہی حاصلِ زیست تھا۔ہفتہ وار تعطیل کے روز کویت کے ساحل خوبصورت اجسام کی مدہوش کردینے والے نسوانی خوشبو سے مہکتے تھے۔عرب امراء دادِ عیش کے دل دادہ ساحل کنارے ایئر کنڈیشن خیموں میں نوخیز کلیوں کے جسم کے زاویوں میں کھو کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتے۔جسم کی خوشبو انہیں اس حد تک مدہوش کر دیتی کہ وہ بھول ہی جاتے کہ کسی روز کوئی اور نامانوس خوشبو بھی ان کا مقدر ہو سکتی ہے۔
وہ تیل بیچتے اور آرام خریدتے تھے۔۔۔۔
زمین پر ہی انہوں نے جنت بسا لی اور شداد کی جنت کا انجام بھول گئے۔۔۔۔!
افسانہ نگار سارا دن سڑکوں کی خاک چھانتا اور رزق تلاش کرتا تھا۔
وہ رزق کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے جب شاہراہوں سے گزرتاتو اس کے اندر موجود کیمرہ سارے عکس محفوط کرتا چلا جاتا۔وہ سوچتا یہ عکس کیوں محفوظ ہو رہے ہیں ۔۔۔۔؟ یہ سڑے کنارے جوبڑے بڑے نارنجی رنگ کے ڈرم رکھے ہیں ان میں تو کوڑا کر کٹ ڈالا جاتا ہے۔یہ عرب امراء کے محلات میں کام پر متعین خادمائیں کہیں بھولے سے تو ان میں روٹی‘ چاول اور سالن نہیں ڈال جاتیں ۔
ایک دن اس نے جرات کر کے ایک خادمہ سے پوچھ ہی لیا
یہ اتنا بہت سا سالن ‘روٹی اور چاول کا دیگچہ اس ڈرم میں الٹتے ہوئے تمہیں خوف نہیں آتا۔۔۔؟
یہ کام تو میں روز کرتی ہوں
اس خادمہ کے ایک فقرے نے افسانہ نگار کولرزا دیا ‘‘وہ سوچ کی وادی میں جا اترا۔کیا واقعی انسان گناہ کاعادی ہو جائے تو اس کی حسیات مر جاتی ہیں ۔قرآن کا کہا سچ ہے کہ ہم دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں ۔آج اس نے مہر اپنی آنکھوں سے دیکھ لی تھی۔وہ اپنے اندر بھی جھانک رہا تھا۔ کیا قطرہ قطرہ سیاہی دل کو اپنی لپیٹ میں تو نہیں لے چکی۔۔۔؟
اس نے جھرجھری لی۔۔۔
اسے اپنی دھرتی یاد آئی۔اس کے سامنے اس کی دادی کا چہرہ ابھرا ۔اسے اس کی دادی نے روٹی کا ٹکڑا کھانے
کے دوران ہاتھ سے گر جانے پر دوبارہ جھاڑ کر‘ چوم کر کھانا سکھایا تھا۔دسترخوان پر روٹی کے باقی ماندہ ٹکڑے اور ریزے چیونٹیوں کے بِل پر ڈالنے سکھائے تھے کہ یہ ان کا رزق تھا۔بچی کھچی ہڈیاں ایک کونے میں ڈالنی سکھائی گئی تھیں جو گھر کی بلیوں کا حق تھا۔
یہ کام تو میں روز کرتی ہوں ۔۔۔۔۔
خادمہ تو ایک علامت ہے۔یہاں رزق کی بے حرمتی روز کا معمول ہے۔ہائے یہ چاول کے دیگچے‘ یہ روٹیاں اور یہ گوشت کا عمدہ سالن۔۔۔ہائے ہائے۔۔۔ اسے کیوں مٹی میں رول دیا۔کہیں ترتیبِ وقت میں ایسا وقت نہ آجائے کہ ساری قوم روٹی کے ایک لقمے کو ترستی قطار باندھے اپنی باری کا انتظار کھینچ رہی ہو۔افسانہ نگار سوچتا اور کڑھتا رہا۔وہ اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا تھا۔
اس وقت مغرب بارود تیار کر رہا تھا۔۔۔
اور عرب تیل بیچ کر پرفیوم خرید رہے تھے۔
خوشبو دونوں کی مدہوش کر دینے والی تھی۔مغرب بارود کی خوشبو اور مشرق پرفیوم کی خوشبو میں مدہوش تھا۔
اہلِ مشرق اپنی خواب گاہیں مہکا کر سدھ بدھ کھو بیٹھتے اور پرفیوم کی مہین دیوار کے اس پار کا منظران کی نظروں سے اوجھل رہتا۔ان کو یہ فرصت ہی نہیں تھی کہ وہ خبر رکھتے کہ وقت کو کروٹ لینے میں کتنی دیر ہے۔
راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔
آنے والا کل کس نے دیکھا ہے۔۔۔؟
افسانہ نگار بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آچکا تھا۔
اس نے بجلی کی ایک دکان پر اپنے آپ کو مصروف کر لیا۔اسی وطن واپسی کے لئے زادِ راہ کی ضرورت تھی۔اسے معمولی تنخواہ پر ملازمت مل گئی اور وہ اس پر ربِ کریم کا شکر گزار تھا۔اس دکان پر ملازمین کی تعداد چار تھی۔وہ اوزار تھامے سارا دن گاہک کا انتظار کھینچتے۔جیسے ہی کوئی Complaintموصول ہوتی وہ اپنے اوزا رتھامے کام پر نکل جاتے۔ان کو گھر گھر جانے اور کام کرنے سے وہاں کے لوگوں کا بودوباش‘طرزِ رہائش اور انداز واطوار کا تجربہ ہوتا۔افسانہ نگار کو جب حساب کر کے مہینے کی پہلی تاریخ کو تنخواہ دی گئی تو وہ ربِ کریم کے سامنے سر بہ سجود ہو گیا۔گانٹھ لگے سلیپر ایک طرف رکھ کر اس نے نئے سلیپر خریدے۔کپڑوں کا ایک جوڑا‘قلم کاغذ اور دوسری اشیائے ضرورت کا سامان اپنے کمرے میں لا رکھا۔
اسے اس کے ساتھیوں نے محنت جاری رکھنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ایک شاندار مستقبل سامنے کھڑا ہے۔حالانکہ وہ کہیں بھی نہیں کھڑا تھا۔وہ یہ بات ماننے کا تیار ہی نہیں تھا۔جب وہ اس کے اندر نہیں کھڑا تھا تو وہ دوسروں کے کہنے پر کیسے مان لیتا۔
اس کے اندر ایک ہی خواہش بار بار سر ابھارتی کہ وہ اپنے وطن لوٹ جائے۔
کیا اپنی دھرتی پر یہ آسائشات میسر آجائیں گی۔۔۔۔؟وہ سوچتا
ایر کنڈیشن کار ‘بجلی کی ایسی سہولت کہ موسم گرما میں ایر کنڈیشنر دن رات چلتا رہے۔اشیائے خوردونوش کی ایسی فراوانی کہ مہمان کی آمد بھی گراں نہ گزرے۔لیکن مجھے تو یہ سب نہیں چاہئے ‘میں ایسا کیوں سوچ رہا ہوں ۔۔؟
مجھے تو دو وقت کی روٹی چاہئے اور وہ میری دھرتی پر بہت ہے۔اس بنجر صحرا میں تو سایہ دار درخت دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں ۔اس ریگزار میں تو تنہائی نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔یہاں دادی اماں اور نانی اماں کی بوڑھے برگد ایسی ٹھنڈی چھاؤں نہیں ہے۔میرے گاؤں میں تو شرینہہ کا درخت تھا اور یہاں بس کہیں دور صحرا میں جنگلی کیکر کی جھاڑیاں نظر آجاتی ہیں ۔
مجھے سنجیدگی سے لوٹنے کا فیصلہ کرنا چاہئے۔۔۔
افسانہ نگار وطن واپسی کے لئے پائی پائی جوڑتا رہا۔
اور ہزاروں میل کی مسافت پر مغرب بارود جوڑتا رہا۔
اہلِ مشرق سامانِ تعیش جوڑتے رہے۔
افسانہ نگار ایک روز جب اس کی جیب میں وطن کو لوٹنے کا کرایہ تھا۔اس نے واپسی کی راہ لی۔
ابھی اس نے اسلام آباد ایر پورٹ پر زمین کو چوما ہی تھا کہ اسے اپنی پشت پر جہاز کی گڑگڑاہٹ سنائی دی۔وہ سمجھا جہاز نے رن وے پر اپنا رخ تبدیل کیا ہے۔لیکن وہاں تو کئی سال سرک چکے تھے اور وہ لاہور ایر پورٹ پرکھڑا تھا۔۔۔۔!
افسانہ نگار نے سوچا یہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے۔۔۔۔؟
میں ایک ہی جست میں یہاں کیسے پہنچ گیاہوں ۔۔؟
اس نے ایک شخص سے پوچھا
بھائی یہ لاہور ایرپورٹ ہی ہے نا۔۔۔۔؟
ٓآہو ۔۔۔جی۔۔!
لیکن آج اتنا زیادہ رش کیوں ہے۔۔۔؟ کھوے سے کھوا چھل رہا ہے۔
وہ جی عراق پر امریکی حملے کے بعد پاکستانی اپنے گھر آرہے ہیں نا۔۔۔
افسانہ نگار نے اپنے آپ سے سوال کیا ۔۔۔تم یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔۔۔؟
مجھے کیا معلوم میں کیا کر رہا ہوں ۔
تم تو پہلے سے موجود ہو پھر پریشان کیوں ہو۔۔۔؟کہیں اندر بہت گہرے اندر سے آواز آئی ۔
یہاں کوئی بھی موجود نہیں ہے۔جانے کس دیس کو سدھار گئے۔سارے اہلِ دانش‘ سائینس دان‘سیاست دان‘ علماء‘سکالرز‘حکمران اور سرفروش۔۔۔۔!
سب نے بہت دیر کر دی
اور ادھرعراق کے قصبے ناصریہ میں عرقی افواج کتنی دیرامریکی سیلابِ بلا کا مقابلہ کریں گی۔۔۔؟
افسانہ نگار ابھی کابل‘ قندھار اور قندوس کے بارے سوچ ہی رہا تھا۔
کہ اس کی سماعت سے جیو ٹی وی کے عملے کی آواز ٹکرائی
کویت سے آئی ہوئی فلائیٹ سے اترتے مسافروں کو گھیر کر ان سے سوال کئے جا رہے تھے۔
جو وہاں کی سرزمین ہی چھوڑ آئے تھے۔۔۔وہ کیا خبر دیتے۔
وہ تو ایک ہی داستان سنا رہے تھے کہ جب ہمارا جہاز فضا میں بلند ہوا تو ایک ہی خوف تھا ہمیں ‘کہیں کوئی امریکی میزائل ہمارے جہاز کو نہ آلے۔ان کو کیا خبرقندوس‘ قندھار‘مزار شریف ‘ کابل اور قلعہ جنگی جیسے ہولناک ترین واقعات کے بعد اب ناصریہ ‘بغداد ‘ موصل اور کربلا پر کیا گزرنے والی ہے۔۔۔۔؟
وہ تو شانت تھے کہ انہوں نے جان کی امان پائی
اور افسانہ نگار نے باہر نکل کر ائیر پورٹ کی تیز روشنیوں کے درمیان سے آسمان کو دیکھنے کی کوشش کی ۔اس کی نگاہ ناکام پلٹ آئی۔
اچانک اسے ایک خیال آیا۔
اس نے اپنی جیب میں رکھے قلم کو غور سے دیکھا۔شاید اس میں اب روشنائی کی جگہ بارود ہو۔۔۔؟
اس نے قلم جیب سے نکال کر دیکھا۔
بارود تو اپنی جگہ قلم میں تو روشنائی بھی نہیں تھی۔
اس نے قلم جیب میں واپس رکھا۔ایک ٹھندی سانس لی ۔
اس کا جسم تڑخا۔۔۔۔
اس نے فضا میں گہری سانس لی
بغداد میں امریکی ٹینک داخل ہوئے۔۔۔۔
اس نے قلم جیب سے نکال کر دیکھا۔
بارودتو اپنی جگہ ‘قلم میں روشنائی بھی نہیں تھی۔
اس نے قلم جیب میں واپس رکھا۔ایک ٹھندی سانس لی ۔
اور اپنے آپ سے مخاطب ہوا۔۔اور کہا
ا فسانہ نگار تم نے بہت دیر کر دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
٭٭٭
’’شاعری تو ایسی بھی ہوتی ہے جو نعرے ہی کے زورپر چمکتی،گرجتی ہے مگر کہانی ایسی چھوئی موئی ہے کہ نعرے
کا پرچھاواں بھی پڑجائے تو مرجھا جاتی ہے۔پھر کہانی کیا کرے۔ایک طرف جنگ ہے،دہشت گردی ہے،
بنیاد پرستی ہے،کلاشنکوف ہے،ایٹمی دھماکے ہیں،نظریات ہیں،جن کی چھتری میں سرگرمیاں اخلاقی جواز
حاصل کرتی ہیں۔دوسری طرف اس کے خلاف نعرے ہیں،خطبے ہیں،تقریریں ہیں،چکی کا ایک پاٹ وہ،
دوسرا پاٹ یہ۔جمعیت خاطر کی کوئی صورت ہی کہاں ہے۔کہیں نہیں ۔۔۔۔یہ تو وہی سودا والا زمانہ آگیا
اس سے بھی برا۔نئے بٹ مار،نئے قزاق،لوٹے ہیں دن رات بجا کر نقارہ۔نفرت کا بول بالا،حرف محبت
عنقا،کلام نرم و نازک بے اثر۔کیسی شاعری ،کہاں کی کہانی،دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے۔کبیرؔ رویا،
سودا نے زہر خند کیا۔ادھر قلم رک گیا۔اب میں دُبدا میں ہوں۔ اس قسم کی دُبدا جو داستانوں کی کہانیوں
میں وقتاَ فوقتاَ مہم جو شہزادے کو آلیتی ہے کہ پیچھے کھائی،آگے سمندر،نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔پھر کیا
کیا جائے۔بس اچانک خواجہ خضر نمودار ہوتے ہیں کہ میری انگلی پکڑ اور چل۔یا کوئی غیبی آواز آتی ہے کہ
لوح کو پڑھ اور جو اس میں لکھا ہے اس پر عمل کر۔میرے پاس کونسی لوح ہے۔ہاں ہاں ہے۔الف لیلہ۔
میرے پاس یہی لوح ہے۔لوح کہو،فکشن کا اسمِ اعظم کہو۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتظار حسین ۔بحوالہ سہ ماہی توازن مالے گاؤں۔شمارہ ۳۹(مئی تا اگست ۲۰۰۳ء۔ص۱۵۲