دوپہر کا وقت تھا وہ ابھی کالج سے آئی تھی کہ فون پر میسج کی ٹون کی آواز آئی صبیحہ نے فون کو دیکھا تو کسی اجنبی کا میسج تھا اس نے ذرا سا سوچا اور میسج کیا کون آگے سے جواب آیا
“آپ نہیں جانتی مجھے پرمیں آپ کوجانتا ہوں اور آپ کو روز دیکھتا ہوں”
صبیحہ حیران ہوئی کہ یہ مجھے کیسے جا نتا ہے صبیحہ نے پوچھا آپ مجھے کیسے جانتے ہیں تو اس لڑکے ارزلان نے سب بتایا کہ وہ بہت دیر سے اس کا پیچھا کر رہا ہے جب وہ اسکول جاتی تھی اس ٹائم سے اس کے بیگ کا رنگ اس کے سٹو لر کا رنگ تک بتایا وہ ان کا پڑو سی تھا پاس کے گھر میں ہی رہتا تھا اس لیے اس کو پتہ تھا اس نے صبیحہ کو سب بتایا صبیحہ کو باتیں کرنا غلط محسوس ہو رہا تھا اس لیے ارزلان کو انکار کر دیا کہ اب کبھی میسج نا کرے پر اس کے میسج پھر بھی آنے لگے نا چاہتے ہوئے بھی صبیحہ خود کو روک نا پائی اور میسج کا جواب دینے لگی اب اس کو بھی بات کرنا اچھا لگنے لگا رابطے بڑھنے لگے بات میسج سے فون کال تک آن پہنچی یو ںایک دن صبیحہ اپنی بھابھی کے ساتھ بازار گئی وہاں ارزلان مل گیا بھابھی کو صبیحہ نے سب کچھ پہلے ہی بتایا ہوا تھا۔ ارزلان نے صبیحہ کو کچھ چیزیں دلوائی جو وہ لینا نہیں چاہتی تھی پر ارزلان کے اسرار پراور بھابھی کی اجازت پر لے لی۔دن گزرتے گئے کہ ایک دن ارزلان نے صبیحہ کو ملنے بلوایا ارزلان کے اتنا کہنے پر مجبوراً اس نے جانے کا اپنی دوست ماریہ سے مشورہ کیا پہلے توماریہ انکار کرتی رہی پر صبیحہ کے ارادے جان کر مان گئی کہ کوئی پتہ نہیں اکیلے چلی جائے وہ صبیحہ کو کسی مصیبت میں نہیں دیکھنا چاہتی تھی وہاں جا کر ماریہ نے ارزلان کو سمجھایاکہ صبیحہ مزید اس سے ملنے نہیں آسکتی اگر وہ واقع ہی صبیحہ کو پسند کرتا ہے تو شادی کر لے ورنہ وہ اس سے رابطہ ترک کر دے۔
اور پھر ایک دن صبیحہ کی پھپھو کے گھر سے رشتہ آگیا صبیحہ کی والدہ نے بغیراس سے پوچھے رشتے کی ہاں کر دی جب کے صبیحہ راضی نہیں تھی۔
یو ہی کچھ مہینے گزر گئے کہ سردی کی ایک شام ارزلان نے میسج کیا آج میری حویلی آؤ صبیحہ نے بہت سمجھایا کہ وہ نہیں آسکتی پر ارزلان کچھ سننے کو تیار نہیں تھا اور صبیحہ کو ہتھیار ڈالنے پڑے پھر رات ہونے کا انتظار کرنے لگی رات کے گیارہ بارہ بجے کا وقت تھا صبیحہ آٹھی چادر لے کر آہستہ سے دروازہ کھولا اور چلی گئی لیکن ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ صبیحہ کی امی کی آنکھ کھل گئی اور صبیحہ کی غیر موجودگی اور دروازہ کھلا پا کر سب کو اٹھا دیاحویلی گھر کے پاسی تھی۔ صبیحہ حویلی سے نکلی اور اپنے گھر کے بلب کو روشن ہوتے دیکھا تو شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا پر اب بہت دیر ہو چکی تھی جلدی سے واپس ارزلان کے پاس گئی اور ارزلان اس کو گھر چھوڑنے آیا اتنے میں سب گھر والے باہر آگئے صبیحہ کا بھائی اس کو ارزلان کے ساتھ دیکھ ایک دم غصے میں آگیا اور ارزلان کو مارنا شورع کر دیا صبیحہ نے بات کرنے کی کوشش کی پر اس کے بھائی نے چٹاخ اس کے منہ پر تھپڑ مارااور ارزلان کو گھسٹتے ہوئے گھر لے گئے ارزلان معافی مانگتا رہا کہ غلطی اس کی تھی صبیحہ کی نہیں پھر صبیحہ کی والدہ روبینہ اور اس کا بھائی حیدر ارزلان کو لے کر اس کے گھر پہنچے اور وہاں بھی ارزلان یا ہی بولتا رہا کہ میری غلطی تھی پر اس کی والدہ نے صاف کہ دیا اپنی بیٹی کو سمجھا تے پھر یو ںصبیحہ کی شادی جلدی کرنے کا فیصلہ ہوا اور کچھ دن میں دن ڈال دیے اور شادی ہو گئی۔۔۔پر اب کسی کو نہیں پتہ تھا آگے کیا ہونا تھا کیا صبیحہ اپنے شوہر کے ساتھ خوش رہے گی کیا ارزلان صبیحہ کا پیچھا چھوڑ دے گا۔غلطی کس کی تھی صبیحہ کی جو میسج کا جواب دینے لگی یاارزلان کی جو ایک لڑکی کو یہاں تک لے آیا یااس کی ماں باپ کی جو بیٹی کی پسند جان کر بھی اس کی شادی کہی اور کر دی۔یابھابھی کی جوسمجھانے کی بجائے اس کو اجازت دے رہی تھی۔
لیکن ایک چیز ان سب میں نمایا تھی کہ اب وہ کبھی اپنے ماں باپ کا اعتباراور بھروسہ نہیں حاصل کر سکتی تھی جو اس نے توڑا تھا۔۔۔۔۔۔
۔اختتام شدہ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...