کیا تجھے میرے وجود کا احساس ہے۔میں اپنا تعارف کروانے ،تجھے اپنے ہونے کا احساس دلوانے تیرے گھر تک آیا تھا۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جتناانسان اپنے بارے میں سوچے اتناہی پریشان ہوتا ہے۔جتنا تیرے بارے میں سوچے، اتنا ہی الجھتا ہے۔ میں اپنی حقیقت کی تلاش میں ہوں۔
میری زندگی ایک کھسیانی ہنسی ہے۔ہے بھی اور نہیں بھی۔
وہ خدا سے بحث کرتا ہوا اپنے محلے کا گندہ نالا پھلانگ کر شہر کی شاہراہ کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا بازار کی طرف جانے والی فٹ پاتھ پر آگیا۔
تین مرلے اور کنالوں کے علاقوں میں بٹے انسان۔
کتنا فرق ہے سڑک کے اس پار اور اس پار میں۔لوگوں کے لباس میں ان کی سوچوں میں۔ہر اک نے زندگی گزارنے کے لیے اپنا اپنا معیار مقرر کر رکھا ہے۔اپنی اپنی سوچ پال رکھی ہے۔بڑے بڑے خو نخوار رکھوالے قیمتی کتوں کی طرح۔ہر شخص دوسرے کو اپنے ہی پیمانے سے تولتا اور اپنے ہی چشمے سے دیکھتا ہے۔
تو پھر میرا معیار کیسا ہونا چاہے۔ مجھے کیسا ہونا چاہے۔ اس نے خود سے باآواز بلند سوال کیا۔
ساتھ سے گزرنے والے نے حیران ہو کر پوچھا۔ آپ نے مجھ سے کچھ کہا کیا؟
ہوں۔ہاں۔ وہ ابھی تک اپنے آپ سے مخاطب تھا۔ میں پوچھ رہا ہوں کہ مجھے کیسا ہونا چاہیے۔
راہ گیر نے اسے اپنے پیمانے سے تولا اپنے چشمے سے دیکھا۔ اور ترس کھاتی نظروں کی بھیک اس کی کشکول میں ڈال کر تیزتیز قدموں سے آگے نکل گیا۔
مجھے کم از کم ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اس نے سر کو زور سے جھٹکا دیا اور اس کی دی ہوئی بھیک کو اپنی دانست میں گھما کر سڑک پر پٹخ دیا۔ا ور اس کے پاس پہنچ گیا۔ جس کی تلاش میں اس پار آیا تھا۔
وہ وہیں اپنی مخصوص جگہ پر رنگ برنگی پوشاک پہنے،گرد میں اٹا آنکھیں بند کیے بیٹھا مسکرا رہا تھا۔
وہ شرمندہ شرمندہ ٹوٹا ٹوٹا اس کے برابر بیٹھ گیا۔
اس نے سر گھمائے بغیر کن اکھیوں سے اس کو دیکھا
بابا کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا کو میرے وجود کا احساس ہے؟
وہ مسکرایا اور بولا ۔ کب تک اس سوال کا جواب تلاش کرتے رہو گے؟
وہ الجھ گیا۔ ۔۔۔۔اچھا بابا بتائو کیا تم سمجھتے ہو کہ اس کو تمھارے ہونے کا احساس ہے؟
آخر تم اس سوال کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو۔۔۔ کیا ابنِ منصور بننا چاہتے ہو؟
ابنِ منصور۔ ارے بابا اس نے تو اپنی ذات کی گلیوں میں تلاش کے سفر کو مکمل کر لیا تھا۔اسے روشنی مل گئی تھی۔ اسے زہر پینا آگیا تھا۔ میرے اندر تو اندھیرا ہے ،کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ گھٹن ہے۔
بالکل اس طرح جس طرح میرے باہر کے ماحول پر ہے۔
چلو اچھا ہے۔ ابنِ منصور بن گئے تو سولی ہی ملے گی ۔ بابا نے شرارت سے کہا
اوہوں ۔ یہ بے نور چہرے اور بے نور آنکھوں والے چلتے پھرتے مردے۔ دیکھو بابا ان سڑک سے گزرتے تمام لوگوںکودیکھو۔لگتا ہے ان کے اندر بھی اندھیرا ہے۔ لیکن یہ میری طرح پریشان نہیں نظر آتے۔ کیوں؟ اور تم بابا تم اپنے اندر کیا پاتے ہو۔ کیا تم بھی پریشان ہو؟ اس نے بچوں کی طرح مچل کر سوال کیا۔
بابا نے مسکراتی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ روشن تھیں۔جگمگاتی ہوئی ،بچے کی طرح مکمل ہنستی ہوئی آنکھیں۔میں بھی تری طرح تھا۔ بہت لڑتا تھا خود سے بھی اور وقت سے بھی۔ سب سے مقابلہ، بحث مباحثہ کرتا تھا۔ سوائے شکست کے کچھ حاصل نہ ہوا۔پھر میں نے انسانوں کے بجائے کتب کا پیچھا شروع کیا۔اورایک سمندر میں اتر گیا۔ ایک دن میں نے خود کو اپنے سامنے بٹھا کر اپنی خودی کو آزاد کر دیا شکست تسلیم کر لی۔ تیری بھی ساری جستجو،ساری سعی لا حاصل ہے۔ شکست مان لے۔ مزا شکست میں ہے۔جھکنے میں ہتھیار ڈال دینے میں۔
نہیں میں تمھاری طرح بھکاری نہیں بن سکتا۔ وہ تلملا گیا۔
چھن چھنا چھن ۔ وقفے وقفے سے چھن چھن سکے گرنے کی آواز۔
سن رہے ہونا۔ یہ میں مانگ نہیں رہا۔ وہ دے رہا ہے۔دیکھ اسے میرے وجود کے ہونے کا احساس ہے۔
مگر میں ان چلتی پھرتی لاشوںسے بھیک نہیں۔ اپنے وجود کا احساس دلا نے کے لیے خودی کو مٹانا ۔نہیں۔وہ لرز ا۔
بابا مسکرا مسکرا کر اس کی اس کیفیت کے مزے لے رہا تھا۔
اس نے اک دم تجسس سے بھرپو رلہجے میں پوچھا۔
بابا تم نے اپنے اندر کے انسان سے کیسے مقابلہ کیا۔کیسے توڑا خود کو۔ اپنے آپ کو ہرا دیناتو بالکل طلسماتی کہانی لگتی ہے۔جیسے ایک نازک سی بے بس شہزادی کسی دیو کو ہرا دے۔
ہاں یہ ایک مشکل جنگ ہوتی ہے۔ اپنی سوچوں، انائوں ،خودداریوں کو دبا نا،ضمیر اور خواہشات کی فوج سے جنگ ۔
یہ جو انسان کے اندر کی دنیا ہے نا۔یہ شعور، لاشعور،احساس، شرم ،غیرت لالچ خوف نجانے کن کن دھاگوں سے مل کر بنی ہوتی ہے۔ہر ایک دھاگے کو ایک ایک کر کے کاٹنا پڑتا ہے۔ہر مرحلہ مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔آسان کچھ بھی نہیں ہے میرے بچے ،ہر مرحلہ سالوں پر مشتمل ہوتا ہے،ایک دن میں فوراٌ کچھ نہیں ہو تا،فوراٌ تو بس موت آتی ہے ۔
وہ ہی آجائے نا۔۔ وہ بھی نہیں آتی۔
موت ادھورے پن کا دوسرا نام ہے۔ادھورا رہنا چاہتا ہے۔ہا ر کر کیا منہ دکھائے گا اسے۔
چھن چھن ۔ چند سکے اس کے سامنے بھی ا ٓگرے۔
آج کل کے فقیر بھی ماڈرن ہوگئے۔ٹی شرٹ اور جینز۔
چند کھنکھناتے ہوئے قہقہے اس کے وجود میں گولیوں کی طرح دھنس گئے۔اس کی ذات کے سارے دھاگے تن گئے۔اس تنائو سے اس کی آنکھوں میں آنسو چمک گئے۔
تو اپنے اندر والے کو نظر انداز کرنے کی کو شش شروع کردے۔
میں اپنے اندر والے کے دکھ سے بھلا کیسے بے خبر ہو سکتا ہوں۔ دیکھو وہ میری انکھیں استعمال کرتا ہے۔میرے دماغ کو مال مفت کی طرح روندتا ہے۔میرے دل کو میرے سینے میں نوچتا ہے ۔مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔
اس نے سامنے پڑا پتھر اٹھا کر زور سے کھمبے پر دے مارا۔کھمبے کی زبردست چیخ اور پتھر کی بے تحاشہ کرچیوں نے اس کے اندر کے تنائو کو کچھ کم کر دیا۔۔۔۔۔بابا بولا:زندہ رہنے کے تین طریقے ہیں۔دوسروں کو مارنا شروع کر دو۔اپنے اندر والے کو قتل کردو۔یا کسی سے قتل کر والو۔
مگر میں ان سب لوگوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ان کے ساتھ ان کی طرح مل جل کر خوش رہنا چاہتا ہوں۔سب کو خوش بھی رکھنا چاہتا ہوں۔
مشکل ہے مشکل۔ ہا ہا ۔ہاہاہا۔ بابا ہنستا چلا گیا۔
وہ جھنجھلا کر ناکام و نامراد لڑکھڑاتے قد موں سے بازار کی چھوٹی گلی میں مڑ گیا۔
وہ بابا کی ہنسی نہیں سننا چاہتا تھا۔مگر اس کے اندر والے نے یہ ہنسی اپنے اندر ریکارڈ کرلی۔
ا س کی ہنسی کے ساتھ اس نے اپنی گھس گھس کرتی طنزیہ ہنسی بھی شامل کر لی تھی۔
جب تم میرے ساتھ نہیں چل سکتے تو مجھے زندہ کیوں رکھنا چاہتے ہو۔اب اندر والے کے سوالات کی باری تھی۔
میرے ساتھ مل کر چلو۔دیکھو ان سجی ہوئی دوکانوں کو، خوش حال لوگوں کو۔ حاصل کر سکتے ہو تم بھی یہ۔صرف اک جھوٹ سے، اک ذرا سی زیادتی سے،اک تھوڑی سی چوری سے۔
اندر والے نے ہمیشہ کی طرح سرگوشیاں شروع کر دیں۔
مگر یہ گناہ ہے۔جو چیز میری نہیں وہ کیسے لے لوں۔
ڈرپوک۔ بزدل
بکواس مت کرو۔ بکواس مت کرو۔ وہ زور زور سے چلا رہا تھا۔
ایسے پاگلوں کو کھلے عام چھوڑنا، اس سے بڑی کسی حکومت کی غیر ذمہ داری کیا ہو گی۔
اس کے قریب کھڑے دو سمجھدار اور مدبر شہری فکرمندی سے کہہ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...