علی الصبح ہی خان ولی اپنی ماں سے رخصت ہونے لگا۔اسے آج قدرے جلدی تھی۔کام پر جانے کی باقاعدگی تو اسے ورثے میں ملی تھی کہ اس کا والد کرم داد بھی کام پر صبح سویرے جاتا،کبھی ناغہ نہ کرتا اور دن بھر محنت مزدوری کر کے گھر لوٹتا تو شام ڈھل چکی ہوتی اور اگر کرم داد کی زندگی کی شام بھی جلد نہ ڈھلتی تو اس کا اکلوتا بیٹا خان ولی آج محنت مزدوری کرنے کی بجائے کسی سکول یا مدرسے میں تعلیم حاصل کررہا ہوتا۔ حالات نے جبراًاسے وقت سے پہلے ہی محنت مزدوری کرنے پر آمادہ کر رکھا تھا اور اگر وہ ایسا نہ کرتا تو کیا کرتا۔وہ گاؤں میں رہتا تھا مگر ان کی کوئی زمین نہ تھی کہ اس پر کھیتی باڑی کرتا اور گزر بسر ہوتی۔اب ایسے حالات میں جبکہ کرم داد جان کی بازی ہار چکا تھا۔مجبورا ًسات سالہ خان ولی کو ہی گھر کی گاڑی کا پہیہ اپنی محنت مزدوری سے چلاناتھا۔سو اس نے ایک کولر خریدا اور اس میں مقامی آئس کریم جسے قلفی ملائی کہا جاتا ہے بیچنا شروع کردی۔وہ گلی گلی پھرتا،آواز لگاتا،بچے بڑے شوق سے اس کی آئس کریم خریدتے،اگر آئس کریم جلد ختم ہوجاتی تو وہ بازار سے دوبارہ خرید کر گاؤں کی گلیوں میں نکل جاتا۔چھٹی کے وقت وہ ہائی سکول کے دروازے پر کھڑا ہوجاتا۔سکول سے نکلنے والے بچوں کو آئس کریم خریدنے کی چاہ کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے اور گرمی کے زمانے میں ایسی ٹھنڈی چیزوں کی طلب بھی بہت ہوتی ہے۔خان ولی نے سکول سے نکلنے ولے بچوں کو کبھی حسرت کی نگاہوں سے نہیں دیکھا اس کی بظاہر وجہ تو یہی تھی کہ وہ جان چکا تھا کہ اس کے مقدر میں سختیاں لکھی جا چکی ہیں مگر اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ گاؤں دیہاتوں میں سکول پڑھنے کا رواج ذرا کم ہی ہوتا ہے اورخان ولی کی عمر کے دوسرے بچے بھی یا تو کھیتی باڑی کر رہے ہوتے ہیں۔یا چھابڑی میں ببل،ریوڑی یا نمکو کے پیکٹ رکھے بیچ رہے ہوتے ہیں۔خان ولی کے کوئی خاص ارمان بھی نہ تھے۔نہ ہی زندگی کے بڑے مقاصد۔ایک بات اس کے بچپن ہی میں اس کے دماغ میں سرایت کرکے مضبوط گھر بنا چکی تھی کہ ہر حال میں ماں کا خیال رکھنا ہے۔اسے چادر اور چاردیواری کا تخفظ دینا ہے اور اپنی کمائی کرنی ہے کہ اس سے گزر بسر ہوسکے اور ماں کو کسی کے در پر جاکر قرض کے لیے ہاتھ نہ پھیلانا پڑیں۔اس لیے وہ بساط سے بڑھ کر محنت کرتا اور طاقت سے بڑھ کر وزن اٹھاتا۔پشتون روایات کی پاسداری پشتون قبائل کے بچوں کی رگوں میں خون کی طرح بھاگ رہی ہوتی ہے اور خان ولیکو ماں کے پردے،تخفظ اور عصمت وعفت کا پورا پورا احساس تھا۔آج کا دن بھی ہر دن کی طرح کا ایک دن تھا۔مگرخان ولی کو کل ہی معلوم ہوچکا تھا کہ شہر میں ایک بہت بڑا جلسہ ہونے والا ہے اور ایسے اجتماعات محنت مزدوری کرنے والوں کے لیے غنیمت سے کم نہ تھے۔کل ہی چھا بڑی پر چیزیں بیچنے والے تمام مزدور یہ بات کررہے تھے کہ صبح سویرے جلسے میں جانا ہے۔گل رنگ چھلی والے نے عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ چھلیاں خرید لیں ،سلو نے گڑ کی شربت کا ریڑھا لے جانے کا فیصلہ کر رکھا تھا اور کریما مسواک اور تسبیح بیچنے کے لیے لے جا رہا تھا۔ان کی دیکھا دیکھی خان ولی نے بھی وہاں جانے کی ٹھان لی تھی۔جلسہ گیارہ بجے شروع ہونا تھا۔مگر صبح سات بجے سے ہی پنڈال کے اردگرد گہما گہمی شروع ہوگئی تھی۔صوبے بھر سے علماء کرام،خطیب،قاری حضرات،مساجد کے امام،طالب علم اور دیگر افراد کا تانتا بندھا ہوا تھا۔سب کے سروں پر ٹوپیاں اور کاندھے پر سفید رومال تھے، ہر وضع اور ہر عمر کے افراد یہاں وہاں موجود تھے۔ بڑے بڑے لاؤڈ سپیکروں پر نعتوں کی لے سامعین کا دل موہ لینے کے لیے بے تاب تھی۔خان ولی بڑی مستعدی سے اپنا کولر اٹھائے وہاں جانے کی کوشش کر رہا تھا جہاں رش زیادہ ہو۔موسم ویسے بھی گرم تھا اور جلسے میں کچھ تو بے تحاشہ رش تھی اور چاروں طرف سے قنات شامیانہ ہونے کی وجہ سے گرمی اور زیادہ محسوس ہورہی تھی اور یہ گرمی خان ولی کے لیے خوشگوار تھی کہ اس کا دھندہ عروج پر تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے اس کا کولر آدھے سے بھی زیادہ خالی ہوگیا۔وہ سوچ رہا تھا کہ جلد از جلد اس کولر کو خالی کرکے بازار سے اور آئس کریم لے آئے گا تاکہ آج دوہری کمائی کی جاسکے۔اور ہاں شام کو جب وہ ڈھیر ساری رقم اپنی ماں کی ہتھیلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک زور دار دھماکہ ہوا۔گوشت اور انسانی اعضا کے یہاں سے وہاں بکھر گئے۔شام تک خان ولی کی لاش اور کولر اس کی ماں کی ہتھیلیوں تک پہنچ چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...