ادب کی کسی بھی صنف میں جو کچھ بھی لکھا جاتا ہے،وقت اسے ادب کے ترازو میں ضرور تولتا ہےکہ تخلیق کیے جانے والے فن پارے کی ادبی حیثیت کیا ہے؟ اس کا کتنا حصہ قابلِ قدر ہے؟ اس میں کوئی نئے رجحانات ، امکانات و زاویے نظر آئے ہیں یا نہیں؟ ان رجحانات و امکانات کا مجموعی سماجی حالات و واقعات سے کوئی تعلق بنتا بھی ہے یا نہیں۔۔۔؟حقیقت میں یہی وہ پیمانہ ہے، جوکسی ادیب یا اس کے فن کو ادب میں نمایاں مقام طے کرنے میں مدددیتا ہے۔ادب کی جتنی بھی اصناف ہیں، ان کے اپنے اپنے اصول و ضوابط، فنی لوازمات اور پابندیاں ہیں، جن کا دورانِ تخلیق اگر خیال رکھا جائے تو اُس فن پارے کی ادبی حیثیت متاثر نہیں ہوتی۔شاعری کی طرح افسانے کے بھی جمالیاتی اصول، اپنی ایک ترتیب اور فنی و تکنیکی تقاضے ہیں جن کے بغیرایک اچھے افسانے کی تخلیق ممکن نہیں۔ سب سے پہلے تو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ افسانہ کیا ہے اور اس کی تینکیک کیسی ہونی چاہئے؟ویسے تو افسانے میں بہت ساری باتوں اور باریکیوں کا خیال رکھا جاتا ہے مگر یہاں صرف درج ذیل چیدہ چیدہ نکات پر ہی بات ہو گی۔
1: اختصار
افسانے کی سب سے بڑی خصوصیت اور خوبصورتی اس کا اختصار یعنی مختصر ہونا ہے۔ دوسرے لفظوں میں افسانہ کہتے ہی مختصر کہانی کو ہیں۔مگر ہرمختصر افسانہ بھی افسانہ نہیں ہوتا۔ مختصر افسانہ ادب کی وہ صنف ہے، جس کی جس کی اپنی ایک فنی ترتیب، جمالیاتی اصول، معیار اور قدریں ہوتی ہیں اور افسانہ اپنی ان ہی اصولی قدروں سے پہچانا جاتا ہے۔غیر ضروری لفاظی اور کاریگری دکھانے کے شوق میں اکثر افسانےغیر ضروری طوالت کا شکار ہو کر افسانے کے دائرے سے خارج ہوجاتے ہیں۔افسانہ چونکہ ناول سے مختلف صنف ہے، اس لئے اس میں کسی قسم کی غیر ضروری وسعت یا پھیلائو کی گنجائش نہیں ہوتی۔بنیادی طور پر افسانہ زندگی کی کسی بھی لمحاتی یا وقتی کیفیت، کسی انسان کا کوئی ذہنی الجھائو یا کوئی ایک نفسیاتی پہلو، کوئی ایک اچھوتی عادت یا کردار کا کوئی ایک دلچسپ پہلو افسانے کا موضوع بن سکتا ہے۔
2: پلاٹ
پلاٹ افسانے کا وہ بنیادی عنصر ہے، جس کے بغیر افسانہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔جیسے پلاٹ کے بغیر مکان کی تعمیر ممکن نہیں۔پلاٹ اچھی اور موزوں کیفیت کا حامل ہو تو مکان انتہائی خوب صورت انداز میں تعمیر کیا جا سکتا ہے۔اگر پلاٹ میں نقص ہو تو مکان میں بھی نقص نظر آئے گا۔ اس لئے اچھے افسانے میں اس کا پلاٹ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔دوسرے لفظوں میں پلاٹ کہانی کی ترتیب کو کہتے ہیں،اور اس ترتیب کے بغیر افسانے میں افسانویت باقی نہیں رہتی۔افسانے میں پلاٹ کی اہمیت ناول سے بھی کہیں زیادہ ہے اس لئے پلاٹ کا جاندار ہونا بہت ضروری ہے۔
3: کہانی
واقعاتی افسانے میں کہانی نہ ہو تو افسانہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے، اور قاری کو بھی شدت سے احساس ہونے لگتا ہے کہ پڑھ کر وقت ضائع کیا ہے۔ جیسے اکثر کوئی فلم دیکھنے کے بعد کہا جاتا ہےکہ یار! مزہ نہیں آیا، فلم میں کہانی نہیں تھی۔بس کہانی کے بارے میں یہی بنیادی بات افسانے پر بھی لاگو ہوتی ہے۔کہانی سے مرادافسانے کی وہ بنیادی تھیم یا مرکزی خیال ہے، جسے افسانہ نگار کہانی میں لپیٹ کر اپنے قارئین تک پہنچاتا ہے۔چونکہ کہانی واقعاتی افسانے کی روح تصور کی جاتی ہے، تواس میں مقصدیت ضرور ہونی چاہیے۔ اس لئے تخلیق کار کو یہ احساس ضرور ہونا چاہیے کہ جب تک تخلیقات میں اجتماعی سماجی رویوں اور انفرادی امنگوں و جذبات کی شیرینی نہ گھولی جائے، تو وہ تخلیق لوگوں کے معیار پر پورا نہیں اترسکتی۔ادیب کو ہمیشہ اپنی زمین، اپنے ماحول اور اپنی معاشرت اور اس سے جڑے رویوں سے کہانی کشید کرنی چاہیے تاکہ وہ سب کو اپنی کہانی لگے۔
4: وحدتِ تاثر
مختصر افسانے کی صنف میں سب سے نمایاں خوبی اس کے تاثر کی وحدت ہے۔ افسانہ جو ایک خیال، ایک وقتی کیفیت، واقعہ یا کسی لمحاتی صورتِ حال سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا، اس لئے اس میں بذاتِ خود بھی ایک وحدت ہوتی ہے۔ اگر افسانے کے تمام حصوں میں ربط نہ ہو تو اس کی وحدت اثر انداز ہو تی ہے۔بے ربط افسانے کی مثال یوں ہے، جیسے فرش پر موتی بے ترتیبی سے بکھرے پڑے ہوں۔ ایسی صورتِ حال سےابلاغ کا بھی مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے اور افسانے کا وہ پیغام بھی دب جاتا ہے جو افسانہ نگار قاری تک پہنچانا چاہتا ہے۔اس لئے افسانہ ایک لڑی میں پروئے موتیوں کی طرح سے لگنا چاہئے اور شروع سے آخر تک قاری کو ایک ہی تاثر ملے، تاکہ افسانہ نگار کا نقطئِ نظر واضح طور پر ابھر سکے۔
5: نقطۂ عروج
ایک بات جو واقعاتی افسانے کی خوبصورتی میں کئی قدر اضافہ کر دیتی ہے، وہ ہے افسانے کا نقطئِ عروج۔ جس افسانے میں نقطۂ عروج نہ ہو، وہ افسانہ دیرپا اثرات نہیں چھوڑپاتا۔ افسانے کو نقطۂ عروج پر پہنچا کر اسی جگہ پر اس کا مناسب اختتام کر دینا چائیے۔ یہی افسانے کی معراج ہے۔ دوسرے لفظوں میں افسانے کا نقطۂ عروج ہی اس کا اختتام ہوتا ہے ۔مگر اکثرافسانہ نگار واقعاتی افسانے کی اس خوبی اور وصف سے نابلد ہوتے ہیں اور وہ اپنے افسانے کے اختتام میں سب اچھا کر دکھانے کے چکروں میں ہوتے ہیں، یعنی الف لیلوی کہانیوں کےاختتام کی طرح کہ اورسب آپس میں ہنسی خوشی رہنے لگےجیسی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس سے افسانے کی خوبصورتی اور اس کی افسانویت کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔ واقعاتی افسانے کا ایسی جگہ اختتام کیا جانا چاہئے جہاں سے معنویت کی نئی راہیں کھلتی نظر آئیں۔
6: اسلوب
واقعاتی افسانے کے فن میں اسلوب بہت اہمیت کا حامل ہے۔ چونکہ افسانے کا میدا ن محدود ہوتا ہے اس لئے افسانہ نگار کو ایک ایساانداز اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے اظہار و ابلاغ میں کوئی دشواری پیدا نہ ہو۔ بڑا افسانہ نگار وہ ہوتا ہے جو ایک ایک لفظ اور مختصر جملوں سے بڑے بڑے کام لیتا ہے۔ اور اکثر افسانوں میں صرف ایک لفظ یا کسی مخصوص جملے پر ہی افسانے کی کل اساس ہوتی ہے۔اور الفاظ کے بروقت استعمال سے افسانے کا مفہوم بدل جاتا ہے اور معنویت کی نئی راہیں کھلنے لگتی ہیں۔ خوب صورت اور چست اندازِ بیان و اسلوب کمزور افسانے میں بھی جان بھر دیتا ہے۔
7: موضوع پر دسترس
افسانہ جس موضوع پر لکھا جائے اسے انتہائی چابکدستی اور خوبصورتی سے نبھایا جائے یعنی افسانہ نگار کو اپنے موضوع پر دسترس ہونی چاہیے۔ اسے تمام پہلوؤں کا ادراک ہونا چاہیے۔ اگر کوئی خیال افسانہ نگار کے ذہن کی زمین پر پیدا ہوتا ہے تو اس کا فوری اظہار نہ کیا جائے، ورنہ اس میں سطحیت، جذباتیت اور ناپختگی رہ جا تی ہے۔نئے خیال کو اپنے اندر خوب پکنے دیا جائے، اس کےتمام پہلوئوں پر خوب غورو خوض کرنا چاہیے۔تاکہ وہ ایک بھر پور خیال بن کر ابھرے، جیسے ہنڈیا کو دم دیا جاتا ہے تو اس کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوتی ہے۔افسانہ ہمیشہ معلوم سے نا معلوم کا سفر ہے، جو سامنے ہے وہ تو سب کو معلوم ہے مگر ادیب صرف وہی کہتا اور لکھتا ہے جو کسی کو معلوم نہیں یعنی تخلیقی سطح کا ایک ایسا جھوٹ جو سچ سے بھی زیادہ حقیقی ہو۔
8: ذاتی مشاہدہ و تجربہ
افسانے میں افسانہ نگار کا ذاتی مشاہدہ اور تجربہ ضرور ہونا چاہیے، کیونکہ افسانے کی پختگی کا دارو مدار افسانہ نگار کے ذاتی مشاہدہ اور تجربے پر ہوتا ہے۔اس سے قاری کو یہ بات بخوبی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ افسانہ نگار اپنے ارد گرد کے ماحول سے بے خبر نہیں ہے۔اور یہی وصف کسی بھی افسانہ نگار کو ممتاز بناتا ہے۔افسانے کے ضمنی لوازمات:۹) کردار نگاری: ویسے تو کردار نگاری ناول کی بنیادی اکائی ہے اور افسانے میں کردار اپنا وہ کام نہیں کر پاتے جو ناول میں کر جاتے ہیں۔ افسانے میں تو کردار لمحہ بھر کے لئے حاضری دیتے ہیں اور اپنا احساس دلا کر معدوم ہو جاتے ہیں۔ بنیادی طور پر افسانے میں کرداروں سے رمزیت اور ایمائیت(اشاروں) کا کام لیا جاتا ہے۔ مگر ایسے افسانے بھی تخلیق کئے گئے ہیں جو صرف ایک خاص کردار کے ارد گرد گھومتے ہیں، اس لئے کرداروں کے چنائو میں افسانہ نگار کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے ۔ جس نوعیت کا کردار ہو، اس سے ویسے ہی مکالمے کہلوانے چاہئیں، یہ نہ ہو کہ کردار ایک موچی کا ہو اور اس سے باتیں دانشوروں کی کہلوائی جائیں، کردار ایک پاگل کا ہو اور وہ باتیں عقلمندوں جیسی کرتا پھرے۔ یہ افسانے کی خامی تصور کی جائے گی۔ اسی وصف کو مکالمہ بازی کہتے ہیں ، جس سے افسانے میں بے ساختگی کا عنصرپیدا ہوتا ہے۔
افسانے کے ضمنی لوازمات
9: کردار نگاری
ویسے تو کردار نگاری ناول کی بنیادی اکائی ہے اور افسانے میں کردار اپنا وہ کام نہیں کر پاتے جو ناول میں کر جاتے ہیں۔ افسانے میں تو کردار لمحہ بھر کے لئے حاضری دیتے ہیں اور اپنا احساس دلا کر معدوم ہو جاتے ہیں۔ بنیادی طور پر افسانے میں کرداروں سے رمزیت اور ایمائیت(اشاروں) کا کام لیا جاتا ہے۔ مگر ایسے افسانے بھی تخلیق کئے گئے ہیں جو صرف ایک خاص کردار کے ارد گرد گھومتے ہیں، اس لئے کرداروں کے چنائو میں افسانہ نگار کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے ۔ جس نوعیت کا کردار ہو، اس سے ویسے ہی مکالمے کہلوانے چاہئیں، یہ نہ ہو کہ کردار ایک موچی کا ہو اور اس سے باتیں دانشوروں کی کہلوائی جائیں، کردار ایک پاگل کا ہو اور وہ باتیں عقلمندوں جیسی کرتا پھرے۔ یہ افسانے کی خامی تصور کی جائے گی۔ اسی وصف کو مکالمہ بازی کہتے ہیں ، جس سے افسانے میں بے ساختگی کا عنصرپیدا ہوتا ہے۔
10:جزئیات نگاری
جزئیات نگاری بنیادی طور پر ناول کاوصف ہے مگر افسانے میں بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔جزئیات نگاری کسی کردار یا منظر کی وہ چھوٹی چھوٹی خوبیاں یا خامیاںہوتی ہیں،جس سے عام قاری نا واقف ہوتا ہے۔ جیسے ایک خالی کمرے میں چھوٹی چھوٹی جزوی چیزیں اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔ جزئیات نگاری سے ہی منظر نگاری جڑی ہوتی ہے۔ جزئیات نگاری کے لئے غلام عباس کے افسانے بہت اہمیت کے حامل ہیں، جس طرح وہ اوورکوٹ میں نوجوان کا خد وخال اور کیفیت بیان کرتے ہیں، وہ جزئیات نگاری کی اعلیٰ مثال ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...