شمس الرحمن فاروقی نے اپنی مذکورہ کتاب میں لکھا ہے کہ ’ہر افسانے کا کام حقیقت کا التباس پیدا کرنا ہے ‘لیکن ایسا کرنے سے افسانے سے دلچسپی کے عنصر کے اخراج کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔اسی طرح ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کیا افسانہ واقعہ کی نقل ہے یا پھر وہ واقعہ ہے ؟یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس کی چھان بین کیے بغیر افسانے کے بارے میں کوئی نظریہ قائم نہیں ہو سکتا۔
اولاً حقیقت کا التباس کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ ایک مختلف پیرائے میں افلاطونی فلسفہ عینیت کی جگالی ہے۔ فکشن کی تنقید میں یہ نظر یہ اب متروک ہو چکا ہے۔اب کیا، فلسفیانہ مباحث میں فن اور حقیقت پر تنقید کرتے ہوئے خود افلاطون کے شاگرد ارسطو نے نظریہ عینیت کو رد کر دیا۔خود سوچیے کہ نظریۂ عینیت اور حقیقت کے التباس میں بنیادی فرق کیا ہے ؟ حقیقت یکتا ہے، منفرد ہے۔ایسی صورت میں حقیقت کی التباسی شکل کیا ہو گی ؟ ظاہر ہے وہ کچھ بھی ہو حقیقت نہیں ہو گی۔ افلاطون کہتا ہے حقیقت ایک ہے جو عالم عین میں موجود ہے اور دنیا اس عالم عین کا پرتو یا التباس ہے اور فنکار اس نقل کی نقل کرتا ہے۔افلاطون کے نزدیک فن اصل کی نقل کی نقل ہے۔ایسے میں اگر کوئی نقاد افسانے کو حقیقت کا التباس کہتا ہے تو وہ کون سی نئی بات کہہ رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ افسانہ خلاؤں میں سفر کرنے والی شے نہیں۔ اس کے پاؤں زمین پر ٹکے ہوتے ہیں۔ اسے اپنے قاری سے براہ راست سروکار ہوتا ہے۔ایسی صورت میں حقیقت یا حقیقت کا التباس پیدا کرنے کی بات نہ بھی کی جائے تو بھی افسانے سے نتیجہ یہی سامنے آئے گا۔ ایک فن کار کبھی بھی کچھ تحریر کر رہا ہوتا ہے تو وہ اپنے باطن میں سفر کر رہا ہوتا ہے، اس کی آنکھیں، اس کا دل، اس کا شعور و لاشعور خارجی دنیا سے واقف ہوتا ہے۔ اس کا شخصی ارتقا باطن اور خارج کے خمیر سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ وہ ایک حساس شعور رکھتا ہے۔ اسے کسی بھی لمحے میں اچھا برا کچھ بھی سوجھ سکتا ہے اور اس کے لاشعور کا حصہ بن سکتا ہے لیکن اسے اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اسی لیے جب وہ کوئی افسانہ لکھنے بیٹھتا ہے تو اسے خود بھی علم نہیں ہوتا کہ ساری معلومات کہاں سے خود بخود وارد ہو رہی ہیں۔ ماضی بعید کے سنے، پڑھے، بیتے قصے لاشعور سے چھلانگ لگا کر باہر آ جاتے ہیں اور افسانے کی تکمیل کے لیے خود کو پیش کرتے ہیں۔افسانے میں جھوٹ کچھ بھی نہیں ہوتا، در اصل یہ سچ کے بے شمار ٹکڑے ہی ہوتے ہیں جوافسانہ نگار کے لاشعور میں بکھرے پڑے رہتے ہیں۔ لاشعور انھیں کہیں نا کہیں سے جمع کرتا ہے اور بہت سارے واقعات کے جزوی عناصر تشکیل پا کر ایک کہانی کی شکل لے لیتے ہیں۔ اس عمل کے بعد جو کہانی تشکیل پاتی ہے وہ بھی کہیں نا کہیں، کبھی نا کبھی ایک حقیقت رہ چکی ہوتی ہے۔
یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قطعی طور پر حقیقت نگاری وہ ہے جسے انسانی آنکھ اپنے دیگر حواس خمسہ کی مدد سے دیکھ سکتی ہے اور اس کی تفہیم بظاہر نظر آنے والی ان تمام اشیاء کے حوالوں سے کی جا سکے۔ لیکن جب ایک ادیب کسی افسانے کو خلق کرتے وقت اپنے تخیل کی لامتناہی لہروں پر تخلیق کے عمل سے گزرتا ہے تو اسے ایک ٹھوس شکل دینے کے لیے انسانی زندگی کی حقیقی کہانی، اس کے کردار، مناظر، جذبات وغیرہ کو اس خوبصورتی سے ڈھالنا ہوتا ہے کہ وہ افسانہ حقیقت سے قریب تر ہو جائے۔ اگر اس میں کہیں تکرار نہ ہو اور کہانی مسلسل آگے بڑھتی رہے تو افسانہ اپنے انجام تک پہنچ کر کامیاب ہو جاتا ہے اور قاری کے دل کو نہ صرف موہ لیتا ہے بلکہ اس کے دیرپا اثرات قاری پر رہتے ہیں۔در اصل اگر غور کیا جائے تو افسانہ اپنی فطرت میں سیاہ و سفید کے مابین پائے جانے والے ’’Gray Area‘‘کی شے ہے۔ اگر یہ سفیدمیں داخل ہو جائے تو تبلیغ اور سیاہ میں گھس جائے تو جمالیاتی جلق سا بن جاتا ہے۔بنیادی طور پر یہ تبلیغ اور ادب برائے ادب کے درمیان میں کہیں فٹ آ جاتا ہے، یہ زندگی کے مسائل کو اجاگر کرنے کے باوجود فرشتوں کی طرح بے جنس بھی رہ جاتا ہے اور فرشتوں کو در خور اعتنا نہ سمجھ کر انسان اور اْس کے اچھے برے ہر عمل کو ہی اپنی متاع سمجھنے والا رند اور موالی بھی ہے۔فکشن جھوٹ ہے لیکن ایسا برتن بھی، جس کے علاوہ حقیقت کہیں سما ہی نہیں سکتی۔ یہ بات کم از کم میری دانست میں بالکل درست ہے کہ فکشن خود جھوٹ ہونے کے باوجود کسی جھوٹ کو نہیں سراہ سکتا۔جہاں تک بات ہے حقیقت کے التباس کی تو یہ درست ہے کہ فکشن حقیقت کے عکس کے بغیر الفاظ کا ایک بے ترتیب ذخیرہ ہی ہے اور یہ عکس فکشن کو کہانی کے بطن سے مولود کرنا ہوتا ہے۔ افسانے میں فقط مکالمے ہوں گے تو جرح بن کر رہ جائے گا اور اگر کردار اور مکالمے بالکل ہی حذف کر دیئے جائیں تووہ ایک مضمون، ایک تبلیغی بیانیہ بن جائے گا۔ افسانے میں حقیقت کی ملاوٹ نہ ہو تو ادب لطیف ہی بن سکتا ہے یا پاپولر لٹریچر، جس کا ذہن پر زیادہ دیر تک اثر نہیں رہتا۔ بس ذرا سا پڑھا، لطف اندوز ہوئے، اس کے بعد کچھ معلوم نہیں کیا لکھا تھا، کیا پڑھا تھا۔ دل بہلانے والی چیزوں کی قدر ہی کتنی ہوتی ہے بھلا؟ اس کی بہ نسبت حقیقت نگاری والے افسانے قاری کو اپنا ہی غم اور اپنا ہی مسئلہ نظر آتے ہیں۔ اسی لیے وہ اس کے دل پر بہت گہرا اثر ڈالتے ہیں اور لکھنے والے کی تسکین کا باعث بھی بنتے ہیں کہ اس نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ حقیقت کا التباس کرداروں سے برجستہ، بر محل مکالموں سے، راوی کے بیان سے اور پلاٹ کی فطری بنت سے ہوتا ہے اور یہ از بس ضروری ہے۔حقیقت اور فکشن کو ایک خاص تناسب میں پیش کرنا افسانہ نگار کے لیے ایک چیلنج ہوتا ہے کہ اگر حقیقت کا التباس نہ ہو تو دلچسپی نہ ہو گی اور اگر حقیقت ہی بھر گئی تو کسی واعظ کی تقریر، اخباری بیان بننے سے بھی اسے محفوظ نہیں رکھا جا سکتا۔
اس سلسلے میں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ اپنی مکمل صورت میں افسانہ حقیقت تو نہیں ہے، البتہ افسانہ نگار اس میں حقیقت کا التباس پیدا کرتا ہے تاکہ قاری خود کو اس سے جوڑ سکے۔لیکن التباس پیدا کرنے کے لیے افسانہ نگار ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے جس سے افسانے سے دلچسپی کا عنصر غائب ہونے لگتا ہے۔ کرداروں سے متعلق غیر ضروری تفصیلات قاری کو بوجھل کرنے لگتی ہیں، چہ جائیکہ اس کی دلچسپی میں اضافہ کا سبب بنتیں۔شمس الرحمن فاروقی کا یہ خوف بجا ہے کہ التباس پیدا کرنے کے چکر میں دلچسپی غائب ہونے لگتی ہے۔ یہیں تو افسانہ نگار کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ اپنی تخلیقی قوت و بصیرت کو کس طرح استعمال میں لائے کہ لفظوں کی جو لڑیاں وہ بن رہا ہے وہ آپس میں گندھی بھی ہوں، دلچسپ بھی ہوں اور کھلی ہوئی حقیقتیں بھی نہ ہوں، جن تک قاری فوراً ہی پہنچ جائے کیونکہ افسانہ بہر حال اپنے قاری کو وسیع پیمانے پر غور و فکر کی دعوت بھی دیتا ہے۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ افسانہ ایک تخلیقی جھوٹ ہے جس پر سچ ہونے کا گمان گزر سکتا ہے۔ یا یہ کہ افسانہ ایک سچے واقعے کی تخلیقی تصویر ہے جسے ایک نیا حسن دینے کے لیے افسانہ نگار اس میں اپنے کچھ رنگ بھی شامل کرتا ہے۔ جو رنگ افسانہ نگار افسانے کے لیے منتخب کرتا ہے وہ کبھی تو خارجی دنیا میں معاشی، معاشرتی، سماجی یا سیاسی سطح پر موجود ہوتا ہے اور کبھی اس کے وجود کی زیریں لہروں کا پتہ لگانا عام قاری کے لیے نا ممکن ہوتا ہے۔ تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر حقیقت کا التباس پیدا کرنا ہی کیوں ضروری ہے ؟افسانے میں حقیقت نگاری ہی کیوں ضروری ہے ؟ جب کہ افسانہ ایک تخلیقی صنف ہے اور تخلیق کا پیش خیمہ فنکار کا ذاتی شعور، فکر، خیال، تخیل و تخئیل اور خواہشیں ہوا کرتی ہیں جن میں خارجی اور مادی دنیا کی مختلف سطحوں پر موجود حقیقتیں بھی ہو سکتی ہیں اور باطنی اور نفسیاتی دنیا کی بے نام دھڑکنیں بھی۔ پھر افسانے میں حقیقت نگاری یا حقیقت کا التباس پیدا کرنا ضروری امر کیوں ٹھہرتا ہے۔ اگر افسانہ ایک وجودی شے ہے تو اس میں واقعیت سے زیادہ حقیقت کے عناصر کی ضرورت ہے اور اگر افسانہ ایک معلوماتی شے ہے تو پھر اسے حقیقت سے زیادہ واقعیت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ واقعیت اور حقیقت ایک چیز نہیں ہے۔ کیونکہ اگر یہ دونوں ایک ہی شے ہوتیں تو پھر واقعات کی حد تک اخبار کی تفتیشی اور تحقیقاتی رپورٹوں سے سچا اور کچھ نہیں ہوتا۔
افلاطون نے سب سے پہلے نقل نگاری(Mimesis) اور واقعہ نگاری(Digesis)کا لفظ استعمال کیا تھا۔ اس کے نزدیک نقل نگاری کی بنیاد یہ تھی کہ واقعے کو ہو بہو نقل یعنی بیان کیا جائے، مطلب اس کے اندر حقیقت نگاری کا مفہوم پوشیدہ تھا۔ در اصل نقل نگاری ایک طرح کی حقیقت نگاری تھی۔ اس کا یہ نظریہ رزمیہ، المیہ اور طربیہ شعری فکشن کے متعلق تھا۔ واقعہ نگاری در اصل قاری کو بیانیے کی تشکیلی اور تخیلی ہونے کا احساس کراتی ہے اور اس سے ایک نئی کائنات پر توجہ مرکوز کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔یعنی نقل نگاری روزمرہ کے تجربات سے مربوط ہے جبکہ واقعہ نگاری بیانیہ کو خود کفیل ہونے کا درجہ دیتی ہے۔ان دونوں اصطلاحوں کے نتیجے میں ہم فکشن کو زندگی اور فکشن کو بذات خود فکشن کی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تاہم سوال یہ ہے کہ اگر کوئی چیز فسانہ ہے تو ہم اسے زندگی کے نقطۂ نظر سے کیوں دیکھیں ؟ اور کیوں یہ خواہش کریں کہ اس میں حقیقت کا التباس ہو؟فن سے متعلق ابتدا سے ہی یہ نظریہ کام کرتا رہا ہے کہ اسے زندگی کا عکاس ہونا چاہیے۔ اسی ضمن میں ادب برائے زندگی کی بحث قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ لیکن اس کے لیے حقیقت کا ہونا یا حقیقت کا التباس ہونا ہی ضروری امر نہیں تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ایک فن کار یا ہر ایک شخص اپنی خواہشوں اور آرزوؤں کی تکمیل اپنے آس پاس کے ماحول اور اس میں ہونے والے واقعات میں نہیں پاتا ہے۔ اس کی چاہتیں کچھ ہوتی ہیں اور وہ چیزیں جو واقع ہوتی ہیں وہ اس کی امیدوں کے ماسوا ہوتی ہیں۔ اس صورت میں فن کار کا تخیل ایک نئی جہت میں کام کرتا ہے اور وہ ایسا تخیلی فن پارہ تخلیق کرتا ہے جس میں اس کے آرزوؤں کی دنیا ہوتی ہے لیکن وہ حقیقت میں کہیں اپنا وجود نہیں رکھتی۔ افسانے میں فن کار کا تخیل اور تصور کام کرتا ہے جو اس کے تصوراتی اور تخیلاتی جہان کو آباد کرتا ہے۔اس لیے یہ ضروری نہیں کہ افسانے میں حقیقت کا التباس پیدا کرنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ افسانوں کے سچے یا حقیقت سے ملتبس ہونے کی بابت یہ کہا جا سکتا ہے یہ بس فریب نظر کی صورت ہے۔کیونکہ اگر افسانے کے لیے حقیقت کے التباس کی شرط لگا دی جائے تو اس میں پیش آنے والے واقعے میں علت و معلول کی نسبت کا پایا جانا بھی ضروری ہو جائے گا اور پھر حقیقت کا زور اس پر اس قدر ہو گا کہ اس کے اندر سے کہانی پن غائب ہو جائے گا۔(کہانی پن پر بات اگلے نکتے کے تحت ہو گی)اور اگر اس سے قصہ پن ہی غائب ہو گیا تو پھر وہ قصہ /واقعہ/افسانہ کی صف سے نکل کر حقیقت اور اصلیت کے دائرے سے مل جائے گا۔ پھر اسے ہم افسانہ نہیں مضمون، انشائیہ، اخباری رپورٹ یا کچھ اور نام دیں گے جو افسانوی زمرے سے باہر ہے۔وقار عظیم نے لکھا ہے :
پلاٹ زندگی کے واقعہ کی ہو بہو شکل نہیں ہو سکتا۔۔۔اس کی تعمیر اور تشکیل میں جب تک تھوڑا بہت تصنع نہ ہو، اس کی فنی شکل پیدا نہیں ہوتی۔ تصنع کی یہ ہلکی سی چاشنی ہی زندگی کے کسی واقعے کو افسانہ بناتی ہے۔‘‘[50]
افسانے میں حقیقت کا التباس یا حقیقت نگاری کی شعوری تلاش در اصل افسانے کے فطری بہاؤ میں حاجز ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے کے لیے افسانہ نگار کو کئی سطحوں پر قاری کو دھوکہ دینا ہو گا۔ پہلی بات تو یہ ہے حقیقت نگاری کے چکر میں افسانہ نگار کو کرداروں کو اپنی انگلیوں پر نچانے کی اجازت دینی ہو گی۔افسانے کی بوطیقا کچھ بھی کہتی ہو تاہم سچی بات تو یہ ہے کہ افسانہ نگار کو افسانے میں کیا کچھ ہونے والا ہے، سب کا علم ہوتا ہے۔ کیونکہ تمام واقعات کہیں نہ کہیں افسانہ نگار کے ذہن میں پہلے سے واقع ہو چکے ہوتے ہیں۔اس طرح افسانہ واقعہ کی نقل ثابت ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی اگر اسے حقیقت نگاری یا حقیقت کا التباس پیدا کرنے کے لیے مجبور کر دیا جائے تو پھر کرداروں کے وجود پر سوال کھڑا ہو جائے گا۔ یعنی کیا کردار اور مصنف دو الگ الگ شخصیات ہیں ؟ظاہر ہے کرداروں کی تخلیق افسانہ نگار کرتا ہے۔ دونوں کے اندر خالق اور مخلوق کا رشتہ ہے۔ ایسی صورت میں دو طرح کی حالتیں بنتی ہیں۔ پہلی صورت یہ کہ خالق جس طرح چاہتا ہے، مخلوق کو وہی سب کچھ کرنا ہے۔ یا پھر خالق مخلوق کا رشتہ بس خلق کا ہے۔ اپنے اعمال و افعال میں مخلوق آزاد ہے۔دونوں صورتوں کا انطباق اگر افسانوی صورت حال پر کیا جائے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اگر افسانہ نگار کردار کو آزاد چھوڑ دے تووہ غلط راستے پر چل پڑے گا یا یہ کہ واقعات اور کردار پر ایک دوسرے کا برابر اثر ہو گا؟
یہ بات سچ ہے کہ فن کار بھی اسی دنیا کا انسان ہے جس میں قاری جیتا ہے۔ معاملہ بس اتنا ہے کہ اس کا شعور یا اس کی قوت اظہار عام لوگوں سے زیادہ ہے۔ اس کی یہی خاصیت اسے تخلیق کی قوت بھی عطا کرتی ہے اور وہ محض سامنے کی ایک معمولی سی شے کو بھی اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ عام قاری دانتوں میں انگلیاں دبا لیتا ہے۔اقبال آفاقی لکھتے ہیں :
’’راجندر سنگھ بیدی کہانی کو حقیقت اور تخیل کے امتزاج کی زائیدہ قرار دیتا ہے۔ یہ ایک طرح کی التباسی وقائع نگاری ہے جو حقیقت کے اندر کی حقیقت کو مصور کرتی ہے یا ماریو برگس یوسا کے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ حقیقت کا سوانگ یا التباس پیش کرتی ہے۔ حقیقت کا التباس جو حقیقت سے زیادہ جمیل اور لطیف ہوتا ہے۔یہ اس دنیا کی تشکیل کرتی ہے یا اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے جو ہر چند کہ نہیں ہے لیکن اسے ہونا ضرور چاہئے۔‘‘ [51]
اسی طرح شمس الرحمن فاروقی افسانہ نگاروں کے مسائل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ ہر افسانے کا کام حقیقت کا التباس پیدا کرنا ہے۔ لیکن حقیقت کا التباس پیدا کرنے کی کوشش افسانے کو غیر دلچسپ بھی بنا دیتی ہے۔‘‘[52] انھوں نے کرشن چندر کے ’ شکست‘ اور’ جب کھیت جاگے ‘ کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’جب کھیت جاگے ‘ یا’ شکست ‘میں جب کرشن چندر تفصیلی منظر بیان کرتے ہیں تو الگ الگ طرح کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔’جب کھیت جاگے ‘ غیر دلچسپ ہو جاتا ہے لیکن ’شکست‘ میں دلچسپی برقرار رہتی ہے۔کردار کے عادات و سکنات، بول چال کے طریقے اور لب و لہجے کی مکمل نقل کی کوشش دلچسپی کے بجائے اکتاہٹ پیدا کر سکتی ہے، اس لیے افسانہ نگار ہمیشہ اس کشاکش میں گرفتار رہتا ہے کہ وہ حقیقت کے التباس کو دلچسپی پر قربان کر دے یا دلچسپی قائم رکھنے کی خاطر حقیقت کے التباس کو خیر باد کہہ دے۔‘‘ [53]
اس حوالے سے ایک گفتگو کے دوران مشہور افسانہ و ناول نگار پیغام آفاقی نے جو بات کہی وہ بھی قابل توجہ ہے :
’’جھوٹ، افسانہ اور حقیقت تین الگ الگ چیزیں ہیں۔ جھوٹ سچ کا مخالف ہوتا ہے۔ اس کے سچ کا مخالف ہونے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جیسے لاعلمی، غلط فہمی، بد نیتی یا مصلحت وغیرہ۔ افسانہ جہاں جھوٹ کی ان منفی با توں سے پاک ہوتا ہے وہیں یہ اعلان کرنے کے بعد کہ افسانہ مفروضہ ہے وہ یہ بھی بتا دیتا ہے کہ وہ حقیقت نہیں ہے۔ لیکن وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ اس کا مفروضہ بیان موجودہ یا مستقبل میں وجود میں آنے یا آ سکنے والی حقیقت کی امکانی تصویر ہے۔ افسانہ کی یہی خصوصیت اسے جھوٹ سے اتنا ہی دور کر دیتی ہے جتنا سچ جھوٹ سے دور ہوتا ہے اور حقیقت سے اہم تر کر دیتی ہے کہ وہ حقائق اور امکانات دونوں کو افسانے کے دائرے میں ڈال کر انسان کے ذہن کو محض حقیقت کے مقابلے زیادہ روشن کرنے کی صفت عطا کرتی ہے۔‘‘[54]
یہ بات تو سچ ہے کہ ہمیں افسانے سے تاریخ نگاری کا کام نہیں لینا ہے۔ افسانہ جمالیاتی حِس (Aesthetic sense) کی تسکین کا کام کرتا ہے۔ زیادہ تر قاری اپنے اسی ذوق کی تکمیل کے لیے افسانوں کی قرأت کرتا ہے۔ ہم اسے حقیقت کے چکر ویوہ میں پھنسا کر کیوں مجبور کر رہے ہیں کہ وہ دنیا جہان کی سچائیاں یا اس کی پرچھائیاں ہی پیدا کرے۔ حقیقت، التباس حقیقت یا پھر عدم حقیقت کی بحث اصل نہیں، اصل بحث یہ ہے کہ فن کار نے تخئیلی سطح پر کیا کارنامہ انجام دیا ہے ؟ کیونکہ اصل چیز فن کار کی تخئیلی قوت اور بصیرت ہے۔ اگر فن کار ایمانداری سے فن پارہ تخلیق کر رہا ہے تو اس کے اندر وہ حقیقتیں پوشیدہ یا مخفی ہوں گی جن کا وجود گرچہ خارجی دنیا میں نہ ہو لیکن اس کے باطن یا اس کے لاشعور و شعور میں اس کی کوئی نہ کوئی جھلک لازمی طور پر موجود ہو گی۔ اس لیے ضروری نہیں کہ افسانہ نگار کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ حقیقت لکھے یا حقیقت کا سوانگ رچے۔ کیونکہ اگر آپ ایسا مجبور نہ کریں تو بھی وہ وہی کرے گا۔ آخر کون سا ایسا اچھا افسانہ ہے جو اس سچائی سے پرے ہے ؟اس حوالے سے سسین سونٹیگ(Susan Sontag) کے اس اقتباس پر اپنی بات ختم کرتا ہوں :
“Fiction and factuality are, of course, not opposed. One of the founding claims for the novel in English is that it is a true history. What makes a work fiction is not that the story is untrue—it may well be true, in part or in whole—but its use, or extension, of a variety of devices (including false or forged documents) which produce what literary theorists call “the effect of the real” [55]
٭٭٭