خزاں رسیدہ سہی پھر بھی میں اگر چاہوں
جہاں نگاہ کروں اک نئی بہار اُگے
میں سوتیلے جذبوں کے عذابوں سے گزرتاہوں کہ مجھے اپنا سفر مکمل کرنا ہے۔
میں کسی صحرا میں پیاس کی شدّت سے ایڑیاں رگڑ رہاہوں۔
اور مامتا کی ماری میری ماں پانی کی تلاش میں ہلکان ہوتی پھر رہی ہے۔
میں کسی اندھے کنوئیں میں گراپڑا ہوں۔
اور میرے بھائی ان سوداگروں سے بھی میری قیمت وصول کررہے ہیں جو کچھ دیر بعد مجھے اس کنوئیں سے نکالیں گے اور غلام بناکرلے جائیں گے۔
میں کسی جنگل میں بَن باس کے دن گزار رہاہوں۔
مری بیوی مجھے ہرن کاشکار لانے کے لیے کہتی ہے۔ میں ہچکچاتا ہوں مجھے معلوم ہے اس کے بعد کیا ہوگا مگر پھر میں بیوی کی خواہش پوری کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہوں۔
٭٭٭
میں کہ سوتیلے جذبوں کاشکار ہوں۔
میری تاریخ کے سفر کا ایک حصہ مکمل ہوگیاہے ’’لچھمن ریکھا‘‘ عبور ہوتے ہی تاریخ کے سفر کا دوسرا حصہ شروع ہوگیاہے۔ میں کسی غیبی امداد کا منتظر ہوں۔
میں اندھے کنوئیں سے نکال لیاگیاہوں۔
مگر میں ابھی تک اندھے کنوئیں میں ہوں کہ زلیخامیرے تعاقب میں ہے اور میں گناہ کے اندھے کنوئیں سے نکلنے کے لئے مسلسل دوڑ رہاہوں۔
پیاس کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیاہے۔
اور میری ماں جو دوڑتے دوڑتے تھک کر چُور ہوگئی ہے۔ ابھی تک پانی کی تلاش میں سرگرداں ہے اس کے اپنے ہونٹوں پر پیاس کی پپڑیاں جم گئی ہیں۔ مگر دور دور تک کسی قافلے کے آثار نظر نہیں آتے۔
میری بے گناہی۔۔۔ میری نیکیاں دنیا نہیں دیکھتی اور میں تہمتوں کی زد میں ہوں۔
میں اذیت میں ہوں کہ میری ماں ابھی تک میری خاطر پانی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
وہ جو بادشاہ زادی ہے۔ میرے سوتیلے بھائی اسے لونڈی اور مجھے لونڈی کا بیٹا کہتے ہیں۔
میں دکھ میں ہوں کہ حاکم کی بدکاربیوی مجھے میری نیکی کی کڑی سزا دلواتی ہے۔
میں قید میں ہوں کہ بدکاری کی تہمت مجھ پر عائد کردی گئی ہے۔
اور میراسینہ تنگ ہوتاہے کہ میری پاک دامن بیوی پر بدکاری کا الزام عائد کیاگیاہے۔
یہ سارے جھوٹے الزام اور تہمتیں وہی لگارہے ہیں جو خود بدکار ہیں۔ جو میرے سوتیلے عزیز ہیں۔ وہ میرے گردسوتیلے جذبوں سے جھوٹے الزامات اور تہمتوں کا ایندھن جمع کررہے ہیںتاکہ اس میں نفرتوں کی آگ لگاکر مجھے بھسم کرڈالیں۔میں اس آگ سے بچنے کے لئے دعاکرتاہوں کہ میں بے حد کمزور ہوں۔
٭٭٭
میں وہی ہوں کنواریاں جس کے لیے ہزاروں برس سے انتظار کررہی تھیں۔
اور میں وہی ہوں۔۔۔۔۔چاند، سورج اور ستارے جس کے آگے سجدہ ریز ہوں گے۔
اور میں وہی ہوں جو اپنے باپ کے تخت کاحقیقی وارث ہے۔
مگر میں سوتیلے جذبوں کا شکار ہوں۔
میں سوچتا ہوں۔
میں کن امتحانوں آزمائشوں اور ابتلاؤں سے گزررہاہوں؟
میری پاکدامن بیوی کی صفائی کون دے کہ میرا واسطہ بدکاروں سے ہے جو اپنی برائیاں چھپانے کے لئے دوسروں پر تہمتیں عائد کرتے ہیں۔
اور میری اپنی صفائی کون دے کہ میں اب بھی گناہ پر آمادہ ہوجاؤں تو وہی عورت میری بے گناہی کی گواہی دے کر مجھے چھڑالے جائے گی جس نے مجھے اس حال تک پہنچایاہے۔
اورمیری ماں۔۔۔۔بادشاہ زادی۔۔۔۔ جو میری حالت نہیں دیکھ سکتی اور اس کی بے قراری دیکھ کر میرا اپنا دِل خون ہوتاہے اور میں پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ ایڑیاں رگڑنے لگتا ہوں، وہ کب تک پانی کی تلاش میں پہاڑیوں کا سفر کرتی رہے گی۔
٭٭٭
سوتیلے جذبوں سے جھوٹے الزامات اور تہمتوںکا ایندھن میرے چاروں طرف جمع کیاجاچکاہے اس ایندھن کے انبار پہاڑوں کی بلندیوں تک پہنچتے ہیں۔
وہ صحرا جس میں،میں ابھی تک پیاس کی شدت سے ایڑیاں رگڑ رہا ہوں اور میری ماں پانی کی تلاش میں چکراتی پھر رہی ہے،
اور وہ اندھا کنواں جس میں مجھے ڈالاگیاتھا اور وہ جیل جس میں ،میں اس وقت قید ہوں،
اور وہ جنگل جس میں مجھے اپنے بن باس کے سارے دن گزارنے ہیں،
سب اس ایندھن کے حصار میں آگئے ہیں۔ ایندھن کے اس حصار کی دوسری طرف میرے سوتیلے عزیز جشن منارہے ہیں، میری تضحیک کررہے ہیں، قہقہے برسارہے ہیں۔ اور وہ لمحہ قریب آتاجارہا ہے جب وہ اس ایندھن میں نفرت کی آگ لگائیں گے۔آگ چاروں طرف پھیل جائے گی۔ تب یہ صحرا، یہ اندھا کنواں، یہ جنگل اور میں ۔۔۔ میری بے گناہی اور سچائی کے سارے نشان اس آگ میں جل کر فناہوجائیں گے۔ مٹ جائیں گے۔ اور میرے سوتیلے عزیزوں کے سوتیلے جذبوں کے ظلم کا کوئی ثبوت باقی نہیں رہے گا۔ تب میرے سوتیلے عزیزاپنی مرضی کے مطابق میری تاریخ لکھیں گے، تب وہ اطمینان سے لکھیں گے کہ:میں بدکارتھااور میری بیوی بھی بدکار تھی اور میری ماں لونڈی تھی۔۔۔ مگر میرا باپ؟
٭٭٭
میں پھر سوچنے لگتاہوں
میں جو صحرا میں پیاس کی شدت سے ایڑیاں رگڑ رہاہوں۔ ابراہیم کا بیٹا ہوں۔
اور میںجو جرم بے گناہی میں قید بھگت رہاہوں، ابراہیم کا پوتاہوں۔
اور میں جو جنگل میں بن باس کے دن کاٹ رہا ہوں۔ میں بھی ابراہیم کی آل سے ہوں کہ سچ کی راہ
پر چلنے والے اور ظلم کو صبر کے ساتھ برداشت کرنے والے ابراہیم کی آل میں شمار ہوتے ہیں۔
میں وہی ہوں کنواریاں جس کے لئے ہزاروں برسوں سے انتظار کررہی تھیں۔
اور میں وہی ہوں۔۔چاندسورج اور ستارے جس کے آگے سجدہ ریز ہوں گے۔
اور میں وہی ہوںجو اپنے باپ کے تخت کا حقیقی وارث ہے۔
میں سوتیلے جذبوں کاشکار ہوں۔
میرے سوتیلے عزیز تاریخ کو جتنا مسخ کرلیں مگر وہ میرے باپ کا نام کیوں کرمٹاسکیں گے۔ کہ پھروہ خود بھی بے شناخت ہوجائیں گے۔
میں ابراہیم کا بیٹا ہوں۔
میں ابراہیم کا پوتا ہوں۔
میں آل ابراہیم سے ہوں۔
آگ ابراہیم کے لئے گلزار ہوگئی تھی تو مجھے کیونکر نقصان پہنچاسکے گی۔
’’آگ سے ہمیں مت ڈراؤ یہ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے۔‘‘
یہ آسمانی آواز مجھے یقین دلاتی ہے کہ میری ایڑیوں کی رگڑ سے ایک چشمہ پھوٹ بہے گا اور اس کا پانی میری مدد کو آئے گا۔
مجھے جس اندھے کنوئیں میں گرایاگیاتھا آسمان سے اس میں اتنا پانی اترے گا کہ وہ کنواں چھلک پڑے گا اور بحر ہند کاٹھاٹھیں مارتا پانی سیلاب بن جائے گا۔
اور پھر سوتیلے جذبوں سے جھوٹے الزامات اور تہمتوں کے ایندھن میں بھڑکائی ہوئی نفرتوں کی ساری آگ بجھ جائے گی۔
٭٭٭
میرے سوتیلے عزیزوں نے نفرت کی آگ لگادی ہے۔ اس آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ میرے چاروں طرف آگ پھیلی ہوئی ہے۔۔۔ سوتیلے جذبوں کی آگ۔۔۔۔۔ مگر میں دیکھتاہوں کہ:
میرے بن باس کے دن ختم ہوچکے ہیں۔ میرا حق میرا تخت مجھے مل گیا ہے اور میری بیوی کی پاک دامنی کی شہادت خود تاریخ دے رہی ہے۔
میں دیکھتا ہوں کہ:
میری قید کی مدت ختم ہوگئی ہے۔ اور میں ایک اعلیٰ منصب پر سرفراز کیا گیا ہوں۔ اور چاند سورج اور ستارے میرے حضور سجدہ ریز ہیں۔
اور میں دیکھتا ہوں کہ:
تپتے ہوئے صحرا میں میرے ایڑیاں رگڑنے سے ایک چشمہ پھوٹ بہاہے ۔مری ماں کے چہرے پر خوشیوں اور مسرتوں کانور پھیلا ہوا ہے۔ وہ جو کسی قافلے کی امداد کی منتظر تھی اب ہزاروں قافلے اس کی مدد کے محتاج ہیں۔ اور اس بادشاہ زادی کو ایک نئی بادشاہت مل گئی ہے۔ اور ہزاروں برس سے میرا انتظار کرنے والی کنواریاں ،میرے گلے میں ڈالنے کے لئے اپنے ہاتھوں میں پھولوں کے ہار سجائے میری آمدکے گیت گارہی ہیں۔
اور میں یہ بھی دیکھتاہوں کہ بحر ہندکاٹھاٹھیں مارتاہواپانی، آسمان سے اندھے کنوئیں میں اترکراور پھر باہر چھلک جانے والا پانی اور میری ایڑیوں کی رگڑ سے پھوٹ بہنے والے چشمے کاپانی۔۔۔۔۔ سب میری آنکھوں میں اتر آئے ہیں۔
سوتیلے جذبوں سے بھڑکائی ہوئی نفرتوں کی آگ بجھتی جارہی ہے اور اس آگ کے دوسری طرف میرے تمام سوتیلے عزیز حیرت اور خوف سے اس منظر کو دیکھ رہے ہیں۔
میں آگ کے مکمل طورپر بجھنے کا انتظارکرتاہوں۔
میں انتظار کرتاہوں جب تھوڑی دیر بعد میرے سارے سوتیلے عزیز مجرموں کی طرح میرے سامنے پیش ہوں گے۔
اور میں اس وقت کے آنے سے پہلے ہی اپنا فیصلہ لکھنے بیٹھ جاتاہوں۔
’’ لا تثریب علیکم الیوم۔۔۔۔۔‘‘٭
٭ترجمہ:آج کے دن تم سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔
٭٭٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...