تنہائیوں کا جھیلا ہم نے عذاب ایسا
تنہائی قبر کی اب ہم کو ڈرائے گی کیا
فون کی گھنٹی بجی تو فاطمہ احمد منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگی ، چوکی سے اٹھنے کے لیے چولہے کی شیلف کا سہارا لیا، چائے کا کپ اٹھایا اور برآمدے میں رکھے ٹیلی فون کی طرف چل پڑی ٹیلی فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی ۔فون فاطمہ کی بیٹی رابیل کا تھا ۔وہ ذرا ترشی لہجہ میں بولی اماں میں صبح سے مسلسل فون کر رہی ہوں آپ ہیں کہ فون ریسیو ہی نہیں کر رہیں۔ فاطمہ بولی بیٹا میں مصروف تھی کام میں۔
رابیل جلدی سے بولی آپ کام کر رہی تھیں تو کام والی کدھر گئی ہے۔ فاطمہ بولی ثریا کی بیٹی بیمار ہونے کی وجہ سے میں نے اسے ایک ہفتے کی چھٹی دے دی ہے گھر میں کام ہی کتنا ہوتا ہے میں ابھی دوپہر کا کھانا بناؤں تو وہ کئی دن تک چل جائے گا اور ضروت ہوئی تو ڈرائیور سے بازار سے کچھ منگوالوں گی میں کچن میں تھی اس لئے تمہارا فون ریسیو کرنے میں دیر لگی۔رابیل اماں میں نے تو صبح بھی فون کیا تھا۔ فاطمہ بیٹا سب خیریت ہے جو تم نے صبح بھی فون کیا۔
رابیل ہاں اماں سب خیریت ہے یہ پوچھنا تھا کہ کل میرا ڈرائیور رمضان بابا آپ کو شوگر بلڈ پریشر و الرجی کی میڈیسن اور دوسری چیزیں کے ساتھ پھولوں کا بکا بھی دے گیا تھا !
فاطمہ بولی ہاں بیٹا وہ دوائیوں کے ساتھ پھل اور بھنے چنے وغیرہ سب کچھ دے گیا۔بیٹا پلیز یہ پھولوں کے بکے کا تکلف تم دونوں بہن بھائی کیوں کرتے ہو TCS والے کل اسد کا بکا بھی دے گئے تھے۔رابیل اماں یہ تکلف کہاں ہے۔کل مدر ڈے تھا میں مصروف تھی آنہیں سکتی تھی اس لئے ڈرائیو کے ہاتھ بکا بھی بھجوانا پڑااورآج میرا بار بار ٹیلیفون کرنے کا ایک مقصد اور بھی تھا اماں میں آج بازار جا رہی ہوں کچھ شاپنگ کرنی ہے کچھ ضرورت کی چیز لینی ہو تو بتا دیجئے گا ویسے کچھ تو مجھے یاد ہے ایک گرم شال اور کچھ سردیوں کے کپڑے چاہئیں آپ کو، ان کے علاوہ کچھ اور چاہئے تو بتا دیجئے۔
فاطمہ نے کہا نہیں بیٹا تو سدا سکھی رہے مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے ۔تیرے ابا مرحوم نے اپنی زندگی میں گھر اور مجھے وقت دیا ہو یا نہ دیا ہو مگر گھر کی ضرورت کی تمام چیزیں وافر مقدار میں دے گئے ہیں کہ میری اب باقی تمام بچی کھچی زندگی کیلئے وہ بہت ہے۔
رابیل، اماں جیسے مجھے معلوم نہیں آپ ہر سال کوئی کپڑا الماری میں نہیں رکھتیں۔ بلکہ نوکروں میں بانٹ دیتی ہیں۔ فاطمہ ہار مانتے ہوئے اچھا بیٹا اگر تم ضد کرتی ہو تو مجھے وہ چیز لا دو جسکی مجھے ضرورت ہے۔رابیل جلدی سے بولی ہاں ہاں اماں بتائیں تو سہی یہی تو میں آپ سے پوچھ رہی ہوں کب سے ۔فاطمہ بولی رابیل بیٹا شاپنگ سے پہلے یا بعد میں تم میرے پاس تھوڑی دیر کیلئے آجانا مجھے صرف تمہارے ساتھ کچھ پل گزارنے کی ضرورت ہے۔ رابیل اماں یہ کیا بات ہوئی ابھی پچھلے ہفتے ہی تو آپ سے ملنے آئی تھی۔ فاطمہ فون رکھتے ہوئے خود کلامی کرتے ہوئے بولی ہاں ہاں تم پچھلے ہفتے آئی تھی شاید مصروف بیٹی بھول گئی ہے کہ ایک ہفتے میں کتنے دن ہوتے ہیں اور ایک دن میں کتنے گھنٹے اور ایک گھنٹے میں کتنے پل ۔تنہا بیمار ضعیف العمر کیلئے ایک دن بھی صدیوں کے برابر۔۔ فاطمہ کی آنکھوں کے سامنے گزرے ہوئے ماہ و سال پل میں سمٹ گئے۔ فاطمہ کو وہ دن کیسے بھول سکتے تھے جب رابیل چھ سال کی تھی اور اسد دو سال کاتھا کہ فاطمہ کے اکلوتے بھائی کی شادی تھی فاطمہ رابیل کو سکول جانے کی وجہ سے ساتھ نہیں لے کر جا سکتی تھی فاطمہ کیسے بھرے گھر میں رابیل کو چھوڑ کے جانے پر افسردہ تھی۔ کیو نکہ مسٹر احمد کاسختی سے حکم تھا کہ رابیل کے فرسٹ ٹرم کے ایگزام سٹارٹ ہیں رابیل نہیں جا سکتی فاطمہ اکلوتے بھائی کی شادی پر خوش کم زیادہ اْداس تھی آخر دلہن کو گھر لاتے ہی تمام رسمیں چھوڑ چھاڑ کے فوراً گھر واپس آگئی اور آج ساٹھ سالہ ماں کے لئے رابیل کے پاس سب کچھ ہے سوائے وقت کے۔
اسد بھی انگلینڈ میں ماں کا فون پر بڑا خیال رکھتا اسکی ڈاکٹر بیوی بھی باقاعدگی سے ماں کا حال احوال پوچھتی اسد ہر مہینے دو مہینے کے بعد ماں کیلئے کچھ نہ کچھ ٹی سی ایس کرتا رہتا ہر ہفتے باقاعدگی سے ڈاکٹر کو ماں کے چیک اپ کے لئے فون کرتا۔ مگر فاطمہ کی پیدائشی ساتھی تنہائی تھی ۔فاطمہ دو سال کی تھی کہ فاطمہ کی امی فاطمہ سے چھوٹے بھائی کو دْنیا میں لاکے خود دْنیا سے منہ موڑ گئی فاطمہ سے بڑی بہن فہمیدہ نے چھوٹی فاطمہ اور ننھے سے بھائی کی ذمہ داری اپنے معصوم سے کندھوں پر اْٹھائی ۔جب فاطمہ دس سال کی ہوئی اوربہن سے معصوم معصوم سوال کرنا شروع کیے ہی تھے کہ فہمیدہ اپنے پیا کے گھر سدھار گئی۔ زندگی تو ہر حال میں رواں دواں ہی رہتی ہے، یہ بھی قدرت کی نعمت ہے کہ وقت کے سینے میں دل نہیںہوتا۔ فاطمہ نے میٹرک بڑے اچھے نمبروں سے پاس کیا مگر کالج کی بجائے سْسرال کے گھر آگئی۔ فاطمہ کے شوہر احمد حسن فوج میں افسر تھے شادی کے ایک ہفتے بعد ہی وہ واپس اپنی ڈیوٹی پر چلے گئے تھے پھر کبھی دو ماہ بعد کبھی چار ماہ بعد اور کبھی چھ چھ ماہ بعد گھر آتے فاطمہ جس کی رگ رگ میں تنہائی سرائیت کر چکی تھی اب اس نے بھرپور زندگی کے خواب دیکھنا ہی چھوڑ دیئے تھے مگر ایک بار پھر فاطمہ کی ویران آنکھوں نے کچھ پرانے خواب دہرانے شروع کر دیئے۔ فاطمہ کبھی کبھی بڑے غور سے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو دیکھتی اور سوچتی کہ میری زندگی میں کبھی تو تنہائی کو مات ہو گی۔مگر احمد حسن نے ایک ایسا دھماکہ کیا کہ فاطمہ کی روح تک تڑپ اٹھی احمد حسن نے ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی ایک بڑے شہر میں اپنا بزنس اسٹارٹ کر دیا تھا۔ ادھر اسد نے انگلینڈ میں سیٹل ہونے کی اطلاع دے د ی۔ رابیل ایم اے نفسیات کے بعد ایک بہت معزز فیملی میں بیاہی گئی پھر ایک دن احمد سنگاپور جاتے ہوئے آفس اور ایئرپورٹ کے راستے میں ایکسیڈنٹ میں ہمیشہ کیلئے جدا ہو گیامگر اپنے پیچھے ایک پوش ایریا میں بنے دو کنال کے مکان کو چھوڑ گیا۔ جسے عمر بھر فاطمہ نے گھر بنانا چاہا مگر گھر پرآسائش چیزوں سے نہیں، پرخلوص جذبوں سے مکمل ہوتا ہے بظاہر فاطمہ ایک کامیاب خاتون سمجھی جاتی جسکا شوہر اعلیٰ عہدے پر فائز رہا، ریٹائرمنٹ کے بعد کامیاب بزنس مین بن گیا، بیٹا انگلینڈ میں اعلیٰ زندگی گزار رہا ہے جو کہ ماں کا بڑاخیال رکھتاہے، بیٹی بھی فرمانبردار ہے جو ہر طرح سے ماں کا خیال رکھتی ہے۔نوکر چاکر گھر میں ہیں دنیا کی ہر آسائش میسر ہے۔ فاطمہ سے کبھی کسی رشتے نے بھی تنہائی شیئر کرنے کی کوشش نہیں کی فاطمہ احمد جو زندگی کی آخری سیڑھی پرتنہا کھڑی سوچ رہی ہے کہ تنہائی کو مجھ سے دشمنی ہے یا پیار ۔۔جب کسی بھی رشتے کو میرا ساتھ گوارا نہیں ایک تنہائی ہے جو مجھے اپنے ساتھ رکھتی ہے جس کو میرا ساتھ گوارا ہے۔ بچپن، جوانی، بڑھاپا، زندگی کے اتنے روپ اور تنہائی کا ایک ہی روپ ،بچپن سے لے کر بڑھاپے تک بیمار ہونے کی صورت میں اچھی سے اچھی میڈیسن تو مل گئی مگر کبھی کسی رشتے کا لمس نہیں ملا اور جن کو رشتوں کا لمس نہیں ملتا انکے من میں ایک ہی موسم ٹھہر جاتا ہے گہری اْداسی کا عمر بھر کی کڑی مسافت طے کرکے بھی گھر کی بجائے مکان میں مقیم ہونے کا دکھ قبر کی تاریکی سے زیادہ ہولناک ہوتا ہے۔ فاطمہ اپنے دل کی بات کو کیسے زبان تک لائے اور کس کو بتائے کہ آخری عمر میں سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی تجویز کردہ دوائیوں سے زیادہ اپنوں کے ہاتھ کابنا ایک چائے کا کپ کیا اثر رکھتا ہے۔فاطمہ آنکھوں کے کونے دوپٹے سے صاف کرتے ہوئے زیر لب بولی نئے سال یا سالگرہ پر بکا تو بندہ اپنے اس افیسر اور دوست کو بھی دیدیتا جیسے وہ دل میں سخت ناپسند بھی کرتا ہواوراس لڑکی کو بھی دے دیتا جس کے ہاتھ کی بنی چائے کا ایک کپ تک نہ پیا ہو۔
کیا ماں کو بھی اس قطار میں کھڑا کر دیا ہے اس معاشرے کی رسم و رواج نے۔ کیا ماں کے حصے میں پھولوں کے بکے والاصرف ایک مدر ڈے ہی آیاہے۔ بے جان پھولو ں کے ایک بکے سے ماں کی محنت و ریاضت کا یہ اعتراف ہو سکتا ہے؟ یہ تو ماں کے ایثار، قربانی اور ممتا کی توہین ہے فاطمہ خود کلامی کرتے ہوئے بول رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...