وہ نجانے کب سے اندھیرے کو گھورے جا رہا تھا۔ اس کی پھیلتی سکڑتی پتلیوں میں حیرانی کے ساتھ ساتھ وحشت رقصاں تھی۔ تاریکی کی چادر کی اوٹ سے ایک انسانی ہیولا نمودار ہوا اور اس کی وحشت زدہ آنکھوں میں کندہ مناظر میں چھپے اسرار کے معانی کھوجنے کی کوشش کرنے لگا۔ جب کہیں گوہرِ مقصود نہ پایا تو درانہ وار آنکھوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گھستا چلا گیا۔ اس کی آنکھوں میں چند برس قبل کی کرب ناک یادوں کا عکس منجمد ہو کر رہ گیا تھا۔ ہیولے نے آہستہ آہستہ اس عکس کو ایک جانب سے کھرچنا شروع کر دیا۔ وہ اس بات سے انجان تھا کہ عکس کے پار جھانکنے کی کوشش میں وہ ان آنکھوں کو اذیت سے دوچار کر رہا تھا۔
ادھڑی ہوئی یادوں کا سرا ڈھونڈنا آسان نہیں تھا۔ کافی کوشش کے بعد وہ سرا ڈھونڈنے میں کامیاب ہو پایا۔ اس نے اپنے پاؤں سرے پر رکھے اور ڈوری پر چلتا ہوا عکس کے پار پہنچا تو اس کی پتلیاں بھی حیرت سے پھیلتی چلی گئیں۔ اس وحشت کدے میں ایک الگ جہانِ حیرت آباد تھا۔
اس کے سامنے ایک میدان تھا ، جس میں بچے پتنگ اڑا رہے تھے۔ میدان کے دوسری جانب اسے دائرے کی شکل میں کھیلتی لڑکیاں دکھائی دیں ۔ ان کی عمریں نو سے بارہ کے درمیان تھیں۔ ایک چوپال جس میں کچھ بزرگ حقہ پیتے ہوئے ، حالات حاضرہ پر بحث کر رہے تھے۔ آپس میں ملی ہوئی دیواروں کی منڈیروں پر کہنیاں جمائے عورتیں، ایک دوسرے سے محو گفتگو تھیں۔ چھوٹے بچے کھلونوں سے کھیلتے، ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔
اس نے حیرت زدہ ہو کر ان کی طرف دیکھا لیکن کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ یہ مناظر اس کی نگاہوں کو بھلے معلوم ہو رہے تھے۔ اس نے ایک پر سکون سانس بھری اور میدان کے عین وسط میں رکھے سنگی بنچ پر بیٹھ گیا۔
“یہ سب کس قدر نشاط انگیز ہے۔” اس نے آنکھیں موند کر ان مناظر کو اپنی آنکھوں میں قید کر لینا چاہا۔ اچانک ایک چیخ بلند ہوئی تو اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ تمام مناظر غائب ہو چکے تھے اور اس کے اردگرد وحشت کا ڈیرا تھا۔ ایک جانب سے ایک شکرا نکلا اور دانہ چنتی فاختہ پر جھپٹا۔ وہ فاختہ کو پنجوں میں دبائے بلند ہوا اور اوپر کی جانب اڑتا ہوا ، دور پہاڑوں میں گم ہو گیا۔ اس نے چاہا شکرے کا تعاقب کرے لیکن وہ ایسا نہ کر پایا۔۔ وہ تھک کر بنچ پر بیٹھ کر چاروں جانب تکنے لگا لیکن منظر کی وحشت انگیز فضا نے اسے نظریں چرانے پر مجبور کر دیا۔ دور کہیں کسی نئے منظر کے سرے اس کی آنکھوں سے الجھے اور اس کی نگاہوں پہ اک نئی کہانی بننے لگے۔ اسے ایک معصوم بلی دکھائی دی، جس کا پیٹ کئی دن کے فاقوں سے پسلیوں کے ساتھ لگ چکا تھا۔ وہ اپنے وجود کو گھسیٹتے ہوئے قصائی کے پھٹے کی طرف بڑھ رہی تھی ، تا کہ اپنا پیٹ بھر کر نومولود بچوں کی غذا کا انتظام کر سکے۔ اسی اثناء میں ایک رال ٹپکاتا کتا اس کی جانب لپکا۔ بلی چیختی چلاتی ایک جانب بھاگی لیکن رال ٹپکاتے کتوں کا ایک غول نجانے کہاں سے نمودار ہو گیا۔ اس نے پتھر اٹھایا تا کہ انہیں روک سکے لیکن اس کی یہ کوشش کارگر ثابت نہ ہو سکی۔ کتوں کا غول اس کی پہنچ سے دور نکل چکا تھا اور شاید بلی کو بھی دبوچ چکا تھا۔ اس نے ترحم آمیز نگاہوں سے بلی کے بچوں کی جانب دیکھا جو خوف زدہ ہوکر ایک دوسرے میں دبک گئے تھے۔ وہ مرے مرے قدم اٹھاتا ان کے قریب آیا لیکن وہ اس سے ڈر کر جھاڑیوں میں غائب ہو گئے۔
“حیرت ہے یہ مسیحا سے بھی خوف زدہ ہیں۔” وہ جھنجھلا کر واپس پلٹ آیا۔
اک نئے منظر نے اس کی زخمی نگاہوں پہ دستک دی۔ تاحد نگاہ پھیلی فصلوں کے عین وسط میں بنی پگڈنڈی پر بھیڑ بکریوں کا ایک ریوڑ نمودار ہوا۔ ریوڑ کو گڈریا ہانک رہا تھا۔ کندھے پر دھرے خاکی کپڑے سے گاہے بگاہے وہ اپنا پسینہ صاف کرتا بکریوں کو ایک سیدھ میں چلانے کی کوشش میں ہلکان ہو رہا تھا۔ اتنے میں ایک بھیڑ ہری بھری گھاس کے قریب رک کر چرنے لگی وہ اپنی دھن میں چلتی ہوئی ریوڑ سے تقریباً باہر نکل چکی تھی۔
“یہاں مت رکو! یہ جگہ خطرناک ہے۔ اپنے مالک کے پاس چلی جاؤ۔” وہ چلایا لیکن بھیڑ تو ہری بھری گھاس کو دیکھ کر جیسے سب کچھ فراموش کر چکی تھی۔
ابھی ریوڑ کچھ ہی دور گیا تھا کہ بھیڑ کے گلے سے ایسی آواز برآمد ہوئی، جیسے اسے کسی نے کند چھری سے ذبح کر دیا ہو۔ گڈریے نے کر گردن موڑ کر دیکھا، ایک بھیڑیا ، بھیڑ کو چیر پھاڑ چکا تھا۔ وہ حیران ہوا گڈریے کے چہرے پر پریشانی کا شائبہ تک نہیں تھا بلکہ کمینی سی خوشی کے آثار نمایاں تھے۔ وہ بھی وہیں گھاس میں غائب ہو گیا۔ واپس آیا تو اس کے منہ پر تازہ خون کے نشانات تھے۔ اس نے کندھے پر رکھے کپڑے سے منہ صاف کیا اور ریوڑ کو دیکھ کر سیٹی بجائی. بھیڑیں جو ادھر ادھر بکھرنے لگی تھیں اس کی آواز پر خوشی سے اچھلتی اس کے پاس چلی گئیں۔
“یا اللہ یہ کیا ماجرا ہے۔” وہ الجھ گیا۔ اس نے دھیان بٹانے کی غرض سے اپنی توجہ پھولوں کی کیاری پر مرکوز کر دی۔
اس نے تتلیوں کو پھولوں کے گرد منڈلاتے ہوئے دیکھا تو اٹھ کر ان کے قریب آ گیا۔
“کانٹوں سے بچ کر رہنا، ورنہ یہ تمہارے وجود میں زخم پرو دیں گے۔” اس نے ایک تتلی کے کان میں سرگوشی کی۔ ابھی وہ یہ کہہ کر پلٹا ہی تھا کہ اسے تتلی کی چیخ سنائی دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو وہ ایک کانٹے سے الجھ کر سفید گلاب کو اپنے خون سے رنگین کر چکی تھی۔ وہ تاسف بھری نگاہ اس پر ڈال کر پلٹ آیا۔ بینچ پر لیٹ کر اس نے آنکھیں موند لیں۔ کچھ ہی دیر بعد سارنگی کی مدھر آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تو وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ آواز قریب آتی جا رہی تھی۔ سارنگی کی سحر انگیز آواز اس کے کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ فرط انبساط سے اس کا رواں رواں رقص کرنے لگا۔ کچھ دیر قبل دکھائی دینے والے دلدوز مناظر ذہن کے پردوں سے محو ہوتے چلے گئے۔ اداسی کی جگہ خوشی کا جاں فزا احساس اس کے رگ و پے میں سرایت کرتا چلا گیا۔ آواز کافی قریب آ چکی تھی۔ اس کی نگاہوں نے بے تابی سے آواز کا تعاقب کیا۔ سامنے اک دلنشیں منظر اس کا منتظر تھا۔ چند آدمی قوس قزح کی ڈولی کو کندھوں پر اٹھائے چلے آ رہے تھے۔ جالی دار پردوں کے عقب سے دلہن پر شوق نگاہوں سے باہر جھانک رہی تھی۔ اچانک ایک جانب سے ایک گھڑ سوار آیا، اس نے ڈولی میں سے دلہن کو اچک کر گھوڑے پر بٹھایا اور آن کی آن میں غبار میں گم ہو گیا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ سب لوگ جہاں کھڑے تھے وہیں ساکن ہو چکے تھے۔
“ارے تم میں سے کوئی گھڑ سوار کا تعاقب کیوں نہیں کرتا؟” وہ چلایا لیکن اس کی آواز بازگشت بن کر پلٹ آئی۔ وہ سب کے سب پتھر کے ہو چکے تھے۔
“پتھروں سے سر پھوڑنا بے سود ہے۔” وہ بینچ کی طرف بڑھ گیا۔ اداسی نے اسے پھر سے اپنے بازوؤں میں لپیٹ لیا تھا۔
چند ہی ثانیے گزرے تھے کہ ایک طرف سے اسے بیل گاڑیاں آتی دکھائی دیں۔ قریب آنے پر معلوم ہوا کہ وہ اناج سے بھری ہوئی ہیں۔ سب سے آگے والے گاڑی بان نے گاڑی روکی اور راستے میں پڑے پتھر اٹھا کر ایک جانب پھینکنا شروع کر دیے تا کہ گزرنے کا راستہ بنایا جا سکے۔
“انہیں مت پھینکو! یہ دلہن کی واپسی پر ٹھیک ہو جائیں گے۔ اس نے گاڑی بان کے قریب جا کر کہا۔
“دلہن اب واپس نہیں آئے گی اور اگر آ بھی گئی تو یہ پتھر ہی رہیں گے، تم فکر مت کرو۔” گاڑی بان نے آخری پتھر اٹھا کر ایک طرف پھینکا اور ماتھے پر آیا پسینہ صاف کرتا بیل کو ہانکنے لگا۔
وہ الٹے قدموں واپس لوٹ آیا۔ بینچ پر بیٹھتے ہوئے اس نے نے دیکھا کہ گزرتی ہوئی گاڑیوں سے اناج نیچے گر رہا ہے۔ غور کرنے پر اسے بہت سے چوہوں کے سر نظر آئے۔
“ارے رکو! تمہارا اناج ضائع ہو رہا ہے۔ یہ منزل پر پہنچنے سے قبل ختم ہو جائے گا۔ ان چوہوں سے اپنا اناج بچانے کی کوئی تدبیر کرو۔” اس کی آواز گاڑی بانوں کی سماعتوں سے ٹکرا کر واپس پلٹ آئی۔
اسے بینچ پر بیٹھے ہوئے نجانے کتنا وقت بیت چکا تھا۔ چند گھنٹے، دن، ماہ، سال یا پھر صدیاں وہ طے نہ کر پایا۔ اسے تو کم از کم یہی محسوس ہو رہا تھا، جیسے وہ صدیوں سے یہیں تھا۔ رات آہستہ آہستہ بھیگتی جا رہی تھی۔ چودھویں کی شب اسے بہت پسند تھی لیکن اس وقت چاندنی کی ٹھنڈک کی بجائے حبس نے فضا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان دیکھا دھواں چہار سو پھیل کر ماحول کو گھٹن زدہ کر رہا تھا۔ اس نے شکوہ کناں نگاہوں سے چاند کی جانب دیکھا۔
“ایسے کیا تک رہے ہو؟” چاند نے اٹھکیلیاں کرتی چاندنی کو اپنے پہلو میں سمیٹتے ہوئے پوچھا۔
“کچھ نہیں! مجھے حیرت ہے کہ تم اب بھی یہاں نکلتے ہو۔” وہ بینچ پر چت لیٹ گیا۔ چاند، چاندنی کی اداؤں میں محو ہو چکا تھا۔ کچھ دیر کے بعد جگنوؤں کا ایک قافلہ اس کے قریب سے گزرا۔ وہ حیران ہوا، جگنوؤں کی دم سے نکلتی لو کہیں گم ہو چکی تھی اور وہ ایک دوسرے کے پیچھے اندھوں کی طرح اڑ رہے تھے۔ ان کا رہنما تاریکی میں ڈوبے دشت کی جانب بڑھ رہا تھا۔
“ارے سنو! رکو! وہاں مت جاؤ، وہاں بہت اندھیرا ہے، تمہارا راستہ کھو جائے گا، تمہاری روشنی کی طرح!” وہ حلق کے بل چلایا لیکن قافلہ اندھیرے میں گم ہو گیا۔ وہ سارا دن چیختا رہا اور نظرانداز ہوتا رہا۔ اس کی آواز چیخ چیخ کر تھک چکی تھی۔
اسے لگا وہ کسی ایسے دیس میں آ گیا ہے ، جہاں کے باسی اس کی زبان سے انجان ہیں۔
” کیا مجھے واپس چلے جانا چاہیے؟” وہ شش و پنج کا شکار ہوا۔
“ہاں! تم لوٹ جاؤ ورنہ اس بوجھ سے ایک دن میرا وجود بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔”
“یہ آواز کہاں سے آئی، کون ہو تم؟” وہ حیران ہو کر ادھر ادھر تکنے لگا۔
“وہاں کیا دیکھ رہے ہو مجھ پر ہی تو براجمان ہو اتنے بوجھ سمیت۔” بینچ سے آواز آئی۔
“تم بول سکتے ہو؟” اس نے انگلیوں کی پوروں سے بینچ کو چھؤا۔
“ہاں بول سکتا ہوں لیکن میری آواز تمہارے سوا کوئی نہیں سنے گا۔ بہتر ہے تم لوٹ جاؤ۔”
“میں انہیں اپنی بات سمجھائے بغیر واپس نہیں جانا چاہتا۔” اس نے پر عزم لہجے میں جواب دیا۔
” تم کب سے یہاں چیختے چلاتے رہے ہو۔ کیا کسی ایک نے بھی سنا؟ تم جیسوں کا یہاں گزارا نہیں ہو سکتا۔ تم نےاپنا بھی سکون برباد کیا اور دوسروں کا بھی۔”
“مجھے مت ڈراؤ” اس نے بینچ کو گھورا۔
“تمہاری مرضی ہے، خود جاؤ گے یا بھیج دیے جاؤ گے۔ وہ دیکھو! تمہیں سبق سکھانے کوئی آ رہا ہے.” بینچ نے ایک طرف اشارہ کیا۔
اس نے نظر اٹھائی تو خوف سے اس کی آنکھیں باہر ابل آئیں۔ دریا کے بند ٹوٹ چکے تھے اور پانی کا منہ زور ریلا اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔
“یہ! یہ کہاں سے آیا۔ کوئی اسے روکتا کیوں نہیں۔” وہ ہکلایا اور بینچ پر کھڑا ہو کر چلانے لگا۔
“کوئی تو اسے روکو یہ اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔”
“یہ نہیں رکے گا۔ یہ ہر آواز اٹھانے والے کو نگل لیتا ہے۔ بہتر ہے کہ تم لوٹ ہی جاؤ ورنہ۔۔۔۔۔۔”
پانی پھن پھیلائے ہوئے ناگ کی طرح اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔ ان کے درمیان چند انچ کا فاصلہ رہ گیا تو اس نے کچھ سوچے سمجھے بنا چھلانگ لگائی اور وحشت زدہ آنکھوں سے نکل کر زمین پر پٹخنیاں کھاتا ہوا دور جا گرا ۔ اس نے اپنے کپڑے جھاڑے اور اندھیرے کو گھورتے آدمی کے برابر والی نشست سنبھال لی۔ اندھیرے کو گھورتی نگاہوں میں اضافہ ہو چکا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...