وہ بے دھیانی میں چلتے ہوئے کبھی کبھی پاس سے گزرنے والی کاروں کو یوں دیکھتا ہے جیسے خوشیوں سے بھری کسی گٹھڑی کا منتظر ہو ۔۔۔۔۔ کوئی ایسی گٹھڑی جس میں اپنی ضروررت سے زاید خوشیاں کوئی باندھ کر پھینک جائے ۔ ۔ ۔ ۔یونہی الله واسطے ۔ ۔!!! تا کہ اسے وہ لوگ اٹھا لیں جن کی بوجھل گٹھڑیوں میں محرومیاں تشنہ آرزوییں اور بھوک کلبلا رہی ہے ۔ ۔ ۔” کتنا پاگل ہوں میں ”۔ ۔ وہ سوچتا ہے ” بھلا خوشیوں کی گٹھڑی بھی کبھی کسی کو بھاری لگی ہے جو کوئی یوں راستے میں پھینک جایے ؟ وہ تو غبارے جیسی ہوتی ہیں پھولتی جاتی ہیں ، جوں جوں پھولتی جاتی ہیں ، توں توں انسان کو اوپر ہی اوپر ہوایوں میں اڑاتی چلی جاتی ہیں ۔ ۔ ۔۔ دور ، جہاں سے ہر منظر بہت بھلا نظر آتا ہے ۔۔ بوجھل تو ہوتی ہیں دکھوں کی گٹھڑیاں جنہیں اٹھاتے اٹھاتے جسم و جاں جھکنے لگتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ کمریں خمیدہ ہونے لگتی ہیں اور بلاآخر زمین پر رینگنے والوں کو زمین نگل جاتی ہے ”
اس کا منہ کڑواہٹ سے بھر جاتا ہے ۔ ۔ ۔ وہ چرس والے سگریٹ کا ایک کش لگا کر ساری دنیا کو جیسے گا لی دے کر خود کو ہلکا پھلکا کر لیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ابھی اس کی عمر ہی کیا تھی لیکن وقت نے اسے پکا کر دیا ہے کہ وہ ایک ساٹھ سالہ بوڑھے کی طرح سوچتا ہے ۔۔زندگی کی اوڑھنی کے سارے رنگ تلخیوں کی دھوپ میں ایک ایک کر کے اڑتے چلے گیے ۔۔وہ جانتا ہے تہ اوڑھنی اصل میں ہے ہی بے رنگ و بے مایہ ۔ ۔ ۔ ۔یہ رنگ یہ لہریں یہ چمک سب لمحاتی ہے ۔ ۔سو وہ مطمین بھی ہے اور نہیں بھی۔
چاہے کچھ دیر کو سہی ان رنگوں پر اس کا بھی حق تو بنتا ہے ۔ ۔مضطرب تو ہوتا ہے وہ ۔۔ سوچ کے جہنم سے بھاگنے کا ایک راستہ تو ڈھونڈ رکھا ہے اس نے ۔۔ مگر ہر با رجب پلٹ کر آتا ہے تو تپش دوچند ہو جاتی ہے۔تبھی تو وہ اور اس کا سگریٹ جلتے بجھتے رہتے ہیں
جانے کہاں سے لہروں کے دوش پر ایک آواز اس کی سماعتوں تک پہنچتی ہے ۔۔اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی سے ٹکرایا ہے ۔ ۔پھر واقعی وہ اندھا ہو جاتا ہے جیسے ۔ ۔ بس اس کی سماعت زندہ رہ جاتی ہے ۔۔ اس کی پور پور سننے لگتی ہے ۔۔ ساری دنیا پس منظر میں چلی جاتی ہے ۔۔ آواز کا شعلہ اسے بھی بھڑکانے لگتا ہے وہ آواز والی کے پیچھے چل پڑتا ہے جانے دن گزرے یا سال ۔ ۔اسی کچھ یاد نہیں وہ تو آواز کی انگلی تھامے نگر نگر گھومتا ہے ۔۔ ایسے لگتا ہے جیسے آواز کے سحر نے اس کے پرانے درد جگا دییے ہوں ۔ ۔ محرومیاں ، تشنہ خواہشیں سب کونوں کھدروں سے نکل کر ننھے منے بچوں کی طرح اس کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑی ہو جاتی ہیں ، ، جانے آواز والی کے وجود میں ایسی کیا کشش ہے کہ وہ کبھی ، سب کچھ بھول بھی جاتا ہے
” کیا کوئی معجزہ نہیں ہو سکتا کہ تم اپنے مدار سے نکل آیو یا میں ٹوٹ کر کہیں کھو جایوں اور گھومتا ہوا تمھارے مدار میں داخل ہو جایوں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ؟”
” ہم جیسے لوگوں کے ساتھ معجزے نہیں ہوا کرتے کہ ہم خود معجزہ ہیں ”وہ مسکراتی ہے ” معجزے ان کے ساتھ ہوتے ہیں جو شعور کی بجایے شعبدہ بازی کے زور پرچیزوں کو تسلیم کرتے ہیں ۔ ۔ یہ خوف کی پیدوار ، خوف ہی میں زندہ رہتے ہیں ۔ ۔انہیں tame کرنے کے لئے ان دیکھی پراسرار پر ہیبت چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ”
وہ اپنی سحر انگیز باتوں سے اسے حیران کیے جاتی ہے ۔ ۔ ۔وہ حیرانی کے صحرا میں بوند بوند پانی کے لئے بھاگا پھرتا ہے ۔۔” میرا جی چاہتا ہے کہ تمہاری گود میں سر رکھ کر سو جایوں ۔۔ سمندر جیسی نیند ، بظاہر پر سکون۔ ۔ ۔اور شاید کبھی نہ ختم ہونے والی نیند ” وہ بچوں کی مانند مچل جاتا ہے
” تمھیں ابھی بہت دور جانا ہے ۔ ۔ سو جایو گے تو مسافت کی کڑی دھوپ کا سامنا نہیں کر پایو گے ۔۔تمہارا بدن لجلجا ہو جایے گا ۔ ۔ تلوے نرم و نازک او رسوچیں زنگ آلود ۔ ۔ اپنی تلاش کا سفرتو بہت کٹھن ہے ۔ ۔زخمی تلوں کی خبر لینے دیتا ہے نہ دراڑوں سے اٹے جسم کی ” وہ سوچ کے دشت سے ابھر کر اسے راہ دکھاتی ہے ۔۔
” مگر روح کی تھکن کے بارے میں تم نے بتایا ہی نہیں میری تو روح بھی نڈھال ہو چکی ہے ”وہ جھنجھلا جاتا ہے ” تمہاری روح اس لیے نڈھال ہے کہ خود آگاہی کا سفر ابھی شروع نہیں ہوا ۔ ۔یہی تو مزہ ہے ۔ ۔اس سفر کے آغاز کے ساتھ ہی روح ترو تازہ ہوتی جایے گی ۔ ۔اندر کے سارے بھید عیاں ہوتے چلے جاییں گے ۔ ۔یہ جسم تو بس ایک میڈیم ہے ” اس کی چمکتی شعاعیں منعکس کرتی نظروں کی وہ دیر تک تاب نہیں لا سکتا وہ اسے اپنے سحر کا اسیر کر کے چلی جاتی ہے ۔ ۔ اسے آواز والی پر غصہ آتا ہے ، بے تحاشا غصہ ۔ ۔اس کا جی چاہتا ہے اسے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالے ۔ ۔ اس کے بدن پر اپنی شدتوں کے نشان ثبت کر ڈالے اور چیخ چیخ کر کہے ، ” میں نہیں مانتا تمہا رے ان بوگس روحانی فلسفوں کو ، یہ سب بکواس ہے مجھے تمہاری ضرورت ہے تمھارے وجود کی ضرورت ہے ”۔ ۔ ۔ وہ خود میں جلتا بھنتا رہتا ہے شعلے کی مانند بھڑکتا رہتا ہے ۔ ۔ مگر جونہی اس کی آواز سنتا ہے ٹھنڈا ٹھار ہو کر سحر زدہ سا اس کی آواز کی انگلی تھامے انجانی گھاٹیوں ، پراسرار رستوں اور ٹمٹماتی روشنیوں کی جانب چل پڑتا ہے ،، حتی کہ وہ رخصت ہو جاتی ہے اسے ایک نیے سوال کے جہنم میں چھوڑ کر ۔ ۔
وہ اپنی بزدلی پر روتا ہے چلاتا ہے خود کو اذیت دیتا ہے ، ” ایسا کیوں ہوتا ہے ہر بار ؟ ” وہ سوچتا ہے ۔ ۔ آواز والی کی شبیہ ذہن میں لانے کی کوشش کرتا ہے مگر یہ کیا ؟ اسے تو ابھی تک معلوم ہی نہیں کہ وہ کیسی ہے ۔۔ ؟ گوری ہے یا کالی ؟ خوبصورت ہے یا بد صورت ؟ فگر کیسا ہے ؟ قامت کیسی ہے ؟ وہ سر تھام لیتا ہے ” یہ کیسا عذاب ہے میرا ذہن اس کے وجود کا احاطہ کیں نہیں کر پاتا ؟ شاید اس کی آنکھوں سے پھوٹنے والی روشنی اتنی زیادہ ہے کہ اس کا اپنا وجود دھندلا جاتا ہے ۔ ۔ اس کے جسم کی نفی ہوجاتی ہے ۔ ۔ ۔ ایک ان دیکھا ہالہ اسے اپنے گھیرے میں لے لیتا ہے اور وہ خود اوجھل ہو جاتی ہے ۔ ۔ اس کا دوست اسے حیرت سے دیکھتا ہے ۔ ۔ ” یار کتنی عجیب بات ہے تم اس کے لیے پاگل ہویے جا رہے ہو اور اس کی شکل کے بارے میں علم نہیں ” ؟ دوست کی آنکھوں میں شک کروٹیں لے رہا ہے ۔ ۔ ” یقین کرو وہ موجود ہے اس کی خوشبو مجھے ہر لمحۂ اپنے گھیرے میں لئے رکھتی ہے مگر وہ کیسی ہے ؟ میں نہیں جا نتا ” وہ بے بس سا ہو کر سر گھٹنوں میں دے لیتا ہے
کہیں میں آسیب زدہ تو نہیں ہو گیا ” ؟ کہیں میری محرومیوں نے کویی نیا پاکھنڈ تو نہیں رچا لیا ؟ ” وہ خود اپنے بارے میں مشکوک ہونے لگتا ہے ۔ اب وہ ڈوری کے ایک سرے پر بیٹھا دوسرے سرے کو ڈھونڈتا رہتا ہے ۔ ۔ وہ بھول جاتا ہے کہ اس کا بدن ٹوٹ رہا ہے اسے چرس کے کش کی طلب ہے یا کسی سے لڑنے بھڑنے کی! اسے احساس ہونے لگتا ہے محبت تو ضرورت بن سکتی ہے مگر ضرورت کبھی محبت کا روپ نہیں دھار سکتی ۔وہ پھر آجاتی ہے نتھری نتھری اجلی اجلی لہجے کا شہد ٹپکاتی اور وہ کسی ندیدے بھوکے بچے کی مانند اس کی انگلی سے ٹپکتا قطرہ قطرہ شہد چاٹتا پھر اس کے پیچھے چل پڑتا ہے ۔
وہ اسے دنیا کے چمکیلے رنگ دکھانا چاہتی ہے ۔ ۔ اسے اندھیروں سے باہر لانا چاہتی ہے لیکن وہ تو بس اسی کی نگاہوں کی شعاعؤں میں بھیگنے پر بضد ہے ۔۔ وہ اسے ان سنا سنوانا اور ۔ ۔ ان دکھا دکھا نا چاہتی ہے ۔ ۔بین ، ہنسی کی جھنکار اور تڑختے نقابوں کے پیچھے چھپے مکروہ چہرے ۔ ۔ ” خالی کھوکھلے الفاظ جو تمھارے گردا گرد بدروحوں کی طرح گھیرا ڈالے ناچتے ہیں ، میں تمھیں ان کے حصار سے نکالنا چاہتی ہوں ۔ مرے ساتھ چلو عمل کے خارزاروں میں ۔ ۔یقین مانو دور کہیں ایک بے حد خوبصورت دنیا تمہارا انتظار کر رہی ہے ” اس کی سرگوشیاں اس کے دکھتے وجود کو تھپکنے لگتی ہیں ۔ ۔ مگر دوسری جانب خالی ڈھول جیسے الفاظ بجنے لگتے ہیں ۔ ۔ ۔شور کرتے ہیں اس کے اعصاب چٹخنے لگتے ہیں ۔ ۔وہ چلاتا ہے ۔۔چیختے چیختے اس کی آواز اس کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے ۔۔آنسو خشک ہو جاتے ہیں ۔۔ وہ کسی ٹنڈ منڈ جھاڑی کی طرح خود کو آندھیوں کے بعد کے اتھاہ سکوت کے حوالے کر دیتا ہے ۔ ۔ پھر وہ چھا جاتی ہے ۔ ۔جس کی سرگوشیاں پھول بن کر چٹکنے لگتی ہیں ۔ ۔ اس کا بنجر جسم پھولوں سے ڈھک جاتا ہے ۔۔ زرخیز ہونے لگتا ہے ۔ ۔وہ خوشبو اوڑھ کر سو جاتا ہے
اب اسے آتی جاتی کاروں سے جھانکتے چہروں سے نفرت محسوس نہیں ہوتی ۔ ۔اب اسے خوشیوں سے بھری کسی گھٹڑی کا انتظار نہیں رہتا ۔ ۔وہ بھول جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں ایک ڈگری اور پایوں میں پھٹے چپل ہیں ۔ ۔ اسے ان تلخ تھپڑوں کا زایقہ بھی بھول چکا ہے جو باپ نے نیی شادی کے نشے میں اس کے اور اس کی ماں کے منہ پر لگایے تھے ۔۔ ۔۔ وہ سارے دن اور رات بھلا بیٹھا ہے جب ٹھٹھرتی راتوں میں ننگا اور لمبی دوپہروں میں بھوکا سوتا تھا ۔۔ اسے تو یہ بھی نہیں یاد رھا کہ اس کی زندگی کی سوییاں چنتے چنتے خود سولی پر لٹکی رہنے والی ماں جب ہسپتال کے یخ بستہ برآمدے میں پڑی تھی تو اس کے بے جان جسم پر ایک پتلی پرانی سی اوڑھنی تھی ۔ ۔اور تو اور اسے وہ قسم بھی نہ یاد رہی کہ وہ زمانے سے اپنے دکھوں کا انتقام لے گا ۔ ۔وہ کچھ بھی تو نہ کر پایا سوایے خود کو جلانے کے ۔۔چرس کے دھوییں میں اپنے وجود کی نفی کرنے کے ۔ ۔۔اور اب یہ آگیی ہے آواز والی ۔ ۔ اسے سکوں دینے یا محرومیوں کو دو چند کرنے ۔ ۔ ؟!!
وہ سخت پریشا ن ہے ۔۔ چرس کی طلب تنگ کرتی ہے تو پیسے کہاں سے آییں ؟ سو وہ چپ چاپ رہ جاتا ہے یا آواز والی کی انگلی تھامے ادھر ادھر ڈولتا پھرتا ہے ۔۔ وہ سرزنش جو کرتی ہے ۔ ۔اور وہ ٹھہرا سدا کا بزدل ، اس کی نظروں میں گرنے سے ڈرتا ہے
اس کا میلا کچیلا کمرہ مزید میلا ہوتا جا رہا ہے ۔ ۔ وہ آتی ہے تو اسے خوب سناتی ہے چیزیں ترتیب سے رکھتی، کپڑے بدلنے پر اصرار کرتی، بڑبڑاتی جاتی ہے ۔۔ کھانا بناتی دواییں پلاتی پھل کھلاتی ، چایے کے ساتھ گھنٹوں باتیں کرتی اور پھر چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔وہ تکتا رہتا ہے چاہتا ہے کہ اسے روک لے ہمیشہ کے لئے مگر روک نہیں پاتا ۔ ۔ ۔اس کے جاتے ہی سب کچھ پھر سے الٹ پلٹ کر دیتا ہے ۔۔ جان بوجھ کر ۔ ۔ ۔ ۔۔کبھی کبھار تو اس کا دل چاہتا ہے اسے توڑ پھوڑ دے ۔۔وہ ایسے کھلونے کی طرح تھی جو اس کی دسترس سے باہر خوبصورت سے شوکیس میں سجا اس کی خواہشوں کا مذاق اڑا رہا ہو ۔ ۔ ۔اکیلے میں وہ بے حد خوفناک منصوبے بناتا ۔ ۔ اسے زیر کرنے کے اپنی جبلت کی تسکین کے ۔ ۔ ۔لیکن جونہی وہ آتی وہ سب کچھ بھول بھال نڈھال سا ایک جانب بیٹھ جاتا ۔۔
اس کی سوچیں آوارہ ہوتی جا رہی ہیں اپنے جذبوں کے آگے بند باندھتے باندھتے وہ تھک سا گیا ہے
ہلکا ہلکا سا تعفن کہیں سے ابھر رھا ہے ۔۔ ارد گرد پھیلی مستقل سڑاند کے با عث قوت شامعہ بے حس ہو چکی ہے ۔ ۔ لیکن پھر بھی کہیں کچھ ہے جو محسوس ہو رہا ہے لوگ چونک پڑے ہیں ۔ ۔ کیا ہے کہاں ہے ؟ کچھ تو ہے ؟ سوال ابھر رہے ہیںدوسروں کی بو جلد ہی پا لینے والے آخر کوارٹر نمبر 4 تک جا پہنچتے ہیں معتبر افراد کی موجودگی میں دروازہ توڑا جاتا ہے ۔ ۔ایک میلا سمٹا سکڑا جسم بے ترتیب کمرے میں ان کا استقبال کرتا ہے ۔ ۔وہ اپنی آخری پناہ گاہ افلاس کی گود میں یوں پڑا ہے جیسے یہی حاصل زیست ہو ۔۔ دیکھنے والوں کو عجیب سے لگا کہ مرنے والے نے بے حد مضبوطی کے ساتھ ایک تکیے کو جکڑ رکھا ہے ۔ ۔ جس کا غلاف اور وہ جگہ جگہ سے یوں ادھڑے ہویے ہیں جیسے کسی جانور نے اسے اپنے پنجوں سے نوچا ہو ۔ ۔۔ اس کے ناک سے بہنے والی پتلی سی سرخ لکیر نے اس کے تمسخرانہ انداز میں پھیلے ہونٹوں پر ایک مہر سی لگا دی ہے ۔۔ اس گمنام لفافے کی طرح جسے ڈاکیہ نہ جانے کتنے در کھٹکھٹانے کے بعد واپس جی پی او میں لے آیا ہو۔
**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...