جس بچے کو اُس کی ماں نے اپنانے سے انکار کر دیا تھا وہ اب راحت کی گود میں تھا۔بقول راحت کے وہ ایک جگہ واقع ایدھی سینٹر کے قریب سے گزر رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک عورت تیزی سے ایک آٹورکشہ سے اُتری اور کوئی چیز جلدی سے ایدھی سینٹر کے باہر نصب کیے گئے جھولے میں ڈال دی۔ راحت کہتا ہے کہ اس سے رہا نہ گیا۔ اور اس نے جاکر عورت سے تیز لہجے میں پوچھا یہ کیا کر رہی ہو؟ عورت گھبرا گئی اور بولی کسی کا بچہ ملا تھا جو اس نے جھولے میں ڈال دیا ہے ۔ راحت نے اُسے جھٹ سے اٹھا لیا اور دیکھا کہ ایک کپڑے میں لپٹی ایک معصوم سی بچی ہے۔ عورت تو دیکھتے ہی دیکھتے ہوا ہوگئی۔ یعنی جس آٹو رکشہ میں آئی تھی اسی میں جا کر بیٹھ گئی اور رکشہ ڈرائیور نے زن سے رکشہ چلا دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے رکشہ غائب بھی ہوگیا مگر راحت کے قدم تو جیسے وہیں جھولے کے پاس جم کر رہ گئے تھے۔ بچی اس کی گود میں تھی جو اب زاروقطار رو رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ ایدھی سینٹر کا کوئی ملازم آئے اور بچی کے بارے میں کوئی سوال کرے، راحت وہاں سے چل دیا۔ راحت کہتا ہے کہ اس نے اس معصوم سی بچی کا نام ’حور‘ رکھ چھوڑا ہے کیونکہ یہ ہے ہی حوروں جیسی جو اُسے آسمان سے ملی ہے۔ حیرت اس امر پر ہے کہ پہلے تو راحت نے کسی لڑکی سے محبت کی تھی اور جب محبت کو پانے میں ناکامی ہوئی تو اس نے عمر بھر شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس پر اس کے گھر والوں کا اتنا دباﺅ بڑھا کہ وہ اپنے شادی نہ کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوگیا۔ شادی کی حامی تو اس نے بھر لی لیکن ایک شرط رکھ دی اور وہ شرط یہ تھی کہ وہ شادی کرے گا تو کنیز نامی ایک خاتون سے جو اسی کے محلے میں رہتی تھی اور کچھ عرصہ قبل ہی بیوہ ہوئی تھی۔ کنیز ایک سات سالہ بچے کی ماں تھی۔ ارشد بہت پیارا سا بچہ تھا اور کنیز کے پہلے شوہر کی نشانی تھا اس لئے کنیز نے یہ شرط عائد کی کہ وہ راحت سے اس صورت میں شادی کرے گی کہ راحت اس کے بیٹے ارشد کو بھی اپنے ساتھ رکھنے پر رضا مند ہو۔ راحت نے یہ شرط قبول کرلی مگر یہ ایک عجیب واقعہ رونما ہوگیا کہ راحت ایک بچی کو اپنے گھر لے آیا۔ ایک ایسی بچی جس کے بارے میں کسی کو پتہ نہ تھا۔ بس یہی بتایا گیا کہ ایک عورت اس پھول سی بچی کو ایک ایسے جھولے میں ڈال رہی تھی جو لاوارث بچوں کے لئے نصب کیا گیا تھا۔ بچی کا نام راحت نے خود ہی تجویز کر دیا تھا اور اس کے بلکنے پر خود راحت بھی بلک اٹھتاتھا۔ وہ اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھنے لگاتھا۔ لوگ کہتے ”تم یہ کہاں سے اٹھا لائے ہو“۔ وہ جواب دیتا بس مجھے یہ حور آسمان سے ملی ہے میں اسے اپنا نام دوں گا اور اپنی ہی بیٹی سمجھ کر اس کی پرورش کروں گا۔“راحت کے گھر والوں کو اس بات کی فکرتھی کہ کہیں کنیز اس بچی کے مسئلے پر کوئی طوفان نہ کھڑا کر دے اور شادی سے انکار نہ کردے۔ گھر والوں کا کہنا تھا کہ راحت پہلے ہی مشکل سے شادی پر رضامند ہوا ہے اور اب اگر کنیز نے شادی سے انکار کیا تو راحت کو پھر سے شادی سے بھاگ جانے کا راستہ مل جائے گا۔ اس خدشے کے پیش نظر کئی لوگوں نے راحت کو مشورہ دیا کہ بچی کو واپس اسی جھولے میں ڈال آئے جس سے وہ اسے اٹھالایاتھا مگر راحت یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اس بچی کو کسی بھی قیمت پر خود سے جدا نہیں کرے گا۔ کیوں کہ اس نے اس کی وہ چیخیں سنی تھیں جو جھولے میں ڈالتے وقت بلند ہوئی تھیں اور وہ ان چیخوں کو کبھی بھول نہیں سکتا۔ اس کا کہنا تھا کہ ان چیخوں کا ازالہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ حور کو اپنی سگی اولاد کی طرح پال پوس کر بڑا کرے اور اسے معاشرے میں ایک بلند مقام دلوا ئے۔ لوگوں کو اس کی یہ منطق تو سمجھ میں نہ آئی البتہ وہ اس بات سے خوفزدہ ہوگئے تھے کہ کہیں کنیز اب اس نئی صورتحال میں راحت سے شادی کرنے سے انکار ہی نہ کر دے۔ خیر راحت کے کچھ قریبی عزیز ہمت کر کے کنیز کے گھر جا پہنچے کہ اسے موجودہ صورتحال سے آگاہ کر کے راحت کے ساتھ اس کی شادی کی رضامندی کے فیصلے پر اعتماد میں لیں، مگر لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہیں پتا چلا کہ کنیز اپنے اکلوتے بیٹے کے ہمراہ یہ شہر ہی چھوڑ کر جا چکی ہے۔ کنیز کا کوئی قریبی یا دور پرے کا رشتے دار بھی اس محلے میں نہیں رہتا تھا۔ سو لوگ ناکام واپس آئے اور جب راحت کو اس امر سے آگاہ کیا تو اس کا رد عمل کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ اس نے کہا۔ ”مجھ سے بھی تو بڑی خیانت ہو گئی تھی، سزا تو ملنا ہی تھی۔“ کچھ لوگوں نے جب استفسارکیا تو وہ بولا ”میں نے جس جھولے سے بچی اٹھائی تھی وہ میرا نہیں تھا اور اُسے اٹھانا خیانت کے مترادف تھا۔ اور ہر خیانت کی ایک سزا ہوتی ہے۔ پھر وہ بڑبڑانے کے انداز میں بولا ”مگر یہ سزااُ س سزا سے کم ہے جو میں کنیز سے شادی کرکے اٹھاتا۔“
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...