کہاوت مشہور ہے:
“گھرمیں بیری کا پیڑ ہو تو پتھرضرور آتےہیں”
لیکن کسی نےاس بات پرروشنی نہیں ڈالی کہ پتھرکی جگہ جب پہاڑ ہی آگرےتو گھرکےمکیں کیاکریں ؟
دراصل مراد صاحب کو اپنی بیٹیوں کےلئےاچھےوَر کی تلاش تھی۔ مشاطہ “خیرُن بی “آئےدن کوئی نہ کوئی پیام لےآتی اوربےچارےمراد صاحب کو ان دولت مند و نک چڑھےمہمانوں کی ضیافت لوفیاٹ و شوگر فری کیک بسکٹ سےکرنی پڑتی۔
روز روز کی اس بن بادل برسات سےتنگ آکرایک دن “اُنہوں” نےخیرُن بی سے یہ کہہ ہی دیاکہ “خالہ کوئی مناسب سا رشتہ ہو توہی گھرتک لایاکریں ورنہ ہمارااور اپنا وقت برباد نہ کیاکریں لیکن خیرن بی کا تو پیشہ ہی مراد صاحب جیسےلوگوں کی مجبوری کافائدہ اُٹھاناتھا۔ وہ جب بھی کسی پیام کےسلسلےمیں گھرتشریف لاتیں تو آنےجانےکےاخراجات کےنام پرکچھ نہ کچھ رقم بیگم مراد سےبٹورلےجاتیں تھی۔ بقول غالب:
“مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے”کےمصداق گھر بیٹھےایسی آمدنی کوبھلاخیرُن بی کیسےجانےدیتیں!اسی لیےمراد صاحب کو بیزار ہوتادیکھ کرمشاطہ خیرُن بی اپنےمخصوص انداز میں منہ پرہاتھ رکھ کر کہنےلگیں۔
” آہےمیاں ! تم دو ، دو بیٹیوں کےباپ ہو ذرا تو صبر سےکام لو۔ تم تو ابھی سےبیزار ہونےلگے! آج کل تو اچھےلڑکوں کا کال پڑاہے۔ایسے میں اگر روز روز میں اتنی محنت کررہی ہوں تو صرف اس لیےکہ تمہاری پھول جیسی بچیاں اٹھ جائیں۔خدانخواستہ کل کلاں کو کسی غلط گھر میں پڑگئیں تو زندگی بھر کارونا۔ سیانےکہہ گئےہیں “شادی کرکےدیکھو گھر بناکر دیکھو! بیٹیوں کاباپ ہونااتناآسان نہیں ہےمیاں!پھرخیرُن بی نےاپنابٹوہ کھولا اور اس میں سے پان کا بیڑانکال کرمنہ میں رکھتے ہوئےکہنےلگیں۔
اللہ نصیب اچھےکرےپھول جیسی بچیاں ہیں تمہاری۔ بس یہ بچیاں اُٹھ جائیں تو میں راحت کی سانس لوں گی۔ اورمیاں جس گھرمیں بیری کاپیڑ ہو وہاں پتھرتو آتےہی رہتے ہیں” پھر ایسی باتوں سے کیاگھبرانابھلا!
خیرن بی کی باتیں سن کر مراد صاحب چپ ہوگئےلیکن ایک دن وہ پتھر کی جگہ پہاڑ ہی اُٹھالائیں۔ ایک ایسا پہاڑ جسے دیکھ کر مراد صاحب کاجی چاہا کہ اسے ڈائنامائٹ سے اُڑا دیں۔ ویسےتو پیام انسان کے بچےکاتھا۔ لیکن اُسے تلاش ایسی مرغی کی تھی جو روزانہ سونے کاانڈادے۔
ان کی نیت بھانپ کر مراد صاحب کےدل میں آیا کہ اس لڑکےکو بھی مرغیوں کے کُھڑاڑے میں بند کرکےہر روز صبح و شام بانگ دینےپرمجبورکریں۔
دوسری طرف ان سب خرافات کےباوجود بھی خیرُن بی یہ کہتےنہیں تھک رہی تھیں کہ “لڑکےوالے نہایت شریف اور خاندانی لوگ ہیں۔ اور لڑکا تو بالکل ہیرا ہےہیرا”
لیکن مراد صاحب کو ایساہیراچاٹ کر مرنانہیں تھا۔ وہ چپ چاپ بیٹھےسوچ رہےتھےکہ یہ کیسادور ہے جہاں:
“خرد کا نام جنوں رکھ دیاجنوں کاخرد”
حرص و طمع کا نام بدل کررواج کردیاگیا۔ بےغیرت و لالچی لوگ نام و انداز بدل بدل کر کھلےعام ڈاکےڈال رہےہیں۔ انتہاتو یہ تھی کہ اپنی ہٹی کٹی کماؤ پوت اولاد کے ہونے کے باوجود بھی گھوڑےجوڑےکےنام پربھیک مانگتے ذرانہیں شرمارہےہیں۔ اور پھر طُرۂ امتیاز یہ کہ انہیں اپنےاعلیٰ خاندان و اعلیٰ ظرف ہونےکابھی دعویٰ ہوتاہے۔
اب وہ لوگ جن کےگھراللہ کی رحمت “بیٹیاں “ہیں وہ تو سرجھکائےان بےرحم لٹیروں کےہاتھوں لٹتےرہیں لیکن بےغیرت و حریص لوگ سسرال سےملے گھوڑے جوڑے پر عیش کرتےرعب سے سینہ تان کر پھریں۔
یہ کیسادور ہےجہاں رحمت کو زحمت باور کرایا جا رہا ہے۔بیٹی کا معنی مصیبت تو نہیں ہوتا!!
مراد صاحب اچھےرشتوں کےحصول کےلئے نمازوں کی پابندی کےساتھ ساتھ مولوی صاحب کے بتائےقرآنی وظائف کابھی ورد کرنےلگے۔
ایک دن سردجاڑوں کےموسم میں نمازِ فجرکے لیے اُٹھے مراد صاحب کیلئے بیٹی وضو کاپانی گرم کرلےآئی تو مراد صاحب نے ایسی فرمانبردار ، سُگھڑ و سلیقہ شعاربیٹیاں عطاکرنے پر اپنےرب کاشکراداکیا۔ اورسوچنےلگےکہ میں اپنی پیاری بچیوں کوہرگز ان لالچی لوگوں کےحوالےنہیں کروں گا۔اور اللہ رب العزت سے گڑگڑاکراپنی بچیوں کےاچھےنصیب کی دعامانگنےلگے۔
کہتےہیں رب راضی تو جگ راضی۔ مراد صاحب کی گڑگڑاہٹ نےرب کو راضی کرہی لیا۔
ہوا یوں کہ آصف صاحب جوکہ مراد صاحب کےماتحت تھےاچانک سخت بیمارہوگئے۔
مرادصاحب مزاج پرسی کےلئےان کےگھرتشریف لےگئےتو آصف صاحب جو نہایت شریف و ملنسار طبیعت کےمالک تھے۔علیل ہونےکےباوجود اُٹھ کر بڑےتپاک سےملے۔
آفس کےماحول میں مراد صاحب کو کبھی اس بات کااحساس نہیں ہواکہ آصف صاحب اتنے پرخلوص و ہمدردقسم کےانسان ہیں۔
مراد صاحب ان کی اپنائیت سے متاثر ہوکر آج پہلی باران سے کھل کراپنی پریشانی بیان کردی۔ اپنی لڑکیوں کےلئے آئےرشتے اوران کےلالچی و گھٹیا کے شرائط وغیرہ۔ یہ سب جان کر آصف صاحب بھی قوم کی بدلتی
سوچ پر افسوس کا اظہار کرنے لگے لیکن پھر اچانک ان کی آنکھوں میں چمک سی عود کر آئی۔ وہ مراد صاحب سے کہنےلگےکہ: سر” اگر آپ اجازت دیں تو میری نظر میں ایک رشتہ ہے۔لڑکاسیدھا سادھا اور پڑھالکھاہے۔ اوسط گھرانےسےتعلق رکھتاہے۔ اس کےخاندان میں باپ دادا یاکسی نےکوئی بڑےکارنامےانجام نہیں دیے۔ البتہ عزت و شرف کےساتھ زندگی گزارگئےہیں۔لڑکاایک پرائیویٹ فرم میں مناسب سےعہدہ پر فائز ہے۔ تنخواہ بس اتنی ہی ہے کہ ہنسی خوشی گزربسرہوجاتی ہے۔ مگرلڑکا بڑا خودارہے جہیز میں جوڑےگھوڑےکی رسم کو لعنت تصورکرتاہے۔ اگر
آپ کومنظورہو تو میری طبیعت بہترہوتےہی آپ سےاس لڑکےکی ملاقات کروادیتاہوں۔
مراد صاحب ایک بڑےسرکاری افسرتھےاور داماد بھی کوئی سرکاری افسر ہی چاہتےتھےلیکن نہ جانےآصف صاحب کی سچی کھری باتوں میں ایساکیا تھا کہ وہ لڑکے سےملنےکے لیے راضی ہوگئے لیکن اصل مسئلہ تو بیگم مرادکاتھا۔ وہ تو اپنی بیٹیوں کےلئےہائی فائی رشتوں کی تلاش میں تھیں۔
اور پھرمراد صاحب کا خدشہ درست ہی نکلا۔ بیگم مرادنےاس رشتےسےصاف انکار کردیا۔
کہنےلگیں کہ “آپ اتنےبڑےسرکاری افسر ہیں اور اللہ نےہمیں ہرچیزسے نوازاہےتو پھر ہم کیوں ایسےلو پروفائل لڑکے کاانتخاب کریں؟ لوگ کیا کہیں گےکہ کس فقیرکےگلےبیٹی باندھ دی ہے”؟
بیگم کی باتیں سن کرمراد صاحب کو اپناماضی یادآگیا۔
مراد صاحب مسکراکرکہنےلگے!دیکھو بےغم! مراد صاحب اکثراپنی بیگم کوپیارسےبےغم ہی بلایاکرتےتھے۔بےغم جب ہماری شادی ہوی تھی تو اس وقت میں افسرتوکیا بلکہ سرکاری ملازم بھی نہیں تھا۔لیکن آپ کےوالدصاحب جو کہ اعلیٰ سرکاری عہدے پرفائز ہونےکےباوجودبھی اُنہوں نے صرف ہمارےاخلاق ، شرافت و وضع داری دیکھی اور آپ کا بیاہ ہمارےساتھ کردیا۔ کیاوہ غلط تھےیااُن کاانتخاب غلط ثابت ہوا؟اور آپ بھی تو بڑےگھرکی بیٹی ہونےکےباوجود ہمارے ساتھ زندگی کی دھوپ چھاؤں میں ہنسی خوشی نباہ کررہی ہیں۔ کیا آپ کو کبھی اپنےاباکےانتخاب پر افسوس ہوا؟یادرکھیےبیگم ایک بیوی کےلئےسب سےزیادہ ضروری بات یہ ہوتی ہےکہ اس کاشوہر شریف ہو، خوش اخلاق اور ایماندارہو۔صرف دولت سےزندگی کاسکھ چین نہیں خریداجاسکتا۔ آپ ہائی پروفائل والےرشتوں کی اصلیت بھی دیکھ رہی ہیں ۔اُن کےپاس دولت اسٹیٹس سب کچھ ہےمگرنہیں ہےتو بس اللہ پر توکل نہیں ہے اور معاشرے میں ان کی تعداد دس فیصدی سےزیادہ نہیں ہے۔
اب اگرہمیں ایسےہائی پروفائل رشتےمیسرنہ ہوےتوکیاہم اپنی بیٹیوں کی شادی نہیں کریں گے؟
مراد صاحب اپنی آوازکو مزید دھیمی کرتےہوےاپنی بات جاری رکھی۔ آصف صاحب جس رشتے کاکہہ رہےہیں ہمیں اس لڑکےکو ایک نظردیکھ لینا چاہیے۔ اگرلڑکاشریف ہوا خودار و محنتی ہے تو پھر وہ اپنامستقبل خود ہی سنوارلےگا۔آمدنی کی کمی یا سرکاری ملازمت کا نہ ہونا یہ کوئی عیب تو نہیں!اگر آپ نے اپنی بیٹیوں کی تربیت اچھی طرح کی ہےاور اللہ پرتوکل کرناسکھایاہےتو پھر اپنی بیٹی کم کھاکربھی ہنسی خوشی گزارہ کرلےگی۔
آپ نےوہ مشہور کہاوت نہیں سنی!
“اللہ کا دیا سَرتا نہیں بندوں کا دیا پُرتا نہیں۔”
جب رزق عطاکرنےوالارزاق رحیم و کریم ہے تو پھر ہم کیوں ان معاملات میں اُلجھیں ؟آج ہائی اسٹیٹس اور ہائی پروفائل کے چکر میں بےشمارلڑکے لڑکیاں کنوارے بیٹھے بےراہ روی کا شکار ہو رہےہیں۔ کہیں گھوڑےجوڑےکی حرص میں توکہیں جھوٹی شان وشوکت کےدکھاوےمیں لوگ اچھے برے کا فرق مٹا چکے ہیں۔ نتیجہ! ایسے رشتے وجود میں آ رہے ہیں جن کااختتام خیر پرنہیں ہورہاہے۔
بیگم اللہ کےنزدیک وہی بندہ عمدہ و اعلیٰ ہےجس کاتقویٰ سب سےبہترہے۔آپ خطبہ حجۃ الوداع کو بھول گئیں ؟ ہمارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےفرمان کو بھول گئیں ؟بیگم ذراسوچو! جس رشتےکی بنیاد ہی اسلامی تعلیمات کےخلاف رکھی جائے وہ بندھن بھلاکیسےمضبوط ہوسکتےہیں؟
یہ باتیں سن کر بیگم مراد کےچہرےپرندامت کےآثار نمایاں ہونے لگے۔ انہیں اپنےخیالات اورایسی سوچ پر بڑی شرم آئی۔ اباجان بھی تو اُنہیں ہمیشہ یہی درس دیاکرتےتھے لیکن بدلتےوقت نےسب کچھ بھلاکراُنہیں بھی بدل کررکھ دیاتھا۔
“وہ” دولہےعارف میاں سےملنے تیار ہوگئیں۔ نہ صرف تیار ہوگئیں بلکہ جب ان سے ملی تواپنا داماد بنانےپربھی آمادہ ہوگئیں۔
مراد صاحب خفا ہوگئے جب انہیں یہ پتہ چلا کہ دُلہا عارف میاں کوئی اور نہیں بلکہ آصف صاحب کےہی فرزند ہیں اور آصف صاحب نےیہ بات قصداً ان سے چھپائی تھی تو وہ سخت ناراض ہوگئے۔ وہ جانناچاہتےتھےکہ آصف صاحب نےان کےساتھ ایسا کیوں کیا؟ لیکن جب آصف صاحب نے نہایت مؤدبانہ انداز میں یہ کہہ کر صفائی دی کہ۔ “مراد صاحب یہ بات میں نے محض اس لئےچھپائی تھی کہ آپ کو فیصلہ کرنےمیں آسانی ہو۔ اگرکسی وجہ سے میرے بیٹےعارف میاں کو آپ رد بھی کردیتے توکم ازکم آپ کےدل پرکسی قسم کابوجھ نہ ہوتا۔اور ہمارےتعلقات پربھی کوئی اثر نہیں پڑتا اسی لئےمیں نےشروع میں یہ بات آپ سےچھپائی تھی۔ مرادصاحب کو آصف صاحب کی یہ بات معقول لگی۔
واقعی وہ یہ بھول گئےتھےکہ آصف صاحب ان کےماتحت بھی ہیں۔ مراد صاحب آصف صاحب کی باتیں سن کر”اُنہیں” بڑی حیرت سے تکے جا رہے تھے۔ دنیا شاید اب ایسےحساس لوگوں سے خالی ہوتی جارہی تھی۔ شاید اسی لیےمراد صاحب کے ذہن میں یہ خیال پہلےنہیں آیاتھا۔ آج مراد صاحب بھی آصف صاحب کی مثبت سوچ و احتیاط پسندی کےقائل ہوگئے۔
جس دن بیٹی کی ڈولی اٹھ رہی تھی تومراد صاحب بہت مطمئن تھے۔کیونکہ وہ یہ بات خوب جانتےتھے کہ جو ماں باپ حلال و حرام کا فرق جانتےہوں ان کی اولاد کبھی ناخلف نہیں ہوتی۔ اور دُلہےعارف میاں جس گھرکےپروردہ ہیں وہاں تو کسی کےجذبات و احساسات مجروح ہوں یہ ممکن نہیں تھا۔ پھر فکر کس بات کی!!!!
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...